2024 March 29
کیا شیعوں کے نذدیک حکیمہ خاتون کے توسط سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کی خبر قابل قبول ہے ؟
مندرجات: ٢١٨٩ تاریخ اشاعت: ١٠ March ٢٠٢٢ - ٠٣:٠١ مشاہدات: 2746
مضامین و مقالات » پبلک
کیا شیعوں کے نذدیک حکیمہ خاتون کے توسط سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کی خبر قابل قبول ہے ؟

ولادت امام مہدی علیہ السلام کی خبر حکیمہ خاتون سے

شبھہ:

کیا امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کی خبر صرف حکیمہ خاتون کے توسط سے نقل ہوئی ہے؟

کیا شیعوں کے نذدیک حکیمہ خاتون کے توسط سے حضرت امام مہدی علیہ السلام  کی ولادت کی خبر قابل قبول ہے ؟

مطالب کی فہرست

اصلی شبهه:

مقدمه:

پہلا مطلب: قفاري کے استدلال میں مغالطه۔

 دوسرا مطلب : حكيمه کی گواہی حضرت مهدي (ع) کی ولادت کے لئے کافی ہے ۔ 

تیسرا مطلب : حضرت حكيمه (سلام الله عليها) کا نسب  اور ان کی شخصيت

پہلا جواب : حكيمه کی گواہی مصداق  اور اصل عقيده مهدويت کی دليل

عقيده مهدويت، اور كتب اهل سنت:

دوسرا جواب :  دوسروں کا  حضرت مهدي (عج) کی ولادت کی گواہی

تیسرا جواب :  حضرت مهدي (ع) کی ولادت کے بعد بعض قابل اعتماد لوگوں کا امام مہدی(ع) کو دیکھنا  

1. عبد الله بن جعفر حميري کی روایت :

2. محمّد بن عثمان عمري نے چالس افراد کے ساتھ امام کو دیکها

3. امام عسكري (ع) کے خادم ابو غانم کی روايت

4. أحمد بن إسحاق قمي.

5. إبراهيم بن محمد بن فارس النيسابوري

6. أبو هارون

7. يعقوب بن منقوش

8. عمرو اهوازي

9. محمّد بن إسماعيل بن موسي بن جعفر عليهماالسلام

10. أبو نصر طريف خادم

11. أبو عليّ بن مطهر

12. نسيم ، امام عسكري عليه السلام کے خادم

13. فارس کا ایک شخص

14. كامل بن إبراهيم مدني.

چوتھا جواب : امام عسكري (ع) نے قابل اعتماد لوگوں کو امام مهدي (ع) کی ولادت کی خبر دی ۔

پانچواں جواب :  اهل سنت کے بزرگوں کا امام کی ولادت اور امام سے ملاقات کا اعتراف  ۔

نتيجه :

 

اصلی شبهه:

وہابی اور شیعہ مخالفوں کی طرف سے امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کے سلسلے میں اٹھائے جانے والے شبھات میں سے ایک یہ ہے کہ شیعہ کتابوں کے مطابق امام مہدی علیہ السلام کی ولادت صرف حکیمہ خاتون سے نقل ہے کہ جو معصوم نہیں ہے ،اب شیعہ کیسے ایک غیر معصوم کی بات پر ایسے اہم مسئلہ میں اعتماد کرتے ہیں کہ جو مسئلہ ان کے نذدیک اصول دین کے مسائل میں شمار ہوتا ہے؟

 

ناصر قفاري کی جو عصر حاضر میں وہابیوں کے مفکر اور بڑے علماء میں سے ہے، وہ اس سلسلے میں لکھتا ہے :

فمسألة المهدي وغيبته تسربت عن طريق حكيمة وما أدري كيف يقبلون قول امرأة غير معصومة في اصل المذهب.

امام مهدي(ع) کی ولادت اور ان کی غيبت کا مسئلہ، حكميه کے توسط سے نقل ہوا ہے . اب ہمیں معلوم نہیں کہ شیعہ ،اصول دین سے متعلق ایک اہم مسئلہ میں کیسے ایک غیر معصوم کی باتوں کو قبول کرتے ہیں؟

ناصر بن عبد الله القفاري، أصول مذهب الشيعة، ج2 ص1024، ناشر: دار الرضا ـ الجيزة.

مقدمه:

اصل مطلب پر بحث کرنے سے پہلے اس سلسلے میں دو مطالب کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے :

پہلا مطلب: قفاري کے استدلال میں مغالطه

قفاري نے اس استدلال میں دو مقدمے، { علم منطق کی اصطلاح میں صغريٰ اور كبريٰ } بنایا ہے اور مغالطه کے ذریعے شیعوں کےعقيدے پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے .

استدلال کا پہلا مقدمہ{صغريٰ} : حضرت مهدي(ع)  کی ولادت کے سلسلے میں حكيمه کی خبر اور گواہی ایک غیر معصوم عورت کی گواہی ہے ؛

 دوسرا مقدمہ {كبريٰ }: ایک غیر معصوم کی گواہی سے مهدويت جیسے اہم مسئلے کو ثابت نہیں کرسکتا ۔

نتيجه:  شیعہ حضرات ، مهدويت جیسے اہم مسئلے کو ثابت نہیں کرسکتے.

قفاري کے اس استدلال پر بہت سے اشکالات ہوسکتے ہیں ،ان میں سے بعض کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں ۔

الف: ایک شخص کا ہونا اس کی  دلالت پر دلالت کرتی ہے !

ایک شخص کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے ولادت کے وقت اس کا دیکھنا یا اس کی ولادت ثابت کرنا ضروری نہیں ہے ۔ کیونکہ جس کا وجود ہو  اور اسی طرح بعض کہے کہ ہم نے اس کو دیکھا ہے یہ لوگ اس کے وجود کا اقرار کرئے تو اس کی ولادت بھی خود بخود ثابت ہوگی ۔

امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں بھی یہی بات ہے کیونکہ آپ کا جب وجود ہے اور بعض نے یہ گواہی دی ہے کہ ہم نے انہیں دیکھا ہے تو ان کی ولادت خود بخود ثابت ہوگی .انشاﺀ اللہ  ہم اس سلسلے کی روایات کو تفصیل سے نقل کریں گے ۔

ان روایت کے علاوہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے بہت سے اصحاب اور شیعوں نے انہیں دیکھنے کا اقرار کیا ہے اور اس بات کی گواہی دی ہے اور اہل سنت کے بزرگ علماء بھی ان کی ولادت کے معترف ہیں اور ہم مقالے کے آخری حصے میں اس کو نقل کریں گے ۔

هم قفاري اور اس جیسوں سے سوال کرتے ہیں، کیا اس قسم کے اعتراف ان کی ولادت کو ثابت کرنے اور مھدویت کے نظریے کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ؟ کیا پھر بھی حکیمہ کی گواہی کو بہانہ بنا کر مہدویت کا انکار ہی کرتے رہوگے؟

 

ب: کسی نے بھی کسی کی ولادت کو ثابت کرنے کے لئے معصوم کی گواہی کی شرط نہیں رکھی ہے !

قفاري کا اشکال ہی غلط ہے، کیونکہ شیعہ اور اہل سنت کے ہاں ایسا قانون اور اصول ہی نہیں ہے،کسی بھی شیعہ عالم نے ایسا نہیں کہا ہے که کسی کی ولادت کو ثابت کرنے کے لئے کسی معصوم کی گواہی ضروری ہو. کیا خليفه اول ، دوم ، سوم ، عائشه،حفصه،ابوهريره  اور  معاويه حتي خود قفاري کی ولادت کی گواہی ایک جماعت نے آکر  نہیں دی  ہے ؟  

ظاهراً قفاري اور اس جیسے لوگوں نے عقیدہ مهدويت سے تعصب کی وجہ سے بین الاقوامی اور متعارف قوانین سے غفلت برتی ہے۔

لہذا  اس کا اشکال صرف ایک مغالطه هے اور وہ مغالطے کا شکارہے ، شیعہ عقائد کا انکار  کرنے کے لئے حقائق سے چشم پوشی سے کام لیا ہے  ۔ شیعہ اور اہل سنت کے ہاں نہ ایسا کوئی قانون ہے ، نه عقل سليم  اور سماج اور معاشره اس چیز کو قبول کرتا ہے .

ج: عورتوں کے مسائل میں ایک عورت کی گواہی بھی کافی ہے !

اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ ماں سے کسی بچے کی ولادت کے لئے گواہ کا ہونا ضروری ہے،تو بھی یقینا یہ ان مسائل میں سے نہیں ہے جن میں ایک عورت کی گواہی کافی نہ ہو لہذا اہل سنت کے علماء نے ایک  غیر معصوم عورت کی گواہی کو بھی کافی جانا ہے ۔

اس سلسلے میں کچھ علماء کے فتوے دیکھیں:

عبد الرزاق صنعاني نے شعبي  اور حسن بصري کے فتوا کو اس طرح نقل کیا ہے :

عبد الرزاق عن الثوري قال أخبرني أشعث عن الشعبي والحسن قالا: تجوز شهادة المرأة الواحدة فيما لا يطلع عليه الرجال.

شعبي اور حسن بصري سے نقل ہوا ہے : عورتوں سے متعلق مسائل" ولادت ، حیض و نفاس ۔۔}  میں ایک عورت کی گواہی کافی ہے ۔ !

الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، مصنف عبد الرزاق، ج8، ص333، تحقيق: حبيب الرحمن الأعظمي دار النشر: المكتب الإسلامي- بيروت، الطبعة: الثانية1403

ابن قدامه حنبلي کا بھی  یہی فتوا ہے :

ولا نعلم بين أهل العلم خلافا في قبول شهادة النساء المنفردات في الجملة، قال القاضي والذي تقبل فيه شهادتهن منفردات خمسة أشياء الولادة والاستهلال والرضاع والعيوب تحت الثياب كالرتق والقرن والبكارة والثيابة والبرص وانقضاء العدة.

اهل علم کے درمیان ایک عورت کی گواہی قبول کرنے کے سلسلے میں فی الجملہ اختلاف نہیں ہے. قاضی نے کہا ہے : پانچ مقامات پر ایک عورت کی گواہی کافی ہے ، ولادت، استهلال، رضاع، ایسے عیوب جو  نكاح کے فسخ  اور عدہ ختم ہونے کا موجب ہو۔

المقدسي الحنبلي، شمس الدين أبي الفرج عبد الرحمن بن محمد بن أحمد بن قدامة (متوفاي682هـ)، الشرح الكبير علي متن المقنع، ج12، ص97، ناشر: دار الكتاب العربي للنشر والتوزيع ـ بيروت.

شمس الدين دمشقي نے احمد بن حنبل کا یہ فتوا نقل کیا ہے کہ ان مسائل میں ایک عورت کی گواہی کافی ہے:

وقال إِسْحَاقُ بن مَنْصُورٍ: قُلْت لِأَحْمَدَ: هل تَجُوزُ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ؟ قال: شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ في الرَّضَاعِ وَالْوِلَادَةِ فِيمَا لَا يَطَّلِعُ عليه الرِّجَالُ. قال: وَأُجَوِّزُ شَهَادَةَ امْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ إذَا كانت ثِقَةً فَإِنْ كان أَكْثَرَ فَهُوَ أَحَبُّ إلَيَّ.

الزرعي، أبو عبد الله شمس الدين محمد بن أبي بكر بن أيوب بن سعد الدمشقي (متوفاي751 هـ)، الطرق الحكمية في السياسة الشرعية، ج1، ص118، تحقيق: د. محمد جميل غازي، دار النشر: مطبعة المدني - القاهرة، طبق برنامه الجامع الكبير.

اگراس سلسلے میں روایات اور فتوے نہ بھی ہوتے تب بھی عقل کا یہ حکم کافی ہے کہ ایسے مسائل میں جو عورتوں سے مخصوص ہوں جیسے ولادت، تو ان مسائل میں عورتوں کی گواہی کافی ہے اور یہ رسم ہر مکتب فکر میں موجود ہے . لہذا ولادت کے مسئلے میں خاص کر ولادت کے سلسلے میں مدد کرنے والی عورت کی گواہی کافی ہے۔

اب ان سب کے باوجود قفاري عقيده مهدويت کو خراب کرنے کے لئے ایک عورت کی گواہی کو کافی نہیں سمجھتا۔

اس چیز کا سب کو علم ہے کہ حضرت موسي عليه السلام کی ولادت سب سے مخفی رہی ،ان کی ماں کے علاوہ کوئی اور وہاں پر حاضر نہیں تھا ، اب کیا یہاں کسی کا ہونا ضروری ہے کہ جو ولادت کے وقت موجود ہو اور پھر دوسروں کو  اس کی گواہی دیجائے ۔ یہاں کسی نے بھی ان کی ماں سے گواہی کا مطالبہ نہیں کیا ۔ اب اگر نقلی دلائل کی بنیاد پر ان کی ولادت کو قبول کیا جانا صحیح ہے تو حضرت مهدي عجل الله تعالي فرجه الشريف کی ولادت کیوں قابل قبول نہیں.جبکہ یہاں ایک حکیمہ نامی خاتون ولادت کے گواہ بھی ہے ۔

د: امام مھدی(ع) کی ولادت کا ثابت نہ ہونا عقیدہ مھدویت کی نفی پر دلیل نہیں۔

قفاري نے یہاں دو الگ الگ مسئلے میں خلط کیا ہے :

الف: اصل عقيده مهدويت؛

ب: مهدي نامی ایک شخص کی ولادت کا اثبات.

واضح ہے یہ دو الگ الگ مسئلے ہیں،اگر امام مھدی (ع) کی ولادت ثابت نہ تو اس سے اصل مھدویت کے عقیدہ کی نفی نہیں ہوتی۔

قفاري،جناب حكيمه خاتون کے غير معصوم ہونے کے بہانے اصل مهدويت کے عقيده پر اعتراض نہیں کرسکتا،زیادہ سے زیادہ خود امام مھدی علیہ السلام کی ولادت پر اعتراض کرسکتا ہے،اصل مھدویت کا عقیدہ بنیادی عقیدہ ہے اس کی جڑِیں مظبوط ہے ۔ اس کا جناب حکیمہ کی طرف سے ولادت کی گواہی سے کوئی تعلق نہیں، چاہئے حکیمہ گواہی دے یا نہ دئے،اصل مھدویت کا عقیدہ اپنی جگہ قائم ہے. کیونکہ مھدویت کا عقیدہ قرآنی آیات اور شیعہ اور اهل سنت کی صحیح سند احادیث سے ثابت ہے اور سوای کچھ محدود لوگوں کے باقی سارے مسلمانوں کے لئے مھدویت کا عقیدہ قابل اعتراض عقیدہ نہیں ہے ۔ سب اس پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ آخری زمانے میں حضرت فاطمه سلام الله عليها کی نسل سے ایک فرزند قیام کرئے گا جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دئے گا ۔ اب یہ عقیدہ ثابت شدہ عقیدہ  ہے اس کے لئے جناب حکیمہ کا امام مھدی علیہ السلام کی ولادت پر گواہی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

هـ: مهدي (عج) کا مصداق شيعه متواتر روایات سے ثابت ہے:

قابل توجہ بات یہ ہے اگر فرض کرئے کہ جناب حكيمه کی گواہی یہاں قابل قبول نہ ہو پھر بھی اس کا معنی امام حسن عسكري عليه السلام کے ہاں فرزند کی ولادت کا نہ ہونا نہیں ہے !

کیونکہ شیعہ کتابوں میں سینکڑوں صحیح سند روایتیں ایسی ہیں  کہ جو  حضرت مهدي عجل الله تعالي فرجه الشريف کا امام عسكري عليه السلام کے فرزند ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔ ان احادیث کے مطابق آپ ایک لمبی غیبت کے بعد ظہور فرمائیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سد بھر بردیں گے.

اب اگر حضرت حكيمه کی گواہی قابل قبول ہو یا نہ ہو ، شیعوں کے ہاں امام مھدی علیہ السلام کا وجود بلکل واضح اور روشن ہے اور متواتر روایات ،تمام شیعہ علماء کا اجماع اس پر قائم ہے اور یہ ثابت شدہ مسئلہ ہے ۔

 

ایک نقضی جواب :

ابوهريره اور اس کے والد کا اصلی نام نہیں ہے . اب کیا اس کا معنی یہ ہے کہ ابوھریرہ اور اس کے والد کا کوئی وجود نہیں ؟

ابن حجر عسقلاني جو اهل سنت کے رجال  کے بزرگ علماء میں سے ہے، انہوں  نے ابوهريره کے نام کے بارے لکھا ہے :

أبو هريرة الدوسي الصحابي الجليل حافظ الصحابة اختلف في اسمه واسم أبيه قيل عبد الرحمن بن صخر وقيل بن غنم وقيل عبد الله بن عائذ وقيل بن عامر وقيل بن عمرو وقيل سكين بن ودمة بن هانئ وقيل بن مل وقيل بن صخر وقيل عامر بن عبد شمس وقيل بن عمير وقيل يزيد بن عشرقة وقيل عبد نهم وقيل عبد شمس وقيل غنم وقيل عبيد بن غنم وقيل عمرو بن غنم وقيل بن عامر وقيل سعيد بن الحارث هذا الذي وقفنا عليه من الاختلاف في ذلك...

ابوهريره اور اس کے باپ کے نام کے بارے میں اختلاف نطر موجود ہے اور مندرجہ ذیل نام اس سلسلے میں ذکر ہوئے ہیں : 1. عبد الرحمن بن صخر؛ 2. عبد الرحمن بن غنم؛ 3. عبد لله بن عائذ؛ 4. عبد الله بن عامر؛ 5. عبد الله بن عمر؛ 6. سكين بن ودمة بن هاني؛ 7. سكين بن مل؛ 8. سكين بن صخر؛ 9. عامر بن عبد الشمس؛ 10. عامر بن عمير؛ 11. يزيد عشرقة؛ 12. يزيد بن عبد نهم؛ 13. يزيد بن عبد شمس؛ 14. يزيد بن غنم؛ 15. عبيد بن غنم؛ 16 عمرو بن غنم؛ 17. عمرو بن عامر؛ 18. سعيد بن الحارث.

یہ وہ نام ہیں جو ان کے بارے میں مجھے معلوم ہے ۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر ابوالفضل (متوفاي852هـ)، تقريب التهذيب، ج1، ص680، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406 - 1986.

لهذا ایک چیز کا کسی ایک دلیل سے ثابت نہ ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کہ اس کے اثبات کے لئے کوئی اور دلیل نہ ہو !

رسول خدا صلي الله عليه وآله نے مهدي موعود (ع) کے آنے کی خبر دی ہے اور اس سلسلے میں شیعوں کے ہاں متواتر روایات موجود ہیں اور اہل سنت کے بھی بعض علماء کی راے کے مطابق آپ امام حسن العسکری(ع) کے فرزند ہوں گے ۔ اب یہاں ان کے ماں کا کیا نام ہے ،یہ زیادہ اہم نہیں ہے ۔حتی اگر جناب نرجس خاتوں سے آپ کی ولادت ثابت نہ بھی ہو پھر امام مھدی(ع)  کے وجود کی نفی نہیں کرسکتا کیونکہ ممکن ہے ان کی کسی اور زوجہ سے آپ کی ولادت ہوئی ہو ۔ لہذا شیعہ عقیدے کے مطابق آپ کے والد کا تعیین کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے ، آپ کی ماں کا تعیین زیادہ اہمیت کا حامل نہیں۔

  و : کیا ماں کے نام میں اختلاف کو دور کرنے کے لئے کسی کی گواہی کی ضرورت ہے  ؟

امام زمان عجل الله تعالي فرجه الشريف کی ماں کے بارے گواہی کس لئے ضروری ہے ؟ اگر ایک اجنبی آدمی کہے کہ مجھے فلان شخص کی نسب میں اس اعتبار سے شک ہے کہ یہ اس ماں سے ہے یا فلان ماں سے ،یا فلاں اس شخص کا فرزند ہے یا نہیں۔ اب کیا کسی اجنبی شخص کے اس طرح کہنے سے ولادت میں شبھہ ایجاد ہوگا اور اس کے لئے گواہی کی ضرورت پڑے گی ؟

لہذا امام مھدی عليه السلام کی ولادت کے سلسلے میں نہ کسی پر تہمت ہے نہ ان کے والد نے اس کا انکار کیا ہے۔ لہذا سوال یہ ہے کہ یہاں کس چیز کو ثابت کرنے کے لئے گواہی دینے کی ضرورت ہے ؟

ماوردي شافعي کهتا هے :اگر كسي نے کہا میں کا باپ ہوں تو اس سے نسب ثابت ہوجاتا ہے کسی گواہی کی ضرورت نہیں ۔

دعوي النسب الخاص وهو الواحد يدعي أبا فيقول: أنا ابن فلان، فإن اعترف له بالأبوة ثبت نسبه أو يدعي الواحد ابناً فيقول: هذا ابني، فإن اعترف له بالبنوة ثبت نسبه وصار جميع من ناسبهما عواقل لكل واحد منهما..

کسی خاص نسب کے لئے کوئی یہ ادعا کرئے کہ میں فلانی کا بیٹا ہوں اور اس کے والد اعتراف کر لے تو اس کا نسب ثابت ہوگا . کوئی کہے کہ میں فلان کا باپ ہوں اور وہ بھی اعتراف کر لے تو نسب ثابت ہوگا اور ان دونوں کے تمام رشتہ داروں سے ان کی نسبت بھی ثابت ہوگی  ۔۔۔۔۔۔!

الماوردي البصري الشافعي، علي بن محمد بن حبيب (متوفاي450هـ)، الحاوي الكبير في فقه مذهب الإمام الشافعي وهو شرح مختصر المزني، ج12، ص368، تحقيق الشيخ علي محمد معوض - الشيخ عادل أحمد عبد الموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت - لبنان، الطبعة: الأولي، 1419 هـ -1999م.

لہذا امام حضرت مهدي عجل الله تعالي فرجه الشريف کی نسبت کو ثابت کرنے کے سلسلے میں کوئی اشکال ہی نہیں ہے ۔ اسی لئے یہاں قفازی کا پہلا مقدمہ ہی غلط ہے ۔کیونکہ یہاں کسی قسم کی گواہی کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔جیساکہ اهل سنت کے علماء کے بیان کے مطابق اگر باہر سے کوئی گواہی بھی لائی جائے تب بھی اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہے اور کسی نے اگر نسب کا ادعا بھی کیا ہو تو اس کے لئے باہر سے کسی کی گواہی کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔

دوسرا مطلب: حضرت مهدي (ع) کی ولادت پر جناب حكيمه کی گواہی

کیونکہ فقاري کی ساری باتیں حضرت حكيمه کی طرف سے حضرت مهدي عجل الله تعالي فرجه الشريف کی ولادت کی گواہی کے ارد گرد ہی ہیں لہذا مناسب یہ ہے کہ پہلے اس سلسلے میں حکیمہ خاتون کی ایک گواہی پر مشتمل کچھ روایات یہاں نقل ہو۔

روايت اول:

مرحوم كليني نے  كافي میں، شيخ مفيد نے کتاب ارشاد میں جناب حكيمه سے امام زمان عليه السلام کی ولادت کی گواہی اس طرح نقل کیا ہے :

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَي عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ رِزْقِ اللَّهِ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَي بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ مُوسَي بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَتْنِي حَكِيمَةُ ابْنَةُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ وَهِيَ عَمَّةُ أَبِيهِ أَنَّهَا رَأَتْهُ لَيْلَةَ مَوْلِدِهِ وَبَعْدَ ذَلِك .

موسي بن محمد کہتا ہے : حكيمه بنت محمد بن علي (امام جواد) عليهما السلام کہ جو آپ کی پھوپھی ہیں ، انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں نے انہیں ولادت کی رات اور اس کے بعد دیکھا ہے ۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 1، ص331، باب تسمية من رآه، ح3، ناشر: اسلاميه ، تهران ، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش

الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري البغدادي (متوفاي413 هـ)، الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج2، ص351، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993 م.

دوسری روايت:

شيخ صدوق نے اپنی سند کےساتھ حكيمه بنت امام جواد عليه السلام سے طولاني روايت نقل کی ہے :

بَعَثَ إِلَيَّ أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عليه السلام فَقَالَ: يَا عَمَّةُ اجْعَلِي إِفْطَارَكِ هَذِهِ اللَّيْلَةَ عِنْدَنَا فَإِنَّهَا لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَي سَيُظْهِرُ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ الْحُجَّةَ وَهُوَ حُجَّتُهُ فِي أَرْضِهِ قَالَتْ: فَقُلْتُ لَهُ وَمَنْ أُمُّهُ؟ قَالَ: لِي نَرْجِسُ قُلْتُ لَهُ: جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ مَا بِهَا أَثَرٌ؟ فَقَالَ: هُوَ مَا أَقُولُ لَكِ قَالَتْ: فَجِئْتُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ وَجَلَسْتُ جَاءَتْ تَنْزِعُ خُفِّي وَقَالَتْ لِي: يَا سَيِّدَتِي وَسَيِّدَةَ أَهْلِي كَيْفَ أَمْسَيْتِ؟ فَقُلْتُ: بَلْ أَنْتِ سَيِّدَتِي وَسَيِّدَةُ أَهْلِي قَالَتْ: فَأَنْكَرَتْ قَوْلِي وَقَالَتْ: مَا هَذَا يَا عَمَّةُ؟ قَالَتْ فَقُلْتُ لَهَا: يَا بُنَيَّةُ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَي سَيَهَبُ لَكِ فِي لَيْلَتِكِ هَذِهِ غُلَاماً سَيِّداً فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَتْ: فَخَجِلَتْ وَاسْتَحْيَتْ فَلَمَّا أَنْ فَرَغْتُ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ أَفْطَرْتُ وَأَخَذْتُ مَضْجَعِي فَرَقَدْتُ فَلَمَّا أَنْ كَانَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ قُمْتُ إِلَي الصَّلَاةِ فَفَرَغْتُ مِنْ صَلَاتِي وَهِيَ نَائِمَةٌ لَيْسَ بِهَا حَادِثٌ ثُمَّ جَلَسْتُ مُعَقِّبَةً ثُمَّ اضْطَجَعْتُ ثُمَّ انْتَبَهْتُ فَزِعَةً وَهِيَ رَاقِدَةٌ ثُمَّ قَامَتْ فَصَلَّتْ وَنَامَتْ- قَالَتْ حَكِيمَةُ: وَخَرَجْتُ أَتَفَقَّدُ الْفَجْرَ فَإِذَا أَنَا بِالْفَجْرِ الْأَوَّلِ كَذَنَبِ السِّرْحَانِ وَهِيَ نَائِمَةٌ فَدَخَلَنِي الشُّكُوكُ فَصَاحَ بِي أَبُو مُحَمَّدٍ عليه السلام مِنَ الْمَجْلِسِ فَقَالَ: لَا تَعْجَلِي يَا عَمَّةُ فَهَاكِ الْأَمْرُ قَدْ قَرُبَ قَالَتْ فَجَلَسْتُ وَقَرَأْتُ الم السَّجْدَةَ وَيس فَبَيْنَمَا أَنَا كَذَلِكَ إِذِ انْتَبَهَتْ فَزِعَةً فَوَثَبْتُ إِلَيْهَا فَقُلْتُ: اسْمُ اللَّهِ عَلَيْكِ ثُمَّ قُلْتُ لَهَا: أَ تَحِسِّينَ شَيْئاً؟ قَالَتْ: نَعَمْ يَا عَمَّةُ فَقُلْتُ لَهَا: اجْمَعِي نَفْسَكِ وَاجْمَعِي قَلْبَكِ فَهُوَ مَا قُلْتُ لَكِ قَالَتْ: فَأَخَذَتْنِي فَتْرَةٌ وَأَخَذَتْهَا فَتْرَةٌ فَانْتَبَهْتُ بِحِسِّ سَيِّدِي فَكَشَفْتُ الثَّوْبَ عَنْهُ فَإِذَا أَنَا بِهِ عليه السلام سَاجِداً يَتَلَقَّي الْأَرْضَ بِمَسَاجِدِهِ فَضَمَمْتُهُ إِلَيَّ فَإِذَا أَنَا بِهِ نَظِيفٌ مُتَنَظِّفٌ فَصَاحَ بِي أَبُو مُحَمَّدٍ عليه السلام هَلُمِّي إِلَيَّ ابْنِي يَا عَمَّةُ فَجِئْتُ بِهِ إِلَيْهِ فَوَضَعَ يَدَيْهِ تَحْتَ أَلْيَتَيْهِ وَظَهْرِهِ وَوَضَعَ قَدَمَيْهِ عَلَي صَدْرِهِ ثُمَّ أَدْلَي لِسَانَهُ فِي فِيهِ وَأَمَرَّ يَدَهُ عَلَي عَيْنَيْهِ وَسَمْعِهِ وَمَفَاصِلِهِ ثُمَّ قَالَ تَكَلَّمْ يَا بُنَيَّ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وآله ثُمَّ صَلَّي عَلَي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَعَلَي الْأَئِمَّةِ عليهم السلام إِلَي أَنْ وَقَفَ عَلَي أَبِيهِ...

 حضرت حکیمہ خاتون جو کہ امام جواد علیہ السلام کی بیٹی اور امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی ہیں، بیان کرتی ہیں کہ ابومحمد حسن بن علی علیہ السلام نے ایک خادم کے ذریعے مجھے پیغام بھجوا کر مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا:اے پھوپھی جان! آج افطار ہمارے پاس کریں کیونکہ آج پندرہ شعبان کی رات ہے اورآج کی رات خداوندمتعال اپنی حجت کو زمین پر بھیجے گا . حکیمہ خاتون کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کس ماں سے متولد ہوں گے ؟ فرمایا :نرجس خاتون سے۔ میں نے کہا کہ میری جان آپ پر فدا میں اس میں حمل کے آثار نہیں دیکھ رہی ۔ فرمایا : جو کچھ بیان کیاہے وہی انجام پائے گا اسی وجہ سے میں نرجس کے پاس داخل گئی اور سلام کیا نرجس خاتون میرے پاس آئیں تاکہ میرے جوتے اتاریں ، اور کہا اے میری اور میرے خاندان کی سیدہ آپ کا کیا حال ہے ؟ میں نے جواب دیا :  نہیں ہماری سیدہ ہیں .لیکن انہوں نے میری بات کا انکار کیا اور جواب دیا: اے پھوپھی جان آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں میں نے کہا :اے میری بیٹی آج کی شب خداوندمتعال تجھے ایسا فرزند عنایت کرے گا کہ جو دونوں جہاں کے سردار ہیں ؟ یہ سن کر نرجس نے شرم سے سرجھکا لیا ۔اس کےبعد میں نے نماز عشا بجالائی اور اپنے بستر پر چلی گئی جیسے ہی آدھی رات ہوئی میں نماز شب پڑھنے بیدارہوئی اور تعقیبات پڑھنے کے بعد سو گئی اورتھوڑی دیر بعد دوبارہ اٹھی اسی اثنا میں نرجس بھی نماز تہجد کےلیے اٹھی اور نماز تہجد بجالائی. پھر میں طلوع فجر ہونے یا نہ ہونے کو  دیکھنے کے لئے اپنے حجرے سے باہر آئی ،میں نے دیکھا کہ فجر اول کا وقت ہوچکا ہے .اسی وقت میرے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ کیوں ابھی تک حجت کے متولد ہونے کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہورہا؟ قریب تھا کہ میرے دل میں شک ایجاد ہوتا کہ اچانک امام حسن عسکری علیہ السلا م نے اپنے حجرے سے مجھے آوازدی ! اے پھوپھی جان جلدی نہ کریں ، موعود کی ولادت کا وقت قریب ہے میں سورہ الم سجدہ اور یسن اوردوسری روایات کے مطابق سورہ قدر)پڑھنے میں مشغول ہوئی اچانک نرجس خاتون مضطرب حالت میں اٹھی، میں جلدی سے اس کے پاس گئی اورپوچھا ،کیا کسی چیز کا احساس کررہی ہو ؟ نرجس نے جواب دیا : ہاں ۔ میں نے اس سے کہا : خدا کا نام اپنی زبان پر جاری کرو یہ وہی موضوع ہے جس کا پہلے میں نے ذکرکیا، پریشان نہ ہو اور اپنے دل کو مطمئن رکھو اسی اثنا میں نور کا پردہ میرے اور اس کے درمیان حائل ہوگیا (یا دوسری روایت کے مطابق میری آنکھوں پر نیند کا ایسا غلبہ ہوا کہ میری تھوڑی دیر کے لیے آنکھ لگ گئی جب بیدار ہوئی )تو دیکھا کہ نو مولود بچہ  سر بسجود اورخدا کے ذکر میں مشغول ہے . جب مولود کو آغوش میں لیا تو میں نے دیکھا کہ مکمل پاک و پاکیزہ ہے اسی دوران  امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے اپنے پاس بلایا اورکہا اے پھوپھی جان میرے فرزند کو میرے پاس لے آئیں جب بچے کو امام کی خدمت میں لے گئی تو امام نے انہیں اپنی آغوش میں لیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اورفرمایا : اے میرے فرزند کچھ بولو !پس بچے نے اپنی زبان مبارک سے کلمہ شہادتین جاری کیا :اشہد ان لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ وان جدی رسول اللہ وان ابی امیرالمومنین۔۔۔ اسی طرح اپنے والد تک سارے ائمہ کی امامت کی گواہی دی ۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص424، ناشر: اسلامية ـ تهران ، الطبعة الثانية ، 1395 هـ.

تیسری روايت:

حضرت مهدي کی ولادت کو  قندوذي حنفي نے ينابيع المودة میں حكيمه سے یوں نقل کیا ہے :

فلما كانت ليلة النصف من شعبان سنة خامس وخمسين ومائتين، دخلت حكيمة عند الحسن فقال لها: يا عمتي كوني الليلة عندنا لأمر، فأقامت. فلما كان وقت الفجر اضطربت نرجس، فقامت إليها حكيمة، فوضعت المولود المبارك، فلما رأته حكيمة أتت به الحسن (رضي الله عنهم) وهو مختون، فأخذه ومسح بيده علي ظهره وعينيه، وأدخل لسانه في فيه، وأذن في أذنه اليمني وأقام في الأخري، ثم قال: يا عمة إذهبي به إلي أمه، فردته إلي أمه. قالت حكيمة: ثم جئت من بيتي إلي أبي محمد الحسن فإذا المولود بين يديه في ثياب صفر، وعليه من البهاء والنور، أخذ حبه مجامع قلبي، فقلت: يا سيدي هل عندك من علم في هذا المولود المبارك ؟ فقال: يا عمة هذا المنتظر الذي بشرنا به...

جب ۱۵  شعبان ۲۵۵ کی رات ہوئی تو حضرت حکیمہ خاتوں امام حسن عكسری (ع) کے پاس آئی اور آپ نے فرمایا: اے پھوپھی! آج جو کام ہونے والا ہے اس کام کی خاطر ہمارے پاس رہے۔

 فجر کے وقت حضرت نرجس کو تکلیف ہوئی اور پاکیزہ مولود دنیا میں آیا جب حکیمہ نے انہیں دیکھا تو انہیں امام حسن عسكري علیه السلام کے پاس لے گئی اور یہ بچہ ختنہ شدہ تھا امام حسن عسكري علیه السلام نے انہیں اٹھایا اور اپنے ہاتھوں کو ان کی پیشانی اور آنکھوں پر کھینچا اور آپنی زبان کو ان کے منہ میں ڈالا اور دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامۃ کهی اور فرمایا : پھوپھی اس بچے کو ان کی ماں کو دئے اور میں نے بھی اس کو اٹھایا کر ان کی والدہ کو دیا ۔

حكيمه کہتی ہے کہ ایک اور دن میں ابو محمد حسن عسكري(ع)  کے گھر جب آئی تو بچے کو زرد کپڑے میں لپٹا ہوا تھا. ان کو اپنے سامنے دیکھا ان کی محبت میرے دل میں آئی ۔میں نے کہا : اے میرے سردار کیا اس بچے کی دلادت کی آپ کو خبر تھی ، امام حسن عسکری (ع)  نے فرمایا : اے پھوپھی! یہ وہی مہدی موعود ہیں کہ بشریت کو جن کے آنے کا  انتظار ہے ۔۔۔۔۔

القندوزي الحنفي، الشيخ سليمان بن إبراهيم (متوفاي1294هـ) ينابيع المودة لذوي القربي، ج3، ص172، تحقيق: سيد علي جمال أشرف الحسيني، ناشر: دار الأسوة للطباعة والنشرـ قم، الطبعة:الأولي1416هـ.

لہذا اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب حکیمہ نے امام  مهدي عليه السلام کو ولادت کی شب اور اس کے بعد دیکھا ہے .

تیسرا مطلب: حضرت حكيمه (سلام الله عليها) کی نسب اور شخصيت

قفاري کہتا ہے : حضرت حكيمه ایک غير معصوم شخص ہے، شیعہ کیسے ان کی گواہی کو امام زمان عليه السلام کی ولادت کے مسئلے میں قبول کرتے ہیں؟ اب ہم یہاں حضرت حکیمہ کے نسب اور شخصیت کے بارے میں بتائیں گے تاکہ اس قسم کے شہات خود بخود ختم ہوجائے ۔

1. نام اور نسب

حضرت حكيمه ایسے رایوں کی طرح نہیں ہے کہ جس کی شخصیت اور نسب معلوم نہ ہو یہاں تک کہ ان کے بارے میں کوئی شک کرئے ۔ آپ کا نام اور نسب اور شخصیت معلوم ہے. آپ امام کے فرزند اور اہل بیت علیہم السلام کے پاکیزہ خاندان سے آپ کا تعلق ہے ۔

طبرسي آپ کے بارے میں کہتے ہیں: حضرت حكيمه ،امام جواد عليه السلام کے فرزندوں میں سے ایک ہے :

وَخَلَّفَ مِنَ الْوَلَدِ عَلِيّاً عليه السلام ابْنَهُ الْإِمَامَ وَمُوسَي وَمِنَ الْبَنَاتِ حَكِيمَةَ وَخَدِيجَةَ وَأُمَّ كُلْثُوم .

امام جواد سلام اللَّه عليه کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں، آپ کے فرزندوں میں سے ایک حضرت هادي سلام اللَّه عليه ہیں دوسرے بیٹے کا نام  موسي ہے۔ اور آپ کی بیٹیوں کے نام حكيمه، خديجه اور ام كلثوم  ہیں۔

الطبرسي، أبي علي الفضل بن الحسن (متوفاي548هـ)، إعلام الوري بأعلام الهدي، ص 355، تحقيق و نشر: تحقيق مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث ـ قم، الطبعة: الأولي، 1417هـ.

علامه مجلسي نے اس سلسلے میں لکھا ہے :

سم المعتصم محمد بن علي عليهما السلام وأولاده علي الامام وموسي وحكيمة وخديجة وأم كلثوم.

معتصم عباسي نے امام جواد عليه السلام کو زہر دلایا اور امام جواد، علي (امام هادي عليه السلام) ، موسي، حكيمه، خديجه  اور ام كلثوم آپ کے فرزندوں میں سے ہیں.

المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج50، ص 8، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.

2. جلالت و وثاقت:

آپ کی جلالت ، وثاقت اور امام جواد عليه السلام کے گھرانے سے آپ کا ہونا واضح اور روشن ہے۔ ان کے علمی مقام اور فضیلت اور تقوا کے بیان میں یہی کافی ہے کہ آپ ائمہ میں سے امام حسن عسكري عليه السلام کے صاحب اسرار میں سے ہیں ،جیساکہ سابقہ روایت کے مطابق آپ کو امام نے خصوصی طور پر گھر بلایا اور امام مھدی علیہ السلام کی ولادت کی آپ کو خبر دی.

علامه مجلسي  اور سيد محسن امين کہ جو شيعه بزرگ علماء میں سے ہیں،انهوں نے آپ کے القاب میں سے نجيبه، كريمه، عالمه، فاضله، تقيه، رضيه و صالحه و عابده ستوده ، کو ذکر کیا هے.

علامه مجلسي لکھتے ہیں:

ثمّ اعلم أنّ في القبّة الشريفة قبراً منسوباً إلي النجيبة الكريمة العالمة الفاضلة التقية الرضية حكيمة بنت أبي جعفر الجواد عليه السلام ولا أدري لِمَ لم يتعرضوا لزيارتها مع ظهور فضلها وجلالتهاوإنّها كانت مخصوصة بالأئمّة عليهم السلام، ومودعة أسرارهم، وكانت اُمّ القائم عندها، وكانت حاضرة عند ولادته عليه السلام، وكانت تراه حيناً بعد حين في حياة أبي محمّد العسكري عليه السلام، وكانت من السفراء والأبواب بعد وفاته، فينبغي زيارتها بما أجري الله علي اللسان ممّا يناسب فضلها وشأنها.

جان لے اس قبه شريفه کے نیچے نجيبه، كريمه، عالمہ، فاضله، پرهيزگار ، رضيه حكيمه بنت ابو جعفر امام جواد عليه السلام کی قبر ہے،مجھے اس کا علم نہیں ہے کہ ان کی جلالت اور فضیلت کے باجود کیوں ان کی زیارت کا ذکر نہیں ہوا ہے ۔ آپ ائمہ کے صاحب اسرار  میں سے ہیں اور امام مھدی علیہ السلام کی ولادت کے وقت آپ ان کی ماں کے پاس تھی اور جس  وقت بھی چاہئے امام کے پاس جاکر انہیں دیکھتی اور امام کی شہادت کے بعد آپ امام کے سفیروں میں سے تھی ۔  لہذا مناسب یہ ہے کہ آپ کی جلالت اور فضیلت کے مطابق ان کی زیارت کیجائے ۔

المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج99، ص79، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.

سيد محسن امين نے بھی آپ کے نسب کو بیان کرنے کے بعدآپ کو عابده اور پرهيزگار عورت کہا ہے :

حكيمة بنت الإمام محمد الجواد بن علي الرضا بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام. مدفونة بسامراء هي ونرجس أم المهدي مع الإمامين العسكري والهادي عليهما السلام... كانت من الصالحات العابدات القانتات.

حكيمه بنت امام جواد فرزند امام هشتم، فرزند موسي كاظم، فرزند حعفر صادق، فرزند محمد باقر، فرزند امام زين العابدين، فرزند حسين، فرزند علي بن اطالب عليهم السلام، آپ سامرا میں حضرت مهدي  علیہ السلام کی ماں حضرت نرجس خاتوں  اور امام هادي اور عسكري عليهما السلام کے ساتھ دفن ہے، آپ  صالحۃ، عابدۃ پرهيزگار عورت تھی .

الأمين، السيد محسن (متوفاي1371هـ)، أعيان الشيعة، ج6، ص217، تحقيق وتخريج: حسن الأمين، ناشر: دار التعارف للمطبوعات - بيروت - لبنان، سال چاپ: 1403 - 1983 م

لہذا حضرت حكيمه، امام معصوم کی بیٹی، امام  کے محرم اسرار ، اور امام اور شیعوں کے نذدیک قابل اعتماد خاتوں ہیں اور ان کی طرف سے حضرت مهدي عليه السلام کی ولادت کی خبر شیعوں کے لئے قابل قبول ہے .

اب کیوںکہ جناب حکیمہ کی طرف سے امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کی خبر کی بحث ہوئی لہذا اب ہم تفصیلی جواب یہاں نقل کرتے ہیں ۔

پہلا جواب:

حكيمه کی گواہی، مصداق کا تعین ہے ، اصل عقيده مهدويت کی دلیل نہیں ہے ؛

ناصر قفاري حضرت مهدي عليه السلام  کی ولادت اور آپ کی غيبت کے مسئلے کو کبھی جناب عثمان بن سعيد عمري اور ان کے ہمفکروں کی ایجاد کہتا ہے اور کبھی کہنا کہ یہ عقیدہ ایک غیر معصوم حکیمہ خاتون کے واسطے سے شیعوں میں رائج ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ قفازی اس مسئلے میں متناقض اور متضاد باتیں کرتا ہے ۔ لہذا اس کے مخاطب کو پتہ نہیں چلتا ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔

اس کی طرف سے متضاد گفتگو کی وجہ یہ ہے کہ مھدویت کا عقیدہ شیعوں کے مخصوص عقیده نهیں هے . یہ خالص اسلامی نظریہ ہے اور اس کی جڑئیں بہت مضبوط ہیں ،اب قفازی اس عقیدے کو باطل ثابت کرنا چاہتا ہے لہذا وہ ہر کمزور سے کمزور وسیلے سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود وہ خود ہی پھنس جاتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے کھودے گڑھے میں اپنے آپ کو گرتا دیکھتا ہے تو وہ متضاد باتیں کرنے لگتا ہے۔

اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ حکیمہ خاتون نے حضرت مهدي عليه السلام کی ولادت کا مشاہدہ کیا ہے لیکن ان کی طرف سے اور دوسروں کی طرف سے امام مہدی کی ولادت کی گواہی کی وجہ سے مھدویت کا عقیدہ وجود میں نہیں آیا ہے ۔یہ عقيده، توحيد، نبوت، امامت و معاد کی طرح شیعوں کا مضبوط اور ثابت شدہ عقیدہ ہے ۔

امامت کا عقیدہ شیعوں کا بنیادی عقیدہ ہے،  رسول اللہ صلي الله عليه وآله اور ائمه معصومين عليهم السلام نے مهدي موعود کو تمام نشانیوں اورخصوصیات کے ساتھ  ، نام کے اعتبار سے بھی اور حسب و نسب کے اعتبار سے بھی مکمل طور پر آپ کی ولادت سے پہلے سے ہی متعارف کیا ہے ۔

لہذا  مهدويت کا مسأله ایک نیا مسئلہ نہیں کہ جو ان کی گواہی کی وجہ سے شیعوں میں رائج ہوا ہو ،ان کی گواہی سے امام زمان علیہ السلام کے خارجی مصداق اور وجود کو ثابت کیا جاتا ہے اس سے وہ چیز ثابت نہیں ہوتی جو قفازی اور اس کے ہمفکر   لوگ سوچتے اور سمجھتے ہیں۔

اہل سنت کی کتابوں میں مهدويت کے عقيدے کی جڑئیں:

قفاري وغیرہ کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ان لوگوں نے مهدويت کے عقیدے کے بارے میں بنیادی تحقیق نہیں کی ہے کیونکہ یہ عقیدہ تمامتر تفصیلات کے ساتھ اہل سنت کے بزرگ علماء کی کتابوں میں موجود ہے جیسے  مسند احمد حنبل، سنن ترمذي، طبراني و... میں یہ عقیدہ رسول خدا صلي الله عليه وآله  کی صحیح سند روایات سے ثابت ہے،ہم ان میں سے بعض روایات کو نقل کیا ہے :

1. ترمذي

اہل سنت کے مشہور محدث امام ترمذی نے اپنی کتاب میں ان روایات کو نقل کیا ہے،انہوں نے پہلے عبد الله بن مسعود کی روایت اور آخر میں ابو هريره کی روایت نقل کرنے بعد واضح طور پر اس ان کو حسن اور صحيح  کہا ہے:

حدثنا عبد الْجَبَّارِ بن الْعَلَاءِ بن عبد الْجَبَّارِ الْعَطَّارُ حدثنا سُفْيَانُ بن عُيَيْنَةَ عن عَاصِمٍ عن زِرٍّ عن عبد اللَّهِ عن النبي صلي الله عليه وسلم قال: يَلِي رَجُلٌ من أَهْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي قال عَاصِمٌ وأنا أبو صَالِحٍ عن أبي هُرَيْرَةَ قال: لو لم يَبْقَ من الدُّنْيَا إلا يَوْمٌ لَطَوَّلَ الله ذلك الْيَوْمَ حتي يَلِيَ...

قال أبو عِيسَي: هذا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابن مسعود کہتے ہیں : رسول خدا صلي الله عليه وسلم نے فرمایا : میرے اهل بيت میں سے ایک مرد ہے کہ جو میرا ہمنام ہوگا ۔۔. ابو هريره  نے بھی رسول اللہ(ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : اگر دنیا کی زندگی میں سے ایک دن بھی باقی رہے تو اللہ اس دن کو اتنا طولانی کرئے گا یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک مرد آئے گا جو میرا ہمنام ہوگا ۔

ابو عيسي نے کہا ہے: یہ رويت حسن  صحيح ہے .

الترمذي السلمي، ابوعيسي محمد بن عيسي (متوفاي 279هـ)، سنن الترمذي، ج4، ص505، تحقيق: أحمد محمد شاكر وآخرون، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.

2. ابو داود سجستاني

سجستاني نے اپنی سنن میں ام سلمه سے موثق سند کے ساتھ نقل کیا ہے  كه مهدي حضرت فاطمه زهرا سلام الله عليها کی نسل سے ہوں گے:

حدثنا أَحْمَدُ بن إبراهيم ثنا عبد اللَّهِ بن جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ ثنا أبو الْمَلِيحِ الْحَسَنُ بن عُمَرَ عن زِيَادِ بن بَيَانٍ عن عَلِيِّ بن نُفَيْلٍ عن سَعِيدِ بن الْمُسَيِّبِ عن أُمِّ سَلَمَةَ قالت: سمعت رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم يقول: الْمَهْدِيُّ من عِتْرَتِي من وَلَدِ فَاطِمَةَ.

پیغمبر (ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : مهدي کا تعلق میری عترت سے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نسل سے ہوگا ۔

السجستاني الأزدي، ابوداود سليمان بن الأشعث (متوفاي 275هـ)، سنن أبي داود، ج4، ص1071، تحقيق: محمد محيي الدين عبد الحميد، ناشر: دار الفكر.

3. احمد حنبل:

حنبلی کے پیشوا امام احمد حنبل نے اپنے مسند میں اس قسم کی پانچ روایات  عاصم اور زر بن حبيش کے توسط سے نقل کیا ہے :

حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا سُفْيَانُ بن عُيَيْنَةَ ثنا عَاصِمٌ عن ذر عن عبد اللَّهِ عَنِ النبي صلي الله عليه وسلم: لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حتي يلي رَجُلٌ من أَهْلِ بيتي يواطي اسْمُهُ اسمي.

رسول خدا صلي الله عليه و آلہ سلم نے فرمایا: اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک میرے خاندان سے میرا ہمنام ایک شخص نہ آئے اور زمام امور کو ہاتھ میں نہ لے ۔

الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفاي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج1، ص376، ح3571، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر.

4. طبراني

طبراني نے المعجم الكبير، میں ۱۳ سے زیادہ روایتیں مختلف طرق سے نقل کی ہیں اور ان سب کی سند  عاصم بن بهدله  اور زر بن حبيش (صحیح بخاری کے راوی) تک پہنچتی ہے ،انہوں نے ان روایات کو عبد الله بن مسعود کے توسط سے نقل کیا ہے۔

حدثنا مُوسَي بن هَارُونَ ثنا عبد اللَّهِ بن دَاهِرٍ الرَّازِيُّ ثنا عبد اللَّهِ بن عبد الْقُدُّوسِ عَنِ الأَعْمَشِ عن عَاصِمِ بن أبي النَّجُودِ عن زِرِّ بن حُبَيْشٍ عن عبد اللَّهِ بن مَسْعُودٍ رضي اللَّهُ عنه قال: قال رسول اللَّهِ صلي اللَّهُ عليه وسلم: لا تَقُومُ السَّاعَةُ حتي يَمْلِكَ رَجُلٌ من أَهْلِ بَيْتِي يواطيء اسْمُهُ اسْمِي يَمْلأُ الأَرْضَ عَدْلًا وَقِسْطًا كما مُلِئَتْ ظُلْمًا وَجَوْرًا.

رسول خدا (ص) نے فرمایا : اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک میرے خاندان سے میرا ہمنام حاکم نہ ہو ۔ یہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دئے گا جس طرح یہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی ۔

الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفاي360هـ)، المعجم الكبير، ج10، ص133، ح10214، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.

امام مھدی علیہ السلام کا امام حسن العسکری علیہ السلام کی نسل سے ہونے کو ثابت کرنے کے لئے اسی ولی العصر سائت پر { کیا امام مھدی علیہ السلام کے والد کا نام عبد اللہ ہے کے عنوان سے ایک مقالہ  موجود ہے اور اس مقالے میں اس سوال کا جواب دیا ہے کہ کیا امام مھدی علیہ السلام کے والد کا نام عبد اللہ ہے ۔

 لہذا جناب حکیمہ کی خبر سے صرف یہ ثابت ہوگا کہ حضرت مهدي عليه السلام، کہ بہت سی روایات میں ان کے آنے کی خبر دی ہے وہ اب دنیا میں آیا ہے ،اب ایسا نہیں ہے کہ اس خبر کی وجہ سے مھدویت کا عقیدہ شیعوں میں رائج ہوا ہو کیونکہ یہ عقیدہ شیعہ اور اہل سنت کے ہاں معتبر روایات کے ساتھ نقل ہوا ہے ۔ جیساکہ ان میں سے بعض کو ہم نے بیان کیا ہے ۔

 

دوسرا جواب :

 دوسروں نے بھی  حضرت مهدي (عج)کی ولادت کی گواہی دی ہے ۔

اگر قفاري اور اس کے ہمفکروں کا یہ کہنا ہے کہ آپ کی ولادت صرف جناب حكيمه سے یہ نقل ہوئی ہے ، شیعہ کتابوں میں تحقیق کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جناب حکیمہ کے علاوہ اور دوسری عوتوں نے بھی اس کی گواہی دی ہے اور یہ جناب حکیمہ کے ساتھ مل کر پانچ عورتیں بنتی ہیں ۔ اب ان پانچ عورتوں کی گواہی کو جس عدالت میں بھی لے جائے یہ  گواہی قابل قبول ہے ۔مذکورہ عورتیں مندرجہ ذیل ہیں۔

1.    دائیہ عورت :

امام زمان عليه السلام کی ولادت کی گواہی دائیہ عورت نےبھی دی ۔

شيخ طوسي نے اس روایت کو تفصیل کے ساتھ كتاب الغيبة میں نقل کیا ہے ہم اس روایت میں سے اسی حصے کو نقل کرتے ہیں کہ جس میں گواہی کا موجود ہے :

دائیہ کہتی ہے : امام حسن عسكري عليه السلام کا خادم ہمارے گھر آیا :

208 - أحمد بن علي الرازي، عن محمد بن علي، عن حنظلة بن زكريا قال: حدثني أحمد بن بلال بن داود الكاتب...

فَقَالَ: يَحْتَاجُ إِلَيْكِ بَعْضُ الْجِيرَانِ لِحَاجَةٍ مُهِمَّةٍ فَادْخُلِي وَلَفَّ رَأْسِي بِالْمُلَاءَةِ وَأَدْخَلَنِي الدَّارَ وَأَنَا أَعْرِفُهَا فَإِذَا بِشِقَاقٍ مَشْدُودَةٍ وَسَطَ الدَّارِ وَرَجُلٌ قَاعِدٌ بِجَنْبِ الشِّقَاقِ فَرَفَعَ الْخَادِمُ طَرَفَهُ فَدَخَلْتُ وَإِذَا امْرَأَةٌ قَدْ أَخَذَهَا الطَّلْقُ وَامْرَأَةٌ قَاعِدَةٌ خَلْفَهَا كَأَنَّهَا تَقْبَلُهَا فَقَالَتِ الْمَرْأَةُ تُعِينُنَا فِيمَا نَحْنُ فِيهِ فَعَالَجْتُهَا بِمَا يُعَالَجُ بِهِ مِثْلُهَا فَمَا كَانَ إِلَّا قَلِيلًا حَتَّي سَقَطَ غُلَامٌ فَأَخَذْتُهُ عَلَي كَفِّي وَصِحْتُ غُلَامٌ غُلَامٌ وَأَخْرَجْتُ رَأْسِي مِنْ طَرَفِ الشِّقَاقِ أُبَشِّرُ الرَّجُلَ الْقَاعِدَ فَقِيلَ لِي: لَا تَصِيحِي فَلَمَّا رَدَدْتُ وَجْهِي إِلَي الْغُلَامِ قَدْ كُنْتُ فَقَدْتُهُ مِنْ كَفِّي فَقَالَتْ لِيَ الْمَرْأَةُ الْقَاعِدَةُ: لَا تَصِيحِي وَأَخَذَ الْخَادِمُ بِيَدِي وَأَخْرَجَنِي مِنَ الدَّارِ وَرَدَّنِي إِلَي دَارِي...

اس نے کہا : تمہارے ہمسائیوں میں سے ایک کو تم سے ضروری کام یے لہذا اپنے گھر بلایا ہے میں نے ایک سکارف سر پر رکھا اور اس کے ساتھ چلی اس نے مجھے ایک ایسے گھر لے گیا جس کو میں جانتی نہیں تھی ،گھر کے درمیان میں ایک پردہ لگا ہوا تھا اور ایک مرد کنارے بیٹھا ہوا تھا ۔

خادم نے پردے کے ایک کونے کو اٹھایا اور میں اندر داخل ہوئی ،میں نے وضع حمل کی حالت میں ایک خاتون کو دیکھا ،ایک اور عورت ان کے پیچھے دائیہ عورت کی طرح بیٹھی ہوئی تھی۔اس عورت نے مجھ سے کہا ؛ اس کام میں ہماری مدد کرتی ہو؟ میں نے اس کی مدد کی اور کچھ دیر بعد ایک بچہ پیدا ہوا ،میں نے اس کو ہاتھ میں اٹھایا اور کہا : بچہ ہے! بچہ ہے! اس وقت میں پردہ سے باہر آئی اور اس شخص کو خوش خبری دینا چاہئی ، کسی نے مجھ سے کہا : آواز نہ دو۔ جب میں بچےکی طرف متوجہ ہوئی تو بچے کو آپنے پاس نہیں پائی ،اسی عورت نے مجھ سے کہا : آواز مت دو ۔اسی خادم نے مجھے میرے گھر لایا ۔

اس عورت نے احمد بن بلال کو امام زمان علیہ السلام کی ولادت کے واقعے کو بیان کرنے کے بعد کہا :

إِنَّ لِهَؤُلَاءِ الْقَوْمِ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ شَأْناً وَمَنْزِلَةً وَكُلُّ مَا يَدَّعُونَهُ حَقٌّ..

یہ واقعہ اس لئے تمہیں نقل کیا ہے کیونکہ اس خاندان (آل پیغمبر) کے لئے اللہ کے نذدیک ایک خاص مقام ہے اور یہ لوگ جو ادعا کرتے ہیں وہ سب حق ہے ۔

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاي460هـ)، كتاب الغيبة، ص240- 242، تحقيق: الشيخ عباد الله الطهراني/ الشيخ علي احمد ناصح، ناشر: مؤسسة المعارف الاسلامية، الطبعة: الأولي، 1411هـ.

2 و 3. نسيم  اور  ماريه کی گواہی

نسيم اور  ماريه امام حسن عسكري عليه السلام کے گھر میں خدمت کرتی تھیں انہوں نے بھی اس واقعے کو دیکھ کر نقل کیا ہے ؟

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ مَاجِيلَوَيْهِ وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَي الْعَطَّارُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَي الْعَطَّارُ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ النَّيْسَابُورِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُوسَي بْنِ جَعْفَرٍ عليه السلام عَنِ السَّيَّارِيِّ قَالَ: حَدَّثَتْنِي نَسِيمٌ وَمَارِيَةُ قَالَتَا: إِنَّهُ لَمَّا سَقَطَ صَاحِبُ الزَّمَانِ عليه السلام مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ جَاثِياً عَلَي رُكْبَتَيْهِ رَافِعاً سَبَّابَتَيْهِ إِلَي السَّمَاءِ ثُمَّ عَطَسَ فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ وَصَلَّي اللَّهُ عَلَي مُحَمَّدٍ وَآلِهِ زَعَمَتِ الظَّلَمَةُ أَنَّ حُجَّةَ اللَّهِ دَاحِضَةٌ لَوْ أُذِنَ لَنَا فِي الْكَلَامِ لَزَالَ الشَّك .

نسيم و ماريه کہتی ہیں : حضرت صاحب الزّمان عليه السّلام کی جب ولادت ہوئی تو آپ  اس وقت دو زانو بیٹھ گئے اور  شہادت والی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھایا اور ایک چھینکنے کے بعد فرمایا : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ وَصَلَّي اللَّهُ عَلَي مُحَمَّدٍ وَآلِهِ ۔ ظالم لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ اللہ کی حجت  ختم ہوگئی ہے  اگر ہمیں بولنے کی اجازت ہوتی تو شکوک و شبھات دور ہوجاتے ۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص430.، ناشر: اسلامية ـ تهران ، الطبعة الثانية ، 1395 هـ.

4. امام عسكري (ع) کی كنيزکی گواہی ۔

امام حسن عسكري عليه السلام کے گھر کی ایک اور کنیز ( جعفر كذاب کی طرف سے امام کے گھر لوٹنے کے بعد اس نے ابو علي خيزراني نامی ایک شخص سے شادی کی) اس کنیز نے بھی امام کی ولادت کی گواہی دی ہے:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ مَاجِيلَوَيْهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَي الْعَطَّارُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَلِيٍّ الْخَيْزَرَانِيُّ عَنْ جارِيََةٍ لَهُ كَانَ أَهْدَاهَا لِأَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام فَلَمَّا أَغَارَ جَعْفَرٌ الْكَذَّابُ عَلَي الدَّارِ جَاءَتْهُ فَارَّةً مِنْ جَعْفَرٍ فَتَزَوَّجَ بِهَا قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: فَحَدَّثَتْنِي أَنَّهَا حَضَرَتْ وِلَادَةَ السَّيِّدِ عليه السلام وَأَنَّ اسْمَ أُمِّ السَّيِّدِ صَقِيلُ....

قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: وَسَمِعْتُ هَذِهِ الْجَارِيَةَ تَذْكُرُ أَنَّهُ لَمَّا وُلِدَ السَّيِّدُ عليه السلام رَأَتْ لَهَا نُوراً سَاطِعاً قَدْ ظَهَرَ مِنْهُ وَبَلَغَ أُفُقَ السَّمَاءِ وَرَأَتْ طُيُوراً بَيْضَاءَ تَهْبِطُ مِنَ السَّمَاءِ وَتَمْسَحُ أَجْنِحَتَهَا عَلَي رَأْسِهِ وَوَجْهِهِ وَسَائِرِ جَسَدِهِ ثُمَّ تَطِيرُ فَأَخْبَرْنَا أَبَا مُحَمَّدٍ عليه السلام بِذَلِكَ فَضَحِكَ ثُمَّ قَالَ: تِلْكَ مَلَائِكَةٌ نَزَلَتْ لِلتَّبَرُّكِ بِهَذَا الْمَوْلُودِ وَهِيَ أَنْصَارُهُ إِذَا خَرَج .

ابو علي خيزراني کی ایک کنیز تھی اس نے وہ امام حسن عسكريّ عليه السّلام کو ھدیہ کے طور پر دیا اور جب جعفر کذاب نے امام کے گھر کو لوٹا تو یہ کنیز اس کے ہاتھ سے بھاگ نکلی اور ابو عليّ سے شادی کردی . ابو عليّ کہتا ہے کہ میں نے اس کنیز سے سنا کہ وہ امام کی ولادت کے واقعے کو یاد کر کے بتارہی تھی کہ سيّد (امام زمان) عليه السّلام کی ولادت کے وقت وہ حاضر تھی اور سید کی ماں کا نام صقيل تھا ...

ابو عليّ کہتا ہے : میں نےاسی کنیز سے سنا کہ وہ کہہ رہی تھی جس وقت سيّد (امام زمان) عليه السّلام کی ولادت ہوئی تو اس وقت ان سے ایک نور نکلا یہ نور آسمان کی طرف بلند ہوا  اور سفید پرندے آسمان سے نیچے اترے اور وہ اپنے سر اور چہرے کو ان سے مس کرتے  اور پھر پرواز کر جاتے۔ میں نے یہ باتیں امام حسن عسكريّ عليه السّلام کو بتائی۔ امام ہنسیں اور فرمایا ،یہ سب فرشتے ہیں کہ جو ان کا تبرک حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں اور جب آپ ظہور فرمائیں گے تو اس وقت یہ سب آپ کے ممدگار ہوں گے ۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص431، ناشر: اسلامية ـ تهران ، الطبعة الثانية ، 1395 هـ.

تیسرا جواب :

حضرت مهدي (ع) کی ولادت کے بعد بعض قابل اطمنان لوگوں نے امام کو دیکھا ہے ۔

حضرت مهدي عليه السلام کی ولادت کی گواہی دینے والے مندرجہ بالا پانچ افراد{ کہ جن میں جناب حکیمہ خاتون بھی ہیں} کے علاوہ بھی دوسرے بعض قابل اعتماد اور امام حسن عسکری علیہ السلام  کے بعض اصحاب نے امام کی زندگی کے آخری پانچ سالوں میں  امام مہدی علیہ السلام کو دیکھا ہے ۔ہم ذیل میں اس خاص دور میں امام کو دیکھنے والے ان افراد کے نام ذکر کرتے ہیں :

1. عبد الله بن جعفر حميري کی روايت۔

حضرت مهدي عليه السلام سے ملاقات کرنے والوں میں سے ایک آپ کے نائب اور آپ کے سفير عثمان بن سعيد عمري ہے انہوں نے عبد الله بن جعفر حميري{ جو قابل اعتماد راویوں میں سے ہے} کے جواب میں اس چیز کی گواہی دی کہ انہوں نے امام زمان عليه السلام کو دیکھا ہے ۔مرحوم كليني نے  اس روایت کو  صحيح  سند نقل کیا ہے:

مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَي جَمِيعاً عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيِّ قَالَ: اجْتَمَعْتُ أَنَا وَالشَّيْخُ أَبُو عَمْرٍو رَحِمَهُ اللَّهُ عِنْدَ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ فَغَمَزَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ أَنْ أَسْأَلَهُ عَنِ الْخَلَفِ فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَمْرٍو إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ شَيْ ءٍ وَمَا أَنَا بِشَاكٍّ فِيمَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْهُ فَإِنَّ اعْتِقَادِي وَدِينِي أَنَّ الْأَرْضَ لَا تَخْلُو مِنْ حُجَّةٍ إِلَّا إِذَا كَانَ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ بِأَرْبَعِينَ يَوْماً فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ رُفِعَتِ الْحُجَّةُ وَأُغْلِقَ بَابُ التَّوْبَةِ فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُ نَفْساً إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْراً فَأُولَئِكَ أَشْرَارٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَهُمُ الَّذِينَ تَقُومُ عَلَيْهِمُ الْقِيَامَةُ وَلَكِنِّي أَحْبَبْتُ أَنْ أَزْدَادَ يَقِيناً وَإِنَّ إِبْرَاهِيمَ عليه السلام سَأَلَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُرِيَهُ «كَيْفَ يُحْيِي الْمَوْتَي قَالَ أَ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَي وَ لَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي»....

ثُمَّ قَالَ: سَلْ حَاجَتَكَ فَقُلْتُ لَهُ: أَنْتَ رَأَيْتَ الْخَلَفَ مِنْ بَعْدِ أَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام؟ فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ وَرَقَبَتُهُ مِثْلُ ذَا وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ....

عبد الله بن جعفر حميري کہتا ہے کہ میں امام زمان عليه السلام کے سفير، عثمان بن سعيد عمروي کے ساتھ امام کے وكيل احمد بن اسحاق کے گھر پر تھا . احمد بن اسحاق نے میری طرف اشاره کیا تاکہ میں ان سے امام عسكري علیہ السلام کے جانشین کے بارے پوچھوں ۔ میں نے ان سے کہا : میں آپ سے سوال کرنا چاہتا ہوں۔ میرا یہ سوال شک اور شبھہ کی وجہ سے نہیں ہے۔کیونکہ میرا دین اور ایمان یہ ہے کہ زمین اللہ کی حجت سے خالی نہیں ہوسکتی۔ سوای اس کے کہ قیامت سے ۴۰ دن پہلے زمین اللہ کی حجت سے خالی ہوگی اس وقت حجت خدا آسمان کی طرف پلٹ کر جائے گی ۔

 اور اس دن توبہ کا دروازہ بند ہوگا ، نہ کسی کافر کا ایمان قابل قبول ہوگا اور نہ ہی بدکردار لوگوں کا نیک کردار قابل قبول ہوگا  یہان تک کہ  نیک کردار کی وجہ سے انہیں جزاء دی جائے  ۔ چالس دنوں کے دوران زمین پر رہنے والے اللہ کے سب سے بدکردار لوگ ہوں گے اور عالم ہستی ان لوگوں پر خراب ہوگی۔

اس یقین اور ایمان کے ساتھ میں چاہتا ہوں اپنے یقین میں اور اضافہ ہو جس طرح ابراھیم خلیل اللہ نے اللہ سے یہ دکھنا چاہا کہ اللہ کیسے مردوں کو زندہ کرتا ہے ، اللہ نے ان سے کہا : کیا تمہیں یقین نہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : کیوں نہیں میں ایمان رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں میرا دل مطمن ہوجائے اور دلی سکون ملے ۔

عثمان بن سعيد نے کہا : اپنا سوال بیان کرئے اور جو کہنا چاہتے ہو کہہ دئے ۔ میں نے ان سے کہا : کیا آپ نے خود امام حسن عسكري(ع) کے جانشین کو دیکھا ہے ؟». اس نے کہا : جی اللہ کی قسم میں نے انہیں دیکھا ہے جبکہ کہ آپ کی گردن اتننی بڑی ہوگئ تھی {اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا }

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج1، ص330، ناشر: اسلاميه ، تهران ، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

روایت کی  سند کی تحقیق:

مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ:

نجاشي نے ان کے بارے میں کہا ہے :

محمد بن عبد الله بن جعفر بن الحسين بن جامع بن مالك الحميري أبو جعفر القمي، كان ثقة، وجها، كاتب صاحب الامر عليه السلام.

النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفاي450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب رجال النجاشي، ص 355، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَي العطار:

محمد بن يحيي أبو جعفر العطار القمي، شيخ أصحابنا في زمانه، ثقة، عين، كثير الحديث.

رجال النجاشي، ص 353

عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيِّ:

عبد الله بن جعفر بن الحسين بن مالك بن جامع الحميري أبو العباس القمي. شيخ القميين و وجههم.

رجال النجاشي، ص 219

احمد بن إسحاق القمي:

أحمد بن إسحاق بن عبد الله بن سعد بن مالك بن الأحوص الأشعري، أبو علي القمي، وكان وافد القميين، وروي عن أبي جعفر الثاني وأبي الحسن عليهما السلام، وكان خاصة أبي محمد عليه السلام.

رجال النجاشي، ص 91

عثمان بن سعيد العمري:

[ 5877 ] 22 - عثمان بن سعيد العمري الزيات، ويقال له: السمان، يكني أبا عمرو، جليل القدر ثقة، وكيله عليه السلام.

الطوسي، الشيخ ابوجعفر محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاي460هـ)، رجال الطوسي، ص 401، تحقيق: جواد القيومي الأصفهاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الأولي، 1415هـ.

لہذا اس روایت کی سند معتبر ہے ۔ اس کی سند کے تمام راوی شیعہ بہترین راویوں میں سے ہے۔

2. محمّد بن عثمان عمري ۴۰ افراد کے ساتھ

حضرت مهدي علیہ السلام کی ولادت کے بعد آپ کو دیکھنے والوں میں امام حسن عسكري علیہ السلام کے ۴۰ شیعہ اور محبین کا وہ گروہ ہے کہ جنہیں امام نے  اپنے فرزند دیکھایا اور ان کی اطاعت کا حکم دیا اس موثق روایت کو شيخ صدوق نے كمال الدين میں معتبر سند کے ساتھ نقل کیا ہے  :

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ مَاجِيلَوَيْهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَي الْعَطَّارُ قَالَ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَالِكٍ الْفَزَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ حُكَيْمٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ بْنِ نُوحٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعَمْرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالُوا عَرَضَ عَلَيْنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عليه السلام وَنَحْنُ فِي مَنْزِلِهِ وَكُنَّا أَرْبَعِينَ رَجُلًا فَقَالَ: هَذَا إِمَامُكُمْ مِنْ بَعْدِي وَخَلِيفَتِي عَلَيْكُمْ أَطِيعُوهُ وَلَا تَتَفَرَّقُوا مِنْ بَعْدِي فِي أَدْيَانِكُمْ فَتَهْلِكُوا أَمَا إِنَّكُمْ لَا تَرَوْنَهُ بَعْدَ يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِ فَمَا مَضَتْ إِلَّا أَيَّامٌ قَلَائِلُ حَتَّي مَضَي أَبُو مُحَمَّدٍ عليه السلام.

معاوية بن حكيم ، محمد بن ايوب بن نوح  اور محمد بن عثمان عمري کہتے ہیں : ابو محمد حسن بن علي عليه السلام نے اپنے فرزند کو اپنے گھر میں ۴۰ افراد کے سامنے لایا اور فرمایا : یہ تم لوگوں کا امام اور میرے بعد میرا جانشین ہے اس کی اطاعت کرو، میرے بعد دین کے سلسلے میں اختلاف نہ کرئے ورنہ ہلاک ہوجاوگے ۔ یہ جان لیے کہ آج کے بعد ان کو نہیں دیکھو گے ،وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم امام کے گھر سے باہر آئے اور کچھ دن بعد دنیا سے چلے گئے ۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص435، ناشر: اسلامية ـ تهران ، الطبعة الثانية ، 1395 هـ.

المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج52، ص25، ح 19، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.

ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ محمد بن عثمان عمري کہتے ہیں : میں نے امام زمان علیہ السلام کو دیکھا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيُّ قَالَ: قُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ عُثْمَانَ الْعَمْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنِّي أَسْأَلُكَ سُؤَالَ إِبْرَاهِيمَ رَبَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ حِينَ قَالَ لَهُ «رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتي قالَ أَ وَلَمْ تُؤْمِنْ قالَ بَلي وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي» فَأَخْبِرْنِي عَنْ صَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ هَلْ رَأَيْتَهُ قَالَ: نَعَمْ وَلَهُ رَقَبَةٌ مِثْلُ ذِي وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَي عُنُقِه .

عبد اللَّه بن جعفر حميري کہتے ہیں : میں نے محمد بن عثمان عمري  سے کہا : میں تم سے وہی سوال کرتا ہوں جو  ابراهيم عليه السلام نے اللہ سے سوال کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا «پروردگارا مجھے یہ دکھا کہ آپ کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے  ۔ اللہ نے جواب دیا : کیا تمہیں ایمان اور یقین نہیں؟ جواب دیا: کیوں نہیں ،میں چاہتا ہوں میرا دل مطمئن ہو اور مجھے سکون ملے۔ » مجھے بتائے کہ صاحب الامر کو آپ نے دیکھا ہے؟ کہا : جی ہاں ، ان کی گردن اتنی ہے یہ کہہ کر اپنے ہاتھوں سے اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا ۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص 435، ح3، ناشر: اسلامية ـ تهران ، الطبعة الثانية ، 1395 هـ.

پہلی والی روایت کی سند کی تحقیق :

پہلی والی روایت کی سند میں مندجہ افراد ہیں: 1. محمد بن علي بن ماجيلويه؛ 2. محمد بن يحي العطار؛ 3. جعفر بن محمد مالك فزاري؛ 4. معاوية بن حكيم؛ 5. محمد بن ايوب بن نوح؛ 6. محمد بن عثمان عمري ۔

یہ سارے افراد شیعہ رجال کے مطابق قابل اعتماد ہیں ۔

1. محمد بن علي بن ماجيلويه:

محمد بن علي بن ماجيلويه: ثقة علي الأقوي. هو وأخوه أحمد ممن يكثر الصدوق من الرواية عنهما مترضيا عليهما. وتقدم جدهما محمد بن أبي القاسم الملقب بما جيلويه. وعد من تلامذة الكليني.

محمد بن علي بن ماجيلوي، قوي قول کے مطابق ثقه ہے۔، وہ اور اس کا بھائی  احمد ان لوگوں میں سے ہیں کہ شيخ صدوق نے ان سے بہت سی روایات نقل کی ہیں اور شیخ ان دونوں سے راضی ہیں ،ان کے جد ، محمد بن ابي القاسم ملقب به ماجيلويه تھا اور وہ كليني کے شاگردوں میں سے ایک ہے .

الشاهرودي، الشيخ علي النمازي ( متوفاي1405هـ )، مستدركات علم رجال الحديث، ج7، ص242، ناشر: ابن المؤلف، چاپخانه: شفق - طهران، الأولي 1412هـ

ومحمد بن علي ماجيلويه الذي يروي الصدوق عنه ممن عد العلامة خبره صحيحا.

محمد بن علي ماجيلويه وہ ہے کہ  شيخ صدوق نے جن سے روایت نقل کیا ہے اور علامہ نے اس کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

الكلباسي، أبي المعالي محمد بن محمد ابراهيم (متوفاي 1315هـ)، الرسائل الرجالية، ج1، ص348، تحقيق: محمد حسين الدرايتي، ناشر: دار الحديث للطباعة والنشر ـ قم، چاپ: الأولي 1423 - 1381ش

2. محمد بن يحيي العطار.

 محمد بن يحيي ابو جعفر عطار  کو نجاشي نے ثقہ قرار دیا ہے :

محمد بن يحيي أبو جعفر العطار القمي، شيخ أصحابنا في زمانه، ثقة، عين، كثير الحديث.

محمد بن يحيي ابو جعفر عطار قم کے رہنے والے اور اپنے زمانے میں امامیہ کے بڑے لوگوں میں سے تھے،آپ ثقہ اور قابل اعتماد  ہیں، آپ سے بہت سی روایات نقل ہیں،  النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفاي450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب رجال النجاشي، ص353، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.

شيخ طوسي نے بھی ان کو  مرحوم كليني  کے مشايخ میں ذکر کیا ہے :

محمد بن يحيي العطار، روي عنه الكليني، قمي، كثير الرواية.

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاي460هـ)، رجال الطوسي، ص439، تحقيق: جواد القيومي الأصفهاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الأولي، 1415هـ.

3. جعفر بن محمد بن مالك فزاري:

جعفربن محمد بن مالك کے بارے میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ علم رجال کے علماء کے درمیان اس کے ثقہ ہونے یا نہ ہونے کے بارے اختلاف ہے، نجاشي اور إبن غضائري نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ؛ لیکن شيخ طوسي نے ان کے بارے میں کہا ہے:

جعفر بن محمد بن مالك، كوفي، ثقة.

رجال الطوسي، ص 418.

اسی طرح ابو القاسم كوفي متوفاي 352 هـ نے كتاب الإستغاثه، میں ان کی اس طرح توثیق کی ہے۔

حدثنا جماعة من مشايخنا الثقاة منهم جعفر بن محمد بن مالك الكوفي...

الاستغاثة، ج 1، ص 77.

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ نجاشي اور ابن غضائري کی تضعیف ، شيخ طوسي کی توثیق کے مقابلے میں کم اہمیت ہے کیونکہ ان دو بزرگوں نے ایک روایت کی وجہ سے انہیں تضعیف کیا ہے اور یہ روایت ان کے زمانے میں غلو میں شمار ہوتی تھی لیکن آج سارے اس کو مذھب کے ضروریات میں سے قرار دیتے ہیں۔

 

مرحوم علامه جليل القدر، حاج شيخ عبد الله مامقاني نے تنقيح المقال میں نجاشي  اور ابن غضائري کی طرف سے تضعیف کو نقل کرنے کے  بعد لکھتا ہے:

وأقول قد نبهنا في المقدمة فوائد عشر علي أنّ جملة ممّا هو من ضروريات مذهبنا اليوم قد كان يعد في السلف الزّمان غلوّا و عليه فرّعوا تضعيف جمع من الثقات و ظنّي أنّ ما صدر في المقام في حقّه من الغمز و التضعيف ناش من روايته جملة من معجزات الأئمة سيما معجزات ولادة القائم... و تحقيق المقال أنّ الأقوي كون الرجل ثقة اعتماداً علي توثيق الشيخ....

کتاب کے شروع میں جو دس اصول بیان ہوئے ہیں ، ان کے مطابق بعض مسائل پہلے دور میں غلو شمار ہوتے تھے لیکن آج یہ ضروریات دین میں سے شمار ہوتے ہیں ۔اسی لئے بعض ثقہ راویوں کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جعفر بن محمد مالك کو ضعیف کہنے کہ وجہ ائمہ علیہم السلام کے معجزات اور امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کے واقعات کو بیان کرنے کی وجہ سے ہے  .....اس تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ قوی قول کے مطابق یہ ثقہ ہے اسی لئے شیخ نے انہیں ثقہ کیا ہے ۔

تنقيح المقال، ج1، ص226، باب جعفر.

علامه محقق نمازي شاهرودي اس سلسلے میں لکھتا ہے :

والتحقيق أن الأقوي كون الرجل من الثقات المعتمدين اعتمادا علي توثيق الشيخ، وأبي القاسم الكوفي في كتاب الاستغاثة، والعلامة المامقاني في رجاله.

 جعفر بن محمد مالك كوفي کے بارے میں مضبوط راے یہ ہے : شيخ نے اور  ابو القاسم كوفي نے  كتاب استغاثه  میں اور  مامقاني نے اپنی رجال کی کتاب میں اس کو ثقہ اور قابل اعتماد جانا ہے .

مستدركات علم رجال الحديث، ج 2، ص 213، رقم: 2830.

4. معاوية بن حكيم:

اس روایت کو نقل کرنے والے تینوں افراد ایک ہی طبقے کے ہیں، ان میں سے پہلامعاوية بن حكيم ہے ،شیعہ رجالی علماء نے ان کو ثقہ کہا ہے :

نجاشي نے اپنی کتاب رجال میں ان کے بارے میں کہا ہے :

معاوية بن حكيم بن معاوية بن عمار الدهني ثقة، جليل، في أصحاب الرضا عليه السلام. قال أبو عبد الله الحسين بن عبيد الله: سمعت شيوخنا يقولون: روي معاوية بن حكيم أربعة وعشرين أصلا لم يرو غيرها.

معاوية بن حكيم بن معاوية بن عمار دهني، ثقه اور امام رضا عليه السلام  کے جلیل القدر اصحاب میں سے ہیں. ابو عبد الله حسين بن عبيد الله کہتا ہے : میں نے بزرگوں سے سنا ہے : معاويه بن حكيم نے ۲۴ اصول ایسے نقل کیے ہیں جن کو دوسروں نے نقل نہیں کیا ہے ۔

النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفاي450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب رجال النجاشي، ص412، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.

5. محمد بن ايوب بن نوح اور  محمد بن عثمان عمري:

 یہ دو شخصیتیں امام زمان عليه السلام کے نواب خاص میں سے ہیں ۔لہذا ان کے بارے تحقیق کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ دونوں شیعوں کے ہاں قابل اعتماد ہیں اور کیونکہ یہ دونوں معاوية بن حكيم کے ساتھ ایک ہی طبقے میں ہیں لہذا ایک کی وثاقت جب ثابت ہو تو باقیوں کی وثاقت ثابت کرنے کی ضرورت بھی نہیں ۔

3. امام عسكري (ع) کے خادم ابو غانم کی روايت

ابو غانم ، امام حسن عسكري عليه السلام کے گھر خدمات انجام دینے والوں میں سے ایک ہے،روایت کے مطابق حضرت مهدي عليه السلام، کی ولادت کے تین دن بعد امام حسن عسكري علیہ السلام نے اپنے فرزند کو اپنے اصحاب کو دکھایا اور جانشین کے عنوان سے ان کا تعارف کرایا ۔

شيخ صدوق لکھتے ہیں :

ابْنُ الْمُتَوَكِّلِ عَنِ الْحِمْيَرِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْعَلَوِيِّ عَنْ أَبِي غَانِمٍ الْخَادِمِ قَالَ: وُلِدَ لِأَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام وَلَدٌ فَسَمَّاهُ مُحَمَّداً فَعَرَضَهُ عَلَي أَصْحَابِهِ يَوْمَ الثَّالِثِ وَقَالَ: هَذَا صَاحِبُكُمْ مِنْ بَعْدِي وَخَلِيفَتِي عَلَيْكُمْ وَهُوَ الْقَائِمُ الَّذِي تَمْتَدُّ إِلَيْهِ الْأَعْنَاقُ بِالانْتِظَارِ فَإِذَا امْتَلَأَتِ الْأَرْضُ جَوْراً وَظُلْماً خَرَجَ فَمَلَأَهَا قِسْطاً وَعَدْلا.

امام کے خادم ،ابو غانم نے نقل کیا ہے کہ امام زمان عليه السّلام کی ولادت ہوئی ،آپ کے والد گرامی نے آپ کا نام«محمد» رکھا اور تیسرے دن اپنے اصحاب کو دکھایا اور فرمایا : میرے بعد یہ بچہ تم لوگوں کا امام ہوگا ،یہ وہی قائم ہیں کہ لوگ ان کے ظہور کے انتظار میں رہیں گے اور جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی تو آپ ظہور فرمائیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے .

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص431، باب 42، ح8، ناشر: اسلامية ـ تهران ، الطبعة الثانية ، 1395 هـ.

المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 51، ص6، باب ولادته و احوال امه، ح11، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.

4. أحمد بن إسحاق قمي.

شيخ صدوق نے كمال الدين میں امام زمان عليه السلام کو  امام حسن عسكري عليه السلام کے زمانے میں دیکھنے کے واقعے کو  احمد بن اسحاق قمي  سے بھی نقل کیا ہے :

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَرَّاقُ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ سَعْدٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَي أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عليه السلام وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَهُ عَنِ الْخَلَفِ مِنْ بَعْدِهِ فَقَالَ لِي مُبْتَدِئاً: يَا أَحْمَدَ بْنَ إِسْحَاقَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَي لَمْ يُخَلِّ الْأَرْضَ مُنْذُ خَلَقَ آدَمَ عليه السلام وَلَا يُخَلِّيهَا إِلَي أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ مِنْ حُجَّةٍ لِلَّهِ عَلَي خَلْقِهِ بِهِ يَدْفَعُ الْبَلَاءَ عَنْ أَهْلِ الْأَرْضِ وَبِهِ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَبِهِ يُخْرِجُ بَرَكَاتِ الْأَرْضِ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ: يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ فَمَنِ الْإِمَامُ وَالْخَلِيفَةُ بَعْدَكَ فَنَهَضَ عليه السلام مُسْرِعاً فَدَخَلَ الْبَيْتَ ثُمَّ خَرَجَ وَعَلَي عَاتِقِهِ غُلَامٌ كَأَنَّ وَجْهَهُ الْقَمَرُ لَيْلَةَ الْبَدْرِ مِنْ أَبْنَاءِ الثَّلَاثِ سِنِينَ فَقَالَ: يَا أَحْمَدَ بْنَ إِسْحَاقَ لَوْ لَا كَرَامَتُكَ عَلَي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَلَي حُجَجِهِ مَا عَرَضْتُ عَلَيْكَ ابْنِي هَذَا إِنَّهُ سَمِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله وَكَنِيُّهُ الَّذِي يَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطاً وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَظُلْماً يَا أَحْمَدَ بْنَ إِسْحَاقَ مَثَلُهُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ مَثَلُ الْخَضِرِ عليه السلام وَمَثَلُهُ مَثَلُ ذِي الْقَرْنَيْنِ وَاللَّهِ لَيَغِيبَنَّ غَيْبَةً لَا يَنْجُو فِيهَا مِنَ الْهَلَكَةِ إِلَّا مَنْ ثَبَّتَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَي الْقَوْلِ بِإِمَامَتِهِ وَوَفَّقَهُ فِيهَا لِلدُّعَاءِ بِتَعْجِيلِ فَرَجِهِ فَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ فَقُلْتُ لَهُ: يَا مَوْلَايَ فَهَلْ مِنْ عَلَامَةٍ يَطْمَئِنُّ إِلَيْهَا قَلْبِي؟ فَنَطَقَ الْغُلَامُ عليه السلام بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ فَصِيحٍ فَقَالَ: أَنَا بَقِيَّةُ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ وَالْمُنْتَقِمُ مِنْ أَعْدَائِهِ فَلَا تَطْلُبْ أَثَراً بَعْدَ عَيْنٍ يَا أَحْمَدَ بْنَ إِسْحَاقَ....

احمد بن اسحاق بن سعد اشعري کہتا ہے کہ ہم کیارویں امام، ابو محمد حسن بن علي عليه السلام کے پاس گئے،ہم آپکے جانشین کے بارے میں آپ سے کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن امام نے خود ہی کہنا شروع کیا اور فرمایا: اے احمد بن اسحاق،اللہ نے جب سے جناب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اس وقت سے قیامت تک زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا ،اللہ کی حجت کہ جس کے واسطے سے اللہ بلاوں کو زمین والوں سے دور رکھتا ، اپنے چاہنے والوں پر رحمت نازل کرتا ہے اور زمین کی برکتوں کو  نکالتا ہے ۔ میں نے امام سے کہا : اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزند آپ کے بعد آپ کا جانشین کون ہے؟

امام جلدی سے گھر کے اندر گئے اور ایک چودھویں کے چاند سا چہرہ والے بچے کو اٹھا کر تشریف لائے ،بچہ تین سال کا تھا۔ آپ نے فرمایا: اے احمد بن اسحاق اگر اللہ اور اللہ کی حجت کے پاس تیرا احترام نہ ہوتا تو میں اس بچے کو تمہیں نہ دکھاتا ۔یہ بچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمنام اور ہم کنیہ ہے،آپ وہی ہیں کہ جو زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دئے گا ،جس طرح زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی ۔

اے احمد بن اسحاق! اس امت میں ان کی مثال جناب خضر عليه السلام اور جناب ذو القرنين کی ہے. اللہ کی قسم ایک ایسی غیبت ہوگی کہ جس دوران وہی ہلاکت سے نجات پائے گا جس کو اللہ نے امامت پر ثابت قدم رکھا  ہو اور اس کو ان کے ظہور میں تعجیل کی دعا کی توفیق دی ہو ، میں نے کہا: اے میرے مولا! کیا کوئی نشانی ہے کہ میرا دل مطمئن ہو سکے ؟ اس وقت اس بچے نے فصیح زبان میں کہا : میں زمین پر اللہ کا ذخیرہ ہوں اور میں اللہ کے دشمنوں سے انتقام لینے والا ہوں۔اے احمد بن اسحاق! آنکھوں سے نشانی دیکھنے کے بعد کسی اور نشانی کے پیچھے نہ جانا....

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص 384، ناشر: اسلامية ـ تهران ، الطبعة الثانية ، 1395 هـ.

المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج52، ص24، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.

5. إبراهيم بن محمد بن فارس النيشاپوري

ابراهيم بن محمد فارس نيشاپوري ،امام عسكري عليه السلام کے اصحاب میں سے تھا ۔انہوں نے بھی امام زمان عليه السلام کے مقدس وجود کو امام کے گھر میں دیکھا ہے ،ميرزاي نوري نے " اثباة الهداة " میں  فضل بن شاذان  کی کتاب" إثبات الرجعة " سے نقل کیا ہے :

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ فَارِسِيٍّ النَّيْسَابُورِيُّ قَالَ: لَمَّا هَمَّ الْوَالِي عَمْرُو بْنُ عَوْفٍ بِقَتْلِي وَهُوَ رَجُلٌ شَدِيدٌ وَكَانَ مُولَعاً بِقَتْلِ الشِّيعَةِ فَأُخْبِرْتُ بِذَلِكَ وَغَلَبَ عَلَيَّ خَوْفٌ عَظِيمٌ فَوَدَّعْتُ أَهْلِي وَأَحِبَّائِي وَتَوَجَّهْتُ إِلَي دَارِ أَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام لِأُوَدِّعَهُ وَكُنْتُ أَرَدْتُ الْهَرَبَ فَلَمَّا دَخَلْتُ عَلَيْهِ رَأَيْتُ غُلَاماً جَالِساً فِي جَنْبِهِ كَانَ وَجْهُهُ مُضِيئاً كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فَتَحَيَّرْتُ مِنْ نُورِهِ وَضِيَائِهِ وَكَادَ أَنْ أَنْسَي مَا كُنْتُ فِيهِ مِنَ الْخَوْفِ وَالْهَرَبِ فَقَالَ: يَا إِبْرَاهِيمُ لَا تَهْرُبْ فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَي سَيَكْفِيكَ شَرَّهُ فَازْدَادَ تَحَيُّرِي فَقُلْتُ لِأَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام: يَا سَيِّدِي جَعَلَنِيَ اللَّهُ فِدَاكَ مَنْ هُوَ وَقَدْ أَخْبَرَنِي بِمَا كَانَ فِي ضَمِيرِي؟ فَقَالَ: هُوَ ابْنِي وَخَلِيفَتِي مِنْ بَعْدِي وَهُوَ الَّذِي يَغِيبُ غَيْبَةً طَوِيلَةً وَيَظْهَرُ بَعْدَ امْتِلَاءِ الْأَرْضِ جَوْراً وَظُلْماً فَيَمْلَأُهَا قِسْطاً وَعَدْلًا فَسَأَلْتُهُ عَنِ اسْمِهِ فَقَالَ: هُوَ سَمِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله وَكَنِيُّهُ وَلَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يُسَمِّيَهُ أَوْ يُكَنِّيَهُ بِكُنْيَتِهِ إِلَي أَنْ يُظْهِرَ اللَّهُ دَوْلَتَهُ وَسَلْطَنَتَهُ فَاكْتُمْ يَا إِبْرَاهِيمُ مَا رَأَيْتَ وَسَمِعْتَ مِنَّا الْيَوْمَ إِلَّا عَنْ أَهْلِهِ فَصَلَّيْتُ عَلَيْهِمَا وَآبَائِهِمَا وَخَرَجْتُ مُسْتَظْهِراً بِفَضْلِ اللَّهِ تَعَالَي وَاثِقاً بِمَا سَمِعْتُ مِنَ الصَّاحِبِ عليه السلام.

ابراهيم بن محمد فارسي نيشابوري کہتا ہے : جب عباسي حكومت کے گورنر ، عمرو بن عوف مرا اور یہ سخت دل اور شیعوں کو قتل کرنے میں بہت ہی حریص تھا ، اور مجھے بھی قتل کرنا چاہتا تھا تو میں بہت ڈرا اور غائب ہونا چاہا لہذا اپنے گھر والوں اور اپنے دوستوں سے خدا حافظی کی اور میں امام حسن العسکری علیہ السلام کے گھر انہیں خدا حافظی کرنے گیا ۔ امام کے پاس جب پہنچا تو دیکھا آپ کے پاس چاند سا چمکتا بچہ ہے ، اس بچے کی نورانیت میں، میں  اتنا محو ہوا کہ  بھاگنے کی فکر بھی بول گیا۔

اس بچے نے مجھ سے کہا : اے ابراهيم فرار نہ کرنا ، کیونکہ اللہ تعالی اس کے شر سے تجھے نجات دئے گا ، یہ سن کے میں اور زیادہ متحیر ہوا  ۔میں نے امام عسكري عليه السلام نے کہا : مولا آپ پر قربان ، یہ بچہ کون ہےکہ جو میرے اندر کے رازوں کو بھی جانتا ہے؟

آپ نے فرمایا: یہ میرا بیٹا اور میرا جانشین ہیں ،یہ وہی ہیں کہ جو ایک طولانی مدت غائب رہے گا اور جب زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی ،یہ ظہور کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دئے گا ۔

میں نے ان کے نام کے بارے سوال کیا ۔ امام نے فرمایا : آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمنام اور ہم کنیہ ہوں گے اور کسی کو بھی ان کا نام اور کنیہ بتانے کا حق نہیں ہے ،یہاں تک کہ اللہ آپ کی حکومت کو قائم کرئے گا ۔

پس اے ابراھیم  ،آج جو دیکھا اور سنا اس کو سوای اس کے اہل کے دوسروں سے مخفی رکھنا ۔میں نے ان دو بزرگوں پر درود بھیجا اور ان کے پاس سے اللہ کے فضل پر اعتماد اور حضرت مهدي عليه السلام کے کہے پر اطمنان کرتے ہوئے باہر نکلا۔.

الطبرسي، ميرزا الشيخ حسين النوري (متوفاي1320هـ) خاتمة المستدرك، ج12، ص281، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث - قم - ايران، الطبعة الاولي 1415

معجم أحاديث الإمام المهدي (ع) - الشيخ علي الكوراني العاملي - ج 4 ص 238

مكيال المكارم - ميرزا محمد تقي الأصفهاني - ج 1 ص 237

6. أبو هارون

شيخ صدوق نے كمال الدين میں لکھا ہے :

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ الْفَرَجِ الْمُؤَذِّنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْكَرْخِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هَارُونَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِنَا يَقُولُ: رَأَيْتُ صَاحِبَ الزَّمَانِ عليه السلام وَوَجْهُهُ يُضِي ءُ كَأَنَّهُ الْقَمَرُ لَيْلَةَ الْبَدْرِ وَرَأَيْتُ عَلَي سُرَّتِهِ شَعْراً يَجْرِي كَالْخَطِّ وَكَشَفْتُ الثَّوْبَ عَنْهُ فَوَجَدْتُهُ مَخْتُوناً فَسَأَلْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ عليه السلام عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ: هَكَذَا وُلِدَ وَهَكَذَا وُلِدْنَا وَلَكِنَّا سَنُمِرُّ الْمُوسَي عَلَيْهِ لِإِصَابَةِ السُّن.

محمد بن حسن كرخي کہتا ہے : ابو هارون سے کہ جو ہمارے دوستوں میں سے ایک ہے ، سنا کہ وہ کہہ رہا تھا  : میں نے صاحب الزمان کو دیکھا ، آپ کا چہرہ چودھویں کی چاند کی طرف تھا ،آپ کے ناف پر ایک بال خط کی طرح نکلا ہوا تھا، ان پر ڈالا ہوا جامہ اٹھایا ،دیکھا کہ آپ ختنہ شدہ تھا ،ان کے بارے گیارویں امام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : یہ ایسا ہی متولد ہوا ہے اور ہم بھی ایسے ہی متولد ہوئے ہیں لیکن اس پر پتی چلائی ہے تاکہ اسلامی سنت کی رعایت بھی ہو ۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ج 2، ص435، ناشر: اسلامية ـ تهران ، الطبعة الثانية ، 1395 هـ.

المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج52، ص25، ح 18، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.

7. يعقوب بن منقوش

شيخ صدوق نے نقل کیا  کہ يعقوب بن منقوش (امام حسن عسكري کے اصحاب میں سے ہیں ) نے امام زمان عليه السلام کو دیکھا ہے اور یوں نقل کیا ہے :

حَدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ الْمُظَفَّرُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الْمُظَفَّرِ الْعَلَوِيُّ السَّمَرْقَنْدِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْعُودٍ الْعَيَّاشِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَلْخِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ هَارُونَ الدَّقَّاقُ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْقَاسِمِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْأَشْتَرِ قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ مَنْقُوشٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَي أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عليه السلام وَهُوَ جَالِسٌ عَلَي دُكَّانٍ فِي الدَّارِ وَعَنْ يَمِينِهِ بَيْتٌ وَعَلَيْهِ سَتْرٌ مُسْبَلٌ فَقُلْتُ لَهُ: يَا سَيِّدِي مَنْ صَاحِبُ هَذَا الْأَمْرِ فَقَالَ ارْفَعِ السِّتْرَ فَرَفَعْتُهُ فَخَرَجَ إِلَيْنَا غُلَامٌ خُمَاسِيٌّ لَهُ عَشْرٌ أَوْ ثَمَانٌ أَوْ نَحْوُ ذَلِكَ وَاضِحُ الْجَبِينِ أَبْيَضُ الْوَجْهِ دُرِّيُّ الْمُقْلَتَيْنِ شَثْنُ الْكَفَّيْنِ مَعْطُوفُ الرُّكْبَتَيْنِ فِي خَدِّهِ الْأَيْمَنِ خَالٌ وَفِي رَأْسِهِ ذُؤَابَةٌ فَجَلَسَ عَلَي فَخِذِ أَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام ثُمَّ قَالَ لِي: هَذَا هُوَ صَاحِبُكُمْ ثُمَّ وَثَبَ فَقَالَ لَهُ: يَا بُنَيَّ ادْخُلْ إِلَي الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ فَدَخَلَ الْبَيْتَ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ ثُمَّ قَالَ لِي: يَا يَعْقُوبُ انْظُرْ إِلَي مَنْ فِي الْبَيْتِ فَدَخَلْتُ فَمَا رَأَيْتُ أَحَدا.

يعقوب بن منقوش کہتا ہے کہ: میں امام حسن عسكريّ عليه السّلام کے پاس گیا، آپ ایک  چبوترہ پر تشریف فرمارتھے آپ کی دائیں طرف ایک کمرہ تھا اور اس کے آگے پردہ لگا ہوا تھا  ۔میں نے کہا : مولا ! صاحب الامر کون ہے ؟ فرمایا: پرده ہٹاو، پردہ جب میں نے ہٹایا تو دیکھا قدک کے لحاظ سے پانچ ہاتھ اور عمر کے لحاظ سے آٹھ یا دس سال کا بچہ باہر آیا کہ جو سفید چہرے اور سفید پیشانی ، چمکتی آنکھیں۔۔۔ والا بچہ اور اپنے والد ابومحمد علیہ السلام کے زانو پر آکر بیٹھ  گیا ۔ اس وقت مجھ سے کہا : یہ آپ کا صاحب ہے ۔ امام اٹھے اور فرمایا : بیٹا! وقت معلوم تک گھر میں رہے ۔ بچہ چلا گیا اور میں انہیں دیکھتا ہی رہا ۔امام نے مجھ سے کہا : یعقوب گھر میں داخل ہو جا اور دیکھو گھر میں کون ہے ۔ میں گھر میں داخل ہوا تو وہاں کسی کو نہیں پایا۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص407، ناشر: اسلامية ـ تهران ، الطبعة الثانية ، 1395 هـ.

المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 52، ص 25، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.

8. عمرو اهوازي

 امام زمان عليه السلام کو دیکھنے والوں میں سے ایک عمرو اهوازي ہے. مرحوم كليني اور شيخ مفيد نے روایت نقل کی ہے :

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْكُوفِيِّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمَكْفُوفِ عَنْ عَمْرٍو الْأَهْوَازِيِّ قَالَ: أَرَانِيهِ أَبُو مُحَمَّدٍ عليه السلام وَقَالَ: هَذَا صَاحِبُكُم.

عمرو اهوازي کہتا ہے: امام حسن عسكري عليه السلام نے امام کو ہمیں دکھایا اور فرمایا : یہ تم لوگوں کا صاحب ہے ۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج،1 ص332، ح12، ناشر: اسلاميه ، تهران ، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري البغدادي (متوفاي413 هـ)، الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج2، ص354، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993 م.

9. محمّد بن إسماعيل بن موسي بن جعفر عليهماالسلام

محمد بن اسماعيل کہ جو موسي بن جعفر عليه السلام کے فرزندوں میں سے ایک ہے انہوں نے بھی  امام زمان کو دیکھا ہے :

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُوسَي بْنِ جَعْفَرٍ وَكَانَ أَسَنَّ شَيْخٍ مِنْ وُلْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله بِالْعِرَاقِ فَقَالَ: رَأَيْتُهُ بَيْنَ الْمَسْجِدَيْنِ وَهُوَ غُلَامٌ عليه السلام.

محمد بن اسماعيل بن موسي بن جعفر کہ جو عراق میں پيغمبر صلّي اللَّه عليه و آله کی نسل سے سب سے  بوڑھا آدمی تھا،انہوں نے کہا ہے : میں نے دو  مسجد (مكه  اور مدينه يا مسجد كوفه اور سهله یا  مسجد سهله  اور صعصعه) کے درمیان ان کو دیکھا ہے۔ وہ اس وقت ایک نابالغ بچہ تھا۔  

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 1، ص330 باب تسمية من رآه، ح2، ناشر: اسلاميه ، تهران ، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

10. أبو نصر طريف خادم

ابو نصر طريف، امام حسن عسكري علیہ السلام کے خادموں میں سے تھا، ان سے نقل ہوا ہے :

عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعَلَوِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي طَرِيفٌ أَبُو نَصْرٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَي صَاحِبِ الزَّمَانِ عليه السلام فَقَالَ: عَلَيَّ بِالصَّنْدَلِ الْأَحْمَرِ فَأَتَيْتُهُ بِهِ ثُمَّ قَالَ: أَ تَعْرِفُنِي قُلْتُ: نَعَمْ فَقَالَ: مَنْ أَنَا فَقُلْتُ: أَنْتَ سَيِّدِي وَابْنُ سَيِّدِي فَقَالَ: لَيْسَ عَنْ هَذَا سَأَلْتُكَ قَالَ: طَرِيفٌ فَقُلْتُ: جَعَلَنِيَ اللَّهُ فِدَاكَ فَبَيِّنْ لِي قَالَ: أَنَا خَاتَمُ الْأَوْصِيَاءِ وَبِي يَدْفَعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْبَلَاءَ عَنْ أَهْلِي وَشِيعَتِي.

طريف ابو نصر کہتا ہے : میں صاحب الزمان عليه السلام کی خدمت میں پہنچا ،آپ نے فرمایا: سرخ رنگ کی کرسی ان کےلئے لاوں، میں نے کرسی لائی، انہوں نے مجھ سے پوچھا: کیا مجھے پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں ، فرمایا : میں کون ہوں؟ میں نے کہا : آپ میرے سردار اور میرے سردار کے فرزند ہو، انہوں نے کہا : میں نے یہ نہیں پوچھا ہے ،میں نے کہا: میں آپ پر قربان ہو جاوں ،آپ پھر مجھے بتادیں ۔ انہوں نے جواب میں فرمایا : میں اوصیاﺀ کا خاتم ہوں ، اللہ میرے وسیلے سے میرے خاندان اور ہمارے شیعوں سے بلا دفع کرئے گا.

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص441، ح12، ناشر: اسلامية ـ تهران ، الطبعة الثانية ، 1395 هـ.

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاي460هـ)، كتاب الغيبة، ص 246، ح 215، تحقيق: الشيخ عباد الله الطهراني/ الشيخ علي احمد ناصح، ناشر: مؤسسة المعارف الاسلامية، الطبعة: الأولي، 1411هـ.

11. أبو عليّ بن مطهر

ابو علي بن مطهر بھی ان میں سے ہیں جنہوں نے امام کو دیکھا ہے ، كليني نے اصول کافی میں نقل کیا ہے :

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ فَتْحٍ مَوْلَي الزُّرَارِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَلِيِّ بْنَ مُطَهَّرٍ يَذْكُرُ أَنَّهُ قَدْ رَآهُ وَوَصَفَ لَهُ قَدَّه .

فتح کہتا ہے: میں نے ابوعلي بن مطهر سے سنا ہے کہ انہوں نے امام مہدی علیہ السلام کو دیکھا ہے اور ان کے قد اور لمبائی کے بارے میں مجھے بتایا ۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 1، ص329، باب من رآه، ح5، ناشر: اسلاميه ، تهران ، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

12. امام عسكري عليه السلام کی  خادمہ نسيم.

نسيم نے بھی امام حسن عسكري (ع)کے فرزند حضرت مهدي(ع) کو ولادت کی رات دیکھا ہے ،

شيخ صدوق اور حر عاملي نے اس روایت کو نقل کیا ہے ؛

َحدَّثَنَا أَبُو طَالِبٍ الْمُظَفَّرُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الْمُظَفَّرِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ: حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَلْخِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ الدَّقَّاقُ قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَلَوِيُّ قَالَ: حَدَّثَتْنِي نَسِيمُ خَادِمَةُ أَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَي صَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ عليه السلام بَعْدَ مَوْلِدِهِ بِلَيْلَةٍ فَعَطَسْتُ عِنْدَهُ قَالَ لِي: يَرْحَمُكِ اللَّهُ قَالَتْ نَسِيمُ: فَفَرِحْتُ بِذَلِكَ فَقَالَ لِي عليه السلام: أَ لَا أُبَشِّرُكِ فِي الْعُطَاسِ قُلْتُ: بَلَي قَالَ: هُوَ أَمَانٌ مِنَ الْمَوْتِ ثَلَاثَةَ أَيَّام .

نسيم- امام حسن عليه السّلام  کے خادمه تھی وہ نقل کرتی ہے :  امام مہدی (ع) کی ولادت کے بعد میں ایک دن ان کے پاس گیا اور ان کے پاس چھنگ آئی تو امام  نے فرمایا : يرحمك اللَّه، نسيم کہتی ہیں کہ میں اس سے بہت خوش ہوئی ، اس وقت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا: کیا تجھے چھینکنے کی وجہ سے خوش خبری دوں ؟ میں نے کہا : جی فرمائیں ۔ اس وقت آپ نے فرمایا : جو چھنک مارتا ہے وہ کم از کم  تین دن زندہ رہتا ہے ۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص441، باب 41، ح13، ناشر: اسلامية ـ تهران ، الطبعة الثانية ، 1395 هـ.

الحر العاملي، محمد بن الحسن (متوفاي1104هـ)، تفصيل وسائل الشيعة إلي تحصيل مسائل الشريعة، ج12، ص89، تحقيق و نشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، الطبعة: الثانية، 1414هـ.

13. مردي از فارس

اهل فارس کا ایک شخص کہ جو امام حسن عسكري علیہ السلام سے محبت کرنے والوں میں سے تھا،انہوں نے نقل کیا ہے کہ جس وقت امام حسن العسکری علیہ السلام کے ہاں خدمت انجام دیتا تھا امام نے اپنے بیٹے کو مجھے دکھایا ۔

مرحوم كليني نے اصول کافی میں اس روایت کو نقل کیا ہے :

عَنْ ضَوْءِ بْنِ عَلِيٍّ الْعِجْلِيِّ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ فَارِسَ سَمَّاهُ قَالَ: أَتَيْتُ سُرَّ مَنْ رَأَي فَلَزِمْتُ بَابَ أَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام فَدَعَانِي مِنْ غَيْرِ أَنْ أَسْتَأْذِنَ فَلَمَّا دَخَلْتُ وَسَلَّمْتُ قَالَ لِي: يَا أَبَا فُلَانٍ كَيْفَ حَالُكَ؟ ثُمَّ قَالَ لِي: اقْعُدْ يَا فُلَانُ ثُمَّ سَأَلَنِي عَنْ رِجَالٍ وَنِسَاءٍ مِنْ أَهْلِي ثُمَّ قَالَ لِي: مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ عَلَيَّ؟ قُلْتُ: رَغْبَةً فِي خِدْمَتِكَ قَالَ لِي فَقَالَ: الْزَمِ الدَّارَ قَالَ: فَكُنْتُ فِي الدَّارِ مَعَ الْخَدَمِ ثُمَّ صِرْتُ أَشْتَرِي لَهُمُ الْحَوَائِجَ مِنَ السُّوقِ وَكُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهِ مِنْ غَيْرِ إِذْنٍ إِذَا كَانَ فِي دَارِ الرِّجَالِ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ يَوْماً وَهُوَ فِي دَارِ الرِّجَالِ فَسَمِعْتُ حَرَكَةً فِي الْبَيْتِ فَنَادَانِي مَكَانَكَ لَا تَبْرَحْ، فَلَمْ أَجْسُرْ أَخْرُجُ وَلَا أَدْخُلُ، فَخَرَجَتْ عَلَيَّ جَارِيَةٌ وَمَعَهَا شَيْ ءٌ مُغَطًّي، ثُمَّ نَادَانِي ادْخُلْ فَدَخَلْتُ وَنَادَي الْجَارِيَةَ فَرَجَعَتْ فَقَالَ لَهَا: اكْشِفِي عَمَّا مَعَكِ فَكَشَفَتْ عَنْ غُلَامٍ أَبْيَضَ حَسَنِ الْوَجْهِ وَكَشَفَتْ عَنْ بَطْنِهِ فَإِذَا شَعْرٌ نَابِتٌ مِنْ لَبَّتِهِ إِلَي سُرَّتِهِ أَخْضَرُ لَيْسَ بِأَسْوَدَ فَقَالَ:هَذَا صَاحِبُكُمْ ثُمَّ أَمَرَهَا فَحَمَلَتْهُ فَمَا رَأَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ حَتَّي مَضَي أَبُو مُحَمَّدٍ عليه السلام.

ضوء بن علي عجلي جو فارس کا ایک شخص تھا ،وہ نقل کرتا ہے کہ میں امام کے پاس گیا ۔۔ جب امام کے گھر میں داخل ہوا تو میں نے سلام کیا ،انہوں نے میری خبر و خیرت پوچھا اور پھر فرمایا : بیٹھ جاو ،انہوں نے ہمارے خاندان کے مردوں اور عورتوں کی حالت کے بارے میں مجھ سے سوال کیا اور فرمایا : کیوں آئے ہو؟ میں نے کہا : آپ کی خدمت کرنے کے شوق سے آیا ہوں ۔ فرمایا : گھر میں رہے ، اس کے بعد میں آپ کے خدمت گزاروں کے ساتھ باہر جاتا اور ہم کوئی چیز خریدرتے اور مردوں کے کمروں میں امام کے  پاس ڈرے بغیر داخل ہوتا اور آپ کے پاس بیٹھ جائے ۔  

ایک دن امام مردوں کے کمرے میں تنہا تشریف فرما تھے۔ لیکن گھر کے اندر سے کوئی حرکت سنائی دی۔ امام نے مجھ سے کہا اپنی جگہ ٹھر جاو،  نہ میں باہر جانے کی جرات کرسکا نہ اندر کمرے میں جانے کی ۔ دیکھا امام کے پاس سے ایک کنیز باہر آئی اور ان کے ساتھ ڈھانپا ہوئی کوئی چیز تھی ، پھر امام نے مجھ سے داخل ہونے کے لئے کہا ، میں اندر داخل ہوا ،پھر امام نے کنیز کو بلایا ۔ کنز واپس پلٹی تو امام نے فرمایا : جو پردے میں ہے اس سے پردہ ہٹاو ،جب پردہ ہٹایا تو دیکھا ایک خوبصورت بچہ ہے ۔۔۔۔ امام نے فرمایا یہ تم لوگوں کا صاحب ہے ،پھر آپ نے کنیز کو اندر لے جانے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد امام کی وفات تک میں نے انہیں نہیں دیکھا۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج 1، ص329، ح 6، ناشر: اسلاميه ، تهران ، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

14. كامل بن إبراهيم مدني.

كامل بن ابراهيم ،امام عسكري علیہ السلام کے گھر ایک سوال کا جواب لینے آٰیا تو امام مہدی علیہ السلام سے جواب لیا ۔۔

جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ وَجَّهَ قَوْمٌ مِنَ الْمُفَوِّضَةِ وَالْمُقَصِّرَةِ كَامِلَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ الْمَدَنِيَّ إِلَي أَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام قَالَ كَامِلٌ: فَقُلْتُ فِي نَفْسِي أَسْأَلُهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ عَرَفَ مَعْرِفَتِي وَقَالَ بِمَقَالَتِي قَالَ: فَلَمَّا دَخَلْتُ عَلَي سَيِّدِي أَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام نَظَرْتُ فَسَلَّمْتُ وَجَلَسْتُ إِلَي بَابٍ عَلَيْهِ سِتْرٌ مُرْخًي فَجَاءَتِ الرِّيحُ فَكَشَفَتْ طَرَفَهُ فَإِذَا أَنَا بِفَتًي كَأَنَّهُ فِلْقَةُ قَمَرٍ مِنْ أَبْنَاءِ أَرْبَعِ سِنِينَ أَوْ مِثْلِهَا فَقَالَ لِي: يَا كَامِلَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ فَاقْشَعْرَرْتُ مِنْ ذَلِكَ وَأُلْهِمْتُ أَنْ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا سَيِّدِي فَقَالَ: جِئْتَ إِلَي وَلِيِّ اللَّهِ وَحُجَّتِهِ وَبَابِهِ تَسْأَلُهُ هَلْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ عَرَفَ مَعْرِفَتَكَ وَقَالَ بِمَقَالَتِكَ فَقُلْتُ إِي وَاللَّهِ قَالَ إِذَنْ وَاللَّهِ يَقِلَّ دَاخِلُهَا وَاللَّهِ إِنَّهُ لَيَدْخُلُهَا قَوْمٌ يُقَالُ لَهُمُ الْحَقِّيَّةُ قُلْتُ: يَا سَيِّدِي وَمَنْ هُمْ؟ قَال:َ قَوْمٌ مِنْ حُبِّهِمْ لِعَلِيٍّ يَحْلِفُونَ بِحَقِّهِ وَلَا يَدْرُونَ مَا حَقُّهُ وَفَضْلُهُ ثُمَّ سَكَتَ عليه السلام عَنِّي سَاعَةً ثُمَّ قَالَ: وَجِئْتَ تَسْأَلُهُ عَنْ مَقَالَةِ الْمُفَوِّضَةِ كَذَبُوا بَلْ قُلُوبُنَا أَوْعِيَةٌ لِمَشِيَّةِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ شِئْنَا وَاللَّهُ يَقُولُ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ ثُمَّ رَجَعَ السِّتْرُ إِلَي حَالَتِهِ فَلَمْ أَسْتَطِعْ كَشْفَهُ فَنَظَرَ إِلَيَّ أَبُو مُحَمَّدٍ عليه السلام مُتَبَسِّماً فَقَالَ: يَا كَامِلُ مَا جُلُوسُكَ وَقَدْ أَنْبَأَكَ بِحَاجَتِكَ الْحُجَّةُ مِنْ بَعْدِي؟ فَقُمْتُ وَخَرَجْتُ وَلَمْ أُعَايِنْهُ بَعْدَ ذَلِكَ.

جعفر بن محمد بن مالك نے محمد بن عبد اللَّه بن جعفر سے ،انہوں نے محمد بن احمد انصاري سے نقل کیا ہے : مفوضه اور مقصره کے ایک گروہ نے كامل بن ابراهيم مدني کو امام حسن عسكري عليه السّلام کے پاس بھیجا۔ کامل کہتا ہے : میں نے دل میں کہا ، میں امام سے یہ کہوں گاکوئی بھی اس وقت تک بہشت میں داخل نہیں ہوگا جب تک وہ اس چیز کی معرفت پیدا نہ کرئے جس کی میں معرفت رکھتا ہوں اور اس چیز کے معتقد نہ ہو جس پر میرا عقیدہ ہے ۔

جب میں امام کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ آپ سفید اور نرم لباس میں ملبوس تھے، میں نے اپنے آپ سے کہا : اللہ کا ولی اور حجت نرم اور نازک لباس پہنتے ہیں لیکن ہم سے کہتے ہیں کہ ہمیں دینی بھائیوں کی فکر کرنے اور اس قسم کے لباس پہنے سے منع کرتے ہیں۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ امام نے مسکراہت کےساتھ اپنے آستین اوپر کیا اور سخت قسم کا کالا لباس دکھایا اور فرمایا : اے کامل یہ لباس اللہ کے لئے پہنا ہوا ہوں اور یہ سفید اور نرم لباس تم لوگوں کی خاطر پہنا ہوا ہوں۔

میں نے سلام کیا اور جس  کمرے کے آگے پردہ لگا ہوا تھا وپاں جاکے بیٹھ گیا ،

اچانک ہوا چلی اور پردہ ہٹا، میں نے ایک چاند سا بچہ دیکھا کہ جو تقریبا چار سال کا تھا ۔ امام نے فرمایا : اے كامل بن ابراهيم! ان باتوں سے مجھے تعجب ہوا اور میرے بدن کے بال سیدھے ہوئے، گویا مجھ پر یہ کہنے کے لئے الہام ہوا، ، جی میرے آقا، فرمایا : کیا اللہ کے ولی اور حجت سے سوال کرنے آئے ہو ؟ کہ جو تم پہچانتے ہو اس کو پہچاننے والا ہی بہشت میں جائے گا اور جس پر تیرا اعتقاد ہے اس پر اعتقاد رکھنے والا ہی جنت میں جائے گا ؟ میں نے کہا : جی مولا اسی سوال کا جواب لینے آیا ہوں۔

فرمایا : اللہ کی قسم بہشت میں داخل ہونے والے کم ہو جائیں گے، اللہ کی قسم ایسے لوگ بھی بہشت میں داخل ہوں گے کہ جن کو «حقيه» کہے جاتے ہیں۔ میں نے کہا : یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا : یہ ایسے لوگ ہیں کہ جو علي عليه السّلام کو  سے محبت کرتے ہیں ان کے نام پر قسم کھاتے ہیں لیکن ان کے حق اور ان کی فضیلت کو نہیں جانتے ، پھر کچھ دیر خاموش رہیں اور فرمایا : کیا مفوضه کے عقیدے کے بارے میں سوال کرنے آئے ہو ؟ مفوضه اپنے عقیدے میں جھوٹ بولتے ہیں. (اللہ نے دنیا کے امور کو ہمارے حوالے نہیں کیا ہے ) بلکہ ہمارے دل اللہ کی مشیت کے جاری ہونے کے کی جگہ ہے، لہذا اللہ جس وقت کوئی چیز چاہتا ہے ہم بھی اس کو چاہتے ہیں،جیساکہ ارشاد ہوا ہے: وَ ما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ ،يعني اسی کو چاہتے ہیں جس کو اللہ چاہتا ہے ، پھر پردے کو دوبارہ نیچے لایا ،میں اس کو اوپر نہیں اٹھا سکا.

اس وقت امام حسن عسكري عليه السّلام نے میری طرف نگاہ کی اور مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا : كامل!پھر کس کام کے لئے یہاں بیٹھے ہو ؟ تم جو چاہتا تھا وہ میرے بعد تم لوگوں کے امام  سے سنا ،میں وہاں سے نکلا اور اس کے بعد امام زمان کو نہیں دیکھا  .

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاي460هـ)، كتاب الغيبة، ص247، تحقيق: الشيخ عباد الله الطهراني/ الشيخ علي احمد ناصح، ناشر: مؤسسة المعارف الاسلامية، الطبعة: الأولي، 1411هـ.

المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج 69، ص163، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.

نتيجه:

گزشتہ روایات اور مطالب کے مطابق یہ بات ثابت ہوئی کہ امام مہدی علیہ السلام کو  آپ کے والد محترم کی زندگی میں اور اس کے بعد بہت سے قابل اعتماد لوگوں نے دیکھا ہے ، جناب حکیمہ کہ جو موثقہ ترین راویہ ہیں ، ان کے علاوہ بہت سے دوسرے معتبر لوگوں نے بھی آپ کو دیکھا ہے اور آپ کی خدمت میں شرف یاب ہوئے ہیں ۔

پاسخ چهارم: 

امام عسكري (ع)، نے اپنے قابل اعتماد لوگوں کو مهدي (ع) کی خبر دی۔

امام حسن عسكري عليه السلام نے اپنے بہت سے شیعوں کو امام مہدی علیہ السلام دکھایا ،لیکن اس کے علاوہ اپنے بہت سے شیعوں اور قابل اعتماد لوگوں کو حضرت مهدي عليه السلام کے وجود کی خبر دی .

اس سلسلے میں دو صحیح اور موثق روایات ہم یہاں نقل کرتے ہیں:

1. ابو هاشم جعفري کی خبر

ابو هاشم جعفري کہ جو موثق راویوں میں سے ہے ،  امام عسكري عليه السلام نے انہیں حضرت مهدي علیہ السلام کے موجود ہونے کی خبر دی ہے . مرحوم كليني نے صحيح  سند اس روایت کو نقل کیا ہےب:

مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَي عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام: جَلَالَتُكَ تَمْنَعُنِي مِنْ مَسْأَلَتِكَ فَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَسْأَلَكَ فَقَالَ: سَلْ قُلْتُ: يَا سَيِّدِي هَلْ لَكَ وَلَدٌ؟ فَقَالَ: نَعَمْ فَقُلْتُ: فَإِنْ حَدَثَ بِكَ حَدَثٌ فَأَيْنَ أَسْأَلُ عَنْهُ؟ قَالَ: بِالْمَدِينَةِ.

ابو هاشم جعفري کہا ہے :  امام حسن عسكري عليه السلام سے عرض کیا : آپ کی جلالت اور بزرگی کی وجہ سے ایک سوال پوچھنے نہیں پار رہا ہوں ،کیا مجھے سوال کرنے کی اجازت ہے ؟ فرمایا، پوچھو ، عرض کیا : میرے آقا ! کیا آپ کا کوئی فرزند ہے ؟ فرمایا: ہاں ہے ، عرض کیا : اگر آپ کے لئے کوئی مشکل پیش آئی تو ان کا کہاں پتہ کروں ؟ فرمایا : مدينه میں .

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج1، ص328، ناشر: اسلاميه ، تهران ، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

روایت کی سند کی تحقیق:

اس روایت کے تین راوی ہیں: 1.محمد بن يحي العطار؛ 2. احمد بن اسحاق؛ 3. ابو هاشم جعفري. ان کے بارے میں تحقیق ؛

1ـ محمد بن يحيي العطار:

پہلا روای، محمد بن يحياي عطار ہے. یہ راوی شیعہ علم رجال کے ماہرین کے نذدیک ثقہ ہے ، نجاشي کہ جو علم رجال کے بزرگوں میں سے ہیں ،ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

«محمد بن يحيي أبو جعفر العطار القمي، شيخ أصحابنا في زمانه، ثقة، عين، كثير الحديث»

محمد بن يحي ابو جعفر عطار قمي، یہ اپنے زمانے میں ہمارے امامیہ علماﺀ کے بزرگوں میں سے اور موثق ہیں۔ ان سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں.

النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفاي450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب رجال النجاشي، ص353، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.

2ـ أحمد بن إسحاق:

دوسرا راوی، احمد بن اسحاق قمي کے بارے میں نجاشي نے لکھا ہے :

أحمد بن إسحاق بن عبد الله بن سعد بن مالك بن الأحوص الأشعري، أبو علي القمي، وكان وافد القميين، وروي عن أبي جعفر الثاني وأبي الحسن عليهما السلام، وكان خاصة أبي محمد عليه السلام.

احمد بن اسحاق ۔۔۔۔۔۔۔ یہ قم کے لوگوں کا نمائندہ تھا اور انہوں نے امام محمد تقی اور امام علی نقی علیہما السلام سے روایات نقل کی ہیں اور آپ امام حسن عسكري عليه السلام کے خصوصی اصحاب میں سے تھے .

النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفاي450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب رجال النجاشي، ص91، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.

شيخ طوسي نے بھی فہرست میں نجاشي کے الفاظ کے ساتھ ان کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے امام زمان علیہ السلام کو دیکھا ہے ۔

الأشعري، أبو علي، كبير القدر، وكان من خواص أبي محمد عليه السلام، ورأي صاحب الزمان عليه السلام، وهو شيخ القميين ووافدهم.

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاي460هـ)، الفهرست، ص70، تحقيق: الشيخ جواد القيومي، ناشر: مؤسسة نشر الفقاهة، چاپخانه: مؤسسة النشر الإسلامي، الطبعة الأولي1417

انہوں نے اپنی کتاب رجال میں ان کو ثقہ کہاہے :

أحمد بن إسحاق بن سعد الأشعري، قمي، ثقة.

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاي460هـ)، رجال الطوسي، ص397، تحقيق: جواد القيومي الأصفهاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الأولي، 1415هـ.

3ـ أبو هاشم الجعفري:

  ابو هاشم، داود قاسم و آپ عظیم اور ثقہ شخص ہیں ۔

نجاشي نے ان کے بارے میں لکھا ہے :

داود بن القاسم بن إسحاق بن عبد الله بن جعفر بن أبي طالب، أبو هاشم الجعفري رحمه الله كان عظيم المنزلة عند الأئمة عليهم السلام، شريف القدر، ثقة، روي أبوه عن أبي عبد الله عليه السلام.

۔۔ ابو هاشم جعفري کا  ائمه عليهم السلام کے نذدیک بڑا مقام ہے ،آپ ایک شریف اور ثقہ آدمی ہیں ،ان کے والد نے امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کیا ہے۔

النجاشي الأسدي الكوفي، ابوالعباس أحمد بن علي بن أحمد بن العباس (متوفاي450هـ)، فهرست أسماء مصنفي الشيعة المشتهر ب رجال النجاشي، ص156، تحقيق: السيد موسي الشبيري الزنجاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الخامسة، 1416هـ.

شيخ طوسي نے بھی انہیں ثقہ اور جلیل القدر کہا ہے :

داود بن القاسم الجعفري، يكني أبا هاشم، من ولد جعفر بن أبي طالب عليه السلام، ثقة جليل القدر.

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاي460هـ)، رجال الطوسي، ص375، تحقيق: جواد القيومي الأصفهاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الأولي، 1415هـ.

علماﺀ رجال کی ان تصریحات کے مطابق یہ بہت ہی معتبر روایت ہے اور اس کی دلالت  اور مضمون بھی واضح ہے ، اس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن عسكري عليه السلام کے ہاں فرزند تھا ، آپ نے  ابو هاشم کو اس سلسلے میں بتایا ۔

2. محمد بن علي بن بلال کو خبر دینا ۔

محمد بن علي بن بلال کہتا ہے : دو مرتبہ امام عسكري علیہ السلام نے امام مہدی علیہ السلام کے وجود کی مجھے خبر دی ،یہ روایت موثق ہے اور  مرحوم كلنيي اورشيخ مفيد نے اس کو نقل کیا ہے :

عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ بِلَالٍ قَالَ: خَرَجَ إِلَيَّ مِنْ أَبِي مُحَمَّدٍ قَبْلَ مُضِيِّهِ بِسَنَتَيْنِ يُخْبِرُنِي بِالْخَلَفِ مِنْ بَعْدِهِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ مِنْ قَبْلِ مُضِيِّهِ بِثَلَاثَةِ أَيَّامٍ يُخْبِرُنِي بِالْخَلَفِ مِنْ بَعْدِه.

محمد بن علي بن بلال کہتے ہیں: امام حسن عسكري عليه السلام، کی طرف سے آپ کی وفات سے دو سال پہلے مجھے ایک پیغام ملا اور  اپنے بعد کے جانشين کی آپ نے مجھے خبر دی ،دوسری مرتبہ آپ کی وفات سے تین دن پہلے مجھے پیغام ملا اور امام مہدی علیہ السلام کے وجود کی مجھے خبر دی۔

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج1، ص328، ناشر: اسلاميه ، تهران ، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.

الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري البغدادي (متوفاي413 هـ)، الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج2، ص348، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993 م.

سند کی تحقیق :

اس سند میں دو لوگ ہیں: 1. علي بن محمد   2. محمد بن علي بن بلال  

1. علي بن محمد:

علي بن محمد بن إبراهيم بن أبان الرازي الكليني المعروف بعلان يكني أبا الحسن. ثقة، عين. له كتاب أخبار القائم [ عليه السلام ].

رجال النجاشي، ص 261

2ـ محمد بن علي بن بلال:

محمد بن علي بن بلال، ثقة.

الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاي460هـ)، رجال الطوسي، ص401، تحقيق: جواد القيومي الأصفهاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ـ قم، الطبعة: الأولي، 1415هـ.

تحقیق کا نتیجہ :

تیسرے جواب کے ذیل میں ہم نے ۱۴ روایات پیش کی ، ان روایات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام کے بعض اصحاب اور آپ کے قابل اعتماد شیعوں نے امام مہدی علیہ السلام کو دیکھا ہے ۔ اسی طرح آپ نے خود ہی اپنے بعض قابل اعتماد اصحاب اور شیعوں کو اس کی خبر دی ہے اور اس سلسلے میں صحیح السند روایات موجود ہیں۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خود معصوم امام حضرت حسن العسکری  علیہ السلام نے اپنے فرزند کے ہونے اور ان کے وجود کے بارے میں خبر دی ہے اور یہ روایات صحیح سند بھی ہیں۔

لہذا ان روایات کے مطابق ہم  قفاري سے کہتے ہیں اگر فرض کرئے امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کی خبر صحیح نہ ہو لیکن ان کو دیکھنے اور ان کے وجود کے بارے میں امام کی خبر تو صحیح سند ہے ۔

پانچواں جواب  :

  اهل سنت کے بزرگوں کا حضرت مهدي (ع) کی ولادت اور ان سے  ملاقات کا اعتراف  

جیساکہ اگر قفازی اس سلسلے میں شبھہ بیان کرنے سے پہلے اپنے بزرگوں کے اقوال کی طرف رجوع کرتے اور یہ دیکھتے کہ اہل سنت کے بزرگوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ امام حسن العسکری  علیہ السلام کا  فرزند 255 هجري کو پیدا ہوئے ہیں اور ان کی ماں کا نام نرجس ہے ، اب قفازی سے پوچھنا چاہئے کہ ان بزرگوں نے کس طرح آپ کی ولادت پر یقین کیا اور یہ اعتراف کیا ہے ۔

ہم ذیل میں اس سلسلے میں اہل سنت کے بعض علماﺀ کے کلمات کو نقل کرتے ہیں :

1. ابو الفداء (متوفاي732هـ)

عماد الدين اسماعيل ابو الفداء، نے واضح طور پر کہا ہے کہ امام حسن عسكري(ع) ، امام منتظر کے والد ہیں:

وكانت ولادة الحسن العسكري المذكور... هو والد محمد المنتظر، صاحب السرداب، ومحمد المنتظر المذكور هو ثاني عشر الأئمة الاثني عشر، علي رأي الإِمامية، ويقال له القائم، والمهدي، والحجة. وولد المنتظر المذكور، في سنة خمس وخمسين ومائتين.

حسن عسكري جن کا ذکر ہوا ، آپ امام منتظر ، صاحب سرداب کے والد گرامی ہیں ، آپ بارہ امامی شیعوں کے بارویں امام ہیں، آپ کو قائم ،مھدی اور حجت کہتے ہیں، یہ مہدی منتظر 255هجري کو دنیا میں آئے ۔

أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي (متوفاي732هـ)، المختصر في أخبار البشر، ج1، ص178، طبق برنامه الجامع الكبير.

2. ابو الوردي (متوفاي749هـ)

زين الدين ابن الوردي نے واضح طور پر کہا ہے کہ  امام حسن عسكري(ع) کے فرزند سال255هجري کو دنیا میں آئے :

والحسن العسكري والد محمد المنتظر صاحب السرداب، والمنتظر ثاني عشرهم ويلقب أيضا القائم والمهدي والحجة، ومولد المنتظر سنة خمس وخمسين ومائتين.

حسن العسكری م ح م د المتظر،صاحب سرداب کے والد ہیں  آپ باوریں امام ہیں ۔ آپ کا لقب  قائم ، مھدی اور حجۃ ہے آپ 255هجري کو پیدا ہوئے ۔

ابن الوردي، زين الدين عمر بن مظفر (متوفاي749هـ)، تاريخ ابن الوردي، ج1، ص223، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان / بيروت، الطبعة: الأولي، 1417هـ - 1996م

3. ابن حجر هيثمي (متوفاي973هـ)

ابن حجر هيثمي  نے اپنی كتاب الصواعق المحرقه (جس کو شیعوں کے خلاف لکھی ہے ) نے یہ اعتراف کیا ہے کہ امام عسکری (ع) کا فرزند ابو القاسم الحجة نام کا فرزند تھا۔

ولم يخلف غير ولده أبي القاسم محمد الحجة، وعمره عند وفاة أبيه خمس سنين، لكن أتاه الله فيها الحكمة، ويسمي القائم المنتظر....

امام عسكری عليہ السلام کا ابو القاسم م ح م د، حجت کے علاوہ کوئی بیٹا نہیں تھا، ان کی وفات کے وقت اس بیٹے کی عمر پانچ سال تھی، لیکن اسکے باوجود بھی خداوند نے اسکو حکمت سیکھائی تھی اور اسکا نام قائم و منتظر رکھا گیا تھا۔

الهيثمي، ابوالعباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفاي973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج2، ص601، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولي، 1417هـ - 1997م.

4. مناوي (متوفاي1031هـ)

مناوي کہ اہل سنت کے بزرگ علماﺀ میں سے ہے ،ان کے نقل کے مطابق  بسطامي نے یہ اعتراف کیا ہے کہ مهدي عليه السلام کی ماں کا نام نرجس ہے ۔.

قال العارف البسطامي في الجفر... وأما أمه فاسمها نرجس من أولاد الحواريين.

عارف بسطامي نے جفر میں کہا ہے ۔ امام مہدی علیہ السلام کی ماں کا نام نرجس ہے اور آپ حواریوں کئ نسل سے ہے ۔.

المناوي، محمد عبد الرؤوف بن علي بن زين العابدين (متوفاي 1031هـ)، فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج 6، ص277، ناشر: المكتبة التجارية - مصر، الطبعة: الأولي، 1356هـ.

5. عاصمي مكي (متوفاي1111هـ)

 عاصمی نے بھی واضح طور  پر اس کا اعتراف کیا ہے :

الإمام الحسن العسكري بن علي الهادي ... ولده محمدا أوحده وهو الإمام محمد المهدي بن الحسن العسكري بن علي التقي بن محمد الجواد ابن علي الرضا بن موسي الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علي زين العابدين بن الحسين بن علي بن أبي طالب رضي الله تعالي عنهم أجمعين.

ولد يوم الجمعة منتصف شعبان سنة خمس وخمسين ومائتين وقيل سنة ست وهو الصحيح أمه أم ولد اسمها أصقيل وقيل سوسن وقيل نرجس كنيته أبو القاسم ألقابه الحجة والخلف الصالح والقائم والمنتظر وصاحب الزمان والمهدي وهو أشهرها صفته شاب مربوع القامة حسن الوجه والشعر أقني الأنف أجلي الجبهة ولما توفي أبوه كان عمره خمس سنين.

امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے وہی امام م ح م د بن الحسن العسكری ہے کہ جنکی ولادت 15 شعبان بروز جمعہ سن 255 ہجری کو واقع ہوئی ، اور بعض نے کہا ہے کہ ولادت 256 ہجری کو ہوئی تھی کہ یہی قول صحیح ہے۔ انکی ماں ایک کنیز تھی کہ جسکا نام اصیقل تھا، بعض نے سوسن اور بعض نے نرجس بھی کہا ہے۔ انکی کنیت حضرت ابو القاسم اور انکے القاب حجت، خلف، صالح، قائم، منتظر، صاحب الزمان، جبکہ انکا مشہور ترين لقب حضرت مہدی ہے۔ انکی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ درمیانے قد ، خوبصورت چہرے و خوبصورت بالوں ، باریک ناک اور چوڑے ماتھے والے ایک جوان ہیں۔

العاصمي المكي، عبد الملك بن حسين بن عبد الملك الشافعي (متوفاي1111هـ)، سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج 4 ص149- 150، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود- علي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية.

اہل سنت کے دوسرے بزرگوں نے بھی اسی کا اعتراف کیاہے اور ہم نے اس کو ایک مقالے میں تفصیل سے نقل کیا ہے (کیا امام حسن عسکری(ع) فرزند کے بغیر دنیا سے چلے گئے ۔

6. حسن عراقي کا  حضرت مهدي (ع) سے ملاقات

مندرجہ بالا موارد اہل سنت کے علماﺀ کی طرف سے امام مھدی علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں بعض اعترافات ہیں ، ان کے علاوہ اہل سنت کے بعض علماﺀ نے امام مھدی علیہ السلام سے ملاقات کا بھی اعتراف کیا ہے ۔

شعراني کہ جنہوں نے طبقات الکبرای کو «لواقح الانوار في طبقات الاخيار» نام دیا ہے اور اس کتاب میں دسویں ہجری تک کے اہل سنت کے علماﺀ  کا زندگی نامہ لکھا ہے اور ان کی سیرت اور واقعات کو بیان کیا ہے ۔

اس کتاب میں حسن عراقي کا امام مھدی علیہ السلام سے ملاقات کا واقعہ بیان ہوا ہے ۔

ومنهم الشيخ العارف بالله تعالي سيدي حسن العراقي رحمه الله تعالي المدفون بالكوم خارج باب الشعرية رضي الله عنه بالقرب من بركة الرطلي، وجامع البشيري ترددت إليه مع سيدي أبي العباس الحريثي، وقال أريد أن أحكي لك حكايتي من مبتدأ أمري إلي وقتي هذا كأنك كنت رفيقي من الصغر، فقلت له: نعم فقال: كنت شاباً من دمشق، وكنت صانعاً، وكنا نجتمع يوماً في الجمعة علي اللهو واللعب، والخمر، فجاءني التنبيه من الله تعالي يوماً ألهذا خلقت ؟ فتركت ما فيهم فيه، وهربت منهم فتبعوا ورائي فلم يدركوني، فدخلت جامع بني أمية، فوجدت شخصاً يتكلم علي الكرسي في شأن المهدي عليه السلام، فاشتقت إلي لقائه فصرت لا أسجد سجدة إلا وسألت الله تعالي أن يجمعني عليه فبينما أنا ليلة بعد صلاة المغرب أصلي صلاة السنة، وإذا بشخص جلس خلفي، وحسس علي كتفي، وقال لي: قد استجاب الله تعالي دعاءك يا ولدي مالك أنا المهدي فقلت تذهب معي إلي الدار، فقال نعم، فذهب معي، فقال: أخل لي مكاناً أنفرد فيه فأخليت له مكاناً فأقام عندي سبعة أيام بلياليها، ولقنني الذكر، وقال أعلمك ورعي تدوم عليه إن شاء الله تعالي تصوم يوماً، وتفطر يوماً، وتصلي كل ليلة خمسمائة ركعة، فقلت: نعم فكنت أصلي خلفه كل ليلة خمسمائة ركعة وكنت شاباً أمرد حسن الصورة فكان يقول: لا تجلس قط إلا ورائي فكنت أفعل، وكانت عمامته كعمامة العجم، وعليه جبة من وبر الجمال فلما انقضت السبعة أيام خرج، فودعته، وقال لي: يا حسن ما وقع لي قط مع أحد ما وقع معك فدم علي ورعك حتي تعجز، فإنك ستعمر عمراً طويلا انتهي كلام المهدي.

۔۔۔.

الشعراني، أبو المواهب عبد الوهاب بن أحمد بن علي المعروف بالشعراني (متوفاي 973هـ)، الطبقات الكبري المسماة بلواقح الأنوار في طبقات الأخيار، ج1، ص475، تحقيق: خليل المنصور، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي1418هـ-1997م

حسن عراقي کون ہے ؟

 اہل سنت کے عالم  نجم الدين محمد بن محمد نے حسن عراقي کی تعریف میں لکھا ہے :

حسن العراقي: حسن العراقي نزيل مصر، الشيخ الصالح العابد الزاهد صاحب الأحوال العجيبة، والكشف الصحيح، كان عن طريقه إذا أتاه أحد بشيء من الأثواب النفيسة ويقول هذا نذر لك يا شيخ حسن يقبلها ثم يأخذ السكين فيقطعه قطعاً ثم يخيطها بخيط ومسلة، ويقول: إن العبد إذا لبس الجديد تصير النفس سارقة بالنظر إليه، وتعجب به، فإذا قطعناها تقطع خاطر النفس، وحكي عنه الشيخ عبد الوهاب الشعراوي حكاية عجيبة أخبر بها عن نفسه

الغزي، نجم الدين محمد بن محمد (متوفاي1061هـ)، الكواكب السائرة بأعيان المئة العاشرة، ج1، ص114، دار النشر: طبق برنامه الجامع الكبير.

اس حصے کا نتیجہ :

شیعہ اور اہل سنت دونوں کے نذدیک حضرت مهدي عليه السلام کی ولادت یقینی اور قطعی امور میں سے ہے ۔ لہذا مھدویت کا عقیدہ شیعوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اس کو شبھات کے ذریعے ختم نہیں کرسکتا ۔

مجموعی  نتیجہ :

سابقہ مطالب سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں:

1. شیعہ نقطہ نگاہ سے مھدویت کا عقیدہ ایک بنیادی عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ رسول خدا صلي الله عليه وآله کے زمانے سے ہے ، اس سلسلے میں بہت  سی متعدد معتبر روایات نقل ہوئی ہیں ،ان روایات میں اماموں کی تعداد اور سب کے نام اور خصوصیات کا ذکر ہے۔   

2. قفاري کے نظریے کے خلاف ، حضرت حكيمه اور دوسروں کی طرف سے امام کی ولادت کی گواہی سے مهدي موعود عليه السلام  کے مصداق کا دنیا میں آںا ثابت ہوگا اس سے عقیدہ مھدویت ثابت نہیں ہوگا۔لہذا اگر جناب حکیمہ کی خبر اگر  قابل قبول نہ بھی ہو تو بھی  اس سے مھدویت کا عقیدہ زیر سوال نہیں چلا جائے گا۔

3. جناب حکیمہ کے علاوہ ، امام عسكري عليه السلام کے گھر کے خادموں اور کنیزوں میں سے چار نے اس کی گواہی دی ہے ،ان کے علاوہ امام کے بہت سے قابل اعتماد اصحاب اور شیعوں نے امام کو دیکھا ہے اور امام حسن عسکری نے اپنے بیٹے کے وجود کی اپنے اصحاب میں سے بعض کو خبر دیا ہے ۔ اس سلسلے کی روایات بھی معتبر ہیں  اور ہمارے لئے باقیوں کی گواہی نہ بھی ہو ،امام حسن العسکری(ع) کی خبر بھی کافی ہے ۔ جیساکہ اہل سنت کے علماﺀ نے بھی ان کی ولادت کی خبر دی ہے ،یہاں تک کہ اہل سنت کے بعض علماﺀ نے آپ سے ملاقات کی ہے ۔

شبھات کے جواب دینے والی ٹیم : تحقیقاتی ادارہ حضرت ولی العصر (ع)

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی