بسم الله الرحمن الرحیم
شبھہ کی وضاحت
بعض اہل سنت یہ ادعا کرتے ہیں کہ صحیح سند روایات کے مطابق امیر المومنین علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے فورا بعد ابوبکر کی بیعت کی اور یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی اس روایت کے ساتھ قابل جمع بھی ہے کہ جو چھے مہنے بعد بیعت کرنے کو بتاتی ہے۔
مذکورہ حدیث کا متن
«... فقال علي رضي الله عنه لاتثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه».
«... علی علیہ السلام نے فرمایا: اے رسول الله صلی الله علیه و آلہ و سلم کے جانشین! کوئی سرزنش والی بات نہیں، اپنا ہاتھ بڑھائے ،جب ہاتھ بڑھایا تو حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر کی بیعت کی »
شيباني، عبد الله بن أحمد بن حنبل، السنة، ج2، ص 554، ناشر: دار ابن القيم – الدمام، چاپ اول، 1406، تحقيق: د. محمد سعيد سالم القحطاني، دو جلد
اس حدیث کے بارے میں ابن حجر کا نظریہ :
«... وَقد صحح ابن حبان وغيره من حديث أبي سعيد الخدري وغيره أَن عليا بايع أبابكر في أَول الأمر... ».
«... ابن حبان اور دوسروں نے ابوسعید خدری کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے فورا ابوبکر کی بیعت کی .»
عسقلاني شافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 7، ص: 495، ناشر : دار المعرفة - بيروت ، 1379، 13 جلدي
ابن كثير کا نظریہ :
«وهذا إسناد صحيح محفوظ من حديث أَبي نضرة المنذر بن مالك، عن أَبي سعيد سعد بن مالك بن سنان الخدري وفيه فائدة جليلة وهي مبايعة علي بن أَبي طالب إِما في أَول يوم أَو في اليوم الثاني من الوفاة».
«اس روایت کو ابی نضره نے ابوسعید خدری سے نقل کیا ہے ماس کی سند صحیح اور محفوظ ہے . اس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب [علیهما السلام] نے پیامبر اکرم صلی الله علیه و آلهکی وفات کے فورا بعد ابوبکر کی بیعت کی ۔
ابن كثير القرشي أبو الفداء، إسماعيل بن عمر، البداية والنهاية، ج5، ص 249، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت، 14جلد
ابن كثير نے مسلم والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔
«وهي ثانية للبيعة التي ذكرناها أولا يوم السقيفة كما رواه ابن خزيمة و صححه مسلم بن الحجاج، ولم يكن علي مجانبا لأبي بكر هذه الستة الأشهر بل كان يصلي وراءه ويحضر عنده للمشورة ...».
یہ دوسری بیعت ہے اور یہ سقیفہ کے دن والی بیعت کے بعد کی گئی جیساکہ اس کو ابن حزیفہ نے روایت کیا ہے اور صحیح مسلم کی روایت کو بھی صحیح قرار دیا ہے اور چھے مہینہ تک حضرت علی نے علیہ السلام ابوبکر سے دوری اختیار نہیں کی بلکہ آپ ان کی اقتداﺀ میں نماز ادا کرتے اور مشورہ کے لئے ان کے پاس آتے رہیں۔
ابن كثير القرشي أبو الفداء، إسماعيل بن عمر، البداية والنهاية، ج5، ص 286، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت، 14جلد
«... ولكن لما وقعت هذه البيعة الثانية اعتقد بعض الرواة أن عليا لم يبايع قبلها فنفى ذلك، و المثبت مقدم على النافي كما تقدم وكما تقرر...»
« اور جب یہ بیعت واقع ہوئی تو بعض راویوں نے یہ خیال کیا ہے آپ نے اس سے پہلے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی جبکہ ابن خزیفہ کی مذکورہ روایت اس نظریے کو رد کرتی ہے ۔قانون یہ ہے کہ مثبت ،منفی پر مقدم ہے اور یہ ایک ثابت شدہ قانون ہے .»
ابن كثير القرشي أبو الفداء، إسماعيل بن عمر، البداية والنهاية، ج5، ص 286، ناشر: مكتبة المعارف – بيروت، 14جلد
3. شبهه کا جواب
امیرالمومنین علیه السلام کی طرف سے رسول الله صلی الله علیه و آله کی وفات کے ایک دو دن بعد بیعت کا نظریہ باطل ہے ؛
اولا: اس نظریے کے اسناد میں اشکال ہے .
ثانیا: یہ روایات اہل سنت کی سب سے معتبر کتاب یعنی صحیح بخاری اور مسلم کی روایات کے ساتھ متعارض اور مخالف ہیں اور جب ان کتابوں کی روایات دوسری کتابوں کی روایات سے ٹکرائے تو صحیحین کی روایات مقدم ہیں ۔
ثالثا: منفی پر مثبت کو مقدم کرنے والا قانون بہت سی جگہوں پر شیعوں کے حق میں ہے اور اس کا مذکورہ بحث سے کوئی تعلق نہیں ۔
اس شبھہ کو بیان کرنے کا مقصد :
امیر المومنین علی علیہ السلام اور خلفاﺀ کے درمیان کسی قسم کے اختلاف ہونے کا انکار اور یہ بتانا کہ ابوبکر ہی خلیفہ بلافصل ہے ،نیز ان کے درمیان دوستانہ تعلقات کا اثبات اور ساتھ یہ بتانا کہ بارہ ائمہ علیہم السلام کی خلافت کا عقیدہ صحیح نہیں ہے ۔
انتقادی جواب :
ہم آگے تفصیلی اور حلی جواب میں بتائیں گے اس قسم کے ادعا کرنے والوں نے امیر المومنین (ع) اور حضرت زہرا (س) کا خلفاﺀ کی مخالفت کے بہت سے اسناد سے چشم پوشی کر کے بعض ضعیف باتوں کو بنیاد بنا کر ایسا نظریہ اپنایا ہے ۔
شیعہ روایات اور شیعہ علماﺀ کی صحیح سند روایات کے مطابق مولا علی علیهالسلام نے ایک لحظہ کے لئے بھی ابوبکر کی بیعت نہیں کی ! مرحوم طبرسی نے «ابان بن تغلب» سے نقل کیا ہے کہ امام صادق علیهالسلام نے رسول خدا صلی الله علیه و آله، کی وفات کے بعد کی سیاسی اور فکری حالات کو بیان کرنے کے بعد حضرت علی علیهالسلام سے اپنے ساتھیوں کے اس سلسلے کے سوال کے جواب کو یوں نقل کیا :
«... وَ ايْمُ اللَّهِ لَوْ فَعَلْتُمْ ذَلِكَ لَأَتَيْتُمُونِي شَاهِرِينَ بِأَسْيَافِكُمْ مُسْتَعِدِّينَ لِلْحَرْبِ وَ الْقِتَالِ وَ إِذاً لَأَتَوْنِي فَقَالُوا لِي بَايِعْ وَ إِلَّا قَتَلْنَاكَ فَلَا بُدَّ لِي مِنْ أَنْ أَدْفَعَ الْقَوْمَ عَنْ نَفْسِي وَ ذَلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص أَوْعَزَ إِلَيَّ قَبْلَ وَفَاتِهِ وَ قَالَ لِي يَا أَبَا الْحَسَنِ إِنَّ الْأُمَّةَ سَتَغْدِرُ بِكَ مِنْ بَعْدِي وَ تَنْقُضُ فِيكَ عَهْدِي وَ إِنَّكَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى وَ إِنَّ الْأُمَّةَ مِنْ بَعْدِي كَهَارُونَ وَ مَنِ اتَّبَعَهُ وَ السَّامِرِيِّ وَ مَنِ اتَّبَعَهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا تَعْهَدُ إِلَيَّ إِذَا كَانَ كَذَلِكَ فَقَالَ إِذَا وَجَدْتَ أَعْوَاناً فَبَادِرْ إِلَيْهِمْ وَ جَاهِدْهُمْ وَ إِنْ لَمْ تَجِدْ أَعْوَاناً كُفَّ يَدَكَ وَ احْقِنْ دَمَكَ حَتَّى تَلْحَقَ بِي مَظْلُوماً»
طبرسى، احمد بن على، الإحتجاج على أهل اللجاج، ج1 ؛ ص75، مشهد، چاپ: اول، 1403 ق.
«... اللہ کی قسم اگر ایسا کرتے تو جنگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا جبکہ تم لوگ تعداد میں کھانے میں نمک کے برابر تھے اور پائیداری کے لحاظ سے آنکھوں میں سرمہ کی مانند تھے ،اللہ کی قسم اگر تم لوگ ایسا کرتے تو یہ لوگ مجھے نہیں چھوڑتے اور ننگی تلوار لے کر مجھ سے جنگ کرتے اور مجھ سے کہتے کہ میں یا بیعت کروں یا مرنے کے لئے تیار ہوجاوں،ایسے میں تسلیم ہونے کے علاوہ میرے لئے کوئی راستہ باقی نہیں رہتا اور یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نصیحت کے مطابق انجام پایا۔
کیونکہ رحلت کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: «عنقریب یہ امت میرے بعد آپ کو دھوکہ دے گی اور آپ کے بارے میں میری نصیحتوں کی رعایت نہیں کرئے گی یہ جان لیں آپ کی نسبت مجھ سے وہی ہے جو جناب ھارون کو موسی علیہ السلام سے تھی۔
،میرے بعد ہدایت یافتہ گروہ جناب ھارون اور ان کے شیعوں کی طرح ہے اور گمراہی والا گروہ اور اس کی پیروی کرنے والوں کی مانند ہے ۔ میں نے عرض کیا : اس دن میں کیا کروں؟اگر مدد کرنے والے ملے تو جہاد کرو اور اگر ایسا نہیں ہوا تو ایسے میں ہاتھ کھینچے رکھو اپنے خون کی حفاظت کرو اور مجھ سے مظلومانہ حالت میں ملاقات کرو ».
طبرسى، احمد بن على، الإحتجاج / ترجمه جعفرى، ج1 ؛ ص169، تهران، چاپ: اول، 1381 ش.
فیض کاشانی کہ جو شیعہ بڑے علماﺀ میں سے ہیں انہوں نے اس سلسلے میں نقل کیا ہے :
«... فأمر عمر قنفذ بن عمر لعنه اللّه أن يضربها بسوطه، فضربها قنفذ بالسّوط على ظهرها و جنبيها إلى أن أنهكها و أثر في جسمها الشريف و كان ذلك الضرب أقوى سبب في إسقاط جنينها و قد كان رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله سمّاه محسنا و جعلوا يقودون أمير المؤمنين عليه السّلام إلى المسجد حتّى أوقفوه بين يدي أبي بكر و قالوا له مدّ يدك فبايع. فقال: و اللّه لا أبايع و البيعة لي في رقابكم. قال: فان لم أفعل! قالوا: نضرب الّذي فيه عيناك قال: فرفع رأسه إلى السماء و قال اللّهم إنّى أشهدك أنّهم أتوا أن يقتلونى فإنّي عبد اللّه و أخي رسول اللّه صلى اللّه عليه و آله. قال: فمدّوا يده كرها فقبض عليه السّلام على أنامله، فراموا بأجمعهم فتحها فلم يقدروا فمسح عليها أبو بكر و هى مضمومة و هو عليه السّلام يقول و ينظر إلى قبر رسول اللّه صلى اللّه عليه و آله «يا ابن أم إن القوم استضعفوني و كادوا يقتلونني»
عمر نے قنفذ _ لعین کو حکم دیا کہ وہ تلوار کے غلاف سے حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها] کو مارے، اس نے تلوار کے غلاف کے ذریعے ان کے پشت اور پہلو پر مارا اس سے آپ زمین پر گری اور پھر انہیں ضربات کی وجہ سے آپ شہید ہوٗی اسی ضربے کی وجہ سے ان کا بچہ سقط ہوا ،اس فرزند کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے محسن نام رکھا تھا۔
مہاجریں امیر المومنین علیہ السلام کو گھسیٹتے گھسیٹے بیعت کے لئے مسجد لے گئے ، ابوبکر کے سامنے آپ کو لایا اور آپ سے کہا : ہاتھوں کو باہر نکالو اور ابوبکر کی بیعت کرو ۔ آپ نے جواب میں فرمایا : اللہ کی قسم میں بیعت نہیں کروں گا جبکہ میری بیعت تم لوگوں کی گردن پر ہے ۔
اور اگر میں بیعت نہ کروں تو کیا کرو گے ؟ جواب دیا : بیعت نہ کرئے تو سر تن سے جدا کر دیں گے اور اس وقت امیر المومنین علیہ السلام نے سر آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا : اے اللہ گواہ رہنا یہ لوگ مجھے قتل کرنے آئے ہیں ۔ جبکہ میں اللہ کا بندہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھائی ہوں۔ راوی کہتا ہے کہ ان لوگوں نے طاقت کا استمال کیا اور آپ کے ہاتھوں کو باہر نکالا جبکہ امیر المومنین علیہ السلام بیعت نہ کرنے کے لئے مٹھی کو بند کیا ہوا تھا۔ لوگوں نے بہت زور لگایا لیکن اپ کی مٹھی کو نہیں کھول سکے پھر ابوبکر نے اپنے ہاتھ کو امیر المومنین علیہ السلام کے ہاتھو پر پھیرا جبکہ آپ کی مٹھی بند تھی۔ امیرالمومنین علیهالسلام اس وقت پیامبر صلی الله علیه و آله کی قبر کی طرف دیکھ کر فرمارہے تھے : «يا ابن أم إن القوم استضعفوني و كادوا يقتلونني»
فيض كاشانى، محمد محسن بن شاه مرتضى، نوادر الأخبار فيما يتعلق بأصول الدين، النص ؛ ص183، تهران، چاپ: اول، 1371 ش.
شیخ مفید نے «الفصول المختارة» میں واضح طور پر فرمایا :
«و المحققّون من أهل الإمامة يقولون: لم يبايع ساعة قطّ».
شیعہ محقق علماﺀ کا یہ نظریہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے ایک لحظہ کے لئے بھی ابوبکر کی بیعت نہیں کی ۔
مفيد، محمد بن محمد، الفصول المختارة،ص 56، 1جلد، دار المفيد - قم (ايران)، چاپ: 1، 1413 ه.ق.
اہل سقیفہ نے امیر المومنین علیہ السلام پرامت کے اتحاد کو ختم کرنے کا الزام لگایا اور انہیں دھمکی دی گئی ۔اہل سنت کے بڑے عالم بہیقی نے نقل کیا ہے :
«... فلمّا قعد أبو بكر على المنبر نظر في وجوه القوم، فلم ير علياً، فسأل عنه، فقام ناس من الأنصار فأتوا به، فقال أبو بكر: ابن عمّ رسول الله... أردت أن تشقّ عصا المسلمين؟!...»
جس وقت ابوبکر ممبر پر گیا اور ادھر ادھر دیکھا لیکن حضرت علی علیه السلام کو نہیں دیکھا ! لوگوں سے پوچھا تو انصار کی ایک جماعت وہاں سے اٹھے اور حضرت علی علیه السلام کو مسجد لے آیا۔ ابوبکر نے ان کی طرف رخ کر کے کہا : اے پیغمبر (ص) کے چچا کے بیٹے ! کیا مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنا چاہتے ہو ؟
بيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر، سنن البيهقي الكبرى،ج8، ص 143، ناشر: مكتبة دار الباز - مكة مكرمة ، 1414 – 1994، تحقيق : محمد عبد القادر عطا، 10 جلد
خلیفہ اول کا یہ جملہ «أردت أن تشقّ عصا المسلمين» ایک قسم کے قتل کی دھمکی تھی؛ کیونکہ اهل سنت نے رسولالله صلی الله علیه و آله سے یہ روایت نقل کی ہے :
«إذا خرج عليكم خارج يشقّ عصا المسلمين، و يفرّق جمعهم، فاقتلوه ما أستثني أحداً».
اگر گوئی امت کے اتحاد کو توڑے اور امت میں اختلاف ایجاد کرئے تو اس کو قتل کرو ،میں اس حکم میں کسی کے لئے بھی چھوٹ نہیں دیتا ہوں۔
عسقلاني شافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل، الإصابة في تمييز الصحابة، ج4، ص 199، ناشر: دار الجيل، بيروت، چاپ اول، 1412، تحقيق : علي محمد البجاوي، هشت جلدی
لہذا ابوبکر کی طرف سے اتحاد توڑنے کا الزام در حقیقت اس حکم کو جاری کرنے کا آپ کو مستحق سمجھنا تھا ۔ اب اگر امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے ابوبکر کی بیعت کی مخالفت ہی نہ ہوتی تو انہیں مسجد میں لانے کی ضرورت کیا تھی اور ان پر مسلمانوں کے اتحاد توڑنے کا الزام لگانے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟
اگرچہ قتل کی دھمکی اس سے پہلے بھی آپ کے گھر پر حملے میں بھی دی گئی تھی کیونکہ ابوبکر کے حکم سے خلیفہ دوم جب آپکے گھر میں موجود لوگوں کو نکالنے کے لئےروانہ ہوا تو اس وقت بھی یہی دھمکی دی ۔
«بعث أبوبكر عمر بن الخطاب إلى هؤلاء ليخرجهم من بيت فاطمة، و قال له: إن أبوا فقاتلهم»
جب ابوبکر نے عمر کو بیت فاطمہ سلام اللہ علیہا میں موجود لوگوں کو نکالنے کے لئے بھیجا تو یہ دستور دیا کہ اگر یہ لوگ باہر نہ نکلے تو ان لوگوں کو قتل کرئے ۔
عقد الفريد، ج4، ص 247، دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان - 1420ه و تاريخ أبي الفداء، ج1، ص 156
اب اس طرح باقی اسناد سے چشم پوشی کی وجہ صحیح مسلم کی حدیث سے بھی مزید واضح ہوجاتی ہے ۔
«... ولم يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الْأَشْهُرَ فَأَرْسَلَ إلي أبي بَكْرٍ أَنْ ائْتِنَا ولا يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَكَ كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ...»
امیرالمومنین علی علیه السلام نے ان چھے مہینوں میں ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور پھر کسی کو ابوبکر کے پاس روانہ کیا اور یہ کہا ہمارے پاس آئے لیکن کسی کو ساتھ لے کر نہیں آنا کیونکہ آپ عمر کے بھی ساتھ ہونے کو پسند نہیں کرتے تھے
البخاري الجعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1549، ح 3998، كتاب المغازي، باب غزوة خيبر، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987
ابوبکر کی بیعت کی کوئی حیثیت نہ ہونا :
خاص کر صحیح بخاری کی روایت کے مطابق جو انتخاب اور بیعت سقیفہ میں ہوئی اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک جلدی بازی ،بغیر سوچے اور مشورت کے انجام پایا ہوا ایسا کام تھا کہ خود عمر بھی اس طرح انتخاب ہونے والے خلیفہ کو قتل کا مستحق سمجھتا تھا ۔ ۔
«... إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ قَائِلًا مِنْكُمْ يَقُولُ: وَاللَّهِ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ بَايَعْتُ فُلاَنًا، فَلاَ يَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ يَقُولَ: إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ، أَلاَ وَ إِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا ... مَنْ بَايَعَ رَجُلاً عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَلاَ يُبَايَعُ هُوَ وَلاَ الَّذِى بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلاَ...»
«... بعض لوگ کہہ رہے ہیں:[ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ بَايَعْتُ فُلاَنًا] اگر عمر مر جائے تو ہم فلاں کی بیعت کریں گے ، دیکھو تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو ابوبکر کی بیعت ناگاہ ہوئی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوئی ہے اس سے تم کو بچائے رکھا ۔۔۔۔دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے مسلمانوں کے صلاح مشورہ اور اتفاق اور غلبہ آراء کے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوا دیں گے۔
[ إِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صلى الله عليه وسلم إِلاَّ أَنَّ الأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ،]
جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات ہو گئی تب سارے کے سارے انصار میرے مخالف ہو گئے اور ہماری مخالفت میں سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو گئے۔۔۔
بخاري جعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله، الجامع الصحيح المختصر، ج 6، ص 2505، کتاب المحاربين من اهل الکفر و الرده ، باب رجم الحبلى من الزنا إذا أحصنت، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة – بيروت، چاپ سوم، 1407 – 1987، شش جلد، به همراه تعلیقات دکتر مصطفى ديب البغا
لہذا امیر المومین علیه السلام نے ایسی بے ارزش اور بہودہ بیعت میں شرکت ہی نہیں کی اور یہ ان کے فضائل میں سے ہے ،آپ ایک بغیر مشورت کے جلد بازی میں انجام پانے والے شر آفرین کام میں شریک نہیں ہوئے ۔ اب بعض لوگ اس حقیقت کو چھپانے کے لئے امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے خلیفہ کی بیعت کو زیادہ اچھالتے ہیں جبکہ نہ اس قسم کی بیعت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی امیر المومنین (ع) ، بنی ہاشم اور دوسرے بہت سے اصحاب نے ان کی بیعت کی ہے ۔۔۔
بغیر کسی وجہ کے حضرت علی علیهالسلام کو ڈانٹنا۔
بیهقی اور عبدالله بن احمد بن حنبل نے نقل کیا ہے :
«... حدثني عبيد الله بن عمر القواريري، نا عبد الأعلى بن عبد الأعلى، نا داود بن أبي هند، عن أبي نضرة ، قال : لما اجتمع الناس على أبي بكر رضي الله عنه فقال ما لي لا أرى عليا قال : فذهب رجال من الأنصار فجاءوا به فقال له : يا علي قلت ابن عم رسول الله وختن رسول الله ؟ فقال علي رضي الله عنه : لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه...»
«... ابی نضره نے نقل کیا ہے : جب لوگ ابوبکر کی بیعت کے لئے جمع ہوئے تو ابوبکر نے کہا : «کیا ہوا علی علیهالسلام کو یہاں نہیں دیکھ رہا ہوں ؟». راوی نقل کرتا ہے : انصار میں سے بعض حضرت علی علیهالسلام کو لانےگئے اور جب انہیں لایا تو ابوبکر نے مولا علی علیهالسلام سے کہا : «اے علی علیهالسلام کیا آپ رسول خدا صلی الله علیه و آله کے داماد اور ان کے چچا زاد بھائی نہیں ہو ؟[یعنی بغیر کسی وجہ کے آپ کی ڈانٹ. جیساکہ سنن بیهقی میں نقل ہوا ہے : «... أردت أن تشق عصا المسلمين...» کیا آپ مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنا چاہتے ہو؟] علی علیالسلام نے کہا : اے رسول الله صلی الله علیه و آله کے خلیفه(لا تثریب ! ہاتھ بڑھائیں! ابوبکر نے ہاتھ بڑھایا تو حضرت علی علیهالسلام نے بیعت کی ... .»
شيباني، عبد الله بن أحمد بن حنبل، السنة، ج2، ص 556، ناشر: دار ابن القيم – الدمام، چاپ اول، 1406، تحقيق: د. محمد سعيد سالم القحطاني، دو جلد
بيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر، سنن البيهقي الكبرى،ج8، ص 143، ناشر: مكتبة دار الباز - مكة مكرمة ، 1414 – 1994، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، 10 جلد
اب سوال یہ ہے کہ اگر اس روایت کی سند صحیح ہو تو امیرمومنین علی علیهالسلام، کی طرف سے بیعت میں معمولی تاخیر کی وجہ سے آپ کی اس طرح سرزنش کیجانی چاہئے تھی؟ وہ بھی ایسی بیعت کہ جو عمر کے نذدیک جلدی بازی اور بغیر سوچے سمجھے انجام پانے والا ایک کام تھا اور اس کو دوبارہ اس طرح تکرار کی صورت میں ایسے خلیفہ کو قتل کا مستحق سمجھتا تھا!
کیا ابوبکر کو یہ معلوم نہیں تھا کہ امیرالمومنین علیه السلام پیامبر اکرم صلی الله علیه و آله کے فراق کے غم میں تھے ، عزادار تھے اور ان کی اگلوتی بیٹی اور حسین کریمین علیہم السلام کو دلاسا دینے اور رسول الله صلی الله علیه و آله کے غسل ،کفن و دفن وغیرہ کے کاموں میں مصروف تھے ؟
مذکورہ روایت کی سند کی تحقیق
شیعہ مخالفین کی طرف سے مورد اسناد حدیث :
«... حدثني عبيد الله بن عمر القواريري ، نا عبد الأعلى بن عبد الأعلى ، نا داود بن أبي هند ، عن أبي نضرة ، قال : لما اجتمع الناس على أبي بكر رضي الله عنه فقال ما لي لا أرى عليا قال : فذهب رجال من الأنصار فجاءوا به فقال له : يا علي قلت ابن عم رسول الله وختن رسول الله ؟ فقال علي رضي الله عنه : لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه...»
پہلی بات تو یہ ہے کہ روایت جعلی ہے اور اس کی سند میں ضعیف ،متہم اور ناصبی راویاں بھی موجود ہیں ۔
جعلی حدیث کی قیمت دیکھیں۔۔۔
جیساکہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان موجود اختلافات میں سے بنیادی ترین اختلاف خلافت اور جانشینی کے مسئلے میں موجود اختلاف ہے ، اہل سقیفہ نے حقائق پر پردہ ڈالنے اور حاکموں کے کرتوتوں کو چھپانے کے لئے جعلی احادیث کا سہارا لیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ جناب امیر المومنین علیہ السلام نے بغیر کسی اعتراض کے اور بغیر کسی تاخیر کے ابوبکر کی بیعت کی تھی۔
اور بعض نے ایسی جعلی احادیث کی قیمت بھی لگائی ، جیساکہ مذکورہ حدیث کے بارے میں نقل ہوا ہے :
«... محَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَيْمَةَ يَقُولُ جَاءَنِى مُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ فَسَأَلَنِى عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَكَتَبْتُهُ لَهُ فِى رُقْعَةٍ وَقَرَأْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ هَذَا حَدِيثٌ يَسْوَى بَدَنَةً فَقُلْتُ يَسْوَى بَدَنَةً بَلْ هُوَ يَسْوَى بَدْرَةً»
ابن خزیمة [اهل سنت کے بزرگ محدث] کہتا ہے کہ : مسلم بن حجاج نیشابوری نے مجھ سے فوری بیعت والی حدیث کے بارے میں پوچھا تو میں نے ایک کاغذ پر اس کو لکھا اور ان کے سامنے اس کو پڑھا تو امام مسلم نے کہا: ایک اونٹ اس کی قیمت ہے ؟ میں نے کہا ایک اونٹ ؟ بلکہ دینار سے بھری تھیلی اس کی قیمت ہے !
أحمد بن الحسين بن علي بن موسى أبو بكر البيهقي، سنن البيهقي الكبرى، ج:8، ص: 143، الناشر: مكتبة دار الباز - مكة المكرمة، 1414 – 1994، تحقيق: محمد عبد القادر عطا، عدد الأجزاء: 10
قابل توجہ بات یہ ہے : کہ یہ لوگ اس جعلی حدیث کی قیمت ایک اونٹ یا دینار سے بری تھیلی کو قرار دیتا ہے جبکہ امام مسلم کو اس حدیث کے جعلی ہونے کا علم تھا۔ لہذا یہ نہ صحیح مسلم میں ہے نہ صحیح بخاری میں ، بلکہ ان میں اس کے مخالف روایت کو نقل کیا ہے کہ جس کے مطابق چھے مہینے تک امیر المومنین علیہ السلام نے خلیفہ کی بیعت نہیں کی ۔ لہذا مذکورہ روایت اگر صحیحین کی نگاہ میں صحیح ہوتی تو اس کو صحیحین میں ذکر کرتے۔
مذکورہ حدیث کی سند کے بعض راویوں کے بارے میں تحقیق
مذکورہ حدیث کے بہت سے راویوں کا تعلق بصرہ سے ہیں،یہ روایتیں «المنذر بن مالک بصری» پر ختم ہوتی ہے ،لہذا علم رجال کے قوانین کے لحاظ سے اس روای کے بارے میں تحقیق کرنا یہاں مناسب ہے ۔
يك: أبو نضرة العبدي: المنذر بن مالك
پہلی بات یہ ہے اہل سنت کے بعض علماﺀ نے اس کی توثیق کی ہے لیکن امام بخاری نے اس کی روایات سے استفادہ نہیں کیا ہے ۔
ر ک به: ذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، دار الكتب العلمية، ج 6، ص 515، 1995، بيروت، 8 جلد
عقيلي ،ابن عدی جرجانی نے بھی اس کو ضعیف راویوں میں سے قرار دیا ہے ۔ ابن حبان نے اس کو ان راویوں میں سے قرار دیا ہے کہ جو خطا کرتا تھا۔
ذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، دار الكتب العلمية، ج 6، ص 515، 1995، بيروت، 8 جلد
جرجاني، عبدالله بن عدي بن عبدالله بن محمد أبو أحمد، الكامل في ضعفاء الرجال، ج 6، ص 367 ناشر: دار الفكر – بيروت، چاپ سوم، 1409 – 1988، تحقيق: يحيى مختار غزاوي، هفت جلدی
دوسرا نکتہ : یہ اہل بصرہ کے راویوں میں سے تھا ،بصرہ تابعین کے دور میں ناصبی اور امیر المومنین علیہ السلام سے دشمنی کے لحاظ سے مشہور تھا۔
ر ک به: ذَهَبي، شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد، سير أعلام النبلاء، ج:8، ص:96، المحقق: مجموعة محققين بإشراف شعيب الأرناؤوط، الناشر: مؤسسة الرسالة، الطبعة: غير متوفر، عدد الأجزاء: 23
حموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے :
«...وكان محمد بن علي بن عبد الله بن العباس قال لدعاته حين أراد توجيههم إلى الأمصار أما الكوفة وسوادها فهناك شيعة علي وولده والبصرة وسوادها فعثمانية...»
عبدالله بن عباس کا بیٹا محمد بن علی نے جب اپنے ساتھیوں کو شہروں میں تبلیغ کے لئے بھیجنا چاہا تو اس وقت کہا : کوفہ اور اس کے اطراف میں علی علیہ السلام کے شیعہ رہتے ہیں اور اس کے مقابل بصرہ میں عثمانی مذھب والے موجود ہیں۔
الحموي، ياقوت بن عبد الله، معجم البلدان، ج 2، ص: 352، ناشر: دار الفكر – بيروت، پنج جلد
انہوں نے معجم الادباء میں بھی لکھا ہے :
«... عن أبي العيناء قال: قال المتوكل: بلغني أنك رافضي فقلت يا أمير المؤمنين وكيف أكون رافضيا وبلدي البصرة...»
ابي العيناء کہتا ہے : متوکل نے مجھ سے کہا : سنا ہے تو رافضی ہو ؟
میں نے جواب میں کہا : اے امیرمومنین! میں کیسے رافضی ہو جاوں جبکہ میرہ رہنے کی جگہ بصرہ ہے۔
حموي، أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله الرومي، معجم الأدباء، ج 1، ص 97، دار الكتب العلمية، بیروت، سال انتشار: 1411 هـ - 1991 م
اسی طرح ابن حجر عسقلاني نے تصریح کی ہے :
«... والنصب معروف في كثير من أهل البصرة...».
ناصبي گری ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں بصرہ کے رہنے والے شریک تھے۔
عسقلاني شافعي، أحمد بن علي بن حجر، لسان الميزان، ج:4، ص: 439، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات – بيروت، چاپ سوم، 1406 – 1986، تحقيق: دائرة المعرف النظامية - الهند
ذهبی نے اہل سنت کے بزرگ محدث «علی بن مدینی» کے بارے میں لکھا :
«... سَمِعْتُ ابْنَ مَعِيْنٍ يَقُوْلُ: كَانَ عَلِيُّ بنُ المَدِيْنِيِّ إِذَا قَدِمَ عَلَيْنَا، أَظْهَرَ السُّنَّةَ، وَإِذَا ذَهَبَ إِلَى البَصْرَةِ، أَظْهَرَ التَّشَيُّعَ. ئقُلْتُ: كَانَ إِظْهَارُهُ لِمَنَاقِبِ الإِمَامِ عَلِيٍّ بِالبَصْرَةِ، لِمَكَانِ أَنَّهُم عُثْمَانِيَّةٌ، فِيْهِمُ انْحِرَافٌ عَلَى عَلِيٍّ ...».
ابن معین کو کہتے سنا ہوں: علی بن مدینی جب بھی ہمارے پاس آتے ’’السنۃ’’ [ابوبکر و عمر اور عثمان کو حضرت علی علیهالسلام پر مقدم سمجھنے کو ] آشکارا بیان کرتے اور جب بصرہ سفر کر کے جاتے تو تشیع [تقدیم امیرالمومنین علیهالسلام بر عثمان] کو آشکار کرتے؛ کیونکہ اهل بصره عثمانی مذهب اور حضرت علی علیهالسلام سے منحرف لوگ تھے.
ذَهَبي، شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد، سير أعلام النبلاء، ج:21، ص: 53، محقق: گروهی از محققين بإشراف شعيب الأرناؤوط، ناشر: مؤسسة الرسالة، عدد الأجزاء: 23
نتيجه : یہ امکان موجود ہے کہ «ابونضرة» بھی ناصبیت کی بیماری میں مبتلا ہو اور جیساکہ جب اس روایت کے مضمون میں دقت کرئے تو اس امکان کو تقویت ملتی ہے ۔
اولا: یہ روایت ایک سیاسی اور اہم مسئلے کے بارے میں ہے ۔
ثانیا: صحیحین کی صحیح سند اور قطعی روایات سے یہ روایت ٹکراتی ہے .
: داود بن أبي هند
ابونضرة کے علاوہ اس کے دوسرے راوی مثلا داود بن ابی هند بھی اہل بصرہ ہیں.
ذَهَبي، شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد، سير أعلام النبلاء، ج:11، ص:457، محقق: گروهی از محققين بإشراف شعيب الأرناؤوط، ناشر: مؤسسة الرسالة، عدد الأجزاء: 23
نتیجه
اولا: اہل سنت کے علماﺀ کی تصریح کے مطابق یہ روایت جعلی ہے ۔
ثانیا: اس روایت کے بعض راویوں کا تعلق بصرہ سے ہیں اور بصرہ والے ناصبی گری اور اهل بیت علیهم السلام کے دشمنوں میں سے تھے.
ثالثا: اہل سنت کے بزرگ علماﺀ نے «ابو نضرة» کی تضعیف کی ہے اور اس کی طرف خطا کی نسبت دی ۔لہذا یہ حدیث صدور اور سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اور قابل احتجاج نہیں ہے۔
تفصیلی جواب :
1 : . یہ روایت اہل سنت کی سب سے معتبر کتاب صحیح مسلم اور بخاری کی واضح روایت سے ٹکراتی ہے ۔
جیساکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس طرح نقل ہوئی ہے ؛
«... أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ، بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... فَأَبَى أَبُوبَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا، فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ، فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ، وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَابَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا،... وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الأَشْهُرَ...»
عائشہ سے نقل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ابوبکر صدیق کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر نے یہ جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں، اللہ کی قسم! جو صدقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا۔ جس حال میں وہ آپ کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکر نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ سلام علیہا ابوبکر کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ سلام اللہ علیہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں۔ ۔۔۔ اس چھ ماہ تک علی علیہ السلام نے ابوبکر سے بیعت نہیں کی تھی۔
بخاري جعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي 256 هـ)، صحيح البخاري، ج 4، ص 1549، ح 3998، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987
قشيري نيشابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين، صحيح مسلم، ج 3، ص 1380، ح 1759، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، 5 جلد، به همراه تحقيقات محمد فؤاد عبد الباقي
لہذا اس روایت کے مطابق امیر المومنین(ع) نے چھے مہینے تک بیعت نہیں کی: «وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الأَشْهُرَ...» یعنی جب تک حضرت زهرا سلام الله علیها زنده تھیں تو اس دوران کسی قسم کی بیعت بھی نہیں کی تھی ۔ «لَمْ يَكُنْ یبایع» اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایسی کوئی بیعت نہیں ہوئی تھی اور یہ قرآن کے اس قول کے مطابق ہے :
إِنَّ الَّذينَ كَفَرُوا وَ ظَلَمُوا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَ لا لِيَهْدِيَهُمْ طَريقا (النساء/ 168)
طباطبايى، سيد محمد حسين، سيد محمد باقر موسوى همدانى، ترجمه تفسير الميزان، ج 5، ص 210، دفتر انتشارات اسلامى جامعهى مدرسين حوزه علميه قم، قم، 1374 ش، پنجم
بخاری نے عمر بن خطاب سے نقل کیا ہے :
«...حِينَ تَوَفَّي اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَمَنْ مَعَهُمَا ...».
رسول خدا صلي الله عليه وسلم جب دنیا سے چلے گئےتو اس وقت سقيفه بني ساعده میں سارے انصار نے ہماری مخالفت کی اسی طرح علي علیه السلام، زبير اور ان کے ساتھیوں نے ہماری مخالفت کی ۔.
بخاري جعفي، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي 256 هـ)، صحيح البخاري، ج 6، ص 2503، ح 6442، كتاب الحدود، ب 31، باب رَجْمِ الْحُبْلَي مِنَ الزِّنَا إِذَا أَحْصَنَتْ، تحقيق د. مصطفي ديب البغا، ناشر: دار ابن كثير، اليمامة - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1407 – 1987
لہذ اس روایت کے مطابق حضرت علی علیه السلام اور دوسرے صحابہ نے ابوبکر کی مخالفت کی.
نتیجه :
سلفیوں اور وہابیوں کی طرف سے مورد استدلال روایت اہل سنت کی سب سے معتبر روایات کے ساتھ ٹکراتی ہے اور جیساکہ اہل سنت کے علماﺀ کے قول کے مطابق ٹکروا کی صورت میں صحیحین کی روایات دوسری روایات پر مقدم ہیں ۔
1 : سبکی کہ جو اہل سنت کے بزرگ علماﺀ میں سے ہے ،وہ اس سلسلے میں کہتے ہیں :
«... فالصحيحان مقدمان عليه، ولو كان على شرطهما؛ لأن لشهرتهما وقبول الأمة بالقبول ما ليس لغيرهما، وإن ساواهما في درجة الصحة، ولذلك قال الأستاذ أبو إسحاق وغيره من أئمتنا: إن كل ما فيهما مقطوع به»
صحيح بخارى اور مسلم سنن ابن ماجه پر مقدم ہے یہاں تک کہ ان دونوں کی شرائط کے مطابق بھی ہو ؛ کیونکہ یہ دو کتابیں امت کے درمیان شہرت رکھتی ہیں اور مورد قبول واقع ہوئی ہیں، لیکن دوسری کتابوں کو یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے اور اگر صحت کے اعتبار سے بھی یہ صحیح بخاری اور مسلم کے برابر بھی ہو پھر بھی صحیحین مقدم ہیں ، اسی لئے ابو اسحاق اور دوسرے ہمارے اساتذہ نے کہا ہے کہ ان دو کتابوں میں جو بھی ہیں وہ قطعی ہیں۔
السبكي، تاج الدين أبي النصر عبد الوهاب بن علي بن عبد الكافي (متوفاي 646 هـ)، رفع الحاجب عن مختصر ابن الحاجب، ج 4، ص 618، تحقيق: علي محمد معوض، عادل أحمد عبد الموجود، دار النشر: عالم الكتب - لبنان / بيروت - 1999 م - 1419 هـ الطبعة: الأولى
لہذا مذکورہ روایت کی سند بھی صحیح ہو پھر بھی صحیحین کی روایت مقدم ہے .
2. دهلوی نے بھی لکھا ہے :
فاعلم أن الذي تقرر عند جمهور المحدثين أن صحيح البخاري مقدم على سائر الكتب المصنفة حتى قالوا أصح الكتب بعد كتاب الله تعالى صحيح البخاري.
جان لیں کہ کہ جمہور اہل سنت کے نذدیک صحیح بخاری دوسری کتابوں پر مقدم ہے،یہاں تک کہ جہمور نے کہا ہے کہ اللہ کی کتاب کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے .
البخاري الدهلوي، عبد الحق بن سيف الدين بن سعد الله (متوفاي 1052 هـ)، مقدمة في أصول الحديث، ج 1، ص 85، تحقيق: سلمان الحسيني الندوي، دار النشر: دار البشائر الإسلامية - بيروت – لبنان، الطبعة: الثانية 1406 هـ - 1986 م
3. اهل سنت کے علوم حدیث کے ماہر استاد قاسمی ایک روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دینے کے موارد کے بیان میں لکھتے ہیں :
1- وجوه الترجيح باعتبار الإسناد ...
017- تقدم الأحاديث التي في الصحيحين على الأحاديث الخارجة عنهما
ایک روایت کو سند کے اعتبار سے دوسری روایت پر ترجیح دینے کے موارد میں سے ۔۔
17: جو احادیث صحیح بخاری اور مسلم میں ہوں تو وہ اس سے خارج دوسری روایات پر مقدم ہیں.
قاسمی، محمد جمال الدین، قواعد التحديث من فنون مصطلح الحديث، ص 528، موسسه الرساله، بیروت، چاپ اول، 2004
لہذا اس اعتبار سے دیکھا جائے تو فوری طور پر بیعت والی روایت کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ شیعہ مخالف لوگ شیعوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے ہی علماﺀ کے بنائے ہوئے قوانین کو توڑتے ہیں ۔
تاریخی مسلمہ حقائق سے ٹکرو
جیساکہ مذکورہ حدیث صحیحین کے حدیث کے علاوہ بہت سی دوسری احادیث سے بھی ٹکراتی ہے ، کچھ نمونے :
«ابن الوردی»اور «ابوالفداء» نے نقل کیا ہے :
فبايع عمر أبا بكر رضي الله عنهما وانثال الناس عليه يبايعونه في العشر الأوسط من ربيع الأول سنة إِحدي عشرة خلا جماعة من بني هاشم والزبير وعتبة بن أبي لهب وخالد بن سعيد ابن العاص والمقداد بن عمرو وسلمان الفارسي وأبي ذر وعمار بن ياسر والبراء بن عازب وأبي بن كعب ومالوا مع علي بن أبي طالب.
وقال في ذلك عتبة بن أبي لهب:
ما كنت أحسب أن الأمر منصرف... عن هاشم ثم منهم عن أبي حسن
عن أول الناس إِيماناً وسابقه... وأعلم الناس بالقرآن والسنن
وآخر الناس عهداً بالنبي من... جبريل عون له في الغسل والكفن
من فيه ما فيهم لا يمترون به... وليس في القوم ما فيه من الحسن
وكذلك تخلف عن بيعة أبي بكر أبو سفيان من بني أمية ثم إن أبا بكر بعث عمر بن الخطاب إِلي علي ومن معه ليخرجهم من بيت فاطمة رضي الله عنها، وقال: إِن أبوا عليك فقاتلهم. فأقبل عمر بشيء من نار علي أن يضرم الدار، فلقيته فاطمة رضي الله عنها وقالت: إِلي أين يا ابن الخطاب أجئت لتحرق دارنا قال: نعم...
عمر نے ابوبکر کی بیعت کی ، ربیع الاول کے دوسرے عشرے میں ابوبکر کی بیعت کے لئے رش لگایا ، بني هاشم ، زبير ، عتبه بن ابولهب ، خالد بن سعيد بن عاص ، مقداد بن عمرو ، سلمان فارسي ، ابوذر ، عمار بن ياسر ، براء بن عازب ، أبي بن كعب یہ سب علي بن ابی طالب علیهما السلام کے پاس گئے اور آپ کی طرفداری کرنے لگے .
عتبه بن ابولهب نے اس کو شعری زبان میں بیان کیا ہے :
«مجھے یہ گمان نہیں تھا کہ خلافت کو بنی ہاشم میں سے خاص کر حضرت علی علیه السلام] سے چھین لی جائے گی !
اس سے کہ جو ایمان میں پہلےنمبر پر ،سب سے زیادہ قرآن و سنت سے آگاہ ،ایسا شخص کی جو آخر تک حضور پاک (ص) کے پاس رہے ، جبرائیل رسول اللہ (ص) کو غسل و کفن دینے میں ان کی مدد کرتے تھے۔
وہ شخص جس میں تمام خوبیاں جمع تھیں اور اس میں شک نہیں کہ لوگوں میں کسی میں ان جیسی نیکی نہیں تھیں ».
اسی طرح بنی امیہ میں سے ابوسفیان نے ابوبکر کی بیعت سے اجتناب کیا اور پھر ابوبکر نے عمر کو بھیجا تاکہ وہ علي علیه السلام اور ان کے ساتھیوں کو بیت فاطمه سلام الله علیها سے باہر نکال کر لائے اور یہ کہا «اگر انکار کیا تو ان سے جنگ کرئے »! عمر(فتیلہ، آگ بڑھکانے والی چیز) لے کر آئے اور گھر کے سامنے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے ملاقات ہوئی۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: اے فرزند خطاب ہمارا گھر جلانے آئے ہو؟ عمر نے جواب دیا: ہاں۔ .
أبو الفداء، عماد الدين إسماعيل بن علي، المختصر في أخبار البشر، 1، ص 107
ابن الوردي، زين الدين عمر بن مظفر الشهير، تاريخ ابن الوردي، دار الكتب العلمية، 1417 هـ - 1996 م، لبنان، بيروت، دو جلد
ابن اثير نے «اسد الغابة» میں نقل کیا ہے :
«... وتخلّف عن بيعته علي وبنو هاشم والزيبر ابن العوام وخالد بن سعيد بن العاص وسعد بن عبادة الانصاري ثم ان الجميع بايعوا بعد موت فاطمة بنت رسول اللّه صلي اللّه عليه وسلم الا سعد بن عبادة فانه لم يبايع أحدا الي ان مات وكانت بيعتهم بعد ستة أشهر علي القول الصحيح وقيل غير ذلك...»
حضرت علي عليه السلام ، بني هاشم ، زبير ،خالد بن سعيد بن عاص ، سعد بن عباده انصاري نے ابوبكر کی بیعت سے انکار کیا اور حضرت فاطمه سلام الله عليها کی وفات کے بعد سب نے بیعت کی ،سعد بن عباده نے آخری عمر تک کسی کی بیعت نہیں کی اور دنیا سے چلا گیا اور صحیح قول کے مطابق ان افراد کی بیعت بھی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد (چھے ماہ ) بیعت ہوئی، اگرچہ اس سلسلے میں اور بھی قول ہے
الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي 630 هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج 3، ص 339، تحقيق عادل أحمد الرفاعي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولي، 1417 هـ - 1996 م.
اہل سنت کے علماﺀ کی طرف سے دو روایات کے جمع کا رد
ابن حجر عسقلانی نے ان دو روایات کو جمع کرنے کے لئے کہا ہے ؛
«وجمع غيره بأنه بايعه بيعة ثانية مؤكدة للأولى لإزالة ما كان وقع بسبب الميراث».
دوسروں نے اس طرح جمع کیا ہے کہ آپ نے پہلی والی بیعت کی تاکید کے لئے دوسری بیعت کی تاکہ میراث کے مسئلے میں پیش آنے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔۔
عسقلاني شافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 7، ص: 495، ناشر: دار المعرفة - بيروت، 1379، 13 جلدي
اس توجیہ اور تحریف کی وضاحت :
کہتے ہیں : روایت کی پہلی قسم حضور پاک (ص) کی وفات کے فورا بعد بیعت کو بیان کرتی جبکہ دوسری روایت کہتی ہے کہ چھے ماہ بعد بیعت کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چھے مہینے بعد والی بیعت حقیقت میں پہلی والی بیعت کی تائید ہے اس دوسری بیعت کے ذریعے ارث کے معاملے میں پیش آنے والی کدورتوں کو دور کرنا مقصود تھا ۔
یہ توجیہ بہت ہی کمزور اور ضعیف توجیہ ہے یہ صرف اپنے خیالات کا اظہارا اور وہم و گمان ہے ۔ یہ صحیحین کی روایات کے بلکل خلاف ہے کیونکہ صحیحین والی روایت کے مطابق خلیفہ دوم کے دور تک یہ معاملہ چلتا رہا اور ارث کا مسئلہ باقی رہا اور عباس اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنے کو مستحق سمجھتے تھے اور خلفاﺀ کو اپنے اس حق سے محروم کرنے والے سمجھتے تھے ،لہذا یہ دونوں ارث کے بارے میں ابوبکر کے نظریے کو قبول نہیں کرتے تھے اور یہ دلخوری اور ناراضگی باقی تھی جیساکہ خود خلیفہ دوم نے بھی اسی کا اعتراف کیا ۔
«. ... فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- « مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ». فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ -صلي الله عليه وسلم- وَ وَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا .
رسول خدا (صلي الله عليه وآله وسلم) کی وفات کے بعد ابوبكر نے کہا : میں رسول خدا کا ولی اور جانشین ہوں ، تم دونوں آئے اور ، اے عباس تم ! اپنے بتیجے کی میراث کا مطالبہ کر رہا تھا اور اے علی ! تم فاطمہ بنت پیغمبر کی میراث کا مطالبہ کر رہا تھا.
ابوبکر نے کہا : رسول خدا نے فرمایا ہے : ہم کوئی چیز ارث کے طور پر چھوڑ کر نہیں جاتے ،جو چیز چھوڑے جاتے ہیں وہ صدقہ ہوگی ۔
تم دونوں نے اس کو جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا جبکہ اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر سچا ، دیندار اور حق کے پیرو تھا ۔۔
ابوبكر کی موت کے بعد میں نے کہا : میں پیغمبر اور ابوبکر کے ولی اور جانشین ہوا ہوں ،لیکن پھر تم دونوں نے مجھے جھوٹا ، گناہ کار ، دھوکہ باز اور خائن سمجھا خائن سمجھا۔۔
مسلم ، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري (متوفاي261هـ) ، صحيح مسلم ، ج 3 ص 1378 ، ح 1757 ، كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب حُكْمِ الْفَيْءِ ، تحقيق : محمد فؤاد عبد الباقي ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت .
جیساکہ امام مسلم نے صحیح مسلم میں عبدالله بن عباس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے «ذوی القربی» کے بارے میں ایک سوال کے جواب دیا ہے :
«... وكتبت تسألني عن ذوي القربى من هم؟ وإنا زعمنا أنا هم فأبى ذلك علينا قومنا».
خط لکھا اور مجھ سے «ذوی القربی» کے بارے میں سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد [بنی هاشم] اور ہم لوگ مراد ہیں . [لہذا ذوی القربی کا حصہ ہمارا ہے ] لیکن ہماری قوم والوں [ابوبکر و عمر] نے ہمیں نہیں دیا .
یزید بن ہرمز سے روایت ہے، نجدہ نے عبداللہ بن عباس کو لکھا اور خمس کے بارے میں پوچھا ۔۔۔۔۔ ابن عباس نے جواب میں لکھا :اور تو مجھ سے پوچھا ہے خمس کس کا حق ہے؟ تو ہم یہ کہتے تھے کہ خمس ہمارے لیے ہے، پر ہماری قوم نے نہ دینے سے انکار کیا ۔
قشيري نيشابوري، مسلم بن الحجاج أبو الحسين، صحيح مسلم، ج 3، ص 1444، ح: 941، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، 5 جلد، به همراه تحقيقات محمد فؤاد عبد الباقي
ابوجفر طحاوی نے اس سلسلے میں لکھا ہے :
«ولكن عبد الله بن عباس رأى في ذلك أن سهم ذوي القربى ثابت وأنهم بنو هاشم في حياة النبي صلى الله عليه و سلم وبعد وفاته وقد أخبر أن قومه أبوا ذلك عليه وفيهم عمر بن الخطاب رضي الله عنه ومن تابعه منهم»
عبدالله بن عباس کا یہ نظریہ تھا کہ ذوی القربی کا حصہ ثابت ہے اور یہ پیامبر صلی الله علیه و آله کی وفات سے پہلے اور بعد میں بنی هاشم کا حق ہے ۔ عبدالله بن عباس نے یہ خبر دی ہے کہ ان کی قوم نے اس حق کو بنی ہاشم کو دینے سے منع کیا اور یہاں قوم سے مراد ابوبکر ، عمر اور کی پارٹی کے لوگ ہیں۔
أبو جعفر الطحاوي، أحمد بن محمد بن سلامة بن عبدالملك بن سلمة، شرح معاني الآثار، ج 3، ص 304، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، چاپ اول، 1399، تحقيق: محمد زهري النجار، 4 جلد
نتیجه گیری: لہذا مذکورہ نظریہ اور توجیہ غلط ہے کیونکہ خاص کر ارث کے مسئلے میں اہل بیت اور خلفا کے درمیان نزاع ختم نہیں ہوا تھا ،یہ نزاع آنحضرت (ص) کی وفات سے شروع ہوا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔
صحیح بخاری میں حقائق کی تحریف :
اہل بیت کے مخالف فکر رکھنے والوں نے شروع سے ہی اہل بیت اور خلفاﺀ کے درمیان اختلاف کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی ہیں ،اہل سنت کے بہت سے محدثین اور راویوں نے اہل بیت پر ہونے والے مظالم پر پردہ ڈالنے کے لئے روایات میں تحریف کرنے کی کوشش کی ،انہیں میں سے ایک امام بخاری ہے ہم ذیل میں اس سلسلے کا ایک نمونہ صحیح بخاری اور امام بخاری کے استاد عبد الرزاق صنعانی کی کتاب کے درمیان موازنہ کرنے کے ذریعے سے پیش کریں گے ۔
،4241 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَ
۔صحيح البخارى ،کتاب المغازى 38 - باب غَزْوَةُ خَيْبَرَ ،ح 4241 ؎ صحیح مسلم ،كتاب الجهاد والسير ,باب قول النبي لا نورث ماْ
فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ابوبکر کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر نے یہ جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں، اللہ کی قسم! جو صدقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا۔ جس حال میں وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکر نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ ابوبکر کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی علیہ السلام نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی
۔صحيح البخارى ،کتاب المغازى ۔فرض الخمس،1 - باب فَرْضِ الْخُمُسِ
اب عبدالرزاق صنعانی کی مذکورہ حدیث کے نقل کو دیکھیں :
«عبد الرزاق عن معمر عن الزهري عن عروة عن عائشه... قال معمر فقال رجل للزهري فلم يبايعه علي ستة أشهر قال لا ولا أحد من بني هاشم حتى بايعه علي...»
معمر نقل کرتا ہے کہ کیا «حضرت علی علیه السلام نے چھے مہنے تک بیعت نہیں کی ؟! زہری نے جواب دیا : نہ انہوں نے اور نہ ہی بنی ہاشم میں سے کسی نے بھی بیعت نہیں کی ،یہاں تک کہ علی علیہ السلام نے بیعت کی تو ان لوگوں نے بھی بیعت کی ».
الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام، مصنف عبد الرزاق، ج 5، ص 472، ناشر: المكتب الإسلامي – بيروت، چاپ دوم، 1403، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي، یازده جلد
اب دیکھیں امام بخاری نے «قال: لا ولا أحد من بني هاشم» کو کاٹ دیا ہے کیونکہ اس سے سارے بنی ہاشم کا ابوبکر کی بیعت سے انکار ثابت ہوجاتا ہے ۔
اب جہاں بنی ہاشم والوں نے ابوبکر کی بیعت کی مخالفت کی ہو تو کیا ابوبکر کی خلافت پر اجماع نام کی کوشش چیز ثابت ہوگی ؟ امام بخاری اس حقیقت کو چھپانے کے لئے کیوں روایت میں تحریف کے قائل ہوا ہے ؟
«المثبت مقدم على النافي» والے قانوں کی تحقیق:
ادلہ کے درمیان تعارض اور تضاد کی صورت میں اس کو حل کرنے کے قواعد میں سے ایک «المثبت مقدم علی النافی» ہے ۔ مثلا کوئی کہے چالس سالہ زید زندہ ہے جبکہ دوسرا اس کی موت کی خبر دئےتو یہاں زندہ ہونے والی خبر موت والی خبر پر مقدم ہے کیونکہ عادتا اور عام طور پر ایسا شخص زندہ رہتا ہے جبکہ اس کا مرنا اس رائج قانون کے خلاف ہے ۔
ہمارے بحث میں بعض وہابی کہتے ہیں کہ بیعت کرنے والی بات نہ کرنے والی بات پر مقدم ہے ، کیونکہ بیعت کرنا ایک مثبت کام ہے جبکہ بیعت نہ کرنے کی خبر ایک منفی کام کی خبر ہے اور کیونکہ مثبت چیز کو منفی پر ترجیح حاصل ہے لہذا بیعت کرنے والی خبر مقدم ہے۔
جواب : اس قانوں سے استدلال کا یہ مقام نہیں ہے :
اولا: جعلی اور ضعیف روایت قوی اور قطعی روایت سے مقابلہ نہیں کرسکتی ؛
ثانیا: اگر اس قانون کو قبول کرئے تو یہ بہت سے موارد میں شیعہ موقف کو ثابت کرتا ہے
مثلا رسول خدا صلی الله علیه و آله، کی وفات کے بعد حضرت زهرا سلام الله علیها اور امیرالمومنین علیه السلام نے رسول الله صلی الله علیه و آله سے ارث لینے اور ملنے کا ادعا کیا ،جبکہ ابوبکر اورعمر نے اس کی نفی کی ۔لہذا ارث ملنا مثبت کام ہے ارث کی نفی منفی کام ہے ۔ پس ابوبکر کا نطریہ صحیح نہیں ہے ۔
اسی طرح شیعوں کا یہ نطریہ کہ جناب سیدہ (ع)کی شہادت واقع ہوئی ہے ،جبکہ دوسرے اس کی نفی کرتے ہیں ، اسی طرح شیعہ قرآن وسنت کے قطعی دلائل سے نظریہ امامت کو ثابت کرتے ہیں جبکہ اہل سنت والے اس کی نفی کرتے ہیں ۔ لہذا شیعوں کا نظریہ اس قانون کے مطابق ثابت ہوگا ۔
ثالثا: اسی طرح اس قانون کے ذریعے اور بھی بہت سے فقہی مسائل میں شیعہ نظریے کو ثابت اور اہل سنت کے نظریے کی نفی کرسکتے ہیں ۔۔۔
رابعا:
مسلم عقلی قانون کے مطابق اگر کوئی کہے کہ «فلان چیز واجب ہے یا موجود ہے» اس کے مقابلے میں دوسرا کہے «فلان چیز واجب نہیں ہے یا موجود نہیں ہے » تو ان دونوں میں تناقض موجود ہے ۔ یہاں دونوں ایک دوسرے کو جھٹلاتا ہے لہذا اگر وہابیوں کی طرف سے ادعا کرنے والے روایت کی سند صحیح ہو اور اس کی دلالت کامل ہو تو یہ صحیح مسلم اور بخاری والی روایت سے ٹکراتی ہے ۔
جیساکہ مطلق طور پر مثبت کی دلیل کو منفی کی دلیل پر مقدم کرنا ترجیح بلا مرجح اور بغیر کسی دلیل کے ہے اور یہ صحیح نہیں ہے ،مگر یہ کہ ’’دلیل مثبت’’ کے اندر ایک خاص خصوصیت موجود ہو مثلا «زیادت علم» ایسی صورت میں دلیل مثبت مقدم ہوگی جیساکہ ابن حجر نے شرح بخاری میں اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے ۔۔۔
عسقلاني شافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج 7، ص: 208، ناشر: دار المعرفة - بيروت، 1379، 13 جلدي
اگر اس قانون کو قبول کیا جائے تو بھی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی دلیل مقدم ہے ،لہذا مخالفین کی دلیل کا ضعیف ، جعلی اور قابل استدلال نہ ہونا ثابت ہے ۔کیونکہ صحیحین کی روایات اجماعی اور قطعی روایات میں سے ہیں یہ دوسری روایات پر مقدم ہیں ۔۔۔۔