2024 March 28
امام حسن(ع) کے صلح نامے کے بارے میں تھوڑی تفصیل دیں؟
مندرجات: ٣٩٨ تاریخ اشاعت: ٠٧ November ٢٠١٦ - ١٣:٥٤ مشاہدات: 6493
سوال و جواب » امام حسن (ع)
جدید
امام حسن(ع) کے صلح نامے کے بارے میں تھوڑی تفصیل دیں؟

 
 

سوال:

امام حسن(ع) کے صلح نامے کے بارے میں تھوڑی تفصیل دیں ؟

جواب:

امام حسن(ع) کے صلح نامے کے چند بند تھے کہ ہر بند کا ایک خاص پیغام تھا۔ 

بند اول:

هذا ما صالح عليه الحسن بن علی بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان صالحه علي أن يسلّم إليه ولاية أمر المسلمين، علي أن يعمل فيهم بكتاب اللّه و سنّة رسوله صلي الله عليه و آله و سلم .

امام حسن(ع) کی ایک شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ معاویہ قرآن اور سنت رسول کے مطابق عمل کرے گا۔

بحار الأنوار ج 44 ص 65، الغدير ج 11 ص 6 .

اس بند کا واضح یہ معنی و پیغام ہے کہ امام حسن(ع) جانتے تھے کہ معاویہ قرآن اور سنت رسول پر عمل نہیں کرتا بلکہ اپنی مرضی کے مطابق جو دل میں آتا ہے کرتا ہے۔ اس لیے کہ معاویہ جب کوفہ میں آیا تو سب سے پہلے اس نے یہی کہا تھا کہ:

إنی واللّه ما قاتلتكم لتصلّوا و لا لتصوموا و لا لتحجّوا و لا لتزكوا إنّكم لتفعلون ذلک. و إنّما قاتلتكم لأتأمّر عليكم، و قد أعطاني اللّه ذلک و أنتم كارهون۔

میں نے اس لیے صلح نہیں کی کہ تم لوگوں سے کہوں کہ نماز پڑھو، زکات دو اور حج کرو بلکہ میں یہ چاہتا تھا کہ تم لوگوں پر سوار ہو کر تم پر حکومت کروں۔

مقاتل الطالبين ص 45،

 شرح ابن ابي الحديد ج 16 ص 15 

ابھی صلح نامہ کہ جس میں لکھا گیا تھا کہ معاویہ قرآن اور سنت پر عمل کرے گا، کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ معاویہ نے کمال بے حیائی کے ساتھ کہتا ہے کہ:

كل شرط شرطته فتحت قدمی۔

تمام شرائط کہ جن کا میں نے امام حسن(ع) کو وعدہ دیا ہے وہ ساری کی ساری میرے پیروں کے نیچے ہیں اور مجھے ان کی کوئی پروا نہیں ہے۔

معاویہ کی یہ حرکت کافی تھی کہ لوگ اس کا اصلی چہرہ پہچان لیں۔ حالانکہ یہ وہ معاویہ ہے کہ جو صحابی رسول ہونے اور کاتب وحی ہونے کے عنوان سے خود کو بہت مقدس سمجھتا تھا۔

بند دوم:

اس صلح نامے کے مطابق معاویہ کو کوئی حق نہیں ہے کہ اپنے بعد کوئی خلیفہ اور جانشین معیّن کرے، بلکہ معاویہ کے بعد خلافت امام حن(ع) کو ملے گی لیکن تھوڑے ہی وقت کی بات تھی کہ معاویہ نے بعض کو لالچ، ڈرا دھمکا اور بعض کو قتل کر کے یزید کو لوگوں کے سروں پر سوار کر دیا۔ معاویہ نے اس کام سے عملی طور پر صلح نامے کی ایک شقّ کی خلاف ورزی کی تھی۔

یہاں پر یہ نکتہ قابل غور ہے کہ تاریخ میں ہے کہ عبد الله ابن عمر نے حضرت علی(ع) اور امام حسن(ع)  کی  بيعت نہیں کی تھی لیکن اس نے معاویہ اور یزید کی بڑے آرام سے بیعت کر لی تھی۔

سنن ترمذی، تاريخ ابن اثير اور اہل سنت کی تمام تاریخ کی کتب میں آیا ہے :

معاویہ نے ایک لاکھ دینار عبد اللہ ابن عمر کے لیے بھیجا اور اس کے لیے یزید کی بیعت کے مسئلے کو بیان کیا، لیکن جب عبد اللہ ابن عمر کو یہ موضوع کہا گیا کہ:

معاویہ چاہتا ہے کہ تم  یزید کی بیعت کرو، عبد اللہ نے کہا: ہاں بس معاویہ نے اسی کام کے لیے ایک لاکھ دینار میرے لیے بھیجے ہیں۔ معاویہ نے کتنا سستا میرے دین کو خریدنے کی کوشش کی ہے حالانکہ میرے دین کی قیمت ایک لاکھ دینار سے زیادہ ہے۔ 

لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاویہ نے عبد اللہ ابن عمر کے دین کی بہت زیادہ لگائی تھی کیونکہ اس کے دین کی قیمت بہت کم تھی بلکہ اس کے دین کی کوئی قیمت نہیں تھی

کیونکہ تاریخ اہل سنت، صحیح بخاری و مسلم و ... میں آیا ہے کہ جب سن 62 ھج میں واقعہ کربلاء کے بعد واقعہ حرّہ میں یزید کے حکم کے مطابق مدینہ میں صحابہ کا قتل عام کیا گیا، ہزاروں عورتوں کی عزت پامال کی گئی کہ حتی کہا گیا ہے کہ اس سال مدینہ میں 10 ہزار نا جائز بچے پیدا ہوئے۔ مدینہ کے لوگوں نے قیام کیا، یزید کی طرف سے شہر مدینہ میں موجود حاکم کو مدینہ سے باہر نکال دیا گیا، اس وقت یہی عبد اللہ ابن عمر فقط و فقط یزید کی حکومت کی حمایت کرنے والا تھا۔ اس نے اس وقت کچھ لوگوں کو جمع کیا اور ان س کہا کہ:

اے لوگو ہم نے یزید کی بیعت کی ہے اور میں خود اپنے کانوں سے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ:

جو بھی کسی کی بیعت کرے اور بعد میں اگر بیعت کو توڑ دے تو ایسا بندہ قیامت میں خائن اور فریب کار لوگوں کے ساتھ محشور ہو گا۔

عبدالله بن عمر ایک رات کو حجاج بن يوسف ثقفی کہ تاریخ اسلام کا فاسق ترین،خون خوار ترین اور سفاح ترین انسان تھا، کے گھر گیا۔ حجاج کو سلام کیا۔ حجاج نے پوچھا کیوں آئے ہو کیا کام ہے ؟ عبد اللہ نے جواب دیا کہ رسول خدا کی ایک روایت مجھے یاد آئی ہے کہ اس روایت نے میری آنکھوں سے نیند کو اڑا دیا ہے، روایت یہ ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ: 

من مات بلا إمام مات ميتة جاهليّة۔ یا

من مات ولم تكن في عنقه بيعة إمام مات ميتة جاهليّة۔

جو بھی بغیر امام کے دنیا سے چلا جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔

پھر عبد اللہ ابن عمر نے کہا کہ اب میں اس لیے تیرے پاس آیا ہوں کہ تم عبد الملک مروان کے نمائندے ہو تمہاری بیعت کروں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آج اگر مر جاؤں تو جاہلیت کی موت نہ مروں!!!

حجاج نے بھی اس کو خوب ذلیل کیا اور کہا کہ میرے ہاتھ تو ابھی کام میں مصروف ہیں، آؤ ابھی میرے پیر کی عبد الملک کی بیعت کے عنوان سے بوسہ لے کر چلے جاؤ۔ عبد اللہ ابن عمر نے حجاج خون خوار کے پیر کا بوسہ لیا اور چلا گیا۔ 

اس بات سے پس معلوم ہوا کہ اس کے دین کی جو قیمت معاویہ نے لگائی تھی وہ بہت زیادہ تھی بلکہ اس کے دین کی قیمت حجاج کا پیر تھی۔

بند سوم:

معاویہ کو کوئی حق نہیں کہ علی بن ابي طالب امير المؤمنين(ع) کو سبّ و لعن کرے۔

أن يترک سبّ أمير المؤمنين و القنوت عليه بالصلاة و أن لا يذكر عليّاً إلاّ بخير۔

مقاتل الطالبيين اصفهانی: ص 26 

شرح نهج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 4 ص 15،

و قال آخرون أنه أجابه علي أنه لا يشتم علياً و هو يسمع و قال ابن الاثير: ثم لم يف به أيضا.

الامامة و السياسة - ابن قتيبة الدينوري،ج 1 ص 185.

لیکن معاویہ نے اپنے پہلے ہی مدینہ کے  سفر میں حضرت علی(ع) پر سبّ و لعن کرنے کا حکم صادر کیا۔

یہ روایت صحیح مسلم میں كتاب الفضائل باب فضائل علی بن ابي طالب نقل ہوئی ہے کہ معاویہ نے سعد بن أبی وقاص سے کہا کہ:

أمر معاوية بن أبي سفيان سعداً فقال ما منعك أن تسب أبا تراب ؟ قال: أما ما ذكرت ثلاثا قالهن رسول اللّه(صلي الله عليه وآله وسلم)فلن أسبه لان تكون لي واحدة منهن أحب إلي من حمر النعم، سمعت رسول الله(صلي الله عليه وآله وسلم) يقول لعلي وخلفه في بعض مغازيه؟ فقال له يارسول اللّه تخلفني مع النساء والصبيان؟ فقال له رسول اللّه(صلي الله عليه وآله وسلم): أما ترضي أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسي إلاّ أنّه لا نبوة بعدي. وسمعته يقول يوم خيبر لاعطين الراية رجلا يحب الله ورسوله ويحبه اللّه ورسوله. قال فتطاولنا لها فقال ادعوا لي علياً، قال فأتاه وبه رمد فبصق في عينه فدفع الراية إليه ففتح اللّه عليه وأنزلت هذه الآية (ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم) الآية دعا رسول اللّه(صلي الله عليه وآله وسلم) علياً وفاطمة وحسنا وحسينا فقال اللّهم هؤلاء أهلي ... الخ

مالک لا تسبّ أبا تراب۔ تم کیوں ابو تراب کو گالی نہیں دیتے؟  سعد بن وقاص نے کہا کہ:

مجھے جب بھی علی(ع) کے بارے میں رسول خدا(ص) کا فرمان یاد آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ: أنت منّي بمنزلة هارون من موسی۔ یا جب میں نے سنا کہ آیت تطهير علی(ع) کے حق میں نازل ہوئی تو رسول خدا نے علی، زہرا، حسنين(عليهم السلام) کو یمنی چادر کے نیچے جمع کیا اورکہا: هؤلاء أهل بيتی۔ بس میں اسی لیے علی(ع) کو گالی نہیں دے سکتا۔

صحیح مسلم ج 4 ص 1871

سنن الترمذي ج 5 ص 301 ، 

فتح الباري ج 7 ص 60، 

السنن الكبري ج 5 ص 107 .

زمخشری نے ذکر کیا ہے کہ:

قال الزمخشری والحافظ السيوطی: "إنّه كان في أيّام بني اميّة أكثر من سبعين ألف منبر يلعن عليها عليّ بن أبي طالب بما سنّه لهم معاوية من ذلک۔

زمخشری نے اپنی کتاب ربيع الابرار میں لکھا ہے کہ:

معاویہ کے دور حکومت میں 80 ہزار منبروں سے علی(ع) پر سبّ و لعن کی جاتی تھی۔

ربيع الأبرار زمخشيري: 2/186، 

النصائح الكافية لمحمّد بن عقيل: 79، عن السيوطي، 

الغدير: 2/102، 10/266، 

النص والاجتهاد: 496، 

أمان الامة من الاختلاف آیت اللّه الصافی: ص 46 .

ابن ابی الحدید نے ذکر کیا ہے کہ:

إنّ معاوية أمر الناس بالعراق و الشام و غيرهما بسب علي(ع) و البراءة منه۔ و خطب بذلک علي منابر الإسلام ، و صار ذلک سنة في أيام بني أمية إلي أن قام عمر بن عبد العزيز رضي اللّه تعالي عنه فأزاله. و ذكر شيخنا أبو عثمان الجاحظ أن معاوية كان يقول في آخر خطبة الجمعة : اللّهم إن أبا تراب الحد في دينك ، و صد عن سبيلك فالعنه لعناً و بيلا ، و عذبه عذاباً أليماً و كتب بذلك إلي الافاق ، فكانت هذه الكلمات يشاربها علي المنابر ، إلي خلافة عمر بن عبد العزيز.

معاویہ کے دور حکومت میں نماز جمعہ کے خطبوں میں علی(ع) پر سبّ و لعن کرنا واجبات میں سے ایک واجب شمار ہوتا تھا بلکہ اس سے بالا تر کہ یہ کام اس وقت امت اسلامی میں ایک سنت کے طور پر رائج ہو چکا تھا۔ اس سبّ و لعن کو عمر ابن عبد العزیز نے ترک کروایا تھا۔

ابو عثمان جاحظ نے کہا ہے کہ: معاویہ نماز جمعہ کے خطبے کے آخر میں کہتا تھا کہ خدایا ابو تراب پر لعنت کر کہ اس نے تیرے دین کو خراب کر دیا ہے اور لوگوں کو تیرے دین سے دور کیا ہے۔ معاویہ نے اس کام کو سرکاری حکم نامے کے طور پر پوری مملکت میں شروع کرنے کا حکم دیا ہوا تھا۔

شرح نهج البلاغة ابن أبی الحديد ج 4 ص 57 - 56 .

ابن عقيل نے النصائح الكافيہ اور العطف الجميل میں اور ابن ابي الحديد نے شرح نهج البلاغہ میں کہا ہے کہ:

نودي من جوانب المسجد يوم تركها ]أي لعن علي(عليه السلام)[ من الخطبة. السنة، السنة، يا أمير المؤمنين تركت السنة.

جب عمر ابن عبد العزیز نے حضرت علی(ع) پر سبّ و لعن کی سنت کو ختم کرنا چاہا تو مسجد کے گوشے اور کنار سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوئی کہ کیا تم سنت رسول خدا کو ختم اور نابود کرنا چاہتے ہو۔

النصائح الكافية سيد محمّد بن عقيل ص 116، 

القول الفصل: ج 2 ص 384

پس صلح نامے کی اس شقّ پر بھی معاویہ نے عمل نہیں کیا اور خلاف سنت رسول اہل بیت(ع) سے اپنی دشمنی کو جاری رکھا۔

بند چھارم:

صلح نامے میں امام حسن(ع) نے معاویہ سے کہا کہ تم تمام شیعیان کی جان، مال اور ناموس کی حفاظت کرو گے اور ان کے سارے حقوق کی رعایت کرو گے۔

اب دیکھتے ہیں کہ معاویہ نے علی(ع) کے شیعوں کے ساتھ کیا کیا ؟

ابن ابی الحديد نے کہا ہے کہ:

معاویہ نے سرکاری طور پر حکم دیا کہ جہاں پر شیعہ کو دیکھو اس کو قتل کر دو۔ اگر دو بندے گواہی دیں کہ فلاں بندے کا علی سے تعلق و رابطہ ہے تو اس بندے کی جان اور مال کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔

ایک نمونے کو ابن اثیر نے نقل کیا ہے:

معاویہ نے ساری مملکت میں سرکاری طور پر حکم نامہ جاری کیا کہ ۔ اگر دو بندے گواہی دیں کہ فلاں بندے کا علی سے تعلق و رابطہ ہے یا فلاں بندہ شیعہ ہے تو اس کے وظیفے کو بیت المال سے ختم کر دو۔

کہا جاتا ہے کہ چھے مہینے میں 80 ہزار شیعوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا کہ جن کا جرم فقط علی(ع) کا شیعہ ہونا تھا

ابو سوار عدوی کہتا ہے کہ:

سمرة بن جندب نے ایک دن صبح کے وقت میرے 47 رشتے داروں کو قتل کیا کہ جو سارے حافظ قرآن تھے۔

 ابن اثير در الكامل في التاريخ الكامل في التاريخ ج 3 ص 229 . 

ابن ابي الحديد نے ایک بہت ہی درد ناک بات لکھی ہے کہ:

حتّي إنّ الرجل ليقال له زنديق أو كافر أحبّ إليه من أن يقال شيعة علی۔

اگر کسی کو کہا جاتا کہ تم زندیق یا کافر ہو تو یہ اس کے لیے بہتر تھا کہ اس کو علی(ع) کا شیعہ کہا جائے۔( اللہ اکبر)

شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد ج 11 ص 44 .

علی بن جهم اپنے باپ کو لعنت کرتا تھا کہ اس نے کیوں میرا نام علی رکھا ہے۔

كان يلعن أباه، لم سمّاه عليّاً۔

لسان الميزان ،ج4 ، ص 210 .

ابن حجر کہتا ہے کہ:

كان بنو أمية إذا سمعوا بمولود اسمه علي قتلوه، فبلغ ذلك رباحاً فقال هو علي، و كان يغضب من علي، و يحرج علي من سماه به۔

بنی امیہ جب بھی سنتے تھے کہ فلاں نو مولود بچے کا نام علی ہے تو وہ اسکو قتل کر دیتے۔

تهذيب التهذيب ،ج 7 ، ص 281.

التماس دعا

 





Share
1 | حبیب اللہ | | ٢٣:٣٧ - ٢٠ September ٢٠٢٠ |
ماشاءاللہ زبردست تجزیہ کیا ہے،،، جزاک اللہ

جواب:
 سلام علیکم ۔۔۔شکریہ ۔۔۔ جزاک اللہ ۔۔۔ 
   
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات