2024 March 29
کیا امام حسن(ع) کو معاویہ کے کہنے پر زہر دیا گیا؟
مندرجات: ٣٩٩ تاریخ اشاعت: ٠٤ October ٢٠٢١ - ١٣:٣٨ مشاہدات: 10187
سوال و جواب » امام حسن (ع)
جدید
کیا امام حسن(ع) کو معاویہ کے کہنے پر زہر دیا گیا؟

 

کیا امام حسن(ع) کو معاویہ کے کہنے پر زہر دیا گیا؟

 

 

 کتب اہل سنت کے مطابق معاویہ امام حسن(ع) کے لیے زہر بھیجنا:

ناپاک اور خائن ہاتھوں سے حقائق کو بدلنا:

بعض مدارک کہ جن کو تحریف نہیں کیا گیا:!

امام حسن (ع) کی شہادت کی خبر سن کر معاویہ کا خوش حال ہونا:

 

مختصر جواب:

 بہت سی شیعہ و سنی روایات کے مطابق معاويہ ابن ابی سفيان نے زہر جعدہ بنت اشعث بن قيس منافق کو بھیجا اور اس کو وعدہ دیا کہ اگر تم امام حسن(ع) کو شہید کرو گی تو میں اپنے بیٹے یزید سے تمہاری شادی کروں گا۔ جعدہ نے معاویہ کے حکم کے مطابق امام حسن(ع) کو زہر دیا اس حالت میں کہ امام روزے کی حالت میں تھے اور افطار کرنے کے لیے گھر آئے تھے۔ اس طرح امام حسن(ع) کو معاویہ کے حکم اور معاویہ کے زہر سے شہید کیا گیا۔

کتب اہل سنت کے مطابق معاویہ امام حسن(ع) کے لیے زہر بھیجنا:

افسوس کی بات ہے کہ علمائے اہل سنت نے اپنے خلفاء کی آبرو حفظ کرنے اور تاریخی حقائق پر پردہ ڈالنے کے لیے ان کی بہت سی جنایات کو نقل نہیں کیا اور اگر ذکر بھی کرتے ہیں تو مطلب میں تحریف کر دیتے ہیں، جس مطلب کو انھوں نے تحریف کیا ہے، وہ معاویہ کے حکم سے امام حسن(ع) کو زہر دینے کے بارے میں ہے:

 ناپاک اور خائن ہاتھوں سے حقائق کو بدلنا:

علماء اہل سنت کے اقرار کے مطابق، ابن سعد نے الطبقات الکبری میں اور طبری نے اپنی تاریخ میں امام حسن(ع) کا معاویہ کے حکم سے مسموم ہونے کا ذکر کیا ہے لیکن خیانت کار ہاتھوں نے اسی مطلب کو ان دو کتابوں سے حذف کر دیا ہے !!!

الطبقات الكبری میں ابن سعد نے نقل کیا ہے کہ:

سبط ابن جوزی حنفی نے امام حسن کی وفات کے سبب کے بارے میں علمائے اہل سنت کے ایک گروہ کہ جن کی نظر یہ ہے کہ معاویہ کے حکم کے مطابق امام حسن(ع) کو زہر دیا گیا، کو ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ:

قال علماء السير: منهم ابن عبد البر سمته زوجته جعدة بنت الأشعث بن قيس الكندي.

وقال السدي: دس اليها يزيد بن معاوية أن سمي الحسن وأتزوجك فسمته فلما مات ارسلت الي يزيد تسأله الوفاء بالوعد فقال أنا والله ما ارضاك للحسن افنرضاك لأنفسنا.

وقال الشعبي: إنما دس اليها معاوية فقال سمي الحسن وأزوجك يزيد وأعطيك مائة الف درهم فلما مات الحسن بعث الي معاوية تطلب انجاز الوعده فبعث اليها بالمال وقال: إني احب يزيد وأرجو حياته لولا ذلك لزوجتك اياه.

وقال الشعبي: و مصداق هذا القول أن الحسن كان يقول عند موته و قد بلغه ما صنع معاوية لقد عملت شربته و بلغ امنيته و الله لا يفي بما وعد و لا يصدق فيما يقول.

و قد حكي جدي في كتاب الصفوة قال: ذكر يعقوب بن سفيان في تاريخ أن جعدة التي سمته و قال الشاعر في ذلك:

تغر فكم لك من سلوة تفرح عنك غليل الحزن

بموت النبي و قتل الوصي و قتل الحسين وسم الحسن

و قال ابن سعد في الطبقات: سمه معاوية مرارا لأنه كان يقدم عليه الشام هو و أخوه الحسين (ع).

تاریخ کے علماء اور ابن عبد البر نے کہا ہے کہ: جعدہ بنت اشعث بن قیس نے امام حسن کو زہر دیا تھا۔

سدی نے کہا ہے کہ: یزید ابن معاویہ نے جعدہ کو پیغام دیا کہ تم اگر امام حسن کو زہر دے کر قتل کرو گی تو میں تم سے شادی کروں گا، اس پر جعدہ نے امام کو زہر دے دیا اور امام حسن شہید ہو گئے تو جعدہ نے یزید سے کہا کہ اب اپنے وعدے کو پورا کرو۔ یزید نے کہا کہ خدا کی قسم تم نے جو کام اپنے شوہر سے کیا ہے میں اس پر راضی نہیں تھا۔ کیا تم یہ کام ہمارے ساتھ نہیں کر سکتی ؟

شعبی نے کہا ہے کہ: معاویہ نے جعدہ کو پیغام دیا کہ حسن کو مسموم کرو تو یزید کی شادی تم سے کروں گا اور ایک لاکھ درہم بھی تم کو دوں گا۔ جب اس نے امام کو شہید کر دیا تو اس نے معاویہ سے کہا کہ اب اپنا وعدہ پورا کرو، معاویہ نے ایک لاکھ درہم اس کے لیے بھجوایا اور پیغام دیا کہ میں یزید سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ وہ سالہا سال زندہ رہے اگر ایسا نہ ہوتا تو یزید کی شادی تم سے ضرور کرتا۔

شعبی نے کہا ہے کہ: امام حسن نے مرتے وقت جعدہ سے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ تم نے کس کے کہنے پر مجھے زہر دیا ہے، اس کی تو آرزو پوری ہو گئی ہے لیکن خدا کی قسم اس نے تمہیں جو وعدے دیئے ہیں وہ ان کو پورا نہیں کرے گا۔

میرے دادا ابن جوزی حنبلی نے اپنی کتاب الصفوۃ میں کہا ہے کہ یعقوب بن سفیان نے اپنی تاریخ میں کہا ہے کہ جعدہ وہ ہے کہ جس نے امام حسن کو زہر دیا اور شاعر نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ:

اے دنیا تم دھوکہ دیتی ہو اور تم کتنی میٹھی ہو کہ سب لوگوں کو دھوکہ دیتی ہو!

تمام غموں کے با وجود پھر بھی تم لوگوں کو آپس میں خوش رکھتی ہو!

وہ غم کہ جو رسول خدا کی وفات ان کے وصی و حسین کی شہادت اور حسن کے مسموم ہونے کا تھا۔

ابن سعد نے الطبقات الکبری میں کہا ہے کہ: معاویہ نے امام حسن(ع) کو کئی بار زہر دیا کیونکہ وہ معاویہ کے پاس شام آنا چاہتے تھے۔

سبط بن الجوزی الحنفی، شمس الدين أبو المظفر يوسف بن فرغلی بن عبد الله البغدادی ، تذكرة الخواص، ص191ـ 192، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 

 تاريخ طبری سے نقل ہوا ہے کہ:

اسی طرح سعدی خزرجی نے واضح کہا ہے کہ طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے کہ معاویہ نے جعدہ کے لیے زہر بھیجا اور اس سے کہا کہ امام حسن کو شہید کر دو:

و في تاريخ الطبري أن الحسن بن علي رضي الله عنهما مات مسموما في أيام معاوية و كان عند معاوية كما قيل دهاء فدس إلي جعدة بنت الأشعث بن قيس و كانت زوجة الحسن رضي الله عنه شربة و قال لها إن قتلت الحسن زوجتك بيزيد۔ فلما توفي الحسن بعثت إلي معاوية تطلب قوله فقال لها في الجواب أنا أضن بيزيد.

تاریخ طبری میں آیا ہے کہ حسن ابن علی معاویہ کی حکومت میں زہر سے شہید ہوئے، معاویہ نے جعدہ کو پیغام دیا کہ حسن کو مسموم کرو تو یزید کی شادی تم سے کروں گا اور ایک لاکھ درہم بھی تم کو دوں گا۔ جب اس نے امام کو شہید کر دیا تو اس نے معاویہ سے کہا کہ اب اپنا وعدہ پورا کرو، معاویہ نے پیغام دیا کہ میں یزید سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ وہ سالہا سال زندہ رہے۔

السعدي الخزرجي، موفق الدين أبي العباس أحمد بن القاسم بن خليفة بن يونس ، عيون الأنباء في طبقات الأطباء، ج1، ص174، تحقيق: الدكتور نزار رضا، ناشر: دار مكتبة الحياة - بيروت.

لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ اب جو تاریخ طبری نئی چھپ کر آ رہی ہے، اس میں اہل سنت کے خیانت کاروں نے اسی بات کو معاویہ سے محبت کی وجہ سے حذف کر دیا ہے!!!

بعض مدارک کہ جن کو تحریف نہیں کیا گیا:!

1     قرطبی حنفی متوفی 550هـ نے كتاب التعريف بالأنساب میں لکھا ہے کہ:

و مات الحسن مسموما سمته زوجته بنت الأشعث الكندية دسه إليها معاوية.

حسن مسموم دنیا سے گئے کہ ان کی بیوی نے معاویہ کے حکم ان کو زہر دیا تھا۔

القرطبی الحنفی، أحمد بن محمد بن إبراهيم الأشعري (متوفی550هـ)، التعريف بالأنساب والتنويه بذوي الأحساب، ج1، ص3، 

ایک دوسری جگہ پر اس نے لکھا ہے کہ: 

قال: و قال أبو قتادة و أبو بكر بن حفص: سم الحسن ابن علي رضي الله عنهما: سمته امرأته جعدة بنت الأشعث بن قيس الكندي. قال: و قالت طائفة كان ذلك منها بتدسيس معاوية إليها و ما بذل لها في ذلك، وكان لها ضرائر و أنه وعدها بخمسين ألف درهم، و أن يزوجها من يزيد، فلما فعلت وفي لها بالمال، و قال: حبنا ليزيد يمنعنا من الوفاء لك بالشرط الثانی۔

ابوقتاده اور أبوبكر بن حفص نے کہا ہے کہ امام حسن اپنی بیوی جعدہ بنت اشعث کے ہاتھوں مسموم ہوئے۔

ایک گروہ نے کہا ہے کہ: یہ کام معاویہ کی سازش کی وجہ سے ہوا کیونکہ معاویہ امام کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔ معاویہ نے اس کو وعدہ دیا کہ اگر یہ کام کرو گی تو میں تم کو 50 ہزار درہم دوں گا اور اپنے بیٹے یزید کی تم سے شادی کروں گا۔ جب جعدہ نے یہ کام انجام دے دیا تو معاویہ نے اس کو درہم تو دے دیئے اور کہا کہ مجھے یزید کی جان عزیز ہے اس لیے میں اس کی شادی تم سے نہیں کروں گا۔

النويري،شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب(متوفی733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب،ج 20، ص201، تحقيق مفيد قمحية و جماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت

2     زمخشری نے اس بارے میں کہا ہے کہ:

جعل معاوية لجعدة بنت الأشعث امرأة الحسن مائة ألف حتي سمته، و مكث شهرين و إنه ليرفع من تحته كذا طستاً من دم. و كان يقول: سقيت السم مراراً ما أصابني فيها ما أصابني في هذه المرة، لقد لفظت كبدي فجعلت أقلبها بعود كان كان في يدي. و قد ورثته جعدة بأبيات منها:

يا جعد بكيه ولا تسأمي... بكاء حق ليس بالباطل

إنك لن ترخي علي مثله... سترك من حاف ولا ناعل

و خلف عليها رجل من قريش فأولدها غلاماً، فكان الصبيان يقولون له: يا ابن مسممة الأزواج.

معاویہ نے ایک لاکھ دینار امام حسن کی بیوی کو دیئے اور اس سے کہا کہ امام کو زہر دے دو، امام اس واقعے کے دو ماہ بعد زندہ رہے۔ زہر کا اتنا اثر ہوا کہ خون سے بھرا ہوا طشت بار بار امام کے سامنے سے اٹھا کر لے جاتے تھے۔ امام حسن(ع) فرماتے تھے کہ مجھے پہلے بھی چند مرتبہ زہر دیا گیا ہے لیکن کسی زہر نے اتنا اثر نہیں کیا جتنا کہ یہ کر رہا ہے۔ امام کے جگر کے ٹکڑے کٹ کٹ کر خون کے ساتھ باہر آتے تھے۔ میں نے جب اس حالت کو دیکھا تو کہا کہ اس بار زہر نے اپنا اثر دکھا دیا ہے۔

 پھر جعدہ نے قریش کے بندے سے شادی کی، اس کے گھر بیٹا ہوا، جب بھی اس دوسرے بچے اس بچے کو دیکھتے تھے تو اس سے کہتے تھے کہ: اے اس عورت کے بیٹے کہ جس نے اپنے شوہر کو زہر دیا تھا۔

الزمخشري الخوارزمي، ابو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد جار الله (متوفی538هـ)، ربيع الأبرار، ج1، ص438، 

3     بلاذری نے انساب الأشراف میں لکھا ہے کہ:

و قد قيل أن معاوية دس إلي جعدة بنت الأشعث بن قيس امرأة الحسن، و أرغبها حتي سمته و كانت شانئة له.

و قال الهيثم بن عدي: دس معاوية إلي ابنة سهيل بن عمرة امرأة الحسن مائة ألف دينار علي أن تسقيه شربة بعث بها إليها ففعلت.

کہا گیا ہے کہ معاویہ نے مخفی طور پر جعدہ بنت اشعث کو پیغام دیا کہ اور اس کو اتنا اصرار کیا کہ امام کو مسموم کرو، اس کا رابطہ امام سے ٹھیک نہیں تھا۔

ہيثم بن عدی نے کہا ہے کہ:

معاویہ نے سازش کی اور سہیل ابن عمرۃ کی بیٹی کہ جو امام حسن کی بیوی تھی، سے کہا کہ اگر تم امام حسن کو زہر دو تو تم کو ایک لاکھ دینار دوں گا، اس نے بھی اس کام کو انجام دے دیا۔

البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفی279هـ)، أنساب الأشراف، ج1، ص389،

4     احمد نكری حنفی نے كتاب دستور العلماء میں لکھا ہے کہ:

و فی (حبيب السير) مكتوب أن مروان بن الحكم الذي كان حاكما للمدينة من قبل معاوية بن أبي سفيان قد أرسله معاوية و معه منديل ملطخ بالسم و قال له أن عليه بأي تدبير يستطيعه أن يخدع جعده بنت الأشعث بن قيس زوجة الحسن حتي تقدم بعدها علي إزالة وجود الحسن من هذه الدنيا بواسطة هذا المنديل، وقل لها عني أنها إذا أرسلت الحسن إلي العالم الآخر وأتمت المهمة فإن لها خمسين ألف درهم و أنها ستكون زوجا ليزيد. فأسرع مروان بن الحكم إلي المدينة ليقوم بما قاله معاوية و سعي جاهدا إلي خداع جعدة التي كان لقبها (أسماء) التي انطلت عليها الحيلة و نفذت ما قاله معاوية و دست السم للإمام الحسن عليه السلام الذي سري في جسده فنقل إلي دار السلام۔

کتاب حبیب السیر میں میں لکھا ہے کہ مروان ابن حکم معاویہ کی طرف سے مدینہ کا والی تھا۔ معاویہ نے اسے ایک زہر آلود رومال دیا اور کہا کہ جیسے بھی ہو جعدہ بنت اشعث کو راضی کرو کہ وہ اس رومال کے ذریعے امام حسن کے وجود کو اس دنیا سے ختم کر دے اور اس سے کہو کہ اگر تم نے مہم کام کو انجام دیا تو میں تم کو 50 ہزار درہم دوں گا اور بہت جلد تمہاری شادی یزید سے کروں گا۔ مروان جلدی سے مدینہ آیا  تا کہ معاویہ کے حکم پر عمل کر سکے۔ 

آخر کار مروان نے بہت ہی حیلے اور بہانوں سے جعدہ کو اس کام کے کرنے پر راضی کر لیا۔ جعدہ نے معاویہ اور مروان کے کہنے پر امام کو زہر دے کر شہید کر دیا۔

الأحمد نكري، القاضي عبد النبي بن عبد الرسول الحنفي الهندي، دستور العلماء أو جامع العلوم في اصطلاحات الفنون، ج4، ص50، تحقيق: عرب عباراته الفارسية: حسن هاني فحص، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت 

5     شہاب الدين نويری نے اس شعر کی شرح میں کہ جو امام حسن کے بارے میں لکھا گیا ہے، کہا ہے کہ:

وفي ابن هندٍ وفي ابن المصطفي حسنٍ أتت بمعضلة الألباب و الفكر۔

فبعضنا قائلٌ ما اغتاله أحدٌ و بعضنا ساكتٌ لم يؤت من حصر

ابن هند الذي أشار إليه هو معاوية بن أبي سفيان، أراد ما كان بينه و بين الحسن بن علي في أمر الخلافة. و أراد بالبيت الثاني ما وقع الاختلاف فيه من أن الحسن مات مسموماً و أن معاوية وعد زوجة الحسن جعدة بنت قيسٍ الكندي بمائة ألف درهمٍ و يزوجها لابنه يزيد إن قتلت الحسن، ففعلت و سمته. و لما مات الحسن وفي لها بالمال و قال: حب حياة يزيد منعني تزويجه منک۔

مصطفی(ص) کے بیٹے حسن اور ھند کے بیٹے معاویہ کے بارے میں ضرب المثل ہے کہ جس نے عقل اور فکر کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

بعض رائے ہے کہ کسی نے اس کو قتل نہیں کیا! بعض نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا اور بعض نے اپنی حتمی رائے کو بیان نہیں کیا۔

ہند کا بیٹا معاویہ ہے اور مسائل سے مراد وہ مسائل ہیں کہ جو خلافت کے بارے میں اس اور امام حسن کے درمیان پیش آئے تھے۔ 

دوسرے شعر میں اس بارے میں اختلاف کا ذکر ہے کہ امام حسن کو ان کی بیوی نے زہر دے کر معاویہ کے حکم سے شہید کیا اور معاویہ نے اس کو وعدہ دیا کہ اگر یہ کام کرو گی تو میں تم کو 50 ہزار درہم دوں گا اور اپنے بیٹے یزید کی تم سے شادی کروں گا۔ جب جعدہ نے یہ کام انجام دے دیا تو معاویہ نے اس کو درہم تو دے دیئے اور کہا کہ مجھے یزید کی جان عزیز ہے اس لیے میں اس کی شادی تم سے نہیں کروں گا۔

 النويري،شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب(متوفی733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب،ج 5، ص193، تحقيق مفيد قمحية و جماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت،

ا6     بوالفرج اصفہانی نے كتاب مقاتل الطالبين ميں لکھا ہے کہ:

و دس معاوية إليه حين أراد أن يعهد إلي يزيد بعده، و إلي سعد بن أبي وقاص سماً فماتا منه في أيام متقاربة. و كان الذي تولي ذلك من الحسن زوجته " جعدة " بنت الأشعث بن قيس لمال بذله لها معاوية. و سنذكر الخبر في ذلک۔

جب معاویہ نے اپنے بعد خلافت کے لیے یزید کو انتخاب کرنا چاہا تو اس کے لیے لوگوں سے بیعت لینے کا ارادہ کیا تو اس نے امام حسن اور سعد بن ابی وقاص کے لیے ایک سازش کی اور مخفی طور پر ان کے لیے زہر کو بھیجا۔ اسی لیے ہر دو چند دن کے فاصلے پر فوت ہوئے ہیں۔ امام حسن کو زہر دینے کا ذمہ امام کی بیوی جعدہ نے لیا کیونکہ اس نے اس کام کے کرنے کے لیے معاویہ سے پیسے لیے تھے۔

الاصفهاني، مقاتل الطالبيين، اسم المؤلف: أبو الفرج علي بن الحسين (متوفی356هـ)، مقاتل الطالبين، ج1، ص13، شرح حال حسن بن علی(ع)

اس روایت کے آخر میں نقل کیا ہے کہ:

عن مغيرة، قال: أرسل معاوية إلي ابنة الأشعث إني مزوجك بيزيد ابني، علي أن تسمي الحسن بن علي، و بعث إليها بمائة ألف درهم، فقبلت و سمت الحسن، فسوغها المال و لم يزوجها منه، فخلف عليها رجل من آل طلحة فأولدها، فكان إذا وقع بينهم و بين بطون قريش كلام عيروهم، و قالوا: يا بني مسمة الأزواج۔

مغیرہ سے روایت ہے کہ معاویہ نے جعدہ کو پیغام دیا کہ حسن کو مسموم کرو تو یزید کی شادی تم سے کروں گا اور ایک لاکھ درہم بھی تم کو دوں گا۔ جب اس نے امام کو شہید کر دیا تو اس نے معاویہ سے کہا کہ اب اپنا وعدہ پورا کرو، معاویہ نے اس کے لیے ایک لاکھ دہم بھیجے اور پیغام دیا کہ میں یزید سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ وہ سالہا سال زندہ رہے ۔ اس لیے میں اسکی شادی تم سے نہیں کروں گا۔

 پھر جعدہ نے خاندان طلحہ کے ایک بندے سے شادی کی، اس کے گھر بیٹا ہوا، جب بھی اس کے بیٹوں اور قریش کے دوسرے لوگوں کے درمیان کوئی بات ہوتی تو وہ اس سے کہتے تھے کہ: اے اس عورت کے بیٹے کہ جس نے اپنے شوہر کو زہر دیا تھا۔

  ابو الفرج الاصفهاني، مقاتل الطالبيين، (متوفی356هـ)، مقاتل الطالبين، ج1، ص20، باب رجع الحديث الي خبر الحسن، 

7     ابن اعثم شافعی نے كتاب الفتوح میں لکھا ہے کہ؛

سمعنا من الثقات أنه حين قرر معاوية بن أبي سفيان أن يجعل ولده يزيدا ولي عهده، مع علمه بأن هذا الأمر صعب المنال نظر لأن الصلح الذي أبرم بينه و بين الحسن بن علي كان من بين شروطه أن يترك معاوية أمر المسلمين شوري بينهم بعد وفاته. لذلك سعي في موت الحسن بكل جهده، و أرسل مروان بن الحكم (طريد النبي صلي الله عليه و آله وسلم) إلي المدينة و أعطاه منديلا مسموما و أمره بأن يوصله إلي زوجة الحسن جعدة بنت الأشعث بن قيس بما استطاع من الحيل لكي تجعل الحسن يستعمل ذلك المنديل المسموم بعد قضاء حاجته و أن يتعهد لها بمبلغ خمسين ألف درهم و يزوجها من ابنه. فذهب مروان تنفيذا لأمر معاوية و استفرغ جهده حتي خدع زوجة الحسن و نفذت المؤامرة و علي إثر ذلك انتقل الحسن إلي دار السلام و اغترت جعدة بمواعيد مروان و أقدمت علي تلك الجريمة الشنعاء.

میں نے مورد اطمینان افراد سے سنا ہے کہ معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین بنانے کا ارادہ کیا حالانکہ وہ خود جانتا تھا کہ یہ کام ہونے والا نہیں ہے کیونکہ اس نے صلح نامے میں امام حسن کو وعدہ دیا تھا کہ وہ اپنے بعد کسی کو جانشین نہیں بنائے گا۔ اس لیے اس نے پوری کوشش شروع کر دی کہ امام حسن کو قتل کر دے۔ اسی لیے معاویہ نے مروان ابن حکم کو مدینہ روانہ کیا اور معاویہ نے اسے ایک زہر آلود رومال دیا اور کہا کہ جیسے بھی ہو جعدہ بنت اشعث کو راضی کرو کہ وہ اس رومال کے ذریعے امام حسن کے وجود کو اس دنیا سے ختم کر دے اور اس سے کہو کہ اگر تم نے مہم کام کو انجام دیا تو میں تم کو 50 ہزار درہم دوں گا اور بہت جلد تمہاری شادی یزید سے کروں گا۔ مروان جلدی سے مدینہ گیا اور آخر کار اس نے بہت ہی حیلے اور بہانوں سے جعدہ کو اس کام کے کرنے پر راضی کر لیا۔ جعدہ نے معاویہ اور مروان کے کہنے پر اس گناہ کو انجام دیا اور امام کو زہر دے کر شہید کر دیا۔

الكوفي، أبي محمد أحمد بن أعثم (متوفی314هـ)، كتاب الفتوح، ج 4، ص 319، تحقيق: علي شيري (ماجستر في التاريخ الإسلامي)، ناشر: دار الأضواء للطباعة و النشر و التوزيع ـ بيروت،

8     انصاری تلمستانی نے لکھا ہے کہ:

و مات الحسن، رضي الله عنه، مسموما يُقال إن امرأته " جَعْدة " بنت الأشعث بن قيس سمَّته. دَسَّ إليها معاوية أن تسمَّه فإذا مات أعطاها أربعين ألفا، و زوَّجها من يزيد فلما مات الحسن وفَّي لها بالمال و قال لها: حاجة هذا ما صنعت بابن فاطمة، فكيف تصنع بابن معاوية؟ فخسرت و ما ربحت۔

حسن(ع) مسموم دنیا سے گئے اور کہا گیا ہے کہ امام کی بیوی نے جعدہ بنت اشعث بن قیس نے امام کو زہر دیا تھا۔ معاویہ نے مخفی طور پر اس کو پیغام دیا کہ اگر تم امام حسن کو شہید کرو تو میں تم کو 40 ہزار درہم دوں گا اور تمہاری شادی یزید سے کروں گا۔ جب اس نے امام کو شہید کیا تو معاویہ نے اسے درہم تو دیئے لیکن اس سے کہا کہ جب تم نے فاطمہ کے بیٹے کے ساتھ یہ کیا ہے تو تم میرے بیٹے یزید کے ساتھ کیا کرو گی۔ پس جعدہ نے اپنا نقصان کیا اور اسکو کچھ حاصل بھی نہیں ہوا۔

الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفی644هـ) الجوهرة في نسب النبي وأصحابه العشرة، ج1، ص282.

9     اور ابن عبد البر قرطبی نے لکھا ہے کہ:

و قال قتادة و أبو بكر بن حفص سم الحسن بن علي سمته إمرأته جعدة بنت الأشعث بن قيس الكندي.

و قالت طائفة كان ذلك منها بتدسيس معاوية إليها و ما بذل لها من ذلک و كان لها ضرائر و الله أعلم.

ابوقتاده اور ابوبكر بن حفص نے کہا ہے کہ امام حسن اپنی بیوی جعدہ بنت اشعث کے ہاتھوں مسموم ہوئے۔

ایک گروہ نے کہا ہے کہ: یہ کام معاویہ نے جعدہ کے ساتھ سازش کی تھی اور اسکو یہ کام کرنے پر مال بھی دیا تھا۔ اس کے علاوہ معاویہ کی چند بیویاں تھیں کہ شاید انھوں نے معاویہ کو یہ کام کرنے کا کہا تھا۔ 

النمري القرطبي المالكي، ابوعمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر (متوفی 463هـ)، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ج1، ص389، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل - بيروت، 

10     اور مسعودی شافعی نے لکھا ہے کہ:

و ذكر أن امرأته جَعْدة بنت الأشعث بن قيس الكندي سقته السم، و قد كان معاوية دسَّ إليها: إنك إن احتلْتِ في قتل الحسن وَجَّهت إليك بمائة ألف درهم، و زوَّجتك من يزيد، فكان ذلك الذي بعثها علي سَمّه، فلما مات وَفَي لها معاوية بالمال، و أرسل إليها: إنا نحب حياة يزيد، و لولا ذلك لوفينا لك بتزويجه.

جعده بنت اشعث بن قيس کہ جو امام حسن کی بیوی تھی۔ اس نے امام کو معاویہ کے کہنے پر زہر دیا کیونکہ معاویہ نے جعدہ کو پیغام دیا کہ حسن کو مسموم کرو تو یزید کی شادی تم سے کروں گا اور ایک لاکھ درہم بھی تم کو دوں گا۔ جب اس نے امام کو شہید کر دیا تو اس نے معاویہ سے کہا کہ اب اپنا وعدہ پورا کرو، معاویہ نے اس کے لیے ایک لاکھ دہم بھیجے اور پیغام دیا کہ میں یزید سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ وہ سالہا سال زندہ رہے ۔ اس لیے میں اسکی شادی تم سے نہیں کروں گا۔

المسعودي، ابوالحسن علي بن الحسين بن علي (متوفی346هـ) مروج الذهب، ج1، ص346، باب ذكر خلافة الحسن بن علي بن أبي طالب، 

11     ابن ابی الحديد شافعی نے شرح نہج البلاغہ میں لکھا ہے کہ:

قال أبو الحسن المدائني: و كانت وفاته في سنة تسع و أربعين، و كان مرضه أربعين يوما، و كانت سنه سبعا و أربعين سنة، دس إليه معاوية سما علي يد جعدة بنت الأشعث ابن قيس زوجة الحسن، و قال لها: إن قتلتيه بالسم فلک مائة ألف، و أزوجك يزيد ابني. فلما مات وفي لها بالمال، و لم يزوجها من يزيد. قال: أخشي أن تصنع بابني كما صنعت بابن رسول الله صلي الله عليه و سلم.

امام حسن سن 49 ہج کو شہید ہوئے اور وہ 40 دن مریض رہے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 47 سال تھی۔ معاویہ نے سازش کی اور جعده بنت اشعث بن قيس کہ جو امام حسن کی بیوی تھی۔ اس نے امام  کو معاویہ کے کہنے پر زہر دیا کیونکہ معاویہ نے جعدہ کو پیغام دیا کہ حسن کو مسموم کرو تو یزید کی شادی تم سے کروں گا اور ایک لاکھ درہم بھی تم کو دوں گا۔ جب اس نے امام کو شہید کر دیا تو اس نے معاویہ سے کہا کہ اب اپنا وعدہ پورا کرو، معاویہ نے اس کے لیے ایک لاکھ دہم بھیجے اور پیغام دیا کہ میں یزید سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں اور ڈرتا ہوں کہ تم نے جو کام رسول خدا کے بیٹے کے ساتھ کیا ہے کہیں وہی کام میرے بیٹے کے ساتھ بھی نہ کرو۔

إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، ابو حامد عز الدين بن هبة الله بن محمد بن محمد (متوفی655 هـ)، شرح نهج البلاغة، ج16، ص7، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت

12     مطہرا بن طاہر مقدسی نے اپنی تاريخ میں لکھا ہے کہ: 

و قال آخرون أن معاوية دس إلي جعدة بنت الأشعث بن قيس بأن تسم الحسن و يزوجها يزيد فسمته و قتلته فقال لها معاوية إن يزيد منا بمكان و كيف يصلح له من لا يصلح لابن رسول الله و عوضها منه مائة ألف درهم.

دوسروں نے کہا ہے کہ معاویہ نے مخفی طور پر جعدہ کو پیغام دیا کہ حسن کو مسموم کرو تو یزید کی شادی تم سے کروں گا اور ایک لاکھ درہم بھی تم کو دوں گا۔ جب اس نے امام کو شہید کر دیا تو اس نے معاویہ سے کہا کہ اب اپنا وعدہ پورا کرو، معاویہ نے اس کے لیے ایک لاکھ دہم بھیجے اور پیغام دیا کہ میں یزید سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں اور وہ چیز جو رسول خدا کے بیٹے کے لیے جائز نہیں تھی، کیسے میرے بیٹے کے لیے جائز ہو گی۔

المقدسي، مطهر بن طاهر (متوفی507 هـ)، البدء و التاريخ، ج6، ص5، ناشر: مكتبة الثقافة الدينية – بور سعيد.

13     ابو الفداء نے اپنی تاریخ میں کوشش کی ہے کہ معاویہ کا گناہ یزید کی گردن پر ڈال دے:

و توفي الحسن من سم سقته زوجته جعدة بنت الأشعث، قيل فعلت ذلك بأمر معاوية، و قيل بأمر يزيد بن معاوية، و وعدها أنه يتزوجها إِن فعلت ذلك، فسقته السم و طالبت يزيد أن يتزوجها فأبی.

حسن(ع) مسموم دنیا سے گئے اور کہا گیا ہے کہ امام کی بیوی نے جعدہ بنت اشعث بن قیس نے امام کو زہر دیا تھا۔ 

بعض نے کہا ہے کہ جعدہ نے یہ کام معاویہ کے کہنے پر کیا تھا۔ بعض نے کہا ہے کہ اس نے یہ کام یزید کے حکم پر کیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ اگر تم یہ کام کرو گی تو میں سے شادی کروں گا۔ جب جعدہ نے امام کو قتل کر دیا تو اس نے یزید سے کہا کہ اب اپنا وعدہ پورا لیکن یزید نے اسکی بات نہ مانی اور اس سے شادی نہیں کی۔

أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفی732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج1، ص127،

14     شمس الدين ذہبی نے واقدی سے نقل کیا ہے کہ:

و قد سمعت بعض من يقول كان معاوية قد تلطف لبعض خدمه أن يسقيه سما.

میں نے بعض سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ: معاویہ نے اپنے بعض نوکروں سے کہا کہ امام حسن کو زہر دیں۔

الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفی 748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج3، ص274، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت،

15     ابن الوردی نے بھی اپنی تاريخ ميں لکھا ہے کہ:

و قيل إن زوجته جعدة بنت الأشعث سمته، قيل بأمر معاوية، و قيل بأمر يزيد أطمعها بالتزوج بها و لم يف.

بعض نے کہا ہے کہ امام حسن کو انکی بیوی جعدہ بنت اشعث نے زہر دے کر شہید کیا ہے، بعض نے کہا ہے کہ جعدہ نے یہ کام معاویہ کے کہنے پر کیا تھا۔ بعض نے کہا ہے کہ اس نے یہ کام یزید کے حکم پر کیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ اگر تم یہ کام کرو گی تو میں سے شادی کروں گا۔ جب جعدہ نے امام کو قتل کر دیا تو یزید نے بھی اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔

ابن الوردي، زين الدين عمر بن مظفر (متوفی749هـ)، تاريخ ابن الوردي، ج1، ص158، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، 

معاویہ کے زہر بھیجنے کا ذکر اہل سنت کی بہت سی کتب میں ہوا ہے، لیکن ہم فقط ان چند کتب کے ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔

امام حسن (ع) کی شہادت کی خبر سن کر معاویہ کا خوش حال ہونا:

اہل سنت کے بہت سے مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب معاویہ ابن جگر خوار کو امام حسن(ع) کی شہادت کی خبر ملی تو اس نے سجدہ شکر ادا کیا۔

ابن سمعون بغدادی نے امالی میں، زمخشری نے ربيع الأبرار میں، انصاری تلمستانی نے الجوهرة فی النسب اور ابن خلكان نے وفيات الأعيان، ميں لکھا ہے کہ:

فلما بلغ معاوية موته سمع تكبيره من الخضراء، فكبر أهل الشام لذلک التكبير، فقالت فاختة بنت قريظة لمعاوية: أقر الله عينك ما الذي كبرت لأجله؟ فقال: مات الحسن، فقالت أ علي موت ابن فاطمة تكبر؟. فقال: و الله ما كبرت شماتة بموته، و لكن استراح قلبی۔

و دخل عليه ابن عباس رضي الله تعالي عنهما فقال له: يا ابن عباس هل تدري ما حدث في أهل بيتك؟ فقال: لا أدري ما حدث؟ إلا أني أراك مستبشرا و قد بلغني تكبيرك و سجودك فقال: مات الحسن فقال ابن عباس يرحم الله أبا محمد ثلاثا، و الله يا معاوية لاتسد حفرته حفرتك، و لايزيد عمره في عمرك، و لئن كنا قد أصبنا بالحسن، فلقد أصبنا بإمام المتقين و خاتم النبيين، فجبر الله تلك الصدعة، و سكن تلك العبرة، و كان الله الخلف علينا من بعده.

جب معاویہ کو امام حسن(ع) کی شہادت کی خبر ملی تو اس نے اتنی بلند آواز سے تکبیر کہی کہ اس کے سبز محل سے اس کی آواز کو سنا گیا اور شام کے لوگوں نے بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے تکبیر کہی۔ معاویہ کی بیوی فاختہ بنت قریظہ نے معاویہ سے کہا کہ تم بہت خوش نظر آ رہے ہو کیا ہوا ہے کہ اس طرح سے تکبیر کہہ رہے ہو ؟ معاویہ نے کہا حسن ابن علی قتل ہو گیا ہے۔ فاختہ نے کہا کہ کیا تم فاطمہ کے بیٹے کے مرنے پر تکبیر کہہ رہے ہو ؟ معاویہ نے کہا خدا کی قسم اس کے مرنے نے میرے دل کو اتنا خوشحال کیا ہے کہ میں خوشی سے تکبیر کہہ رہا ہوں۔

ابن عباس معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے کہا کہ جو واقعہ تمہارے خاندان میں پیش آیا ہے کیا تمہیں اس کی کوئی خبر ہے ؟ ابن عباس نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا ہے لیکن تم بہت ہی خوشحال نظر آ رہے ہو اور میں نے تمہاری تکبیر کہنے اور سجدہ شکر ادا کرنے کے بارے میں بھی سنا ہے۔ معاویہ نے کہا:حسن دنیا سے چلا گیا ہے۔ ابن عباس نے تین مرتبہ کہا خداوند ابو محمد پر رحمت کرے پھر معاویہ سے کہا کہ خدا کی قسم اے معاویہ اس کا قبر میں جانا تمہیں قبر سے رہائی نہیں دے گا اور اس کی عمر کا کم ہونا تیری عمر کو زیادہ نہیں کرے گا۔ اگر ہم امام حسن کے ساتھ محشور ہو جاتے ہیں تو گویا ہم پرہیز گاروں اور رسول خدا کے ساتھ محشور ہوئے ہیں اور خداوند اس دوری کی تلافی اور اس غم کو سکون کی حالت میں بدلے گا اور اس کے بعد خداوند ہمارے لیے اپنے جانشین کو انتخاب کرے گا۔

ابن سمعون البغدادي، أبو الحسين محمد بن أحمد بن إسماعيل بن عنبس (متوفی387هـ)، أمالي ابن سمعون، ج1، ص165،

ربيع الأبرار، زمخشري، ج1، ص438، باب الموت و ما يتصل به من ذكر القبر، 

الانصاري التلمساني، محمد بن أبي بكر المعروف بالبري (متوفی644هـ) الجوهرة في نسب النبي و أصحابه العشرة، ج1، ص282،

إبن خلكان، ابو العباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفی681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج2، ص66، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان.

زمخشری نے گذشتہ مطالب کے علاوہ اس مطلب کو بھی نقل کیا ہے کہ:

لما بلغ معاوية موت الحسن بن علي رضي الله عنه، سجد معاوية و سجد من حوله شكراً. فدخل عليه ابن عباس فقال له: يا ابن عباس أمات أبو محمد ؟ قال: نعم، و بلغني سجودك، و الله يا ابن آكلة الكبود لا يسدن جسدك إياه حفرتك، و لا يزيد انقضاء أجله في عمرک۔

جب معاویہ نے امام حسن کی شہادت کی خبر سنی تو،اس نے اور اس اطراف میں بیٹھے سب لوگوں نے تکبیر کہی اور سجدہ شکر بجا لائے۔ اتنے میں ابن عباس معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے کہا کہ کیا امام حسن دنیا سے چلا گیا ہے ؟ اس نے کہا ہاں، میں نے سنا ہے کہ تم نے اسی لیے سجدہ شکر بھی ادا کیا ہے۔ اے ھند جگر خوار کے بیٹے، خدا کی قسم اے معاویہ اس کا قبر میں جانا تمہیں قبر سے رہائی نہیں دے گا اور اس کی عمر کا کم ہونا تیری عمر کو زیادہ نہیں کرے گا۔

ربيع الأبرار، زمخشري، ج1، ص431، باب الموت و ما يتصل به من ذكر القبر،

احمد زكی صفوت نے جمهرة خطب العرب ميں لکھا ہے کہ:

لما بلغ معاوية نعي الحسن بن علي رضي الله عنه أظهر الفرح و السرور حتي سجد و سجد من كان معه فبلغ ذلك عبد الله بن عباس و كان بالشام يومئذ فدخل علي معاوية فلما جلس قال معاوية يا بن عباس هلك الحسن بن علي و لم يظهر حزنا فقال ابن عباس نعم هلك إنا لله و إنا إليه راجعون ترجيعا مكررا و قد بلغني الذي أظهرت من الفرح و السرور لوفاته أما و الله ما سد جسده حفرتك و لا زاد نقصان أجله في عمرك و لقد مات و هو خير منك و لئن أصبنا به لقد أصبنا بمن كان خيرا منه جده رسول الله صلي الله عليه و سلم فجبر الله مصيبته و خلف علينا من بعده أحسن الخلافة.

جب معاویہ نے امام حسن کی شہادت کی خبر سنی تو،اس نے اور اس اطراف میں بیٹھے سب لوگوں نے تکبیر کہی اور سجدہ شکر بجا لائے۔ جب یہ خبر ابن عباس کہ جو اس وقت شام میں تھا، کو پتا چلی تو وہ معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے کہا اے عباس کے بیٹے، حسن ابن علی دنیا سے چلا گیا ہے کیا تم غمگین نہیں ہو ؟ ابن عباس نے کہا ہاں وہ دنیا سے چلے گئے ہیں، ہم سب خدا کی طرف سے ہیں اور اسی کی طرف واپس لوٹ کر جانا ہے اور اس جملے کو بار بار تکرار کیا۔ پھر ابن عباس نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم نے امام حسن کی شہادت کی خبر سن کر خوشی منائی ہے۔ خدا کی قسم اے معاویہ ان کا قبر میں جانا تمہیں قبر سے رہائی نہیں دے گا اور ان کی عمر کا کم ہونا تیری عمر کو زیادہ نہیں کرے گا۔ وہ اس حال میں دنیا سے گئے ہیں کہ وہ تم سے بہتر تھے اگر ہم امام حسن کے ساتھ قیامت میں جا کر مل جاتے ہیں تو گویا ہم پرہیز گاروں اور رسول خدا کے ساتھ ملے ہیں اور خداوند ان کی دوری کو تلافی اور ان کے غم کو سکون کی حالت میں بدلے گا اور اس کے بعد خداوند ہمارے لیے اپنے جانشینوں کا انتخاب کرے گا۔

 صفوت، أحمد زكی، جمهرة خطب العرب، ج2، ص99، ناشر: المكتبة العلمية - بيروت.

ابن قتيبہ دينوری نے كتاب الإمامۃ والسياسۃميں لکھا ہے کہ:

فلما كانت سنة إحدي و خمسين، مرض الحسن بن علي مرضه الذي مات فيه، فكتب عامل المدينة إلي معاوية يخبره بشكاية الحسن، فكتب إليه معاوية: إن استطعت ألا يمضي يوم يمر بي إلا يأتيني فيه خبره فافعل، فلم يزل يكتب إليه بحاله حتي توفی۔

فكتب إليه بذلك، فلما أتاه الخبر أظهر فرحا و سرورا، حتي سجد و سجد من كان معه، فبلغ ذلك عبد الله بن عباس، و كان بالشام يومئذ، فدخل علي معاوية، فلما جلس قال معاوية: يا بن عباس هلك الحسن بن علي، فقال ابن عباس: نعم هلك ( إنا لله وإنا إليه راجعون ) ترجيعا مكررا، و قد بلغني الذي أظهرت من الفرح و السرور لوفاته. أما و الله ما سد جسده حفرتك، و لا زاد نقصان أجله في عمرك، و لقد مات و هو خير منك، و لئن أصبنا به لقد أصبنا بمن كان خيرا منه، جده رسول الله صلي الله عليه و سلم، فجبر الله مصيبته، و خلف علينا من بعده أحسن الخلافة.

ثم شهق ابن عباس و بكي، و بكي من حضر المجلس، و بكي معاوية، فما رأيت يوما أكثر باكيا من ذلك اليوم، فقال معاوية: بلغني أنه ترك بنين صغارا.

فقال ابن عباس: كلنا كان صغيرا فكبر. قال معاوية: كم أتي له من العمر ؟ فقال ابن عباس: أمر الحسن أعظم من أن يجهل أحد مولده. قال: فسكت معاوية يسيرا، ثم قال: يا بن العباس: أصبحت سيد قومك من بعده، فقال ابن عباس: أما ما أبقي الله أبا عبد الله الحسين فلا. قال معاوية: لله أبوك يا بن عباس، ما استنبأتك إلا وجدتك معدا.

جب 51 ہج کا سال آیا تو امام حسن بیمار ہوئے اور اسی بیماری کی وجہ سے دنیا سے چلے گئے۔ مدینہ کے حاکم نے معاویہ کو خط لکھا اور امام کی حالت کے بارے میں معاویہ کو بتایا۔ معاویہ نے اس کو جواب لکھا کہ اگر تم ہر روز مجھے اس کی حالت کی خبر دے سکتے ہو تو ضرور دو، اس کے بعد وہ امام کی شہادت تک معاویہ کو امام کی حالت کے بارے میں بتاتا تھا۔

جب امام دنیا سے چلے گئے تو مدینہ کے حاکم نے اس کی خبر معاویہ کو دی۔ جب معاویہ نے اس خبر کو سنا تو بہت خوش ہوا اتنا خوش کہ خوشی سے اس نے تکبیر کہی اور سجدہ شکر بجا لایا اور جو اس کے اطراف میں تھے انھوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ جب یہ خبر ابن عباس کہ جو اس وقت شام میں تھا، کو پتا چلی تو وہ معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے کہا اے عباس کے بیٹے، حسن ابن علی دنیا سے چلا گیا ہے کیا تم غمگین نہیں ہو ؟ ابن عباس نے کہا ہاں وہ دنیا سے چلے گئے ہیں، ہم سب خدا کی طرف سے ہیں اور اسی کی طرف واپس لوٹ کر جانا ہے اور اس جملے کو بار بار تکرار کیا۔ پھر ابن عباس نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم نے امام حسن کی شہادت کی خبر سن کر خوشی منائی ہے۔ خدا کی قسم اے معاویہ ان کا قبر میں جانا تمہیں قبر سے رہائی نہیں دے گا اور ان کی عمر کا کم ہونا تیری عمر کو زیادہ نہیں کرے گا۔ وہ اس حال میں دنیا سے گئے ہیں کہ وہ تم سے بہتر تھے اگر ہم امام حسن کے ساتھ قیامت میں جا کر مل جاتے ہیں تو گویا ہم پرہیز گاروں اور رسول خدا کے ساتھ ملے ہیں اور خداوند ان کی دوری کو تلافی اور ان کے غم کو سکون کی حالت میں بدلے گا اور اس کے بعد خداوند ہمارے لیے اپنے جانشینوں کا انتخاب کرے گا۔

پھر ابن عباس نے بلند آواز سے گریہ کیا اور جو اس مجلس میں بیٹھے انھوں نے گریہ کیا حتی معاویہ نے بھی گریہ کیا۔ اس دن سے پہلے اتنا گریہ دیکھا اور سنا نہیں گیا تھا۔ معاویہ نے کہا: میں نے سنا ہے حسن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ابن عباس نے کہا کہ ہم سب پہلے چھوٹے ہی تھے بعد میں بڑے ہوئے ہیں۔ معاویہ نے کہا امام حسن کی کتنی عمر تھی ؟ ابن عباس نے کہا کہ امام حسن کی حالت بہت واضح و آشکار تھی کہ کسی کو ان کی عمر کے بارے میں پتا نہ ہو۔ معاویہ تھوڑی دیر چپ رہا پھر اس نے کہا اے عباس کے بیٹے آج سے تم اپنی قوم کے بڑے بن گئے ہو۔ ابن عباس نے کہا جب تک خداوند نے امام حسین کو بڑا بنایا ہے۔ میں اس وقت تک قوم کا بڑا نہیں بن سکتا۔ معاویہ نے کہا خدا تیرے والد کو رحمت کرے، میں نے جب بھی تمہیں آزمانے کی کوشش کی ہے، تم کو تیار و ہوشیار پایا ہے۔

الدينوري، ابو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة (متوفی276هـ)، الإمامة و السياسة، ج1، ص142، تحقيق: خليل المنصور، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت 

ابن عبد ربہ نے  العقد الفريد میں لکھا ہے کہ:

و لما بلغ معاويةَ موتُ الحسن بن علي خر ساجداً لله، ثم أرسل إلي ابن عباس، و كان معه في الشام، فعزاه وهو مُستبشر، و قال له: ابن كم سنة مات أبو محمد؟ فقال له: سنِه كان يُسمع في قُريش، فالعجب من أن يجهله مثلُك! قال: بلغني أنه ترك أطفالاً صغاراً. قال: كُل ما كان صغيراً يَكْبُر، و إن طِفْلَنَا لكَهْل، و إن صغيرَنا لكَبير. ثم قال: مالي أراك يا معاويةُ مُستبشراً بموت الحسن ابن علي ؟ فو الله لا ينْسأ في أجلك، و لا يَسُد حُفرتك، و ما أقَل بقاءَك و بقاءَنا بعده.

جب امام حسن(ع) کی شہادت کی خبر معاویہ نے سنی تو اس نے سجدہ شکر ادا کیا پھر کسی کو ابن عباس، کہ جو اس وقت شام میں تھا، کو بلانے کے لیے بھیجا۔ جب وہ آیا تو معاویہ نے اسکو تعزیت پیش کی حالانکہ خود معاویہ خوش حالی کی حالت میں تھا۔ اس نے ابن عباس سے کہا کہ ابو محمد کی عمر کیا تھی ؟ ابن عباس نے کہا تمام قریش ان کی عمر کو جانتے ہیں لیکن یہ بڑی عجیب بات ہے تیرے جیسے بندے کو ان کی عمر کا پتا نہ ہو۔ پھر معاویہ نے کہا میں نے سنا ہے کہ ابو محمد کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ؟ ابن عباس نے کہا جو بھی چھوٹا ہو وہ ایک دن بڑا ہو گا۔ ہمارے چھوٹے بچے بھی ایک دن بڑے ہوں گے۔

پھر ابن عباس نے کہا کہ اے معاویہ امام حسن(ع) کی شہادت پر تم اتنا کیوں خوش ہو رہے ہو ؟ خدا کی قسم ان کا مرنا تمہاری موت میں کوئی دیر نہیں کرے گا اور ان کا بدن تمہاری قبر کی جگہ کو نہیں بھرے گا۔ امام حسن(ع) کے بعد میں اور تم اس دنیا میں بہت کم باقی رہیں گے۔

العقد الفريد، ابن عبد ربه الأندلسي، ج2، ص125، 

حالانکہ رسول خدا نے اہل بیت (ع)کے ساتھ دشمنی کے بارے میں فرمایا ہے کہ:

أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ و سلم لِمَنْ سَالَمَكُمْ.

میں اس سے جنگ کروں گا، جو آپ (اہل بیت) سے جنگ کرے گا۔

اور یہ فرمان بھی کہ:

لا يبغضنا أهل البيت أحد إلا أدخله الله النار.

جو بھی ہم اہل بیت سے بغض و کینہ رکھے گا، خداوند اسکو جہنم میں ڈالے گا۔

کیا آپ نے اس اموی لعین معاویہ کو ملاحظہ کیا جس نے اپنی جہالت کو واضح کر دیا اور اپنے تمام امور کو بیان کر دیا ؟ اس کی روح میں تو اسلام سما ہی نہیں سکتا تھا، کیونکہ معاویہ اپنے باپ اور رسول اسلام (ص) کے پہلے سخت ترین دشمن ابو سفیان کے مشابے اور اپنی ماں ہند کے مثل تھا کہ جس نے سید الشہدا حضرت حمزہ کا جگر نکال کر داتنوں سے چبایا تھا اور ان کو مثلہ کر دیا تھا۔ معاویہ کو اِن دونوں سے اسلام سے دشمنی اور رسول (ص) و اولاد رسول (ع) سے بغض و کنیہ و منافقت ورثے میں ملا تھی۔

کون معاویہ، وہ معاویہ کہ جس نے نیک اور صالح حجر ابن عدی اور عمرو ابن الحمق خزاعی جیسے اصحاب کو قتل کیا ، مسلمانوں کو بے آبرو کیا ، عورتوں کو قید میں ڈالا ،ان کے اموال چھین لیے ، اور اپنی حکومت میں ابن عاص ابن شعبہ ، ابن ارطات ، ابن حکم ، ابن مرجانہ اور ابن سمیہ جیسے افراد سے مدد لی جس کو اس کے شرعی باپ عبید رومی کا انکار کر کے اس کے فاجر و فاسق باپ ابو سفیان سے ملحق کر دیا گیا تھا، اس طرح کے افراد کو عراق کے شیعوں پر مسلط کر دیا گیا، جنھوں نے ان کو سخت عذاب دیا ، ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیا ، ان کی عورتوں کو رسوا کیا، ان کے گھروں کو جلا دیا اور ان کے اموال لوٹ لیے۔

اس (معاویہ ) کا سب سے بڑا جرم رسول اللہ (ص) کے بڑے فرزند ارجمند امام حسن (ع) کو شہید کرنا تھا ، اس نے امام حسن کو آپ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث سے زہر دلوایا جبکہ اس کو یہ کہہ کر بہکایا کہ میں تیری شادی اپنے بیٹے یزید سے کر دونگا ، امام کو روزہ کی حالت میں زہر دیدیا گیا۔ جس سے آپ کے جگر کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور آپ کچھ مدت تک زندہ رہے اور اس کے بعد آپ کی روح پرواز کر گئی ، یہ وہ مصائب تھے کہ جن کا گھونٹ معاویہ نے پلایا تھا۔ وہ معاویہ  کہ جس کو بعض صحابہ کسریٰ عرب کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

معاویہ نے اپنے جرائم کا اختتام اپنے بیٹے یزید کو مسلمانوں کا خلیفہ بنا کر کیا ،اس کی دین و دنیا میں فساد برپا کرنے کے لیے پرورش کی ، اور اس نے اُن تمام فسادات کا روز عاشورا کربلا میں، مکہ میں اور یوم حرّہ میں ارتکاب کیا۔ اسی طرح کے اور بہت سے جرائم کا ارتکاب کیا کہ جن کے ذریعے مسلمانوں کو بڑے بڑے مصائب میں مبتلا کر دیا جس کی وہ تاب نہیں رکھتے تھے۔

ان تمام روایات اور تاریخ کی کتب کی روشنی میں ہمارا اہل سنت کے علماء سے یہ سوال ہے کہ آپ کا فیصلہ معاویہ کے بارے میں کیا ہے ؟؟؟

 التماس دعا۔۔۔۔۔

 
 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات