2024 March 28
یزید کی زندگی پر ایک نظر
مندرجات: ٤٢٧ تاریخ اشاعت: ٠٣ August ٢٠٢٢ - ١٠:٠٨ مشاہدات: 20115
مضامین و مقالات » پبلک
یزید کی زندگی پر ایک نظر

اس تحریر میں ہم نے کوشش کی ہے کہ یزید کے بارے میں تفصیل سے آشنائی حاصل کی جائے تا کہ اس کا دفاع کرنے والوں کو بھی بتایا جائے کہ اللہ کے رسول کے نواسے کا قاتل ہرگز اسی رسول اور اس رسول کی امت کا جانشین اور خلیفہ نہیں ہو سکتا۔

ان مطالب کو ہم چند فصلوں میں ذکر کریں گے:

فصل اوّل: یزید کون ہے؟

فصل دوّم: یزید ابن معاویہ کا اخلاقی اور اعتقادى چہرہ:

فصل سوّم: يزيد کی سیاسی زندگی:

 فصل چہارم: يزيد قرآن و حديث کی روشنی میں اور اس پر لعنت کرنا:

 فصل پنجم: امام حسين (ع) کا قاتل کون ہے؟

فصل اوّل: یزید کون ہے ؟

نسب يزيد:

مشہور ہے کہ یزید معاويہ بن صخر، ابو سفيان بن حرب بن اميّہ بن عبد شمس کا بیٹا ہے۔

اسکی ماں ميسون بنت بحدل بن دُلجہ بن قُناعہ بن عدی بن زہير بن حارثہ بن جَناب ہے۔

تاریخ پیدائش: سال 26 يا 27 هـ ق. کو پیدا ہوا۔

تاریخ وفات: 14 ربيع الأوّل سال 64 ھ ق۔ کو دمشق کے ایک دیہات میں فوت ہوا۔

یزید کی تربیت کا ماحول:

یزید کی معاویہ اور دربار خلافت کی طرف نسبت ہونے اور عیش و عشرت کے تمام وسائل نے اس کے لیے ہر قسم کی آزادی اور آوارگی کو فراہم کیا ہوا تھا۔ اسی وجہ سے وہ آداب اسلامی اور تربیت قرآنی سے بہت دور تھا اور حتی احکام خدا اور شریعت محمدی کا بڑی آسانی سے مذاق اڑایا کرتا تھا۔ اسی تربیت کا اثر تھا کہ شراب خواری، جوا بازی، زنا اور حیوانات سے کھیلنا اس کا ہر روز کا معمول کا کام تھا۔

یزید کیسے حاکم بنا:

یزید اپنے سے پہلے خلیفہ یعنی معاویہ کے خلافت کے لیے نصب کرنے کی وجہ سے، لوگوں کی رائے اور مشورے کے بغیر حاکم بنا۔

 کیا جس طرح اہل سنت کہتے ہیں کہ یزید تمام لوگوں کی رضایت اور مشورے سے یا کم از کم ایک یا دو صحابی کی رضایت کے ساتھ خلیفہ بنا، کیا واقعا ایسا ہی ہے ؟؟؟

تاریخ نے اس بات کا جواب دیا ہے:

وہ، فقط معاویہ کی اندھی محبت کی وجہ سے اور اس نیت سے کہ مکر و حیلے سے حاصل کی ہوئی حکومت بنی امیہ کے ہاتھ سے نہ نکلنے پائے، تخت سلطنت پر بیٹھا تھا۔

تاریخ دمشق کی کتاب کے مصنف نے کہا ہے کہ:

بويع له بالخلافة بعد أبيه بعهد منه۔

یزید کی ولیعھدی اور خلافت صرف معاویہ کی طرف سے وجود میں آئی تھی۔

تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 65، ص 394.

 اور زبیر ابن بکار نے لکھا ہے کہ:

بايع له معاوية من بعده، و كان أوّل من جعل وليّ عهد في صحّته، و كان معاوية يقول: لولا هوائى في يزيد لأبصرت قصدی.

معاویہ نے اپنی زندگی میں یزید کی خلافت اور جانشینی کے لیے لوگوں سے بیعت لی تھی اور وہ اسلام میں پہلا بندہ تھا جس نے اپنی زندگی میں اپنا ولی عھد بنایا تھا۔ معاویہ نے بھی کہا ہے کہ اگر مجھے یزید سے زیادہ محبت نہ ہوتی تو میں اس بارے میں غور اور فکر کرتا۔

 تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 65، ص 395

وہ جو کہتے ہیں کہ رسول خدا کا جانشین اور خلیفہ انتخاب کرنا یہ امت کا کام ہے اور بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ یہی کام اسلامی جمہوریت کی اور مسلمانوں کی ترقی کی علامت ہے، وہ آئیں اور جواب دیں کہ رسول خدا کو دنیا سے جانے اور معاویہ اور یزید کی زندگی میں آخر کتنا فاصلہ تھا کہ تمام چیزوں کے علاوہ حتی رسول خدا کا خلیفہ انتخاب کرنے کا طریقہ تک بھی بدلا جا رہا ہے ؟

يزيد کا طریقہ حکومت:

آسان اور سادے الفاظ میں کہ یزید کا طرز حکومت بالکل اس کے باپ یعنی معاویہ والا تھا یعنی مخالف کو قتل کر کے، درہم و دینار کی لالچ دے کر، جو مخالف ہو اس کو جلا وطن کر کے اور جو بات نہ مانے اس کو ڈرا دھمکا کر حکومت کرنا، یہ یزید کا بھی طرز حکومت تھا۔

یہ بات اتنی واضح ہےکہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن پھر بھی چند نمونے ذکر کیے جا رہے ہیں۔

فصل دوّم: یزید ابن معاویہ کا اخلاقی اور اعتقادى چہرہ:

یزید کا اخلاقی چہرہ بیان کرنے میں اختلاف نظر:

با انصاف و حق بیان کرنے والے مؤرخین نے یزید کا حقیقی چہرہ بیان کیا ہے کہ بعض متعصب اور دین فروش علماء کو یہ بات پسند نہیں آئی اس لیے انھوں نے یزید کی حمایت کرتے ہوئے اس کا ایک دوسرا چہرہ بیان کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ تاریخ نے يزید کا تعارف کرانے میں دو طرح کے اقوال کو نقل کیا ہے:

قول اوّل:

اس نقل کے مطابق یزید ایک شراب خوار، فاسق، فاجر، گناہ کبیرہ کو انجام دینے والا، زنا کا شوقین، لوگوں کی جان، مال و ناموس کو لوٹنے والا، احکام دینی و اسلامی کا تمسخر اڑانے والا اور نیک لوگوں و صحابہ کا قتل کرنے والا شخص تھا۔

قول دوّم:

اس نقل کے مطابق یزید ایک امام، لوگوں کا انتخاب شدہ رسول خدا خلیفہ اور نیک انسان تھا۔

اب ان دو طرح کے اقوال میں کون سا قول تاریخ اور حقیقت کے مطابق ہے، اس کا جواب تاریخ کے صفحات سے تلاش کرنا پڑے گا۔

یزید کی اخلاقی پستی کے چند نمونے:

يزيد کا شراب پینا:

مذہب اسلام میں شراب کا حرام ہونا ایسی بات ہے کہ اس پر تمام اسلامی فرقوں کا اجماع ہے۔ شراب کے حرام ہونے کو قرآن اور احادیث نے جگہ جگہ پر بیان کیا ہے:

يَسْـئَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَآ إِثْمٌ كَبِيرٌ وَ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ إِثْمهمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا۔

شراب اور جوئے کے بارے میں آپ سے پوچھتے ہیں تو آپ کہہ دو کہ: ان دونوں میں لوگوں کے لیے بہت بڑا گناہ اور فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ اور بڑا ہے۔

سورہ بقرة آيه 219.

يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَيْسِرُ وَ الاْنصَابُ وَ الاْزْلَـمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَـنِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔

اے ایمان والو، شراب اور جوا بازی اور بت اور پانسے(قرعے کے تیر) سب شیطانی عمل ہیں، پس تم ان سے دور رہو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

سورہ مائدہ آيه 90.

 إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَـنُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِى الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ وَ يَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَ عَنِ الصَّلَوةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ۔

بے شک شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان دشمنی ایجاد کرنا چاہتا ہے اور تم کو ذکر خدا اور نماز سے منع کرنا چاہتا ہے پس کیا تم اس کے روکنے سے منع ہو جاؤ گے ؟

سورہ مائدہ آيه 91.

ان آیات کے علاوہ علماء نے بھی شراب کے نجس و حرام ہونے کے بارے میں فتوئے دئیے ہیں اور شراب پینے کے عادی بندوں کو شراب کے گناہ اور اس کے عذاب کے بارے میں بتایا ہے۔

رسول خدا(ص) نے شراب کے شدید حرام ہونے کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

لعن اللّه الخمر و شاربها و ساقيها و بائعها و مبتاعها و عاصرها و معتصرها و حاملها و المحمولة إليه و آكل ثمنها۔

خداوند نے شراب کو اور اس کے پینے والے اور اس کے پلانے والے اور بیچنے والے اور اس کے خریدنے والے اور اس کے نچوڑنے والے اور اس کے تیار کرنے والے اور اس کے اٹھانے والے اور اس کے اٹھوانے والے اور اس کی کمائی کھانے والے پر لعنت کی ہے۔

 سنن أبی داود، ج 3، ص324، حدیث 3674 

 المستدرک على الصحيحين، ج 2، ص 37، حدیث 2235.

اسلامی معاشرے میں بھی حقیقی و واقعی مسلمان شراب پینے والوں سے نفرت کرتے ہیں اور انکو بے دین اور گناہ گار انسان سمجھتے ہیں۔

مؤرخین نے لکھا ہے کہ یزید نوجوانی کے زمانے سے لے کر مرتے دم تک بہت شراب پیتا تھا اور بعض نے تو لکھا ہے یزید شراب پینے میں مبالغہ آرائی ( یعنی بہت ہی زیادہ شراب پینا ) سے کام لیتا تھا۔

یزید کا نوجوانی سے شراب پینا:

ابن كثير اور دوسروں نے اس روایت کو ذکر کیا ہے کہ:

كان يزيد بن معاوية في حداثته صاحب شرب.

یزید نوجوانی سے ہی شراب کا دوست اور عاشق مشہور تھا۔

البداية و النهاية، ج 8، ص228 

 تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 65، ص 403

یزید کا مدینہ منورہ میں سب کے سامنے سر عام شراب پینا:

عمر بن شيبة قال: لمّا حجّ الناس في خلافة معاوية جلس يزيد بالمدينة على شراب، فاستأذن عليه ابن عبّاس و الحسين بن عليّ، فأمر بشرابه فرفع.

معاویہ کی خلافت کے دور میں اور سفر حج میں اور شہر مدینہ رسول خدا کے حرم میں اور گھر کے نزدیک بھی اس نے اسلامی احکام کا مذاق اڑانا نہ چھوڑا اور سب لوگوں کے سامنے اس نے شراب پینا شروع کی لیکن جب اسے بتایا گیا کہ ابن عباس اور حسین ابن علی(ع) آ رہے ہیں تو اس نے شراب پینا بند کر دیا۔

تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 65، ص 406.

یزید شراب کا اتنا عاشق اور عادی تھا کہ جب دوسرے شہروں سے بزرگان وفد کی صورت میں اسے ملنے آتے تو یہ تخت پر بیٹھ کر ان سب کے سامنے بھی شراب پیتا تھا۔

کتب تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ:

بعث (عثمان بن محمّد بن أبي سفيان، والي مدينة) إلى يزيد منها وفداً فيهم عبد اللّه بن حنظلة الغسيل الأنصاري، و عبد اللّه بن أبي عمرو بن حفص بن المغيرة الحضرمي، و المنذر بن الزبير، و رجال كثير من أشراف أهل المدينة، فقدموا على يزيد، فأكرمهم و أحسن إليهم، و عظّم جوائزهم، ثمّ انصرفوا راجعين إلى المدينة، إلاّ المنذر بن الزبير، فإنّه سار إلى صاحبه عبيد اللّه بن زياد بالبصرة، و كان يزيد قد أجازه بمائة ألف نظير أصحابه من أولئك الوفد، و لمّا رجع وفد المدينة إليها، أظهروا شتم يزيد، و عيبه، وقالوا: قدمنا من عند رجل ليس له دين، يشرب الخمر، و تعزف عنده القينات بالمعازف.

و إنّا نشهدكم أنّا قد خلعناه، فتابعهم الناس على خلعه، و بايعوا عبد اللّه بن حنظلة الغسيل على الموت. 

کچھ بزرگان اور صحابہ کا ایک وفد کہ ان میں جنگ احد میں شھید ہونے والے عبد اللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ کا بیٹا تھا، یزید سے بعنوان حاکم اسلامی ملنے کے لیے شام میں آئے۔ جب وہ یزید کے دربار میں گئے تو یزید نے ان کا بہت احترام کیا اور ملاقات کے بعد واپس جاتے ہوئے ان سب کو بہت تحفے اور ھدیئے دے کر روانہ کیا لیکن انھوں نے پھر بھی مدینہ کے لوگوں کو یزید کی حقیقت کے بارے میں سب کچھ بتا دیا، انھوں نے کہا کہ ہم ایسے شخص سے مل کر آ رہے ہیں کہ جو بے دین ہے، شراب پیتا ہے، ساز و آواز اس کے دربار میں بجایا اور رقص کیا جاتا ہے تم مدینہ کے سب لوگ گواہ رہو کہ ہم اس کو خلافت سے عزل کرتے ہیں۔ لوگوں نے بھی بزرگان مدینہ کی اس کام میں اطاعت اور حمایت کی اور عبد اللہ بن حنظلہ کی بیعت پر سب جمع ہو گئے۔ 

البداية و النهاية، ج 8، ص 235 و 236 

الكامل، ابن أثير، ج 4، ص103 

 تاريخ طبرى، ج 7، ص4.

یزید شراب کا اتنا دلدادہ تھا کہ حکم دیا کرتا تھا کہ اس کے لیے دربار میں بہترین قسم کی شراب کو لایا کرو۔

ذہبی نے زیاد حارثی سے نقل کیا ہے کہ:

سقانى يزيد شراباً ما ذقت مثله، فقلت: يا أمير المؤمنين لم أُسلسل مثل هذا، قال: هذا رمّان حُلوان، بعسل اصبهان، بسكّر الأهواز، بزبيب الطائف، بماء بَرَدى.

یزید نے مجھے ایسی شراب پلائی ہے کہ آج تک میں نے ویسی شراب نہیں پی تھی۔ میں نے یزید سے کہا کہ میں نے آج تک ایسی شراب نہیں پی۔ یزید نے کہا: شہر حلوان کے انار، شہر اصفہان کی شھد، شہر اہواز کی شکر، شہر طائف کی کشمش اور بردی کے پانی سے یہ شراب خاص طور پر تیار کی گئی ہے۔

سير أعلام النبلاء، ج 4، ص37.

مذاہب اسلامی میں شراب پینے والے کے بارے میں فقہی و شرعی حکم:

تمام مذاہب اسلامی آیات قرآن کی روشنی میں ہر قسم کی نشہ آور چیز کو نجس اور حرام کہتے ہیں اور شراب خوار کو فاسق اور جو بھی شراب کو حلال کہے اس کو کافر کہتے ہیں۔

محى الدين نووى اپنی کتاب روضۃ الطالبين میں شراب خوار کی حدّ کے بارے میں کہتا ہے کہ:

شرب الخمر من كبائر المحرّمات....و يفسق شاربه، و يلزمه الحدّ، و من استحلّه كفر...

ابن نجیم مصری نے شراب خواری کو گناہ کبیرہ، شراب خوار کو فاسق، شراب پینے والے پر حد کے جاری کرنے کا کہا ہے اور جو بھی شراب کو حلال کہے اس کو کافر کہا ہے۔

 روضة الطالبين، ج 7، ص374.

يكفّر مستحلّها، و سقوط العدالة إنّما هو سبب شربها.

جو شراب کو حلال کہے وہ کافر ہے اور شراب پینے سے انسان کی عدالت ساقط (ختم) ہو جاتی ہے۔

 البحر الرائق، ج 7، ص 147.

کیا معاویہ کا بیٹا یزید شراب خوار ہونے کے با وجود رسول خدا(ص) کا جانشین اور خلیفہ اسلامی بننے کے قابل تھا ؟؟؟

کیا اس کا صفت عدالت سے دور ہونا اور سر عام شراب پینا اس کے فاسق ہونے کے لیے کافی نہیں ہے ؟؟؟

یزید بے نمازی، شراب خوار ، ماں، بہن اور بیٹی سے زنا کرنے والا تھا:

عبد الله ابن حنظلہ غسيل الملائكہ نے یزید سے ملاقات کے بعد اس کے بارے میں یہ کہا ہے کہ:

يا قوم! فو اللّه ما خرجنا على يزيد حتّى خفنا أن نرمي بالحجارة من السماء، أنّه رجل ينكح أمهات الأولاد، و البنات، و الأخوات، و يشرب الخمر، و يدع الصلاة.

خدا کی قسم جب میں یزید سے ملاقات کر کے اس کے دربار سے باہر آیا تو مجھے یہ خوف ہونے لگا کہ مجھ پر آسمان سے پتھر ہی برسنا شروع نہ ہو جائیں، کیونکہ یزید ماں، بیٹی، بہن سے زنا کرتا ہے، شراب پیتا ہے اور نماز بھی نہیں پڑھتا۔

الطبقات الكبري، ابن سعد، ج 5، ص 66 

 تاريخ مدينه دمشق، ج 27، ص 429 

الكامل، ج 3، ص310 

تاريخ الخلفاء، ص 165.

یزید شراب خوار، بندر سے                    کھیلنے  والا اور لواط کروانے والا تھا:

جاحظ عالم اہل سنت کہتا ہے کہ:

ثم ولى يزيد بن معاوية يزيد الخمور و يزيد القرود و يزيد الفهود الفاسق في بطنه المأبون في فرجه... و اما بنو أمية ففرقه ضلالة و بطشهم بطش جبرية يأخذون بالظنة و يقضون بالهوى و يقتلون على الغضب۔

اس کے بعد یزید ابن معاویہ خلیفہ بنا کہ وہ بہت زیادہ شراب پینے والا، بندروں سے زیادہ کھیلنے والا، فاسق انسان کہ جو دوسروں سے لواط کرواتا تھا اور بنی امیہ گمراہ فرقہ تھا کہ جنکی حکومت کا طریقہ جابرانہ اور متکبرانہ تھا، جس پر تھوڑا سا بھی شک و گمان ہو جاتا اس کو گرفتار کر لیتے پھر اس کے خلاف خود فتوی دے کر اس کو بے دردی سے غضب اور غصّے کی حالت میں قتل کر دیتے تھے۔

البيان و التبيين، جاحظ، ج 1، ص 276.

يزید شراب خوار، فاسق و فاجر، زانی، بندروں اور کتوں سے کھیلنے والا اور آوارہ گرد تھا:

اسی طرح بلاذری نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ:

قال الواقدي و غيره في روايتهم: لما قتل عبد الله بن الزبير أخاه عمرو بن الزبير خطب الناس فذكر يزيد بن معاوية فقال: يزيد الخمور، و يزيد الفجور، و يزيد الفهور و يزيد القرود، و يزيد الكلاب، و يزيد النشوات، و يزيد الفلوات، ثم دعا الناس إلى اظهار خلعه و جهاده، و كتب على أهل المدينة بذلک۔

واقدی اور اس کے علاوہ دوسروں نے کہا ہے کہ: جب عبد اللہ ابن زبیر قتل ہوا تو اور اس کے بھائی عمرو ابن زبیر نے لوگوں کے لیے خطبہ پڑھا اور اس میں یزید ابن معاویہ کے بارے میں اس طرح بیان کیا کہ:

یزید شراب خوار، فاجر، ہوس باز، بہت زنا کرنے والا، بندروں اور کتوں سے کھیلنے والا، صحرا اور بیابانوں میں آوارہ گردی کرنے والا تھا۔ پھر لوگوں سے چاہا کہ اس کو خلافت سے عزل کر دیں اور مدینہ کے لوگوں کو اس کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا۔

انساب الاشراف، بلاذری، ج 2، ص 191.

یزید کے لواط کروانے کے بارے میں جو لوگ حاضر ہیں، وہ ان لوگوں کو کہ جو غائب ہیں، خبر دیں:

ذہبی اور بعض دوسرے اہل سنت کے علماء نے یزید کے بارے میں ایسے بیان کیا ہے کہ:

خطبهم عبد الملك بمكة لما حج، فحدث أبو عاصم، عن ابن جريج، عن أبيه قال: خطبنا عبد الملك بن مروان بمكة، ثم قال: اما بعد، فإنه كان من قبلي من الخلفاء يأكلون من هذا المال و يؤكلون، و إني و الله لا أداوي أدواء هذه الأمة إلا بالسيف، و لست بالخليفة المستضعف يعني عثمان و لا الخليفة المداهن يعني معاوية و لا الخليفة المأبون يعني يزيد و إنما نحتمل لكم ما لم يكن عقد راية. أو وثوب على منبر، هذا عمرو بن سعيد حقه حقه و قرابته قرابته، قال برأسه هكذا، فقلنا بسيفنا هكذا، ألا فليبلغ الشاهد الغائب.

عبد الملک نے مکہ میں حج کے موقع پر لوگوں کے لیے خطبہ پڑھا اور اس میں اس طرح کہا:

امّا بعد، اے لوگو ! مجھ سے پہلے جو خلیفہ اور حاکم گزرے ہیں انھوں نے لوگوں کے مال کو خود کھایا اور دوسروں کو بھی دیا کہ وہ بھی کھائیں۔ خدا کی قسم! میں شمشیر کے ذریعے سے اس امت کی مشکلات کو حل کروں گا۔ میں عثمان کی طرح کمزور خلیفہ نہیں ہوں، میں معاویہ کی طرح نرمی و سستی کرنے والا بھی نہیں ہوں اور میں لواط کروانے خلیفہ یزید کی طرح بھی نہیں ہوں۔ میں اس وقت تک تم لوگوں کو برداشت کروں گا کہ تم میری حکومت اور خلافت کے لیے خطرہ نہ بنو۔ ہم نے عمرو بن سعيد کے ساتھ بہت نزدیکی اور اس کا ہم پر حق ہونے کے با وجود، جو کیا ہے وہ تم سب جانتے ہو ۔ اس نے اپنے سر کے ساتھ ایسا کیا اور ہم نے اپنی شمشیر کے ساتھ ایسا کیا۔ اس خبر کو جو لوگ حاضر ہیں، ان تک پہنچا دیں کہ جو لوگ ابھی یہاں پر موجود نہیں ہیں۔

تاريخ الاسلام، ذهبی، ج 5، ص 325

 تاريخ مدينة دمشق، ج 37، ص 135

 البيان و التبيين، جاحظ، ج 1، ص 334.

 يزيد ناصبی تھا:

ذہبی نے يزيد کو ناصبى يعنی اہل بيت (ع) کا دشمن کہا ہے اور اس کے بارے میں اس طرح کہا ہے کہ:

و كان ناصبيا فظا غليظا جلفا يتناول المسكر و يفعل المنكر۔

یزید ایک ناصبی، بد اخلاق، بے ادب، کم عقل، شراب خوار اور حرام کام انجام دینے والا شخص تھا۔

سير أعلام النبلاء، ج 4، ص37.

یزید نماز نہیں پڑھتا تھا:

نماز دین اسلام میں ایمان اور خدا پرستی کی ایسی علامت ہے کہ اس کے بغیر انسان کا اسلام و ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ نماز عبادت و بندگی کی معراج ہے کہ جو انسان کو عبودیت کی بلندیوں پر لے جاتی ہے۔ جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ حقیقی طور پر مسلمان کہلانے کے قابل نہیں ہے۔

یزید نہ فقط احکام شرعی و شراب کے بارے میں لا پروا اور بے پروا تھا بلکہ مہم ترین علامت مسلمانی و بندگی یعنی نماز کے بارے میں بھی لا پرواہی اور سستی کرتا تھا۔ 

تاریخ کی کتب میں ہے کہ وہ کبھی نماز پڑھتا تھا اور کبھی نہیں پڑھتا تھا یعنی نماز کو بالکل اہمیت نہیں دیتا تھا۔ اگر پڑھتا بھی ہو گا تو ایک فاسق، فاجر، زانی، لواط کروانے والے اور شراب خوار انسان کی نماز کیا ہو گی اور وہ کیسے پڑھتا ہو گا، یہ ایسی بات ہے کہ یزید کو رسول خدا کا خلیفہ اور جانشین کہنے والے، آئیں اور اس کا جواب دیں!!!

و قد كان يزيد... فيه أيضاً إقبال على الشهوات، و ترك بعض الصلاة في بعض الأوقات.

یزید شہوات کی طرف زیادہ توجہ کرتا تھا اور بعض اوقات نماز کو بھی ترک کرتا تھا۔

البداية و النهاية، ابن كثير، ج 8، ص 252.

یزید ایسا بندہ تھا کہ جسکی تربیت ہی لعب و لھو کے ماحول میں ہوئی تھی۔ اس وجہ سے اتنی آسانی سے اپنے آپ کو شہوات اور حرام کاموں سے دور نہیں رکھ سکتا تھا بلکہ وہ ہر غیر شرعی اور حرام کام کا بڑی خوشی سے استقبال کرتا اور اس کو انجام دیتا تھا۔ اسی وجہ سے تو وہ احکام شرعی اور خاص طور پر نماز کو اہمیت نہیں دیتا تھا۔ رسول خدا نے تارک نماز کے بارے میں فرمایا ہے کہ:

سلّموا على اليهود و النصارى و لاتسلّموا على يهود أمّتي، قيل: و من يهود أمّتك قال: تارك الصلاة. 

یھودیوں اور مسیحیوں پر سلام کرو لیکن میری امت کے یھودیوں پر سلام نہ کرو، آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کی امت کے یہودی کون ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ: جو بھی میری امت میں سے نماز کو ترک کرنے والا ہو۔

 كشف الخفاء، ج 1، ص 455، رقم 1484.

لا پرواہی فقط رسول خدا(ص) کا خلیفہ ہونے کے عنوان سے:

یزید کی عیاشیاں اور بے پرواہیاں اور وہ بھی رسول خدا کے خلیفہ ہونے کے نام سے اور رسول خدا کی مسند اور جگہ پر بیٹھ کر باعث بنی کہ مدینہ منورہ  کے لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، کہ اس بات کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔ یزید کا فسق و فجور اس قدر زیادہ اور واضح تھا کہ مدینے کے بزرگوں کا ایک وفد کہ جو یزید سے ملنے شام گیا تھا، یزید کے ان کو قیمتی تحفے اور ھدیئے دینے کے با وجود بھی وہ یزید کے فسق و فجور کو بیان کیے بغیر نہ رہ سکے۔ 

منذر بن زبیر کہ جس نے یزید سے ایک لاکھ درہم لیے تھے اس نے مدینہ کے لوگوں سے کہا کہ:

إنّ يزيد و اللّه لقد أجازني بمائة ألف درهم و إنّه لايمنعني ما صنع إليّ أن أخبركم خبره و أصدّقكم عنه، و اللّه إنّه ليشرب الخمر، و أنّه ليسكر حتّى يدع الصلاة. و عابه بمثل ما عابه به أصحابه الذين كانوا معه و أشدّ. 

یزید نے اگرچے مجھے ایک لاکھ درہم ھدیئے کے طور پر دیئے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں حق کو بیان نہ کروں۔ خدا کی قسم یزید شراب پیتا ہے اور اتنا نشے میں مست ہوتا ہے کہ نماز کو بھی ترک کرتا ہے، پھر منذر کے بعد ایک ایک کر کے سب نے اس سے بھی شدید تر یزید کی برائیوں کو بیان کیا اور اس کی مذمت کی۔

تاريخ طبری، ج 4، ص 369 

تاريخ ابن اثير، ج 4، ص40 و 41 

تاريخ ابن كثير، ج 8، ص216 

العقد الفريد، ج 4، ص 388.

انہی میں سے ایک بندے نے کہا کہ:

قال عبد الله بن أبي عمرو بن حفص بن المغيرة المخزومي... إنّي لأقول هذا و قد وصلني و أحسن جائزتي، و لكنّ عدوّ اللّه سِكّير خِمّير

قیمتی تحفے لینا مجھے حق کے بیان کرنے سے منع نہیں کر سکتے۔ میں نے یزید کو خدا کا ایسا دشمن دیکھا ہے کہ جو ہمیشہ نشے میں مست رہتا ہے۔

 الأغانی، ج 1، ص34.

یزید کی اخلاقی پستی کہ جو خود اہل سنت کی کتب میں بیان ہوئی ہے، کی طرف توجہ کرتے ہوئے کیا یزید یا اس جیسا کوئی بھی بندہ رسول خدا کا خلیفہ اور جانشین بننے کے قابل ہے ؟ 

یزید کے چاہنے والے اور اس کی پیروی کرنے والے ہر طرح سے ممکن کوشش کرتے ہیں کہ یزید سے ہونے والے ان شریعت اسلامی کے خلاف اور حرام کاموں کو ردّ کریں یا کسی بھی طریقے سے ان کاموں کی نسبت یزید کی طرف نہ دیں۔

یزید کا فاسق و فاجر ہونا تاریخ میں اتنا واضح ہے کہ ان متعصّب اور نا انصاف لوگوں کی کوششوں اور غلط تاویلات اس کے آلودہ اور ناپاک دامن کو پاک اور صاف نہیں کر سکتیں۔

يزيد احاديث کی روشنی میں:

كتب اہل سنّت میں یزید کی مذمت میں روایات:

مذکورہ مطالب کہ جو یزید کے بارے میں بیان ہوئے، ان کے علاوہ اہل سنت کی کتب میں یزید کی مذمت کے بارے میں بہت سی روایات ذکر ہوئی ہیں کہ ان میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:

1 ـ روى الحاكم عن عائشة قوله صلي الله عليه و آله: ستّة لعنتهم، لعنهم اللّه و كلّ نبيّ مجاب: الزائد في كتاب اللّه، و المكذّب بقدر اللّه تعالى، و المتسلّط بالجبروت فيعزّ من أذلّ اللّه و يذلّ من أعزّ اللّه، و المستحلّ لحرم اللّه، و المستحلّ من عترتي ما حرّم اللّه، و التارك لسنّتی۔

عائشہ نے رسول خدا(ص) سے نقل کیا ہے کہ: چھے گروہوں کو خداوند نے لعنت کی ہے، میں نے اور اللہ کے ہر نبی نے بھی ان کو لعنت کی ہے: جو قرآن کریم میں کسی چیز کا اضافہ کرے۔  جو تقدیر خدا کو جھٹلائے۔  جو زبردستی اور غلبے سے لوگوں پر مسلط ہو اور ان لوگوں کو کہ جن کو خداوند نے ذلیل کیا ہے، ان کو عزّت دے اور ان لوگوں کو کہ جن کو خداوند نے عزیز کیا ہے ذلیل و خوار کرے۔  جو خداوند کے حلال کو حرام قرار دے۔  جو میرے اہل بیت کے بارے میں جو کچھ خدا نے حرام قرار دیا ہے، حلال قرار دے۔  جو میری سنت کو ترک کرے۔

المستدرك على الصحيحين، ج 2، ص 572، ح 3941

مجمع الزوائد، ج 1، ص 176

فضائل الخمسة، ج 3، ص 349 و 350.

مناوى صاحب کتاب فيض القدير کہتا ہے کہ: اس جملے کا معنی «و المستحلّ من عترتی ما حرّم اللّه» یہ ہے کہ جو بھی میرے اہل بیت کے ساتھ وہ کچھ انجام دے کہ جس کا انجام دینا جائز نہیں جیسے: ان کو اذیت کرے یا ان کی بے حرمتی کرے، جو بھی ایسا کرنے کو حلال جانے وہ کافر ہے یا کم از کم گناہ گار ہے اور ان کو اذیت کرنے والوں پر لعنت کا ہونا یہ اہل بیت کی عظمت اور ان کے بلند مقام کو بیان اور واضح کرتا ہے۔ اسی وجہ سے اس لعنت کی نسبت خداوند اور رسول خدا کی طرف دی گئ ہے۔

فيض القدير، ج 4، ص96.

لھذا کوئی بھی با ضمیر اور با انصاف انسان اس بات میں شک نہیں کر سکتا کہ یزید اور کی پیروی کرنے والوں نے اس چیز کو کہ جس کو خداوند نے اہل بیت کے لیے حرام قرار دیا تھا، اس کو انھوں نے حلال جانا تھا اور وہ امام حسین(ع) کو شھید کرنا اور ان کے اہل بیت کو اسیر کرنا تھا۔

پس ان پر کافر ہونے کا حکم کیا جائے گا یا کم از کم وہ فاسق و فاجر تو ضرور ہوں گے، دونوں صورتوں میں ان پر لعنت کرنا جائز ہو گا اور یہی بات رسول خدا کی حدیث میں بھی بیان ہوئی ہے۔

2 ـ روى أحمد و مسلم عن رسول اللّه صلي الله عليه و آله: من أخاف أهل المدينة أخافه اللّه عزّ و جلّ، و عليه لعنة اللّه و الملائكة و الناس أجمعين، لا يقبل اللّه منه يوم القيامة صرفاً و لا عدلاً. 

رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ: جو بھی مدینہ کے لوگوں کو ڈرائے تو خداوند بھی اس کو ڈرائے گا اور ایسے بندے پر خداوند، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو گی اور خداوند قیامت کو اس کے بارے میں کسی ایسی چیز کو کہ جو اس سے عذاب کو دور کرے، قبول نہیں کرے گا۔

مسند أحمد، ج 4، ص 55 و 56 

صحيح مسلم، ج 4، ص 114 و 115‌

مجمع الزوائد، ج 3، ص 306. 

کیا جس نے مدینہ منورہ پر لشکر کشی کی ہو، وہ رسول خدا کی اس حدیث کا مصداق نہیں ہو گا ؟؟؟

ہاں مدینہ منورہ کی تاریخ نے یزید کے اہل مدینہ پر لشکر کشی کرنے، اصحاب رسول خدا کا قتل عام کرنے، اس شھر مقدس کی بے حرمتی اور عورتوں کی ناموس کے پامال کرنے کو فراموش نہیں کیا ہے۔

3 ـ و قال الحافظ أبو يعلى: حدّثنا الحكم بن موسى، ثنا يحيى بن حمزة، عن هشام بن الغاز، عن مكحول، عن أبي عبيدة: أنّ رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم قال: «لا يزال أمر أمّتي قائماً بالقسط حتّى يثلمه رجل من بني أميّة يقال له يزيد.

و قد رواه ابن عساكر من طريق صدقة بن عبد اللّه الدمشقي عن هشام بن الغاز، عن مكحول، عن أبي ثعلبة الخشني، عن أبي عبيدة.

عن رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم قال: «لا يزال أمر هذه الأمّة قائماً بالقسط حتّى يكون أوّل من يثلمه رجل من بني أميّة يقال له يزيد».

رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ: میری امت میں سب سے پہلے جو بندہ رخنہ اور اختلاف ڈالے گا وہ بنی امیہ سے یزید نام کا بندہ ہو گا۔

 الأسماء و الكنى، دولابی، ج 1، ص 163.

حسنّه الألباني و صحّحه العزيزي الشافعي كما فى صحيح الجامع الصغير۔

اس حدیث کو البانی اور عزیزی شافعی نے صحیح کہا ہے۔

صحيح الجامع الصغير، ج 1، ص 504، ح 2582 

    السراج المنير، ج 2، ص 90.

ابن کثیر یزید کے زنا اور نماز کے ترک کرنے کو ذکر کرنے کے بعد اس بات پر رسول خدا (ص) کی حدیث کو دلیل کے طور پر لایا ہے اور کہتا  ہے کہ:

4- و كان فيه أيضاً إقبال على الشهوات و ترك بعض الصلوات فی بعض الأوقات، و اماتتها في غالب الأوقات.

وقد قال الامام أحمد: حدثنا أبو عبد الرحمن، ثنا حيوة، حدثني بشير بن أبي عمرو الخولاني: أنّ الوليد بن قيس حدّثه أنّه سمع أبا سعيد الخدري يقول: سمعت رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم يقول: «يكون خلفٌ من بعد ستين سنة أضاعوا الصلاة و اتبعوا الشهوات فسوف يلقون غياً، ثم يكون خلف يقرأون القرآن لا يجاوز تراقيهم، و يقرأ القرآن ثلاثة مؤمن و منافق و فاجر».

60 سال کے بعد امت اسلامی پر وہ مسلط ہوں گے کہ جہنوں نے نماز کو ضائع کیا ہے اور ہوائے نفس کی پیروی کی ہے اور بہت جلدی اپنی گمراہی کی سزا ان کو ملے گی۔ ان کے بعد ایک ایسا گروہ آئے گا کہ جو قرآن کی تلاوت کرے گا لیکن قرآن ان کے گلے میں ہی رہے گا(یعنی قرآن کا اثر ان کے دلوں پر نہیں ہو گا)۔ قرآن کی تین گروہ تلاوت کرتے ہیں: مؤمن، منافق، فاجر۔

البداية و النهاية، ج 8، ص 252 و 253.

5 ـ و قال الحافظ أبو يعلى: حدثنا زهير بن حرب، ثنا الفضل بن دكين، ثنا كامل أبو العلاء: سمعت أبا صالح سمعت أبا هريرة يقول: قال رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم: «تعوّذوا باللّه من سنة سبعين، و من امارة الصبيان. 

رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ: سن 70 ہج کے سال کے حوادث اور واقعات اور بچوں کی حکومت سے خداوند کی پناہ مانگو۔

البداية و النهاية، ج 8، ص 252 و 253.

6 ـ و قال أبو يعلى: حدّثنا عثمان بن أبي شيبة، ثنا معاوية بن هشام، عن سفيان، عن عوف، عن خالد بن أبي المهاجر، عن أبي العالية.

قال: كنّا مع أبي ذر بالشام فقال أبو ذر: سمعت رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم يقول: «أوّل من يغيّر سنّتی رجل من بنی أميّة». 

راوی کہتا ہے کہ ہم شام میں ابو ذر کے ساتھ تھے کہ ابو ذر نے کہا کہ: میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ بنی امیہ میں سے ایک بندہ سب سے پہلے میری سنت کو تبدیل کرے گا۔

البداية و النهاية، ج 8، ص 252 و 253.

أورده الألباني في أحاديثه الصحيحة: ج 4، ص 329 قائلا: ولعلّ المراد بالحديث تغيير نظام اختيار الخليفة وجعله وراثة.

البانی نے کہا ہے کہ:

 شاید اس حدیث میں سنت کو تبدیل کرنے سے مراد خلیفہ کے انتخاب کرنے کے طریقے کو تبدیل کرنا اور خلافت کو موروثی کرنا مراد ہو۔

كتاب الأحاديث الصحيحة: ج 4، ص 329

بعض اہل سنت کے بزرگان کہ وہ اصحاب بھی شمار ہوتے ہیں اور اہل سنت بھی ان کو مانتے اور قبول کرتے ہیں، انھوں نے سن 60 ہج کے سال کے واقعات کو جب رسول خدا کی زبان سے سنا تو وہ آرزو کرتے تھے کہ اے کاش ہمیں وہ دن دیکھنے نصیب نہ ہوں اور اللہ کرے کہ ہم اس وقت اس دنیا میں موجود نہ ہوں۔

ان روایات کی طرف توجہ فرمائیں:

بچوں کی حکومت اور سلطنت:

1 ـ و أخرج البيهقي عن أبي هريرة قال: اللّهمّ لا تدركني سنة الستّين، و يحكم! تمسّكوا بصدغي معاوية، اللّهمّ لا تدركني امارة الصبيان. 

خدایا سن 60 ہجری کا سال دیکھنا مجھے نصیب نہ فرما، افسوس اور ہلاکت ہو ان بندوں پر کہ جو معاویہ کے بیٹے کے ساتھ ہیں، خدایا بچوں کی حکومت دیکھنا مجھے نصیب نہ ہو۔

الدلائل، بيهقی، ج 6، ص466.

2 ـ الحافظ أبو بكر بن مالك: حدّثنا عبد اللّه بن أحمد بن حنبل: حدّثني أبو بكر ليث بن خالد البجلي، ثنا عبد المؤمن بن عبد اللّه السدوسي، قال: سمعت أبو يزيد المديني يقول: قام أبو هريرة على منبر رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم دون مقام رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم بعتبة، فقال: ويل للعرب من شرّ قد اقترب، ويل لهم من امارة الصبيان، يحكمون فيهم بالهوى و يقتلون بالغضب. 

ہلاکت ہو عرب کے لیے اس فتنے سے کہ جو عنقریب آنے والا ہے، ویل ہو عرب کے لیے کہ اب ان پر بچے حکومت کریں گے کہ وہ ان کے بارے میں ہوا و ہوس کے ذریعے حکومت کریں گے اور ان کو غضب و غضے کے ساتھ شھید کریں گے۔

 البداية و النهاية، ابن كثير، ج 8، ص120.

عمر نے بھی بعض علماء اہل سنت کی نقل کے مطابق اسی واقعے کی پیشن گوئی کی ہے اور نا اہل افراد کے ہاتھوں عربوں کی ہلاکت کے بارے میں کہا ہے کہ ۔

3 ـ قال الحارث بن مسكين، عن سفيان، عن شبيب، عن عرقدة بن المستظل، قال: سمعت عمر بن الخطّاب يقول: قد علمت و ربّ الكعبة متى تهلك العرب، إذا ساسهم من لم يدرك الجاهليّة و لم يكن له قدم في الإسلام. 

راوی کہتا ہے کہ میں نے عمر ابن خطاب سے سنا ہے کہ وہ کہہ رہا تھا کہ خدا کی قسم مجھے پتا ہے کہ عرب کب ہلاک ہوں گے، وہ اس وقت ہلاک ہوں گے کہ جب وہ لوگ ان پر حکومت کریں گے کہ جہنوں نے زمانہ جاہلیت کو نہیں دیکھا اور اسلام میں بھی انھیں داخل ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا گا۔

البداية و النهاية، ابن كثير، ج 8، ص254.

تاویل و توجیہ کرنا، گناہ سے بھی بد تر ہے:

جو احادیث آپ نے مشاہدہ کی ہیں وہ نمونے کے طور پر ذکر کی گئیں چند روایات ہیں کہ جو اہل سنت کی تاریخ اور احادیث کی کتب میں یزید کی مذمت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔

 ابن عساکر نے اس بارے میں سب سے زیادہ روایات کو جمع کیا ہے۔ ابن تیمیہ اور ابن کثیر کے زمانے تک ان روایات کے صحیح ہونے یا صحیح نہ ہونے کے بارے میں کسی قسم کی کوئی بحث نہیں کی گئی تھی لیکن اچانک کچھ علماء کو کئی سو سالوں کے بعد یزید کا دفاع کرنے کا خیال آیا تو انھوں نے اس بارے میں کوئی راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کی تو ان کو فقط ایک راہ حل نظر آیا اور وہ یہ کہ انھوں نے کہا کہ یزید کے بارے میں نقل ہونے والی ساری روایات ضعیف ہیں۔

اسی وجہ سے ابن كثير نے کہا ہے کہ:

و قد أورد ابن عساكر أحاديث في ذمّ يزيد بن معاوية كلّها موضوعة لا يصحّ شي منها.

وہ احاديث جو ابن عساكر نے يزيد کی مذمت کے بارے میں نقل کی ہیں وہ ساری کی ساری جعلی اور جھوٹی ہیں اور کوئی بھی ان میں سے صحیح نہیں ہے۔

 البداية و النهاية، ج 8، ص 254.

حالانکہ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ بعض علماء اہل سنت نے یزید کو نماز کے ترک کرنے اور اسی طرح شراب پینے، واقعہ کربلاء اور شھادت امام حسین(ع) پر خوش ہونے اور مدینہ کے لوگوں کا قتل عام کرنے کی وجہ سے نہ فقط یہ کہ یزید کی سر زنش کی ہے بلکہ اس کو لعنت کا مستحق اور حق دار کہا ہے کہ آئندہ اس بارے میں مطالب کو بیان کیا جائے گا۔

فصل سوّم: يزيد کی سیاسی زندگی

تاریخ اسلام میں حکومت کے نحس ترین سال:

يعقوبى مورّخ کہتا ہے کہ:

 و كان سعيد بن المسيّب يسمّي سني يزيد بن معاوية بالشؤم۔

 سعيد بن مسيّب نے یزید کی چند سالہ حکومت کو منحوس ترین سال کہا ہے۔

اس لیے کہ اس کی خلافت اور حکومت تین سال سے زیادہ نہیں تھی اور ان تین سالوں میں تین خوفناک ترین اور درد ناک ترین واقعات رونما ہوئے کہ ہر سال میں ایک واقعہ رونما ہوا۔ ایسے واقعات کہ جہنوں نے نہ صرف تاریخ بلکہ اسلام کے چہرے کو بھی سیاہ اور تاریک کر دیا ہے۔

وہ درد ناک واقعات یہ ہیں:

ـ                                     امام حسین (ع) کو شھید کرنا:

«في السنة الأولى قتل الحسين بن عليّ و أهل بيت رسول اللّه صلي الله عليه و آله»

حسين بن على (ع) اور رسول خدا (ص) کے خاندان کو اپنی حکومت کے پہلے سال شھید کیا۔

ـ  رسول خدا (ص) کے حرم کی حرمت کو پامال کرنا اور واقعہ حرّہ میں مدینہ کے لوگوں کا قتل عام کرنا:

«و الثانية: استبيح حرم رسول اللّه صلي الله عليه و آله و انتهكت حرمة المدينة»

اپنی حکومت کے دوسرے سال یزید نے رسول خدا (ص) کے حرم کو اور شہر مدینہ کو اپنے لشکر کے لیے بالکل آزاد اور مباح قرار دے دیا تھا۔

ـ                                                          خانہ کعبہ کو آگ لگا کر حرم خداوند کی حرمت کو پامال کرنا اور مکہ کے لوگوں کا قتل عام کرنا:

«و الثالثة: سفكت الدماء في حرم اللّه و حرّقت الكعبة». 

یزید نے اپنی حکومت کے تیسرے سال خانہ کعبہ کو آگ لگائی اور حرم امن خداوندی میں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا۔

تاريخ يعقوبى، ج 2، ص 253.

جو بھی محقق اور مؤرخ تاریخ اسلام کے اس حصے میں ان درد ناک حوادث کو مشاہدہ کرتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ گویا ان جنایات کو انجام دینے والا مسلمان نہیں تھا اور اس کی نظر میں خداوند کے حرم اور رسول خدا (ص) کے حرم اور ان کے اہل بیت (ع) اور مسلمانوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔

ان حوادث کے بارے میں مختصر طور پر اشارہ کرنے کے بعد اب ہم ان حوادث کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں تا کہ تاریخ اسلام میں یزید کا منحوس چہرہ واضح طور پر مسلمانوں کے سامنے آ سکے:

ـ شہادت امام حسين (ع)

«في السنة الأولى قتل الحسين بن عليّ و أهل بيت رسول اللّه صلي الله عليه و آله» 

یزید کی منحوس حکومت میں پہلا حادثہ امام حسین (ع) کی شہادت تھی کہ تاریخ اسلام کا غمناک ترین واقعہ ہے اور شاید اپنی نوعیت کا کم نظیر یا بے نظیر واقعہ ہے کیونکہ اس حادثے کی بعض خصوصیات نے اس حادثے کو تاریخ اسلام کا سب سے منفرد حادثہ بنا دیا ہے، جیسے امام حسین (ع) اور ان کے اہل بیت کا اس واقعے میں حاضر ہونا اور ان سب کے شہید ہونے کا طریقہ اور اس واقعے کے بعد رسول خدا (ص) کے خاندان کی خواتین کا قیدی بنا کر بازاروں میں لے جانا وغیرہ وغیرہ۔

اس فصل میں یزید کے کردار کو امام حسین (ع) کی شھادت کے حوالے سے بیان کیا جا رہا ہے۔

یعنی کیا وقت کا خلیفہ ہونے کا دعوی کرنے والا یزید ابن معاویہ امام حسین (ع) کے قتل کا اصلی مجرم تھا یا اس کے لشکر والے کہ جن کو امام حسین کے قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا ؟

اس سوال کا جواب حاصل کرنے  کا بہترین ذریعہ کتب تاریخ ہیں، لہذا کتب تاریخ کی طرف رجوع کرنے کے بعد ہم شیعہ اور سنی مصنفین کے دو طرح کے اقوال سے آگاہ ہوتے ہیں۔

اہل سنّت اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

امام حسین (ع) کی شہادت نے ہر غیرت مند مسلمان کے دل کو غم و حزن سے زخمی کیا ہوا ہے، مسلمان شیعہ ہو یا سنی وہ اس ظالمانہ قتل کی مذمت کرتا ہے اور اس کے مجرموں پر لعنت کرتا ہے۔ 

لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ 14 سو سال کے بعد کچھ لوگوں کو یزید جیسے ظالم، شراب خوار اور زنا کار کا دفاع کرنے کا خیال آیا ہے اور اس کے دامن کو اس ظلم سے پاک اور صاف کرنے کے لیے چارہ جوئی کرنے کی فکر میں پڑے ہیں۔ ان لوگوں نے اب پوری قوت اور طاقت سے یزید کا دفاع کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اس کام کے لیے ہر جائز اور نا جائز کام کرنے پر تلے ہوئے ہیں حتی یزید کے دفاع میں وہ رسول خدا کے فرزند، جوانان اہل جنت کے سردار امام حسین (ع) کو قصور وار تک ٹہرانے سے بھی شرم و حیاء نہیں کرتے اور یزید کی مذمت کرنے کی بجائے وہ الٹا امام حسین (ع) کی مذمت کرتے ہیں اور بعض نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ: یزید نے امام حسین کے قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، حتی یزید امام حسین کے قتل کرنے پر بالکل راضی نہیں تھا۔

اس طرح کی باتیں کرنے اور ایسا فیصلہ کرنے والے سارے کے سارے اہل سنت نہیں ہیں بلکہ اہل سنت کی اکثریت یزید کو اہل بیت کا دشمن اور امام حسین کا قاتل کہتے ہیں اور اس شراب خوار اور زانی پر لعن کرتے اور اس کو دین اسلام سے خارج کہتے ہیں۔ 

اس تحریر میں ہمارے مخاطب وہ لوگ ہیں جو ابن تیمیہ اور ابن کثیر ناصبی کے افکار اور بنی امیہ کی حکومت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے یزید کا دفاع کرنے کے لیے «جمعيّة الدفاع عن يزيد» کے عنوان سے ایک جماعت بنائی ہے اور سکول کے بچوں کے لیے«حقائق عن أمير المؤمنين يزيد بن معاوية» نام کی کتاب بھی لکھی ہے اور یزید ملعون کو امام، امير المؤمنين، مجتہد، عادل و... جیسے ناموں سے بھی یاد کرتے ہیں۔

لیکن تاریخ حقائق کو آشکار کرتی ہے اور یزید کی اصلیت سے پردہ اٹھاتی ہے اور اس کو ظالم، شراب خوار، جوئے باز، زنا کرنے والا اور امام حسین (ع) کا قاتل کہتی ہے۔

ابن تيميہ اور ابن كثير يزيد کا دفاع کرنے میں سب سے آگے ہیں:

ابن كثير (متوفی 774 هـ) نے ابن تيميّہ (متوفی 728 هـ) کے بعد اہل بیت (ع) اور ان کے پیروکاروں سے دشمنی، عقائد شیعہ کو تکذیب اور تحریف اور اہل بیت کے دشمنوں کا زبردست دفاع کرنے کا ذمہ اور عہدہ لیا ہے، اس نے یزید کے دفاع میں جو چاہا ہے کہا ہے اور جو چاہا ہے اسے لکھا ہے، اس نے کہا ہے کہ:

الناس في يزيد بن معاوية أقسام: فمنهم من يحبّه و يتولاّه، و هم طائفة من أهل الشام من النواصب، و اما الروافض فيشنعون عليه و يفترون عليه أشياء كثيرة ليست فيه و يتّهمه كثير منهم بالزندقة، و لم يكن كذلك، و طائفة أخرى لا يحبّونه و لا يسبّونه لما يعلمون من أنّه لم يكن زنديقاً كما تقوله الرافضة، و لما وقع في زمانه من الحوادث الفظيعة، و الأمور المستنكرة البشعة الشنيعة، فمن أنكرها قتل الحسين بن علي بكربلاء، و لكن لم يكن ذلك من علم منه، و لعلّه لم يرض به و لم يسؤه، و ذلك من الأمور المنكرة جدّاً.

یزید ابن معاویہ کے بارے میں لوگوں کے کئی طرح کے گروہ ہیں:

1- شام کے رہنے والے کہ جو ناصبی ہیں اور یزید سے محبت اور اسکی اطاعت کرتے ہیں۔

 2- وہ لوگ ہیں کہ جہنوں نے یزید پر بہت سی تہمتیں لگائی ہیں اور اسکی طرف کفر اور زندیق ہونے کی بھی نسبت دی ہے، یہ لوگ روافض(شیعیان) ہیں، حالانکہ یزید ایسا نہیں تھا جیسا کہ روافضی کہتے ہیں۔

 3- وہ ہیں کہ جو یزید سے نہ محبت کرتے ہیں اور نہ ہی اس پر لعنت اور اس کو برا بھلا کہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یزید کافر اور زندیق نہیں ہے کہ جس طرح شیعہ کہتے ہیں، اس وجہ سے کہ یزید کے دور میں درد ناک ترین اور غمناک ترین حوادث رونما ہوئے تھے کہ ان میں سے ایک سب سے غم انگیز تر امام حسین کا کربلاء میں قتل ہونا تھا لیکن یزید اس قتل کے بارے میں آگاہ نہیں تھا اور شاید وہ اس کام پر راضی بھی نہیں تھا کیونکہ امام حسین کو قتل کرنا بہت ہی برا کام تھا۔

البداية و النهاية، ابن كثير، ج 6، ص 256. 

ایک دوسری جگہ پر ابن کثیر کہتا ہے کہ:

و قد أورد ابن عساكر أحاديث في ذم يزيد بن معاوية كلها موضوعة لا يصح شئ منها... قلت: يزيد بن معاوية أكثر ما نقم عليه في عمله شرب الخمر، و إتيان بعض الفواحش، فاما قتل الحسين فإنّه كما قال جدّه أبو سفيان يوم أحد لم يأمر بذلك و لم يسؤه. و قيل: إنّ يزيد فرح بقتل الحسين أوّل ما بلغه، ثمّ ندم على ذلك. فقال أبو عبيدة معمّر بن المثنى: إنّ يونس بن حبيب الجرمي حدّثه قال: لمّا قتل ابن زياد الحسين و من معه، بعث برؤوسهم إلى يزيد، فسرّ بقتله أوّلاً و حسنت بذلك منزلة ابن زياد عنده، ثمّ لم يلبث إلاّ قليلاً حتّى ندم! فكان يقول: و ما كان عليّ لو احتملت الأذى و أنزلته في داري، و حكمته فيما يريده، و إن كان عليّ في ذلك و كف و وهن في سلطاني، حفظاً لرسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم، و رعاية لحقّه و قرابته، ثمّ يقول: لعن اللّه ابن مرجانة، فإنّه أخرجه و اضطرّه، و قد كان سأله أن يخلّي سبيله، أو يأتيني، أو يكون بثغر من ثغور المسلمين حتّى يتوفّاه اللّه، فلم يفعل، بل، أبى عليه وقتله، فبغضني بقتله إلى المسلمين، و زرع لي في قلوبهم العداوة، فأبغضني البرّ و الفاجر بما استعظم الناس من قتلي حسيناً، مالي و لابن مرجانة، قبّحه اللّه و غضب عليه. 

ابن عساکر نے یزید کی مذمت میں زیادہ روایات کو ذکر کیا ہے کہ جو ساری ضعیف ہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ: یزید کے بارے میں زیادہ کی جانے والی باتیں اس کی شراب خواری اور بعض برے کاموں کو انجام دینے کے بارے میں ہیں لیکن امام حسین کے قتل سے یزید کا کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ امام حسین کے قتل کے بعد وہی بات جو اس کے دادا ابو سفیان نے جنگ احد کے دن کی تھی، اس نے بھی وہی بات کی تھی کہ میں نے نہ امام حسین کے قتل کا حکم دیا تھا اور نہ ہی اس قتل کا مجھ سے کوئی تعلق تھا۔

نقل ہوا ہے کہ ابتدا میں جب شھیدوں کے کٹے ہوئے سروں کو لایا گیا تو یزید نے دیکھ کر خوشحالی کا اظہار کیا لیکن تھوڑی دیر بعد وہ اپنے اس کام سے پشمان ہو گیا تھا اور اس نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر میں ہوتا تو مرجانہ کے بیٹے(عبید اللہ ابن زیاد) کو امام حسین کو قتل نہ کرنے دیتا بلکہ اس کے نانا رسول خدا کے احترام میں اگرچہ وہ میری حکومت کے لیے خطرہ ہی کیوں نہ ہوتا، میں اس کا احترام کرتا، پھر یزید نے کہا کہ خدا لعنت کرے مرجانہ کے بیٹے پر کہ اس کی وجہ سے حسین کو مجبور ہو کر مدینہ چھوڑنا پڑا حالانکہ حسین نے اس سے کہا تھا کہ مجھے مجبور نہ کرو اور مجھے آزاد چھوڑ دو یا ابن زیاد اس کو میرے پاس لے کر آ جاتا یا حسین کسی بھی مسلمان ملک مین چلا جاتا اور مرتے دم تک ادھر ہی زندگی گزارتا، لیکن ابن زیاد نے ایسا نہیں کیا اور زبردستی اس کو شھید کر دیا ہے اور قتل کرنے کے بعد اس نے مجھے مسلمانوں کے سامنے بد نام کر دیا ہے تا کہ وہ مجھے قصور وار سمجھ کر مجھ کو برا بھلا کہیں اور میرے بارے میں کینے اور دشمنی کو اپنے دلوں میں ایجاد کر لیں، مجھے ابن مرجانہ سے کیا کام ہے، خدا ابن مرجانہ کا بیڑا غرق کرے اور خدا کا عذاب اور غضب اس پر ہو۔

البداية و النهاية، ج 8، ص254 و 255.

 دو نکتے قابل توجّہ !!!

ابن کثیر کے کلام کو ہم نے نقل کیا اور آپ نے بھی ملاحظہ کیا، کیا اس کا کلام ہر عقل رکھنے والے با انصاف انسان کے لیے قابل قبول ہے ؟؟؟

 ابن کثیر کے کلام میں دو متضاد اور غیر قابل جمع نکتے موجود ہیں:

ـ شھداء کربلاء کے سروں کو دیکھ کر یزید کا خوشحال ہونا۔

ـ امام حسین (ع) کی شہادت پر یزید کا شرمندہ اور پشمان ہونا۔

ان نکات کا پڑھنے والا حیران سر گردان سوال کرنے کا حق رکھتا ہے کہ کیا یہ دونوں متضاد باتیں ایک جگہ جمع ہو سکتی ہیں ؟؟؟

جو امام حسین (ع) اور ان کے اہل بیت اور اصحاب کے قتل پر راضی اور خوشحال ہوتا ہے اور خوشی سے شراب کے جام پر جام پیتا ہے اور کفر آمیز اشعار بھی پڑھتا ہے، وہ کیسے ایک دم سے فورا پشمان اور شرمندہ بھی ہو جاتا ہے ؟؟؟

اگر پشمان ہونے کی بات صحیح ہو تو کیا یزید کا پشمان ہونا خدا اور اس کے رسول کے خوف سے تھا یا اس کو لوگوں کی طرف سے اپنی سلطنت کے لیے بغاوت ہونے کا خطرہ نظر آ رہا تھا ؟ اور کیا اس پشمانی کا یزید کے لیے کوئی فائدہ بھی تھا ؟

عجیب یہ کہ بنی امیہ اور یزید کا دفاع کرنے والا ابن کثیر، اہل بیت کے اسیروں کے قافلے کو با عزت طور پر واپس مدینہ بھیجنے کو، یزید کی بے گناہی پر دلیل کے طور پر ذکر کرتا ہے اور اسے بے گناہ ثابت کرتا ہے۔

بعض علماء اہل سنت کی طرف سے یزید کے عمل کی مذمت کرنا:

ابن تیمیہ و ابن کثیر اور بعض دوسروں کی یزید کی جنایات کی باطل توجیہات کے بر خلاف، بعض اہل سنت کے با غیرت اور با انصاف علماء نے نہ فقط یہ کہ یزید کے کاموں کی مذمت کی ہے بلکہ یزید کا امام حسین (ع) کی شہادت پر خوشحال ہونے کی وجہ سے اس کو لعنت کا بھی حقدار قرار دیا ہے۔

تفتازانى شرح العقائد النسفيّہ میں لکھتا ہے کہ:

 و الحقّ أنّ رضا يزيد بقتل الحسين، و استبشاره بذلك، و إهانته أهل بيت الرسول ممّا تواتر معناه، لعنة اللّه عليه، و على أنصاره و أعوانه.

حق یہ ہے کہ امام حسین کے قتل پر یزید کا راضی اور خوشحال ہونا اور رسول خدا کے اہل بیت کی توہین کرنا یہ روایات میں متواتر معنوی کی صورت میں آیا ہے اور روایات بھی اس بارے میں بہت مشہور ہیں، خداوند کی یزید پر اور اس کی پیروی کرنے والوں پر لعنت ہو۔

مجلة تراثنا، مؤسسة آل البيت، ج 50، ص 220 به نقل از شرح العقائد النسفية، ص 181.

يافعى نے لکھا ہے کہ:

و اما حكم من قتل الحسين، أو أمر بقتله، ممّن استحلّ ذلك فهو كافر.

اور جس نے حسین کو قتل کیا ہے یا اس کے قتل کرنے کا حکم دیا ہے، یہ ان لوگوں میں سے ہے کہ جو اس کام کے کرنے کو حلال اور جائز جانتے ہیں، پس ایسا انسان کافر ہے۔ 

شذرات من ذهب، ابن عماد حنبلي، ج1، ص 68.

ذہبى نے لکھا ہے کہ:

كان (يزيد) ناصبيّاً فظّاً غليظاً، يتناول المسكر و يفعل المنكر، افتتح دولته بقتل الحسين، و ختمها بوقعة الحرّة.

یزید ناصبی یعنی حضرت علی اور اہل بیت کا دشمن تھا جو سخت مزاج اور بد اخلاق تھا، وہ شراب پیتا تھا اور برے اور حرام کام کیا کرتا تھا۔ اس نے اپنی حکومت کا آغاز امام حسین کے قتل سے کیا اور حکومت کو مدینہ میں واقعہ حرّہ سے اپنے اختتام تک پہنچایا۔

شذرات من ذهب، ابن عماد حنبلي، ج1، ص 68.

آلوسی نے رسول خدا (ص) کے فرمان کے بارے میں اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ: رسول خدا کی مراد اس جملے میں، یزید اور اسکی حکومت تھی:

«أعوذ بالله سبحانه من رأس الستين و إمارة الصبيان»، يشير إلى خلافة يزيد الطريد لعنه الله تعالى على رغم أنف أوليائه لأنها كانت سنة ستين من الهجرة،

رسول خدا کی اس جملے سے کہ" میں سن 60 ہجری کے سال سے اور بچوں کی حکومت سے خداوند کی پناہ مانگتا ہوں" مراد یزید بد بخت کی خلافت ہے کہ اس کے محبّوں کی محبت کے بر خلاف خداوند اس پر لعنت کرے کیونکہ اس کا دور حکومت سن 60 ہجری کے سال کی ابتدا میں تھا۔

تفسير آلوسي، ج 6، ص 192.

آلوسی نے ایک دوسری جگہ یزید کے بارے میں کہا ہے کہ:

و على هذا القول لا توقف في لعن يزيد لكثرة أوصافه الخبيثة و ارتكابه الكبائر في جميع أيام تكليفه و يكفي ما فعله أيام استيلائه بأهل المدينة و مكة۔

 فقد روى الطبراني بسند حسن « اللهم من ظلم أهل المدينة و أخافهم فأخفه و عليه لعنة الله و الملائكة و الناس أجمعين لا يقبل منه صرف و لا عدل»... و قد جزم بكفره و صرح بلعنه جماعة من العلماء منهم الحافظ ناصر السنة ابن الجوزي و سبقه القاضي أبو يعلى، و قال العلامة التفتازاني: لا نتوقف في شأنه بل في إيمانه لعنة الله تعالى عليه و على أنصاره و أعوانه، و ممن صرح بلعنه الجلال السيوطي عليه الرحمة و في تاريخ ابن الوردي.... و هذا كفر صريح فإذا صح عنه فقد كفر به و مثله تمثله بقول عبد الله بن الزبعرى قبل إسلامه: ليت أشياخي الأبيات، و أنا أقول: الذي يغلب على ظني أن الخبيث لم يكن مصدقا برسالة النبي صلى الله عليه و سلم و أن مجموع ما فعل مع أهل حرم الله تعالى و أهل حرم نبيه عليه الصلاة و السلام و عترته الطيبين الطاهرين في الحياة و بعد الممات و ما صدر منه من المخازي ليس بأضعف دلالة على عدم تصديقه من إلقاء ورقة من المصحف الشريف في قذر؛ و لا أظن أن أمره كان خافيا على أجلة المسلمين،... و لو سلم أن الخبيث كان مسلما فهو مسلم جمع من الكبائر ما لا يحيط به نطاق البيان، و أنا أذهب إلى جواز لعن مثله على التعيين و لو لم يتصور أن يكون له مثل من الفاسقين، و الظاهر أنه لم يتب، و احتمال توبته أضعف من إيمانه، و يلحق به ابن زياد. و ابن سعد. و جماعة فلعنة الله عز و جل عليهم أجمعين، و على أنصارهم و أعوانهم و شيعتهم و من مال إليهم إلى يوم الدين ما دمعت عين على أبي عبد الله الحسين،... و لا يخالف أحد في جواز اللعن بهذه الألفاظ و نحوها سوى ابن العربي المار ذكره و موافقيه فإنهم على ظاهر ما نقل عنهم لا يجوزون لعن من رضي بقتل الحسين رضي الله تعالى عنه، و ذلك لعمري هو الضلال البعيد الذي يكاد يزيد على ضلال يزيد.

اس قول کی بناء پر کہ یزید سے اپنی زندگی کے ایام میں حرام، خبیث اور گناہ کبیرہ سر زد ہونے کی وجہ سے خاص طور پر اسکی حکومت کے ایام میں اھل مکہ اور مدینہ پر ظلم اور جنایات کرنے کی وجہ سے، یزید پر لعنت کرنے میں کسی قسم کا کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔ 

طبرانی نے سند حسن کے ساتھ روايت کو نقل کیا ہے کہ: خداوندا جو اہل مدینہ پر ظلم کرے اور ان کو ڈرائے تو، تو بھی اس کو ڈرا اور اس پر اپنی، تمام فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت بھیج، ایسی لعنت کہ کوئی چیز اس کو یزید سے دور کرنے والی نہ ہو۔

اور بعض علماء جیسے حافظ ناصر السنہ ابن جوزی نے اور اس سے پہلے قاضي أبو يعلى نے یزید کے کافر ہونے اور اس پر لعنت کرنے کے بارے میں واضح طور پر کہا ہے۔

علامہ تفتازانی نے اس بارے میں کہا ہے کہ: یزید کے ایمان کی حالت ہم پر واضح ہے، اس پر اور اس کے پیروکاروں پر خداوند کی طرف سے لعنت ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے اور جس نے یزید پر واضح طور پر لعنت کرنے کا کہا ہے ان میں ایک جلال الدين سيوطی ہے،

 اور تاریخ ابن وردی میں آیا ہے کہ: اور یہ آشکارا کفر یزید کی طرف سے شمار ہوتا ہے اور اگر یہ صحیح ہو تو یزید حقیقت میں بھی کافر ہے، اور اسکی مثال مانند عبد الله بن زبعرى کی ہے کہ جس نے اسلام سے پہلے ان اشعار کو پڑھا تھا اور یزید نے بھی انہی کو اہل بیت کے سامنے اپنے دربار میں تکرار کیا تھا،

ليت أشياخي ببدر شهدوا سے لے کر آخر تک......

میری نظر کے مطابق اور جہاں تک میرا ذہن کام کرتا ہے یہ ہے کہ یزید ایک خبیث انسان تھا کہ جو رسول خدا کی رسالت پر بالکل ایمان نہیں رکھتا تھا اور جو کچھ اس نے حرم خداوند (مکہ) کے لوگوں کے ساتھ اور حرم رسول خدا (مدینہ) کے لوگوں کے ساتھ اور جو کچھ اس نے رسول خدا کے اھل بیت کے ساتھ ان حضرت کی زندگی میں اور انکی رحلت کے بعد اور جو  کچھ اس سے گناہ کبیرہ اور حرام کام  سر زد ہوئے اس سے کم تر نہیں ہیں کہ جو خود قرآن کریم یا اس کے ایک صفحے کو گندگی اور نجاست میں ڈالے، اور میرے خیال میں جو کام یزید نے انجام دیئے ہیں وہ کسی بھی مسلمان پر مخفی اور پوشیدہ نہیں ہیں، اور اگر فرض بھی کریں کہ یزید خبیث، ایک مسلمان تھا تو وہ ایسا مسلمان تھا کہ جس نے اتنے حرام کام کئے ہیں کہ جن کو بیان نہیں کیا جا سکتا، اس وجہ سے میرا تو عقیدہ اس پر لعنت کرنے کا جائز ہونا ہے اور میرے خیال میں تو اتنے ظلم اور فسق کے ساتھ کوئی بھی یزید کی طرح نہیں ہو گا۔ ظاہر یہ ہے کہ اس نے مرتے دم تک توبہ نہیں کی اور اس کے توبہ کرنے کا احتمال، اس کے ایمان لانے کے احتمال سے بھی ضعیف تر ہے، اور اس بات میں ابن زیاد اور ابن سعد اور بعض دوسرے بھی یزید کی طرح ہیں، پس خداوند ان سب پر اور ان کے پیروکاروں اور ان ان کی مدد کرنے والوں پر اور جو بھی ان سے محبت کرنے والا ہو، لعنت کرے اور یہ لعنت قیامت تک اور جب تک امام حسین پر گریہ ہوتا رہے گا، اس وقت تک یزید پر لعنت ہو۔ اور لعنت کے ان الفاظ کےساتھ جائز ہونے میں کسی نے بھی مخالفت نہیں کی، فقط اس کی ابن عربی مالکی نے مخالفت کی ہے کہ جس کا پہلے ہم نے ذکر کیا ہے...... کہ اس نے اور بعض دوسروں نے کہا ہے کہ جو امام حسین کے قتل پر راضی ہو، اس پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ مجھے اپنی جان کی قسم یہ وہی گمراہی والا  اور حق سے دور عقیدہ ہے کہ ان لوگوں کی ضلالت اور گمراہی یزید کی ضلالت اور گمراہی سے یقینی طور پر زیادہ ہے۔

تفسير آلوسی، ج 26، ص 74.

شيعہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟

اہل بیت(ع) کے تمام شیعہ یزید ابن معاویہ کو امام حسین(ع) کا قاتل مانتے ہیں اور حتی ایک شیعہ کا بھی اس بارے میں آپس میں اختلاف نہیں ہے اور شیعہ کے پاس اس بارے میں دلائل موجود ہیں کہ جو قابل ردّ نہیں ہیں۔ ان دلائل میں سے ایک دلیل ابن عباس کا اس بارے میں گواہی دینا ہے۔

ابن عبّاس اور يزيد کا ماجرا:

عبد اللہ ابن زبیر یزید اور اسکی خلافت کا بہت سخت مخالف تھا اور وہ خود اپنی خلافت اور حکومت کا دعوی کرتا تھا، اس ابن زبیر نے ابن عباس سے اپنی بیعت کرنے کا کہا۔ ابن عباس نے اس کی بات نہ مانی۔ جب یہ بات یزید کو پتا چلی تو اس نے ابن عباس کو خط لکھا اور اس نے بھی ابن عباس کو اپنی بیعت کرنے کا کہا۔ ابن عباس نے یزید کے خط کا جواب دیا کہ جس میں در حقیقت ابن عباس نے یزید کو بہت رسوا اور بے آبرو کیا۔ 

یعقوبی مؤرخ نے ابن عباس کے خط کو ذکر کیا ہے:

من عبد اللّه بن عبّاس إلى يزيد بن معاوية، اما بعد، فقد بلغني كتابك بذكر دعاء ابن الزبير إيّاي إلى نفسه و امتناعي عليه في الذي دعاني إليه من بيعته، فإن يك ذلك كما بلغك، فلست حمدك أردت، و لا ودّك، و لكنّ اللّه بالذي أنوي عليم. و زعمت أنّك لست بناس ودّي فلعمري ما تؤتينا ممّا في يديك من حقّنا إلاّ القليل، و إنّك لتحبس عنّا منه العريض الطويل، و سألتني أن أحثّ الناس عليك و أخذلهم عن ابن الزبير، فلا، و لا سروراً، و لا حبورا، و أنت قتلت الحسين بن علي، بفيك الكثكث، و لك الأثلب،... نسيت قتلك حسيناً و فتيان بني عبد المطّلب، مصابيح الدجى، و نجوم الأعلام، غادرهم جنودك مصرعين في صعيد، مرمّلين بالتراب، مسلوبين بالعراء، لا مكفّنين، تسفي عليهم الرياح، و تعاورهم الذئاب، و تنشي بهم عرج الضباع، حتّى أتاح اللّه لهم أقواما لم يشتركوا في دمائهم، فأجنوهم في أكفانهم، و بي و اللّه و بهم عززت وجلست مجلسك الذي جلست يا يزيد،.... فلست بناس اطرادك الحسين بن علي من حرم رسول الله إلى حرم الله، و دسك إليه الرجال تغتاله، فأشخصته من حرم الله إلى الكوفة، فخرج منها خائفا يترقب، و قد كان أعز أهل البطحاء بالبطحاء قديما، و أعز أهلها بها حديثا، و أطوع أهل الحرمين بالحرمين لو تبوأ بها مقاما و استحل بها قتالا، و لكن كره أن يكون هو الذي يستحل حرمة البيت و حرمة رسول اللّه...» 

تم نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ میں نے تمہارا ابن زبیر کی بیعت کو رد کرنے کے بارے میں پڑھا ہے۔ میرا ابن زبیر کی بیعت سے انکار کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم میرے دوست ہو اور میں تمہاری بیعت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ تم وہ ہو کہ جس نے ہمارے حقوق کر ضائع کیا ہے اور تم نے مجھ سے کہا ہے کہ میں دوسرے لوگوں کو بھی تمہاری بیعت کرنے اور ابن زبیر سے دور رہنے کا کہوں، ایسا کرنا میرے لیے بالکل ممکن نہیں ہے کیونکہ تو امام حسین کا قاتل ہے کہ تیرے منہ میں خاک ہو تم تمام برائیوں اور گندگیوں کا مجموعہ ہو..... کیا تم نے امام حسین اور عبد المطلب کی اولاد کے قتل کرنے کو فراموش کر دیا ہے کہ وہ سارے نورانی چراغ اور ہدایت کے ستارے تھے۔ تیرے لشکر اور تیرے سپاہیوں نے ان کو خون میں لت پت کیا اور ان کے بدنوں کو غسل و کفن اور دفن کیے بغیر چھوڑ کر چلے گئے کہ بعد میں ان کو دوسرے لوگوں نے آ کر دفن کیا..... اے یزید میں نے تمہارا امام حسین کو ڈر اور خوف کی حالت میں مکہ کو کوفہ جانے کے لیے چھوڑنے پر مجبور کرنے کو فراموش نہیں کیا۔ وہ امام حسین کہ جو اہل مکہ اور اہل حرم کے لیے سب سے زیادہ عزیز اور بزرگوار تھے.......

تاريخ يعقوبى، ج 2، ص 247 تا 249.

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ ابن عباس جیسا انسان صحابی رسول خدا یزید کو نہ فقط امام حسین(ع) کا قاتل کہہ رہا ہے بلکہ ایسا کام کرنے پر اسکی بھر پور مذمت بھی کر رہا ہے۔

ابن عباس سے منسوب ایک جھوٹی اور جعلی بات نقل کرنا:

یہ عجیب بات ہے کہ گذشتہ سند اور معتبر تاریخی نقل کے مقابلے پر بعض نے ایک جھوٹی اور جعلی سند نقل کرنے کی کوشش کی ہے کہ تا کہ اپنی اور یزید کی عزت کو محفوظ کر سکیں، لیکن وہ اس سے غافل ہیں کہ یزید کی نجاست اور گندگی اس قدر زیادہ ہے کہ وہ ایک جھوٹی اور جعلی روایت سے تو کیا، اس طرح کی لاکھوں جھوٹی اور جعلی روایات سے بھی مٹنے اور چھپنے والی نہیں ہے۔

وہ جھوٹی اور جعلی روایت یہ ہے:

لمّا قدم ابن عباس وافداً على معاوية رضي اللّه عنه، أمر معاوية ابنه يزيد أن يأتيه - أي أن يأتي ابن عباس - فأتاه في منزله، فرحّب به ابن عباس و حدّثه، فلمّا خرج، قال ابن عباس: إذا ذهب بنو حرب ذهب علماء الناس. 

ابن عباس معاویہ سے ملنے کے لیے گیا تو معاویہ نے یزید سے کہا کہ تم بھی ابن عباس سے ملاقات کرو، یزید ابن عباس سے ملنے کے لیے گیا تو اس نے یزید کا بہت احترام کیا اور اس سے گفتگو کی۔ جب یزید ملاقات کر کے چلا گیا تو ابن عباس نے کہا کہ جب حرب کی اولاد دنیا سے چلی جائے گی تو گویا دنیا سے عقل مند لوگ ختم ہو جائیں گے۔

البداية و النهاية، ج 8، ص 228 و 229 ـ  

تاريخ دمشق، ج 65، ص 403 و 404.

یعنی معنی یہ ہے کہ بنی امیہ صاحبان علم و عقل ہیں اور یہی لوگ اسلامی امت اور معاشرے کی ھدایت اور حکومت کے لیے دوسروں کی نسبت زیادہ مناسب اور صلاحیت رکھنے والے ہیں۔

حالانکہ حقیقت میں اس روایت کا معنی یزید اور بنی امیہ کی مذمت ہے نہ انکی مدح اور تعریف، یعنی معنی یہ ہے کہ جب تک بنی امیہ باقی ہیں اس وقت تک دین، امانت داری اور علم نابود ہی رہیں گے۔

اس کے علاوہ یہ روایت اس حدیث سے کہ جو ابن عباس نے رسول خدا(ص) سے نقل کی ہے، متضاد ہے کیونکہ ابن عباس نے رسول خدا کے بنی امیہ کے منبر رسول پر جانے کے خیال سے حزن اور پریشانی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ اس بات کو بالکل تحمل اور برداشت نہیں کر سکے تھے۔

أخرج ابن أبي حاتم و ابن مردويه و البيهقي في (الدلائل) و ابن عساكر عن سعيد بن المسيب، قال: رأى رسول اللّه صلى الله عليه و آله بني أميّة على المنابر، فساءه ذلك.

رسول خدا نے خواب میں دیکھا کہ بنی امیہ ان کے منبر سے اوپر نیچے جا رہے ہیں، یہ منظر ان کو بہت ہی برا لگا۔

الدر المنثور، ج 4، ص 191.

فخر رازی نے اوپر والی عبارت کی تشریح میں کہا ہے کہ:

       و هذا قول ابن عباس في رواية عطاء.

یہ ابن عباس کا قول ہے کہ جو عطا کی روایت میں نقل ہوا ہے۔

  تفسير فخر رازي، ج10، ص 238.

 يزيد کا امام حسين(ع) کے نمائندے کو قتل کرنے کا حکم دینا:

مؤرخ مشہور طبری نے نعمان بن بشیر کے خطاب کو نقل کیا ہے کہ اس کے خطاب کے دوران ایک شخص عبد اللّه بن مسلم بن سعيد حضرمى کہ جو بنی امیہ کا پیروکار اور چاہنے والا ہے، کھڑا ہوتا ہے اور اسکو بزدل اور کمزور کہتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ حسین کے سفیر اور نمائندہ(مسلم ابن عقیل) پر سختی کرو، یہ عبد اللّه بن مسلم وہ پہلا شخص ہے کہ جس نے یزید کو خط لکھا اور اس سے کہا کہ نعمان بن بشیر کی بجائے کوئی قدرت مند اور بے رحم قسم کا بندہ کوفہ کی حکومت کے لیے منصوب  کرے۔

عبيد اللّه بن زياد یزید کے حکم کے مطابق کوفہ اور بصرہ کا حاکم بنا کہ دو کاموں میں سے ایک کام کو انجام دے، یا مسلم ابن عقیل کو گرفتار کرے یا اس کو قتل کرے۔

و كتب (عبد اللّه بن مسلم بن سعيد الحضرمي) إلى يزيد بن معاوية: اما بعد فإنّ مسلم بن عقيل قد قدم الكوفة فبايعته الشيعة للحسين بن عليّ، فإن كان لك بالكوفة حاجة فابعث إليها رجلاً قويًّا ينفذ أمرك و يعمل مثل عملك في عدوّك فإنّ النعمان بن بشير رجل ضعيف أو هو يتضعّف. فكان أوّل من كتب إليه.

اس عبارت کا ترجمہ اوپر گزر چکا ہے.......

پھر اس کے بعد دوسروں نے بھی خط لکھے اور وہ خط یزید کو ملے پھر یزید نے سرجون سے مشورہ کیا کہ اس مسئلے کا کیا حل ہے ؟

سرجون نے یزید سے کہا کہ تیرے باپ معاویہ نے ایک ایسے شخص کو کوفہ کا حاکم بنایا ہے کہ تم اس بندے سے راضی نہیں ہو، پھر اس نے معاویہ کا لکھا ہوا خط یزید کو دکھایا کہ جو اس نے مرنے سے پہلے عبید اللہ ابن زیاد کے بارے میں لکھا تھا، اس خط کو دیکھنے کے بعد یزید نے عبید اللہ کو بصرہ کا حاکم ہونے کے ساتھ ساتھ کوفہ کا بھی حاکم بنا دیا اور اس کو حکم دیا کہ مسلم ابن عقیل کو یا گرفتار کرے یا اس کا سر میرے لیے شام میں بھیجے۔

ثمّ كتب إليه عمارة بن عقبة بنحو من كتابه ثمّ كتب إليه عمر بن سعد بن أبي وقّاص بمثل ذلك، قال هشام، قال عوانة: فلمّا اجتمعت الكتب عند يزيد ليس بين كتبهم إلاّ يومان، دعا يزيد بن معاوية سرجون مولى معاوية، فقال: ما رأيك؟ فإنّ حسيناً قد توجّه نحو الكوفة ومسلم بن عقيل بالكوفة يبايع للحسين و قد بلغني عن النعمان ضعف و قول سيّئ و أقرأه كتبهم فما ترى، من أستعمل على الكوفة؟

و كان يزيد عاتباً على عبيد اللّه بن زياد، فقال سرجون: أرأيت معاوية لو نشر لك أكنت آخذاً برأيه؟ قال: نعم، فأخرج عهد عبيد اللّه على الكوفة، فقال: هذا رأي معاوية و مات، و قد أمر بهذا الكتاب، فأخذ برأيه، و ضمّ المصرين إلى عبيد اللّه و بعث إليه بعهده على الكوفة، ثمّ دعا مسلم بن عمرو الباهلى و كان عندهّ فبعثه إلى عبيد اللّه بعهده إلى البصرة، و كتب إليه معه: اما بعد فإنّه كتب إليّ شيعتي من أهل الكوفة يخبرونني أنّ ابن عقيل بالكوفة يجمع الجموع لشقّ عصا المسلمين فسر حين تقرأ كتابي هذا، حتّى تأتي أهل الكوفة، فتطلب ابن عقيل كطلب الخرزة حتّى تثقفه، فتوثقه أو تقتله، أو تنفيه والسلام.

اس عبارت کا ترجمہ عبارت سے پہلے اوپر گزر چکا ہے.......

تاريخ طبرى، ج 4، ص264 و 265.

ابن كثير نے لکھا ہے کہ:

كتب يزيد إلى ابن زياد: إذا قدمت الكوفة فاطلب مسلم بن عقيل فإن قدرت عليه فاقتله أو أنفه، و بعث الكتاب مع العهد مع مسلم بن عمرو الباهلي، فسار ابن زياد من البصرة إلى الكوفة، فلمّا دخل، دخلها متلثّماً بعمامة سوداء، فجعل لا يمرّ بملأ من الناس إلاّ قال: سلام عليكم. فيقولون: و عليكم السلام مرحباً بابن رسول اللّه - يظنّون أنّه الحسين، و قد كانوا ينتظرون قدومه – و تكاثر الناس عليه، و دخلها في سبعة عشر راكباً، فقال لهم مسلم بن عمرو من جهة يزيد: تأخّروا، هذا الأمير عبيد اللّه بن زياد، فلمّا علموا ذلك علتهم كآبة و حزن شديد، فتحقّق عبيد اللّه الخبر.

...... اور ابن زیاد کو یزید نے حکم دیا کہ جب تم کوفہ جاؤ گے تو مسلم ابن عقیل تم کو جہاں ملے اس کو قتل کر دو۔

البداية و النهاية، ابن كثير، ج 8، ص 164.

 يزيد کا خط ابن زياد کے نام،امام حسين (ع) پر سختی کرنے کے بارے میں:

قال الزبير بن بكّار: حدّثني محمّد بن الضحّاك عن أبيه، قال: كتب يزيد إلى ابن زياد: إنّه قد بلغني أنّ حسيناً قد سار إلى الكوفة، و قد ابتلى به زمانك من بين الأزمان، و بلدك من بين البلدان، و ابتليت أنت به من بين العمّال، و عندها تعتق أو تعود عبداً كما ترقّ العبيد و تعبد، فقتله ابن زياد و بعث برأسه إليه.

میں نے سنا ہے کہ حسین تیرے پاس کوفہ آیا ہے، اس نے تمام زمانوں میں سے تیرے زمانے اور تمام شھروں میں سے تمہارے شہر اور بنی امیہ کے تمام بندوں میں سے تم کو انتخاب کیا ہے، لہذا یا تو اسکو آزاد چھوڑ دو یا اسکو قید کر کے میرے پاس دمشق بھیج دو۔

یزید کے اس حکم کے مطابق ابن زیاد نے امام حسین کو شھید کر کے ان کا سر یزید کے لیے دمشق بھیجا۔

البدايه و النهايه، ابن كثير، ج 8، ص 178.

امام حسين (ع) کے قتل کے بارے میں تاریخی دلائل:

یہ تاریخی دلائل ثابت کرتے ہیں کہ یزید نے بذات خود امام حسین(ع) اور ان کے اصحاب کو شھید کرنے کا حکم دیا تھا۔

 يزيد نے امام حسین کو قتل کرنے کے لیے  وليد بن عتبہ حاکم مدینہ کو خط لکھا:

اس بارے میں تفصیل سے بعد میں ذکر کیا جائے گا لیکن ہم یہاں پر فقط اسی بات کی مناسبت کی وجہ سے چند نمونوں کو ذکر کرتے ہیں:

ذہبی نے لکھا ہے کہ:

خرج الحسين إلى الكوفة، فكتب يزيد إلى و اليه بالعراق عبيد الله بن زياد: إن حسينا صائر إلى الكوفة، و قد ابتلي به زمانك من بين الأزمان، و بلدك من بين البلدان، و أنت من بين العمال، و عندها تعتق أو تعود عبدا. فقتله ابن زياد و بعث برأسه إليه.

حسین کوفہ کی طرف گئے، اس وجہ سے یزید نے عراق کے حاکم عبید اللہ ابن زیاد کو خط لکھا کہ میں نے سنا ہے کہ حسین تیرے پاس کوفہ آیا ہے، اس نے تمام زمانوں میں سے تیرے زمانے اور تمام شہروں میں سے تمہارے شہر اور بنی امیہ کے تمام بندوں میں سے تم کو انتخاب کیا ہے، لہذا یا تو اسکو آزاد چھوڑ دو یا اسکو قید کر کے میرے پاس دمشق بھیج دو۔

یزید کے اس حکم کے مطابق ابن زیاد نے امام حسین کو شھید کر کے ان کا سر یزید کے لیے دمشق بھیجا۔

اور سيوطی نے بھی لکھا ہے کہ:

فكتب يزيد إلى و اليه بالعراق، عبيد الله بن زياد بقتاله.

یزید نے عراق میں اپنے والی اور حاکم کو حسین سے جنگ کرنے کا حکم دیا۔

تاريخ الخلفاء، ص 193، چاپ دار الفكر سال 1394 هـ. بیروت۔

ایک دوسری نقل میں اس طرح آیا ہے کہ:

من عبد اللّه يزيد أمير المؤمنين إلى الوليد بن عتبة، اما بعد، فإذا ورد عليك كتابي هذا فخذ البيعة ثانياً على أهل المدينة بتوكيد منك عليهم، و ذر عبد اللّه بن الزبير فإنّه لن يفوتنا و لن ينجو منّا أبداً ما دام حيّاً، و ليكن مع جوابك إليّ رأس الحسين بن عليّ، فإن فعلت ذلك فقد جعلت لك أعنّة الخيل، و لك عندي الجائزةّ و الحظّ الأوفرّ و النعمة واحدة والسلام.

قال: فلمّا ورد الكتاب على الوليد بن عتبة و قرأه تعاظم ذلك، و قال: لا و اللّه، لا يراني اللّه قاتل الحسين بن عليّ!، و أنا [لا] أقتل ابن بنت رسول اللّه صلى الله عليه و آله و لو أعطاني يزيد الدنيا بحذافيرها.

یزید نے ولید ابن عتبہ کو لکھا کہ میرا خط ملنے کے بعد مدینہ کے لوگوں سے دوبارہ بیعت لو، عبد اللہ ابن زبیر کو ابھی کچھ نہ کہنا، اس کو ابھی آزاد چھوڑ دو کیونکہ وہ ہمیشہ ہماری پہنچ میں ہے وہ کہیں بھی فرار نہیں کر سکتا، اس خط کے جواب کے ساتھ مجھے حسین کا سر چاہیے، اگر تم یہ کام کرو گے تو میں بھی تم کو بہت اچھا انعام دوں گا۔

ولید نے جب یہ خط پڑھا تو اس نے کہا نہ خدا کی قسم نہ، خدا مجھے حسین کا قاتل نہ بنائے، اگر یزید مجھے ساری دنیا بھی دے دے تو میں رسول خدا کی بیٹی کے بیٹے کو ہر گز قتل نہیں کروں گا۔

كتاب الفتوح، أحمد بن أعثم كوفي، ج 5، ص 18. 

آپ نے جو ملاحظہ کیا وہ بہت ہی کم تاریخ کی کتب میں سے دلا‏ئل تھے کہ جو دلالت کرتے ہیں کہ یزید نے بذات خود امام حسین(ع) کے قتل کرنے کا حکم دیا تھا، بعد میں اسی موضوع کو تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔

وہ لوگ جو یزید کا دفاع کرنے کے لیے امام حسین کے قتل کو اس کی سیاسی زندگی سے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ہر گز اس سیاہی کو یزید کی پیشانی سے صاف اور دھو نہیں سکتے۔

يزيد کا امام حسين کے قتل سے خوش نہ ہونا، یہ ایک قصہ ہے یا ایک حقیقت ہے ؟

ابھی ہم نے اشارہ کیا کہ کچھ بے دین اور بے انصاف لوگ حقیقت اور تاریخ کو تبدیل کر کے یزید کو امام حسین کے قتل سے بری کرنا چاہتے ہیں لیکن دمشق میں یزید کے دربار میں شہداء کے سر اور اسیری کی حالت میں اہل بیت کو حاضر کرنے والی داستان، ان لوگوں کی ساری محنتوں اور کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔

تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ:

عن أبي مخنف قال: حدّثني أبو حمزة الثمالي عن عبد اللّه الثمالي عن القاسم بن بخيت قال: لما أقبل وفد أهل الكوفة برأس الحسين دخلوا مسجد دمشق فقال لهم مروان بن الحكم: كيف صنعتم؟ قالوا: ورد علينا منهم ثمانية عشر رجلاً فأتينا و اللّه على آخرهم، و هذه الرؤوس و السبايا فوثب مروان فانصرف و أتاهم أخوه يحيى بن الحكم فقال: ما صنعتم؟ فأعادوا عليه الكلام، فقال: حجبتم عن محمّد يوم القيامة لن أجامعكم على أمر أبداً ثمّ قام فانصرف، و دخلوا على يزيد فوضعوا الرأس بين يديه، و حدّثوه الحديث، قال فسمعت دور الحديث هند بنت عبد اللّه بن عامر بن كريز، و كانت تحت يزيد بن معاوية، فتقنعت بثوبها، و خرجت فقالت:يا أمير المؤمنين! أرأس الحسين بن فاطمة بنت رسول اللّه؟ قال:نعم، فاعولي عليه وحدي على ابن بنت رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم، و صريحة قريش عجّل عليه ابن زياد فقتله، قتله اللّه، ثمّ أذن للناس فدخلوا و الرأس بين يديه، و مع يزيد قضيب فهو ينكت به في ثغره، ثمّ قال: إنّ هذا و إيّانا كما قال الحصين بن الحمام المري:

يفلّقن هاما من رجال أحبّة***إلينا وهم كانوا أعقّ و أظلما

قال: فقال رجل من أصحاب رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم يقال له: أبو برزة الأسلمي: أتنكت بقضيبك في ثغر الحسين؟ اما لقد أخذ قضيبك من ثغره مأخذاً لربما رأيت رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم يرشفه، اما إنّك يا يزيد! تجي يوم القيامة و ابن زياد شفيعك و يجي هذا يوم القيامة و محمّد صلّى اللّه عليه و سلّم شفيعه، ثمّ قام فولّى.

وہ گروہ جو اسیروں کے قافلے کےساتھ کوفہ سے شام آیا تھا، وہ شام پہنچتے ہی امام حسین کے کٹے ہوئے سر کو مسجد اموی دمشق میں لے گئے۔

مروان حكم نے کہا: تم نے کیا کیا ہے ؟ انھوں نے کہا بنی ہاشم کے اٹھارہ جوان ہم سے جنگ کرنے کے لیے میدان میں آئے تو ہم نے ایک کو بھی زندہ واپس جانے نہیں دیا اور یہ ان سب کے کٹے ہوئے سر اور یہ ان کے اہل بیت کہ جن کو ہم اسیر کر کے لے کر آئے ہیں، مروان غصے کی حالت میں وہاں سے اٹھ کر باہر چلا گیا۔

اس کے بھائی یحیی بن حکم نے بھی یہی سوال کیا اور اسکو بھی یہی جواب ملا، لیکن اس نے بھی جواب میں کہا کہ تم لوگوں نے قیامت والے دن اپنے اور رسول خدا کے درمیان خود فاصلہ ڈالا ہے، میں اب کسی بھی کام میں تم لوگوں کے ساتھ نہیں ہوں گا، وہ بھی وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔

اسیروں اور شہداء کے سروں کو یزید کے پاس دربار میں لے جایا گیا اور میدان کربلاء میں جو کچھ ہوا تھا، سب یزید کو بتایا گیا۔ جب ہند کہ جو عبد اللّه بن عامر بن كريز کی بیٹی اور يزيد کی بیوی تھی، نے واقعہ کربلاء اور اہل بیت کی شھادت اور اسارت کے بارے میں سنا تو پردے کے پیچھے سے نکل کر دربار میں آئی اور امام حسین کے کٹے ہوئے سر کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا۔

پھر یزید نے عام لوگوں کو اپنے محل میں داخل ہونے کا حکم دیا تا کہ سب کے سامنے اپنی کامیابی کا جشن منا سکے، اس نے امام حسین کے کٹے ہوئے سر کو اپنے سامنے رکھا ہوا تھا اور چھڑی سے اس کے ساتھ کھیل رہا تھا، اسی دربار میں رسول خدا کا ایک صحابی تھا، جس کا نام ابو برزہ اسلمی تھا، اس نے یزید پر اعتراض کیا اور اس سے کہا کہ چھڑی کو حسین کے لبوں اور دانتوں سے ہٹا لو کیونکہ میں نے خود رسول خدا کو ان لبوں کے بوسے لیتے ہوئے دیکھا ہے، اے یزید ایک دن قیامت بھی آئے گی کہ اس وقت تیری طرف سے ابن زیاد شفیع ہو گا اور حسین کی طرف سے اس کا نانا رسول خدا اس کا شفیع ہو گا۔

 تاريخ طبرى، ج 4، ص 355 و 356 

تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 62، ص85 

مقتل الحسين(ع)، أبو مخنف أزدي، ص219 و 220 

الكامل في التاريخ، ابن الأثير، ج 4، ص85 

أسد الغابة، ابن الأثير، ج 2، ص21

الوافي بالوفيات، صفدي، ج 12، ص264.

اور مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ یزید جب چھڑی کے ساتھ امام حسین(ع) کے سر کی توہین کر رہا تھا تو وہ ابن زبعری کے وہ اشعار کہ جو اس نے جنگ احد میں کامیابی کے موقع پر جنگ بدر میں شکست کا بدلہ لینے کے وقت کہے تھے، پڑھ رہا تھا۔

ابن كثير کہتا ہے کہ:

فقد اشتهر عنه أنّه لمّا جاءه رأس الحسين عليه السلام جمع أهل الشام و جعل ينكت رأسه بالخيزران و ينشد أبيات ابن الزبعريّ المشهورة:

ليت أشياخي ببدر شهدوا*** جزع الخزرج من وقع الأسل

فأهلّوا واستهلّوا فرحاً***ثمّ قالوا: يا يزيد لا تشل

قد قتلنا القوم من ساداتهم***وعدلناه ببدر فاعتدل

ابن زبعری جنگ احد میں کامیابی کے موقع پر آرزو کرتا تھا کہ اے کاش ہمارے آباء و اجداد کہ جو جنگ بدر میں قتل کیے گئے تھے، آج ادھر حاضر ہوتے اور دیکھتے کہ ہم نے آج کیسے محمد اور اس کے اصحاب سے ان کے قتل کا انتقام لے لیا ہے۔

یزید ملعون نے ان اشعار میں امام حسین(ع) اور ان کے با وفا اصحاب کو اور حضرت علی(ع) و فاطمہ زہرا(ع) کی اولاد کو صدر اسلام میں کفار کے سرداروں کے ساتھ تشبیہ دے رہا ہے کہ در حقیقت اپنے اس کام سے وہ اپنے اور اپنے آباء و اجداد کے کفر کو ثابت کر رہا ہے۔

قال ابن كثير - بعد إيراد الأبيات -: فهذا إن قاله يزيد بن معاوية فلعنة الله عليه و لعنة اللاعنين، و إن لم يكن قاله فلعنة الله على من وضعه عليه ليشنع به عليه.

 ابن كثير یزید کی بات اور اس کے اشعار کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ اگر ان سب کو یزید ابن معاویہ نے کہا ہے تو اس پر خداوند کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو، اور اگر یزید نے نہیں کہا تو ان لوگوں پر خدا کی لعنت ہو جو اس طرح کی جھوٹی باتوں سے یزید کو بد نام کرنا چاہتے ہیں۔

البداية و النهاية، ج 8، ص209.

ابن کثیر کا یہ شک اور تردید کی حالت میں بات کرنا، یہ در حقیقت یزید ابن معاویہ کے دفاع اور اس کے حق میں ہے کہ گویا اس نے ان کفر آمیز اشعار کو نہیں پڑھا۔ ابن کثیر یزید کا دفاع اس لیے کرتا ہے کہ وہ رسول خدا کے اھل بیت کا دشمن، امام حسین کا قاتل اور ان کے اہل بیت کی اسیری سے خوش حال ہوا تھا، اسی وجہ سے ابن کثیر کی مختلف کتب رسول خدا(ص) کے اھل بیت کے دشمنوں کے دفاع اور ان کے دشمنوں کے غلط کاموں کی تاویلات اور توجیہات سے بھری پڑی ہیں کہ ان کتب میں ذرہ سا بھی رسول خدا کے اہل بیت کا دفاع اور ان کا حق پر ہونا نظر نہیں آتا۔ 

طبرى نے بھی ان اشعار اور اس داستان کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:

فقال: (يعني يزيد) مجاهراً بكفره و مظهرا لشرمه: ثمّ قال الطبري - بعد ذكر الأبيات - هذا هو المروق من الدين، و قول من لا يرجع إلى اللّه و لا إلى دينه و لا إلى كتابه و لا إلى رسوله و لا يؤمن باللّه۔

یزید نے اپنے کفر اور شرک کا اظہار کیا ہے کیونکہ ایسی باتیں اور اشعار وہ بندہ پڑھتا ہے جو دین اسلام سے خارج ہو گیا ہو اور ایسے بندے کا تعلق خدا، اس کے دین، قرآن اور اس کے رسول سے بالکل نہیں ہے اور ایسا بندہ خداوند پر بھی بالکل ایمان نہیں لایا۔

تاريخ طبرى، ج 8، ص 187 و 188.

ابو اسحاق اسفراينى متوفی 418، عالم شافعى مذہب نے لکھا ہے کہ: امام سجاد کے جامع مسجد اموی دمشق میں خطبے میں جب لوگوں کے گرئیے کی آوازیں اس طرح بلند ہونا شروع ہوئیں کہ یزید نے اپنے لیے خطرے کا احساس کیا تو اس نے مسجد میں حاضر لوگوں سے کہا کہ: «أتظنّون أنّی قتلت الحسين؟ فلعن اللّه من قتله، إنّما قتله عبيد اللّه بن زياد عاملى على البصرة».

آپ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ میں نے حسین کو قتل کیا ہے، خدا کی لعنت ہو اس پر جس نے اس کو قتل کیا ہے، اس کو ابن زیاد نے قتل کیا ہے کہ جو بصرہ میں میرا والی تھا۔

پھر یزید نے حکم دیا کہ ان کو حاضر کیا جائے جو ان کٹے ہوئے سروں کے ساتھ کربلاء سے شام آئے ہیں، جب وہ آئے تو یزید نے شبث ابن ربعی سے کہا کہ: «ويلك أنا أمرتك بقتل الحسين؟ فقال: لا، لعن اللّه قاتله»

وای ہو تم پر کیا میں نے حسین کو قتل کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، خدا حسین کے قاتل پر لعنت کرے۔ 

اس کے بعد یزید نے ایک ایک کر کے سب سے پوچھا، یہاں تک کہ حصین بن نمیر کی باری آئی، تو اس نے جواب میں یزید سے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں حسین کے قاتل کا بتاؤں کہ وہ کون ہے ؟ یزید نے کہا: ہاں، اس نے کہا کیا مجھے جان کی امان ہے ؟ یزید نے کہا: ہاں،اس پر اس نے کہا کہ حسین کا قاتل خود تو ہے۔

نور العين في مشهد الحسين، ص 70 و 71.

اس کے بعد بھی کیا انکار اور تاویلات کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ امام حسین کے قتل کا حکم خود یزید نے دیا تھا ؟

ان سب تاریخی دلائل کے با وجود بھی جن کے دلوں میں مرض ہے اور جو تاریخ اور حقیقت کو انسانیت کو الٹا دکھانا چاہتے ہیں، وہ ان دلائل کے جواب میں کہتے ہیں کہ:

اس بات کا مصنف شیعہ ہے، یا اس بات کی سند کا راوی شیعہ ہے کہ ہمارے عقیدے میں شیعہ ہونے کا جرم کافی ہے کہ ہم اسکی بات یا سند کا انکار کر دیں۔

ـ مدينہ کے لوگوں کا قتل عام (حادثہ حرّة)

سعید ابن مسیب کی نقل کے مطابق یزید کی خلافت اور حکومت میں دوسرا درد ناک اور غمناک واقعہ جو واقع ہوا، وہ حرم رسول خدا(ص) کی بے حرمتی اور واقعہ حرّہ میں مدینہ کے لوگوں کا قتل عام تھا۔

و الثانية: استبيح حرم رسول اللّه صلى الله عليه و آله و انتهكت حرمة المدينة۔

رسول خدا کے حرم کی حرمت کو مباح قرار دے دیا گیا اور شہر مدینہ کی حرمت کو پامال کیا گیا۔

 شہر مدينہ کا مقام اور منزلت:

شہر مدینہ کہ جو پہلے یثرب اور رسول کی اس شہر میں ہجرت کے بعد مدینۃ الرسول کے نام سے مشہور ہوا، ایسا شہر ہے کہ جو اسلامی دنیا میں اپنا ایک خاص مقام اور احترام رکھتا ہے۔ یہ مقام اور احترام اسلام کی ابتداء میں رسول خدا کے با برکت وجود کی وجہ سے اسلام کا مرکز بننے کی وجہ سے اس شہر کو حاصل ہوا تھا کیونکہ یہ شہر:

اوّلاً: مکہ کے بعد اسلام کی تبلیغ اور دعوت کا واحد مرکز تھا اور حتی یہاں تک کہا گیا ہے کہ اسلام فقط شہر مدینہ کی وجہ سے پھیلا اور مشہور ہوا ہے۔

ثانياً: رسول خدا(ع) اور ان کے خاندان کے مبارک اور نورانی مقبرے اسی شہر میں ہیں کہ جسکی وجہ سے یہ شہر ہر سچے مسلمان کے دل کو اپنی طرف متوجہ اور جذب کرتا ہے۔

ثالثاً: تاریخ اسلام کے اکثر واقعات یا اسی پاک سر زمین پر واقعے ہوئے ہیں یا اگر کسی دوسری جگہ پر بھی واقع ہوئے ہیں تو پھر بھی اس شہر کا ان واقعات میں عمل دخل رہا ہے۔

رسول خدا (ع) کی نگاہ میں شہر مدینہ کا مقام:

رسول خدا(ص) کی شہر مدینہ میں دس سالہ زندگی اور ان حضرت کی دعوت اسلام اس شہر سے دوسرے مقامات کی طرف پہنچنے اور پھیلنے کی وجہ سے رسول خدا کو اس شہر سے ایک خاص محبت ہو گئی تھی، اسی وجہ سے وہ اس شہر کے لوگوں کا بھی احترام اور ان سے محبت کیا کرتے تھے کہ یہ احترام اور محبت رسول خدا(ع) کے کلام میں بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔

اب ہم اس بارے میں رسول خدا کی چند احادیث کو ذکر کرتے ہیں:

1 ـ عن رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم أنّه قال: «اللّهمّ من ظلم أهل المدينة و أخافهم فأخفه، و عليه لعنة اللّه و الملائكة و الناس أجمعين، لا يقبل اللّه منه صرفاً و لا عدلاً».

رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ: جو بھی مدینہ کے لوگوں کو ڈرائے گا تو خداوند بھی اس کو ڈرائے گا اور ایسے بندے پر خداوند، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو گی اور خداوند قیامت کو اس کے بارے میں کسی ایسی چیز کو کہ جو اس سے عذاب کو دور کرے، قبول نہیں کرے گا۔

 المعجم الكبير، طبراني: ج 7، ص 144، نمبر 6636.

ایک دوسری نقل میں اور ایک دوسری سند کے ساتھ آیا ہے کہ:

قال رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم: من أخاف أهل المدينة أخافه اللّه عزّ و جلّ يوم القيامة، و لعنه، و غضب عليه، و لم يقبل منه صرفاً، و لا عدلاً. 

اے خداوندا! جو بھی مدینہ کے لوگوں پر ظلم کرے یا ان کو ڈرائے تو، تو بھی اس کو ڈرا اور ایسے بندے پر خدا، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہوتی ہے اور خداوند قیامت کو اس کے بارے میں کسی ایسی چیز کو کہ جو اس سے عذاب کو دور کرے، قبول نہیں کرے گا۔

المعجم الكبير، طبراني: ج 7، ص 144، نمبر 6637.

 و رواه الطبراني أيضاً في الأوسط و الكبير عن عبادة بن الصامت بإسناد جيّد.

اس حدیث میں رسول خدا، خداوند سے شہر مدینہ اور اہل مدینہ کی حفاظت کرنے کو طلب کر رہے ہیں، اور جو بھی اس مقدس شہر کی حرمت کو پامال کرے اور اس شہر کے لوگوں کو تنگ کرے، اس کے لیے خدا کے عذاب اور اسکی لعنت کرنے کو خداوند سے طلب کر رہے ہیں، اور اپنی امت کو اس شہر کے لوگوں کو تنگ کرنے اور اذیت کرنے سے ڈرا رہے ہیں کہ یہ سب چیزیں اس مقدس شہر کی عزت اور احترام پر دلالت کرتی ہیں۔

ان تمام تاکیدات کے باوجود کیا رسول خدا کی شہادت کے بعد اس شہر اور اس کے اہل کی عزت اور احترام باقی اور محفوظ رہا ؟؟؟

اس سوال کا جواب دینا یہ تاریخ کا ذمہ ہے !!!

2 ـ أخرج الطبراني في المعجم الكبير عن عبد اللّه بن عمرو، أنّ رسول اللّه صلى الله عليه و آله قال: «من آذى أهل المدينة آذاه اللّه، و عليه لعنة اللّه و الملائكة و الناس أجمعين، لا يقبل منه صرف و لا عدل».

جو بھی اہل مدینہ کو اذیت کرے تو خداوند اس کو اذیت کرے گا اور اس بندے پر خدا، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو گی اور خداوند قیامت کو اس کے بارے میں کسی ایسی چیز کو کہ جو اس سے عذاب کو دور کرے، اس بندے سے قبول نہیں کرے گا۔

الترغيب و الترهيب، ج 2، ص 241.

3 – و روى السنائي من حديث السائب بن خلاّد رفعه: «من أخاف أهل المدينة ظالماً لهم أخافه اللّه، و كانت عليه لعنة اللّه» 

جو بھی اہل مدینہ کو اپنے ظلم سے ڈرائے تو خداوند بھی اس کو ڈرائے گا اور اس پر خدا کی لعنت بھی ہو گی۔

فتح الباري، ج 4، ص94. الحديث و لابن حبان نحوه من حديث جابر..

اس حدیث میں زیادہ درد ناک عذاب بیان ہوا ہے کہ:

4 - حدّثنا ابن أبي عمر، حدّثنا مروان بن معاوية، حدّثنا عثمان بن حكيم الأنصاري، أخبرني عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه،: أنّ رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم قال: ثمّ ذكر مثل حديث ابن نمير و زاد في الحديث «و لا يريد أحد أهل المدينة بسوء إلاّ أذابه اللّه في النار ذوب الرصاص أو ذوب الملح في الماء».

رسول خدا نے فرمایا کہ جو بھی اھل مدینہ کو اذیت و آزار دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو خداوند اس کو تانبے کی مانند آگ میں جلائے گا یا اس کو جھنم کی آگ میں ایسے حل کرے گا کہ جس طرح نمک کو پانی میں حل کیا جاتا ہے۔

 صحيح مسلم، ج 2، ص992، نمبر 1363.

یہ وہ بعض احادیث ہیں کہ جن کو ہم نے ان بہت سی روایات میں سے ذکر کیا ہے کہ جن کو رسول خدا(ص) نے  شہر مدینہ اور اہل مدینہ کی عزت اور احترام کے بارے میں بیان کیا ہے۔

 اب سؤال یہ ہے کہ: کیا اس شہر اور اس کے اہل کی حرمت کا خیال رکھا گیا اور انہی رسول خدا کی خلافت اور جانشینی کے دعوے کرنے والوں نے رسول خدا کی اس ضروری وصیت پر عمل کیا تھا ؟؟؟

قال الامام أحمد: أ ليس قد أخاف أهل المدينة؟

احمد ابن حنبل کہتا ہے کہ کیا یزید نے اہل مدینہ کو نہیں ڈرایا تھا ؟

 الردّ على المتعصّب العنيد، ص 61.

5 ـ أحمد حنبل از انس بن عياض از يزيد بن خصيفة، از عطاء بن يسار، از سائب بن خلاّد از رسول خدا صلي الله عليه و آله نقل مى‌كند كه فرمود: «من أخاف أهل المدينة ظلماً أخافه اللّه و عليه لعنة اللّه و الملائكة و الناس أجمعين، لا يقبل اللّه منه يوم القيامة صرفاً و لا عدلاً». 

جو بھی اہل مدینہ کو اپنے ظلم سے ڈرائے تو خداوند بھی اس کو ڈرائے گا اور پر خدا، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو گی اور خداوند قیامت والے دن اس سے کسی ایسی چیز کو کہ جو اس سے عذاب کو دور کرے، اس بندے سے قبول نہیں کرے گا۔

 البداية و النهاية، ج 8، ص244

مسند أحمد، ج 4، ص55.

بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں حسين بن حريث سے اور اس نے فضل بن موسى سے اور اس نے جعيد سے اور اس نے عائشہ بنت سعد بن ابی وقّاص سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول خدا سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ : «لا يكيد أهل المدينة أحد إلاّ انماع كما ينماع الملح في الماء».

 صحيح بخاري، كتاب فضائل المدينة، ج 7 نمبر 1877

  فتح البارى، ج 4، ص94

البداية و النهاية، ج 8، ص244.

اسی حدیث کو مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں دو مختلف اسناد اور مختلف عبارات کے ساتھ نقل کیا ہے۔

درد ناک اور غمناک واقعہ حرّه:

سن 63 ہجری میں جب اہل مدینہ کے کچھ نمائندے یزید سے ملنے کے لیے شام گئے تو جب انھوں نے یزید سے دین اسلام اور شریعت محمدی کے خلاف کام دیکھے کہ ان میں سے واجبات کو اہمیت نہ دینا،شراب خواری،زنا اور جوا کھیلنے جیسے حرام کاموں کو انجام دینا وغیرہ، تو اس پر مدینہ کے لوگوں نے یزید کی بیعت کو ترک کر کے اس کے والی اور نمائندے کو معزول کر کے عبد اللہ ابن حنظلہ کی بیعت کر لی۔

جب اس سارے ماجرے کا شام میں یزید کو علم ہوا کہ مدینہ کے لوگوں نے اسکی بیعت کو ترک کر کے عبد اللہ ابن حنظلہ کی بیعت کر لی ہے تو، اس نے مسلم بن عقبہ کی سالاری میں ایک لشکر مدینہ کے لوگوں کو اس کام کی سزا دینے کے لیے مدینہ کی طرف روانہ کیا۔ 

ان مظالم کی تفصیل کو بعد میں ذکر کیا جائے گا۔

حرّه کیا ہے ؟

شہر مدینہ کے اطراف میں جو سر زمین کالے اور نوک دار پتھروں سے بھری پڑی ہے، اس کو حرہ کہتے ہیں۔

ابن اثير نے اسی بات کی توضيح میں کہا ہے کہ:

يوم الحرّة يوم مشهور في الإسلام أيّام يزيد بن معاوية لمّا انتهب المدينة عسكره من أهل الشام الذي ندبهم لقتال أهل المدينة من الصحابة و التابعين و أمّر عليهم مسلم بن عقبة المزي في ذي الحجّة سنة ثلاث و ستّين و عقيبها هلك يزيد، و الحرّة هذه أرض بظاهر المدينة بها حجارة سود كثيرة و كانت الوقعة بها.

تاریخ اسلام میں حرہ کا واقعہ بہت مشہور ہے اور یہ وہی حادثہ ہے کہ جس میں یزید کے لشکر نے سن 63 ہجری میں ذی الحجہ کے مہینے میں کہ اسی مہینے میں یزید بھی واصل جہنم ہوا تھا، شہر مدینہ کو غارت کیا اور اس شہر میں موجود صحابہ اور تابعین کو بے رحمی سے قتل کیا۔ شہر مدینہ کے اطراف میں جو سر زمین کالے اور نوک دار پتھروں سے بھری پڑی ہے، اس کو حرہ کہتے ہیں۔

 النهاية في غريب الحديث، ج 1، ص351.

ذہبى نے کہا ہے کہ:

هي حرّة واقع شرقيّ المدينة المنورّة، و فيها كانت الوقعة المشهورة، يقول فيها ابن حزم في كتابه جوامع السيرة ص 357 ما نصّه: أغزى يزيد الجيوش إلى المدينة حرم رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم، و إلى مكّة حرم اللّه تعالى، فقتل بقايا المهاجرين و الأنصار يوم الحرّة، و هي أيضاً أكبر مصائب الإسلام و خرومه، لأنّ أفاضل المسلمين و بقيّة الصحابة، و خيار المسلمين من جلّة التابعين قتلوا جهراً ظلماً في الحرب و صبراً، و جالت الخيل في مسجد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و سلّم، و راثت و بالت في الروضة۔

مدینہ کے لوگوں اور یزید کے لشکر کا آمنا سامنا معروف اور مشہور واقعہ حرہ میں ہوا۔

 پھر ذہبی ابن حزم اندلسی سے نقل کرتا ہے کہ یزید نے شام سے اپنے لشکر کو حرم خدا اور حرم رسول خدا کی طرف روانہ کیا کہ اس واقعہ حرہ میں رسول خدا کے اصحاب میں سے جو اس وقت مھاجر اور انصار تھے، ان کو لشکر یزید نے بڑی بے رحمی سے قتل کیا کہ یہ اسلام اور مسلمین پر بہت بڑی مصیبت کی گھڑی تھی کیونکہ اس غمناک واقعہ میں جو صحابہ، تابعین اور بزرگان کہ جو اس وقت زندہ تھے، ظالمانہ طریقے سے قتل کر دیئے گئے، مسجد نبوی میں گھوڑوں کو لایا گیا کہ جہنوں نے اپنی نجاست سے مسجد کو آلودہ کر دیا۔

سير أعلام النبلاء، ذهبي، ج 4، ص228.

یزید نے مسلم ابن عقبہ کو اس طرح حکم دیا تھا کہ:

ادع القوم ثلاثاً فإن رجعوا إلى الطاعة فاقبل منهم، و كفّ عنهم، و إلاّ فاستعن باللّه و قاتلهم، و إذا ظهرت عليهم، فأبح المدينة ثلاثاً ثمّ اكفف عن الناس. 

مدینہ کے لوگوں کو تین دن تک میری بیعت کرنے کے لیے دعوت دو، اگر بیعت کر لیں تو ان سے قبول کر لو اور ان کو کچھ نہ کہو، لیکن اگر بیعت نہ کریں تو خدا کا نام لے کر ان سے جنگ کرو اور جنگ میں کامیابی کی صورت میں اپنے لشکر کو تین دن کے لیے مدینہ شہر میں آزاد چھوڑ دو اور ان کا جو دل ہے ان کو شہر میں کرنے دو۔

 البداية و النهاية، ج 8، ص 239. 

یزید کے والی نے جب دیکھا کہ مدینہ کے لوگ شجاعت کے ساتھ یزید کے لشکر کا مقابلہ کر رہے ہیں تو اس نے شہر میں بہت ہی زیادہ قتل عام کیا کہ جسکی وجہ سے یزید کا لشکر آخر کار اہل مدینہ پر غالب آ گیا۔

شہر مدینہ میں مظالم اور جنایات کی تفصیلی فہرست کہ جو مؤرخین نے تاریخ کی کتب میں نقل اور ذکر کی ہیں کہ جن کو ہم یہاں پر ذکر کرتے ہیں تا کہ ہر غیرت مند اور با انصاف انسان اس سے آگاہ ہو جائے۔

الف ـ مدينہ کے ہزاروں لوگوں کا قتل عام:

دینوری مؤرخ معروف نے واقعہ حرہ میں قتل ہونے والوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ذکر کی ہے کہ: 

قتل من أصحاب النبيّ صلّى اللّه عليه وسلّم ثمانون رجلاً، و من قريش و الأنصار سبع مئة، و من سائر الناس من الموالي و العرب و التابعين عشرة آلاف.

ان قتل ہونے والوں میں 80 رسول خدا کے صحابہ اور مہاجرین اور انصار میں سے 700 اور تابعین اور عرب غلاموں میں سے 10 ہزار لوگوں کو قتل کیا۔

 الامامة و السياسة، ج 1، ص216.

قال المدائني عن شيخ من أهل المدينة. قال: سألت الزهري كم كان القتلى يوم الحرّة قال: سبعمائة من وجوه الناس من المهاجرين و الأنصار، و وجوه الموالي و ممّن لا أعرف من حرّ و عبد و غيرهم عشرة آلاف. قال: و كانت الوقعة لثلاث بقين من ذي الحجّة سنة ثلاث و ستّين، و انتهبوا المدينة ثلاث أيّام.

مدائنی نے مدینہ کے ایک بندے سے نقل کیا ہے کہ میں نے زہری سے سوال کیا کہ مدینہ میں واقعہ حرہ میں کتنے لوگ قتل کیے گئے تھے ؟ تو اس نے جواب میں کہا کہ مہاجرین اور انصار میں سے 700 بندے، موالی اور جن کے بارے میں معلوم نہیں کہ وہ غلام تھے یا آزاد تھے اور ان کے علاوہ کہ مجموعی طور پر 10 ہزار تھے ..... اور شہر مدینہ یزید کے لشکر کے لیے قتل و غارت اور لوٹ مار کرنے کے لیے مکمل طور پر آزاد تھا۔

 البداية و النهاية، ج 8، ص242.

ب ـ اصحاب رسول خدا(ص) کا قتل:

دينورى نے لکھا ہے کہ:

قتل من أصحاب النبيّ صلّى اللّه عليه و سلّم ثمانون رجلاً، و من قريش و الأنصار سبع مئة۔

غمناک واقعہ حرہ میں رسول خدا کے 80 صحابہ اور 700 مہاجر اور انصار کو قتل کیا گیا۔

الامامة و السياسة، ج 1، ص216.

اور مؤرخ مشہور مسعودى نے لکھا ہے کہ:

قتل من آل أبي طالب اثنان – و من بني هاشم ثلاثة و بضع و تسعون رجلاً من سائر قريش و مثلهم من الأنصار، و أربعة آلاف من سائر الناس، و دون من لم يعرف.

ابو طالب کے خاندان سے دو بندے، بنی ہاشم اور قریش سے 90، 90 اور ان کے علاوہ 4 ہزار بندوں کو قتل کیا گیا۔

مروج الذهب، ج 3، ص 85.

ياقوت حموى نے کہا ہے کہ:

و قتل من الموالي ثلاثة آلاف و خمسمائة رجل و من الأنصار ألفا و أربعمائة و قيل ألفا و سبعمائة و من قريش ألفا و ثلاثمائة.

عام بندوں میں سے 3500 بندے اور انصار میں سے 1400 بندوں کو قتل کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ عام بندوں میں سے 1700 بندوں اور قریش میں سے 1300 بندوں کو قتل کیا گیا۔

معجم البلدان، ج 2، ص 249.

ج ـ بزرگ اصحاب کا مخفی ہو جانا:

ابن كثير نے کہا ہے کہ:

و قد اختفى جماعة من سادات الصحابة منهم جابر بن عبد اللّه، و خرج أبو سعيد الخدري فلجأ إلى غار في جبل.

بعض بزرگ صحابہ جیسے جابر بن عبد اللّه و أبو سعيد خدرى اپنی اپنی جان بچانے کے لیے چھپ گئے، جابر ابن عبد اللہ پہاڑ کے پیچھے اور ابو سعید ایک غار میں چلا گیا۔

 البداية و النهاية، ج 8، ص 241.

د ـ قرآن کے حافظوں کو قتل کرنا:

 مالک بن انس سے نقل ہوا ہے کہ:

 قتل يوم الحرّة سبعمائة من حملة القرآن و كان فيهم ثلاثة من أصحاب النبيّ صلّى اللّه عليه و سلّم.

واقعہ حرہ میں 700 قرآن کے قاریوں اور حافظوں کو قتل کیا گیا کہ ان میں سے تین صحابی بھی تھے۔

 المعرفة و التاريخ، ج 3، ص325.

هـ ـ لشکر کے سپاہی عورتوں سے زنا کرنے میں بھی بالکل آزاد تھے:

ابن كثير اور دوسرے مورّخین نے نقل کیا ہے کہ:

ثم أباح مسلم بن عقبة، الذي يقول فيه السلف مسرف بن عقبة - قبّحه اللّه من شيخ سوء ما أجهله - المدينة ثلاث أيّام كما أمره يزيد، لا جزاه اللّه خيراً، و قتل خلقاً من أشرافها، و قرّائها، و انتهب أموالاً كثيرة منها، و وقع شرّ عظيم، و فساد عريض على ما ذكره غير واحد.

پھر مسلم ابن عقبہ کہ بعد میں اسکو مدینہ کے زیادہ لوگوں کا خون بہانے کی وجہ سے مسرف ابن عقبہ کہا گیا، نے جس طرح کہ یزید نے اسکو حکم دیا تھا، اپنے سپاہیوں کو شہر مدینہ میں بالکل آزاد چھوڑا تا کہ وہ قتل و غارت اور شہوت والے کام (زنا) انجام دے سکیں۔

البداية و النهاية، ج 8، ص241.

حافظ ابن حجر نے بھی اسی بات کو صحیح کہا ہے اور لکھا ہے کہ:

و أبيحت المدينة أيّاما بأمر يزيد لعنه اللّه۔

یزید ملعون کے حکم کے مطابق شہر مدینہ چند دنوں کے لیے شام کے لشکر کے لیے بالکل آزاد تھا۔

فتح الباري، ج 13، ص 75

 تهذيب التهذيب، ج 6، ص227

الاتحاف بحبّ الاشراف، ص 65 و 66

و ـ مدینہ کی ہزاروں عورتوں کا زنا سے حاملہ ہونا:

اس آزادی کا یہ نتیجہ نکلا کہ مدینہ کے مسلمانوں کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ رسول خدا کے شہر میں سر عام زنا کیا گیا، اور مدائنی کی نقل کے مطابق اس واقعے کے بعد مدینہ میں ایک ہزار عورت نے زنا سے بچے پیدا کیے۔

قال المدائني عن أبي قرّة قال: قال هشام بن حسان: ولّدت ألف امرأة من أهل المدينة بعد وقعة الحرّة من غير زوج.

واقعہ حرہ کے بعد شہر مدینہ کی ایک ہزار عورت نے بغیر شادی اور شوہر کے بچے پیدا کیے۔

 البداية و النهاية، ج 8، ص241.

ياقوت حموى نے کہا ہے کہ:

و دخل جنده المدينة فنهبوا الأموال و سبوا الذرّيّة و استباحوا الفروج، و حملت منهم ثمانمائة حُرّة و ولدن، و كان يقال لأولئك الأولاد: أولاد الحَرّة.

یزید کا لشکر مدینہ میں داخل ہوا تو انھوں نے اموال کو لوٹا اور غارت کیا اور مسلمانوں کے بچوں کو اسیر کر لیا اور ان کی عورتوں سے زنا کیا کہ جس کے نتیجے میں بہت سے نا جائز بچے پیدا ہوئے کہ بعد میں ان کو فرزندان حَرّهکہا جاتا تھا۔

 معجم البلدان، ج 2، ص 249.

ز ـ مدينہ کے لوگوں سے غلام بن کر رہنے کا عہد و پیمان لیا گیا:

مسلم بن عقبہ کہ جو یزید کے لشکر کا سالار تھا، اس نے حکم دیا کہ مدینہ کے تمام لوگ یزید کے غلام کے عنوان سے بیعت کریں کہ یزید جس طرح سے چاہے گا ان کے اموال، جان اور ناموس میں عمل دخل کرے گا۔

فدخل مسلم بن عقبة المدينة فدعا الناس للبيعة على أنّهم خول ليزيد بن معاوية، و يحكم في دمائهم و أموالهم و أهليهم ما شاء.

مسلم بن عقبہ شہر مدینہ میں داخل ہوا اور لوگوں سے کہا کہ یزید ابن معاویہ کا غلام بن کر رہنے کی بیعت کریں تا کہ وہ جس طرح سے چاہے گا ان کے اموال اور اہل و عیال میں تصرف کرے گا۔

 البداية و النهاية، ج 8، ص243.

مسعودى نے لکھا ہے کہ:

و دخل مسلم المدينة فانتهبها ثلاثة أيّام و بايع من بقي من أهلها على أنّهم قنّ ليزيد و القنّ العبد الذي ملك أبواه، و عبد مملكة الذي ملك في نفسه و ليس أبواه مملوكين غير عليّ بن الحسين بن عليّ بن أبي طالب، لأنّه لم يدخل فيما دخل فيه أهل المدينة، و عليّ بن عبد اللّه بن العبّاس، فإنّ من كان في الجيش من أخواله من كندة منعوه. فكان ذلك من أعظم الأحداث في الإسلام و أجلّها و أفظعها رزء بعد قتل الحسين بن عليّ بن أبي طالب. 

مسلم بن عقبہ نے تین دن شہر مدینہ میں لوٹ مار کی اور زندہ بچ جانے والے لوگوں سے کہا گیا کہ نہ صرف اپنے آپ بلکہ اپنے ماں باپ کو بھی یزید کا غلام بن کر رہنے کے عنوان سے بیعت کرنے کا کہیں، صرف دو بندے ایک امام سجاد(ع) اور دوسرا على بن عبد اللّه بن عباس، اس طرح کی بیعت کرنے سے آزاد تھے۔

التنبيه و الإشراف، مسعودي، ص 262.

ابن كثير اور انكار حقيقت:

اہل سنت کے بعض علماء اور مؤرخین نے شہر مدینہ میں لشکر یزید کے امام حسین(ع) کی شھادت کے بعد بے رحمانہ ترین اور ظالمانہ ترین حوادث کا ذکر کیا ہے اور اس واقعے کے شہر مدینہ میں رونما ہونے کو قطعی طور پر ثابت کیا ہے،

 لیکن بعض دوسروں نے انہی حوادث کو نقل کرنے کے بعد کسی نہ کسی طریقے سے یزید کا دفاع کرتے ہوئے یا تو واقعہ حرہ کا بالکل انکار کر دیا ہے یا اگر واقعہ حرہ کو قبول کیا ہے تو تاویلات اور توجیہات کر کے یزید کے دامن کو شہر مدینہ میں واقع ہونے والے تمام مظالم اور جنایات سے پاک اور صاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے ابن كثير دمشقى نے اپنی كتاب البدايہ و النهايہ میں غیر عقلی اور غیر منطقی توجیہ کر کے یزید کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۔

توجيہ اوّل:

وہ کہتا ہے کہ:

و لمّا خرج أهل المدينة عن طاعته و خلعوه و ولّوا عليهم ابن مطيع و ابن حنظلة، لم يذكروا عنه – و هم أشدّ الناس عداوة له - إلا ما ذكروه عنه من شرب الخمر، و إتيانه بعض القاذورات، لم يتّهموه بزندقة كما يقذفه بذلك بعض الروافض، بل، قد كان فاسقاً، و الفاسق لا يجوز خلعه لأجل ما يثور بسبب ذلك من الفتنة، و وقع الهرج كما وقع زمن الحرّة، فإنّه بعث إليهم من يردّهم إلى الطاعة و أنظرهم ثلاثة أيّام، فلمّا رجعوا قاتلهم، و غير ذلك، و قد كان في قتال أهل الحرّة كفاية، و لكن تجاوز الحدّ بإباحة المدينة ثلاثة أيّام، فوقع بسبب ذلك شرّ عظيم كما قدّمنا.

مدینہ کے لوگوں نے یزید کی بیعت توڑنے اور ابن مطیع اور ابن حنظلہ کی بیعت کرنے کے بعد حالانکہ یہ دونوں یزید کے دشمن تھے، جو کچھ یزید کی برائیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ اس کا فقط شراب پینا اور بعض دوسرے چھوٹے موٹے گناہ کرنا ہے، ورنہ یزید کے کافر اور زندیق ہونے کے بارے میں یا اس طرح کہ جس طرح شیعہ اس کے بارے میں کہتے ہیں، علماء نے یزید کے بارے میں اس طرح نہیں لکھا ہے۔ یزید بعض برے کاموں کے انجام دینے کی وجہ سے فاسق ہو گیا تھا لیکن ایک فاسق انسان کو خلافت سے یا حکومت سے عزل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے معاشرے میں فتنہ و فساد پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، جس طرح کہ واقعہ حرہ میں پیش آیا تھا۔

البداية و النهاية، ج 8، ص255.

ابن کثیر یہ کہہ کر مدینہ کے لوگوں کو واقعہ حرہ میں قصور وار ٹہراتا ہے اور یزید کو بے قصور، وہ کہتا ہے کہ:

یزید نے اپنے نمائندے کو مدینہ بھیجا تا کہ ان کو خلیفہ کی اطاعت کرنے کے بارے میں کہے اور اسی وجہ سے اس نمائندے نے اہل مدینہ کو تین دن کی مہلت دی لیکن پھر وہ آخر کار اہل مدینہ سے جنگ کرنے پر مجبور ہو گیا۔

ابن کثیر کا یہ دفاع کس شریعت اور رسول خدا(ص) کی کس سنت کے مطابق ہے ؟؟؟

       وہ لوگ جو دس سال تک اسی شہر میں رسول خدا کے ساتھ زندگی گزارتے رہے اور وہ صحابہ کہ جو اسی واقعہ حرہ میں قتل ہوئے، کیا وہ شرعی احکام کو نہیں جانتے تھے ؟؟؟

کیا اگر ایک والی اور نمائندہ دین اسلام کے خلاف کام انجام دے اور لوگوں کے حقوق پر حملہ کرے اور ان پر ظلم کرے تو کیا اسکی مذمت نہیں ہونی چاہیے ؟؟؟

کیا جب کوئی مخالف فقط اعتراض کرے تو اسکو زور کی بنا پر ہر طریقے سے روکنا اور دبانا چاہیے اور ہر ظالم کا جیسے دل ہو ویسے اپنے مخالفوں پر مظالم اور جنایات کرتا رہے ؟؟؟

ہاں، ابن کثیر اور اسکی طرح کے دوسرے افراد کو یزید کے دفاع اور اسکی نجات کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ بنی امیہ کی خلافت کی داستان ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک اور صاف باقی رہ سکے۔

توجيہ دوّم:

اسی طرح ابن کثیر یزید کے بارے میں اپنے دفاع کو جاری رکھتے ہوئے یزید کے مظالم، اسکی کفر آمیز باتوں اور اس کا مدینہ کے لوگوں کی شکست کی خبر سن کر خوشحالی کرنے کے بارے میں جاہلانہ طور پر توجیہ کرتا ہے اور یزید کا ذمہ بری کرنے کے لیے حتی وہ تاریخ سے بھی شرم نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ:

و اما ما يذكره بعض الناس من أنّ يزيد لمّا بلغه خبر أهل المدينة و ما جرى عليهم عند الحرّة من مسلم بن عقبة و جيشه، فرح بذلك فرحاً شديداً، فإنّه كان يرى أنّه الامام و قد خرجوا عن طاعته، و أمّروا عليهم غيره، فله قتالهم حتّى يرجعوا إلى الطاعة و لزوم الجماعة، كما أنذرهم بذلك على لسان النعمان بن بشير، و مسلم بن عقبة كما تقدّم، و قد جاء في الصحيح: «من جاءكم و أمركم جميع يريد أن يفرّق بينكم فاقتلوه كائناً من كان.»

جو کچھ لوگوں کے درمیان نقل کیا جاتا ہے کہ یزید مدینہ کے لوگوں کی شکست کی خبر سن کر اور واقعہ حرہ سے بہت خوشحال ہوا تو اس بات پر دلیل ہے کہ یزید لوگوں کا امام اور خلیفہ تھا اور بعض لوگوں نے اس کے فرمان کی خلاف ورزی کی تھی اور اسکی بیعت کو توڑ کر اسکی جگہ کسی دوسرے کو اپنا امام اور خلیفہ انتخاب کیا تھا، لہذا یزید کا حق تھا کہ ان سے جنگ کرے تا کہ وہ لوگ اکثریت کی طرف اور خلیفہ اور امام کی پلٹ آئیں تا کہ  امت میں اختلاف اور فساد کو کم کیا جا سکے۔

البداية و النهاية، ابن كثير، ج 8، ص 245.

پھر ابن کثیر یزید کے ابن زبعری کے کفر آمیز اشعار پڑھنے کے بارے میں کہ جو یزید نے واقعہ حرہ کے بعد پڑھے تھے، کہتا ہے کہ:

و اما ما يوردونه عنه من الشعر في ذلك و استشهاده بشعر ابن الزبعري في وقعة أحد التي يقول فيها:

ليت أشياخي ببدر شهدوا*** جزع الخزرج من وقع الأسل

حين حلت بفنائهم برمها***واستحرالقتل في عبد الأشل

قد قتلنا الضعف من أشرافهم *** وعدلنا ميل بدر فاعتدل

وقد زاد بعض الروافض فيها فقال:

لعبت هاشم بالملك فلا *** ملك جاءه ولا وحي نزل

فهذا إن قاله يزيد بن معاوية فلعنة اللّه عليه و لعنة اللاعنين، و إن لم يكن قاله فلعنة اللّه على من وضعه عليه ليشنع به عليه.

 ابن كثير یزید کی بات اور اس کے اشعار کو نقل کرنے کے بعد  کہتا ہے کہ اگر ان سب کو یزید ابن معاویہ نے کہا ہے تو اس پر خداوند کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو، اور اگر یزید نے نہیں کہا تو ان لوگوں پر خدا کی لعنت ہو جو اس طرح کی جھوٹی باتوں سے یزید کو بد نام کرنا چاہتے ہیں۔

 البداية و النهاية، ج 8، ص245 و 246.

کیا ابن کثیر کے اس کلام سے ظالم اور کافر یزید کے دفاع کے علاوہ کوئی دوسری بات سمجھ میں آتی ہے ؟؟؟

ابن کثیر کا بغض اور کینہ اہل بیت کے شیعوں کے بارے میں کسی با انصاف انسان پر مخفی نہیں ہے کیونکہ وہ ابن زبعری کے اشعار کے بارے میں کہتا ہے کہ ان اشعار میں آخری شعر کو شیعوں نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے۔

ـ خانہ خدا کی حرمت کو پامال کرنا اور خانہ کعبہ کو آگ لگانا:

سعید ابن مسیب کی نقل کے مطابق یزید کی خلافت اور حکومت میں تیسرا درد ناک اور غمناک واقعہ جو واقع ہوا، وہ حرم خدا کی بے حرمتی کرنا اور مسلمانوں کے قبلہ کو آگ لگانا تھا۔

و الثالثة: سفكت الدماء في حرم اللّه و حرّقت الكعبة.

تاريخ يعقوبى، ج 2، ص 253.

سرزمين مكہ کی خصوصیات:

شهر مكہ مسلمانوں کی نظر میں مقدس ترین مقام ہے کیونکہ:

اوّلاً: عبادت کا مرکز قبلہ اور خدا کا گھر اس شہر میں ہے۔

ثانياً: وحی کے نازل ہونے اور رسول خدا کے مبعوث ہونے کا شہر ہے۔

ثالثاً: رسول خدا کی ولادت با سعادت اسی شہر میں ہوئی ہے۔

ان تین خصوصیات کی وجہ سے یہ شہر مسلمانوں کے لیے بہت مقدس مقام رکھتا ہے۔

قرآن کی آیات میں بھی اس شہر کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے:

 ـ قرآن كريم نے كعبہ کو وہ پہلی عمارت کہا ہے کہ جو اس زمین پر تعمیر کی گئی تھی:

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَ هُدًى لِّلْعَــلَمِينَ۔

وہ پہلا گھر کہ جو لوگوں کے لیے قرار دیا گیا، وہی ہے کہ جو سر زمین مکہ میں ہے کہ جو اہل عالم کے لیے با برکت اور باعث ہدایت ہے۔

آل عمران (3)، آيه 96.

ـ قبلہ اور مسلمانوں کا عبادت کے وقت رخ کرنے کا مقام:

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِى السَّمَآءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَـلـهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُو وَ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَـبَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَ مَا اللَّهُ بِغَـفِل عَمَّا يَعْمَلُونَ.

ہم آپ کا آسمان کی طرف بار بار رخ کرنا دیکھ رہے ہیں، پس ہم نے آپ کو اس قبلہ کہ جس سے آپ خوش ہوں، کی طرف پھیر دیا ہے، پس آپ بھی اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کر لیں اور آپ جس جگہ پر بھی ہوں اپنا رخ اسی طرف کر لیں۔ اہل کتاب حقیقت کو جانتے ہیں کہ یہ قبلہ کا تبدیل ہونا خداوند کی طرف سے ٹھیک ہے اور جو کچھ تم لوگ کرتے ہو خدا اس سے غافل نہیں ہے۔

بقره (2)، آيه 144.

ـ فریضہ حج کے وقت مسلمانوں کے جمع ہونے کا مقام:

وَ لِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً.

اور خدا کے لیے لوگوں پر لازم ہے اس گھر میں حج کرنا، اس انسان پر کہ جو حج کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔

آل عمران (3)، آيه 97.

ـ پناہ لینے والوں کے لیے امن اور آرام کا مرکز:

وَ مَن دَخَلَهُ كَانَ ءَامِنًا. 

جو بھی اس میں داخل ہو جائے وہ امن و امان میں ہے۔

آل عمران (3)، آيه 97.

ان آیات کی روشنی میں تمام مسلمانوں پر اس مقدس سر زمین کا دفاع کرنا ایک دینی اور اسلامی فریضہ ہے اور وہ کسی کو بھی اس شہر کی حرمت پامال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

لیکن افسوس کہ تاریخ اسلام میں اسلام کا نام لینے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کا امام اور خلیفہ کہنے والوں نے اس مقدس شہر کی حرمت کو پامال کیا کہ جب عبد اللہ ابن زبیر سے اختلاف کی وجہ سے یزید ابن معاویہ نے اس مقدس شہر پر لشکر کشی کی تو خانہ کعبہ اور قبلہ مسلمین کو آگ لگائی گئی۔

 تاریخ کی نگاہ میں خانہ کعبہ کو تخریب کرنا اور آگ لگانا:

ابن كثير واقدى سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:

فلمّا كان يوم السبت ثالث ربيع الأوّل سنة أربع و ستّين نصبوا المجانيق على الكعبة و رموها بالنار، فأحترق جدار البيت في يوم السبت.

جب سن 64 ہجری تین ربیع الاول ہفتے کا دن آیا تو یزید کی منجنیق نے خانہ کعبہ کو ہدف قرار دیا اور اس پر آگ برسانا شروع کی کہ جسکی وجہ سے خانہ کعبہ کی دیواروں کو آگ لگ گئی۔

البداية و النهاية، ابن كثير، ج 8، ص 247.

پھر ابن کثیر نے اوپر ذکر شدہ عبارت کے ساتھ دوسرے دو اقوال کو لفظ قیل اور مجہول طریقے سے ذکر کیا ہے:

ـ کعبہ کے اطراف میں رہنے والے لوگوں کے آگ جلانے کی وجہ سے خانہ کعبہ کو بھی آگ لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے خانہ کعبہ کی دیواریں اور چھت بھی جل گئے۔

ـ رات کے اندھیرے میں اچانک پہاڑوں سے تکبیر کی آوازیں آنا شروع ہوئیں تو عبد اللہ ابن زیبر نے نیزے پر آگ رکھ کر دیکھنا چاہا کہ کون ہے جو اس وقت ایسی آوازیں لگا رہا ہے تو ہوا چلنے کی وجہ سے رکن یمانی، حجر اسود اور خانہ کعبہ کے پردے کو آگ لگ گئی۔

ياقوت حموى نے کہا ہے کہ:

و رمي الكعبة بالمنجنيق من أشنع شيء جرى في أيّام يزيد۔

یزید کی حکومت کے تلخ ترین حوادث میں سے خانہ کعبہ پر منجنیق کے ساتھ حملہ کرنا تھا۔

معجم البلدان، ج 2، ص 249.

خداوند کا واقعہ حرہ برپا کرنے والوں سے انتقام لینا:

نور الدين ہيثمى عكرمہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:

مرّ ابن الزبير، و ابن عبّاس في المسجد، و أهل الشام يرمونها من فوق أبي قبيس بالمنجنيق بالحجارة، فأرسل اللّه عليهم صاعقة فأحرقت منجنيقهم، و أحرقت تحته أربع.

قال أناس من بنى أميّة: لايهولنّكم، فإنّها أرض صواعق، فأرسل اللّه عليهم أخرى فأحرقت منجنيقهم، و أحرقت تحته أربعين رجلاً.

قال: فبيناهم كذلك أتاهم موت يزيد بن معاوية، فتفرّق أهل الشام.

ابن زبير اور ابن عباس مسجد الحرام میں تھے کہ شامیوں نے ابو قبیس کے پہاڑ سے منجنیق کے ساتھ خانہ کعبہ کو ہدف بنایا ہوا تھا، خداوند نے آسمانی بجلی بھیجی کہ جسکی وجہ سے منجنیق جل گئی اور وہ چار بندے کہ جو اس کے نیچے تھے وہ بھی جل کر مر گئے۔ بنی امیہ میں سے بعض نے کہا کہ نہ ڈرو اس سر زمین پر تو آسمانی بجلیاں گرتی ہی رہتی ہیں، اتنے میں ایک اور آسمانی بجلی آئی اور اس نے بھی وہی کام کیا جو پہلی بجلی نے کیا تھا، اتنے میں یزید کے مرنے کی خبر لشکر کو ملی تو یہ خبر سن کر لشکر ادھر ادھر منتشر ہو گیا۔

مجمع الزوائد، ج 3، ص 291 ـ

 المصنّف، صنعانى، ج 5، ص 124، نمبر 9147، و 138، نمبر9183.

ابن حجر نے فتح البارى میں لکھا ہے کہ:

إن ابن الزبير حين مات معاوية امتنع من البيعة و أصرّ على ذلك حتّى أغرى يزيد بن معاوية مسلم بن عقبة بالمدينة، فكانت وقعة الحرّة، ثمّ توجّه الجيش إلى مكّة فمات أميرهم مسلم بن عقبة، و قام بأمر الجيش حصين بن نمير، فحصر ابن الزبير بمكّة و رموا الكعبة بالمنجنيق حتّى احترقت، ففجأهم الخبر بموت يزيد بن معاوية۔

معاویہ کی موت کے بعد عبد اللہ ابن زبیر نے مکہ میں یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تو یزید نے مسلم ابن عقبہ کی سالاری میں شام سے ایک لشکر مدینہ کی طرف روانہ کیا کہ جس نے غمناک ترین اور تلخ ترین واقعہ حرہ کو مدینہ میں برپا کیا، پھر لشکر نے مکے کا رخ کیا کہ راستے میں مسلم ابن عقبہ کے مرنے کے بعد حصین بن نمیر نے لشکر کی قیادت سنبھالی، اس نے ابن زیبر کو گھیرے میں لیا اور منجنیق کے ذریعے سے مسجد الحرام میں موجود سپاہیوں پر آگ برسانا شروع کی کہ جسکی وجہ سے کعبہ کو بھی آگ لگ گئی۔

فتح الباري، ج 8، ص 245، رقم 4387.

اور ابن حجر نے فاكهى سے كتاب مكہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

لمّا أحرق أهل الشام الكعبة و رموها بالمنجنيق، وهت الكعبة۔

جب شامیوں نے کعبہ کو منجنیق کے ذریعے سے ہدف قرار دیا تو کعبہ کو آگ لگائی اور کعبہ کی دیواروں اور چھت میں شگاف پڑ گیا۔

فتح الباری، ج 8، ص 354.

اور قندوزى حنفى نے کہا ہے کہ:

ثمّ سار جيشه نحو مكّة إلى قتال ابن الزبير فرموا الكعبة المكرّمة بالمنجنيق، و أحرقوا كسوتها بالنار، فأىّ شيء أعظم من هذه القبائح التي وقعت في زمنه ناشئة عنه.

یزید کا لشکر مکے کی طرف گیا اور منجنیق سے کعبہ پر حملہ کیا اور کعبہ کے پردے کو آگ لگا کر جلا دیا کہ یہ تلخ ترین حوادث تھے کہ جو یزید کے دور میں رونما ہوئے۔

ينابيع المودّة، ج 3، ص 35.

اس فصل کا خلاصہ اور نتیجہ:

اس فصل میں اب تک جو ذکر کیا گیا وہ اہل سنت کی تاریخ کی کتب سے تھا، ان سب تلخ حوادث کو کہ جو یزید کے حکم پر انجام دیئے گئے، پر نظر کرتے ہوئے کہ یزید فقط بنی امیہ میں سے تھا اور معاویہ کا بیٹا اور اس کا جانشین تھا، کیا اسکی حمایت اور طرفداری کی جا سکتی ہے؟؟؟

 ہم اس فصل کو اہل سنت کے ایک عالم کا کلام نقل کر کے خاتمہ دیتے ہیں۔

على محمّد فتح الدين الحنفى متوفی 1371 هـ (1952 ) عالم اہل سنت کہ جو پاکستان کے صوبہ پنجاب کا رہنے والا تھا کہ جو اپنے ایک شاگرد کے ذریعے سے ایک شیعہ عالم عبد العلی ہروی سے آشنا ہوا تھا پھر اس نے آہستہ آہستہ غیر جانب داری اور آزاد فکر کے ساتھ شیعہ مذہب کے بارے میں تحقیق شروع کی اور آخر کار مذہب شیعہ اثنا عشریہ کو انتخاب کر لیا۔

اس نے كتاب فلک النجاة میں کہا ہے کہ:

في الخمسين الأخير كانت ولاية يزيد و قتل الحسين و ذرّيّته و خيار شيعته، و استباحة المدينة المنوّرة، و قلع منبر النبيصلي الله عليه و آله و هتك ساكني حرمها، و قتل أكابر الصحابة، و الزنا بالجبر، و فضّ أبكار أهلها، و محاصرة مكّة، و رمي الكعبة بالمنجنيق۔

آخری پچاس سال میں یزید کی خلافت اور حکومت کا دور تھا کہ جس میں امام حسین، ان کے اہل بیت اور ان کے اصحاب کی شہادت، شہر مدینہ میں واقعہ حرہ میں رسول خدا کا منبر اپنی جگہ سے اکھاڑنے، اہل مدینہ، رسول خدا کے صحابہ اور تابعین کا قتل، زنا اور صحابہ کی بیٹیوں کی عصمت دری، مکے کا محاصرہ اور خانہ کعبہ پر منجنیق سے حملہ کرنے جیسے تلخ حوادث رونما ہوئے تھے۔

فلک النجاة، ص 82. 

فصل چہارميزيد قرآن و حديث کی روشنی میں اور اس پر لعنت کرنا:

کیا یزید پر لعنت کرنا جائز ہے؟

کیا جس بندے نے امام حسین(ع) کو شہید کیا ہو، رسول خدا(ص) کے شہر کی حرمت کو پامال کیا ہو اور اہل مدینہ کا قتل عام کیا ہو اور جس نے خانہ خدا پر بھی رحم نہ کیا ہو، کیا اس انسان پر لعنت کی جا سکتی ہے یا نہیں ؟

جو امام حسین کے کٹے ہوئے سر کو دیکھ کر کفر آمیز اشعار پڑھے، کیا ایسا بندہ لعنت کا مستحق ہے یا نہیں ؟

 امام أحمد بن حنبل نے اسی موضوع کے سوال کا جواب قرآن کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے دیا ہے کہ:

ابن جوزى نے اپنی کتاب «الردّ على المتعصّب العنيد» میں قاضی ابو یعلی محمد بن حسین بن فراء سے نقل کیا ہے کہ اس نے اپنی کتاب «المعتمد في الأصول» میں صالح بن احمد کی سند کے ساتھ نقل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ: میں نے اپنے والد سے کہا:

إنّ قوماً ينسبوننا إلى توالي يزيد، فقال: يا بنيّ! و هل يتوالى يزيد أحد يؤمن باللّه؟! فقلت: لم لا تلعنه؟ فقال: و متى رأيتني ألعن شيئاً؟ لم لا يلعن من لعنه اللّه في كتابه؟ فقلت: و أين لعن اللّه يزيد في كتابه؟

فقرأ: «فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُواْ فِى الاْرْضِ وَ تُقَطِّعُواْ أَرْحَامَكُمْ أُوْلَئـِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمهمْ وَ أَعْمَى أَبْصَـرَهُمْ» 

محمّد (47)، آيه 22 و 23

 فهل يكون فساد أعظم من القتل؟ 

میں نے اپنے والد سے کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم یزید کی اطاعت کرتے ہیں، انھوں نے جواب دیا کہ بیٹا جو خداوند پر ایمان رکھتا ہو کیا وہ یزید کی اطاعت کر سکتا ہے ؟

میں نے کہا تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟ انھوں نے کہا کیا تم نے دیکھا ہے میں نے کسی پر لعنت کی ہو ؟ جس پر خداوند نے قرآن میں لعنت کی ہو، اس پر کیوں لعنت نہیں کرنی چاہیے ؟

میں نے کہا خدا نے کس آیت میں اس پر لعنت کی ہے ؟ تو انھوں نے اس آیت کی تلاوت کی:

< پس اے منافقو، کیا تم نے امید لگائی ہے جب خدا سے دور ہوئے تو لوگوں پر حکومت ملے تو تم زمین پر فساد کرو گے اور اپنی رشتے داری ایک دوسرے سے ختم کر دو گے، یہ وہ لوگ ہیں جن کو خداوند نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرہ اور انکی آنکھوں کو اندھا کیا ہے۔ > 

پھر میرے والد نے کہا کہ کیا قتل و غارت سے بڑا بھی کوئی فساد ہے ؟

الردّ على المتعصب العنيد، ص 16 و 17.

و في رواية: يا بنيّ! ما أقول في رجل لعنه اللّه في كتابه؟

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ: کیا کہوں اس کے بارے میں کہ جس کو خدا نے قرآن میں لعنت کی ہے ؟

اور پھر یہ آیت پڑھی:

«وَ الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَـاقِهِ وَ يَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَ يُفْسِدُونَ فِى الاْرْضِ أُوْلَـئـِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوءُ الدَّارِ»

< جو خداوند کے ساتھ عہد و پیمان کر کے توڑتے ہیں اور جس کے جوڑنے کا خداوند نے حکم دیا ہے اس کو کاٹتے ہیں اور زمین پر فساد کرتے ہیں، ان پر لعنت ہے اور ان کے لیے بہت برا ٹھکانہ ہے۔ > 

رعد (13)، آيه 25. 

 اور کہا کہ

 «و أيّ قطيعة أفظع من قطيعته صلى الله عليه و آله في ابن بنته الزهراء»

کون سی عہد شکنی، رسول خدا کی بیٹی حضرت زہرا(س) کے بارے میں عہد شکنی سے بد تر ہے ؟

الاتحاف بحبّ الأشراف، شبراوي، ص 64.

یہ مشہور فقیہ قرآن کی آیات سے یزید پر لعنت کرنے کو ثابت کر رہا ہے اور اس کے مطابق فتوی بھی دے رہا ہے۔

قرآن کی ایک اور آیت کہ جس سے لعنت اور مذمت کرنے کا جائز ہونا ثابت ہوتا ہے:

وَ إِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِى أَرَيْنَـكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِى الْقُرْءَانِ وَ نُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلاَّ طُغْيَـنًا كَبِيرًا.

اور یاد کرو اس وقت کو کہ ہم نے آپ سے کہا کہ: بے شک آپ کا پروردگار تمام انسانوں پر محیط ہے، اور وہ خواب کہ جو ہم نے آپ کو دکھایا ہے، وہ لوگوں کے لیے امتحان تھا اور وہ درخت کہ جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے اور ہم ان کو ڈراتے ہیں لیکن پھر بھی وہ بہت سر کشی کرتے ہیں۔

الإسراء (17)، آيه 60.

شیعہ اور اہل سنت کے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ  شجرہ ملعونہ سے مراد بنی امیہ ہیں۔

أخرج ابن أبي حاتم، و ابن مردويه، و البيهقي في (الدلائل) و ابن عساكر عن سعيد بن المسيّب، قال: رأى رسول اللّه صلى الله عليه و آله بني أميّة على المنابر، فساءه ذلک۔

رسول خدا نے خواب دیکھا کہ بنی امیہ منبر پر بیٹھے ہیں،پس یہ بات رسول خدا کو بہت بری لگی۔

الدر المنثور، ج 4، ص 191.

فخر رازی نے کہا ہے کہ:

و هذا قول ابن عبّاس في رواية عطاء.

یہ عطاء کی روایت میں ابن عباس کا قول ہے۔

تفسير فخر رازى، ج 10، ص 238.

سيوطی نے ایک دوسری جگہ کہا ہے کہ:

قال رسول اللّه صلى الله عليه و آله: «أريت بني أميّة على منابر الأرض، و سيتملّكونكم، فتجدونهم أرباب سوء»، و اهتمّ رسول اللّه صلى الله عليه و آله لذلك، (وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِى أَرَيْنَـكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ)

بنی امیہ کا منبروں پر بیٹھنا مجھے دکھایا گیا کہ وہ بہت جلد تم پر مسلط ہوں گے اور تم ان کو بہت برے حاکم پاؤ گے۔

 الدرّ المنثور، ج 4، ص191.

اسی طرح کی حدیث ابن مردویہ نے حسين بن على عليهما السلام سے بھی نقل کی ہے۔

ابن حجر ہيثمى مكّى نے ان احاديث اور خود داستان کو صحيح کہا ہے اور کہتا ہے کہ:

صحّ أنّه صلى الله عليه و آله رأى ثلاثة منهم - يعني بني الحكم بن أبي العاص - ينزون على منبره نزو القردة، فغاظه ذلك و ما ضحك بعده إلى أن توفّاه اللّه سبحانه و تعالى. 

یہ بات ٹھیک ہے کہ رسول خدا نے حکم ابن ابی العاص کے تین بیٹوں کو بندر کی شکل میں دیکھا کہ وہ منبر پر چڑھے ہوئے ہیں، اس بات پر رسول خدا بہت پریشان ہوئے، اس کے بعد مرتے دم تک رسول خدا کو کسی نے مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔

تطهير الجنان و اللسان، ص 53.

تیسری آیت کہ جو لعنت اور مذمت کے بارے میں ہے، وہ ان لوگوں کے بارے میں ہے کہ جن پر خود خداوند نے ان کے خدا اور اس کے رسول کو اذیت کرنے کی وجہ سے لعنت کی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِى الدُّنْيَا وَ الاْخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مهينًا.

بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو اذیت کرتے ہیں،خداوند نے ان کو دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے اور قیامت میں بھی ذلیل و خوار کرنے کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

الأحزاب (33)، آيه 57. 

اس آیت سے رسول خدا(ص) کو اذیت کرنا یا ان سے دشمنی کرنا تو واضح ہے لیکن ان کے اہل بیت کو بھی رسول خدا کی آیات کی تفسیر کے بارے میں روایات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ اتفاق سے آیت «مودّت ذوى القربى» کے علاوہ رسول خدا سے صدہا روایات نقل ہوئی ہیں کہ جن میں رسول خدا(ص) نے اپنے اہل بیت(ع) کے بارے میں بیان کیا ہے کہ اس مختصر تحریر میں ان سب کو ذکر کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

پھر بھی ایک روایت کو ذکر کرتے ہیں کہ:

أخرج الامام أحمد في مسنده عن أبي هريرة، قوله صلى الله عليه و آله لعليّ و فاطمة و الحسنين عليهم السلام: «أنا حرب لمن حاربكم، و سلم لمن سالمكم». 

رسول خدا نے فرمایا کہ یہ میرے اہل بیت ہیں، میں اس سے جنگ کروں گا کہ جو ان سے جنگ کرے گا اور میں اس سے صلح کروں گا کہ جو ان سے صلح کرے گا۔

مسند أحمد، ج 2، ص 442.

اسی طرح ترمذى نے زيد بن أرقم سے نقل کیا ہے کہ:

أنا حرب لمن حاربتم، و سلم لمن سالمتم.

سنن ترمذي، ج 5، ص 656، ح 3870. 

یہ حدیث ثابت کر رہی ہے کہ اھل بیت میں سے کسی کے ساتھ بھی جنگ اور دشمنی کرنا، وہ خود رسول خدا سے جنگ اور دشمنی کرنا ہے۔

لہذا امام حسین(ع) سے جنگ کرنا یہ ان کے نانا رسول خدا(ص) سے جنگ کرنا ہے کہ ایسے شخص کا انجام کافر ہونا اور لعنت اور عذاب کا مستحق ہونا ہے۔

اسی بات کو قرآن کی اس آیت سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ:

وَ مَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَـالِدًا فِيهَا وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا۔

جو بھی کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اسکی جزا جہنم ہے کہ جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر خداوند بھی اپنا غضب اور لعنت کرتا ہے اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا جا چکا ہے۔

النساء (4)، آيه 93.

کیا اب بھی یزید اور اس کے لشکر کے کافر اور ملعون ہونے میں شک ہے کہ جہنوں نے کچھ اہل بیت کو قتل کیا اور ان کے بچوں اور خواتین کو قیدی بنایا ؟

رسول خدا کے اس فرمان پر توجہ کریں کہ آپ نے فرمایا کہ:

إنّ أهل بيتي سيلقون من بعدي من أمّتي قتلاً و تشريداً، و إنّ أشدّ قومنا لنا بغضاً بنو أميّة، و بنو المغيرة، و بنو مخزوم.

میرے اہل بیت میرے بعد قتل اور در بدر ہونے میں مبتلا ہوں گے، ہم اہل بیت سے بغض کے لحاظ سے سب سے آگے بنی امیہ، بنی مغیرہ اور بنی مخزوم ہیں۔

المستدرك، حاكم نيشابوري، ج 4، ص 534، ح 8500.

ایک اور روایت کو حاکم سے سند صحیح کے ساتھ اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ: 

و روى الحاكم بسند جيد عن فاطمة بنت ( . . . ) امرأة بني المغيرة أنها سألت عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما: هل تجد يزيد بن معاوية في الكتاب؟ قال: لا أجده باسمه، و لكن أجد رجلا من شجرة معاوية، يسفك الدماء و يستحل الاموال، و ينقض هذا البيت حجرا حجرا.

حاکم نے حسن سند کے ساتھ فاطمہ بنت ....بنی مغیرہ کی ایک عورت سے روایت کی ہے کہ اس نے عبد اللہ بن عمرو سے سوال کیا کہ کیا یزید ابن معاویہ کا قرآن میں نام اور ذکر آیا ہے ؟ اس نے کہا میں نے اس کا نام تو قرآن میں نہیں دیکھا لیکن میں نے معاویہ کی نسل سے ایک بندے کا ذکر قرآن میں دیکھا ہے کہ جو لوگوں کا خون بہاتا ہے، لوگوں کے اموال کو اپنے لیے حلال جانتا ہے اور خانہ کعبہ کی اینٹ ایک ایک کر کے اس کو ویران کر رہا ہے۔

سبل الهدى و الرشاد في سيرة خير العباد: محمد بن يوسف الصالحي الشامي ج 10 ، ص 89 ، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت ، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود

ابن عساكر نے اپنی تاريخ میں عبد الله بن عمرو سے روايت کی ہے کہ:

 قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: يزيد، لا بارك الله في يزيد الطعان اللعان، أما انه نعي الي حبيبي حسين، أتيت بتربته، و رأيت قاتله، أما انه لا يقتل بين ظهراني قوم، فلا ينصرونه الا عمهم الله بعقاب.

رسول خدا نے فرمایا کہ: یزید کہ خداوند اس میں برکت قرار نہ دے، مورد لعن و طعن ہے۔ وہ میرے پیارے حسین کو شہید کرے گا اور میرے لیے اس کی خاک کو لائے اور اس کے قاتل کو بھی مجھے دکھایا، جان لو کہ اس کو ایک گروہ شہید کرے گا اور کوئی اسکی مدد نہیں کرے گا مگر وہ لوگ خداوند کے عذاب میں مبتلا ہوں گے۔

كنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال ، علاء الدين علي المتقي بن حسام الدين الهندي ، ج 12 ص 59 ، دار النشر : دار الكتب العلمية  بيروت  تحقيق: محمود عمر الدمياطي 

سبل الهدى و الرشاد في سيرة خير العباد، محمد بن يوسف الصالحي الشامي ج 10، ص 89. ، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت  تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود

يزيد اور معاويہ پر لعنت کیوں ممنوع ہے ؟!!

ابن عساكر اس بارے میں کہ کیوں بعض لوگ یزید اور معاویہ پر لعنت کرنے کو جائز نہیں جانتے، کہتا ہے کہ:

قال وَكيع: معاوية بمنزلة حلقة الباب، من حرمه اتهمناه على من فوقه.

وکیع کہتا ہے کہ معاویہ ایک دروازے کی گھنٹی کی طرح ہے کہ اگر اس کو حرکت دو گے تو پھر دوسروں کو بھی حرکت دینی پڑے گی۔ 

مختصر تاريخ دمشق، ج 25، ص 75.

تفتازانی نے بھی اسی بارے میں کہا ہے کہ:

فإن قيل: فمن علماء المذهب من لم يجوز اللعن على يزيد مع علمهم بأنه يستحق على ما يربو على ذلك و يزيد!! قلنا: تحاميا أن يرتقى إلى الأعلى فالأعلى.

اگر کہا جائے کہ بعض علماء یزید پر لعنت کرنے کو جائز نہیں جانتے حالانکہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ یزید اور اس کے پیروکار لعنت کے مستحق ہیں، تو ہم جواب دیتے ہیں کہ یہ فقط اس لیے ہے کہ یزید پر لعنت کرنے کی وجہ سے دوسروں پر بھی لعنت نہ کرنا پڑ جائے۔

شرح المقاصد، ج 5، ص 311، (تحقيق الدكتور عبد الرحمن عميرة).

آلوسی نے اپنی تفسير میں یزید پر لعنت کے بارے میں لکھا ہے کہ:

«أعوذ بالله سبحانه من رأس الستين و إمارة الصبيان»، يشير إلى خلافة يزيد الطريد لعنه الله تعالى على رغم أنف أوليائه لأنها كانت سنة ستين من الهجرة،

رسول خدا کا یہ فرمان کہ میں سن 60 ہجری کے سال کی ابتدا سے اور بچوں کی حکومت سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں، اس میں یزید ملعون کی خلافت کی طرف اشارہ ہے، کہ خداوند کی اس پر لعنت ہو کیونکہ سن 60 ہجری کی ابتدا میں اس کا دور حکومت تھا۔

تفسير آلوسي، ج 6، ص 192.

ایک دوسری جگہ پر آلوسی نے یزید پر لعنت کے بارے میں کہا ہے کہ:

و على هذا القول لا توقف في لعن يزيد لكثرة أوصافه الخبيثة و ارتكابه الكبائر في جميع أيام تكليفه و يكفي ما فعله أيام استيلائه بأهل المدينة و مكة فقد روى الطبراني بسند حسن « اللهم من ظلم أهل المدينة و أخافهم فأخفه و عليه لعنة الله و الملائكة و الناس أجمعين لا يقبل منه صرف و لا عدل»... و قد جزم بكفره و صرح بلعنه جماعة من العلماء منهم الحافظ ناصر السنة ابن الجوزي و سبقه القاضي أبو يعلى، و قال العلامة التفتازاني: لا نتوقف في شأنه بل في إيمانه لعنة اللهتعالى عليه و على أنصاره و أعوانه، و ممن صرح بلعنه الجلال السيوطي عليه الرحمة و في تاريخ ابن الوردي.... و هذا كفر صريح فإذا صح عنه فقد كفر به و مثله تمثله بقول عبد الله بن الزبعرى قبل إسلامه: ليت أشياخي الأبيات، و أنا أقول: الذي يغلب على ظني أن الخبيث لم يكن مصدقا برسالة النبي صلى الله عليه و سلم و أن مجموع ما فعل مع أهل حرم الله تعالى و أهل حرم نبيه عليه الصلاة و السلام و عترته الطيبين الطاهرين في الحياة و بعد الممات و ما صدر منه من المخازي ليس بأضعف دلالة على عدم تصديقه من إلقاء ورقة من المصحف الشريف في قذر؛ و لا أظن أن أمره كان خافيا على أجلة المسلمين،... و لو سلم أن الخبيث كان مسلما فهو مسلم جمع من الكبائر ما لا يحيط به نطاق البيان، و أنا أذهب إلى جواز لعن مثله على التعيين و لو لم يتصور أن يكون له مثل من الفاسقين، و الظاهر أنه لم يتب، و احتمال توبته أضعف من إيمانه، و يلحق به ابن زياد. و ابن سعد. و جماعة فلعنة الله عز و جل عليهم أجمعين، و على أنصارهم و أعوانهم و شيعتهم و من مال إليهم إلى يوم الدين ما دمعت عين على أبي عبد الله الحسين،... و لا يخالف أحد في جواز اللعن بهذه الألفاظ و نحوها سوى ابن العربي المار ذكره و موافقيه فإنهم على ظاهر ما نقل عنهم لا يجوزون لعن من رضي بقتل الحسين رضي الله تعالى عنه، و ذلك لعمري هو الضلال البعيد الذي يكاد يزيد على ضلال يزيد.

اس قول کی بناء پر کہ یزید سے اپنی زندگی کے ایام میں حرام، خبیث اور گناہ کبیرہ سر زد ہونے کی وجہ سے خاص طور پر اسکی حکومت کے ایام میں اہل مکہ اور مدینہ پر ظلم اور جنایات کرنے کی وجہ سے، یزید پر لعنت کرنے میں کسی قسم کا کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا۔ 

طبرانی نے سند حسن کے ساتھ روايت کو نقل کیا ہے کہ: خداوندا جو اہل مدینہ پر ظلم کرے اور ان کو ڈرائے تو، تو بھی اس کو ڈرا اور اس پر اپنی، تمام فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت بھیج، ایسی لعنت کہ کوئی چیز اس کو یزید سے دور کرنے والی نہ ہو۔

اور بعض علماء جیسے حافظ ناصر السنہ ابن جوزی نے اور اس سے پہلے قاضي أبو يعلى نے یزید کے کافر ہونے اور اس پر لعنت کرنے کے بارے میں واضح طور پر کہا ہے۔

علامہ تفتازانی نے اس بارے میں کہا ہے کہ: یزید کے ایمان کی حالت ہم پر واضح ہے، اس پر اور اس کے پیروکاروں پر خداوند کی طرف سے لعنت ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے اور جس نے یزید پر واضح طور پر لعنت کرنے کا کہا ہے ان میں ایک جلال الدين سيوطی ہے اور تاریخ ابن وردی میں آیا ہے کہ: اور یہ آشکارا کفر یزید کی طرف سے شمار ہوتا ہے اور اگر یہ صحیح ہو تو یزید حقیقت میں بھی کافر ہے، اور اسکی مثال مانند عبد الله بن زبعرى کی ہے کہ جس نے اسلام سے پہلے ان اشعار کو کہا تھا اور یزید نے بھی انہی کو اھل بیت کے سامنے اپنے دربار میں تکرار کیا تھا،

ليت أشياخي ببدر شهدوا سے لے کر آخر تک......

میری نظر کے مطابق اور جہاں تک میرا ذہن کام کرتا ہے یہ ہے کہ یزید ایک خبیث انسان تھا کہ جو رسول خدا کی رسالت پر بالکل ایمان نہیں رکھتا تھا اور جو کچھ اس نے حرم خداوند (مکہ) کے لوگوں کے ساتھ اور حرم رسول خدا (مدینہ) کے لوگوں کے ساتھ اور جو کچھ اس نے رسول خدا کے اھل بیت کے ساتھ ان حضرت کی زندگی میں اور انکی رحلت کے بعد اور جو  کچھ اس سے گناہ کبیرہ اور حرام کام  سر زد ہوئے اس سے کم تر نہیں ہیں کہ جو خود قرآن کریم یا اس کے ایک صفحے کو گندگی اور نجاست میں ڈالے، اور میرے خیال میں جو کام یزید نے انجام دیئے ہیں وہ کسی بھی مسلمان پر مخفی اور پوشیدہ نہیں ہیں، اور اگر فرض بھی کریں کہ یزید خبیث، ایک مسلمان تھا تو وہ ایسا مسلمان تھا کہ جس نے اتنے حرام کام کئے ہیں کہ جن کو بیان نہیں کیا جا سکتا، اس وجہ سے میرا تو عقیدہ اس پر لعنت کرنے کا جائز ہونا ہے اور میرے خیال میں تو اتنے ظلم اور فسق کے ساتھ کوئی بھی یزید کی طرح نہیں ہو گا۔ ظاہر یہ ہے کہ اس نے مرتے دم تک توبہ نہیں کی اور اس کے توبہ کرنے کا احتمال، اس کے ایمان لانے کے احتمال سے بھی ضعیف تر ہے اور اس بات میں ابن زیاد اور ابن سعد اور بعض دوسرے بھی یزید کی طرح ہیں، پس خداوند ان سب پر اور سب کے پیروکاروں اور ان سب کی مدد کرنے والوں پر اور جو بھی ان سے محبت کرنے والا ہے، پر لعنت کرے اور یہ لعنت قیامت تک اور جب تک امام حسین پر گریہ ہوتا رہے گا، اس وقت تک یزید پر لعنت ہو۔ اور لعنت کے ان الفاظ کےساتھ جائز ہونے میں کسی نے بھی مخالفت نہیں کی، فقط اس کی ابن عربی مالکی نے مخالفت کی ہے کہ جس کا پہلے ہم نے ذکر کیا ہے...... کہ اس نے اور اس کی طرح بعض دوسروں نے کہا ہے کہ جو امام حسین کے قتل پر راضی ہو، اس پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ مجھے اپنی جان کی قسم یہ وہی گمراہی والا  اور حق سے دور عقیدہ ہے کہ ان لوگوں کی ضلالت اور گمراہی یزید کی ضلالت اور گمراہی سے بھی یقینی طور پر زیادہ ہے۔

تفسير آلوسي، ج 26، ص 74.

لعنت کے بارے میں آیات قرآنی:

1- إنّ الله لعن الكافرين وأعدّ لهم سعيرا۔

(سورہ احزاب64)

2- فنردها علي أدبارها أو نلعنهم كما لعنّا أصحاب السبت۔

(سورہ نساء38)

3- فبما نقضهم ميثاقهم لعنّاهم۔

(سورہ مائدة13)

4- وغضب الله عليه ولعنه وأعدّ له عذابا عظيما۔

(سورہ نساء93)

5- لعنه الله وقال لأتخذن من عبادك نصيبا مفروضا۔

(سورہ نساء118)

6- من لعنه الله وغضب عليه وجعل منهم القردة والخنازير و عبد الطاغوت۔

(سورہ مائدة60)

7- بل لعنهم الله بكفرهم۔

(سورہ بقرة88)

8- اولئك الذين لعنهم الله ومن يلعن الله فلن تجد له نصيرا۔

(سورہ نساء52)

9- ولكن لعنهم الله بكفرهم

(سورہ نساء 46)

10- وعد الله المنافقين والمنافقات... نار جهنم هي حسبهم ولعنهم الله۔

(سورہ توبة68)

11- إنّ الذين يؤذون الله و رسوله لعنهم الله في الدنيا والآخرة۔

(سورہ احزاب 57)

12- فهل عسيتم ان توليتم ان تفسدوا في الارض و تقطعوا ارحامكم اولئك الذين لعنهم الله فأصمهم وأعمي أبصارهم۔

(سورہ محمد22و23)

13- و يعذب الله المنافقين والمنافقات ... وغضب الله عليهم و لعنهم جهنم وسائت مصيرا۔

(سورہ فتح 6)

14- ملعونين اينما ثقفوا أخذوا وقتّلوا تقتيلا۔

(سورہ احزاب61)

15- إنّ الذين يكتمون ما أنزلنا من البينات والهدي من بعد ما بيّنّاه للناس في الكتاب اولئك يلعنهم الله ويلعنهم اللاعنون۔

(سورہ بقرة159)

16- لعن الذين كفروا من بني اسرائيل علي لسان داود وعيسي بن مريم۔

(سورہ مائدة78)

17- وقالت اليهود يد الله مغلولة علت أيديهم ولعنوا بما قالوا۔

(سورہ مائدة64)

18- إنّ الذين يرمون المحصنات الغافلات المؤمنات لعنوافي الدنيا والآخرة۔

(سورہ نور24)

19- فلما جاءهم ما عرفوا كفروا به فلعنة الله علي الكافرين۔

(سورہ بقرة89)

20- إنّ الذين كفروا وماتوا وهم كفار اولئك عليهم لعنة الله والملائكة والناس اجمعين۔

(سورہ بقرة161)

21- فأذّن مؤذّن بينهم أن لعنة الله علي الظالمين۔

(سورہ اعراف44)

22- ثمّ نبتهل فنجعل لعنة الله علي الكاذبين۔

(سورہ آل عمران 61)

23- اولئك جزائهم أنّ عليهم لعنة الله والملائكة والناس اجمعين۔

(سورہ آل عمران87)

24- ألا لعنة الله علي الظالمين۔

(سورہ هود18)

25- ويفسدون في الارض اولئك لهم اللعنة و لهم سوء الدار۔

(سورہ رعد13)

قرآن حضرت ابراہيم (ع) کے بارے میں کہتا ہے کہ:

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآَءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّي تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ۔

سوره ممتحنه آيه 4

یقینا تہمارے لیے ابراہیم اور جو ان کے ہمراہ ہیں اچھا عملی نمونہ ہیں۔ جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور خدا کے علاوہ جن کی تم عبادت کرتے ہو، بیزار ہیں۔ ہم ان کی نسبت کافر ہیں (یعنی ہم ان کی عبادت نہیں کرتے) ہمارے اور درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دشمنی اور کینہ ہے مگر یہ کہ تم خدا پر ایمان لے آؤ۔

ان آیات میں خداوند ابراہیم اور انکی قوم کی خدا کے دشمنوں سے بیزاری کا اظہار کرنے کی وجہ سے تعریف کر رہا ہے اور ان کو تمام مؤمنین کے لیے عملی نمونہ قرار دے رہا ہے۔

یزید پر لعنت کرنا کیوں منع ہے ؟

اس بارے میں ابن کثیر کے کلام کو دلیل کے طور پر لاتے ہیں کہ:

وہ روایات کہ جو رسول خدا سے اہل مدینہ کو ڈرانے اور ان کو آزار و اذيّت کرنے کے بارے میں نقل ہوئی ہیں، ان سے بعض علماء نے یزید پر لعنت کرنے کے جائز ہونے کا فتوی دیا ہے۔ ان علماء میں خلال، ابو بكر عبد العزيز، قاضى ابو يعلى اور ان کا بیٹا قاضى ابو الحسين ہیں۔ ابو الفرج ابن جوزى نے تو یزید پر لعنت کرنے کے بارے میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔

لیکن بعض دوسرے علماء نے یزید پر لعنت کرنے کو جائز قرار نہیں دیا اور یزید کے دفاع میں کتاب بھی لکھی ہے، آخر ایسا کیوں ہے ؟ «لئلاّ يجعل لعنه وسيلة إلى أبيه، أو أحد من الصحابة، و حملوا ما صدر عنه من سوء التصرّفات على أنّه تأوّل و أخطأ»

یزید پر سبّ اور لعنت نہیں کرنی چاہیے تا کہ یہ لعنت اس کے باپ معاویہ اور دوسرے صحابہ کی طرف نہ جا سکے اور جو اس سے شراب خواری اور زنا اور قتل و غارت جیسے حرام کام سر زد ہوئے ہیں، انھوں نے کہا ہے کہ یزید مجتہد تھا اس لیے اس نے ان کاموں کو غلطی سے انجام دیا ہے، نہ یہ کہ اس نے حرام کاموں کو انجام دیا ہو !!!

 البداية و النهاية، ج 8، ص 245.

اس کلام سے تمام صحابہ کی حمایت اور ان پر لعنت نہ کرنے کا سبب معلوم ہو جاتا ہے کیونکہ ان صحابہ میں بعض ایسے منافق بھی موجود تھے کہ جو اہل بیت کے سخت دشمن تھے اور ان کے بارے میں اپنے دلوں میں بغض اور کینہ رکھتے تھے۔

لھذا ان کا ہدف یہ ہے کہ لوگوں کو صرف یزید اور معاویہ میں مصروف رکھیں تا کہ وہ اہل بیت کے اصل دشمنوں تک اور حق تک نہ پہنچ سکیں۔

و قالوا: إنّه(يزيد) كان مع ذلك اماماً فاسقاً، و الامام إذا فسق لا يعزل بمجرّد فسقه على أصحّ قولي العلماء، بل، و لا يجوز الخروج عليه لما في ذلك من إثارة الفتنة، و وقع الهرج و سفك الدماء الحرام، و نهب الأموال، و فعل الفواحش مع النساء و غيرهن، و غير ذلك ممّا كان واحدة فيها من الفساد أضعاف فسقه كما جرى ممّا تقدّم إلى يومنا هذا.

یزید نے جو کام انجام دیئے جیسے واقعہ کربلاء، مدینہ میں واقعہ حرہ وغیرہ وغیرہ، ان کاموں سے یزید کا فاسق ہونا ثابت ہو جاتا ہے نہ اس کا کافر اور مرتد ہونا، اور جو امام اور خلیفہ فاسق ہو جائے تو اس کو خلافت اور حکومت سے معزول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے معاشرے میں فتنہ اور فساد ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

البداية و النهاية، ج 8، ص 245.

یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ جو حکومت بھی اسلام کے نام پر وجود میں آئے اور وہ جو جرم اور جنایت کرتی رہے لوگوں کو اس کے خلاف اعتراض اور احتجاج کا کوئی حق نہیں ہے، البتہ ان کی اس حکومت سے مراد فقط وہ حکومت ہے جو سقیفہ کے پلیٹ فارم سے یا اسی فکر اور ہدف کے ساتھ وجود میں آئی ہو، ذہبی کہتا ہے کہ:

كان (يزيد) ناصبيّاً فظّاً غليظاً جلفاً، يتناول المسكر و يفعل المنكر، افتتح دولته بقتل الحسين، و ختمها بوقعة الحرّة.

یزید ایک ناصبی، بد اخلاق، بے ادب، کم عقل، شراب خوار اور حرام کام انجام دینے والا شخص تھا کہ جس نے اپنی حکومت کا آغاز امام حسین کے قتل سے کیا اور واقعہ حرہ سے حکومت کا اختتام کیا۔

سير أعلام النبلاء، ذهبي، ج 4، ص 37.

ابن کثیر کے کلام کو واضح طور پر بہتر سمجھنے کے لیے ہم یزید کے کردار کو دوبارہ بیان کرتے ہیں:

یزید کا نوجوانی سے شراب پینا:

ابن كثير اور دوسروں نے اس روایت کو ذکر کیا ہے کہ:

كان يزيد بن معاوية في حداثته صاحب شرب.

یزید نوجوانی سے ہی  شراب کا دوست اور عاشق مشہور تھا۔

البداية و النهاية، ج 8، ص228 

 تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 65، ص 403

یزید کا مدینہ منورہ میں سب کے سامنے سر عام شراب پینا:

عمر بن شيبة قال: لمّا حجّ الناس في خلافة معاوية جلس يزيد بالمدينة على شراب، فاستأذن عليه ابن عبّاس و الحسين بن عليّ، فأمر بشرابه فرفع.

معاویہ کی خلافت کے دور میں اور سفر حج میں، شہر مدینہ میں و رسول خدا کے حرم اور گھر کے نزدیک بھی اس نے اسلامی احکام کا مذاق اڑانا نہ چھوڑا اور سب لوگوں  کے سامنے اس نے شراب پینا شروع کی لیکن جب اسے بتایا گیا کہ ابن عباس اور حسین ابن علی آ رہے ہیں تو اس نے شراب پینا بند کر دیا۔

تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر، ج 65، ص 406.

یزید شراب کا اتنا عاشق اور عادی تھا کہ جب دوسرے شہروں سے بزرگان وفد کی صورت میں اسے ملنے آتے تو یہ تخت پر بیٹھ کر ان سب کے سامنے بھی شراب پیتا تھا۔

کتب تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ:

بعث (عثمان بن محمّد بن أبي سفيان، والي مدينة) إلى يزيد منها وفداً فيهم عبد اللّه بن حنظلة الغسيل الأنصاري، و عبد اللّه بن أبي عمرو بن حفص بن المغيرة الحضرمي، و المنذر بن الزبير، و رجال كثير من أشراف أهل المدينة، فقدموا على يزيد، فأكرمهم و أحسن إليهم، و عظّم جوائزهم، ثمّ انصرفوا راجعين إلى المدينة، إلاّ المنذر بن الزبير، فإنّه سار إلى صاحبه عبيد اللّه بن زياد بالبصرة، و كان يزيد قد أجازه بمائة ألف نظير أصحابه من أولئك الوفد، و لمّا رجع وفد المدينة إليها، أظهروا شتم يزيد، و عيبه، وقالوا: قدمنا من عند رجل ليس له دين، يشرب الخمر، و تعزف عنده القينات بالمعازف.

وإنّا نشهدكم أنّا قد خلعناه، فتابعهم الناس على خلعه، وبايعوا عبد اللّه بن حنظلة الغسيل على الموت. 

کچھ بزرگان اور صحابہ کا ایک وفد کہ ان میں جنگ احد میں شہید ہونے والے عبد اللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ کا بیٹا تھا، یزید سے بعنوان حاکم اسلامی ملنے کے لیے شام میں آئے۔ جب وہ یزید کے دربار میں گئے تو یزید نے ان کا بہت احترام کیا اور ملاقات کے بعد واپس جاتے ہوئے ان سب کو بہت تحفے اور ھدیئے دے کر روانہ کیا لیکن انھوں نے پھر بھی مدینہ کے لوگوں کو یزید کی حقیقت کے بارے میں سب کچھ بتا دیا، انھوں نے کہا کہ ہم ایسے بندے سے مل کر آ رہے ہیں کہ جو بے دین ہے، شراب پیتا ہے، ساز و آواز اس کے دربار میں بجایا اور رقص کیا جاتا ہے تم مدینہ کے سب لوگ گواہ رہو کہ ہم اس کو خلافت سے عزل کرتے ہیں۔ لوگوں نے بھی بزرگان مدینہ کی اس کام میں اطاعت اور حمایت کی اور عبد اللہ بن حنظلہ کی بیعت پر سب جمع ہو گئے۔ 

البداية و النهاية، ج 8، ص 235 و 236 

الكامل، ابن أثير، ج 4، ص103 

 تاريخ طبرى، ج 7، ص4.

یزید شراب کا اتنا دلدادہ تھا کہ حکم دیا کرتا تھا کہ اس کے لیے دربار میں بہترین قسم کی شراب کو لایا جائے۔

ذہبی نے زیاد حارثی سے نقل کیا ہے کہ:

سقانى يزيد شراباً ما ذقت مثله، فقلت: يا أمير المؤمنين لم أُسلسل مثل هذا، قال: هذا رمّان حُلوان، بعسل اصبهان، بسكّر الأهواز، بزبيب الطائف، بماء بَرَدى.

یزید نے مجھے ایسی شراب پلائی ہے کہ آج تک میں نے ویسی شراب نہیں پی تھی۔ میں نے یزید سے کہا کہ میں نے آج تک ایسی شراب نہیں پی۔ یزید نے کہا: شہر حلوان کے انار، شہر اصفہان کی شھد، شہر اہواز کی شکر، شہر طائف کی کشمش اور بردی کے پانی سے یہ شراب خاص طور پر تیار کی گئی ہے۔

سير أعلام النبلاء، ج 4، ص37.

مذاہب اسلامی میں شراب پینے والے کے بارے میں فقہی اور شرعی حکم:

تمام مذاہب اسلامی نے آیات قرآن کی روشنی میں ہر قسم کی نشہ آور چیز کو نجس اور حرام قرار دیا ہے اور شراب خوار کو فاسق اور جو بھی شراب کو حلال کہے اس کو کافر قرار دیا ہے۔

محى الدين نووى اپنی کتاب روضة الطالبين میں شراب خوار کی حدّ کے بارے میں کہتا ہے کہ:

شرب الخمر من كبائر المحرّمات....و يفسق شاربه، و يلزمه الحدّ، و من استحلّه كفر...

ابن نجیم مصری نے شراب خواری کو گناہ کبیرہ، شراب خوار کو فاسق، شراب پینے والے پر حد کے جاری کرنے کا کہا ہے اور جو بھی شراب کو حلال کہے اس کو کافر کہا ہے۔

 روضة الطالبين، ج 7، ص374.

يكفّر مستحلّها، و سقوط العدالة إنّما هو سبب شربها.

جو شراب کو حلال کہے وہ کافر ہے اور شراب پینے سے انسان کی عدالت ساقط(ختم) ہو جاتی ہے۔

 البحر الرائق، ج 7، ص 147.

کیا معاویہ کا بیٹا یزید شراب خوار ہونے کے با وجود رسول خدا(ص) کا جانشین اور خلیفہ اسلامی بننے کے قابل تھا ؟

کیا اس کا صفت عدالت سے دور ہونا اور سر عام شراب پینا اس کے فاسق ہونے کے لیے کافی نہیں ہے ؟؟؟

یزید بے نمازی، شراب خوار ، ماں، بہن اور بیٹی سے زنا کرنے والا تھا:

عبدالله ابن حنظلہ غسيل الملائكہ نے یزید سے ملاقات کے بعد اس کے بارے میں یہ کہا ہے:

يا قوم! فو اللّه ما خرجنا على يزيد حتّى خفنا أن نرمي بالحجارة من السماء، أنّه رجل ينكح أمهات الأولاد، و البنات، و الأخوات، و يشرب الخمر، و يدع الصلاة.

خدا کی قسم جب میں یزید سے ملاقات کر کے اس کے دربار سے باہر آیا تو مجھے یہ خوف ہونے لگا کہ مجھ پر آسمان سے پتھر ہی برسنا شروع نہ ہو جائیں، کیونکہ یزید ماں، بیٹی، بہن سے زنا کرتا ہے، شراب پیتا ہے اور نماز کو بھی ترک کرتا ہے۔

الطبقات الكبري، ابن سعد، ج 5، ص 66 

 تاريخ مدينه دمشق، ج 27، ص 429 

الكامل، ج 3، ص310 

تاريخ الخلفاء، ص 165

یزید شراب خوار، بندر سے کھیلنے والا اور لواط کروانے والا تھا:

جاحظ عالم اہل سنت کہتا ہے کہ:

ثم ولى يزيد بن معاوية يزيد الخمور و يزيد القرود و يزيد الفهود الفاسق في بطنه المأبون في فرجه... و اما بنو أمية ففرقه ضلالة و بطشهم بطش جبرية يأخذون بالظنة و يقضون بالهوى و يقتلون على الغضب۔

اس کے بعد یزید ابن معاویہ خلیفہ بنا کہ وہ بہت زیادہ شراب پینے والا، بندروں سے زیادہ کھیلنے والا، فاسق انسان کہ جو دوسروں سے لواط کرواتا تھا اور بنی امیہ گمراہ فرقہ تھا کہ جنکی حکومت کا طریقہ جابرانہ اور متکبرانہ تھا، جس پر تھوڑا سا بھی شک و گمان ہو جاتا اس کو گرفتار کر لیتے پھر اس کے خلاف خود فتوی دے کر اس کو بے دردی سے غضب اور غصّے کی حالت میں قتل کر دیتے تھے۔

البيان و التبيين، جاحظ، ج 1، ص 276.

يزید شراب خوار، فاسق و فاجر، زانی، بندروں اور کتوں سے کھیلنے والا اور آوارہ گرد تھا:

اسی طرح بلاذری نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ:

قال الواقدي و غيره في روايتهم: لما قتل عبد الله بن الزبير أخاه عمرو بن الزبير خطب الناس فذكر يزيد بن معاوية فقال: يزيد الخمور، و يزيد الفجور، و يزيد الفهور و يزيد القرود، و يزيد الكلاب، و يزيد النشوات، و يزيد الفلوات، ثم دعا الناس إلى اظهار خلعه و جهاده، و كتب على أهل المدينة بذلک۔

واقدی اور اس کے علاوہ دوسروں نے کہا ہے کہ: جب عبد اللہ ابن زبیر قتل ہوا تو اس کے بھائی عمرو ابن زبیر نے لوگوں کے لیے خطبہ پڑھا اور اس میں یزید ابن معاویہ کے بارے میں اس طرح بیان کیا:

یزید شراب خوار، فاجر، ہوس باز، بہت زنا کرنے والا، بندروں اور کتوں سے کھیلنے والا، صحرا اور بیابانوں میں آوارہ گردی کرنے والا تھا، پھر لوگوں سے چاہا کہ اس کو خلافت سے عزل کر دیں اور مدینہ کے لوگوں کو اس کے خلاف جھاد کرنے کا حکم دیا۔

انساب الاشراف، بلاذری، ج 2، ص 191.

یزید کے لواط کروانے کے بارے میں جو لوگ حاضر ہیں، وہ ان لوگوں کو کہ جو غائب ہیں، خبر دیں:

ذہبی اور بعض دوسرے اہل سنت کے علماء نے یزید کے بارے میں ایسے بیان کیا ہے:

خطبهم عبد الملك بمكة لما حج، فحدث أبو عاصم، عن ابن جريج، عن أبيه قال: خطبنا عبد الملك بن مروان بمكة، ثم قال: اما بعد، فإنه كان من قبلي من الخلفاء يأكلون من هذا المال و يؤكلون، و إني و الله لا أداوي أدواء هذه الأمة إلا بالسيف، و لست بالخليفة المستضعف يعني عثمان و لا الخليفة المداهن يعني معاوية و لا الخليفة المأبون يعني يزيد و إنما نحتمل لكم ما لم يكن عقد راية. أو وثوب على منبر، هذا عمرو بن سعيد حقه حقه و قرابته قرابته، قال برأسه هكذا، فقلنا بسيفنا هكذا، ألا فليبلغ الشاهد الغائب.

عبد الملک نے مکہ میں حج کے موقع پر لوگوں کے لیے خطبہ پڑھا اور اس میں اس طرح کہا کہ:

امّا بعد، اے لوگو ! مجھ سے پہلے جو خلیفہ اور حاکم گزرے ہیں انھوں نے لوگوں کے مال کو خود کھایا اور دوسروں کو بھی دیا کہ وہ بھی کھائیں۔ خدا کی قسم! میں شمشیر کے ذریعے سے اس امت کی مشکلات کو حل کروں گا۔ میں عثمان کی طرح کمزور خلیفہ نہیں ہوں، میں معاویہ کی طرح نرمی و سستی کرنے والا بھی نہیں ہوں اور میں لواط کروانے والے خلیفہ یزید کی طرح بھی نہیں ہوں۔ میں اس وقت تک تم لوگوں کو برداشت کروں گا کہ تم میری حکومت اور خلافت کے لیے خطرہ نہ بنو۔ ہم نے عمرو بن سعيد کے ساتھ بہت قرابت اور اس کا ہم پر حق ہونے کے با وجود، اس طرح کیا ہے۔ اس نے اپنے سر کے ساتھ ایسا کیا اور ہم نے اپنی شمشیر کے ساتھ ایسا کیا۔ اس خبر کو جو لوگ حاضر ہیں، ان تک پہنچا دیں کہ جو لوگ غائب ہیں۔

تاريخ الاسلام، ذهبی، ج 5، ص 325

 تاريخ مدينة دمشق، ج 37، ص 135

 البيان والتبيين، جاحظ، ج 1، ص 334.

 يزيد ناصبی تھا:

ذہبی نے يزيد کو ناصبى يعنی اہل بيت (ع) کا دشمن کہا ہے اور اس کے بارے میں اس طرح کہا ہے کہ:

و كان ناصبيا فظا غليظا جلفا يتناول المسكر و يفعل المنكر۔

یزید ایک ناصبی، بد اخلاق، بے ادب، کم عقل، شراب خوار اور حرام کام انجام دینے والا شخص تھا۔

سير أعلام النبلاء، ج 4، ص37.

یزید نماز نہیں پڑھتا تھا:

نماز دین اسلام میں ایمان اور خدا پرستی کی ایسی علامت ہے کہ اس کے بغیر انسان کا اسلام و ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ نماز عبادت و بندگی کی معراج ہے کہ جو انسان کو عبودیت کی بلندیوں پر لے جاتی ہے۔ جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ حقیقی طور پر مسلمان کہلانے کے قابل نہیں ہے۔

یزید نہ فقط احکام شرعی و شراب کے بارے میں لا پروا اور بے پروا تھا بلکہ مہم ترین علامت مسلمانی و بندگی یعنی نماز کے بارے میں بھی لا پرواہی اور سستی کرتا تھا۔ 

کتب میں ہے کہ وہ کبھی نماز پڑھتا تھا اور کبھی نہیں پڑھتا تھا یعنی نماز کو بالکل اہمیت نہیں دیتا تھا۔ اگر پڑھتا بھی ہو گا تو ایک فاسق، فاجر، زانی، لواط کروانے والے اور شراب خوار انسان کی نماز کیا ہو گی اور وہ کیسے پڑھتا ہو گا ؟ یہ ایسی بات ہے کہ یزید کو رسول خدا خلیفہ اور جانشین کہنے والے لازمی طور پر جواب دیں!!!

و قد كان يزيد... فيه أيضاً إقبال على الشهوات، و ترك بعض الصلاة في بعض الأوقات.

یزید شہوات کی طرف زیادہ توجہ کرتا تھا اور بعض اوقات نماز کو بھی ترک کرتا تھا۔

البداية و النهاية، ابن كثير، ج 8، ص 252.

یزید ایسا بندہ تھا کہ جسکی تربیت ہی لعب و لھو کے ماحول میں ہوئی تھی۔ اس وجہ سے اتنی آسانی سے اپنے آپ کو شھوات اور حرام کاموں سے دور نہیں رکھ سکتا تھا بلکہ وہ ہر غیر شرعی اور حرام کام کا بڑی خوشی سے استقبال کرتا اور اس کو انجام دیتا تھا۔ اسی وجہ سے تو وہ احکام شرعی اور خاص طور پر نماز کو اہمیت نہیں دیتا تھا۔ رسول خدا نے تارک نماز کے بارے میں فرمایا ہے کہ:

سلّموا على اليهود و النصارى و لاتسلّموا على يهود أمّتي، قيل: و من يهود أمّتك قال: تارك الصلاة. 

یھودیوں اور مسیحیوں پر سلام کرو لیکن میری امت کے یھودیوں پر سلام نہ کرو، آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کی امت کے یھودی کون ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ: جو بھی میری امت میں سے نماز کو ترک کرتا ہو۔

 كشف الخفاء، ج 1، ص 455، نمبر 1484.

لا پرواہی فقط رسول خدا کا خلیفہ ہونے کے عنوان سے:

یزید کی عیاشیاں اور بے پرواہیاں اور وہ بھی خلیفہ رسول اللہ کے نام سے اور رسول خدا کی مسند و جگہ پر بیٹھ کر، باعث بنی کہ مدینہ منورہ کے لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، کہ اس بات کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔ 

یزید کا فسق و فجور اس قدر زیادہ اور واضح تھا کہ مدینے کے بزرگوں کا ایک وفد کہ جو یزید سے ملنے شام گیا تھا، یزید کے ان کو قیمتی تحفے اور ھدیئے دینے کے با وجود بھی وہ یزید کے فسق و فجور کو بیان کیے بغیر نہ رہ سکے۔ 

منذر بن زبیر کہ جس نے یزید سے ایک لاکھ درہم لیے تھے اس نے مدینہ کے لوگوں سے کہا کہ:

إنّ يزيد و اللّه لقد أجازني بمائة ألف درهم و إنّه لايمنعني ما صنع إليّ أن أخبركم خبره و أصدّقكم عنه، و اللّه إنّه ليشرب الخمر، و أنّه ليسكر حتّى يدع الصلاة. و عابه بمثل ما عابه به أصحابه الذين كانوا معه و أشدّ. 

یزید نے اگرچے مجھے ایک لاکھ درہم ھدیئے کے طور پر دیئے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں حق کو بیان نہ کروں۔ خدا کی قسم یزید شراب پیتا ہے اور اتنا نشے میں مست ہوتا ہے کہ نماز کو بھی ترک کرتا ہے۔ پھر منذر کے بعد ایک ایک کر کے سب نے اس سے بھی شدید تر یزید کی برایئوں کو بیان کیا اور اس کی مذمت کی۔

تاريخ طبری، ج 4، ص 369 

      تاريخ ابن اثير، ج 4، ص40 و 41 

      تاريخ ابن كثير، ج 8، ص216 

      العقد الفريد، ج 4، ص 388.

انہی میں سے ایک بندے نے کہا کہ:

قال عبد الله بن أبي عمرو بن حفص بن المغيرة المخزومي... إنّي لأقول هذا و قد وصلني و أحسن جائزتي، و لكنّ عدوّ اللّه سِكّير خِمّير

قیمتی تحفے لینا مجھے حق کے بیان کرنے سے منع نہیں کر سکتے۔ میں نے یزید کو خدا کا ایسا دشمن دیکھا ہے کہ جو ہمیشہ نشے میں مست رہتا ہے۔

الأغانی، ج 1، ص34.

یزید کی اخلاقی پستی کہ جو کتب خود اہل سنت میں بیان ہوئی ہے، کی طرف توجہ کرتے ہوئے کیا یزید یا اس جیسا کوئی بھی بندہ رسول خدا کا خلیفہ اور جانشین بننے کے قابل ہے ؟

 یزید کے چاہنے والے اور اس کی پیروی کرنے والے ہر طرح سے ممکن کوشش کرتے ہیں کہ یزید سے ہونے والے ان شریعت اسلامی کے خلاف اور حرام کاموں کو ردّ کریں یا کسی بھی طریقے سے ان کاموں کی نسبت یزید کی طرف نہ دیں۔

یزید کا فاسق و فاجر ہونا تاریخ میں اتنا واضح ہے کہ ان متعصّب اور نا انصاف لوگوں کی کوششیں اور غلط تاویلات اس کے آلودہ و ناپاک دامن کو پاک و صاف نہیں کر سکتیں۔

 فصل پنجم: امام حسين (ع) کا قاتل کون ہے ؟ !!!

تمام دلائل اور عبارات کہ جو اب تک بیان کیے جا چکے ہیں، ان سے روز روشن کی واضح ہو جاتا ہے کہ امام حسین(ع) کا قاتل کون ہے، لیکن پھر بھی بعض افراد اپنی سایٹ، کتابوں اور اپنے پروگراموں میں صرف عام لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے بار بار کہتے ہیں کہ کتاب الارشاد شیخ مفید میں آیا ہے کہ امام حسین نے شیعوں کو اپنا قاتل کہا ہے اس لیے امام حسین کو یزید نے نہیں بلکہ شیعوں نے قتل کیا ہے.

اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بارے میں تھوڑی تفصیل بیان کی جائے۔

بنی امیہ کے پیروکار بنی امیہ کے دور سے لے کر آج تک کوشش کر رہے ہیں کہ امام حسین(ع) کے عظیم انقلاب کو ایک طرح کی حکومت کے خلاف بغاوت، فتنہ، فساد اور امت اسلامی میں تفرقہ کے ناموں سے دنیا کے لوگوں کو بتائیں حتی امام حسین کے قتل ہونے میں کہتے ہیں کہ یزید بے گناہ ہے اور سارا قصور امام حسین کا ہے، اس بارے میں رسول خدا(ص) سے جھوٹی اور جعلی روایات بھی لاتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا ہے کہ جو بھی امت اسلامی میں تفرقہ اور اختلاف ایجاد کرے، اس کو قتل کر دو اور کہتے ہیں کہ : «ان يزيد قتل الحسين بسيف جده» حسین اپنے نانا کی شمشیر سے قتل کیا گیا ہے۔

یا بعض شیعہ علماء کی کتب سے اپنی ناقص اور غلط سوچ کے مطابق یہ سمجھتے ہیں کہ کوفہ کے لوگ کیونکہ شیعہ تھے اور انھوں نے امام حسین کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی پس شیعوں نے ہی امام حسین(ع) کو قتل کیا ہے۔ 

چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:

امام حسين (ع) کی بد دعا کے مخاطب کون لوگ ہیں؟

احمد الكاتب اور بعض اسکے ہمفکروں نے کہا ہے کہ: امام حسین نے شیعوں کو بد دعا دیتے ہوئے اس طرح کہا ہے کہ:

اللهم إن مَتَّعْتَهم إلى حين فَفَرِّقْهم فِرَقاً، و اجعلهم طرائق قِدَداً، و لا تُرْضِ الوُلاةَ عنهم أبداً، فإنهم دَعَوْنا لِينصرونا، ثم عَدَوا علينا فقتلونا.

خدایا اس گروہ کو بہت کم وقت کے لیے دنیا میں زندہ رکھنا، ان میں اختلاف ایجاد کر کہ ان کو گروہوں میں تقسیم کر دے اور کبھی بھی حاکموں کو ان سے راضی نہ کرنا کیونکہ انھوں نے ہمیں دعوت دی اور کہا کہ ہماری مدد کریں گے لیکن انھوں نے ہم سے دشمنی کر کے ہمیں قتل کر دیا۔

 الإرشاد، شيخ مفيد، ج 2، ص 110۔

امام حسين (ع) کا اپنے نانا کی شمشير سے قتل ہونا:

      ابن العربى (قاضى ابوبكر محمد بن عبد اللَّه ابن العربی المالكى متوفی 543 ه. ق.) صاحب كتاب «العواصم من القواصم»کہ یہ بنی امیہ سے محبت کرنے اور اہل بیت سے دشمنی اور بغض رکھنے میں اپنے زمانے میں مشہور تھا، اس نے امام حسین کے قتل سے یزید کے دامن کو پاک اور صاف کرنے کے لیے کہا ہے کہ:

«انّ يزيد قتل الحسين بسيف جده»

یزید نے حسین کو اس کے نانا کی شمشیر سے قتل کیا ہے۔

المناوى، محمد بن عبد اللَّه، فيض القدير شرح الجامع الصغير، تحقيق احمد عبد السلام، ج: 1 ص: 265، دارالكتب العلمية، بيروت خلاصة  عبقات الانوار، مير سيد حامد حسين النقوى، تلخيص الميلانى، ج: 4 ص 237 و 238، مؤسسة البعثة قم

جس طرح کہ ہم نے پہلے کہا کہ ابن حجر ہيثمي، محمد كرد علی، تقي الدين ابن الصلاح، غزالی، ابن العربی اور ابن تيميہ و غيره کہ جو آج موجودہ ان کے ہمفکران کے آباء اور اجداد شمار ہوتے ہیں، کہ جہنوں نے ان شبھات کو ایجاد کیا تھا۔

 الفتاوى الحديثية، ص193.

رساله ابن تيمية: ص 14 و 15 و 17، 

كتاب العواصم من القواصم ابن العربي ص 232 و233

إحياء علوم الدين از غزالي، ج 3، ص 125

الاتحاف بحب الأشراف، ص67 و 68 

الصواعق المحرقة، ابن حجر، ص 221 

خطط الشام، ج 1، ص 145 

قيد الشريد، ص 57 و 59.

يزيد کی مخالفت  !!!  

محمد الخضری نے کہا ہے کہ:

الحسين أخطأ خطأ عظيماً في خروجه هذا الذي جر على الأمة وبال الفرقة، و زعزع ألفتها إلى يومنا هذا... 

حسین نے جو حکومت کے خلاف قیام کیا تھا اسی کی وجہ سے رسول خدا کی امت ایسے اختلاف اور تفرقے کا شکار ہوئی ہے کہ آج تک امت میں محبت اور الفت برقرار نہیں ہو سکی، لہذا حسین نے ایسا کام کر کے بہت بڑی خطا کی ہے.

محاضرات في تاريخ الأمم الإسلامية، ج 2، ص 129.

شام کے مفتی محمد أبو اليسر عابدين نے اس طرح کہا ہے کہ:

بيعة يزيد شرعية، و من خرج عليه كان باغياً.

یزید کی بیعت شرعی طور پر ٹھیک تھی اور جو بھی اس کے خلاف قیام کرے تو وہ باغی اور سر کش شمار ہو گا۔

اغاليط المؤرخين، ص 120.

يزيد مجتہد اور امام !!!

ابو الخير شافعی قزوينی نے یزید کے کاموں کے بارے میں ایسے کہا ہے کہ: «إماماً مجتهداً»

یزید عام بندہ نہیں تھا بلکہ وہ امام اور مجتہد تھا۔

تراجم رجال القرنين السادس و السابع، ص 6.

بلکہ اس سے بھی بالا تر کہ بعض نے دعوی کیا ہے کہ یزید صحابہ، خلفائے راشدین یا انبیاء میں سے تھا۔

منهاج السنة، ابن تيمية، ج 4، ص 549 کے بعد ....

جواب:

اس طرح کے افراد کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ:

الف: بہت سے صحابہ کی گواہی کے مطابق یزید کی خلاف غیر شرعی تھی:

جب امام حسین کہ جو رسول خدا کے نواسے، سب سے شجاع اور عالم صحابی یا دوسرے صحابہ کہ جو یزید کے زمانے میں ہی موجود تھے کہ جو امت کے لیے اہل حل و عقد تھے تو یزید جیسے کی خلافت خود بخود باطل و غیر شرعی ہو جاتی ہے، اس کے لیے کسی دلیل یا استدلال کی ضرورت نہیں ہے، ان تمام صحابہ نے ہی یزید کو شراب خوار، فاسق،فاجر اور زنا کرنے والا کہا ہے، اس کے با وجود اسکی خلافت اور حکومت کو غیر شرعی اور ناجائز کہیں یا نہ کہیں،وہ خود بخود غیر شرعی اور نا جائز ہے، جب ایسا ہے تو امام حسین(ع) کا قیام شرعی اور جائز ہو جائے گا اور اس کے با وجود بھی امام حسین کو باغی، فتنہ فساد کرنے والا کہنا یہ انصاف سے تو کیا انسانیت سے بھی دور ہو گا۔

اس تفصیل کے ساتھ یزید کی خلافت جڑ اور بنیاد سے ہی باطل اور ناجائز ہو جاتی ہے اور امام حسین(ع) کا قیام شرعی اور انسانی اور اسلامی ہو جائے گا۔

ب ـ امام حسين (ع) کو قتل کرنے کے لیے یزید کا حکم صادر کرنا:

یزید کے لیے امام حسین کا قاتل ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ خود اٹھ کر اپنے ہاتھوں سے کربلاء جا کر امام کو قتل کرے بلکہ جب ایک حاکم کے نیچے کام کرنے والے اس کے وزراء وغیرہ جب ہر کام کے انجام دینے میں حاکم کے حکم کے تابع ہوتے ہیں تو ان کے سب کاموں کی اور سب کی کامیابی اور ناکامی اس حاکم کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ یزید کے امام حسین(ع) کے قاتل ہونے میں بھی ایسے ہی ہے۔

آسان عبارت کے ساتھ کہ: يزيد بن معاويہ قاتل امام حسين (ع) ہے لیکن ابن زياد، شمر اور عمر بن سعد کی تلوار کے ساتھ یعنی تلوار وہ چلا رہے تھے لیکن حکم یزید کا تھا۔

ذہبی لکھتا ہے کہ:

خرج الحسين إلي الكوفة، فكتب يزيد إلي و اليه بالعراق عبيد الله بن زياد: إن حسينا صائر إلي الكوفة، و قد ابتلي به زمانك من بين الأزمان، و بلدك من بين البلدان، و أنت من بين العمال، و عندها تعتق أو تعود عبدا. فقتله ابن زياد و بعث برأسه إليه.

امام حسین(ع) نے جب کوفے کی طرف حرکت کی تو یزید نے عراق کے والی عبيد الله بن زياد کو لکھا کہ حسین کوفے کی طرف جا رہا ہے اس نے دوسرے شہروں کی بجائے آنے کے لیے تمہارے شہر کو انتخاب کیا ہے تم میرے قابل اعتماد بندے ہو پس تم خود فیصلہ کرو کہ تم نے آزاد رہ کر زندگی گزارنی ہے یا میرا غلام بن کر، اس پر ابن زیاد نے حسین کو قتل کیا اور ان کے سر کو یزید کے لیے بھیجا۔

شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي الوفاة: 748هـ ، تاريخ الإسلام  ج 5 ص 10 دار النشر : دار الكتاب العربي - الطبعة : الأولى ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمرى

محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي أبو عبد الله الوفاة: 748 ، سير أعلام النبلاء  ج 3   ص 305 دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - التاسعة ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي 

یہی مطلب ابن عساکر سے بھی نقل ہوا ہے کہ:

تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 

حاشيه بغية الطالب، ج 6، نمبر 2614.

 سيوطی نے بھی لکھا ہے کہ:

فكتب يزيد إلي و اليه بالعراق، عبيد الله بن زياد بقتاله.

يزيد نے عبيد الله بن زياد کہ جو عراق کا والی تھا، اس کو امام حسین(ع) کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا۔

تاريخ الخلفاء، ص 193، چاپ دار الفكر سال 1394 هـ. بيروت.

ابن زياد نے مسافر بن شريح يشكری کو لکھا کہ:

أما  قتلي الحسين، فإنه أشار علي يزيد بقتله أو قتلي، فاخترت قتله.

میں نے حسین کو اس لیے قتل کیا ہے کہ مجھے حسین کے قتل کرنے یا اپنے قتل ہونے کے درمیان اختیار دیا گیا تھا اور میں نے ان دونوں میں سے حسین کے قتل کرنے کو انتخاب کیا۔

الكامل في التاريخ، ج 3، ص 324.

ابن زياد نے امام حسين(ع) کو خط لکھا کہ:

قد بلغني نزولك كربلاء، و قد كتب إلي أمير المؤمنين يزيد: أن لا أتوسد الوثير، و لا أشبع من الخمير، أو ألحقك باللطيف الخبير، أو تنزل علي حكمي، و حكم يزيد، والسلام.

مجھے خبر ملی ہے کہ تم کربلاء میں پہنچ گئے ہو اور یزید نے مجھے کہا ہے کہ بستر پر آرام سے نہ سوؤں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں مگر یہ کہ یا تم کو خدا کے پاس بھیج دوں یا تم کو یزید کی بیعت کرنے پر راضی کروں۔ والسلام۔

بحار الأنوار، علامه مجلسي، ج 44، ص 383

 مقتل العوالم، ص 243

الفتوح، ابن أعثم، ج 3 و ج 5، ص 85.

يعقوبی کہتا ہے کہ یزید نے ابن زیاد کو خط لکھا کہ:

قد بلغني: أن أهل الكوفة قد كتبوا إلي الحسين في القدوم عليهم، و أنه قد خرج من مكة متوجهاً نحوهم، و قد بلي به بلدك من بين البلدان، و أيامك من بين الأيام، فإن قتلته، و إلا رجعت إلي نسبك و أبيك عبيد، فاحذر أن يفوت.

مجھے خبر ملی ہے کہ کوفہ والوں نے حسین کو خط لکھے ہیں اور اس کو کوفے بلایا ہے اور وہ مکہ سے کوفہ جانے کے لیے چل پڑا ہے اس نے دوسرے شہروں کی بجائے آنے کے لیے تمہارے شہر کو انتخاب کیا ہے۔ اگر تم نے حسین کو قتل کیا تو ٹھیک ہے ورنہ باپ کی طرح میرے غلام بننے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ پس اس فرصت کو ضائع نہ کرو۔

تاريخ يعقوبي، ج 2، ص 242، چاپ صادر. كتاب الفتوح.

ایک دوسری جگہ ذکر ہوا ہے کہ:

إن يزيد قد أنفذ عمرو بن سعيد بن العاص في عسكر علي الحاج، و ولاه أمر الموسم، و أوصاه بالفتک بالإمام الحسين عليه السلام، أينما وجد.

يزيد نے عمرو بن سعيد بن عاص کو حاجیوں کے ایک لشکر کا سالار بنایا تا کہ وہ حج کے اعمال میں ان کی سر پرستی کرے اور اس سے کہا کہ جہاں بھی حسین کو دیکھو اس پر حملہ کر کے اس کو قتل کر دینا۔

المنتخب، طريحي، ج 3، ص 304، الليلة العاشرة. 

بعض تاریخ کی کتب میں آیا ہے کہ یزید نے وليد بن عتبہ کو لکھا کہ:

خذ الحسين و عبد الله بن عمر، و عبد الرحمان بن أبي بكر، و عبد الله بن الزبير بالبيعة أخذاً شديداً، و من أبی فاضرب عنقه، و ابعث إلی برأسه.

حسين ، عبد الله بن عمر ، عبد الرحمان بن أبو بكر اور عبد الله بن زبير سے بیعت لینے کے لیے ان پر سختی کرو اور جو بھی انکار کرے اس کے سر کو قلم کر کے مجھے بھیج دو۔

مقتل الحسين خوارزمي، ج 1، ص 178 و 180

مناقب آل أبي طالب، ج 4، ص 88 چاپ، قم ـ إيران

الفتوح، ابن أعثم، ج 5، ص 10.

يعقوبی نے لکھا ہے کہ:

إذا أتاك كتابي، فاحضر الحسين بن علي، و عبد الله بن الزبير، فخذهما بالبيعة، فإن امتنعا فاضرب أعناقهما، و ابعث إليّ برأسيهما، و خذ الناس بالبيعة، فمن امتنع فانفذ فيه الحكم و في الحسين بن علي و عبد الله بن الزبير۔ والسلام.

جونہی میرا خط تمہیں ملے حسين بن علی و عبد الله بن زبير کو اپنے پاس بلاؤ اور ان سے بیعت کا مطالبہ کرو اور جو بھی انکار کرے اس کے سر کو قلم کر کے میرے لیے بھیج دو، پھر تمام لوگوں سے بھی بیعت لو اور جو بھی بیعت سے انکار کرے اسی حکم کو اس اور حسين بن علی و عبد الله بن زبير کے بارے میں بھی عملی کرو ۔ والسلام۔

تاريخ يعقوبي، ج 2، ص 241.

یزید نے اپنے والی کو مدینے میں لکھا کہ:

و عجل علي بجوابه، و بين لي في كتابك كل من في طاعتي، أو خرج عنها، و ليكن مع الجواب رأس الحسين بنعلي.

خط کا جواب دینے میں جلدی کرو اور مجھے بتاؤ کہ کون کون میرے حکم کو مانتا ہے اور کون کون حکم کو نہیں مانتا اور خط کے جواب کے ساتھ حسین ابن علی کا سر بھی ہونا چاہیے۔

ألامالي، شيخ صدوق، ص 134 و 135 

بحار الانوار، ج 44، ص 312.

بعض کتب کی عبارات میں آیا ہے کہ ولید بن عتبہ نے یزید کو خبر دی اور بتایا کہ، امام حسین(ع) اور ابن زبیر کے درمیان جو واقع ہوا ہے۔ اس پر یزید کو بہت غصہ آیا اور اس کو خط لکھا کہ:

إذا ورد عليك كتابي هذا، فخذ بالبيعة ثانياً علي أهل المدينة بتوكيد منك عليهم، و ذر عبد الله بن الزبير، فإنه لن يفوتنا، و لن ينجو منا أبداً ما دام حياً، و ليكن مع جوابك إلي، رأس الحسين بن علي، فإن فعلت ذلك فقد جعلت لك أعنة الخيل، و لك عندي الجائزة و الحظ الأوفر......

جب میرا خط تمہیں ملے تو مدینے کے لوگوں سے دوبارہ بیعت لو اور اس دوسری بیعت کو پہلی بیعت کے لیے تائید اور تاکید قرار دو۔ عبد اللہ بن زبیر کو  چھوڑو اس سے بیعت لینے کا ابھی بہت وقت ہے کیونکہ وہ جب تک زندہ ہے وہ ہمارے ہاتھوں سے فرار نہیں کر سکتا۔ ضروری یہ ہے کہ خط کے جواب کے ساتھ حسین ابن علی کا کٹا ہوا سر بھی میرے لیے بھیجو اور اگر یہ کام تم کرو گے تو میں تم کو فوج کا سپہ سالار بناؤں گا اور ایک قیمتی انعام بھی دوں گا۔

الفتوح، ابن أعثم، ج 3، جزء 5، ص 18.

ان کے علاوہ صد ھا متن اور سند موجود ہیں کہ جو بہترین دلیل ہیں کہ یزید نے امام حسین(ع) کو قتل کیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ امام حسین(ع) سے جنگ کرنے ، ان کو شھید کرنے اور ان کا سر مبارک تن سے جدا کرنے کا حکم یزید کے علاوہ کسی اور نے بھی دیا ہے ؟

اس کے علاوہ اگر فرض کریں کہ امام حسین(ع) کو قتل کرنے کا حکم یزید نے نہیں دیا بلکہ کسی اور نے دیا ہے تو ضروری اور واضح تھا کہ جس طرح کہ اس کی طرف سے قتل کرنے کا حکم ذکر ہوا ہے اسی طرح اس بات کی نفی بھی کتابوں میں ذکر ہوتی یعنی ذکر ہوتا کہ نہیں یزید نے امام حسین(ع) کے قتل کا حکم نہیں دیا یا کم از کم اسکی طرف سے کہ جہنوں نے امام حسین کو قتل کیا تھا جیسے ابن زیاد ، عمر ابن سعد، اور شمر ابن ذی الجوشن وغیرہ تو کسی کتاب میں کسی قسم کی کوئی سزا اور مذمت وغیرہ ہی ذکر ہوتی۔ اور اگر یزید قاتل نہیں تھا یا اس قتل پر راضی نہیں تھا تو کم از کم وہ خوشی و جشن کہ جو کربلاء کے اسیروں کے آنے پر شام کے لوگ منا رہے تھے ان کو اس کام سے منع کرتا اور جشن اور خوشی کرنے والوں کو سزا یا جیل میں ڈالتا۔

امام حسین(ع) کا بد دعا کرنے والے دعوے کا جواب:

بعض لوگ امام حسین(ع) کی اس بد دعا کو دلیل قرار دیتے ہیں کہ واقعا شیعہ ہی امام کے قاتل ہیں۔ چند مطالب مہم قابل ذکر ہیں:

شیعہ کس کو کہتے ہیں ؟

یہ دعوی کرنا کہ شیعوں نے امام حسین(ع) کو شہید کیا ہے خود اس بات میں تضاد ہے کیونکہ کسی بندے کا شیعہ وہ ہوتا ہے جو اس کا تابع اور پیرو کار ہو۔ ایک بندہ جو کسی کا قاتل ہو، اس کو اس بندے کا شیعہ اور پیرو کار کہنا یہ دو متضاد باتیں ہیں کیونکہ ایک بندے سے محبت و دوستی اور نفرت و دشمنی آپس میں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔

اگر ان کو جو عمر سعد اور ابن زیاد کے لشکر میں تھے اور امام حسین‏(‏ع) سے جنگ کر رہے تھے، شیعہ کہیں تو پھر وہ جو خون کے آخری قطرے تک امام حسین(ع) کے ساتھ رہے اور اسی راہ میں شھادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے، ان کو پھر کیا کہیں اور پھر وہ کون تھے ؟

اور اگر فرض کریں کہ امام حسین(ع) کو شیعوں نے شھید کیا ہے تو اب یہ کہنا چاہیے کہ وہ ایسے شیعہ تھے جو اپنے شیعہ مذہب کو چھوڑ کر امام حسین کے دشمنوں کے ساتھ مل گئے تھے اور اس صورت میں وہ بندہ پھر امام کا شیعہ نہیں بلکہ امام کا مخالف اور دشمن کہلائے گا۔

سيد محسن امين اپنی كتاب اعيان الشيعہ میں لکھتے ہیں کہ:

حاش لله أن يكون الذين قتلوه هم شيعته، بل الذين قتلوه بعضهم أهل طمع لا يرجع إلي دين، و بعضهم أجلاف أشرار، و بعضهم اتبعوا روءساءهم الذين قادهم حب الدنيا إلي قتاله، و لم يكن فيهم من شيعته و محبيه أحد، أما شيعته المخلصون فكانوا له أنصاراً، و ما برحوا حتي قتلوا دونه، و نصروه بكل ما في جهدهم، إلي آخر ساعة من حياتهم، و كثير منهم لم يتمكن من نصرته، أو لم يكن عالماً بأن الأمر سينتهي إلي ما انتهي إليه، و بعضهم خاطر بنفسه، و خرق الحصار الذي ضربه ابن زياد علي الكوفة، و جاء لنصرته حتي قتل معه، أما ان أحداً من شيعته و محبيه قاتله فذلك لم يكن، و هل يعتقد أحد إن شيعته الخلص كانت لهم كثرة مفرطة؟ كلا، فما زال أتباع الحق في كل زمان أقل قليل، و يعلم ذلك بالعيان، و بقوله تعالي: «و قليل من عبادي الشكور».

سبحان اللہ کہ امام حسین(ع) کے قاتل شیعہ ہوں بلکہ جہنوں نے ان کو شھید کیا ہے وہ دنیا پرست اور بے دین لوگ تھے۔ ان میں سے بعض مفسد اور بعض اپنے سرداروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امام سے جنگ کرنے کے لیے کربلاء گئے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی امام کا شیعہ اور محّب نہیں تھا، جو بھی امام حسین کا شیعہ تھا وہ مخلصانہ اور شجاعانہ طور پر امام کے ساتھ امام کے لشکر میں تھا۔

بعض شیعہ راستے بند ہونے،بعض جگہ جگہ پر پہرے ہونے اور بعض جانتے ہی نہیں تھے کہ جنگ اور قتل کرنے اور قتل ہونے تک نوبت پہنچ جائے گی، وہ اس لیے کربلاء نہ آئے۔ لیکن بعض جان پر کھیل کر کوفے میں لگائی گئی ابن زیاد کی تمام پابندیوں اور رکاوٹوں سے گزرتے ہوئے امام کی مدد کرنے کے لیے کربلاء آئے تھے۔

لھذا کوئی بھی شیعہ کربلاء میں موجود نہیں تھا کہ جو ابن زیاد اور عمر سعد کے لشکر میں ہو اور اس نے امام حسین(ع) سے جنگ کی ہو۔

أعيان الشيعة، ج 1، ص 585

امام حسین(ع) کے دور میں شہر کوفہ کی آبادی:

یہ بات ٹھیک ہے کہ وہ لوگ جو امام حسین(ع) سے جنگ کرنے اور امام کو قتل کرنے کے لیے آئے تھے وہ شہر کوفہ سے آئے تھے لیکن اس وقت کوفہ میں کوئی قابل ذکر شیعہ بچا ہی نہیں تھا کیونکہ جب معاویہ حاکم بنا تو اس نے زیاد ابن ابیہ کو کوفہ کا حاکم بنایا اور اسے حکم بھی دیا کہ کوفے میں تمام شیعوں کو چن چن کر قتل کر دو۔ زیاد ابن ابیہ کیونکہ کوفے کے حالات اور تمام شیعوں کو مکمل طور پر جانتا تھا۔ اس نے معاویہ کے حکم پر مکمل طور پر عمل کیا اور شیعوں کا قتل عام ، ان کے گھروں کو گرانا، اموال کو لوٹنا و غارت کرنا اور بعض کو زندان میں ڈالنا  شروع کر دیا۔ اس حالت کے بعد کوفہ بالکل شیعوں سے خالی ہو گیا۔

کتب تاریخی کے مطابق اس وقت کوفے کی آبادی میں تقریبا 15000 شیعہ رہتے تھے کہ بہت سے ان میں سے معاویہ کے دور میں کوفے سے نکال دئیے گئے یا بعض کو جیلوں میں ڈال دیا گیا اور بہت سے شیعوں کو شھید کر دیا گیا۔ باقی بعض مشکلات کی خاطر موصل، خراسان اور قم کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے تھے۔ قبیلہ بنی غاضرہ کے شیعہ امام حسین کی نصرت کے لیے جانا چاہتے تھے لیکن ابن زیاد کے سپاہیوں نے ان کو جانے سے روک دیا۔ 

ابن أبي الحديد معتزلی اس بارے میں لکھتا ہے کہ:

كتب معاوية نسخة واحدة إلي عُمَّاله بعد عام المجُاعة: (أن برئت الذمّة ممن روي شيئاً من فضل أبي تراب و أهل بيته). فقامت الخطباء في كل كُورة و علي كل منبر يلعنون عليًّا و يبرأون منه، و يقعون فيه و في أهل بيته، و كانأشد الناس بلاءاً حينئذ أهل الكوفة لكثرة ما بها من شيعة علي عليه السلام، فاستعمل عليهم زياد بن سُميّة، و ضم إليه البصرة، فكان يتتبّع الشيعة و هو بهم عارف، لأنه كان منهم أيام علي عليه السلام، فقتلهم تحت كل حَجَر و مَدَر و أخافهم، و قطع الأيدي و الأرجل، و سَمَل العيون و صلبهم علي جذوع النخل، و طردهم و شرّدهم عن العراق، فلم يبق بها معروف منهم.

معاویہ نے خشک سالی اور قحطی والے سال کے بعد اپنے وزیر کو ایک سرکاری حکم نامہ لکھا کہ جو بھی ابو تراب کے اور اس کے خاندان کے فضائل میں سے کوئی چیز نقل کرے اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے (یعنی تم جو بھی اس بندے کے ساتھ کرنا چاہتے ہو تم آزاد ہو کوئی تمہیں پوچھنے والا نہیں ہے )۔ اسی وجہ سے سرکاری و درباری ملاؤں نے منبر پر علی(ع) اور ان کے خاندان پر لعنت و سبّ کرنا شروع کر دی۔ ان حالات میں بد بخت ترین لوگ کوفہ کے تھے کیونکہ اس شھر میں شیعہ زیادہ تھے۔ اسی وجہ سے معاویہ نے زیاد بن سمیّہ کو کوفہ کا حاکم بنایا در حالیکہ زیاد اس وقت بصرہ شہر کا بھی حاکم تھا۔ زیاد کوفہ کے اور شیعوں کے حالات سے واقف تھا۔ اس نے شیعوں کو چن چن کر حتی پتھروں کے نیچے چھپے ہوئے شیعوں کو بھی نکال کر قتل کرنا شروع کر دیا۔ وہ ان کے ہاتھوں پیروں کو کاٹ دیتا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیتا اور پھر کھجور کے درخت پر لٹکا کر پھانسی دے دیتا یا ان کو عراق سے ہی باہر نکال دیتا۔ یہاں تک کہ کوفے میں کوئی قابل ذکر شعیہ باقی نہیں بچا تھا۔

شرح نهج البلاغة، ج11، ص 44

النصايح الكافية، محمد بن عقيل، ص 72

طبرانی نے المعجم الكبير میں يونس بن عبيد اور حسن سے نقل کیا ہے کہ:

كان زياد يتتبع شيعة علي رضي الله عنه فيقتلهم، فبلغ ذلك الحسن بن علي رضي الله عنه فقال: اللهم تفرَّد بموته، فإن القتل كفارة.

زیاد شیعوں کے پیچھے لگا رہتا تھا۔ جب بھی کوئی شیعہ نظر آتا تو اس کو فوری قتل کر دیتا۔ جب یہ خبر حسن بن علی (ع) کو ملی تو امام نے فرمایا کہ خدایا اس کو ایسی موت مار کہ کوئی نہ مرا ہو کیونکہ قتل کا کفارہ بھی قتل ہوتا ہے۔

المعجم الكبير، طبراني، ج 3، ص 68

 مجمع الزوائد، هيثمي، ج 6، ص 266

ہيثمی اس خبر کے بعد کہتا ہے کہ:

رواه الطبراني و رجاله رجال الصحيح.

اس روایت کو طبرانی نے نقل كیا ہے اور اس کے سارے راوی صحیح ہیں۔

اسی طرح ذہبی نے سير أعلام النبلاء میں کہا ہے کہ:

قال أبو الشعثاء: كان زياد أفتك من الحجاج لمن يخالف هواه.

أبو الشعثاء کہتا ہے کہ جو بھی زیاد کی بات کے خلاف بات کرتا تھا وہ اس کو حجّاج بن یوسف سے بھی زیادہ برے طریقے سے قتل کر دیتا تھا۔

حسن بصری کہتا ہے کہ:

بلغ الحسن بن علي أن زياداً يتتبَّع شيعة علي بالبصرة فيقتلهم، فدعا عليه. و قيل: إنه جمع أهل الكوفة ليعرضهم علي البراءة من أبي الحسن، فأصابه حينئذ طاعون في سنة ثلاث و خمسين.

امام حسن بن علی(ع) کو خبر دی گئی کہ زیاد کوفے میں شیعوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ امام نے اسے بد دعا دی۔ کہا گیا ہے کہ زیاد نے کوفہ کے لوگوں کو جمع کیا اور ان سب سے کہا کہ امام حسن(ع) سے بیزاری کا اعلان کریں کہ زیاد اسی وقت سال 53 ہج میں طاعون کی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔

سير أعلام النبلاء، ج 3، ص496.

ابن اثير اپنی کتاب الكامل میں کہتا ہے کہ:

و كان زياد أول من شدد أمر السلطان، و أكّد الملك لمعاوية، و جرَّد سيفه، و أخذ بالظنة، و عاقب علي الشبهة، و خافه الناس خوفاً شديداً حتي أمن بعضهم بعضاً.

زیاد پہلا وہ بندہ تھا جس نے اپنی حکومت میں سب سے زیادہ سخت گیری اور مظالم کیے اور اسی نے معاویہ کی حکومت اور سلطنت کو طاقت اور قوت بخشی۔ اس نے اپنی تلوار کو نیام سے نکالا اور جس پر تھوڑا سا بھی شیعہ ہونے کا گمان ہوتا تھا اس کو گرفتار اور سزا دیتا تھا۔ لوگ اس کے دور میں عجیب خوف اور نا امنی کا شکار تھے۔

الكامل في التاريخ، ابن اثير، ج 3، ص450.

ابن حجر اپنی کتاب لسان المیزان میں کہتا ہے کہ:

و كان زياد قوي المعرفة، جيد السياسة، وافر العقل، و كان من شيعة علي، و ولاَّه إمرة القدس، فلما استلحقه معاوية صار أشد الناس علي آل علي و شيعته، و هو الذي سعي في قتل حجر بن عدي و من معه.

زیاد ایک ہوشیار و ذہین انسان تھا اور سیاست کو بھی خوب جانتا تھا وہ پہلے شیعیان علی(ع) میں سے تھا لیکن جب وہ معاویہ سے مل گیا تو اس نے سخت ترین اور بد ترین مظالم خاندان علی اور شیعیان علی(ع) پر ڈھائے۔ زیاد وہی بندہ تھا جس نے حجر ابن عدی اور کے ساتھیوں کے قتل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

لسان الميزان، ابن حجر، ج 2، ص 495.

مذکورہ مطالب کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ واقعہ کربلاء کے وقت کوفہ میں کوئی قابل ذکر شیعہ بچا ہی نہیں تھا کہ جو امام حسین(ع) سے جنگ کرنے کے لیے کربلاء آیا ہو۔ پس کیسے یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ کوفہ کے شیعوں نے امام حسین(ع) کو شہید کیا ہے ؟

کوئی بھی با انصاف انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ شیعوں نے امام حسین(ع) کو خط لکھے اور آنےکی دعوت دی کیونکہ معروف ترین بندے جہنوں  نے خط لکھے وہ شبث بن ربعی، حجار بن ابجر اور عمرو بن حجاج و غيره تھے کہ کسی نے بھی نہیں کہا کہ یہ لوگ شیعہ تھے۔ 

 پہلے تین خلفاء کے دور میں اہل کوفہ کی حالت:

بہت سی روایات اور کتب تاریخی دلالت کرتی ہیں کہ اس دور میں اہل کوفہ علی(ع) سے پہلے تین خلفاء کے حامی اور طرف دار تھے۔ بہترین دلیل اس مطلب پر یہ واقعہ ہے کہ بہت سے مصنّفین نے اپنی کتابوں میں اس کو ذکر کیا ہے۔

وہ یہ کہ جب علی(ع) خلیفہ بنے تو انھوں نے جب چاہا کہ عمر کی ایجاد کی ہوئی بدعت(نماز تراویح) کو ختم کریں تو انھوں نے امام حسن(ع) کو حکم دیا کہ مسجد جائے اور لوگوں کو اس کام سے منع کرے۔ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو سب نے کہا «وا عمراه، وا عمراه» عمر کی سنت کو کیا کر رہے ہو عمر کی سنت کو کیا کر رہے ؟ یعنی کیا تم عمر کی سنت کو ختم کرنا چاہتے ہو ؟ اس پر علی(ع) نے فرمایا کہ «قل لهم صلوا» ان سے کہو کہ جیسے تمہارا دل ہے نماز پڑھو۔

و قد روي : أن عمر خرج في شهر رمضان ليلا فرأي المصابيح في المسجد ، فقال : ما هذا ؟ فقيل له: إن الناس قد اجتمعوا لصلاة التطوع ، فقال : بدعة فنعمت البدعة ! فاعترف كما تري بأنها بدعة، و قد شهد الرسول صلي الله عليه و آله أن كل بدعة ضلالة۔ و قد روي أن أمير المؤمنين عليه السلام لما اجتمعوا إليه بالكوفة فسألوه أن ينصب لهم إماما يصلي بهم نافلة شهر رمضان ، زجرهم و عرفهم أن ذلك خلاف السنة فتركوه و اجتمعوا لأنفسهم و قدموا بعضهم فبعث إليهم ابنه الحسن عليه السلام فدخل عليهم المسجد و معه الدرة فلما رأوه تبادروا الأبواب و صاحوا وا عمراه !

روایت ہوئی ہے کہ عمر ماہ رمضان میں رات کو گھر سے باہر آیا دیکھا کہ مسجد میں روشنی ہے۔ عمر نے پوچھا کہ اس وقت مسجد میں کیا ہو رہا ہے؟ کہا گیا کہ لوگ مستحبی نماز پڑھ رہے ہیں( نماز مستحب با جماعت) عمر نے کہا یہ کام بدعت ہے لیکن اچھی بدعت ہے۔ خود عمر اعتراف کر رہا ہے کہ یہ کام بدعت ہے۔

رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ جب علی(ع) خلیفہ بنے تو انھوں نے چاہا کہ عمر کی ایجاد کی ہوئی بدعت (نماز تراویح) کو ختم کریں تو انھوں نے امام حسن(ع) کو حکم دیا کہ مسجد جائے اور لوگوں کو اس کام سے منع کرے۔ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو سب نے کہا «وا عمراه، وا عمراه» عمر کی سنت کو کیا کر رہے کیا تم عمر کی سنت کو ختم کرنا چاہتے ہو؟

 شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد ، ج 12، ص 283 

 وسائل الشيعة (الإسلامية) حر عاملي،ج 5،ص 192، ح 2.

یہ واقعہ اس قدر بڑا ہو گیا تھا کہ مولا علی(ع) نے مسجد میں خطبہ پڑھا اور فرمایا:

میں نے اس تراویح کے مسئلے میں فقط کوفہ میں حکومت اسلامی اور وحدت امت کے لیے زیادہ سختی سے کام نہیں لیا۔

مولا علی(ع) کا یہ قول واضح کرتا ہے کہ کوفے کے اکثر لوگ عمر کے تابع اور اسکی اطاعت کرنے والے تھے۔ لہذا یہ کہنا کہ کوفے میں فقط شیعہ رہتے تھے، غلط اور انصاف سے دور ہو گا۔

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسي، عن إبراهيم بن عثمان، عن سليم بن قيس الهلالي قال: خطب أمير المؤمنين عليه السلام فحمد الله و أثني عليه ثم صلي علي النبي صلي الله عليه و آله، ثم قال... قد عملت الولاة قبلي أعمالا خالفوا فيها رسول الله صلي الله عليه و آله متعمدين لخلافه، ناقضين لعهده مغيرين لسنته و لو حملت الناس علي تركها و حولتها إلي مواضعها و إلي ما كانت في عهد رسول الله صلي الله عليه و آله لتفرق عني جندي حتي أبقي وحدي أو قليل من شيعتي الذين عرفوا فضلي و فرض إمامتي من كتاب الله عز و جل و سنة رسول الله صلي الله عليه و آله ... و الله لقد أمرت الناس أن لا يجتمعوا في شهر رمضان إلا في فريضة و أعلمتهم أن اجتماعهم في النوافل بدعة فتنادي بعض أهل عسكري ممن يقاتل معي: يا أهل الاسلام غيرت سنة عمر ينهانا عن الصلاة في شهر رمضان تطوعا و لقد خفت أن يثوروا في ناحية جانب عسكري ما لقيت من هذه الأمة من الفرقة و طاعة أئمة الضلالة و الدعاة إلي النار.

امیر المؤمنین علی (ع) نے خطبہ پڑھا اور کہا: مجھ سے پہلے خلفاء نے ایسے کام انجام دئیے کہ انھوں نے ان کاموں میں سنت رسول خدا(ص) کی مخالفت کی تھی اور انھوں نے یہ مخالفت جان بوجھ کر کی تھی۔ اب اگر میں لوگوں کو کہوں کہ یہ سنت نہیں ہے اور ان کو سنت کا صحیح راستہ دکھاؤں تو خود میرا لشکر مجھ سے دور ہو جائے گا اور اس کام میں کوئی بھی میری مدد کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔

خدا کی قسم میں نے لوگوں کو کہا ہے کہ ماہ رمضان میں مستحب نماز کو جماعت کے ساتھ نہ پڑھو کیونکہ یہ کام بدعت ہے، تو میری اس بات پر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اے اہل اسلام عمر کی سنت تبدیل کر دی گئی ہے۔ میں نے فقط امت اسلامی میں تفرقے کے ڈر سے کسی کو کچھ نہیں کہا اور سختی نہیں کی، بس اتنا کہا ہے کہ بدعت کو انجام دینے والا جہنم میں داخل کیا جائے گا۔

الكافي، شيخ كليني، ج 8، ص 58، ح 21

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ علی(ع) بھی اپنے زمانے میں کوفہ کے شیعوں کو اقلیت میں کہتے تھے۔

شیعوں سے خالی کوفہ:

مہم ترین افراد کہ جہنوں نے امام حسین(ع) سے جنگ کی اور امام کو شہید کیا ان میں عمر بن سعد بن أبی وقاص، شمر بن ذی الجوشن، شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، حرملہ بن كاہل اور سنان وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔

جتنے بھی افراد کے نام ذکر ہوئے ہیں ان میں سے ایک فرد بھی معروف اور مشہور شیعہ نہیں ہے۔ 

کوفہ مرکز حنفيان:( پیروان ابو حنیفہ)

کتب اسلامی اور فقہی میں یہ عبارت ذکر ہوئی ہے کہ « هذا رای كوفی» یعنی یہ نظر اور فتوی ابو حنیفہ کے ایک پیروکار کا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ شہادت امام حسين (ع) سے چند سال بعد کوفہ حنفیوں کا مرکز بن گیا تھا اور یہ بات کوفہ میں شیعوں کی کثرت سے ہونے کی نفی کرتی ہے۔

امام حسین(ع) کے قاتل شیعہ آل ابی  سفیان:

امام حسین(ع) نے روز عاشورا لشکر یزید کے لیے بہت سے خطبے پڑھے ۔ ان میں سے ایک خطبہ جو امام نے اپنی شہادت سے تھوڑی دیر پہلے پڑھا اور اس ظالم قوم کو اس طرح خطاب کیا کہ:

و يحكم يا شيعة آل أبي سفيان! إن لم يكن لكم دين، و كنتم لا تخافون المعاد، فكونوا أحراراً في دنياكم هذه، و ارجعوا إلي أحسابكم إن كنتم عُرُباً كما تزعمون.

افسوس ہے تم پر اے پیروان آل ابی سفیان، اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور تمہارا قیامت کے دن پر بھی ایمان نہیں ہے تو کم از کم دنیا میں غیرت سے کام لو اور اپنے حسب نسب کی طرف توجہ کرو کہ تم اپنے آپ کو عرب کہتے ہو۔

مقتل الحسين، خوارزمي، ج 2، ص 38

بحار الأنوار، ج 45، ص 51 

اللهوف في قتلي الطفوف، ص 45

امام حسین(ع) کے قاتلوں نے کن الفاظ سے امام حسین(ع) کو پکارا ہے؟

روز عاشورا جنگ کے دوران لشکر یزید کے سپاہیوں نے جن الفاظ سے امام حسین(ع) کو پکارا ہے وہ بہترین دلیل اور معیار ہے یہ دیکھنے کے لیے کہ جہنوں نے امام سے جنگ کی ہے کیا وہ شیعہ تھے یا بنی امیہ میں سے تھے ؟

بعض امام کو کہتے تھے کہ: 

«إنما نقاتلک بغضاً لأبيک» 

کہ ہم تمہارے باپ سے بغض و کینے کی وجہ سے تم سے جنگ کر رہے ہیں۔

علی(ع) کے بارے میں کیا کوئی شیعہ ایسی بات کر سکتا اور ایسا عقیدہ رکھ سکتا ہے ؟

       ينابيع المودة، قندوزي حنفي، ص 346.

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   یا بعض نے امام حسین(ع) کو ایسے پکارا کہ:

يا حسين، يا كذّاب ابن الكذّاب.

اے حسین اے جھوٹے اور جھوٹے کے بیٹے!

الكامل، ابن أثير، ج 4، ص 67.

یا ایک دوسری جگہ ہے کہ:

      يا حسين أبشر بالنار.

اے حسین میں تمہیں جہنم میں جانے کی خوش خبری دیتا ہوں۔

الكامل، ابن أثير، ج 4، ص66

البداية و النهاية، ج 8، ص 183

 ایک دوسرے سپاہی کے الفاظ یہ ہیں کہ:

إنها لا تُقْبَل منكم.

یہ نماز جو تم پڑھ رہے ہو اللہ تمہاری اس نماز کو قبول نہیں کرے گا۔

البداية و النهاية، ابن كثير، ج 8، ص 185.

 کیا امام حسین(ع) کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرنے والا بندہ شیعہ ہو سکتا ہے ؟؟؟

قاتلوں کے مظالم بتاتے ہیں کہ وہ کون تھے ؟

یہ قاتل نہ یہ کہ شیعہ و محّب امام حسین(ع) نہیں تھے بلکہ امام کے بدترین دشمنوں میں سے تھے کیونکہ ان قاتلوں نے نہ صرف امام حسین(ع) اور ان کے اہل بیت و اصحاب کو بلکہ 6 ماہ کے معصوم بچّے کو شدید پیاس کی حالت میں پانی نہیں دیا اور اسی پیاس کی حالت میں شھید کر دیا۔ پھر شہید کرنے کے بعدشہداء کے جسموں کو گھوڑوں کے سمّوں کے نیچے پامال کیا۔ سروں کو بدن سے جدا کیا اور عورتوں و بچّوں کو قیدی بنا لیا۔ اموال کو اور خیموں کو لوٹ کر لے گئے۔

ایسا تو ایک بدترین دشمن بھی انسان کے ساتھ نہیں کرتا تو ایک انسان کے شیعہ اور پیرو کار اس انسان پر اتنے مظالم کیسے کر سکتے ہیں ؟؟؟

ابن اثير اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ:

ثم نادي عمر بن سعد في أصحابه مَن ينتدب إلي الحسين فيُوطئه فرسه، فانتدب عشرة، منهم إسحاق بن حيوة الحضرمي، و هو الذي سلب قميص الحسين، فبرص بعدُ، فأتوا فداسوا الحسين بخيولهم حتي رضّوا ظهره و صدره.

عمر سعد نے اپنے لشکر میں بلند صدا دی کہ کون اپنے گھوڑے کے ساتھ حسین کے بدن کو پامال کرے گا ؟ لشکر سے دس سپاہی کہ ان میں سے ایک اسحاق بن حیوہ حضرمی تھا کہ جس نے امام کے لباس کو لوٹا تھا کہ جو بعد میں برص و جزّام کے مرض میں مبتلا ہوا تھا، یہ کام کرنے پر تیار ہوئے اور انھوں نے امام حسین(ع) کے سینے اور کمر کو اتنا پامال کیا کہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔

الكامل، ابن أثير، ج 4، ص80.

یہی دوسری جگہ لکھتا ہے کہ:

و سُلِب الحسين ما كان عليه، فأخذ سراويله بحر بن كعب، و أخذ قيس بن الأشعث قطيفته، و هي من خز، فكان يُسمَّي بعدُ (قيس قطيفة)، و أخذ نعليه الأسود الأودي، و أخذ سيفه رجل من دارم، و مال الناس علي الورس و الحلل فانتهبوها، و نهبوا ثقله و ما علي النساء، حتي إن كانت المرأة لتنزع الثوب من ظهرها فيؤخذ منها.

امام حسین(ع) کے تمام اموال کو لوٹ کر لے گئے۔ امام کی شلوار کو بحر بن کعب اور امام کی چادر کو قیس بن اشعث نے لوٹا۔ اسی وجہ سے وہ قیس قطیفہ کے نام سے مشہور ہو گیا تھا، امام کے جوتوں کو اسود اودی اور امام کی تلوار کو قبیلہ دارم کے ایک بندے نے لوٹا اور اسی طرح بعض نے سرخ رنگ کا لباس اور بعض دوسری قیمتی اشیاء کو لوٹا۔ اسی طرح جو کچھ عورتوں کے پاس تھا لوٹ کر لے گئے یہاں تک کہ اگر ایک عورت ایک لباس یا چادر کو بدن پر لیتی تو وہ پیچھے سے چھین کر لے جاتے تھے۔

الكامل، ابن أثير، ج 4، ص 79.

ابن كثير ابو مخنف سے نقل کرتا ہے کہ:

و أخذ سنان وغيره سلبه، و تقاسم الناس ما كان من أمواله و حواصله، و ما في خبائه حتي ما علي النساء من الثياب الطاهرة.

سنان اور بعض دوسروں نے امام حسین(ع) کے کھجور سے بنے ہوئے بوریا کو لوٹا اور تمام اموال کو جو خیمے میں تھے آپس میں تقسیم کر لیا حتی عورتوں کے لباس بھی لوٹ کر لے گئے۔

و جاء عمر بن سعد فقال: ألا لا يدخلن علي هذه النسوة أحد، و لا يقتل هذا الغلام أحد، و من أخذ من متاعهم شيئاً فليردّه عليهم. قال: فوالله ما ردَّ أحد شيئاً.

عمر سعد نے لشکریوں سے کہا خبر دار کوئی عورتوں کو تنگ نہ کرے یا اس جوان کو کوئی قتل نہ کرے اور جس نے جو چیز بھی لوٹی ہے اسکو واپس کر دے۔ راوی کہتا ہے خدا کی قسم کسی نے بھی کوئی چیز واپس نہ کی۔

البداية و النهاية، ابن كثير، ج 8، ص190.

 ان تمام مظالم اور لوٹ مار کو کوئی انسان کا بد ترین دشمن بھی نہیں کرتا تو پھر ایک انسان کے پیروکار کہ جو اس کے شیعہ ہیں، کیسے اپنے امام پر اتنے درد ناک مظالم ڈھا سکتے ہیں ؟؟؟

قاتلوں کے ناموں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کون تھے ؟

جو دلائل ابھی تک ذکر ہوئے ہیں اگر کوئی قبول نہ کرے اور پھر بھی اصرار کرے کہ امام حسین(ع) کو شیعوں نے ہی شہید کیا ہے تو کیا جن قاتلوں کے نام ذکر کیے جا رہے ہیں وہ امام حسین(ع) و مولا علی(ع) کے شیعوں اور محبّت کرنے والوں میں سے تھے یا بنی امیہ میں سے تھے ؟

ان قاتلوں میں سے:

يزيد بن معاوية ـ عبيد الله بن زياد ـ عمر بن سعد ـ شمر بن ذی الجوشن ـ قيس بن أشعث بن قيس ـ عمرو بن حجاج زبيدی ـ عبد الله بن زهير أزدی ـ عروة بن قيس أحمسی ـ شبث بن ربعی يربوعی ـ عبد الرحمن بن أبی سبرة جعفی ـ حصين بن نمير ـ حجار بن أبجر.

اور بعض دوسرے کہ جن کے نام اب ذکر کیے جا رہے ہیں اور جو خود واقعہ کربلاء میں موجود تھے۔ ان میں سے:

سنان بن أنس نخعی ـ حرمله كاهلی ـ منقذ بن مره عبدی ـ أبو الحتوف جعفی ـ مالك بن نسر كندی ـ عبد الرحمن جعفی ـ قشعم بن نذير جعفی ـ بحر بن كعب بن تيم الله ـ زرعة بن شريك تميمی ـ صالح بن وهب مری ـ خولی بن يزيد أصبحی ـ حصين بن تميم و غيره...

ان میں سے ایک بندہ بھی امام حسین(ع) کے شیعوں میں سے نہیں ہے۔ اس کے علاوہ قابل غور بات یہ ہے کہ آج اس زمانے میں کون لوگ امام حسین(ع) اور ان کے باوفا اصحاب کے ناموں پر اپنے اور اپنے بچوں کے نام رکھ رہے ہیں اور کون لوگ یزید اور اس کے ساتھیوں کے ناموں پر اپنے اور اپنے بچوں کے نام رکھ رہے ہیں ؟؟؟

یزید کی نظر میں قاتل کون ہیں ؟

یزید کہ جس کا امام حسین(ع) کے شہید کرنے میں اہم ترین کردار ہے، خود اس نے نہیں کہا کہ یہ شیعہ تھے کہ جہنوں نے امام حسین(ع) کو شہید کیا ہے اگر یہ بات ٹھیک یا مشہور ہوتی تو یزید جیسا بندہ ضرور اس کو بیان کرتا بلکہ وہ عبید اللہ ابن زیاد حاکم کوفہ کو امام حسین(ع) کا قاتل کہہ رہا ہے تا کہ اپنا ذمہ امام حسین کے قتل سے بری کر سکے۔

ابن كثير اور ذہبی وغیرہ نے لکھا ہے کہ:

لما قتل عبيدُ الله الحسينَ و أهله بعث برؤوسهم إلي يزيد، فسُرَّ بقتلهم أولاً، ثم لم يلبث حتي ندم علي قتلهم، فكان يقول: و ما عليَّ لو احتملتُ الأذي، و أنزلتُ الحسين معي، و حكَّمته فيما يريد، و إن كان عليَّ في ذلك وهن، حفظاً لرسول الله صلي الله عليه و سلم و رعاية لحقه، لعن الله ابن مرجانة يعني عبيد الله فإنه أحرجه واضطره، و قد كان سأل أن يخلي سبيله أن يرجع من حيث أقبل، أو يأتيني فيضع يده في يدي، أو يلحق بثغر من الثغور، فأبي ذلك عليه و قتله، فأبغضني بقتله المسلمون، و زرع لي في قلوبهم العداوة.

جب عبید اللہ ابن زیاد نے امام حسین(ع) اور انکے اصحاب کو شہید کیا اور ان کے سروں کو یزید کے لیے بھیجا تو ابتداء میں یزید اس کام اور فتح پر بہت خوش ہو لیکن زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ واقعہ کربلاء میں اپنے کیے پر بہت پچھتایا اور کہا کہ اگر مجھے ان کی اس قدر تکلیف کا پتا ہوتا تو میں ہر گز ایسا کرنے کا حکم نہ دیتا۔ حسین کو ادھر اپنے پاس بلاتا اور جو وہ کہتا اس پر عمل کرتا۔ حتی ایسا کام کرنے میں اگر میری توہین ہوتی پھر بھی میں رسول خدا (ص) کے احترام کی خاطر وہ کام ضرور انجام دیتا۔ خدا کی لعنت ہو مرجانہ کے بیٹے یعنی عبید اللہ ابن زیاد پر کہ اس نے حسین کو زحمت اور تکلیف دی ہے اور اس سے کہا ہے کہ جہاں سے آئے ہو یا واپس چلے جاؤ یا شام جا کر میری(یزید) بیعت کرے یا کسی بھی ملک کی سرحد پر جا کر زندگی گزارے۔

لیکن حسین نے ان تمام کاموں کے کرنے سے انکار کیا اور اسی پر ابن زیاد نے اسے قتل کر دیا۔ ابن زیاد نے اپنے اس کام سے مسلمانوں کے دلوں میں میرے لیے بغض و کینہ اور دشمنی ایجاد کی ہے۔

    سير أعلام النبلاء، ج 3، ص 317 

   البداية و النهاية، ج 8، ص 35 

  الكامل في التاريخ، ج 4، ص 87

اس عبارت میں یزید کی کافی ساری باتوں پر رک کر بات کی جا سکتی ہے لیکن اس عبارت میں ہماری توجہ فقط اس مطلب پر ہے کہ خود یزید نے بھی نہیں کہا کہ امام حسین(ع) کو شیعوں نے قتل کیا ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ آج کے وہابی یزید ملعون سے بھی بدتر اور پست تر ہیں۔

جنگ میں صف بندی قاتلوں کی شناخت کے لیے کافی ہے:

اسی زمانے میں اور خاص طور پر میدان جنگ میں جو بندہ بھی امام کے لشکر میں موجود ہوتا وہ امام کا شیعہ کہلاتا اور جو امام کے مد مقابل ہوتا وہ ہر گز امام کا شیعہ نہیں کہلاتا تھا۔

مثال کے طور پر زھیر بن قین کہ پہلے اس کا مذہب عثمانی اور امام حسین(ع) کا مخالف تھا لیکن جب امام کی صف اور لشکر میں آ گیا تو امام کا شیعہ کہلانے لگا۔ 

تاريخ طبری میں زهير کے بارے میں لکھا ہے کہ:

فقال له زهير يا عزرة إن الله قد زكاها و هداها فاتق الله يا عزرة فإني لك من الناصحين أنشدك الله يا عزرة أن تكون ممن يعين الضلال علي قتل النفوس الزكية قال يا زهير ما كنت عندنا من شيعة أهل هذا البيت إنما كنت عثمانيا.

زھیر نے عزرہ سے کہا کہ: خداوند نے اسے پاک کیا اور ہدایت کی ہے پس خدا سے ڈرو کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ خبر دار کہ تم گمراہ لوگوں کی پاک لوگوں کو قتل کرنے میں مدد کرو۔ عزرہ نے جواب دیا: اے زھیر ہم تم کو خاندان اہل بیت  کا شیعہ نہیں جانتے تھے (لیکن آج تم حسین کی حمایت کر ہے ہو) حالانکہ اس سے پہلے تم عثمانی تھے۔

تاريخ طبري، ج 4، ص 316.

اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طرف کے لشکر میں فقط حاضر ہونے سے وہ بندہ یا امام حسین(ع) کا شیعہ کہلاتا تھا یا امام کا دشمن!!!

کوفہ میں باقی کم بچ جانے والے شیعوں کا امام حسین(ع) کی نصرت کرنے کی کوشش کرنا:

معاویہ کے حکم پر شیعیان کوفہ کے قتل عام ، کوفہ سے فرار ،زندان میں ڈالنے اور جلا وطن کرنے کے بعد بھی باقی جو کم شیعہ کوفہ میں بچ گئے تھے کتب تاریخی کی روشنی میں ان کم شیعوں نے بھی کوشش کی کہ امام حسین(ع) کی نصرت کے لیے کربلاء جائیں لیکن ان کو بھی ابن زیاد کے سپاہیوں نے گرفتار کر لیا۔ بہت ہی کم شیعہ جیسے زھیر اور حبیب ابن مظاہر یہ ابن زیاد کی تمام رکاوٹوں کو تھوڑ کر کربلاء پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور باقی امام کی شہادت کے بعد کربلاء پہنچے تھے۔

لہذا کوئی شیعہ ہی کوفے میں باقی نہیں رہ گیا تھا کہ جو امام حسین(ع) سے جنگ کرنے کے لیے کربلاء جاتا۔

امام حسین(ع) کی بیعت کرنا اور انکو کوفہ آنے کی دعوت دینا، یہ شیعہ ہونے کی دلیل نہیں ہے:

بععض لوگ کہتے ہیں کہ کیونکہ اہل کوفہ نے امام حسین(ع) کی بیعت کی تھی اور ان کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی اور کیونکہ وہ شیعہ تھے پس شیعوں نے ہی امام کو شہید کیا ہے۔

حالانکہ بیعت ہرگز شیعہ ہونے کی علامت نہیں ہے کیونکہ اس بات کا معنی یہ ہے کہ وہ تمام صحابہ اور تابعین کہ جہنوں نے علی(ع) کی بیعت کی تھی وہ سب علی(ع) کے شیعہ ہوں حالانکہ آج تک کسی نے یہ بات نہیں کی۔ حتی بہت سے بیعت کرنے والوں نے خود علی(ع) سے جنگیں کی ہیں۔ لہذا فقط اس بات سے کہ اہل کوفہ نے امام حسین(ع) کو خط لکھے ہیں اور امام کو کوفہ آنے کی دعوت دی ہے، یہ نتیجہ نکالنا کہ اہل کوفہ نے ایک قسم کی امام سے بیعت کی ہے اور اس سے یہ نتیجہ لینا کہ شیعوں نے ہی امام اور ان کے اصحاب کو شہید کیا ہے۔ یہ باکل غلط اور انصاف سے دور بات ہے۔

پس معلوم ہوا کہ کوفہ کے لوگ امام علی(ع) اور امام حسین(ع) کے دور میں دو گروہ تھے:

1-             شیعہ خاص: یعنی جو اہل بیت سے محبت اور ان کے دشمنوں سے نفرت کرتے تھے۔

اس قسم کے شیعہ باکل عمر سعد اور ابن زیاد کے لشکر میں نہیں تھے کیونکہ اس طرح کے خاص شیعہ امام حسین(ع) کے ساتھ اور ان کے لشکر میں تھے اور خون کے آخری قطرے تک امام کی نصرت میں لڑتے رہے اور اسی راہ میں شہید ہوئے۔

2-             شیعہ عام: یعنی یہ اہل بیت سے محبت کرتے تھے لیکن ان کے دشمنوں سے نفرت اور دشمنی نہیں کرتے تھے۔ یہ وہی ہیں کہ جو اہل بیت کی امامت کے خدا کی طرف سے ہونے کو بھی قبول نہیں کرتے، ممکن ہے لشکر عمر سعد اور ابن زیاد میں ایسے شیعہ موجود ہوں۔

        لعن الله امة اسست اساس الظلم و الجور عليكم اهل البيت و لعن الله امة دفعتكم عن مقامكم و ازالتكم عن مراتبكم التي رتبكم الله فيها و لعن الله امة قتلتكم و لعن الله الممهدين لهم بالتمكين من قتالكم. برئتُ الي الله واليكم منهم و من اشياعهم و اتباعهم و اوليائهم...و اكرمني بك ان يرزقني طلب ثارك مع امام منصور من اهل بيت محمد صلي الله عليه و آله.

التماس دعا

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی