ہم امام زمان (عج) کو کیسے راضی رکھ سکتے ہیں ؟
جواب :
اگر امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی رضایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اللہ کی رضایت کو حاصل کرنے کی کوشش کرئے ۔
خلاصہ کلام : امام مہدی علیہ السلام کو راضی کرنے کا بہترین کام یہ ہے کہ جن چیزوں کو اللہ نے واجب قرار دیا ہے انہیں انجام دئے اور جن چیزوں سے اللہ نے منع کیا ہے ان چیزوں سے رک جائے ۔
لیکن عصر غیبت میں شیعوں کے اور بھی وظائف اور ذمہ داریوں کو ذکر ہے ۔ لہذا ان کو ہم مختصر طور پر یہاں ذکر کرتے ہیں:
1. امام کے مقام اور امامت و ولایت کی معرفت
الف : امام کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے :
عَنِ الْفُضَيْلِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ (عليه السلام) يَقُولُ : مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمَوْتُهُ مِيتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ وَ لَا يُعْذَرُ النَّاسُ حَتَّي يَعْرِفُوا إِمَامَهُمْ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَا يَضُرُّهُ تَقَدُّمُ هَذَا الْأَمْرِ أَوْ تَأَخُّرُهُ وَ مَنْ مَاتَ عَارِفاً لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِي فُسْطَاطِه .
المحاسن ، 155 عنه البحار ، ج23 ، ص77 ، ح 6.
فضيل کہتا ہے کہ میں نے امام ابو جعفر عليه السّلام سے سنا ہے کہ آپ فرمارہے تھے : جو بھی اس حالت میں مرئے کہ اس کا کوئی امام نہ ہو تو اس کی موت جہالت کی موت ہے ،امام کی پہچان کے سلسلے میں لوگوں کے عذر کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ جو اپنے امام کی پہچان کے ساتھ مرئے تو اس کو کوئی چیز نقصان نہیں دئے گی ،چاہئے وہ جلدی ظہور کرئے یا دیر سے ظہور کرئے ۔ اور جو اپنے امام کی معرفت اور پہچان کے ساتھ دنیا سے جائے تو وہ ایسا ہے جیسا امام کے خیمے میں ہو ۔
عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عَطَا عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ خَرَجَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ع عَلَي أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلَّا لِيَعْرِفُوهُ فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَا سِوَاهُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَمَا مَعْرِفَةُ اللَّهِ قَالَ مَعْرِفَةُ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ إِمَامَهُمُ الَّذِي يَجِبُ عَلَيْهِمْ طَاعَته
علل الشرايع ، ص 9 عنه البحار ، ج 5 ، ص312 ، ح 1.
سلمة بن عطا نے حضرت صادق عليه السّلام سے نقل کیا ہے :
حضرت امام حسين عليه السّلام نے اپنے اصحاب سے فرمایا : اے میرے اصحاب! اللہ نے لوگوں کو خلق کیا تاکہ اللہ کی پہچان ہو۔ جب اللہ کی پہچان ہوگی تو اللہ کی عبادت کرئے گا اور جب اللہ کی عبادت کرئے گا تو دوسروں کی پرستش سے دوری اختیار کرئے گا۔
کسی نے امام سے پوچھا : یا فرزند رسول اللَّه (ص)! میرے ماں باپ آپ پر قربان ، معرفت کا کیا معنی ہے؟ فرمایا:
ہر زمانے کے لوگوں کا اپنے زمانے کے امام کی پہچان ۔
مرحوم شيخ صدوق رحمت الله عليه نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے :
يعني بذلك أن يعلم أهل كل زمان زمان أن الله هو الذي لا يخليهم في كل زمان من إمام معصوم فمن عبد ربا لم يقم لهم الحجة فإنما عبد غير الله عز و جل .
علل الشرايع ، ص 9 .
ہر زمانے کے لوگوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ اللہ نے انہیں ایسے ہی آزاد نہیں چھوڑا ہے زمین معصوم امام سے خالی نہیں ہے ۔ اگر کوئی اللہ کی پرستش کرتا ہو لیکن وہ یہ سمجھتا ہو کہ اللہ نے اس کے لئے حجت قرار نہیں دیا ہے تو وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتا ، کسی اور کی عبادت کرتا ہے ۔
مرحوم علامه مجلسي نے بھی اس سلسلے میں لکھا ہے :
لعله (عليه السلام) إنما فسر معرفة الله بمعرفة الإمام لبيان أن معرفة الله لا يحصل إلا من جهة الإمام أو لاشتراط الانتفاع بمعرفته تعالي بمعرفته عليه السلام و لما ذكره الصدوق رحمه الله أيضا وجه.
امام عليه السّلام السلام نے اللہ کی معرفت کو اللہ کی معرفت کہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی معرفت امام کے ذریعے سے ہی حاصل ہوتی ہے یا یہ کہ اللہ کی معرفت سے بہرہ مند ہونے کی شرط امام کی معرفت کا حصول ہے ۔اگر اللہ کی معرفت رکھتا ہو لیکن امام کی شناخت نہ رکھتا ہو تو اللہ کی شناخت اس کے لئے فائدہ مند نہیں ہے ۔
جو وضاحت شیخ صدوق نے دی ہے وہ بھی مناسب ہے .
البحار ، ج 23 ، ص83 .
ب : إمام ، اللہ کے اسماء حسناء کا مظهر ہے :
مرحوم شيخ كليني رحمت الله عليه نے كافي میں نقل کیا ہے :
ٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (عليه السلام) فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- « وَ لِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْني فَادْعُوهُ بِها » قَالَ نَحْنُ وَ اللَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَي الَّتِي لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنَ الْعِبَادِ عَمَلًا إِلَّا بِمَعْرِفَتِنَا .
الكافي ، ج 1 ، ص 143.
امام نے اللہ کے اس کلام «اللہ کو الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَي کے ساتھ پکارے » کے بارے میں فرمایا : اللہ کی قسم اللہ کے نیک نام ہم ہیں ،اللہ بندوں کے عمل کو ہماری معرفت کے بغیر قبول نہیں کرتا۔
فقال علي عليه السلام: «... فَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ عَرَفَنَا وَ عَرَفْنَاه ».
بہشت میں نہیں جائے گا مگر یہ کہ وہ ہمیں پہچانتا ہو اور ہم انہیں پہچانتے ہو ۔
ج : امور عالم پر امام کے علم کا احاطہ :
فَإِنَّا يُحِيطُ عِلْمُنَا بِأَنْبَائِكُمْ وَ لَا يَعْزُبُ عَنَّا شَيْ ءٌ مِنْ أَخْبَارِكُم .
بحار ، ج53 ، ص 175 .
ہم تم لوگوں کے امور سے واقف ہیں، تمہارے امور میں سے کوئی ہم سے مخفی نہیں
مرحوم كليني رحمت الله عليه نے ایک دوسری روایت امام صادق عليه السلام سے یوں نقل کیا ہے ۔۔۔
إِنِّي لَأَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَ أَعْلَمُ مَا فِي الْجَنَّةِ وَ أَعْلَمُ مَا فِي النَّارِ وَ أَعْلَمُ مَا كَانَ وَ مَا يَكُونُ قَالَ ثُمَّ مَكَثَ هُنَيْئَةً فَرَأَي أَنَّ ذَلِكَ كَبُرَ عَلَي مَنْ سَمِعَهُ مِنْهُ فَقَالَ عَلِمْتُ ذَلِكَ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ فِيهِ تِبْيَانُ كُلِّ شَيْ ء .
الكافي ، ج1 ، ص 261۔۔۔
فرمایا : جو کچھ زمین میں اور آسمانوں میں ہیں، جو چیز جنت میں اور جو جہنم میں ہیں میں ان کو جاننتا ہوں ، جو ہے اور جو بعد میں وجود میں آئے گا میں ان سب کو جاننتا ہوں ،پھر امام کچھ دیر خاموش رہے ،دیکھا امام کی یہ بات سننے والوں پر گران گزری ،تو امام نے فرمایا : میں نے یہ سب اللہ کی کتاب سے جان لیا ہے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے : اس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے ۔
2 - انتظار فرج
عصر غیبت میں شیعوں کی دوسری ذمہ داری انتظار فرج ہے : اما سجاد عليه السلام نے ابو خالد كابلي سے خطاب میں فرمایا:
يَا أَبَا خَالِدٍ إِنَّ أَهْلَ زَمَانِ غَيْبَتِهِ الْقَائِلُونَ بِإِمَامَتِهِ الْمُنْتَظِرُونَ لِظُهُورِهِ أَفْضَلُ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَي ذِكْرُهُ أَعْطَاهُمْ مِنَ الْعُقُولِ وَ الْأَفْهَامِ وَ الْمَعْرِفَةِ مَا صَارَتْ بِهِ الْغَيْبَةُ عِنْدَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الْمُشَاهَدَةِ وَ جَعَلَهُمْ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِينَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ ص بِالسَّيْفِ أُولَئِكَ الْمُخْلَصُونَ حَقّاً وَ شِيعَتُنَا صِدْقاً وَ الدُّعَاةُ إِلَي دِينِ اللَّهِ سِرّاً وَ جَهْراً وَ قَالَ (عليه السلام) انْتِظَارُ الْفَرَجِ مِنْ أَعْظَمِ الْفَرَج ۔۔۔
بحار الأنوار ، ج52 ، ص122 .
اے ابو خالد ان کے زمانے کے وہ لوگ جو انہیں امام مانتے ہیں اور ان کے ظہور کے انتظار میں رہتے ہیں وہ لوگ تمام زمانے کے لوگوں سے بہتر ہے کیونکہ اللہ نے انہیں ایسی عقل اور فہم دیا ہے کہ غیبت ان کے لئے حضور اور مشاہدے کی طرح ہے ۔اللہ اس زمانے کے لوگوں کو ان لوگوں کی طرح قرار دیتا ہے کہ جو دین کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شانہ بشانہ لڑے ہوں۔ یہ حقیقی مخلص اور سچے شیعہ ہیں ۔یہ لوگوں کو مخفی طور پر بھی اور اعلانیہ طور پر بھی دین کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔ اسی طرح آپ نے فرمایا : انتظار فرج بزرگترین فرج ہے ۔
3 – امام کے لئے دعا
خود امام زمان عجل الله تعالي فرجه الشريف ، نے اپنے مشہور توقيع میں فرمایا :
وَ أَكْثِرُوا الدُّعَاءَ بِتَعْجِيلِ الْفَرَج .
بحار الأنوار ، ج52 ، ص92 ، ح 7 .
جلدی ظہور کے لئے زیادہ دعا کیا کرو ۔
مرحوم شيخ صدوق نے كمال الدين میں احمد بن اسحاق کے توسط سے امام عسكري عليه السلام سے نقل کیا ہے :
وَاللَّهِ لَيَغِيبَنَّ غَيْبَةً لَا يَنْجُو فِيهَا مِنَ التَّهْلُكَةِ إِلَّا مَنْ يُثْبِتُهُ اللَّهُ عَلَي الْقَوْلِ بِإِمَامَتِهِ وَوَفَّقَهُ لِلدُّعَاءِ بِتَعْجِيلِ فَرَجِه .
كمال الدين ، ص 384 و بحار الأنوار ، ج52 ، ص25، ح 16.
اللہ کی قسم ( حضرت قائم عج ) کی ایسی غیبت ہوگی جس سے وہی( گمراہی اور بے دینی سے ) نجات حاصل نہیں کرسکتا جس کو اللہ نے عقیدہ امامت پر ثابت قدم رکھا ہو اور حضرت قائم علیہ السلام کے جلد ظہور کے لئے دعا کرنے کی توفیق دی ہو ۔
4 – حضرت کے فراق کی وجہ سے حزن و اندوھ کی حالت میں رہنا
عَنْ سَدِيرٍ الصَّيْرَفِيِّ قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَ الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ وَ أَبُو بَصِيرٍ وَ أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ عَلَي مَوْلَانَا أَبِي عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فَرَأَيْنَاهُ جَالِساً عَلَي التُّرَابِ وَ عَلَيْهِ مِسْحٌ خَيْبَرِيٌّ مُطَوَّقٌ بِلَا جَيْبٍ مُقَصَّرُ الْكُمَّيْنِ- وَ هُوَ يَبْكِي بُكَاءَ الْوَالِهِ الثَّكْلَي ذَاتَ الْكَبِدِ الْحَرَّي قَدْ نَالَ الْحُزْنُ مِنْ وَجْنَتَيْهِ وَ شَاعَ التَّغَيُّرُ فِي عَارِضَيْهِ وَ أَبْلَي الدُّمُوعُ مَحْجِرَيْهِ وَ هُوَ يَقُولُ سَيِّدِي غَيْبَتُكَ نَفَتْ رُقَادِي وَ ضَيَّقَتْ عَلَيَّ مِهَادِي وَ أَسَرَتْ مِنِّي رَاحَةَ فُؤَادِي سَيِّدِي غَيْبَتُكَ أَوْصَلَتْ مُصَابِي بِفَجَائِعِ الْأَبَدِ وَ فَقْدُ الْوَاحِدِ بَعْدَ الْوَاحِدِ يُفْنِي الْجَمْعَ وَ الْعَدَدَ فَمَا أُحِسُّ بِدَمْعَةٍ تَرْقَي مِنْ عَيْنِي وَ أَنِينٍ يَفْتُرُ مِنْ صَدْرِي عَنْ دَوَارِجِ الرَّزَايَا وَ سَوَالِفِ الْبَلَايَا إِلَّا مُثِّلَ لِعَيْنِي عَنْ عَوَائِرِ أَعْظَمِهَا وَ أَفْظَعِهَا وَ تَرَاقِي أَشَدِّهَا وَ أَنْكَرِهَا وَ نَوَائِبَ مَخْلُوطَةٍ بِغَضَبِكَ وَ نَوَازِلَ مَعْجُونَةٍ بِسَخَطِك .
كمال الدين ، ص 352 و بحار الأنوار ، ج51 ، ص219 ، ح 9 .
سدير صيرفي کہتا ہے : میں ، مفضّل بن عمر ، ابو بصير اور ابان بن تغلب امام جعفر صادق عليه السّلام کے حضور میں شرفياب ہوئے دیکھا امام زمین پر ایک بغیر آستین کے ایک عبا پہن کر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک ایسے شخص کی طرح دلخراش انداز میں رو رہے تھے جس کا فرزند مرا ہو ، حزن و اندوھ کے آثار آپ کے چہرے پر واضح تھا اور آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوا تھا اور آپ کی آنکھیں آنسوں سے بری ہوئی تھیں۔ اور آپ فرمارہے تھے : اے میرے سردار ! آپ نے میری نیند آڑھا دی ہے، صبر کا لباس مجھے پہنا دیا ہے اور میرے سکون کو مجھ سے چھین لیا ہے ۔
اے میرے آقا ! آپ کی غیبت نے میری مصیبت کو ابدی اور دائمی بنائی ہے ۔۔۔۔۔۔
جب امام صادق عليه السلام اس طرح حضرت مهدي عجل الله تعالي فرجه الشريف ، کے فراق میں روتے اور آشک جاری کرتے ہیں تو ہمارا کیا حال ہونا چاہئے ؟
5 - عهد وپيمان :
دعاي عهد میں امام صادق عليه السلام سے نقل ہوا ہے :
اللَّهُمَّ إِنِّي أُجَدِّدُ لَهُ فِي صَبِيحَةِ يَوْمِي هَذَا وَ مَا عِشْتُ مِنْ أَيَّامِي عَهْداً وَ عَقْداً وَ بَيْعَةً لَهُ فِي عُنُقِي لَا أَحُولُ عَنْهَا وَ لَا أَزُولُ أَبَدا
بحار الأنوار ، ج53 ، ص 96 .
اے اللہ ! میں تازہ کرتا ہوں ان کے لیے آج کے دن کی صبح کو اور جب تک زندہ ہوں باقی ہے یہ پیمان یہ بندھن اور ان کی بیعت جو میری گردن پر ہے نہ اس سے مکروں گانہ کبھی ترک کروں گا ۔
6 - تقوي کی رعايت اور امام سے ملاقات کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنا:
عصر غيبت میں شیعوں کی اہم ترین ذمہ داری تقواي الهي اختیار کرنا ہے اور شیعوں کی طرف سے تقوا کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے ہم ہر سال ان کے فراق کی وجہ سے رنجیدہ ہے ۔
وَ لَوْ أَنَّ أَشْيَاعَنَا وَفَّقَهُمُ اللَّهُ لِطَاعَتِهِ عَلَي اجْتِمَاعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فِي الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ عَلَيْهِمْ لَمَا تَأَخَّرَ عَنْهُمُ الْيُمْنُ بِلِقَائِنَا وَ لَتَعَجَّلَتْ لَهُمُ السَّعَادَةُ بِمُشَاهَدَتِنَا عَلَي حَقِّ الْمَعْرِفَةِ وَ صِدْقِهَا مِنْهُمْ بِنَا فَمَا يَحْبِسُنَا عَنْهُمْ إِلَّا مَا يَتَّصِلُ بِنَا مِمَّا نَكْرَهُهُ وَ لَا نُؤْثِرُهُ مِنْهُمْ وَ اللَّهُ الْمُسْتَعانُ وَ هُوَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَكِيل .
بحار الأنوار ، ج53 ، ص177 و الإحتجاج ، ج2 ، ص 499 .
اگر اللہ ہمارے شیعوں کو تقوی کی توفیق دئے اور شیعہ دل سے اپنے عہد و پیمان پر متحد ہو تو ہماری ملاقات کی سعادت کی حصول میں تاخیر نہ ہوتی اور ہماری ملاقات سے بہر مند ہوجاتے اور یہ سب ہماری مکمل شناخت اور ہماری نسبت سے صداقت سے کام لینے سے حاصل ہوتی ہے ۔
جو چیز شیعوں سے ہمیں روکے رکھنے کا سبب ہے وہ ان کی طرف سے ایسے کاموں کا ارتکاب اور ہم تک پہنچنا ہے کہ جو ہمیں ناپسند اور ہمارے لئے باعث تکلیف ہیں۔ ہمیں ایسے کاموں کی ان سے توقع نہیں ہے ۔ صرف اللہ سے مدد مانگے ، اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور اللہ ہی نہایت اچھا وکیل ہے ۔
اللہ ہم سب کو ان سے ملاقات اور ان کی قیادت میں دین کو دنیا پر حاکم کرنے اور دین کی راہ میں قربانی دینے کی توفیق دئے ۔
شبھات کے جواب دینے والی ٹیم تحقیقاتی ادارہ حضرت ولي عصر (عج)