سوال: علی اکبر سلیمی
سوال کی وضاحت:
سوال: آیت تطہیر اور آیت حضرت ابراہیم علیہ السلام میں اہل بیت سے مراد۔
پہلی آیت میں اہل بیت سے مراد حضرت ابراہیم کے اہل بیت ہیں اور دوسری آیت میں اہل بیت سے مراد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت ہیں۔
لیکن رہا یہ مسئلہ کہ ان دونوں آیتوں میں اہل بیت سے مراد کون افراد ہیں؟ اس سلسلہ میں اہل تسنن و اہل تشیع کے درمیان اختلاف ہے۔
اہل تسنن نے تمام رشتہ داروں کو شامل کیا ہے اور شیعوں نے صرف خاص گروہ کو شامل کیا ہے۔ شیعہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیات اور اہل تسنن کی روایات سے استفادہ کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ اہل تسنن نے اس سلسلہ میں مرکز وحی سے دوری اختیار کی ہے اس لئے ان کے درمیان خود اس بارے میں اختلاف ہے کہ اہل بیت سے مراد رشتہ داروں کا کون سے لوگ ہیں۔
شیعوں کے مدعا کی دلیل:
لغت میں اہل بیت:
عربی لغت میں اھل الرجل کا استعمال، انسان کے خاص اور قریبی رشتہ داروں کے لئے ہوتا تھا۔ لہذا اہل بیت کا استعمال، ابتدائی طور پر بچوں حتی قریبی رشتہ داروں کو بھی شامل ہوگا۔
قرآن کی اصطلاح میں اہل بیت :
لیکن دینی اصطلاح میں لفظ "اہل" کے لئے ایک خاص اصطلاح وضع ہوئی ہے:
قرآن میں ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ "اہل" انبیاء کے خاندان میں سے بعض خاص لوگوں کے لئے استعمال ہوا ہے اور سب رشتہ دار مراد نہیں ہیں۔ اس لئے کہ قرآن میں جناب نوح علیہ السلام کے بیٹے کو ان کے اہل سے خارج کیا گیا ہے۔ چہ جائی کہ ازواج کو شامل کیا جائے [جیسے جناب نوح و لوط کی ازواج]
قَالَ يَانُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيرُْ صَالِح [سورہ ھود آیت ۴۶]
خداوند متعال نے فرمایا اے نوح وہ آپ کے خاندان سے نہیں ہے وہ ایک غیر صالح عمل [والا انسان] ہے۔
لہذا کسی رسول کے اہل بیت کے معنی کو سمجھنے کے لئے منبع وحی یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کو ذریعہ قرار دیں اور ان سے اہل بیت کے معنی دریافت کریں۔
اور اہل بیت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت کے بارے میں مناسب ہے کہ ان احادیث نبوی کی طرف رجوع کیا جائے جن پر شیعہ اور سنی اتفاق ہے۔
سورہ احزاب کی اس آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں، اہل تسنن حدیث کساء کی روایت کو نقل کرتے ہیں:
عن صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، قَالَتْ قَالَتْ عَائِشَةُ خَرَجَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وسلم غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ (إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا).
صحيح مسلم: 130/7 ح 6414
عائشہ کہتی ہیں رسول خدا صبح کے وقت باہر گئے اور ان کے کاندھوں پر کالے بالوں کے نقش و نگار والی عبا تھی۔ پھر حسن ابن علی آئے ان کو آپ نے عبا میں لیا۔ پھر حسین آئے ان کو بھی عبا میں داخل کیا۔ پھر علی آئے ان کو بھی عبا میں داخل کیا۔ پھر فرمایا: خداوند متعال چاہتا ہے کہ آپ اہل بیت سے رجس کو دور رکھے اور آپ کو پاک رکھے۔
ودعا رسول الله صلي الله عليه وسلم الحسن والحسين وعليا وفاطمة فمد عليهم ثوبا فقال اللهم هؤلاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا
سنن النسائي الكبري ج5/ص113
رسول خدا نے، حسن و حسین اور علی و فاطمہ کو بلایا پھر ایک کپڑا آپ پر ڈالا اور کہا پروردگارا یہ میرے اہل بیت ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو پاک و پاکیزہ قرار دے۔
3871 حدثنا محمود بن غيلان حدثنا أبو أحمد الزبيري حدثنا سفيان عن زبيد عن شهر بن حوشب عن أم سلمة أن النبي صلي الله عليه وسلم جلل علي الحسن والحسين وعلي وفاطمة كساء ثم قال اللهم هؤلاء أهل بيتي وخاصتي أذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا فقالت أم سلمة وأنا معهم يا رسول الله قال إنك إلي خير قال هذا حديث حسن وهو أحسن شيء روي في هذا وفي الباب عن عمر بن أبي سلمة وأنس بن مالك وأبي الحمراء ومعقل بن يسار وعائشة
سنن الترمذي ج5/ص699
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ جناب ام سلمہ فرماتی ہیں: رسول خدا نے حسن، حسین، علی، اور فاطمہ پر عبا ڈالی۔ پھر فرمایا خدایا یہ میرے اہل پیت اور خاص ہیں۔ ان سے رجس کو دور رکھ اور انہیں پاک و پاکیزہ قرار دے۔
ام سلمہ کہتی ہیں میں نے رسول خدا سے پوچھا کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں [اہل بیت میں سے]؟ تو آپ نے کہا تم خیر پر ہو [اہل بیت میں سے نہیں ہو لیکن نیک لوگوں میں سے ہو]۔
ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور اس سلسلہ میں بہترین روایت ہے۔ ۔ ۔
الباني اپنی كتاب (صحيح سنن الترمذي، الألباني 3: 306 ح 3205) میں اس کو حدیث صحیح جانتے ہیں۔
اس کے علاوہ حاکم نیشاپوری اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:
هذا حديث صحيح علي شرط البخاري ولم يخرجاه.
المستدرك: 416/2، 146/3.
یہ حدیث بخاری اور مسلم کی نظر کے مطابق صحیح ہے لیکن انھوں نے ذکر نہیں کیا ہے۔
اسی طرح اسی مفہوم کی ایک روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
هذا حديث صحيح علي شرط مسلم ولم يخرجاه.
المستدرك: 416/2.
یہ حدیث مسلم کی نظر کے مطابق صحیح ہے لیکن انھوں نے ذکر نہیں کیا ہے۔
حتی طبرانی ج/۳ ص ۵۲ میں حدیث نمبر ۲۶۶۲ سے ۲۶۷۳ تک دس احادیث لے کر آتے ہیں کہ جس میں اسی مفہوم کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اہل بیت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف علی، فاطمہ، حسن، اور حسین ہیں اور یہاں تک کہ ام سلمہ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ ہیں ان کا شمار بھی ان میں نہیں ہے۔
نیز احمد بن حنبل اور طبرانی اس حدیث کے ضمن میں نقل کرتے ہیں کہ ام سلمہ کہتی ہیں:
فرفعت الكساء لأدخل معهم فجذبه من يدي وقال: إنّك علي خير.
مسند أحمد ج 6 ص 323، المعجم الكبير للطبراني ج 3 ص 53
پھر میں نے چادر کو اوپر اٹھایا تاکہ ان کے ساتھ داخل ہو جاؤں تو آنحضرت نے چادر کو میرے ہاتھ سے کھینچ لیا اور فرمایا تم خیر پر ہو۔
مزے کی بات یہ ہے وہابیوں کے نظریاتی بزرگ ابن تیمیہ نے اس بارے میں کہا ہے:
والحسن والحسين من أعظم أهل بيته اختصاصا به كما ثبت في الصحيح أنه دار كساءه علي علي وفاطمة وحسن وحسين ثم قال اللهم هؤلاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا
منهاج السنة النبوية ج4/ص561
اس عبارت کے معنی واضح ہیں کہ خدایا یہی ہیں کہ جو میرے خاندان سے ہیں لہذا ان سے رجس کو دور رکھ اور انہیں پاک قرار دے۔
اس عبارت میں اہل بیت کی طہارت کی کوئی شرط بیان نہیں کی گی ہے۔ یعنی ان کا تقوی مفروض اور یقینی ہے۔
لیکن ہم قرآن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کے سلسلہ میں دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال فرماتا ہے:
يَا نِسَاءَ النبي لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إن اتَّقَيتُنَّ (سوره احزاب آيه 32)
اے ازواج رسول خدا تم باقی عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر با تقوی ہو۔
نیز اہل سنت کی بعض صحیح روایتوں میں آیا ہے کہ کچھ بزرگان صحابہ صراحتا ازواج رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اہل بیت میں شمار نہیں کرتے ہیں۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ دَخَلْنَا عَلَيْهِ فَقُلْنَا لَهُ لَقَدْ رَأَيْتَ خَيْرًا لَقَدْ صَاحَبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ أَبِي حَيَّانَ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ أَلَا وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَحَدُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ هُوَ حَبْلُ اللَّهِ مَنْ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَي الْهُدَي وَمَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَي ضَلَالَةٍ وَفِيهِ فَقُلْنَا مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ نِسَاؤُهُ قَالَ لَا وَايْمُ اللَّهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنْ الدَّهْرِ ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَي أَبِيهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ وَعَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ
صحيح مسلم ج4/ص1874 كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل علي بن أبي طالب
پھر ہم نے [زید بن ارقم ] سے کہا کہ اہل بیت رسول خدا کون لوگ ہیں؟ کیا ان کی ازواج ہیں؟ جواب دیا: نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے۔ عورت شادی کے بعد ایک طویل عرصے تک شوہر کے ساتھ رہے اور پھر شوپر کسی بناء پر اس کو طلاق دے دے تو وہ عورت اس خاندان کا جز نہیں رہتی بلکہ اپنے باپ اور خاندان اور رشتہ داروں کی طرف واپس چلی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ دوسری روایتوں میں بھی بیان ہوا ہے کہ جس کا مضمون اس روایت سے مخالف ہے لیکن جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ اس اختلاف کا سبب قرآن اور احادیث رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح استفادہ نہ کرنا ہے۔
لیکن ہم نے شروع میں قرآن سے استفادہ کرتے ہوئے واضح کردیا کہ دین کی نظر میں ہر پیغمبر کے اہل بیت کی تعداد خاص رہی ہے۔
اس کے بعد ہم نے اہل تسنن کی کتابوں سے بعض روایات ذکر کی تھیں کہ جس میں ہم نے اہل سنت کی کتابوں میں موجود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایات کے ذریعہ اہل بیت کے مصداق کو واضح کیا۔
(٥٢٢٥)
جواب: