سوال:
کیا روایت « إنّي تارک فيكم خليفتين » معتبر و صحیح سند کے ساتھ اہل سنت کی کتب میں نقل ہوئی ہے ؟
جواب:
مصادر روايت:
یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ جیسے: « إِنِّي تَرَكْتُ فِيكُمُ الْخَلِيفَتَيْنِ كَامِلَتَيْنِ » ، « إني قد تَرَكْتُ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ » ، « إني تارك فيكم الخليفتين » ، « اني تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ » اور صحیح و معتبر سند کے ساتھ اہل سنت کی کتب میں نقل ہوئی ہے۔
کیونکہ ان تمام روایات کی تمام اسناد تقریبا ایک ہی طرح کی ہیں، اس لیے ہم فقط قدیمی ترین کتاب ابن ابی شیبہ کی نقل کردہ روایت کو ذکر کرتے ہیں:
حدثنا أَبُو دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنِ الرُّكَيْنِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، يَرْفَعُهُ، قَالَ:
« إِنِّي تَرَكْتُ فِيكُمُ الْخَلِيفَتَيْنِ كَامِلَتَيْنِ: كِتَابَ اللَّهِ، وَ عِتْرَتِي، و إِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ »
میں تم میں دو کامل خلیفہ و جانشین چھوڑ کر جا رہا ہوں، خداوند کی کتاب اور اپنی عترت (اہل بیت)، اور حوض کوثر کے کنارے میرے پاس آنے تک، وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔
إبن أبي شيبة الكوفي، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، مسند ابن أبي شيبة ، ج 1، ص108، ح135، تحقيق : عادل بن يوسف العزازي و أحمد بن فريد المزيدي ، ناشر : دار الوطن - الرياض ، الطبعة : الأولي ، 1997م؛
إبن أبي شيبة الكوفي، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفاي235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج 6، ص309، ح31679، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولي، 1409هـ؛
الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفاي360هـ)، المعجم الكبير، ج 5، ص153، ح4921 ؛ ج 5، ص154، ح4922 ، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م؛
الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفاي241هـ)، فضائل الصحابة، ج 2، ص603، ح1032؛ ج 2، ص786، ح1403، تحقيق د. وصي الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1403هـ - 1983م؛
الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 5، ص181، ح21618؛ ج 5، ص189، ح21697، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر؛
القرطبي ، بقي بن مخلد (متوفاي276هـ) ، ما روي الحوض والكوثر (الذيل علي جزء بقي بن مخلد)، ج 1، ص137، تحقيق : عبد القادر محمد عطا صوفي ، ناشر : مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة ، الطبعة : الأولي ، 1413هـ؛
الشيباني، عمرو بن أبي عاصم الضحاك (متوفاي287هـ)، السنة، ج 2، ص351؛ ج 2، ص643 ، ح1548 ـ 1549، تحقيق: محمد ناصر الدين الألباني، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ؛
الثعلبي النيسابوري، ابوإسحاق أحمد بن محمد بن إبراهيم (متوفاي427هـ)، الكشف والبيان، ج 3، ص163، تحقيق: الإمام أبي محمد بن عاشور، مراجعة وتدقيق الأستاذ نظير الساعدي، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، الطبعة: الأولي، 1422هـ-2002م؛
الأنصاري الشافعي، سراج الدين أبي حفص عمر بن علي بن أحمد المعروف بابن الملقن(متوفاي804هـ)، تذكرة المحتاج إلي أحاديث المنهاج ، ج 1، ص64، تحقيق : حمدي عبد المجيد السلفي ، ناشر : المكتب الإسلامي - بيروت ، الطبعة : الأولي ، 1994م؛
و ...
بررسی سند روايت:
عُمَرُ ابْنُ سَعْد:
یہ کتاب صحیح مسلم اور دوسری صحاح ستہ کا راوی ہے:
عمر بن سعد بن عبيد أبو داود الحفري بفتح المهملة والفاء نسبة إلي موضع بالكوفة ثقة عابد من التاسعة مات سنة ثلاث ومائتين م 4
۔۔۔۔ یہ ایک ثقہ و عابد انسان تھا۔۔۔۔۔
العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1 ، ص413، رقم: 4904، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.
شريك بن عبد الله:
یہ کتاب صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دوسری صحاح ستہ کا راوی ہے:
شريك بن عبد الله النخعي الكوفي القاضي بواسط ثم الكوفة أبو عبد الله صدوق يخطيء كثيرا تغير حفظه منذ ولي القضاء بالكوفة وكان عادلا فاضلا عابدا شديدا علي أهل البدع من الثامنة مات سنة سبع أو ثمان وسبعين خت م 4
یہ بہت سچّا اور عادل، فاضل، عابد انسان تھا کہ جو اہل بدعت پر بہت سخت تھا۔
تقريب التهذيب ، ج1 ، ص266، رقم: 2787
ركين بن الربيع الفزاري:
یہ کتاب صحیح مسلم اور دوسری صحاح ستہ کا راوی ہے:
ركين بالتصغير بن الربيع بن عميلة بفتح المهملة الفزاري أبو الربيع الكوفي ثقة من الرابعة مات سنة إحدي وثلاثين بخ م 4
وہ کوفی و ثقہ تھا۔
تقريب التهذيب ، ج 1، ص1944، رقم: 1956
القاسم بن حسان:
القاسم بن حسان العامري الكوفي مقبول من الثالثة د س
اسکی روایات کو قبول کیا جاتا تھا۔
تقريب التهذيب، ج1 ، ص449، رقم: 5454
زيد بن ثابت:
صحابي.
یہ راوی صحابی تھا۔
تصحيح روايت:
ناصر الدين البانی کہ اسکو اپنے زمانے کا بخاری کہا جاتا تھا۔ اس نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے:
2457. إني تارك فيكم خليفتين : كتاب الله حبل ممدود ما بين السماء و الأرض و عترتي أهل بيتي و إنهما لن يتفرقا حتي يردا علي الحوض
( حم طب ) عن زيد بن ثابت .
( صحيح )
ألباني، محمد ناصر الدين (متوفاي1420هـ)، صحيح جامع الصغير وزيادته، ج1، ص482، ح2457، ناشر: المكتب الإسلامي .
علی ابن ابی بكر ہيثمی نے بھی اپنی کتاب میں دو جگہ پر اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے:
رواه الطبراني في الكبير ورجاله ثقات.
الهيثمي، ابوالحسن نور الدين علي بن أبي بكر (متوفاي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 1، ص170، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.
رواه أحمد وإسناده جيد
مجمع الزوائد، ج 9، ص163
وہ مطالب جو اس روایت سے ثابت ہوتے ہیں:
اس مہم روایت سے بعض قابل توجہ نتائج حاصل ہوتے ہیں:
1. قرآن و اہل بيت عليہم السلام ہر دو رسول خدا (ص) کے جانشین ہیں، انکی جانشینی کو قبول نہ کرنا یا ان میں سے ایک کی اتباع و پیروی نہ کرنا، یہ رسول خدا (ص) کے فرمان کو ردّ کرنے کے مترادف ہے کہ جو انسان کے لیے ابدی گمراہی کا سبب بنتی ہے:
وَما كانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَي اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً مُبيناً.
کسی بھی مؤمن مرد اور مؤمنہ عورت کے لیے اپنی مرضی کرنا جائز نہیں ہے، جب خدا اور اسکا رسول کسی کام کے بارے میں فیصلہ کریں اور جو بھی خدا اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ واضح گمراہی میں مبتلا ہوا ہے۔
سورہ أحزاب آیت 36
اس بیان کے ساتھ وہ لوگ جہنوں نے اہل بیت کی اطاعت کو چھوڑ کر دوسروں کی اطاعت کی ہے، واضح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے آپکو کس گمراہی میں ڈالا ہے ؟!
2. اہل بیت کی اطاعت مطلق (اطاعت بے چون و چرا) واجب ہے، جس طرح کہ قرآن کی بھی اطاعت مطلق واجب ہے، کوئی بھی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ قرآن کی اطاعت کے ساتھ، اہل بیت (ع) کی اطاعت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں رسول خدا (ص)کی نافرمانی کرنا لازم آئے گا۔
3. یہ دونوں (قرآن و اہل بیت) قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔
وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ،
بالکل اسی نکتے سے اہل بیت کی اطاعت مطلق ثابت ہوتی ہے، کیونکہ اگر اہل بیت معصوم نہ ہوں تو اور ان سے گناہ اور خطا سرزد ہو تو، اسی وقت اتنی ہی مقدار میں قرآن سے دور ہو جائیں گے، اور ایسا ہونا رسول خدا کے واضح فرمان کے خلاف ہے، پس جس طرح کہ قرآن ہر خطا سے محفوظ ہے اور کوئی بھی باطل چیز اس میں موجود نہیں ہے، رسول خدا کے اہل بیت بھی بالکل ایسے ہی ہیں۔
لا يَأْتيهِ الْباطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزيلٌ مِنْ حَكيمٍ حَميد.
کسی قسم کا کوئی باطل نہ سامنے سے اور نہ ہی پیچھے سے، اس (قرآن) میں نہیں آتا، کیونکہ خداوند حکیم و حمید کی طرف سے نازل ہوا ہے۔
سورہ فصلت آیت 42
4. اہل بیت کے قرآن سے حوض کوثر تک جدا نہ ہونے پر تاکید کرنا، ایک طرف سے قرآن کے قیامت تک باقی ہونے پر دلالت کرتا ہے تو دوسری طرف سے تمام لوگوں کے لیے واضح کرتا ہے کہ اہل بیت کا ایک فرد قیامت تک قرآن کے ساتھ رہے گا، اور شیعیان نے اسی نکتے سے امام زمان (عج) کے زندہ ہونے پر استدلال کیا ہے۔
علامہ مناوی عالم بزرگ اہل سنت نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:
قال ( الشريف ): هذا الخبر يفهم وجود من يكون أهلا للتمسك به من أهل البيت والعترة الطاهرة في كل زمن إلي قيام الساعة حتي يتوجه الحث المذكور إلي التمسك به كما أن الكتاب كذلك فلذلك كانوا أمانا لأهل الأرض فإذا ذهبوا ذهب أهل الأرض ) حم طب عن زيد بن ثابت ( قال الهيثمي: رجاله موثقون ورواه أيضا أبو يعلي بسند لا بأس به والحافظ عبد العزيز بن الأخضر.
یہ حدیث ہمیں سمجھاتی ہے کہ اہل بیت میں سے ایک بندہ ہمیشہ قیامت تک موجود ہے، تا کہ اس سے تمسک کرنے کا معنی پیدا ہو سکے، جس طرح کہ قرآن بھی ایسے ہی ہے، اسی وجہ سے وہ (اہل بیت) اہل زمین کے لیے باعث امان ہیں اور جب وہ نہ ہوں تو اہل زمین بھی نابود ہو جائیں گے۔
اس روایت کو احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں اور طبرانی نے معجم كبير زيد ابن ثابت سے نقل کیا ہے اور ہیثمی نے کہا ہے کہ اس روایت کے راوی موثق ہیں۔ اسی طرح ابو يعلی اور حافظ عبد العزيز ابن اخضر نے بھی اسی روایت کو قابل قبول سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔
المناوي، عبد الرؤوف بن علي، فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج3، ص15، المكتبة التجارية الكبري - مصر، 1356هـ.
5. جس طرح کہ قرآن کریم « تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ ء » (سورہ نحل آیت 89) ہے، اہل بیت بھی بالکل اسی طرح ہیں، کیونکہ جو ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہے، وہ تمام حقائق قرآن سے آگاہ ہوتا ہے، پس امام معصوم کو بھی « تبيانا لكل شيء » ہونا چاہیے، تا کہ قرآن و اہل بیت کے درمیان عدم جدائی عملی طور پر بھی ثابت ہو سکے۔
لہذا اس روایت اور اسی مطلب کی طرح دوسری روایات کے مطابق قرآن اور اہل بیت ہر چیز میں آپس میں مساوی و ہم پلہ ہیں، پس قرآن کی حقیقی طور پر پیروی کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی اس پیروی کو مکمل کرنے کے لیے، اہل بیت کی بھی پیروی کریں اور دوسروں کی پیروی کرنے سے اجتناب کریں، کیونکہ ایک دل میں دو محبتیں نہیں آ سکتیں اور اسکے علاوہ غدیر کے میٹھے اور صاف پانی سے سیراب ہونے والا عقلمند انسان خود کو سقیفے کے کھارے اور گندے پانی سے آلودہ نہیں کرتا۔
وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ،
اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کا سبزہ اس کے رب کے حکم سے نکلتا ہے، اور جو خراب ہے اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہی ہوتا ہے، اسی طرح ہم شکر گزاروں کے لیے مختلف طریقوں سے آیتیں بیان کرتے ہیں۔
سورہ اعراف آیت 58
6. « اهل بيتي » سے مراد، رسول خدا کی زوجات نہیں ہو سکتیں، کیونکہ اس روایت میں ذکر ہونے والی خصوصیات ان زوجات میں نہیں پائی جاتیں، اس لیے کہ اس روایت میں رسول خدا نے « وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ» کے الفاظ کو استعمال کیا ہے، اور واضح ہے کہ تمام امہات المؤمنین وفات پا کر دنیا سے چلی گئیں ہیں، کوئی بھی زندہ نہیں بچی کہ جو اس روایت کے مطابق، قیامت تک قرآن کے ساتھ باقی رہے !
اسکے علاوہ رسول خدا کی بعض زوجات کا اخلاق اور کردار ایسا تھا کہ ہرگز اس روایت کا یہ جملہ « وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ» انکو شامل نہیں ہوتا، ان زوجات میں سے ایک عایشہ ہے کہ اس نے شیعہ اور اہل سنت کی تاریخ کی معتبر کتب کے مطابق، جنگ جمل میں مسلمانوں کے خلیفہ برحق کے خلاف علم بغاوت بلند اور اعلان جنگ کیا تھا، اور اسی عایشہ کی وجہ سے جنگ جمل میں 20 ہزار سے زیادہ مسلمان قتل ہوئے، حالانکہ قرآن میں خداوند نے فرمایا ہے کہ:
وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فيها وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظيما.
اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کیا ہے۔
سورہ نساء آیت 93
20 ہزار سے زیادہ مسلمانوں کا خون کس کی گردن پر ہے ؟؟؟
کیا قبول کیا جا سکتا ہے کہ عایشہ جنگ جمل کے زمانے میں قرآن کے ساتھ تھی ؟
اس روایت کی روشنی میں عایشہ کیسے قرآن کے ساتھ ہو سکتی، حالانکہ وہ آیات قرآن کی واضح طور پر مخالفت کر رہی تھی ؟
عایشہ کیسے قیامت تک قرآن کے ساتھ ہو سکتی ہے، حالانکہ وہ ناطق قرآن اور روح قرآن کی جان کی پیاسی اور اس سے جنگ کر رہی تھی ؟
علامہ آلوسی نے تصریح کی ہے کہ حدیث ثقلین میں مذکور «اهل بيت» سے مراد، رسول خدا کی زوجات نہیں ہیں:
وأنت تعلم أن ظاهر ما صح من قوله صلي الله تعالي عليه وسلم : إني تارك فيكم خليفتين وفي رواية ثقلين كتاب الله حبل ممدود ما بين السماء والأرض وعترتي أهل بيتي وإنهما لن يفترقا حتي يردا علي الحوض يقتضي أن النساء المطهرات غير داخلات في أهل البيت الذين هم أحد الثقلين لأن عترة الرجل كما في الصحاح نسله ورهطه الأدنون...
آپ جانتے ہیں کہ رسول خدا کی صحیح حدیث کہ جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ: « إني تارك فيكم خليفتين... » اس حدیث کا تقاضا ہے کہ رسول خدا کی زوجات اهل بيتی میں داخل نہ ہوں کہ وہ ثقلین میں سے ایک قرار پا سکیں، کیونکہ ایک انسان کی عترت، جسطرح کہ جوہری کی کتاب صحاح میں ذکر ہوا ہے، اسکی نسل اور خونی رشتے دار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
الآلوسي البغدادي الحنفي، أبو الفضل شهاب الدين السيد محمود بن عبد الله (متوفاي1270هـ)، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، ج 22، ص16، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
اہل سنت کے علماء کی نظر میں حدیث ثقلین کا معتبر ہونا:
اہل سنت کے بہت سے علماء اس حدیث کے لیے ایک خاص اعتبار و اہمیت کے قائل ہیں:
1. محمد بن عيسی ترمذی:
ترمذی نے حديث ثقلين کو زيد بن ثابت سے نقل کیا ہے اور آخر میں کہا ہے کہ:
هذا حديث حسن غريب.
الترمذي السلمي، ابوعيسي محمد بن عيسي (متوفي 279هـ)، سنن الترمذي، ج5، ص663، تحقيق: أحمد محمد شاكر وآخرون، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
2. حاكم نيشاپوری:
حاكم نے کتاب مستدرک صحیحین میں اس حدیث کو زید ابن ارقم سے نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:
هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين و لم يخرجاه.
یہ حدیث مسلم اور بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح ہے، لیکن ان دونوں نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا۔
الحاكم النيسابوري، ابو عبد الله محمد بن عبد الله (متوفي 405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج3، ص160، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولي، 1411هـ - 1990م.
3. ابن كثير دمشقی:
ابن كثير سلفی وہابی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ:
وقد ثبت في الصحيح م 2408 أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال في خطبة بغدير خم إن تارك فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي وإنهما لم يفترقا حتي يردا علي الحوض.
صحیح مسلم میں حدیث نمبر 2408 میں ثبت ہوا ہے کہ رسول خدا نے اپنے خطبہ غدیر میں فرمایا کہ: اے لوگو میں تمہارے دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں...................،
ابن كثير الدمشقي، ابو الفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج4، ص114، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1401هـ.
4. ابو الحسن ہيثمی:
ہيثمی نے اپنی کتاب مجمع الزوائد میں اس روایت میں کہ جس میں لفظ خلیفتین آیا ہے، کی سند کو واضح طور پر معتبر قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ:
رواه أحمد وسنده جيد.
اس حدیث کو احمد ابن حنبل نے اپنی کتاب مسند احمد میں نقل کیا ہے اور اسکی سند اچھی و ٹھیک ہے۔
الهيثمي، ابو الحسن علي بن أبي بكر (متوفي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص163، ناشر: دار الريان للتراث، دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.
اور ایک دوسری جگہ پر کہا ہے کہ:
ورجاله ثقات.
حدیث ثقلین کے نقل کرنے والے سارے راوی ثقہ و قابل اعتماد ہیں۔
الهيثمي، ابو الحسن علي بن أبي بكر (متوفي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج1، ص170، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.
5. سيوطی اور محمد بن يوسف صالحیی شامی:
ان دونوں نے حدیث ثقلین کے حسن و صحیح ہونے کے بارے میں ترمذی اور حاکم کے کلام کو نقل کیا ہے اور انکے کلام کو بالکل ردّ نہیں کیا اور انکے کلام پر کسی قسم کا اعتراض و اشکال بھی نہیں کیا:
وأخرج الترمذي وحسنه والحاكم وصححه عن زيد بن أرقم أن النبي صلي الله عليه وسلم قال (إني تارك فيكم الثقلين كتاب الله وأهل بيتي)
السيوطي، أبو الفضل جلال الدين عبد الرحمن أبي بكر (متوفي 911هـ)، الخصائص الكبري، ج2، ص466، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1405هـ - 1985م.
الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفي942هـ)، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد، ج11، ص6، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1414هـ.
6. حسن بن علی سقاف:
سيد سقاف قرشی نے اپنی کتاب شرح صحيح عقيده طحاويہ ميں لکھا ہے کہ:
ورواه الترمذي (5 / 663 برقم 3788) بسند صحيح بلفظ: «إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي، أحدهما أعظم من الآخر: كتاب الله حبل ممدود من السماء إلي الأرض، وعترتي أهل بيتي، ولن يتفرقا حتي يردا علي الحوض، فانظروا كيف تخلفوني فيهما».
ترمذی نے اس حدیث کو اس نمبر کے ساتھ ، صحیح سند کے ساتھ اس لفظ کے ساتھ نقل کیا ہے:اني تارك فیکم.....
رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: میں دو چیزیں اپنے خلیفہ و جانشین کے طور پر تمہارے لیے چھوڑ کر جا رہا ہوں، ایک خداوند کی کتاب کہ جو زمین و آسمان کے درمیان ایک لٹکتی ہوئی رسی کی طرح ہے، اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، یہ دو چیزیں حوض کوثر پر میرے پاس آنے تک آپس میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی، پس اب یہ دیکھنا کہ میرے بعد تم میرے اہل بیت سے کیسا سلوک کرتے ہو ؟؟؟
السقاف القرشي الهاشمي، حسن بن علي (معاصر) صحيح شرح العقيدة الطحاوية أو المنهج الصحيح في فهم عقيدة أهل السنة والجماعة مع التنقيح، 654، ناشر: دار الإمام النووي - عمان - الأردن، الطبعة الأولي، 1416 - 1995 م.
7. البانی، مفتی اہل سنت:
البانی وہابی (متوفي 1420) کہ اسکو امير المؤمنين فی الحديث اور اپنے زمانے کا بخاری کے القاب سے یاد کیا جاتا تھا، اس نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب صحيح الجامع الصغير میں حديث نمبر 2457 کے طور پر ذکر کیا اور اسے صحیح قرار بھی دیا ہے۔
یہ حدیث ثقلین کے بارے میں اہل سنت کے بزرگ علماء کے اقوال تھے، مزید علماء کے نام اور اقوال کو ذکر کیا جا سکتا ہے لیکن ہم اتنی ہی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں۔
التماس دعا۔۔۔۔۔