2024 March 19
امام زمان (عج) کی شادی
مندرجات: ١٧٩١ تاریخ اشاعت: ٢٢ February ٢٠٢٤ - ١٦:٥٧ مشاہدات: 6610
مضامین و مقالات » پبلک
امام زمان (عج) کی شادی

 

امام زمان (عج) کی شادی

مقدّمہ:

حضرت مہدی (ع) کی شخصیت کے بارے میں ایک اہم بحث، انکی ذاتی اور گھریلو زندگی ہے۔ کیا انھوں نے شادی کی ہے یا نہیں کی، کیا انکی اولاد ہے، وہ کہاں زندگی گزار رہے ہیں، انکی اولاد کیسے زندگی گزار رہی ہے اور اسطرح کے بہت سے دوسرے سوالات کہ کبھی کبھی یہ سوالات مخالفین کے علاوہ، بعض شیعیان کے اذہان میں بھی ایجاد ہوتے ہیں کہ کبھی کبھی انکو اس بارے میں آپس میں متضاد جوابات بھی سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔

حضرت مہدی (ع) کی غیبت کبری (طولانی غیبت) نے خود ان امام کی ذاتی زندگی کے بارے میں یہ سوال ایجاد کیا ہے کہ کیا اس طولانی مدت میں، حضرت مہدی (ع) نے شادی بھی کی ہے یا نہیں ؟

بعض افراد نے اس سوال کو اشکال و اعتراض کی صورت میں ذکر کیا ہے اور کہتے ہیں کہ:

اگر انھوں نے شادی کی ہے اور انکی کوئی بیوی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ انکی اولاد بھی ہے اور اولاد ہونے کا سبب ہے کہ حضرت مہدی (ع) کی ذاتی زندگی کے اسرار فاش ہو گئے ہیں اور یہ کام خود غیبت کی حکمت اور فلسفے کے منافی ہے۔

اور اگر انھوں نے شادی نہیں کی تو گویا انھوں نے سنت رسول خدا (ص) اور ایک شرعی مستحب پر عمل نہیں کیا، اور یہ کام انکے مقام و منزلت سے منافات رکھتا ہے، کیونکہ وہ انسانوں کے دینی پیشوا و امام ہیں اور انھیں واجبات کی طرح مستحبات پر عمل کرنے میں بھی سب پر پیش پیش ہونا چاہیے، و بر فرض کہ جب ایک امام مستحب مؤکد (تاکید شدہ) شرعی کو ترک کرتا ہے تو اس نے ایک مکروہ کام انجام دیا ہے اور ایک معصوم امام سے مکروہ عمل انجام پانا بہت ہی بعید ہے۔

پس اگر حضرت مہدی (ع) نے شادی نہ کی ہو تو امام معصوم پر مستحب عمل کو ترک کا اشکال ہوتا ہے اور اگر شادی کی ہو تو ذاتی اسرار کے فاش ہونے کا مسئلہ پیش آتا ہے کہ جو غیبت کے فلسفے سے تضاد رکھتا ہے، کیونکہ ہر طرف سے مسئلہ پیش آتا ہے، اس لیے بعض نے نتیجہ نکالا ہے کہ اصلا حضرت مہدی (ع) موجود ہی نہیں اور اس دنیا میں انکا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

دوسرا نکتہ یہ کہ حضرت مہدی (ع) کا شادی کرنا یا شادی نہ کرنا، یہ ہمارے اعتقادات کا جزء نہیں ہے، بلکہ یہ ان امام کا ذاتی مسئلہ ہے کہ روایات میں بھی اس بارے میں کچھ ذکر نہیں ہوا اور خود آئمہ نے بھی اس بارے میں کوئی بات نہیں کی، اور جن لوگوں نے غیبت کے دوران ان حضرت سے ملاقات کا شرف بھی پایا ہے تو ان لوگوں کے ذہن میں اتنے سوالات اور اتنے مسائل تھے کہ انکے ذہن میں اس طرح کے سوالات بالکل ہی نہیں آئے۔

غیبت صغری میں بھی ان حضرت کے خاص نائبان اور نمائندوں سے بھی اس بارے میں کوئی بات سنی نہیں گئی۔

اسکے علاوہ انسان کے ذہن میں حضرت مہدی (ع) کی شادی کے سوال کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے سوالات بھی آتے ہیں، جیسے

کیا حضرت مہدی (ع) کی کوئی اولاد ہے ؟

کیا حضرت مہدی (ع) اور انکی اولاد ایک خاص جگہ پر زندگی گزار رہے ہیں ؟

کیا حضرت مہدی (ع) کی زوجہ اور اولاد کا ہونا انکی غیبت کے فلسفے و حکمت کے ساتھ تضاد رکھتا ہے ؟

اور کیا حضرت مہدی (ع) نے شادی نہ کر کے سنت رسول (ص) اور حکم رسول کے بر خلاف عمل کیا ہے ؟

اور بہت سے سوالات کہ جنکے جواب اس مقالے میں بیان کیے گئے ہیں، اس بارے میں مختلف اقوال اور دلائل بیان کیے گئے ہیں تا کہ انکے بارے میں بحث کر کے ایک مناسب علمی نتیجے پر پہنچا جا سکے۔

کیا حضرت مہدی (عج) نے شادی کی ہے اور انکی کوئی اولاد بھی ہے ؟

اس سوال کے جواب میں مسائل اعتقادی جیسے حکمت و فلسفہ غیبت اور مسائل فقہی جیسے شادی کا مستحب و شرعی ہونا، اور وہ عبارات کہ جو ان حضرت کی شادی پر دلالت کرتی ہیں، اس بارے میں تین نظرئیے موجود ہیں:

نظريّہ أوّل

بعض معتقد ہیں کہ حضرت مہدی (ع) نے شادی کی ہے اور اس نظرئیے کو ثابت کرنے کے لیے مندرجہ ذیل دلائل کو ذکر کرتے ہیں:

الف شادی کا مستحب ہونا:

نکاح اور شادی دین اسلام میں مستحب مؤکد اور سنت نبوی ہے، رسول خدا (ص) نے شادی کرنے اور اس سنت کی ترویج کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے اور اپنی امت کو اس بارے بہت ترغیب و تشویق دلائی ہے اور کئی مرتبہ فرمایا ہے کہ:

نکاح کرو اور اپنے خاندان کے افراد کی تعداد میں اضافہ کرو کہ میں روز قیامت تمہاری کثرت کی وجہ سے فخر و مباہات کروں گا، حتی وہ بچہ کہ جو سقط ہو گیا ہو اسکے وجود کی وجہ سے بھی دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔

دینی احکام میں شادی کرنا سنت حسنہ و مورد تاکید اور کنوارہ پن اور شادی نہ کرنا، مکروہ ہے۔

اور اسکے علاوہ شادی نہ کرنا، سنت رسول سے منہ موڑنے کے مترادف ہے، کیونکہ رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے:

نکاح کرنا میری سنت ہے اور جو بھی اس سنت سے رو گردانی کرے گا (شادی نہیں کرے گا) وہ مجھ سے نہیں ہے، (یعنی میری امت میں شمار نہیں ہو گا)،

اب کہ حضرت مہدی (ع) کی عمر کو سالہا سال گزر چکے ہیں، کیا کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے مستحب مؤکد کو ترک اور مکروہ عمل کو انجام دیا ہے ؟

ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا، کیونکہ وہ معصوم امام ہیں اور تمام مستحبات شرعی پر عمل کرنے میں دوسروں کی نسبت مناسب تر ہیں، پس ان حضرت نے شادی کی ہے اور انکی زوجہ بھی ہے۔

كتاب «النجم الثاقب» میں امام مہدی (ع) کے اہل و عیال کے منکرین کے لیے جواب ذکر ہوا ہے کہ:

وہ کیسے اپنے جدّ اکرم کی سنت عظیمہ کو ترک کر سکتے، حالانکہ انھوں نے اس سنت کے بارے میں اتنی ترغیب و تشویق دلائی ہے اور اس سنت پر عمل نہ کرنے والے کو بہت انذار کیا اور ڈرایا ہے، اور اس امت میں سے پیغمبر کی سنت پر عمل کرنے والوں میں مناسب ترین فرد، ہر زمانے کا امام ہے اور ابھی تک کسی نے بھی کسی بھی سنت کے ترک کرنے کو ان حضرت کی خصوصیات میں سے شمار نہیں کیا ہے۔

اور کتاب « الشموس المضيئة » میں بھی آیا ہے کہ:

اگر اس بارے (شادی کرنے) میں کوئی روایت نہ بھی ہوتی تو پھر بھی یہی مطلب کافی تھا کہ وہ حضرت زیادہ عمر کے باوجود بھی جسمانی لحاظ سے ایک قوی و طاقت ور جوان انسان ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وہ حضرت سنت رسول پر عمل کرنے والے ہیں، یہی بات کافی تھی کہ قبول کریں کہ ان حضرت کی بیوی اور اولاد موجود ہے۔

اعتراض و تحقیق:

مذکورہ دلیل دو اقسام پر مشتمل ہے:

قسم اول:

شادی کرنا سنت رسول خدا (ص)، پسندیدہ عمل اور مستحب شرعی ہے۔

قسم دوم:

حضرت مہدی (ع) حتمی طور پر اس سنت رسول اور عمل شرعی پر عمل کرتے ہیں۔

دونوں اقسام غور و تحقیق کی محتاج ہیں:

شادی کا مستحب ہونا آیات اور روایات سے ثابت ہوتا ہے، جیسے آیت

فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَآءِ ،

اور آیت وَأَنكِحُواْ الاْيَـمَي مِنكُمْ وَالصَّــلِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَآلـِكُمْ ،

اور اسی طرح رسول خدا (ص) نے اپنی حدیث میں شادی کو اپنی سنت قرار دیا ہے اور اپنی دوسری حدیث میں فرمایا ہے کہ:

جو بھی میری اس سنت سے منہ موڑے گا، وہ مجھ سے نہیں ہو گا،

اور دوسری روایات میں شادی کرنے کو پسندیدہ اور ممدوح عمل کہا گیا ہے۔

اپنی نسل بڑھانے اور اسکو باقی رکھنے پر بہت تاکید ہوئی ہے اور مسلمین کی کثرت پر روز قیامت رسول خدا (ص) دوسری امتوں پر فخر و مباہات کریں گے۔

شادی کرنے کی اہمیت اور تشویق کرنے کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ:

جو بھی شادی کرتا ہے تو وہ اپنے آدھے دین کو حفظ کر لیتا ہے،

امام صادق (ع) نے بھی فرمایا ہے کہ:

شادی شدہ انسان کی دو رکعت نماز، غیر شادی شدہ شخص کی ستّر (70) رکعت نماز سے بہتر و افضل ہے۔

اور اسی طرح انہی روایات کے مقابلے پر شادی نہ کرنے کی مذمت پر بھی بہت سی روایات ذکر ہوئی ہیں اور آئمہ (ع) نے بھی شادی نہ کرنے کو مکروہ اور نا پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔

مذکورہ آیات ، روایات ، وجود الفاظ جیسے لفظ انکحوا آیت میں، روایات میں شادی کرنے کی ترغیب دلانا اور سنت رسول خدا (ص) پر عمل کرنے کی تشویق دلانا، ان تمام سے فقہائے اسلام نے شادی کرنے کے مستحب شرعی ہونے پر استدلال کیا ہے اور بعض فقہاء نے شادی کے مستحب ہونے اور بعض فقہاء نے مستحب مؤکد ہونے پر فتوا دیا ہے اور بعض فقہاء نے تو بعض حالات کے مطابق شادی کرنے کے واجب ہونے کا بھی فتوا دیا ہے۔

پس

اوّلا:  

شادی کرنا، چاہے دائمی شادی کی صورت میں ہو اور چاہے غیر دائمی شادی (متعہ) کی صورت میں، مستحب شرعی ہے۔

ثانياً:  

شادی کرنے کا مستحب ہونا صرف انکے ساتھ مخصوص نہیں ہے کہ جو شادی کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، بلکہ انکے لیے بھی مستحب ہے کہ جو اپنے آپ میں شادی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

وہ روایات کہ جو کنوارے پن کو مکروہ قرار دیتی ہیں ان میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی کرنے کا مستحب ہونا، یہ استحباب زندگی کے آخر تک باقی رہتا ہے، یعنی زندگی کے جس حصے میں بھی انسان شادی کر لے تو اس مستحب پر عمل ہو جاتا ہے،

پس شادی کرنے کے مستحب ہونے پر عمل کرنا یہ اس صورت میں کافی ہے کہ یہ عمل باقی اور جاری رہے، نہ فقط یہ کہ انسان ایک دفعہ شادی کر کے شادی کو ختم کر دے، جیسا کہ یہ استحباب صرف ایک بیوی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ایک سے زیادہ بیویوں کا ہونا بھی شرعی مستحب ہے۔

پس پہلی قسم ( شادی کرنا سنت رسول اور شرعی مستحب ہے) سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ:

1- شادی کرنا شرعی مستحب ہے، خواہ شادی کرنے کی ضرورت محسوس ہو یا ضرورت محسوس نہ ہو، خواہ یہ شادی دائمی ہو یا یہ شادی موقت (متعہ) ہو۔

2- یہ استحباب باقی اور جاری رہتا ہے اور انسان کی تمام عمر کو شامل ہوتا ہے۔

3- ایک سے زیادہ بیویوں کا ہونا بھی مستحب ہے۔

اور دوسرا مقدمہ ( امام معصوم کا سنت رسول پر اور شرعی مستحب پر عمل کرنا لازم و ضروری ہے ) ذہن میں سوالات ایجاد کرتا ہے، جیسے:

مستحبی امور کے زیادہ ہونے کی وجہ سے کیا امام ان تمام پر عمل کرتے ہیں ؟

یا یہ کہ ان مستحبات میں سے امام بعض کو انتخاب کرتے ہیں ؟

کیا امور مستحب پر عمل کرنا امام کے لیے لازمی اور ضروری ہے ؟

بغیر کسی شک و تردید کے آئمہ (ع) کے ذمہ پر انبیاء (ع) کی طرح انسانیت کی ہدایت کا عہدہ ہوتا ہے اور وہ خدائی راہنما شمار ہوتے ہیں، اسی وجہ سے دینی احکام پر عمل کرنے میں وہ دوسروں کی نسبت پیش قدم ہوتے ہیں، لہذا انکا عہدہ اور مقام تقاضا کرتا ہے کہ وہ پہلے خود احکام الہی پر عمل کریں تا کہ دوسروں کے لیے عملی نمونہ بن سکیں، پس امام معصوم بھی مستحبات پر عمل کرتے ہیں۔

لہذا امام کے مستحبات پر لازمی طور پر عمل کرنے کے بارے میں دو نکتے ہیں:

1- امام معصوم کے دوسروں کے لیے ہادی ، راہبر اور عملی نمونہ ہونے کا تقاضا ہے کہ امام اپنی زندگی اور دوسروں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں احسن طریقے سے عمل کرے اور واجبات و مستحبات پر عمل کرنے میں دوسروں پر پیش قدم ہو۔

2- انسان کامل کے مقام و منزلت کا تقاضا ہے کہ وہ شرعی مستحبات پر عمل کرے۔

بے شک پہلا نکتہ تو امام کی غیبت کے زمانے میں ممکن نہیں ہے کیونکہ امام زمان تو عام لوگوں کی نظروں کے سامنے نہیں ہیں، انکی امامت باطن میں ہے ظاہر میں نہیں ہے۔

لیکن دوسرا نکتہ مطلوب تک پہنچنے کے لیے کافی ہے، یعنی یہ کہ امام مستحبات شرعی کو انجام دینے میں دوسروں کی نسبت پابند تر ہوتا ہے۔

گذشتہ دو مقدمات کی روشنی میں بعض معتقد ہیں کہ امام زمان نے غیبت کے دوران شادی کی ہے اور انکے بیوی بچے بھی ہیں۔

ب: روايات سے استدلال:

بعض جو حضرت مہدی (ع) کی شادی کے قائل ہیں، وہ اپنی دلیل میں بعض روایات کو ذکر کرتے ہیں، جیسے:

1ـ مفضّل ابن عمر نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ امام نے فرمایا کہ: انکی جگہ کے بارے میں انکی کسی اولاد اور دوسروں کو کچھ پتا نہیں ہے۔

اس روایت میں جب حضرت مہدی (ع) کے زندگی کرنے کی جگہ کے بارے میں بات ہوتی ہے تو امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ اسکے بارے میں کسی کو بھی پتا نہیں ہے حتی انکی اولاد کو بھی پتا نہیں ہے، پس معلوم ہوتا ہے کہ ان امام کی اولاد ہے اور اولاد ہونا خود اس بات کی علامت ہے کہ انھوں نے شادی بھی کی ہے۔

اس روایت میں غور کرنے سے چند نکات معلوم ہوتے ہیں کہ جو دلالت کرتے ہیں کہ اس روایت سے حضرت مہدی (ع) کی شادی کرنے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے، جیسے:

الف ـ 

یہی روایت کتاب الغیبت نعمانی میں بھی نقل ہوئی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ اس کتاب میں لفظ ولد کی جگہ پر لفظ ولی آیا ہے:

ولا يطّلع علي موضعه أحد من وليّ ولا غيره ،

انکے مکان کے بارے میں کوئی ولی و غیر ولی آگاہ نہیں ہے، یعنی دوست و دشمن، آشنا و نا آشنا کسی کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کس جگہ پر رہتے ہیں۔

اس روایت میں کسی اولاد وغیرہ کا ذکر نہیں ہے، لہذا اس روایت کے ہوتے ہوئے مفضل ابن عمر سے نقل ہونے والی روایت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

ب ـ 

روایت میں اولاد کا ذکر ہوا ہے، لیکن اسکا یہ معنی نہیں ہے کہ ابھی امام کے بیوی بچے ہیں، کیونکہ ممکن ہے کہ اس اولاد سے مراد وہ اولاد ہو کہ جو ظہور کے نزدیک یا ظہور کے بعد دنیا میں آئے گی، (اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال)

ج ـ 

ممکن ہے کہ یہ روایت اور اسطرح کی دوسری روایات میں مطلب کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حضرت مہدی (ع) کی غیبت کے دوران کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کہاں رہتے ہیں، حتی اگر انکی کوئی اولاد بھی ہوتی تو اسکو بھی اس بارے میں کوئی علم نہ ہوتا۔  

د ـ 

یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا ایک راوی ابراہيم ابن مستنير ہے اور دوسری جگہ پر عبد اللّه ابن مستنير ذکر ہوا ہے کہ ہر دو مجہول ہیں۔

ان نکات کی روشنی میں عصر غیبت میں امام زمان (عج) کی شادی پر استدلال کرنا بہت مشکل بلکہ بہت بعید نظر آتا ہے۔

ن ـ 

سيّد ابن طاؤوس نے امام رضا (ع) سے نقل کیا کہ امام نے فرمایا کہ:

خدایا امام زمان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور انکی خوشحالی کو خود ان میں، انکے خاندان میں، انکی اولاد میں، انکی نسل میں اور انکے تمام پیروکاروں میں قرار فرما۔

اس روایت میں حضرت مہدی (ع) کے خاندان اور اولاد کا ذکر ہوا ہے، لیکن کیونکہ معلوم نہیں ہے کہ یہ اولاد ظہور سے پہلے ہے یا ظہور کے بعد ہو گی، اس لحاظ سے یہ روایت مجمل و مبہم ہو جائے گی اور ایسی روایت کو علمی استدلال کے طور پر ذکر نہیں کیا جا سکتا۔

و ـ 

ابو بصير نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ امام نے فرمایا کہ:

کان اری نزول القائم فی مسجد السهله باهله و عیاله-

گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے قائم نے اپنے خاندان کے ساتھ مسجد سہلہ میں سکونت اختیار کی ہوئی ہے، ابو بصیر کہتا ہے کہ میں نے سوال کیا کہ: کیا انکا وہاں گھر ہے ؟ امام صادق (ع) نے فرمایا: ہاں، ابو بصیر کہتا ہے کہ میں نے کہا کہ کیا قائم ہمیشہ اسی مسجد میں ہیں ؟ امام نے فرمایا: ہاں۔

یہ روایت بھی حضرت مہدی (ع) کی اولاد کا ذکر کر رہی ہے لیکن معلوم نہیں کہ لازمی طور پر یہ اولاد ظہور سے پہلے ہی ہو گی، ممکن ہے کہ اس اولاد سے مراد ظہور کے بعد اولاد ہو، جیسا کہ بہت سی روایات میں یہی مطلب ذکر ہوا ہے، کہ ان روایات کو بعد میں ذکر کیا جائے گا۔

2- علامہ مجلسی نے کتاب بحار الانوار میں علی ابن فاضل سے روایت نقل کی ہے کہ اس روایت میں ایک مکان اور جزیرے کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ وہاں حضرت مہدی (ع) کی نسل اور اولاد رہتی ہے، وہاں ایک اسلامی معاشرہ موجود ہے اور حکومت بھی اسلامی حاکم ہے، وہ جگہ نا معلوم ہے اور ہر کوئی وہاں پر نہیں جا سکتا۔

یہ روایت بھی ثابت نہیں کر سکتی کہ حضرت مہدی (ع) نے شادی کی ہے اور اسکے نتیجے میں انکی اولاد بھی ہے اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک خاص جگہ پر زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ

اولاًّ : اس روایت کے بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت خود علامہ مجلسی کے نزدیک زیادہ معتبر نہیں تھی، کیونکہ اس نے کہا ہے کہ:

میں نے اس حدیث کو معتبر کتب میں نہیں دیکھا، اس لیے میں نے اسکو الگ اور جدا گانہ طور پر ذکر کیا ہے۔

ثانياً : یہ داستان اپنے تمام تناقضات کے ساتھ اور بعض راویوں کے مجہول ہونے کی وجہ سے قابل استناد و استدلال نہیں ہے، حتی بعض محققین نے وسیع تحقیق کے نتیجے میں ثابت کیا ہے کہ جزیرہ خضراء حقیقت نہیں بلکہ ایک جعلی داستان ہے کہ جو کسی بھی صورت میں قابل اعتماد و استناد نہیں ہے۔

بعض جیسے آقا بزرگ تہرانی نے کہا ہے کہ:

یہ ایک خیالی داستان ہے، (یعنی اسکی کوئی حقیقت و اصل نہیں ہے)

3- وہ روایت کہ جو ابن طاؤوس نے امام رضا (ع) سے نقل کی ہے کہ امام نے فرمایا:

اللّهمّ صلّ علي ولاة عهده والأئمّة من ولده ،

ابن طاؤوس کہتا ہے کہ یہی روایت اس طرح سے بھی نقل ہوئی ہے:

اللّهمّ صلّ علي ولاة عهده والأئمّة من بعده ،

یہ روایت بھی ثابت نہیں کر سکتی کہ حضرت مہدی (ع) کی اولاد ہے، کیونکہ یہ روایت دو طرح سے نقل ہوئی ہے اور معلوم نہیں ہے کہ اولاد سے مراد ان حضرت کے بعد والی اولاد ہے، یا انکے بعد آنے والے آئمہ ہیں، پس اس روایت کی دلالت ہی واضح نہیں ہے۔ اسکے علاوہ یہ دونوں روایات حضرت مہدی (ع) کے ظہور کے بعد کے دور کی ہیں نہ کہ قبل از ظہور۔

ه -

صاحب كتاب الشموس المضيئۃ نے حضرت مہدی (ع) کی رہائش اور انکے خاندان کے بارے میں سات روایات کو نقل کرنے کے بعد ایسے نتیجہ نکالا ہے کہ:

ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کی رہائش اور انکا خاندان بھی ہے، اگرچہ انکی تفصیل کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں ہے۔

پھر مزید لکھتا ہے کہ علامہ مجلسی کی نقل کردہ جزیرہ خضراء کی داستان اور اسی داستان سے ملتی جلتی داستان کتاب اثبات الھداۃ سے ذکر کرتا ہے، لیکن اس قید کے ساتھ کہ اس جزیرے میں شیعیان کی تعداد تمام دنیا کے انسانوں کی تعداد سے زیادہ ہے اور ان جزیروں میں حضرت مہدی (ع) کا ایک ایک بیٹا حکومت کرتا ہے، ان سب کو نقل کرنے کے بعد مزید ایسے لکھا ہے کہ:

ان حضرت کی طولانی و مبارک عمر کے پیش نظر ممکن ہے کہ انکے بیوی بچے بھی ہوں کہ بعض مر گئے ہوں اور بعض زندہ ہوں، پس حضرت کے بیٹے، نواسے اور پوتے بہت زیادہ ہوں گے کہ جنکو شمار کرنا شاید ممکن نہ ہو۔

كتاب الشموس المضيئۃ سے نقل شدہ مطالب کے بارے میں چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:

اوّلا :  

ان سات روایات سے حضرت مہدی (ع) کی شادی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ پھر اس سے انکی اولاد اور رہائشگاہ کو بھی ثابت کیا جا سکے، کیونکہ ان روایات میں سے بعض وہی روایات ہیں کہ جنکی طرف پہلے ہم نے اشارہ کیا ہے، اور بعض دوسری روایات کا معنی واضح نہیں ہے کہ ان حضرت کے بیوی بچے موجود ہیں اور بعض روایات ان حضرت کی غیبت اور انکی جگہ کے بارے میں عدم علم سے تضاد رکھتی ہیں۔

ثانياً

اولاد کا زیادہ ہونا، غیبت کے فلسفے سے منافات رکھتا ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ اولاد اپنے حسب و نسب کو جاننا چاہتی ہو اور اس سے پردے میں موجود ساری باتیں فاش ہونے کا خطرہ ہو گا۔

ثالثاً

 کتاب اثبات الھداۃ کی نقل کے مطابق کہ جزیرے میں شیعیان کی تعداد، تمام دنیا کے انسانوں سے زیادہ ہے، یہ بات آج کی علمی ، جغرافیائی اور انٹرنیٹ کی دقیق معلومات کے دور میں کیسے ممکن ہے کہ چند کروڑوں اور چند اربوں کی تعداد پر مشتمل جمعیت والی جگہ دنیا کے نقشے میں نہ ہو اور جدید سائنسی آلات بھی اس جگہ سے لا علم ہوں، کیونکہ آج علمی ترقی نے زمین کے نیچے تک رسائی حاصل کر لی پس کیسے ممکن ہے کہ خود زمین پر رہنے اتنی گنجان آبادی والی جگہ کا کسی کو علم نہ ہو ؟ !

بہرحال ایسے عجیب و غریب مطالب دلیل قاطع نہیں ہے کہ حضرت مہدی (ع) نے شادی کی ہو ، انکے بیوی بچے اور رہائشگاہ بھی موجود ہو۔

ي ـ 

بعض نے ممکن ہے ان حضرت کی شادی اور اولاد کو ثابت کرنے کے لیے، انکی مشہور کنیت " ابا صالح " کو دلیل کے طور پر پیش کریں اور کہیں کہ اس کنیت کا معنی صالح کا باپ، اور یہ واضح دلیل ہے کہ انکا ایک بیٹا ہے کہ جسکا نام صالح ہے۔

یہ دلیل بھی صحیح نہیں ہے، کیونکہ:

اوّلا : معتبر کتب میں تحقیق اور جستجو کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کنیت حضرت مہدی (ع) کے بارے میں نقل نہیں ہوئی، بلکہ ظاہری طور پر ایسے معلوم ہوتا ہے کہ عام لوگوں کے درمیان یہ کنیت زیادہ استعمال ہونے کیوجہ سے مشہور ہو گئی ہے۔ مثلا جیسے کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ کنیت اس آیت سے لی گئی ہو:

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنم بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الاْرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّــلِحُونَ،

جیسے بعض نے کہا ہے کہ اس میں کیا حرج ہے کہ ہم ان حضرت کو کہیں ابا صالح، یعنی تمام نیکیوں اور تمام خوبیوں کے باپ۔

اور ممکن ہے کہ بعض ان احادیث سے استدلال کریں کہ جن میں لفظ ابا صالح اور صالح ذکر ہوا ہے۔

مرحوم علامہ مجلسی نے بھی اس بارے میں کتاب بحار الانوار میں ایک داستان نقل کی، حالانکہ ان احادیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صالح یا ابا صالح ایک جنّ کا نام ہے کہ جس کا وظیفہ بھٹکے ہوئے افراد کی راہنمائی کرنا ہے۔

كتاب من لا يحضره الفقيہ میں ذکر ہوا ہے کہ امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: جب بھی تم میں سے کوئی راستہ بھٹک جائے تو بلند آواز سے کہو یا صالح ! یا کہو یا ابا صالح خداوند تم پر رحمت کرے ہمیں راستہ دکھا‎ؤ۔

مرحوم مجلسی نے ان افراد کے بارے میں حکایات اور داستانوں کو لکھتے ہوئے، ایک داستان کو اپنے والد سے نقل کیا ہے اور اس نے بھی اس داستان کو امیر اسحاق استر آبادی نامی شخص سے نقل کیا ہے، یہ شخص چالیس (40) مرتبہ پیدل حج کرنے کے لیے مکہ گیا، اس نے نقل کیا ہے کہ میں اپنے ایک سفر میں اپنے قافلے سے جدا ہو گیا اور راستے سے بھٹک گیا، وہ اس نے اسی حیرت و پیاس کی حالت میں اونچی آواز سے کہا یا صالح یا ابا صالح میری راہنمائی کریں۔ اچانک اس نے دیکھا کہ ایک شخص دور سے آتا ہوا دکھائی دیا، اس نے اسکی قافلے کی طرف راہنمائی کی، وہ کہتا ہے کہ اس واقعے کے بعد میں متوجہ ہوا کہ وہ حضرت مہدی تھے۔

واضح ہے کہ یہ واقعہ علمی لحاظ سے دلیل بننے کے قابل نہیں ہے، کیونکہ یہ صرف ایک داستان ہے اور معلوم نہیں کہ جس شخص نے راستہ دکھایا تھا وہ واقعا امام زمان (ع) تھے یا کوئی دوسرا شخص تھا۔

ثانياً : لفظ « أب » کے لغت عرب میں معانی دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کا معنی صرف باپ نہیں ہے، بلکہ یہ لفظ بمعنی صاحب، دوست وغیرہ بھی استعمال ہوا ہے۔

اسی طرح رسول خدا (ص) کی حدیث:

میں اور علی اس امت کے باپ ہیں، سے واضح ہوتا ہے کہ ابا صالح والی کنیت سے مراد یہ نہیں کہ وہ صالح نامی بیٹے کے والد ہیں، بلکہ ابا صالح سے مراد ایسا شخص ہے کہ جسکے اختیار میں صالح اور نیک افراد ہوں۔

پس اس کنیت کے بارے میں مختلف رائے و معانی کے پیش نظر، اس کنیت سے یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت مہدی (ع) نے شادی کی ہے اور انکی اولاد بھی ہے۔

کیا حضرت مہدی (عج) کی شادی فلسفہ غیبت کے ساتھ ساز گار ہے ؟

نظريہ دوّم:

بعض معتقد ہیں کہ ان حضرت نے شادی نہیں کی اور انکی دلیل یہ ہے کہ:

چون امام کی شادی غیبت کے فلسفے سے سازگار نہیں ہے، کیونکہ شادی کا مطلب بیوی بچوں کا ہونا ہے اور یہی بات سبب بنتی ہے کہ عام لوگوں میں ان حضرت کی پہچان اور شناخت ہو جائے اور انکے اسرار بھی فاش ہو جائیں۔

اسکے علاوہ غیبت یعنی شخص کا مخفی ہونا ہے، یعنی شخص دیکھا اور پہچانا نہ جاتا ہو، حالانکہ شادی کرنے سے انسان کی شناخت ہو جاتی ہے، کوئی دوسرا نہیں تو شادی کرنے سے کم از کم انسان کو اسکی بیوی اور اسکا خاندان ہی پہچان لیتا ہے۔

غیبت کا فلسفہ روایات میں قتل ہونے کے خطرے کو بیان کیا گیا ہے، امام صادق (ع) نے حضرت مہدی (ع) کے بارے میں فرمایا ہے کہ:

مہدی کے قیام کرنے سے پہلے انکے لیے غیبت ہو گی، کسی نے پوچھا: غیبت کیوں ہو گی ؟ فرمایا: وہ ڈرتے ہیں، یہ کر امام صادق (ع) نے اپنے دست مبارک سے اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔

امام صادق (ع) کی اس اشارے سے مراد، حضرت مہدی (ع) کے قتل ہونے کا خطرہ تھا،

اور اسی طرح امام سجاد (ع) سے نقل ہوا ہے کہ امام نے فرمایا کہ:

ہمارے قائم میں گذشتہ انبیاء کی سنتیں پائی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔ حضرت موسی (ع) کی سنت کہ جو ان میں پائی جاتی ہے، وہ خوف اور غیبت ہے۔

پس غیبت کا فلسفہ، لوگوں سے دور اور پنہان ہونا ہے تا کہ ان حضرت کو کسی قسم کا کوئی نقصان و خطرہ لاحق نہ ہو سکے اور انکے دشمن بھی انکو کوئی شرّ نہ پہنچا سکیں، اور شادی اس فلسفے سے منافات رکھتی ہے۔  

پس نتیجے کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ: شادی کرنا ایک مستحب اور مہم کام ہے، جبکہ اسرار کو حفظ کرنا اور دشمنوں کے شرّ سے جان کی حفاظت کرنا ایک اہم کام ہے، اور جب بھی ایک کام مہم اور دوسرا کام اہم آمنے سامنے ہوں تو عقل کا فیصلہ ہے کہ اہم کام کو انتخاب کیا جاتا ہے۔

یعنی فلسفہ غیبت کی مصلحت اہم و زیادہ ہے لیکن شادی کرنے کی مصلحت مہم و کم ہے، لہذا غیبت کا فلسفہ، مانع ہو گا شادی کرنے، اب جب شادی کرنے میں عقلی رکاوٹ موجود ہے تو حضرت مہدی (ع) کا شادی نہ کرنا، یہ سنت رسول سے روگردانی شمار نہیں ہو گا، کیونکہ انھوں نے تو جان بوجھ کر شادی کرنے سے انکار نہیں کیا، بلکہ انھوں نے مہم تر کام کی خاطر کم مہم کام کو قربان کیا ہے۔

بحث و تحقیق:

مذکورہ دلیل کا ممکن ہے کوئی جواب دیتے ہوئے کہے کہ مخفی زندگی گزارنا اور جان کو خطرہ ہونا، یہ شادی کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، کیونکہ روایات میں جان کے خطرے کے علاوہ دوسرے بھی اسباب، غیبت کے فلسفے کے طور پر ذکر ہوئے ہیں، جیسے

الف: ان مؤمنین کا دنیا میں آنا کہ جو کافر افراد کے صلب میں ہیں:

اس بارے میں امام صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ:

ہم اہل بیت کے قائم جب تک وہ (مؤمنین) تمام کہ جو اپنے آباء کے صلبوں میں موجود ہیں، خارج نہ ہوں (یعنی جب تک وہ دنیا میں نہ آ جائیں) وہ ظہور نہیں کریں گے اور جب سب صلبوں سے خارج ہو جائیں گے تو وہ حضرت دشمنان خداوند پر غالب آ کر ان سب کو قتل کر دیں گے۔ 

ب: امتحان خداوند:

امام کاظم (ع) نے اپنے بھائی علی ابن جعفر سے فرمایا:

اس امر کے صاحب (امام مہدی) کے لیے غیبت ہو گی کہ بعض ان پر اعتقاد رکھنے والے بھی ان سے دور ہو جائیں گے، یہ غیبت خداوند کے پاس وسیلہ ہے کہ جسکے ذریعے سے وہ اپنی مخلوق کا امتحان لے گا۔ 

ج: اسرار الہی میں سے ایک سرّ:

امام صادق (ع) نے ایک روایت میں فرمایا ہے کہ: اس امر کے صاحب کے لیے غیبت ہے کہ جسکا کوئی چارا ہی نہیں ہے (یعنی حتمی طور پر ہو گی) راوی نے امام سے سوال کیا: ایسا کیوں ہو گا ؟ امام نے فرمایا: ایک ایسی دلیل کی خاطر کہ جسکو بیان کرنے کی ہمیں اجازت نہیں دی گئی، راوی نے دوبارہ پوچھا: انکی غیبت کی حکمت و فلسفہ کیا ہے ؟ امام نے فرمایا: وہی حکمت ہے کہ جو دوسرے اولیاء کی غیبت میں پائی جاتی تھی کہ یہ حکمت ظہور کے بعد ظاہر ہو گی، جیسے حضرت خضر کے کاموں کی حکمت حضرت موسی کے لیے، ان دونوں کی آپس میں جدائی کے وقت تک ظاہر نہیں ہوئی تھی، پھر امام نے فرمایا: اے ابن فضل ! یہ امر (غیبت)، امر خداوند میں سے ہے اور اسرار الہی میں سے ایک سرّ اور خداوند کے غیبوں میں سے ایک غیب ہے۔

ان مذکورہ موارد اور دوسرے موارد کہ جنکو بعنوان فلسفہ غیبت ذکر کیا گیا ہے، توجہ کرتے ہوئے نہیں کہا جا سکتا کہ غیبت کا فلسفہ صرف جان کا خطرہ ہے کہ جو حضرت مہدی (ع) کے شادی کرنے سے منافات رکھتا ہے۔

شہید سید محمد صدر نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

اگر قبول کر لیں کہ حضرت مہدی کی غیبت کا معنی انکا نظروں سے مخفی ہونا ہے، حالانکہ وہ لوگوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں اور وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں، لیکن وہ لوگ ان حضرت کو نہیں دیکھتے، اس صورت میں کہا جانا چاہیے کہ ان حضرت نے شادی نہیں کی اور وہ ظہور کے زمانے تک مجرد رہیں گے۔

اور یہ بات کوئی عجیب و بعید نہیں ہے کیونکہ ہر چیز جو غیبت کے ساتھ تضاد رکھتی ہو اور ان حضرت کی جان کو خطرے میں ڈالنے والی ہو، وہ چیز ان حضرت کے لیے جائز نہیں ہے، اس لیے کہ شادی کرنا ان حضرت کے امر غیبت و امامت کے ظاہر ہونے کا باعث بن سکتی ہے، جس سے ان حضرت کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے، اس لیے شادی کرنا جائز نہیں ہے، اسکے علاوہ شادی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ حضرت دوسروں کے سامنے ظاہر ہوں اور یہ وہی چیز ہے کہ جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

اور یہ فرض کرنا کہ وہ صرف اپنی بیوی کے لیے ظاہر ہوں تو اس صورت میں وہ شادی کر سکتے ہیں اور انکی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا، اگرچہ عقلی طور پر یہ فرض کرنا ممکن ہے، لیکن یہ فرض بہت ہی بعید و مشکل ہے بلکہ نا ممکن ہے، کیونکہ ایسی عورت کہ جسکو حضرت مہدی اپنی حقیقت کے بارے میں بتائیں اور پھر بھی انکی جان کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ ہو تو دنیا میں ایسی کوئی بھی عورت نہیں ہے۔

اور اگر غیبت کا معنی یہ ہو کہ ان حضرت کا امام اور حجت خدا ہونے کا عنوان و منصب غائب و مخفی ہو اور لوگوں میں بغیر کسی شناخت کے زندگی گزاریں کہ کوئی بھی انکو پہچاننے والا نہ ہو تو، اس صورت میں شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اس صورت خود انکی بیوی کو معلوم نہیں ہو گا کہ یہ امام غائب اور حجت خدا ہیں، اس صورت میں انکی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا کہ جو غیبت کے فلسفے سے منافات رکھتا، لہذا اس صورت میں شادی کرنا بالکل صحیح ہو گا، البتہ اگر بیوی کے ساتھ تھوڑا عرصہ زندگی گزارنے کے بعد اسکو شک ہو کہ میرا شوہر بوڑھا نہیں ہو رہا، مریض وغیرہ نہیں ہو رہا تو اس صورت اسکو ان حضرت کی حقیقت پر شک تو اس صورت میں حضرت اسکو طلاق دے کر کسی دوسرے شہر جا کر دوبارہ شادی کر کے نئی زندگی شروع کر سکتے ہیں۔

پھر شہید صدر کہتے ہیں کہ: اب جب ثابت ہو گیا کہ حضرت مہدی کا زمان غیبت میں شادی کرنا ممکن ہے، پس ممکن ہے کہ ہم کہیں کہ یہ کام واقع بھی ہوا ہے، کیونکہ وہ حضرت سنت اسلامی پر عمل کرنے میں دوسروں کی نسبت مقدم تر و مناسب تر ہیں، خاص طور پر اگر معتقد ہوں کہ ایک امام معصوم جتنی حد تک ممکن ہو مستحبات پر عمل کرتا اور مکروہات کو ترک کرتا ہے۔

عصر غیبت میں شادی نہ کرنے کے قائلین کی دلیل، اسکی دلیل کے جواب اور شہید محمد صدر کے کلام میں غور کرنے سے چند نکات معلوم ہوتے ہیں:

1- غیبت کے وہ مذکورہ اسباب کہ جو روایات سے معلوم ہوتے ہیں، یہ اسباب ایک دوسرے کے مقابل نہیں ہیں، یعنی اگر غیبت کا سبب لوگوں کا امتحان ہو تو، اس سبب میں جان کے خطرے اور قتل ہونے کا سبب موجود نہیں ہے، بلکہ یہ تمام اسباب ترتیب وار ہیں یعنی ایک دوسرے کے طول میں ہیں، لہذا دوسرے اسباب غیبت بیان کرنے کے ساتھ حضرت مہدی کی شادی کے قائل نہیں ہو سکتے، کیونکہ جب غیبت کا سبب جان کا خطرہ ہو گا تو، اسی وقت سبب شیعیان کا امتحان بھی ہو گا، یعنی جان کے خطرے والا سبب دوسرے اسباب میں بھی شامل ہو گا۔

2- شہید صدر کے کلام میں غیبت کی دو صورتیں ذکر ہوئی ہیں، ایک صورت مقام و منصب کا مخفی ہونا، دوسری صورت جسم و بدن کا مخفی ہونا، اور شادی کے مسئلے کو مقام و منصب کے مخفی ہونے کی صورت میں صحیح قرار دینا، یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے، کیونکہ ہم مقام و منصب کے مخفی ہونے اور جسم و بدن کے مخفی ہونے کا یقین و اطمینان نہیں کر سکتے کیونکہ ممکن ہے وہ حضرت کبھی منصب کے لحاظ سے مخفی ہوں اور کبھی بدن کے لحاظ سے مخفی ہوں، جیسا کہ یہ معنی روایات سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

3- شہید صدر کی یہ رائے کہ حضرت مہدی کے لیے نیک ، با اخلاق ، راز دار اور ھم کفو عورت اس دنیا میں نہیں ہے، یہ بات شہید صدر سے بہت ہی حیرت انگیز ہے، کیونکہ صالح و معنوی صفات و کمالات سے آراستہ خواتین ہر زمانے میں موجود ہوتی ہیں، جیسے حضرت مریم، حضرت آسیہ، حضرت خدیجہ اپنے اپنے زمانے میں دوسروں کے لیے عملی نمونہ خواتین تھیں اور اب بھی ہیں، اسکے علاوہ روایات میں ذکر ہوا ہے کہ امام زمان (ع) کے 313 خاص اصحاب و انصار میں سے 50 خواتین ہوں گی۔

اگر بعض خواتین امام زمان کی خاص انصار میں سے ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں تو کیا اس میں کیا حرج ہے کہ وہ حضرت انہی خواتین میں سے ایک با سیرت و با کردار خاتون کو شادی کے لیے انتخاب کر لیں۔

4- ظاہری طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بدن کے لحاظ سے مخفی ہونے کے فرض میں ان حضرت کے لیے شادی کرنا ممکن ہے، شہید صدر کی رائے کے بر خلاف، کیونکہ انکے بدن کا مخفی ہونا ہمیشہ کے لیے اور دائمی نہیں ہے، اسکے علاوہ جیسے حضرت مہدی کا بدن اپنے خواص نائب و انصار کے لیے مخفی نہیں ہے، اسی طرح اپنی صالح با سیرت بیوی کے لیے بھی مخفی نہیں ہو سکتا۔

کیا اس بارے میں سکوت بہتر نہیں ہے ؟

نظریہ سوم:

بعض کہتے ہیں کہ ایسے مسائل کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ سکوت اختیار کرنا بہتر ہے، اور ان جیسے سوالات کے بارے میں " مجھے علم نہیں ہے " اور " میں نے نہیں جانتا " جیسے الفاظ زبان پر جاری کرنے چاہیے۔ اس لیے کہ حضرت مہدی (ع) کا شادی کرنا یا شادی نہ کرنا، یہ ہمارے اصول دین یا فروع دین کا حصہ نہیں ہے، کیونکہ ہمارے عقائد کی بحث میں ذکر نہیں ہوا کہ اس امام زمان (ع) پر اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ جس نے شادی کی ہے یا جس نے شادی نہیں کی اور کل قبر میں بھی ہم سے اس بارے میں کسی قسم کا سوال نہیں پوچھا جائے گا۔ ایسے موضوعات ہر امام معصوم کی حیات طیبہ کے ذاتی مسائل ہیں، حتی ایسے مسائل روایات میں بھی ذکر نہیں کیے گئے اور خود امام عسکری (ع) نے بھی اپنے فرزند کی شادی کے بارے کوئی بات نہیں فرمائی۔

اگر ہم تاریخ غیبت صغری و غیبت کبری کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ایسے مسائل بالکل ہی مورد بحث وغیرہ نہیں تھے، حتی جن صاحبان ایمان و تقوا افراد نے ان حضرت سے ملاقات کا شرف پایا ہے، انھوں نے بھی حضرت سے انکی شادی کے بارے میں سوال نہیں کیا۔ اکثر اوقات سیاسی مشکلات، ملاقات کرنے والوں کے مادی و معنوی اور علمی سوالات باعث بنتے تھے کہ وہ ایسے سوالات کرنے سے غافل رہیں۔

تحقیق و بحث:

درست ہے کہ ایسے مسائل ذاتی ہیں اور انکو جاننے یا نہ جاننے کا ہماری زندگی پر کوئی خاص اثر نہیں ہے، لیکن ہمارے آئمہ (ع) دوسرے عام انسانوں کی طرح نہیں تھے کہ ہم انکے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہ کریں، اس لیے کہ وہ ہمارے دینی ہادی اور راہبر کہ جو متعدد آیات و روایات کی روشنی میں معصوم اور خطا و گناہ سے پاک و محفوظ ہیں۔

لہذا انکے چاہنے والے اور شیعیان پسند کرتے ہیں کہ مسائل سیاسی کی طرح انکے ذاتی اور خاندانی امور کے بارے میں انکی سیرت و سنت سے آشنا ہوں تا کہ اپنے اور دوسروں کے اذہان میں آنے والے اس طرح کے سوالات کا مناسب جواب دیں سکیں اور یہ مسئلہ حضرت مہدی (ع) کے ساتھ خاص نہیں ہے، جیسا کہ بعض 1400 سال گزرنے کے باوجود آج تک سوال کرتے ہیں کہ:

رسول خدا (ص) نے عائشہ اور حفصہ سے کیوں شادی کی تھی ؟

امام حسن (ع) نے کیوں جعدہ سے شادی کی تھی ؟

یا امام جواد (ع) نے کیوں اپنے والد گرامی کے قاتل کی بیٹی ام فضل سے شادی کی تھی ؟

کیا ان سے امام جواد (ع) کی کوئی اولاد تھی ؟

امام زمان (عج) بھی ان جیسے سوالات سے مستثنی نہیں ہیں، بلکہ ان حضرت کے قیام و آخر الزمان اور انکی عالمی حکومت کی وجہ سے انکی شخصیت اور ذاتی امور کے بارے میں زیادہ سوالات اذہان میں جنم لیتے ہیں۔

پس ان حضرت کی ذاتی زندگی کے بارے میں بحث و سوال کرنے میں کوئی رکاوٹ و حرج نہیں ہے، اگرچہ حضرت مہدی (ع) کے دنیا میں آنے اور انکے اچانک نظروں سے غائب ہونے والے حالات کی وجہ سے انکی ذاتی زندگی کے بارے زیادہ معلومات ہمارے پاس نہیں ہیں اور ہم اس بارے میں دلائل کے ظاہری معانی پر اکتفاء کرنے پر ناچار ہیں۔

 نتیجہ تحقیق:

پہلے نظرئیے (حضرت مہدی کے شادی کرنے کا نظریہ) کے دلا‏ئل یا تو قابل ردّ ہیں یا انکی دلالت واضح نہیں ہے یا یہ دلائل ان حضرت کے ظہور کے بعد والے زمانے کے بارے میں ہیں، یعنی وہ حضرت ظہور فرمانے کے بعد شرعی مستحب اور سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے شادی کریں گے اور یہ دلائل زمان غیبت میں ان حضرت کے شادی کرنے کو ثابت نہیں کرتے۔

اور دوسرے نظرئیے (حضرت مہدی کے شادی نہ کرنے کا نظریہ) کے دلائل کہ فلسفہ غیبت یعنی قتل ہونے کا خطرہ جو ذکر کیا گیا تھا، یہ فلسفہ مختلف آراؤں کے بیان ہونے کے ساتھ اور فلسفہ غیبت کے دوسرے موارد پر بھی توجہ کرتے ہوئے، یہ دلائل بھی مکمل طور پر اپنے دعوی کو ثابت نہیں کر سکے،

اور تیسرے نظرئیے (ایسے مسائل کے بارے میں بات کرنا مناسب نہیں) کی دلیل یہ تھی کہ اس موضوع کا ہمارے اعتقادات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان حضرت کے ذاتی امور سے آگاہ ہونا بھی ضروری نہیں ہے، یہ دلیل بھی تحقیق علمی اور شیعیان کے ان حضرت کے ذاتی امور سے آگاہ ہونے میں شوق رکھنے کے ساتھ ساز گار نہیں تھی۔

لہذا شادی کرنے کے مستحب ہونے والی روایات کی روشنی میں، شادی نہ کرنے کے مکروہ ہونے والی روایات کی روشنی میں اور شادی کرنے میں فلسفہ غیبت کے مانع نہ ہونے سے، یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان حضرت نے شادی کی ہے اور اس سے ان حضرت کے ذاتی امور کے اسرار کا فاش ہونا بھی لازم نہیں آتا اور ان حضرت کا شادی کرنا، فلسفہ غیبت سے منافات بھی نہیں رکھتا، کیونکہ عقلی طور پر ممکن ہے کہ انکی بیوی پاکدامن، با اخلاق اور با تقوا ہو اور وہ ان حضرت کے خاص اعوان و انصار کی طرح ہو۔

اور اسی طرح یہ بھی لازم نہیں کہ یہ شادی دائمی ہو، بلکہ ازدواج موقت (متعہ) کے ساتھ بھی اس شرعی مستحب پر عمل کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ یہ بھی لازم نہیں کہ انکی زوجہ کی عمر، ان حضرت کی طرح طولانی ہو۔

اور شادی کرنے کا لازمہ اولاد کا بھی ہونا نہیں ہے کہ سوال ہو کہ ان حضرت کی اولاد کہاں رہتی ہے ؟ کیونکہ ممکن ہے کہ انھوں نے شادی بھی کی ہو اور انکی اولاد بھی نہ ہو، اس لیے کہ اولاد کا نہ ہونا، ان حضرت کے لیے کوئی نقص و عیب نہیں ہے، کیونکہ وہ صاحب اولاد ہو سکتے ہیں، لیکن وظیفہ و امر الہی کو انجام دینے اور اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے وہ اپنے ارادے و اختیار سے بھی اپنے آپکو صاحب اولاد نہیں ہو رہے۔

پس اگرچہ ان حضرت کے شادی کرنے کے بارے میں ہمارے پاس کوئی محکم و یقینی دلیل نہیں ہے، لیکن ظاہری طور پر انکے لیے شادی کرنے میں کوئی رکاوٹ اور مانع بھی نہیں ہے، لہذا شادی کرنے کے مستحب ہونے کے بارے میں دلائل اور روایات کی روشنی میں یہ اعتقاد پیدا کیا جا سکتا ہے کہ حضرت مہدی (عج) نے شادی کی ہے۔  

اگرچہ امام زمان (عج) کے بیوی بچے ہونا ممکن ہیں اور حضرت علیہ السلام کی غیبت کا یہ لازمہ نہیں ہے کہ ازدواج کی سنت الہی کو ترک کرنا چاہیے ، لیکن اس سلسلہ میں روایات میں کوئی اطمینان بخش دلیل نہیں ملتی۔ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح تقدیر الہی کا تقاضا یہ ہے کہ حضرت مہدی موعود (عج) کا وجود نازنین پرده غیبت میں رہے ، ان سے متعلق یہ مسئلہ بھی بعض مصلحتوں کی بناء پر پرده ابہام میں رہے۔

حضرت مہدی (عج) کی زندگی ، ان مسائل سے مربوط ہے کہ جنکے بارے میں آسانی کے ساتھ علم و یقین حاصل نہیں کیا جا سکتا، لیکن روایات کی تحقیق کر کے احتمال کو حقیقت کے قریب لایا جا سکتا ہے، اس موضوع کے بارے میں کہ کیا امام زمان (عج) کے بیوی بچے ہیں ؟ تین احتمال پائے جاتے ہیں:

الف: امام زمان (عج) نے بنیادی طور پر شادی نہیں کی ہے،

ب: آپ (عج) نے شادی کی ہے لیکن صاحب فرزند نہیں ہیں،

ج: آپ (عج) نے شادی کی ہے اور صاحب اولاد بھی ہیں،

پہلے احتمال کو قبول کرنے کا لازمہ یہ ہے کہ حضرت مہدی موعود (عج) نے ایک سنت الہی کو ترک کیا ہے اور اس قسم کا امر بعید لگتا ہے۔

البتہ کہا گیا ہے کہ امام زمان (عج) کی غیبت کا مسئلہ آپ (ع) کی شادی کی بہ نسبت زیاده اہمیت رکھتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک اہم تر عمل کے لیے ایک اہم امر کو ترک کیا جائے، لیکن یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ چونکہ غیبت و ازدواج کے درمیان کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہے اس لیے یہ دونوں جمع ہو سکتے ہیں لیکن دوسرے احتمال میں اگرچہ پہلے احتمال کی مشکل موجود نہیں ہے ، لیکن اس سوال کا جواب نہیں ملتا ہے کہ کیا حضرت (ع) کی بیوی کی عمر بھی طولانی ہے ؟ یا حضرت (عج) ہر زمانہ میں متعدد بیویاں منتخب فرماتے ہیں ؟

اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے جو ہمارے لیے اس موضوع کو واضح کرتی ہو لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ متعدد بیویوں سے شادی کرنا بعید نہیں ہے، امام علیہ السلام کی غیبت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ آپ (ع) کی صرف ایک بیوی ہونی چاہیے، تا کہ وه آپ (ع) کی طرح طولانی عمر کی مالک ہوں۔

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (عج) کی غیبت ، ایک عنوانی غیبت ہے نہ کہ ذاتی۔

مثلاً امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

صاحب الزمان (عج) لوگوں کے درمیان رفت و آمد کرتے ہیں ، بازار میں چہل قدمی کرتے ہیں اور کبھی دوستوں کے گهروں میں فرش (قالین) پر تشریف رکھتے ہیں ، لیکن لوگ انہیں نہیں پہچانتے ہیں۔

کتب الغیبه ،نعمان ص 164

اس لیے لوگوں کے ساتھ معاشرتی تعلقات رکھ سکتے ہیں اور ان کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں، لیکن کسی کو معلوم نہ ہو پاتا کہ وه امام زمان (عج) ہیں۔

یہ سوال تیسرے احتمال میں بھی پیش آتا ہے، اس کے باوجود کہ بعض لوگوں نے اس احتمال کو بعید جانا ہے ، کیونکہ اگر امام زمان (عج) کے کچھ فرزند ہو تے تو آخر کار وه ایک دن اپنی اصلیت کے بارے میں تلاش و کوشش کریں گے اور یہ غیبت کے فلسفہ کے ساز گار نہیں ہے۔ روایات میں بھی کوئی ایسی با اعتبار دلیل نہیں پائی جاتی کہ جو ان تین احتمالات میں سے کسی ایک کی تائید کرتی ہو۔

مختصر یہ کہ اگرچہ امام زمان (عج) کے بیوی بچے ہونے کا احتمال ہے، لیکن اس سلسلہ میں کوئی قابل اعتبار دلیل نہیں پائی جاتی ہے، جس سے استناد کیا جائے۔

دوسری جانب سے امام زمان (عج) کے ازدواج کے سنت الہی کو ترک کرنے کے سلسہ میں بھی کوئی مستحکم دلیل نہیں پائی جاتی۔

حضرت امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ روایت ہے کہ کوئی امام دنیا سے رحلت نہیں کرتا جب تک کہ وہ اپنے فرزند کو دیکھ لیں۔

مسعودی اثبات الوصیه ،ص 201

یہ روایت حضرت قائم (عج) سے مربوط نہیں ہے۔

امامت و مهدویت ، صافی گلپایگانی ، پاسخ به ده پرسش ،ص 53

چشم به راه مهدی ، جمعی از نویسند گان مجله حوزه، ص 351

جزیره خضرا در ترازو ی نقد ،ص 217

منابع و کتب:

مجلسي، محمد باقر، بحار الأنوار،مؤسسه الوفاء، بيروت

نوري طبرسي، ميرزا حسين، نجم الثاقب، انتشارات مسجد جمكران، ص 77.

سعادتپرور، علي، الشموس المضيئة، نشر احياء كتاب، ص 80، مترجم: سيد محمدجواد وزيري.

حرّ عاملي، محمّد بن الحسن، وسايل الشيعه، مؤسسه آل البيت، قم

مكي عاملي، محمّد بن جمال، اللمعة الدمشقية، 10 جلدي، دار العالم الاسلامي بيروت.

نجفي، محمّد حسن، جواهر الكلام.

طباطبايي يزدي، محمّدكاظم، عروة الوثقي.

طباطبايي، محمّد حسين، شيعه در اسلام، انتشارات جامعه مدرسين، ص 76.

نعماني، ابن أبي زينب، الغيبة، انتشارات صدوق.

رضواني، علي اصغر، موعودشناسي، انتشارات مسجد جمكران، ص 84.

سيّد ابن طاووس، جمال الاسبوع، انتشارات رضي، قم.

حرّ عاملي، محمّد بن الحسن، اثبات الهداة، 3 جلدي، مكتبة العلمية قم.

عاملي، جعفر مرتضي، دراسة في علامات الظهور والجزيرة الخضراء، انتشارات دفتر تبليغات اسلامي قم ترجمه محمّد سپهري.

تهراني، آغابزرگ، الذريعة إلي تصانيف الشيعة، دار الاضواء، بيروت.

قمي، عباس، مفاتيح الجنان، ناشران قم، چ أوّل .

باقي، محمدرضا، مجالس حضرت مهدي(عليه السلام)، نشر صدر، ص 78.

طوسي، محمّد بن حسن، الغيبة، انشتارات بصيرتي، چ دوم.

صدوق، محمّد بن عليّ، كمال الدين، نشر اسلامي 2 جلدي.

صدوق محمّد بن عليّ علل الشرايع، دار احياء التراث العربي، چ دوم.

صدر، سيّد محمّد، تاريخ الغيبة الكبري، دار التعارف سوريه.

عياشي، محمّد بن مسعود، تفسر القرآن، نشر علميه قم.

كليني، محمّد بن يعقوب، اصول كافي، دار التعارف، لبنان.

افتخارزاده، سيّد حسن، گفتارهايي پيرامون امام زمان(عليه السلام)، نشر شفق، ص 79.

سيّد ابن طاووس، الامان، مؤسسه آل البيت(عليهم السلام)، قم

شيخ صدوق، من لا يحضره الفقيه، انتشارات جامعه مدرسين، 4 جلدي،

إبراهيم بن عليّ، كفعمي، المصباح، انتشارات رضي، قم

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی