2024 March 29
کیا امام زمان علیہ السلام سرداب اور تہ خانہ میں غائب ہوئے ہیں اور وہی سے آپ ظہور فرمائیں گے ؟
مندرجات: ٢٢٥٠ تاریخ اشاعت: ٢٢ February ٢٠٢٤ - ١٩:٢٩ مشاہدات: 2041
سوال و جواب » امام حسین (ع)
کیا امام زمان علیہ السلام سرداب اور تہ خانہ میں غائب ہوئے ہیں اور وہی سے آپ ظہور فرمائیں گے ؟

کیا امام زمان علیہ السلام سرداب اور تہ خانہ میں غائب ہوئے ہیں اور وہی سے آپ ظہور فرمائیں گے ؟

شبھہ کیا ہے ؟

حضرت امام هادي اور امام عسكري عليهما السلام کے سرداب مقدس سامرا کے شہر میں ہے ۔خاص کر  عراق کے گرم شہروں میں یہ رسم تھی کہ گرمی سے بچاو کے لئے گھر کے ساتھ ایک تہ خانہ بناتے تھے , تاکہ سخت گرمی کے وقت وہاں پناہ لے سکے ،امام ھادی اور امام حسن عسکری علیہما السلام کے گھر میں بھی تہ خانہ تھا۔

یہ سرداب)تہ خانہ) شیعوں کی نگاہ میں مقدس ہے اور شیعہ اس کا احترام کرتے ہیں کیونکہ یہ شیعوں کے تین اماموں کی محل زندگی اور ان کی عبادت کی جگہ تھی ۔ لہذا جب کوئی شیعہ سامرا زیارت کے لئے جاتے ہیں تو اس مکان میں داخل ہوکر اپنے اماموں کی عبادت کی جگہ پر نماز پڑھتے ہیں اور وہاں جاکر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔

سنی اور وہابی علما کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کے شیعوں پر لگائے جانے والے انتہائی غیر منصافہ اور جاہلانہ تہمتوں میں سے  شیعوں کی طرف یہ نسبت ہے کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق امام مھدی علیہ السلام سامرا کے ایک سرداب میں غائب ہوئے ہیں اور اسی میں زندگی گزار رہے ہیں اور اسی سے ظہور فرمائیں گے۔

اب شیعہ مخالفین پہلے ایسے جاہلانہ اور غیر واقعی نظریات کو شیعوں کی طرف نسبت دیتے ہیں ، پھر بعد میں شیعوں کا مزاق اڑاتے ہیں اور شیعوں کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں ۔ مثلا کہتے ہیں شیعہ ہر دن اس سرداب کے باہر سواری کے ساتھ ان کے انتظار کرتے رہتے ہیں اور انہیں وہاں سے نکل کر آنے کے لئے آواز دیتے رہتے ہیں . 

کچھ نمونے

1:    شمس الدين ابن خلكان (متوفاي681هـ) نے اس سلسلے میں لکھا ہے :

والشيعة يقولون إنه دخل السرداب في دار أبيه وامه تنظر إليه فلم يعد يخرج إليها وذلك في سنة خمس وستين ومائتين وعمره يومئذ تسع سنين.

اور شیعہ کہتے ہیں کہ (حضرت مهدي) اپنے والد کے تہ خانہ میں داخل ہوئے جبکہ اس وقت ان کی والدہ ان کی طرف نگاہ کر رہی تھی ،آپ وہاں غائب ہوگے اور پھر اس سے باہر نہیں آیا اور یہ 265هـ کا واقعہ ہے اس وقت آپ ۹ سال کا تھا۔  

إبن خلكان، ابوالعباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفاي681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج4، ص176، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.

2:   ابن تيميه نے  منهاج السنة میں لکھا ہے :

ومن حماقتهم أيضا أنهم يجعلون للمنتظر عدة مشاهد ينتظرونه فيها كالسرادب الذي بسامرا الذي يزعمون أنه غاب فيه ومشاهد أخر وقد يقيمون هناك دابة إما بغلة وإما فرسا وإما غير ذلك ليركبها إذا خرج ويقيمون هناك إما في طرفي النهار وإما في أوقات أخر من ينادي عليه بالخروج يا مولانا أخرج يا مولانا أخرج ويشهرون السلاح ولا أحد هناك يقاتلهم وفيهم من يقول في أوقات الصلاة دائما لا يصلي خشية أن يخرج وهو في الصلاة فيشتغل بها عن خروجه وخدمته وهم في أماكن بعيدة عن مشهده كمدينة النبي(ص) إما في العشر الأواخر من شهر رمضان وإما في غير ذلك يتوجهون إلي المشرق وينادونه بأصوات عالية يطلبون خروجه.

شیعوں کے بیوقوفانہ کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ شیعوں نے امام مھدی علیہ السلام کے لئے کچھ جگہے معین کی ہوئی ہیں اور وہاں پر یہ لوگ انتظار کرتے رہتے ہیں ،جیساکہ سامرا کے سرداب کے بارے میں یہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ امام مھدی علیہ السلام اس کے اندر غائب ہوگئے ہیں.

شیعہ سواری کے لئے خچر یا گھوڑا وغیرہ وہاں رکھتے ہیں۔تاکہ امام وہاں سے نکلے تو اس پر سوار ہوسکے ۔ لوگ صبح سے شام تک وہاں یہ آوازیں یہ لگاتے ہیں کہ اے مولا! نکل آئیں ،اے مولی! نکل آئیں۔

شیعہ وہاں اسلحہ نیام سے نکال کر گھماتے اور پھراتے رہتے ہیں، جبکہ وہاں ان سے لڑنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

جو سامرا میں ہوتے ہیں وہ لوگ نماز وقت پر نہیں پڑھتے ، اس خوف سے کہ کہیں نماز کے وقت امام وہاں سے نہ نکلے اور انہیں امام کی خدمت کا موقع نہ ملے، وہ لوگ مغرب کے نذدیک جلدی جلدی ،خضوع و خشوع کے بغیر نماز پڑھ لیتے ۔

جو لوگ سامرا سے دور ہوتے ہیں ، مثلا اہل مدینہ ہو تو  ماہ رمضان کے آخر میں یا دوسرے ایام میں مشرق کی طرف رخ کر کے بلند آواز سے فریاد کرتے ہیں اور انہیں اس سے نکلنے کی درخواست کرتے ہیں۔

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاي 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج1، ص44ـ 45، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولي، 1406هـ.

 

ابن القيم الجوزيه نے بھی بغیر کسی تحقیق کے اور آنکھیں بند کر اپنے استاد کی انہیں باتوں کو كتاب المنار المنيف میں نقل کیا ہے :

وأما الرافضة الإمامية فلهم قول رابع وهو أن المهدي هو محمد بن الحسن العسكري المنتظر من ولد الحسين بن علي لا من ولد الحسن الحاضر في الأمصار الغائب عن الأبصار الذي يورث العصا ويختم الفضا دخل سرداب سامراء طفلا صغيرا من أكثر من خمس مئة سنة فلم تره بعد ذلك عين ولم يحس فيه بخبر ولا أثر وهم ينتظرونه كل يوم يقفون بالخيل علي باب السرداب ويصيحون به أن يخرج إليهم أخرج يا مولانا أخرج يا مولانا ثم يرجعون بالخيبة والحرمان فهذا دأبهم ودأبه

ولقد أحسن من قال:

ما آن للسرداب أن يلد الذي كلمتموه بجهلكم ما آنا

فعلي عقولكم العفاء فإنكم ثلثتم العنقاء والغيلانا

امام مھدی کے بارے میں  چوتھا نظریہ  امامی رافضیوں کا یہ ہے کہ امام مہدی کا نام محمد بن حسن عسکری ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ وہ حسین بن علیؑ کی نسل سے ہے۔۔۔وہ چھوٹا سا بچہ تھا جب وہ سامراء کے مورچے میں داخل ہوا تھا۔ یہ پانچ سو سال (ابن قیم کے   اپنے دور کے حساب سے  ) پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد نہ کسی آنکھ نے اسے دیکھا ہے نہ اس کے بارے میں کوئی خبر ملی ہے، نہ اس کا کوئی نشان ملا ہے۔ امامی شیعہ ہر روز سرداب کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس کا انتظار کرتے ہیں اور اسے آوازیں لگاتے ہیں کہ اے ہمارے مولیٰ تو نکل، اے ہمارے مولا تو نکل۔ پھر وہ ناکامی و نامرادی کے ساتھ واپس لوٹ جاتے ہیں اور یہ ان کی عادت اور ان کے ہاں موجود رسم ایک ہے ۔

کتنی اچھی شاعری کی ہے :

 وہ وقت نہیں آیا ہے کہ سراداب اس شخص کو جنے جس کو جہالت کی وجہ سے پکارتے رہتے ہو۔ افسوس ہو تم لوگوں کی عقل پر ۔۔۔

 الزرعي الدمشقي الحنبلي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أبي بكر أيوب (مشهور به ابن القيم الجوزية ) (متوفاي751هـ)، المنار المنيف في الصحيح والضعيف، ج1، ص152، تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثانية، 1403هـ.

شمس الدين نے اپنی کتاب كتاب العبر في اخبار من غبر میں امام مهدي عجل الله تعالي فرجه الشريف، کی ولادت پر تصریح کے بعد شیعوں پر اس طرح تہمت لگائی ہے : 

 وتلقبه بصاحب الزمان وهو خاتمة الاثني عشر وضلال الرافضة ما عليه مزيد فإنهم يزعمون أنه دخل السرداب الذي بسامرا فاختفي وإلي الآن.

ان کا لقب «صاحب الزمان» رکھا ہے اور یہ شیعوں کے بارہ اماموں میں سے آخری ہے اور ان کی گمراہیوں میں سے مزید یہ ہے کہ یہ لوگ گمان کرتے ہیں یہ سامرا کے سرداب میں داخل ہوئے ہیں اور اسی میں مخفی ہوئے ہیں اور ابھی تک اسی میں زندگی گزار رہے ہیں۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاي 748 هـ)، العبر في خبر من غبر، ج2، ص37، تحقيق: د. صلاح الدين المنجد، ناشر: مطبعة حكومة الكويت - الكويت، الطبعة: الثاني، 1984.

ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں لکھا ہے :

منهم يزعمون أن الثاني عشر من أئمتهم وهو محمد بن الحسن العسكري ويلقبونه المهدي دخل في سرداب بدارهم في الحلة وتغيب حين اعتقل مع أمه وغاب هنالك وهو يخرج آخر الزمان فيملأ الأرض عدلا يشيرون بذلك إلي الحديث الواقع في كتاب الترمذي في المهدي وهم إلي الآن ينتظرونه ويسمونه المنتظر لذلك ويقفون في كل ليلة بعد صلاة المغرب بباب هذا السرداب وقد قدموا مركبا فيهتفون باسمه ويدعونه للخروج حتي تشتبك النجوم ثم ينفضون ويرجئون الأمر إلي الليلة الآتية وهم علي ذلك لهذا العهد.

شیعوں میں سے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں محمد بن حسن العسکری جن کا لقب مھدی ہے ، وہ حلہ میں موجود سرداب میں غائب ہوئے ہیں ۔ اس وقت آپ اپنی ماں کے ساتھ زندان میں تھے۔۔ آپ وہاں غائب ہوئے اور آخری زمانے میں وہاں سے ظہور فرمائیں گے ۔ اور دنیا کو عدل و انصاف سے بر دیں گے ۔

یہ لوگ اس اس جملے کے ذریعے سے اس حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو ترمذی میں امام مھدی کے بارے میں موجود ہے  ۔ یہ لوگ ابھی تک ان کے انتظار میں ہیں اور انہیں امام المنتظر کہتے ہیں ،یہ لوگ ہر رات مغرب کی نماز کے بعد سرداب کے دروازے پر بیٹھتے ہیں ،سواری بھی ساتھ لاتے ہیں ،امام کو ان کے نام کے ساتھ پکارتے ہیں اور انہیں وہاں سے باہر نکلنے کا تقاضا کرتے ہیں ،اسی حالت میں ستاروں کے نکلنے تک باقی رہتے ہیں ،پھر جدا ہوجاتے ہیں، اور دوسری رات بھی یہی کام انجام دیتے ہیں اور یہ کام آج تک جاری ہے ۔

  إبن خلدون الحضرمي، عبد الرحمن بن محمد (متوفاي808 هـ)، مقدمة ابن خلدون، ج1، ص199، ناشر: دار القلم - بيروت - 1984، الطبعة: الخامسة.

 

اہل سنت کے مشہور تاریخ دان ابن اثیر  لکھتا ہے :

وترتجي بظهوره من سرداب في سامراء، فإِن ذاك ما لا حقيقة له، ولا عين ولا أثر ۔۔۔۔۔

النهاية في الفتن والملاحم لابن كثير:49/1

رافضی لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ سامراء کے ایک سرداب  سے ظہور فرمائیں  گے ۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں، اس کے بارے میں کوئی روایت  موجود نہیں ہے۔

دوسری جگہ لکھتا ہے  

 فيخرج المهدي، ويكون ظهوره من بلاد المشرق، لا من سرداب سامرا، كما يزعمه جهلة الرافضة من أنه موجوده فيه الآن، وهم ينتظرون خروجه آخر الزمان، فإن هذا نوع من الهذيان، وقسط كبير من الخذلان، وهوس شديد من الشيطان، إذ لا دليل عليه ذلك ولا برهان، لا من كتاب ولا سنة ولا من معقول صحيح ولا استحسان..

(النهاية في الفتن والملاحم لابن كثير:55/1


’’
امام مہدی نکلیں گے۔ ان کا ظہور مشرق کے علاقے سے ہو گا، نہ  سامراء کے مورچے سے، جاہل رافضیوں کاخیال ہے کہ  امام مہدی اس سرداب  میں اب بھی موجود ہیں اور یہ لوگ آخری زمانے میں ان کے خروج کے منتظر ہیں۔ یہ ایک قسم کی بے وقوفی، بہت بڑی رسوائی اور شیطان کی پیروی کا نتیجہ  ہے کیونکہ اس بات پر کوئی دلیل و برہان نہیں، نہ قرآن سے، نہ سنت رسول سے، نہ عقل سے اور نہ  استحسان و قیاس سے۔

   6    ہل سنت کے مشہور تاریخ نگار  ، ابن کثیر  لکھتا ہے :  

   وليس هذا بالمنتظر الذى يتوهم الرافضة وجوده ثم ظهوره من سرداب سَامرّاء ۔۔۔

تفسير ابن كثير : 504/3، تحت سورة المائدہ : 12


’’
  امام مہدی سے مراد وہ امام منتظر نہیں جس کے بارے میں رافضی لوگوں کا خیال ہے  .. کہ آپ سامرا کے سرداب میں ہیں اور وہی سے ظہور فرمائیں گے ۔

«ابن حجر هیثمی» اس سلسلے میں کہتا ہے :

«الامام المنتظر و هو صاحب السرداب عندهم.»

امام مھدی منتظر ،سے مراد ان کے نذدیک وہی صاحب السرادب امام ہیں {یعنی جو سرداب میں زندگی گزارتے ہیں } ۔

الصواعق المحرقة، اسم المؤلف: أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر الهيثمي، دار النشر: مؤسسة الرسالة - لبنان - 1417هـ - 1997م، الطبعة: الأولى، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط؛ ج2، ص 482

 

 

احمد بن علي قشقلندي، نے بھی  ابن خلدون کی طرح ادعا کیا ہے اور  کہا ہے کہ سرداب حلہ میں ہے:

ثم ابنه الحسن الزكي المعروف بالعسكري ثم ابنه محمد الحجة وهو المهدي المنتظر عندهم يقولون أنه دخل مع أمه صغيرا سردابا بالحلة علي القرب من بغداد ففقد ولم يعد فهم ينتظرونه إلي الآن ويقال أنهم في كل ليلة يقفون عند باب السرداب ببغلة مشدودة ملجمة من الغروب إلي مغيب الشفق ينادون أيها الإمام قد كثر الظلم وظهر الجور فاخرج إلينا ثم يرجعون إلي الليلة الأخري وتلقب هذه الفرقة بالاثني عشرية

الفزاري القلقشندي، أحمد بن علي بن أحمد (متوفاي821هـ)، صبح الأعشي في كتابة الإنشا، ج13، ص232، تحقيق عبد القادر زكار ناشر: وزارة الثقافة - دمشق - 1981.

زبيدي حنفي یہ ادعا کرتا ہے کہ یہ سرداب شہر  ري میں موجود ہے  اور لوگ ہر جمعے کو زین لگائے ہوئے گھوڑے کے ساتھ جمع ہوتے ہیں اور امام کو آواز دیتے رہتے ہیں :

والسِّردابية: قَوْمٌ من غُلَاةِ الرَّافِضَة يَنْتَظِرُونَ خُرُوجَ المَهْدِيّ من السِّردَابِ الذي بِالرّي، فيُحْضِرُون لِذَلك فَرَساً مُسْرَجاً مُلْجَماً في كُلِّ يوم جُمُعَة بعد الصَّلَاةِ قَائِلِين: يا إِمَام، باسْم اللّهِ، ثَلَاثَ مَرَّات.

سردابيه، رافضہ کا ایک قوم ہے کہ جو امام مہدی کا شہر ری کے سرداب سے نکلنے  کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔یہ لوگ اس کے لئے زین اور لگام لگائے گھوڑے لاکے رکھتے ہیں

  اور تین مرتبہ کہتے ہیں : یا امام اللہ کے واسطے نکلیں ۔۔۔۔

الزبيدي الحنفي، محب الدين أبو فيض السيد محمد مرتضي الحسيني الواسطي (متوفاي1205هـ)، تاج العروس من جواهر القاموس، ج3، ص57،تحقيق: مجموعة من المحققين، ناشر: دار الهداية.

محمد بن عبد الوهاب نے رسالة علي رد الرافضة میں لکھا ہے :

قيل أن سبب جمعهم بين الظهرين والمغربين طول الدهر مع اختيار التأخير فيهما هو: أنهم ينتظرون القائم المختفي في السرداب ليقتدوا به فيؤخرون الظهر إلي العصر إلي قريب غروب الشمس فإذا يئسوا من الإمام واصفرت الشمس وصارت بين قرني الشيطان نقروا عند ذلك كنقر الديك فصلوا الصلاتين من غير خشوع ولا طمأنينة فرادي من غير جماعة ورجعوا خائبين خاسرين نسأل الله العفو والعافية وقد صاروا بذلك وبوقوفهم بالجبل علي ذلك السرداب وصياحهم بأن يخرج إليهم ضحكة لأولي الألباب.

بعض نے کہا ہے کہ طول تاریخ میں شیعوں کا نماز ظہر اور عصر کا ایک ساتھ پڑھنے  کی وجہ  یہ ہے کہ ان کا امام مھدی سرداب میں مخفی ہوئے  ہیں اور شیعہ ظہر و عصر کی نماز کو مغرب کی نماز تک تاخیر سے پڑھتے ہیں تاکہ امام آئے تو ان کی اقتدا میں نماز پڑھ سکے اور جب نا امید ہوجاتے ہیں اور سورچ تھوڑا تھوڑ تاریکی کی طرف چلنا شروع کرئے  تو یہ لوگ مرغا کی طرح آوازیں نکالنا شروع کرتے ہیں ۔پھر دونوں نمازوں کو خضوع و خشوع  کے بغیر اور  بغیر جماعت کے انجام دیتے ہیں اور نا امید ہوکر واپس پلٹتے ہیں ۔ شیعوں کے اس کام سے اللہ کی پناہ ، شیعہ سرداب کے نذدیک پہاڑی پر امام کو پکارتے ہیں تاکہ امام وہاں سے نکلے اور شیعوں کا یہ کام عقلا کے ہنسی مزاق کا موجب بنتا ہے ۔

محمد بن عبد الوهاب (متوفاي1206 هـ)، رسالة في الرد علي الرافضة، ج1، ص33، تحقيق: الدكتور ناصر بن سعد الرشيد، ناشر: مطابع الرياض - الرياض، الطبعة: الأولي،

احسان الهي ظهير نے  فرق معاصرة میں لکھاہے:

وفي اثناء مرابتتهم لا يصلون خشيتأ أن يخرج وهم في الصلاة.

جس وقت یہ لوگ سرداب کے پاس جاکر ڈیوٹی دیتے ہیں ،وہاں یہ لوگ نماز اس خوف سے نہیں پڑھتے کہ نماز کے دوران کہیں امام نکل نہ جائیں ۔

فرق معاصره، ج1، ص208.

عبد الله القميصي کہ جو عصر حاضر کے سلفی علما میں  سے ہے  :

وإن أغبي الأغبياء، وأجمد الجامدين هم الذين غيبوا إمامهم في السرداب، وغيبوا معه قرآنهم ومصحفهم،ومن يذهبون كل ليلة بخيولهم وحميرهم إلي ذلك السرداب الذي غيبوا فيه إمامهم ينتظرونه وينادونه ليخرج إليهم،ولا يزال عندهم ذلك منذ أكثر من ألف عام.

سب سے زیادہ کند ذہنی، بے وقوفی، اور فکری جمود رکھنے والے وہ لوگ ہیں کہ جن کے امام قرآن کے ساتھ سرداب میں غائب ہوئے ہیں ،وہ لوگ کہ جو ہر رات گھوڑے اور گدھے کے ساتھ  سرداب کے پاس آتے ہیں اور امام کے انتظار میں رہتے ہیں اور انہیں وہاں سے نکلے کے لئے آواز دیتے رہتے ہیں اور  یہ کام ہزار سال کے بعد اب  بھی جاری ہے ۔

 الصراع بين الإسلام والوثنية، ج1، ص374.

اس طرح کی تہمتوں کو  مصطفي حلمي نے  نظام الخلافه، ص میں 267 اور محمد علي الجندي نے نظرية الإمامة، ص38 پر بھی تکرار کیا ہے ۔

نقد و بررسي:

اگرچہ یہ باتیں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس قسم کی بیوقوفانہ باتیں کرنے والے شیعوں کے عقائد حقہ اور  صحیح نظریات سے جاہل ہیں ۔اس قسم کی جھوٹی نسبتیں اور سفید جھوٹی باتیں خود ہی اس قسم کی باتوں کو شیعوں کی طرف نسبت دینے والوں کی رسوائی اور حقارت کے لئے کافی ہیں ۔لہذا یہ باتیں جواب دینے کے بھی قابل نہیں ہیں ۔

 

 لیکن پھر بھی ہم  شیعہ علما کے نظریات کو مختصر طور پر یہاں بیان کرتے ہیں :

دنیا کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے شیعہ عالم اور شیعہ عوام سب اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ شیعوں کا  ایسا کوئی نظریہ نہیں ہے ،یہ باتیں کسی شیعہ عالم تو چھوڑے کسی شیعہ جاہل کا بھی نظریہ نہیں ہے ۔

کسی شیعہ ضعیف کتاب میں بھی کسی شیعہ عالم نے ایسا نہیں کہا اور اگر اہل سنت کے مندرجہ بالا علما کہ جو بظاہر اہل سنت کے بڑے علما میں سے ہیں ، اگر ان کے پاس ان نسبتوں کی کوئی سند ہوتی تو پیش کرتے ۔لیکن ابھی تک اس سلسلے میں شیعوں کے خلاف اپنی ان جھوٹی نسبتوں کی کوئی سند  پیش نہیں کرسکے ہیں۔

افسوس کا مقام ہے کہ اہل سنت کے یہ بڑے علما کیوں تحقیق کے بغیر  اس طرح اندھا پنی کا شکار ہیں  دوسروں کی طرف اس قسم کی نسبتیں دیتے ہیں ، غیر ذمہ دارانہ کام انجام دیتے ہیں اور یوں قلم کے احترام کا خیال نہیں کرتے  ۔

اس قسم کی بکواسات شیعوں کی طرف نسبت دینے کا مطلب یہ ہے کہ شیعہ اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے مخالفین بوری طرح بے بس ہیں اور شیعوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پست ترین اسلحہ یعنی جھوٹ اور افترا کا سہارا لیتے ہیں ۔ شیعوں کو نیچا دیکھانے اور اپنے مکتب کی حقانیت اور مشروعیت کو ثابت کرنے کے لئے  ان لوگوں کے ہاتھ دلیل اور منطق سے ہے ۔

 ہم نہیں سمجھتے کہ اہل سنت کے یہ بڑے بڑے علما کہ جو شيخ الإسلام، امام المحدثين، امام الجرح والتعديل، علامه و... کے القاب کے مالک ہیں ، اب یہ لوگ اس قسم کی جھوٹی نسبتوں سے جاہل ہوں اور ایسے ہی ان باتوں کو شیعوں کیطرف نسبت دی ہو کیونکہ طول تاریخ میں ہر شہر میں شیعہ موجود رہے ہیں اور شیعوں کی کتابیں بھی ان سب کے پہنچ میں تھیں لیکن اس کے باوجود کیسے ان لوگوں نے شیعوں کی طرف ایسی باتوں کی نسبت دی ہے۔

کیا اس قسم کے دانشمند اس آیت کا مصداق نہیں ؟

ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ فيما لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فيما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُون . آل عمران/66.

 سن لو! تم وہی لوگ ہو جو ان باتوں میں بھی جھگڑتے رہے ہو جن کا تمہیں (کچھ نہ کچھ) علم تھا مگر ان باتوں میں کیوں تکرار کرتے ہو جن کا تمہیں (سرے سے) کوئی علم ہی نہیں، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

 

ہم مطمئن ہیں کہ اللہ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ تہمتوں کی وجہ سے قیامت کے دن ان لوگوں سے ضرور پوچھے گا ۔

إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْواهِكُمْ ما لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظيم . النور/15.

جب تم اس (بات) کو (ایک دوسرے سے سن کر) اپنی زبانوں پر لاتے رہے اور اپنے منہ سے وہ کچھ کہتے رہے جس کا (خود) تمہیں کوئی علم ہی نہ تھا اور اس (چرچے) کو معمولی بات خیال کر رہے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے حضور بہت بڑی (جسارت ہو رہی) تھی۔

شیعہ علما نے اس قسم کی تہمتوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے ہم ذیل میں انہیں جوابات کو نقل کرتے ہیں :

علامه اميني رضوان الله تعالي عليه نے  اين قميصي  اور ابن تيميه کے جواب میں لکھا ہے:

وفرية السرداب أشنع وإن سبقه إليها غيره من مؤلفي أهل السنة لكنه زاد في الطمور نغمات بضم الحمير إلي الخيول وادعائه اطراد العادة في كل ليلة واتصالها منذ أكثر من ألف عام، والشيعة لا تري أن غيبة الإمام في السرداب، ولاهم غيبوه فيه ولا إنه يظهر منه، وإنما اعتقادهم المدعوم بأحاديثهم أنه يظهر بمكة المعظمة تجاه البيت، ولم يقل أحد في السرداب: إنه مغيب ذلك النور، وإنما هو سرداب دار الأئمة بسامراء، وإن من المطرد إيجاد السراديب في الدور وقاية من قايظ الحر، وإنما اكتسب هذا السرداب بخصوصه الشرف الباذخ لانتسابه إلي أئمة الدين، وإنه كان مبوء لثلاثة منهم كبقية مساكن هذه الدار المباركة، وهذا هو الشأن في بيوت الأئمة عليهم السلام ومشرفهم النبي الأعظم في أي حاضرة كانت، فقد أذن الله أن ترفع ويذكر فيها اسمه.

وليت هؤلاء المتقولون في أمر السرداب اتفقوا علي رأي واحد في الأكذوبة حتي لا تلوح عليها لوائح الافتعال فتفضحهم،فلا يقول ابن بطوطة في رحلته 2 ص 198: إن هذا السرداب المنوه به في الحلة. ولا يقول القرماني في ( أخبار الدول ) إنه في بغداد. ولا يقول الآخرون: إنه بسامراء. ويأتي القصيمي من بعدهم فلا يدري أين هو فيطلق لفظ السرداب ليستر سوءته. وإني كنت أتمني للقصيمي أن يحدد هذه العادة بأقصر من ( أكثر من ألف عام ) حتي لا يشمل العصر الحاضر والأعوام المتصلة به، لأن انتفائها فيه وفيها بمشهد ومرئي ومسمع من جميع المسلمين، وكان خيرا له لو عزاها إلي بعض القرون الوسطي حتي يجوز السامع وجودها في الجملة، لكن المائن غير متحفظ علي هذه الجهات.

یہ جو شیعوں سرداب کی جھوٹی داستان کی نسبت شیعوں کی طرف دی گئی ہے یہ نسبت انتہائی گھٹا اور پست درجہ کی نسبت ہے ۔

، اگرچه (قميصي) سے پہلے اهل سنت کے مصنفین نے اپنی کتابوں میں ان چیزوں کی نسبتیں دی ہیں ؛ لیکن اس نے دوسری باتیں ،، مثلا گدھا ساتھ لانا اور ہزار سال سے  ہر رات اس کا تکرار کرنے کو اضافہ کیا ہے جبکہ شیعہ امام کا اس سرداب میں غائب ہونے اور اس میں زندگی گزارنے اور اس سے ظہور کا عقیدہ نہیں رکھتے ہیں ،شیعہ روایات کے مطابق اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ امام مکہ میں خانہ کعبہ سے ظہور فرمائیں گے ،کسی شیعہ نے سرداب سے ظہور کا نہیں کہا ہے اور یہ نہیں کہا ہے کہ آپ سرداب میں غائب ہیں۔

سرداب ائمہ علیہم السلام  کا گھر ہی تھا ۔اس دور میں  گرمی سے بچاو کے لئے  سرداب اور تہ خانہ بنانا ایک رائج کام تھا ۔

اگر باقی سردابوں کی نسبت سے اس سرداب کو خاص شرف اور تقدس حاصل ہے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ دین کے تین پیشواوں سے منسوب ہے ۔دوسرے گھروں کی طرح اس گھر کا شرف بھی اللہ کے ذکر اور یاد کی وجہ سے ہے ۔

جن لوگوں نے یہ جھوٹی باتیں شیعوں کی طرف نسبت دی ہے کاش یہ لوگ ایک ہی قسم کی بات کرتے اور ایک دوسرے کی باتوں کے خلاف بات نہ کرتے اور اس طرح ان کی جھوٹ اور عجز و ناتونی کا کوئی تماشا نہ دیکھتے ۔

 اب ابن بطوطه اپنے سفر نامہ کی جلد 2، ص198 پر اس سرداب کو حلہ نہ بتاتا   قرماني ، اخبار الدول میں اس سرداب کو بغداد میں نہ بتاتا اور دوسرے اس کو سامرا میں ہونے کو نہ بتاتا ۔۔۔

قميصي کہ جو ان کے بعد آیا ہے اس کو معلوم نہیں ہے کہ یہ سرداب کہا ہے لہذا کلی طور پر بات کی ہے اور اس جگے کا نہیں کہا ہے تاکہ رسوا نہ ہو ؛

اگر ہم قمیصی سے یہ چاہتے ہیں کہ اس ہزار سال کو کچھ کم کر کے بتائے تاکہ خود اس کو بھی شامل نہ ہو کیونکہ آج کے دور میں سارے مسلمان اپنی آنکھوں سے ایسی کسی چیز کے نہ ہونے کو دیکھ چکے ہیں اور اس کو سن چکے ہیں اگر اس مسئلے کو پچھلے زمانے کے لوگوں کا کام کہے تو اس کے لئے زیادہ بہتر ہے ۔کیونکہ سننے والا اس کو امکان کی وادی میں رکھ دیتا ہے لیکن آج کے دور کی بھی بات کے طور پر پیش کرئے تو اس کو کوئی قبول نہیں کرتا کیونکہ آج حقیقت سب پر واضح ہے ۔

الأميني، الشيخ عبد الحسين احمد (متوفاي 1392هـ)، الغدير في الكتاب والسنة والأدب، ج3، ص308، ناشر: دار الكتاب العربي بيروت، الطبعة: الرابعة،1397هـ ـ 1977م.

شيخ محمد باقر الشريف القرشي کی جو عصر حاضر کے نجف اشرف میں رہنے والے بزرگ شیعہ علما میں سے ہیں ،انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا ہے

وحفل كلام ابن خلدون بالأكاذيب، والحقد علي آل البيت عليهم السلام، وعلي شيعتهم، ومن بين أغاليطه ما يلي:

أولا: إنكاره لوجود الإمام المنتظر عليه السلام الذي تواترت بظهوره ووجوده الأخبار التي أثرت عن النبي صلي الله عليه وآله، وقد فنّد مقالته الأستاذ المحقق والعالم المعروف أحمد محمد شاكر، فقد قال: " وأما ابن خلدون فقد فقأ ما ليس به علم،واقتحم قحما لم يكن من رجالها، وغلبه ما شغله من السياسة، وأمور الدولة وخدمة من كان يخدم من الملوك والأمراء، فأوهم أن شأن المهدي عقيدة شيعية، وأوهمته نفسه ذلك فعقد في مقدمته المشهورة فصلا طويلا جعل عنوانه ( فصل في أمر الفاطمي، وما يذهب إليه الناس من أمره " إلخ.

إن عقيدة الشيعة وسائر المسلمين في الإمام المهدي عليه السلام هي جزء من رسالة الإسلام، فمن أنكره فقد أنكر الإسلام، كما يقول بذلك بعض علماء السنة، كما سنعرض لذلك في البحوث الآتية.

ثانيا: من أغاليط ابن خلدون في هذا الكلام أن الإمام المنتظر عليه السلام قد اعتقل مع أمه في ( الحلة )،وغاب فيها،وهذا كذب مفضوح، ويواجهه ما يلي:

أ - إن السيدة والدة الإمام عليه السلام قد توفيت قبل وفاة الإمام الحسن العسكري عليه السلام بسنتين،كما ذكرنا ذلك في البحوث السابقة.

ب: - ولم يذكر أحد من مؤرخي الشيعة وغيرهم أن الإمام المنتظر عليه السلام قد اعتقل أو ألقت السلطة العباسية القبض عليه لا في الحلة ولا في غيرها فما ذكره ابن خلدون عن ذهاب الشيعة إلي ذلك، إنما هو محض افتراء وتشويه لعقيدتهم.

ثالثا: من افتراء ابن خلدون علي الشيعة أنهم يقفون بباب السرداب الواقع في ( الحلة )، ويقدمون مركبا للإمام عليه السلام ويهتفون باسمه، ويدعونه للخروج حتي تشتبك النجوم.

إن هذه الأكاذيب لم تسمع بها الشيعة وهي بريئة منها، قد افتعلها عليهم ابن خلدون الذي تجرد عن كل خلق قويم،وارتطم في الإثم.

  ابن خلدون کی باتیں اهل بيت عليهم السلام اور ان کے پیروکاروں کی طرف جھوٹی نسبت اور ان کی نسبت سے کینہ توزی کا اظہار ہے  ۔

 اس کے واضح ترین اشتباہات درج ذیل ہیں  ؛

اولا: اس نے امام منتظر عليه السلام کے ظہور اور وجود کا سرے سے انکار کیا ہے، جبکہ با اس بارے میں متواتر احادیث رسول اللہ (ص) سے نقل ہوئی ہیں،  مشهور محقق اور دانشمند محمد شاكرنے ابن خلدون کے ان باتوں کا جواب دیا ہے ۔

 ابن خلدون نے آنکھیں بند کر کے ایک ایسی چیز کا انکار کیا ہے کہ جس کے بارے میں اس کے پاس صحیح معلومات ہی نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔۔ اپنے مشہور مقدمہ میں ایک فصل ،«بارہ فاطمی اور لوگوں کے ان کے بارے میں اعتقادات » کے نام سے تحریر کی ہے ْ

شیعہ اور اہل سنت کے نذدیک امام مھدی علیہ السلام دین کا ایک جز ہے جو بھی مھدویت کا انکار کرئے اس نے دین کے ایک جز کا انکار کیا ہے۔۔۔۔

 

ثانياً: ابن خلدون کی غلطیوں میں سے اس کی یہ بات ہے کہ امام منتظر اپنی ماں کے ساتھ حلہ کے زندان میں تھے اور ادھر ہی غائب ہوگئے۔ اب یہ جھوٹی نسبتیں کئی لحاظ سے اس کی رسوائی کا سبب ہیں۔

 الف: مادر امام عليه السلام، امام حسن عسكري عليه السلام کی وفات سے دو سال پہلے دنیا سے چلی گئ تھی ۔۔۔۔

ب: کسی شیعہ اور دوسرے تاریخ نگار نے ایسی بات نہیں کی ہے ۔ امام منتظر عليه السلام حلہ اور حلہ سے باہر بنی عباس کے حاکموں کے ہاتھوں زندانی نہیں بنیں ۔

لہذا ابن خلدوں نے جوباتیں شیعوں کی طرف نسبت دی ہے وہ سرار جھوٹ اور شیعہ عقائد کو خراب کرنے کی کوشش ہے ۔

ثالثاً:   ابن خلدون کی طرف سے شیعوں کی طرف دی گئی جھوٹی نسبتوں میں سے اس کا یہ کہنا ہے کہ شيعه حلہ میں ایک سرداب کے باہر سواری کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کا نام لے کر ان کو باہر نکالنے کے لئے آواز دیتے ہیں اور ستاروں کے نکلنے سے پہلے انہیں باہر نکلنے کے لئے پکارتے ہیں۔

یہ ایسی جھوٹی باتیں ہیں کہ کسی شیعہ نے ایسی باتیں  نہیں سنی ہیں ،شیعہ اس تہمت سے پاک ہیں۔۔۔ ۔

القرشي، باقر شريف (معاصر)، حياة الإمام المهدي (ع)، ص116، ناشر: ابن المؤلف الطبعة: الأولي، 1417هـ ـ 1996م.

شيخ ميرزا حسين نوري طبرسي متوفاي1320هـ نے  كتاب كشف الإستار عن وجه الإمام الغائب عن الأبصار،میں اہل سنت کے بعض بزرگوں کے سرداب کے بارے میں اقوال کو نقل کیا اور پھر اس سلسلے میں یوں لکھا ہے :

 

فنقول: يا علماء العصر وحفاظ الدهر هذه كتب علماء الإمامية ومؤلفاتهم قبل ولادة المهدي عليه السلام إلي هذه الأعصار شايعة وهي بين أظهركم وعندكم أو تتمكنون منها فاذكروا كتاباً واحداً من أصاغر علمائهم فيه ما نسب إليهم فضلاً عن أكابرهم.كالشيخ أبي جعفر محمّد بن يعقوب الكليني صاحب الكافي الذي عده الجزري في جامع الأصول من مجددي مذهب الإمامية في المائة الرابعة،... وهكذا سوي ما ذكروه في كتب المناقب في ذكر أحواله بعد ذكر والده.

نحن كلما راجعنا وتفحصنا لم نجد لما ذكروه أثرا، بل ليس في الأحاديث ذكر للسرداب أصلا....

ہم کہتے ہیں کہ: ارے دانشمندان حضرات اور حافظان عصر، شیعہ علما اور دانشمندوں کی کتابیں جو امام مھدی ع کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد لکھی ہیں، یہ سب اب آپ لوگوں کے اختیار میں ہیں یا کم از کم ان تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں ،اب بڑے شیعہ علما تو  چھوڑے کسی معمولی شیعہ عالم کی کتاب دکھائیں جن میں ان جھوٹی نسبتوں کو ذکر کیا ہوا ، 

شيخ ابوجعفر كليني صاحب كتاب كافي کہ چھوڑے کہ جنہیں ابن أثير جزري نے اپنی كتاب جامع الأصول میں مکتب تشیع کو زندہ کرنے والا کہا ہے اور اس قسم کے دوسرے شیعہ بزرگ علما کی جنہوں نے امام عصر عجل الله تعالي فرجه الشريف کے فضائل اور ان کے والد کے بعد ان کے حال احوال کو نقل کیا ہے ان  میں سے کسی نے ایسی باتیں نقل نہیں کی ہیں ۔   

یہ جو باتیں اور نسبتیں ہماری طرف دی گئی ہیں  ہم نے اس کو تلاش کی لیکن کہیں بھی اس کا ذکر ہماری کتابوں میں نہیں ہے ۔۔۔

نتيجه:

افسانه سرداب، ایسی انتہائی پست قسم کی تہمت اور الزام تراشی ہے کہ جسے اہل سنت کے بزرگ علما نے شیعوں کی طرف نسبت دی ہے اور یہ حقیقت مھدویت کے عقیدے کے سلسلے میں شیعہ نظریات کے مستحکم دلائل کے مقابلے میں ان لوگوں کے عجز و ناتوانی کا نتیجہ ہے۔ ان باتوں کو شیعوں کی طرف نسبت  دے  کر اپنے لوگوں کو دھوکے میں رکھنے کی  کوشش کی ہے ۔ کسی شیعہ کتاب میں اس پر کوئی مدرک اور سند موجود نہیں ہے ۔

 

 

شبھات کے جواب دینے والی ٹیم  تحقيقاتي ادارہ حضرت ولي عصر (عج




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی