سوال : امام زمان علیہ السلام سے منسوب فرمان «فمن ادعي المشاهدة ... فهو كذاب مفتر» کے پیش نظر جو لوگ امام زمان علیہ السلام سے ملاقات کا ادعا کرتے ہیں ان کا کیاحکم ہے اور کیسے یہ ادعا قابل قبول ہے ؟
جواب :
دو قسم کی ملاقاتیں ہیں ؛ صحیح اور معتبر ملاقات غیر صحیح اور غیر معتبر ملاقات، ہم ذیل میں ان دونوں کی وضاحت کریں گے تاکہ مطلب واضح ہوجائے ۔
1 . وہ ملاقات جو امام مہدی علیہ السلام کے ارادے اور صلاحدید کے مطابق انجام پائی،ملاقات کی جگہ ،وقت مدت اور تعداد وغیرہ خود امام کے اختیار سے کے مطابق ہو ، اس قسم کی ملاقات میں کوئی شخص خود ہی اپنی مرضی اور ارادے سے امام سے ملاقات نہیں کرسکتا ،مثلا یہ نہیں کہہ سکتا میں فلان دن فلان جگہ امام سے ملاقات کرنے جاوں گا ۔ اب اس قسم کی ملاقاتیں صحیح اور معتبر ہیں ۔ اور یہ بہت سے علماء اور عرفاء کے لئے یہ حاصل رہی ہیں۔ جیساکہ علامه مجلسي نے بحار الانوار میں ، ميرزاي نوري نے نجم الثاقب میں اور شيخ صدوق نے كمال الدين ۔۔۔۔۔میں ایسے واقعات ذکر کیے ہیں.
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جن بزرگوں کے لئے یہ ملاقات حاصل رہی ہیں انہوں نے خود ان باتوں کو چھپانے کی کوشش کی ہے اور ہر ایک کے سامنے اس کو بیان نہیں .
لہذا عام طور پر خود ان لوگوں کی موت کے بعد ان کے خاص افراد کےتوسط سے یہ واقعات نقل ہوئے ہیں ۔
ظاہری بات ہے کہ جو اس قسم کی ملاقات کو اجتماع میں اور سر عام بیان کرتے ہیں تو ایسے لوگ اس معنوی کام کو مادی شہرت کے نذر کرتے ہیں ایسے شخص کے کام کو شک کی نظر سے دیکھا جائے گا ۔
2 . یہ ملاقات خود ملاقات کرنے والے کے ارادے اور اختیار سے ہو اور تکرار کے ساتھ یہ ملاقاتیں ہوتی رہے ،یعنی جب بھی ملاقات کرنے والا چاہتا ہے وہ امام زمان عليه السلام سے ملاقات کرنے جاسکتا ہے ،تو اس قسم کی ملاقات قابل قبول نہیں ہے ۔ لہذا امام زمان عليه السلام کے آخری نائب جناب علي بن محمد سمري کے نام آپ کے توقيع کے مطابق یہ ادعا کذب ہے :
وسياتي شيعتي من يدعي المشاهدة الا فمن ادعي المشاهدة قبل خروج السفياني والصيحة فهو كذاب مفتر ...
عنقریب میرے ایسے شیعہ بھی آئیں گے کہ جو مجھ سے ملاقات کا ادعا کریں گے ۔ لیکن سفيان اور صيحه آسماني،سے پہلے کوئی ایسا ادعا کریں تو وہ افترا ہے۔
الغيبة شيخ طوسي ص395- احتجاج شيخ طبرسي ج 2 ص 297
یہ سخت الفاظ :
اولا : یہ اس لئے ہے کہ تاکہ جھوٹے اور فریب کار لوگوں کے ذریعے سے لوگوں کے دینی احساسات سے غلط فائدہ اٹھانے والوں اور لوگوں کو دھوکہ دینے والوں کے آگے بند باندھا جائے اور یہ لوگ امام سے ملاقات کا ادعا نہ کرسکے ۔
جیساکہ غیبت صغری کے اتمام اور غیبت کبری کے شروع ہونے کے بعد کسی خاص مصلحت کی وجہ سے امام سے ملاقات کا راستہ بند ہے ۔ کیونکہ غیبت کا فلسفہ غائب ہونا اور لوگوں کے پونہچ سے دوری ہے اور اگر ہر کوئی جاکر ان سے ملاقات کر سکتے ہو اور پھر اس ملاقات کی اطلاع دوسروں کو بھی دئے سکتے ہو تو یہ غیبت کے فلسفہ اور حکمت کے خلاف ہے ۔
ثانيا: امام نے اپنے اس کلام کے ذریعے اس کلی قانوں کو بیان فرمایا کہ ملاقات کے ادعا کی صورت میں اصل اولی اور پہلے پہل اس کا کذب ہونا ہے مگر یہ کہ اس کے برخلاف ثابت ہو ۔ یہ اصال الطہارت اور اصل حلیت کی طرح ہے ۔ یعنی ہر چیز میں اصل پاک ہونا اور حلال ہونا ہے مگر یہ کہ اس کے بر خلاف ثابت ہو ۔
شبهات کے جواب دینے والی ٹیم تحقيقاتي ادارہ حضرت ولي عصر (عج)