2024 July 22
کیا آیت ابلاغ غدیر سے پہلے نازل ہوئی تھی؟
مندرجات: ٢٢٩٩ تاریخ اشاعت: ٠٤ July ٢٠٢٤ - ٠٩:٣٥ مشاہدات: 69
سوال و جواب » امام حسین (ع)
جدید
کیا آیت ابلاغ غدیر سے پہلے نازل ہوئی تھی؟

 کیا آیت ابلاغ غدیر سے پہلے نازل ہوئی تھی؟

سوال کی وضاحت:

ابن تیمیہ کی طرف سے مذکورہ بالا شک کا مقصد یہ بتانا ہے کہ آیت ابلاغ غدیر خم میں نازل نہیں ہوئی۔ بلکہ ابلاغ کی آیت الوداعی حج سے بہت پہلے نازل ہوئی تھی۔ اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امیر المومنین علیہ السلام کو اپنے بعد کی خلافت سے متعارف کرانا چاہتے تو وہ یہ کام ایسی جگہ کر سکتے تھے جہاں زیادہ لوگ ہوں۔ جیسے مکہ شہر یا عرفات کا صحرا۔  پس نتیجہ  یہ نکلا کہ غدیر میں جو کچہ ہوا  وہ  وہ نہیں جو شیعہ دعویٰ کرتے ہیں۔

ابن تیمیہ کے اصل شبہه

ابن تیمیہ کے اصل شبہه مندرجہ دیل ہے:

قال الرافضي: الخبر المتواتر عن النبي (ص): أنه لما نزل قوله تعالي: (يا أيها الرسول بلغ ما أنزل اليك من ربك)[1]. خطب الناس في غدير خُم ...

والجواب: أن هذا الجواب كذب، وأن قوله: (بلغ ما أنزل اليك من ربك)، نزل قبل حجة (الوداع) بمدة طويلة ...

ومما يبين ذلك أن آخر المائدة نزولاً قوله تعالي: (اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي)[2]. وهذه الآية نزلت بعرفة تاسع ذي الحجة في حجة الوداع، والنبي (ص) واقف بعرفة، ...

فمن قال: إن المائدة نزل فيها شي ء بغدير خم فهو كاذب مفترٍ باتفاق أهل العلم.

وهذا مما يبيّن أن الذي جري يوم الغدير لم يكن مما أُمر بتبليغه، كالذي بلَّغه في حجة الوداع ؛ فإن كثيراً من الذين حجُّوا معه - أو أكثرهم - لم يرجعوا معه إلي المدينة، بل رجع أهل مكة إلي مكة، وأهل الطائف إلي الطائف، وأهل اليمن إلي اليمن، وأهل البوادي القريبة من ذاك إلي بواديهم. وإنما رجع [معه ] أهل المدينة ومن كان قريباً منها ...[3]

رافضی (علامہ حلی) کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  غدیر خم میں لوگوں کو خطبہ دیا....

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مطلب جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ کہ حجۃ الوداع سے کچھ عرصہ پہلے آیت ابلاغ نازل ہوئی تھی۔ اور اس معاملے کی وضاحت کرنے والے دلائل میں سے آیت اکمل بھی ہے جو 9 ذی الحج کو حجۃ الوداع کے موقع پر اس وقت نازل ہوئی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات میں کھڑے تھے۔ اور جو شخص یہ کہے کہ سورہ مائدہ کی ایک آیت غدیر خم میں نازل ہوئی ہے وہ جھوٹا ہے اور بہتان لگایا ہے۔۔۔۔

اور دوسری باتوں سے جو وہ سمجھتا ہے کہ غدیر خم میں جو کچھ ہوا وہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کی تبلیغ کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ بہت سے لوگ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج پر گئے تھے وہ مدینہ واپس نہیں آئے؛ بلکہ کچھ لوگ جو مکہ شہر سے تھے اسی شہر میں ٹھہرے اور کچھ لوگ جو طائف کے تھے وہ سیدھے طائف چلے گئے اور کچھ لوگ جو یمن سے تھے وہ یمن چلے گئے۔ [اور ان کا کوئی راستہ غدیر خم سے نہیں گزرا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دیکھ سکیں۔] پس اگر پیغمبر غدیر کے دن علی کی امامت کا اعلان کرنا چاہتے تھے تو انہیں حج الوداع کے موقع پر اس کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔ پس اب جب کہ پیغمبر نے ایسا نہیں کیا اور نہ علی کی امامت سے متعلق کوئی بات کہی اور نہ کسی نے اس سلسلے میں ضعیف یا صحیح روایت نقل کی ہے اور یہ بھی کہ آن حضرت نے اپنے خطبہ میں علی کا نام نہیں لیا، جبکہ یہ ایک عوامی اجتماع تھا جہاں تمام زائرین موجود تھے، اس لیے واضح ہے کہ انہیں علی کی امامت کا اعلان کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔

جواب:

ابن تیمیہ کے ان اشكال کے جواب میں نازل شدہ آیت کی شان نزول کو بیان کرنے کے لیے سنی منابع کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

سنی مآخذ میں آیت ابلاغ کے شان نزول

اہل سنت کے مصادر اور معتبر ذرائع اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ابلاغ کی آیت بھی غدیر کے دن نازل ہوئی تھی۔

اس مسئلہ کو ذکر کرنے والے متعدد اہل سنت علماء کے نام یہ ہیں:

1 - ابن أبي حاتم عبد الرحمن بن محمد بن إدريس رازي 2 - أحمد بن موسي بن مردويه. 3 - أحمد بن محمد ثعلبي. 4 - أبو نعيم أحمد بن عبد الله اصفهاني. 5 - أبو الحسن علي بن أحمد واحدي. 6 -مسعود بن ناصر سجستاني. 7 - عبد الله بن عبيد الله حسكاني. 8 - ابن عساكر علي بن حسن دمشقي. 9 - فخر الدين محمد بن عمر رازي.10 - محمد بن طلحه نصيبي شافعي. 11 - عبد الرزاق بن رزق الله رسعني. 12 - حسن بن محمد نيشابوري. 13 - علي بن شهاب الدين همداني. 14 - علي بن محمد معروف به ابن صباغ مالكي. 15 - محمود بن أحمد عيني. 16 - عبد الرحمن بن أبي بكر سيوطي. 17 -محمد محبوب عالم. 18 - حاج عبد الوهاب بن محمد. 19 - جمال الدين عطاء الله بن فضل الله شيرازي. 20 - ميرزا محمد بن معتمد خان بدخشاني.

روايت ابن أبي حاتم عبد الرحمن بن محمد بن إدريس رازي[4]

أخرج ابن أبي حاتم وابن مردويه وابن عساكر عن أبي سعيد الخدري قال: نزلت هذه الآية: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» علي رسول الله صلي الله عليه وسلم يوم غدير خم في علي بن أبي طالب.[5]

آیت "يا ايها الرسول بلغ..." غدیر خم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر اور حضرت علی بن ابی طالب (عليهما السلام) کی شان میں نازل ہوئی۔

روايت ابن مردويه[6]

وأخرج ابن مردويه عن ابن مسعود قال: كنا نقرأ علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم: يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك إن عليا مولي المؤمنين وإن لم تفعل فما بلغت رسالته والله يعصمك من الناس[7]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہم یہ آیت اس طرح پڑھا کرتے تھے:

 يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك إن عليا مولي المؤمنين وإن لم تفعل فما بلغت رسالته والله يعصمك من الناس.

ثعلبي کی روايت [8]

... معناه: بلغ ما أنزل إليك من ربك في فضل علي بن أبي طالب، فلما نزلت هذه الآية أخذ رسول الله صلي الله عليه وسلم بيد علي فقال: ...[9]

أخبرني ... عن ابن عباس في قوله تعالي: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» الآية. قال: نزلت في علي، ...[10]

۔۔۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ علی بن ابی طالب کے فضل میں جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو  اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ۔۔۔اور اس نے ہم پر نازل ہونے والی آیت کے بارے میں بیان کیا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

واحدي کی روايت [11]

... عن أبي سعيد الخدري قال نزلت هذه الآية: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» يوم غدير خم في علي بن أبي طالب رضي الله عنه.[12]

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ آیت "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك" یہ غدیر خم کے دن اور علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

ابو سعید مسعود بن ناصر سجستانی کی روایت [13]

ورواه أبو سعيد مسعود بن ناصر السجستاني في كتابه حول حديث الولاية بإسناده عن ابن عباس إنه قال: أمر رسول الله صلي الله عليه وسلم أن يبلغ بولاية علي، فأنزل الله عزوجل «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» الآية فلما كان يوم غدير خم قام فحمد الله وأثني عليه وقال صلي الله عليه وسلم: ألست أولي بكم من أنفسكم؟ قالوا: بلي يا رسول الله. قال صلي الله عليه وسلم: فمن كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه، وأحب من أحب وأبغض من أبغضه وانصر من نصره، وأعز من أعزه، وأعن من أعانه.[14]

ابو سعید مسعود بن ناصر سجستانی اپنی کتاب میں حدیث ولایت کے بارے میں ابن عباس سے اپنی سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ ولایت علی کو لوگوں تک پہنچا دیں۔ یہ آیت ’’يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك‘‘ نازل ہوئی اور جب غدیر خم کا دن آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا:۔۔۔۔

حاكم حسكاني کی روایت

وروي أبو القاسم عبيد الله بن عبد الله الحسكاني نزول قوله تعالي: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك ...» في واقعة يوم غدير خم ...[15]

ابو القاسم عبید اللہ بن عبداللہ حسکانی اس آیت کے نزول کو: "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك ..." غدیر خم کے واقعہ سے متعلق جانتے ہیں...

ابن عساکر کی روایت [16]

ابن عساکر کی روایت سیوطی نے الدر  المنثور میں نقل کی ہے۔

ابن عساكر عن أبي سعيد الخدري قال: نزلت هذه الآية: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» علي رسول الله صلي الله عليه وسلم يوم غدير خم في علي بن أبي طالب.[17]

آیت "يا ايها الرسول بلغ..." غدیر خم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور حضرت علی بن ابی طالب عليه السلام کی شان میں نازل ہوئی۔

فخر رازی  کی روایت [18]

العاشر - نزلت هذه الآية في فضل علي رضي الله عنه، ولما نزلت هذه الآية أخذ بيده وقال: من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه، فلقيه عمر رضي الله عنه فقال: هنيئا لك يا ابن أبي طالب، أصبحت مولاي ومولي كل مؤمن ومؤمنة. وهو قول ابن عباس والبراء بن عازب ومحمد بن علي[19]

یہ آیت علی علیہ السلام کی فضیلت میں نازل ہوئی اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کا ہاتھ بلند کیا اور فرمایا: من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه، عمر نے اسے پیشکش کی: اے ابو طالب کے بیٹے، آپ پر درود و سلام ہو، آپ میرے مولا اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا بن گئے ہیں۔

محمد بن طلحہ کی روایت [20]

زيادة تقرير - نقل الإمام أبو الحسن الواحدي في كتابه المسمي بأسباب النزول يرفعه بسنده إلي أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: أنزلت هذه الآية: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» يوم غدير خم في علي بن أبي طالب.[21]

مزید وضاحت - امام ابو الحسن واحدی نے اپنی کتاب "اسباب نزول" میں ابو سعید خدری سے اپنی سند کے ساتھ کہا: یہ آیت: "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك" غدیر خم کے دن علی ابن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوئی۔

عبد الرزاق  الرسعني کی روایت [22]

قال محمد بن معتمد خان البدخشاني: أخرج عبد الرزاق الرسعني عن ابن عباس رضي الله عنه قال: لما نزلت هذه الآية: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» أخذ النبي صلي الله عليه وسلم بيد علي فقال: من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه».[23]

محمد بن معتمد خان بدخشانی نے کہا: عبد الرزاق رسانی نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

جب یہ آیت "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: "من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه۔"

نیشابوری کی روايت [24]

عن أبي سعيد الخدري إن هذه الآية نزلت في فضل علي بن أبي طالب [رضي الله عنه وكرم الله وجهه] يوم غدير خم، فأخذ رسول الله صلي الله عليه وسلم بيده وقال: من كنت مولاه فهذا علي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه، فلقيه عمر وقال: هنيئا لك يا ابن أبي طالب أصبحت مولاي ومولي كل مؤمن ومؤمنة. وهو قول ابن عباس والبراء ابن عازب ومحمد بن علي.[25]

ابو سعید خدری فرماتے ہیں یہ آیت علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر غدیر خم کے دن نازل ہوئی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی کا ہاتھ پکڑ کر کہا: من كنت مولاه فهذا علي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه، عمر نے ان سے ملاقات کی اور کہا: اے ابو طالب کے بیٹے، آپ پر درود و سلام ہو، آج آپ میرے مولا اور ہر مومن کے مولا بن گئے ہیں۔ اور اس روایت کو ابن عباس، براء بن عازب اور محمد بن علی نے روایت کیا ہے۔

بدر الدین عینی کی روایت [26]

وہ اپنے صحیح بخاری کی شرح میں زیر بحث آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

ص - باب يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك. ش - أي هذا باب من قوله تعالي: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل» ذكر الواحدي من حديث الحسن بن حماد سجاة قال: ثنا علي بن عياش عن الأعمش وأبي الجحاف، عن عطية، عن أبي سعيد قال: نزلت هذه الآية: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» يوم غدير خم في علي بن أبي طالب رضي الله عنه. وقال مقاتل: قوله بلغ ما أنزل إليك. وذلك أن النبي صلي الله عليه وسلم دعا اليهود إلي الاسلام فأكثر الدعاء، فجعلوا يستهزؤن به ويقولون: أتريد يا محمد أن نتخذك حنانا كما اتخذت النصاري عيسي حنانا. فلما رأي رسول الله صلي الله عليه وسلم ذلك سكت عنهم، فحرض الله تعالي نبيه عليه السلام علي الدعاء إلي دينه لا يمنعه تكذيبهم إياه واستهزاؤهم به عن الدعاء ...[27]

ص - باب يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك. ش - يعني: یہ باب خدا کا فرمان ہے: "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل۔" واحدي نے حسن بن حماد سجاہ کی ایک حدیث نقل کی ہے: ... یہ آیت: "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك" غدیر خم کے دن علی بن ابی طالب عليه السلام کی عظمت و فضیلت میں نازل ہوئی ہے. اور مقاتل نے کہا ہے: ’’بلغ ما أنزل إليك‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی اور اس کے لیے بہت کوششیں کیں، لیکن ان لوگوں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا اور کہا: اے محمد کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے لئے آپ کو خدا کی طرف سے اپنا رحمت مانیں؟  جس طرح عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کی رحمت سمجھتے تھے؟   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو خاموش ر ہے۔ ایک بار پھر، خدا نے اپنے رسول کو ان کو بلانے کی ترغیب دی اور ان سے کہا کہ اس طرح کبھی ناامید نہ ہوں...

سیوطی کی روایت [28]

أخرج أبو الشيخ عن الحسن: إن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: إن الله بعثني برسالة، فضقت بها ذرعا وعرفت أن الناس مكذبي، فوعدني لأبلغن أو ليعذبني، فأنزلت «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك». وأخرج عبد بن حميد وابن جرير وابن أبي حاتم وأبو الشيخ عن مجاهد قال: لما نزلت «بلغ ما أنزل إليك من ربك». قال: يا رب إنما أنا واحد كيف أصنع، يجتمع علي الناس فنزلت: «وإن لم تفعل فما بلغت رسالته». وأخرج ابن جرير وابن أبي حاتم عن ابن عباس: «وإن لم تفعل فما بلغت رسالته» يعني إن كتمت آية مما أنزل إليك لم تبلغ رسالته. وأخرج ابن أبي حاتم وابن مردويه وابن عساكر عن أبي سعيد الخدري قال: نزلت هذه الآية: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك». علي رسول الله صلي الله عليه وسلم يوم غدير خم في علي بن أبي طالب. وأخرج ابن مردويه عن ابن مسعود قال: كنا نقرأ علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك». إن عليا مولي المؤمنين «وإن لم تفعل فما بلغت رسالته والله يعصمك من الناس» وأخرج ابن أبي حاتم عن عنترة قال: كنت عند ابن عباس فجاءه رجل فقال: إن ناسا يأتونا فيخبرونا أن عندكم شيئا لم يبده رسول الله صلي الله عليه وسلم للناس. فقال: ألم تعلم أن الله قال: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك». والله ما ورثنا رسول الله صلي الله عليه وسلم سوداء في بيضاء».[29]

ابو الشیخ حسن سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک ایسا کام دے کر بھیجا ہے جس کو پورا کرنے سے میں عاجز تھا اور میں جانتا تھا کہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے، خدا نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ یا تو میں اسے پہنچا دوں یا مجھے مورد عذاب قرار دے گا، اور اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی: "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك۔"

اور عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد سے روایت کی ہے: جب یہ آیت نازل ہوئی: "بلغ ما أنزل إليك من ربك" نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پروردگار! جب لوگ مجھے اپنے گھیر میں لے لیتے ہیں تو میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں۔ آیت نازل ہوئی: "وإن لم تفعل فما بلغت رسالته"

اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے روایت کیا کہ ’’وإن لم تفعل فما بلغت رسالته" یعنی جو کچھ تم پرنازل کیا گیا ہے اگر تم نے اسے چھپایا تو تم نے اپنا مشن پورا نہیں کیا۔ .

اور ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ اور ابن عساکر نے ابو سعید خدری سے روایت کیا کہ (آیت) ’’ يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك ‘‘ ۔ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر علی بن ابی طالب کے  شأن میں غدیر خم کے دن نازل ہوئی تھی۔

اور ابن مردویہ نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس طرح کی آیت پڑھا کرتے تھے: "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك" إن عليا مولي المؤمنين «وإن لم تفعل فما بلغت رسالته والله يعصمك من الناس»

اور ابن ابی حاتم نے عنترہ کی سند سے روایت کیا ہے کہ ہم ابن عباس کے ساتھ تھے کہ ایک شخص داخل ہوا اور اس نے کہا: لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو آپ نے ابھی تک ہم پرظاہر نہیں کی۔ ابن عباس نے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك" خدا کی قسم، خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر وہ چیزجولازم تھی ارث میں چھوڑا ہے۔"

حاج عبدالوہاب بخاری کی  روایت

حاج عبد الوہاب بخاری، متوفا 932 ہجری ، ان کا شمار عظیم  اور مشہور اہل السنۃ علماء میں ہوتا ہے، جن کے لیے شیخ عبدالحق دہلوی نے "اخبار الاخیار" میں سوانح عمری لکھی اور سيد محمد ابن سيد جلال ماه عالم نے بھی ’’تذكره الأبرار‘‘ میں  ان کی تعریف و توصیف کی ہے۔

اس کی روایت درج ذیل ہے:

«قل لا أسألكم عليه أجرا إلا المودة في القربي»: عن البراء بن عازب رضي الله عنه قال في قوله تعالي: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» أي: بلغ من فضائل علي. نزلت الآية في غدير خم. فخطب رسول الله صلي الله عليه وسلم ثم قال: من كنت مولاه فهذا علي مولاه. فقال عمر رضي الله عنه: بخ بخ يا علي أصبحت مولاي ومولي كل مؤمن ومؤمنة. رواه أبو نعيم. وذكره أيضا الثعالبي في كتابه.[30]

براء بن عازب سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں روایت ہے: "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك" یعنی: علی کے فضائل بیان کریں۔ یہ آیت غدیر خم میں نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور فرمایا: "من كنت مولاه فهذا علي مولاه"عمر نے کہا: "بخ بخ يا علي أصبحت مولاي ومولي كل مؤمن ومؤمنه." اس روایت کو ابو نعیم اور ثعلبی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔

جمال الدین محدث شیرازی کی روایت

جمال الدین عطاء اللہ، فضل اللہ شیرازی کے بیٹے، جو کہ ایک مشہور محدث ہیں،متوفا926 ، کتاب "روضه الأحباب في سير النبي والآل والأصحاب" اور کتاب "الأربعين في فضائل أمير المؤمنين" اس کی تصدیق مورخین، محدثین اور مؤرخین نے کی ہے۔ بہت سے اہل سنت علماء جیسے ملا علی قاری نے مشکوٰۃ کی احادیث کی وضاحت میں اور عبدالعزیز دہلوی نے اپنے رساله علم حدیث میں ان پر اعتماد کیا ہے اور ان سے احادیث نقل کی ہیں۔۔۔

انہوں نے اپنی کتاب اربعین میں اس روایت کو یوں بیان کیا ہے:

أقول: أصل هذا الحديث - سوي قصة الحارث - تواتر عن أمير المؤمنين عليه السلام. وهو متواتر عن النبي صلي الله عليه وآله أيضا. رواه جمع كثير وجم غفير من الصحابة. فرواه ابن عباس ولفظه قال: لما أمر النبي أن يقوم بعلي بن أبي طالب المقام الذي قام به، فانطلق النبي إلي مكة فقال: رأيت الناس حديثي عهد بكفر، ومتي أفعل هذا به يقولون صنع هذا بابن عمه، ثم مضي حتي قضي حجة الوداع، ثم رجع حتي إذا كان بغدير خم أنزل الله عز وجل: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك ما ربك» الآية. فقام مناد فنادي الصلاة جامعة، ثم قام وأخذ بيد علي فقال: «من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه»[31]

مصنف کہتے ہیں: اس حدیث کی اصل - حارث کے قصے کے علاوہ جو واقعہ غدیر میں مذکور ہے - تواتر کے ساتھ امیر المومنین علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے۔ اور یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواتر کے ساتھ نقل کی ہے اور بہت سے صحابہ نے بھی اسے نقل کیا ہے۔ ابن عباس نے اسے یوں بیان کیا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علی کو بلند کرنے کا حکم دیا گیا، جو انہیں بلند کرنے کا ذمہ دار تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکل چکے تھے۔ انہوں نے اپنے خدا کو پیشکش کی: میں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو کفر اور جہالت کے لیے  پیدا ہوئے ہیں اور میں جو کچھ بھی کرتا ہوں، وہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اپنے چچا زاد بھائی کے فائدے کے لیے کیا، اور وہ مجھ سے قبول نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ الوداعی حج ختم ہوا اور مکہ مکرمہ سے واپسی کے راستے میں غدیر خم کی سرزمین پر پہنچے تو یہ آیت نازل ہوئی: "يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك ما ربك" آیت کے آخر تک۔ یہاں پر ایک اعرابی کھڑا ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے پکارا، کھڑے ہوئے اور علی کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور فرمایا: "من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه"

بدخشانی کی روایت [32]

اس کی روایت درج ذیل ہے:

الآيات النازلة في شأن أمير المؤمنين علي بن أبي طالب كرم الله وجهه كثيرة جدا لا أستطيع استيعابها، فأوردت في هذا الكتاب لبها ولبابها ... وأخرج - أي ابن مردويه - عن زر عن عبد الله رضي الله عنه قال: كنا نقرأ علي عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم: يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك إن عليا مولي المؤمنين وإن لم تفعل فما بلغت رسالته والله يعصمك من الناس. وأخرج عبد الرزاق عن ابن عباس رضي الله عنه قال: لما نزلت هذه الآية «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» أخذ النبي بيد علي فقال: من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه. وأخرج ابن مردويه عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه مثله، وفي آخره: فنزلت «اليوم أكملت لكم دينكم» الآية. فقال النبي: الله أكبر علي إكمال الدين وإتمام النعمة ورضي الرب برسالتي والولاية لعلي بن أبي طالب.[33]

امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہونے والی آیات اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔ جس کا خلاصہ میں اس کتاب میں ذکر کیا ہوں... یہ آیت نازل ہوئی "اليوم أكملت لكم دينكم" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین کی تکمیل اور میرے رسالت اور علی بن ابی طالب کی ولايت پر رب کی نعمتوں کی تکمیل کے لیے اللہ بہت بڑا ہے۔

ہمدانی کی روایت

عن البراء بن عازب رضي اله عنه قال: أقبلت مع رسول الله صلي الله عليه وسلم في حجة الوداع، فلما كان بغدير خم نودي الصلاة جامعة، فجلس رسول الله صلي الله عليه وسلم تحت شجرة، وأخذ بيد علي وقال: ألست أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا: بلي يا رسول الله. فقال: ألا من أنا مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه. فلقيه عمر رضي الله عنه فقال: هنيئا لك يا علي بن أبي طالب، أصبحت مولاي ومولي كل مؤمن ومؤمنة، وفيه نزلت «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك».[34]

براء بن عازب سے روایت ہے کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، حجۃ الوداع کے موقع پر جب ہم غدیر خم پہنچے تو باجماعت نماز کے لیے ندا دی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:... اس وقت یہ آیت نازل ہوئی "يا ايها الرسول بلغ ما انزل اليك..."

ابن صباغ کی روایت

روي الإمام أبو الحسن الواحدي في كتابه المسمي بأسباب النزول، يرفعه بسنده إلي أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: نزلت هذه الآية: «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» يوم غدير خم في علي بن أبي طالب.[35]

ابو الحسن واحدی نے کتاب اسباب النزول میں ابی سعید خدری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: "يا ايها الرسول بلغ ما انزل اليك..." غدیر خم کے دن علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے شان میں نازل ہوئی ہے ۔

محبوب العالم کی روايات

محمد محبوب العالم، صفی الدین جعفر کے بیٹے، جو بدر العالم کے نام سے مشہور ہیں:

عن أبي سعيد الخدري: هذه الآية نزلت في فضل علي بن أبي طالب رضي الله عنه يوم غدير خم، فأخذ رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم بيده وقال: من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه. فلقيه عمر رضي الله تعالي عنه وقال: هنيئا لك يا ابن أبي طالب، أصبحت مولاي ومولي كل مؤمن ومؤمنة. وهو قول ابن عباس والبراء بن عازب ومحمد بن علي رضي الله تعالي عنهم.[36]

ابو سعید خدری سے روایت ہے: یہ آیت غدیر خم کے دن علی بن ابی طالب علیہ السلام کے فضل سے نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: "من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه."عمر نے ان سے ملاقات کی اور کہا: "هنيئا لك يا ابن أبي طالب، أصبحت مولاي ومولي كل مؤمن ومؤمنه" اور یہ ابن عباس، براء بن عازب، اور محمد بن علی علیہم السلام کا قول بھی ہے۔

جب اہلسنت ذرائع سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ آیت ابلاغ کا شأن نزول اور ولايت امير المؤمنين عليه السّلام غدیر خم میں ہوا ہے؛ اس صورت میں مبتدا اور خبر مکمل ہے اور شیعوں کے دعوے کا معنی و مفہوم ثابت ہو چکا ہے اور جھوٹے کی بھی شناخت ہو چکی ہے اور اس صورت میں یہ کہنا چاہیے: "فثبت ولايه علي بن ابي طالب"

[1] . المائدة: 67.

[2] . المائدة :3.

[3] . منهاج السنه النبويه، ج 7، ص 315 تا 317.

[4] ذہبی نے ابن ابی حاتم کے شخصيت کے بارے میں کہا:

«قد كساه الله نورا وبهاء يسر من نظر إليه ... وكان بحرا لا تكدره الدلاء. وكان بحرا في العلوم ومعرفة الرجال، ... وكان زاهدا يعد من الأبدال ... قلنسوة عبد الرحمن من السماء، وما هو بعجب رجل منذ ثمانين سنة علي وتيرة واحدة لم ينحرف عن الطريق ... يقال إن السنة بالري ختمت بابن أبي حاتم. قال الإمام أبو الوليد الباجي: عبد الرحمن بن أبي حاتم ثقة حافظ ...» (سير أعلام النبلاء، ج 13، ص 263. )

(خدا نے اسے نور اور قدر کے لباس سے ڈھانپ دیا ہے کہ اس کا مشاہدہ کرنے والے سب خوش اور مسرور ہیں۔ وہ علم کا سمندر ہے اور ایسے لوگوں کے علم سے آشنا ہے جو پانی کی ایک بالٹی سے ابر آلود اور اندھیرا نہیں ہو جاتا۔ وہ ایک زاهد ہے جسے ابدال کہا جا سکتا ہے ... اس کی ٹوپی آسمان سے آئی ہے اور یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس نے اپنے اسی سال بغیر کسی انحراف اور پھسلن کے ایک ہی انداز اور طریقہ سے گزارے ہیں ... کہا جاتا ہے: سنت ری ابی حاتم پر ختم ہوا۔ اور عبدالرحمٰن بن ابی حاتم نے ان کے بارے میں کہا: وہ ایک ثقہ، حافظ اور قابل اعتماد شخص ہے۔

[5] . الدر المنثور، ج 2، ص 298 ـ عمده القاري، عيني، ج 18، ص 206 ـ أسباب نزول الآيات، واحدي نيشابوري، ص 135 ـ شواهد التنزيل، حاكم حسكاني، ج 1، ص 250 ـ فتح القدير، شوكاني، ج 2، ص 60 ـ تفسير آلوسي، ج 6، ص 193.

[6] ذہبی نے ابن مردویہ کے شخصيت وکردار کے بارے میں کہا: " ابن مردويه الحافظ الثبت العلامة ... صاحب التفسير والتاريخ وغير ذلك ... وعمل المستخرج علي صحيح البخاري، وكان قيما بمعرفة هذا الشأن، بصيرا بالرجال، طويل الباع، مليح التصانيف. ولد سنة 323. ومات ... سنة 410. " (تذكره الحفاظ، جلد 3، صفحہ 1050۔)

ابن مردویہ ایک ایسا شخص ہے جو حافظ اور حافظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور علامه ہے... وہ تفسیر اور تاریخ وغیرہ کتابوں کے مصنف ہیں... اور اس نے صحیح البخاری کو استخراج کیا، اور وہ اس کام سے پوری طرح واقف تھا، اور وہ علم رجال کے ماہر تھا، اور وہ ملیحی کی تحریروں کے مالک تھے۔ وہ 323ھ میں پیدا ہوئے اور 410ھ میں وفات پائی۔

[7] . الدر المنثور، ج 2، ص 298.

[8] ثعلبي کی سیرت و کردار::

أستاد ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم ثعلبی کو اہل علم میں سب سے افضل مانتے تھے بلکہ علم کا سمندر اور آسمانوں کا روشن ستارہ اور ائمہ اربعہ کی زینت سمجھتے تھے، بلکہ ان کا فخر، اور [بعض] اسے چاروں اماموں سے افضل سمجھتے ہیں۔ تفسیر "الكشف و البيان" انہی سے منسوب ہے۔ (معجم الأدباء، جلد 12، صفحہ 262۔)

ابن خلکان نے ثعلبی کے بارے میں یوں بیان کیا ہے: "أبو إسحاق أحمد بن محمد بن إبراهيم الثعلبي. النيسابوري، المفسر المشهور، كان أوحد أهل زمانه في علم التفسير." وہ اپنے دور میں علم تفسیر میں منفرد اور بے نظير تھے۔ (وفيات الأعيان، جلد 1، صفحہ 61 اور 62۔)

ذہبی نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے: "وكان حافظا واعظا، رأسا في التفسير والعربية، متين الديانة، توفي في المحرم"؛ ثعلبی ایک حافظ اور مبلغ تھے اور عربی تفسیر و ادب کے عروج پر تھے اور ان کا انتقال محرم میں ہوا۔ (العبر، حوادث سال 427۔)

سُبْكي ثعلبی کے بارے میں کہتے ہیں: "وكان أوحد زمانه في علم القرآن وله كتاب العرائس في قصص الأنبياء عليهم السلام." (طبقات الشافعيه، ج4، ص58۔)

وہ اپنے عصر اور زمانہ میں علم قرآن میں منفرد تھے اور انبیاء علیہم السلام کے قصوں پر مشتمل کتاب "عرائس" انہی کا ہے۔

اسنوی ثعلبی کی سوانح عمری میں کہتے ہیں: "ذكره ابن الصلاح والنووي من الفقهاء الشافعية، وكان إماما في اللغة والنحو." (طبقات الشافعيه، ج1، ص429۔)

... وہ  لغت اور علم نحو کے امام تھے۔

داؤدی ثعلبی کی سوانح عمری میں کہتے ہیں: "كان أوحد أهل زمانه في علم القرآن حافظا للغة، بارعا في العربية، واعظا، موثقا" (طبقات المفسرين، ج 1، ص 65.)

آپ علم قرآن میں منفرد، علم لغت میں حافظ، علم عربی میں جدت پسند، واعظ اور موثق تھے۔

[9] . تفسير الثعلبي، ج 4، ص 91.

[10] . تفسير الثعلبي، ج 4، ص 92.

[11] ذہبی نے واحدي کی سوانح میں درج ذیل باتیں بیان کی ہیں: "الإمام العلامة الأستاذ أبو الحسن ... صاحب التفسير، وإمام علماء التأويل ..." (سير أعلام النبلاء، ج 18، ص 339۔)  امام، علامہ، استاد، ابو الحسن... وہ تفسیر کے مصنف اورعلماء تاویل  کے پیشوا تھے۔

[12] . أسباب النزول واحدي، ص 115.

[13] ابو سعید سجستانی کی شخصیت کے بارے میں اس طرح کہا جاتا ہے: "وأبو سعيد السجستاني من كبار حفاظ أهل السنة ... »" (الانساب، سمعانی، جلد 3، صفحہ 226) .)

ابو سعید سجستانی اہلسنت کے عظیم  حفاظ میں سے ایک ہیں۔

ذہبی ان کے سوانح عمری میں کہتے ہیں:

 "ومسعود بن ناصر السجزي، أبو سعيد الركاب الحافظ رحل وصنف وحدث عن أبي حسان المزكي وعلي بن بشري وطبقتهما، ورحل إلي بغداد وأصبهان، قال الدقاق: لم أر أجود إتقانا ولا أحسن ضبطا منه. توفي بنيسابور في جمادي الأولي."    (العبر، حوادث سال 477۔)

مسعود بن نصیر سجزي ابو سعید رکاب حافظ سفر کرتے تھے اور لکھتے تھے... دقاق نے ان کے بارے میں کہا: میں نے ان سے زیادہ متقن اوراضبط شخص کبھی نہیں دیکھا۔

[14] . شواهد التنزيل، ج 2، ص 8.

[15] . مجمع البيان في تفسير القرآن ج 2، ص 223 ـ شواهد التنزيل، ج 1، ص 187.

[16] ذہبی ابن عساکر کی شرح میں کہتے ہیں:

 "ابن عساكر الإمام الحافظ الكبير محدث الشام فخر الأئمة ثقة الدين ... قال السمعاني: أبو القاسم حافظ ثقة متقن دين خير حسن السمت، جمع بين معرفة المتن والإسناد، وكان كثير العلم غزير الفضل، صحيح القراءة، متثبتا" (تذكره الحفاظ،ج 4، ص 1328 و 1333.)

ابن عساکر ایک امام، حافظ، ایک عظیم محدث شام، اور فخر أئمه اور دین پر بھروسہ رکھنے والے... سمعانی نے ان کے بارے میں کہا: ابو القاسم ایک حافظ، ثقہ، قابل اعتماد، دیندار اور مہربان تھے اور اکثر خاموش رہتے تھے۔ اس کے پاس بہت علم تھا، بہت فضل تھا، اور وہ پڑھنے میں درست اور ثابت قدم تھا۔

[17] . الدر المنثور، ج 2، ص 298.

[18] فخر رازی کی سوانح عمری میں ابن خلکان کہتے ہیں: " أبو عبد الله محمد بن عمر بن الحسين ابن الحسن بن علي، التيمي، البكري، الطبرستاني [الأصل] الرازي المولد، الملقب فخر الدين، المعروف بابن الخطيب، الفقيه الشافعي. فريد عصره ونسيج وحده، فاق أهل زمانه في علم الكلام والمعقولات وعلم الأوائل، له التصانيف المفيدة في فنون عديدة، منها تفسير القرآن الكريم، ... وكان يلقب بهراة شيخ الاسلام ... وكان العلماء يقصدونه من البلاد وتشد إليه الرحال من الأقطار ..." (وفيات الأعيان، ج 3، ص381 و 385.)

[19] . تفسير رازي، ج 1، ص 49.

[20]۔ يافعي محمد بن طلحہ کے بارے میں کہتے ہیں: "الكمال محمد بن طلحة النصيبي الشافعي. وكان رئيسا محتشما بارعا في الفقه والخلاف، ولي الوزارة مرة ثم زهد وجمع نفسه، توفي بحلب في شهر رجب وقد جاوز التسعين، وله دائرة الحروف ..." (مرآه الجنان، حوادث سنة 652.)

 محمد بن طلحہ ایک شافعی ناصبی تھے، خاص عزت اور وقار کے حامل رہنما تھے۔ اور وہ فقہی اور اختلافی مسائل میں جدت پسند تھے اور ایک مرتبہ وزارت کے منصب پر فائز ہوئے لیکن اس کے بعد انہوں نے زہد و تقویٰ پر عمل کیا۔ اور اس کی موت حلب شہر میں ہوئی۔

[21] . مطالب السئول في مناقب آل الرسول، ص 44.

[22] ذہبی رسعني کے بارے میں کہتے ہیں: "الرسعني العلامة عز الدين عبد الرزاق بن رزق الله بن أبي بكر، المحدث المفسر الحنبلي. ولد سنة تسع وثمانين. وسمع بدمشق من الكندي وببغداد من ابن منينا، وصنف تفسيرا جيدا، وكان شيخ الجزيرة في زمانه علما وفضلا وجلالة. توفي في ثاني عشر ربيع الآخر." (العبر، حوادث 661.)

علامہ عزالدین عبد الرزاق بن رزق اللہ بن ابی بکر رسعني حنبلی محدث اور مفسر ہیں۔

 جو سن اناسی میں پیدا ہوئے... اور اچھی تفسیر لکھی، اور اپنے زمانے میں علم، فضل اور عظمت کے لحاظ سے الجزیرہ کے شیخ تھے۔۔۔

[23] . مفتاح النجا في مناقب آل العبا، مخطوط.

[24]۔ نیشابوری پر اعتماد اور اس کی تفسير:  "وذكر الكاتب الجلبي تفسير النيسابوري بقوله: غرائب القرآن ورغائب الفرقان في التفسير، للعلامة نظام الدين حسن بن محمد بن حسين القمي النيسابوري، المعروف بالنظام الأعرج ..." (كشف الظنون، ج 2، ص 1195.)

[25] . تفسير نيشابوري، ج 6، ص 129 و 130.

[26] سیوطی بدر الدین عینی کے بارے میں کہتے ہیں: "... وكان إماما عالما علامة ..." (بغيه الوعاه، ج 2، ص 275.)

[27] . عمده القاري، شرح صحيح بخاري، ج 18،ص 206.

[28] ابن عماد سیوطی کے بارے میں کہتے ہیں: "وقد أشتهر أكثر مصنفاته في حياته في أقطار الأرض شرقا وغربا ، وكان آية كبري في سرعة التأليف." (الكواكب السائرة، ج 1، 228 .)

ان کی زندگی کے دوران، سیوطی کی زیادہ تر تصانیف مشرق و مغرب کے مختلف خطوں میں شائع اور مشہور ہوئیں، اور وہ اپنی تحریر کی رفتار میں خدا کی نشانی [معجزات واعجوبه] تھے۔

عبداللہ ابن صدیق مغربی سیوطی کے بارے میں کہتے ہیں: " وكان اماما في أكثر العلوم وأعلم أهل زمانه بعلم الحديث وفنونه ورجاله وغريبه واستنباط الاحكام منه." (مقدمه رد اعتبار الجامع الصغير، ص 46.)

امام سیوطی اپنے زمانے کے علم حدیث، تراکیب اور اہل حدیث، مشکل حدیث کے موضوعات اور احادیث سے احکام استنباط کرنے میں اپنے زمانے کے سب سے زیادہ جاننے والے اور علم والے تھے۔

سیوطی کے طالب علم "داؤدی" نے ان کے بارے میں کہا: "وكان أعلم أهل زمانه بعلم الحديث وفنونه ، رجالا وغريبا ، ومتنا وسندا ، واستنباطا للأحكام منه." (مقدمه اللمع في أسباب ورود الحديث، ص 9.)

وہ اپنے زمانے کے لوگوں میں علم حدیث اور اس کی فنون میں  رجال اور اس کے عجیب و غریب مواد اور متن اور دلائل کے لحاظ سے اور روایات سے احکام اخذ کرنے میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔

[29] . الدر المنثور في التفسير بالمأثور، ج 2، ص 298.

[30] . أخبار الأخيار، ص 206.

[31] . كتاب الأربعين في فضائل أمير المؤمنين، مخطوط ـ الغدير، علامه أميني، ج 1، ص 301.

[32] مرزا محمد بدخشانی اہلسنت کے معتبر محدثین میں سے ہیں، اہل السنت کے متأخر کے بہت سے علماء نے ان سے احادیث نقل کی ہیں اور ان کی روایات کی گواہی دی ہے۔ اور ان کے تصنیفات یہ ہیں: نُزل الأبرار، تحفه المحبين، مفتاح النجا،

 ان کی سوانح عمری کا خلاصہ، کتاب "نزہۃ الخواطر، جلد 6، صفحہ 259" سے نقل کیا گیا ہے:

"الشيخ العالم المحدث بن رستم بن قباد الحارثي البدخشي، أحد الرجال المشهورين في الحديث والرجال" (نزهه الخواطر، ج6، ص 259)

وہ ایک شیخ، عالم اور محدث، اور علم حدیث اوررجال کے بزرگوں میں سے ہیں۔

[33] . الغدير، علامه أميني، ج 1، ص 222 ـ مفتاح النجا - مخطوط.

[34] . ينابيع المودة لذوي القربي، قندوزي، ج 2، ص 283.

[35] . الفصول المهمه في معرفه الأئمه، ص 42.

[36] . تفسير النيشابوري، ج 3، ص 188.

 

 

 

 

 

 

 

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی