2024 March 29
شیعوں کے افطار کے بارے میں ابن تیمیہ کی جھوٹی باتیں
مندرجات: ١٩٣٢ تاریخ اشاعت: ٢٧ April ٢٠٢١ - ١٨:١٩ مشاہدات: 2271
مضامین و مقالات » پبلک
شیعوں کے افطار کے بارے میں ابن تیمیہ کی جھوٹی باتیں

چاند نظر آنے کے بارے میں شیعہ نظرئے کی وضاحت اور ابن تیمیہ کی جھوٹی نسبت۔

مقدمه:

طول تاریخ میں مکتب اھل بیت علیہم السلام کے دشمنوں نے اپنے شیطانی مقاصد کو حاصل کرنے اور اصلی اسلام یعنی مکتب اهل بيت عليهم السلام کو ختم کرنے کے لئے مختلف قسم کی کوشش کی ہیں . اس کام کے لئے دشمنوں نے ہر قسم کا حربہ اختیار کیا ہے ۔انہیں امور میں سے ایک وہابیوں کا ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوھاب کی باتوں کو نقل کرنا اور جھوٹی باتوں کو نشر کرنا ہے اور یہ شیعہ دشمنوں  کا ایسا حربہ ہے کہ جس میں وہ جھوٹی باتوں کے سہارے اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی فکر میں سرگرداں ہیں اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں ۔ان جھوٹی باتوں کو نشر کرنے میں سب سے آگے وہابی ور سلفیوں کے ماسٹر مائینڈ، ابن تیمیہ ہے ۔اس کی کتاب" منھاج السنۃ " کی طرف مراجعہ کرئے تو واضح ہو جاتا ہے کہ وہ  ایسے مسلم واقعات  کو  باطل اور توھم قرار دینے کے ذریعے ان واقعات کی تضعیف اور ان کو بے قیمت بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔

  اب ہم قرآن کریم کی طرف مراجعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے بہت سی جگہوں پر جھوٹ بولنے کی مذمت کی ہے اور اس کو ایمان نہ ہونے کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے ۔

إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ.{ النحل: 105}

یقینا غلط الزام لگانے والے صرف وہی افراد ہوتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اور وہی جھوٹے بھی ہوتے ہیں ۔

قال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فإن الْكَذِبَ يهدي إلى الْفُجُورِ وَالْفُجُورَ يهدي إلى النَّارِ.

جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ انسان کو بدکاری اور فسق کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و بدکاری انسان کو جہنم کی طرف لے جاتی 

الشيباني، ابوعبد الله أحمد بن حنبل (متوفاى241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج 1 ص 432 ، ناشر: مؤسسة قرطبة – مصر.

بہت سی روایات میں جھوٹ کو ایمان کے مقابلے میں قرار دیا ہے ۔

  امام صادق سلام الله عليه  فرماتے ہیں ۔:

ستة لا تكون في مؤمن : العسر والنكد والحسد واللجاجة والكذب والبغي .

چھے خصلتین مومن میں نہیں ہیں۔ فضول سخت گیری ، کنجوس، ہٹ دھرمی ، اور جھوٹ  اور ظلم ۔۔

تحف العقول عن آل الرسول ( ص ) - ابن شعبة الحراني - ص 377

  رسول خدا صلي الله عليه و آله کا فرمان ہے :

الكذب مجانب للإيمان وإن العبد ليهبط إلى أسفل درك في جهنم بالكذب.

جھوٹ ایمان کے ساتھ سازگار نہیں ہے ممکن یے جھوٹ بولنے کی وجہ سے انسان جہنم کے نچلے طبقے تک سقوط  کرئے ۔

الشجري الجرجاني، المرشد بالله يحيي بن الحسين بن إسماعيل الحسني (متوفاى499 هـ)، كتاب الأمالي وهي المعروفة بالأمالي الخميسية، ج 1 ص 24 ، تحقيق: محمد حسن اسماعيل، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1422 هـ - 2001م .

یہاں تک کہ خود ابن تیمیہ  منهاج السنة تصریح کرتا ہے کہ جھوٹ بولنے سے اللہ نے منع کیا ہے ۔

والله تعالى قد أمر بالصدق والبيان ونهى عن الكذب والكتمان فيما يحتاج إلى معرفته وإظهاره.

اللہ نے سچ بولنے اور حقیقت کو بیان کرنے کا حکم دیا ہے اور جھوٹ بولنے اور جہاں بیان اور معرفت کی ضرورت ہو وہاں پہھان کاری سے منع کیا ہے ۔

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 1 ص 16 ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ..

اب ابن تیمیہ کو دیکھے اس نے  ہم اپنی کتاب منھاج السنۃ میں ہر جگہ جھوٹی نسبتیں دی ہے ،مثال کے طور مکتب اھل بیت علیہم السلام کے ہاں چاند دیکھنے کے مسئلے میں لکھتا ہے :

أن يقال الرافضة يوجد فيهم من المسائل ما لا يقوله مسلم يعرف دين الإسلام... ومثل صوم بعضهم بالعدد لا بالهلال يصومون قبل الهلال ويفطرون قبله.

رافضیوں کے پاس ایسی چیزیں رائج ہیں کہ کوئی بھی دین اسلام کی شناخت رکھنے والا مسلمان ان چیزوں کے قائل نہیں، مثلا ان میں سے بعض روزہ تعداد کے حساب سے رکھتے ہیں ، چاند دیکھنے یا نہ دیکھنے کے معیار کو سامنے رکھ کر نہیں رکھتے۔رمضان کا چاند دیکھنے سے پہلے روزہ رکھتے ہیں اور شوال کا چاند دیکھنے سے پہلے افطاری کرتے ہیں...

ابن تيميه الحراني الحنبلي، ابوالعباس أحمد عبد الحليم (متوفاى 728 هـ)، منهاج السنة النبوية، ج 3 ص 417 و 418 ، تحقيق: د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولى، 1406هـ..

اهل بيت عليهم السلام  کی روايات

اب اگر شیعہ کتابوں کی طرف مراجعہ کرئے تو معلوم ہوگا  ابن تیمیہ کی یہ باتیں ائمہ اهل بيت عليهم السلام  اور شیعہ فقاء کی راے سے بلکل مختلف ہے۔

اگر چہ اس سلسلے میں شیعہ کتب میں روایات تواتر کی حد تک ہیں ۔ ہم نمونے کے طور پر یہاں چند روایات کو نقل کرت ہیں ؛

امام صادق سلام الله عليه ایک معتبر روایت جس کو  مرحوم مجلسي اول رحمه الله نے نقل کیا ہے جس میں آپ نے فرمایا :

وفي الموثق عن عبد الله بن بُكَيْر عن أبي عبد الله عليه السلام قال : صم للرؤية وأفطر للرؤية وليس رؤية الهلال أن يجيء الرجل والرجلان فيقولان رأينا إنما الرؤية أن يقول القائل رأيت فيقول القوم صدقت.

   موثق روایت {معتبر روایت کی ایک قسم }میں ہے ،مثلا  عبدالله بن بکير ،امام صادق سلام الله علیہ سے نقل کرتا ہے  : جب چاند نظر آئے تو روزہ رکھے اور جب چاند نظر آئے تو افطاری کرئے۔اور چاند نظر آنا اس طرح سے نہیں  ہے کہ ایک یا دو مرد آکر کہے: ہم نے چاند دیکھا

 مشاهده هلال ماه افطار کن. رويت هلال به اين صورت نيست که يک يا دو مرد بيايند و بگويند ما هلال را ديده ايم. رويت زماني محقق مي شود که گوينده اي بگويد: [هلال ماه را] ديدم و مردم او را  لیکن رویت اس وقت  ہوگا جب  لوگ کہے کہ ہم نے چاند دیکھا اور لوگ اس کی تائید بھی کرئے ۔

المجلسي، محمد تقي (متوفاي1070هـ)، روضة المتقين في شرح من لا يحضره الفقيه، ج 3 ص 344 ، محقق / مصحح: موسوى كرمانى، حسين و اشتهاردى على پناه‏، ناشر: مؤسسه فرهنگى اسلامى كوشانبور، مكان چاپ: قم‏، سال چاپ: 1406 ق‏.

اسی طرح  اهل بيت عليهم السلام سے نقل شدہ روایت کے مطابق روزہ رکھنا اور روزہ کھولنا صرف رویت کے ساتھ ہی حاصل ہون

عن أبي عبد الله عليه السلام ، قال : صم لرؤية الهلال ، وأفطر لرؤيته.

امام صادق عليه السلام فرماتے ہیں: جب چان نظر آئے تو روزہ رکھے اور جب {شوال کا} چاند نظر آئے تو روزہ افطار کرئے ۔

الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري البغدادي (متوفاى413 هـ)، المقنعة ، ص 297 ، تحقيق و نشر: مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين ـ قم ،  الطبعة : الثانية ،  1410 ه‍ .

امام صادق سلام الله عليه کی ایک اور روایت میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ صرف چاند دیکھنے کا گمان کافی نہیں ہے ۔

عن أبي عبد الله عليه السلام قال : صيام شهر رمضان بالرؤية وليس بالظن.

امام صادق عليه السلام فرماتے ہیں : رمضان کا روزہ چاند دیکھنے سے ہی ثابت ہوگا گمان سے یہ ثابت نہیں ہوگا۔

الطوسي، محمد بن الحسن، (متوفاي460هـ)، الاستبصار، ج 2 ص 63 ، تحقيق وتعليق : السيد حسن الموسوي الخرسان، ناشر : دار الكتب الإسلامية – طهران، چاپ: الرابعة، سال چاپ: 1363 ش.

چاند دیکھنے اور تیس دن مکمل ہونے کا نظریہ اتنا واضح ہے کہ شیعہ علماء نے اس کے عنوان سے باقاعدہ ابواب بندی کی ہے ۔جیساکہ شیخ حر عاملی نے وسائل الشيعه میں اس  طرح ایک باب بیان کیا ہے :

باب ان علامة شهر رمضان وغيره رؤية الهلال ، فلا يجب الصوم إلا للرؤية أو مضى ثلاثين ، ولا يجوز الافطار في آخره إلا للرؤية أو مضى ثلاثين وانه يجب العمل في ذلك باليقين دون الظن.

باب : یعنی رمضان اور غیر رمضان کا مہینہ صرف چاند دیکھنے سے ہی ثابت ہوگا ۔  لہذا رمضان کا روزہ اس وقت رکھنے گا جب چاند نظر آئے یا تیس دن گزر جائے اور مہنے کی آخر میں چاند نظر آئے بغیر افطار کرنا جائز نہیں ہے یا یہ کہ تیس دن گزر جائے اور اس سلسلے میں یقین پر عمل کرنا چاہیے ۔

مذکورہ باب میں  28 روایات اسی سلسلے میں نقل ہوئی ہیں .

الحر العاملي، محمد بن الحسن (متوفاى1104هـ)، تفصيل وسائل الشيعة إلي تحصيل مسائل الشريعة، ج 10 ص 252 ، تحقيق و نشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، الطبعة: الثانية، 1414هـ .

مثال کے طور پر:

عن أبي عبد الله عليه السلام قال : إنه سئل عن الأهلة ؟ فقال : هي أهلة الشهور ، فإذا رأيت الهلال فصم ، وإذا رأيته فأفطر .

امام صادق عليه السلام سے «اهلة"  کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا : اس سے مراد مہنوں کے چاند ہے،اگر چاند نظر آئے تو روزہ رکھے اور چاند نظر آئے تو افطار کرئے {یعنی روزے کے آخری دنوں میں} .

الحر العاملي، محمد بن الحسن (متوفاى1104هـ)، تفصيل وسائل الشيعة إلي تحصيل مسائل الشريعة، ج 10 ص 252 ، تحقيق و نشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، الطبعة: الثانية، 1414هـ .

  هارون بن حمزه سے اس طرح نقل کیا ہے :

عن هارون بن حمزة ، عن أبي عبد الله عليه السلام قال : سمعته يقول : إذا صمت لرؤية الهلال وأفطرت لرؤيته فقد أكملت صيام شهر رمضان .

هارون بن حمزه سے نقل ہوا ہے کہ امام صادق عليه السلام کو ہمیشہ یہ فرماتے سنا :جب چاند نظر آئے تو روزہ رکھے اور جب چاند نظر آئے تو افطار کرئے ،اگر ایسا کیا تو تم نے رمضان کا مہنہ  مکمل کر دیا ۔

الحر العاملي، محمد بن الحسن (متوفاى1104هـ)، تفصيل وسائل الشيعة إلي تحصيل مسائل الشريعة، ج 10 ص 256 ، تحقيق و نشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، الطبعة: الثانية، 1414هـ .

مرحوم علامه حلي رحمه الله نے بھی  حضرت امير سلام الله عليه چنين مي نويسد:

وعن إسحاق بن عمّار ، عن أبي عبد اللَّه عليه السّلام ، قال : « في كتاب عليّ عليه السّلام : صم لرؤيته وأفطر لرؤيته ، وإيّاك والشكّ والظنّ ، فإن خفي عليكم فأتمّوا الشهر الأوّل ثلاثين.

امام صادق سلام الله عليه نے فرمایا : کتاب حضرت علي عليه السلام میں آیا ہے : جب چاند نظر آئے تو روزہ رکھے اور جب چاند نظر آئے تو افطار کرئے،اور اگر چاند نظر آنے میں کچھ مشکل پیش آئے تو پہلے مہنے کو ۳۰ دن مکمل کرو.

الحلي الأسدي، جمال الدين أبو منصور الحسن بن يوسف بن المطهر (متوفاى726هـ)،‌ منتهى المطلب في تحقيق المذهب، ج 9 ص 238 ،‌ تحقيق: قسم الفقه في مجمع البحوث الإسلامية،‌ ناشر: مجمع البحوث الإسلامية - إيران – مشهد، چاپخانه: مؤسسة الطبع والنشر في الآستانة الرضوية المقدسة، چاپ: الأولى1412

امام عسکري سلام الله عليه سے نقل ہوا ہے :

عن أبي الحسن العسكري عليه السلام - في حديث - قال : لا تصم إلا للرؤية .

 جب تک چاند نظر نہ آئے اس وقت تک روزنہ نہ رکھے ۔

الحر العاملي، محمد بن الحسن (متوفاى1104هـ)، تفصيل وسائل الشيعة إلي تحصيل مسائل الشريعة، ج 10 ص 259 ، تحقيق و نشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، الطبعة: الثانية، 1414هـ .

اسی طرح امام رضا سلام الله عليه کا مامون عباسي،کے نام خط میں آپ نے ماہ مبارک رمضان کے بارے میں اس طرح فرمایا :

وصيام شهر رمضان فريضة يصام للرؤية ويفطر للرؤية.

رمضان کے مہنے کا روزہ واجب ہے اور جب چاند نظر تو روزہ رکھا جاتا ہے اور جب جب چاند نظر آئے تو روزہ افطار کیا جاتا ہے ۔

القمي، ابي جعفر الصدوق، محمد بن علي بن الحسين بن بابويه (متوفاي381هـ)، عيون أخبار الرضا (ع) ج 2 ص 131 ، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: الشيخ حسين الأعلمي، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت – لبنان، سال چاپ: 1404 - 1984 م .

شیعہ فقہاء کے نظریات

ائمہ اھل بیت علیہم السلام کی روایات نقل کرنے کے بعد اب ہم شیعہ فقہاء میں سے چند ایک کے نظریات کا ذکر کرتے ہیں :

مرحوم شيخ طوسي رحمه الله اس طرح لکھتے ہیں :

مسألة 8 : علامة شهر رمضان ووجوب صومه أحد شيئين ، إما رؤية الهلال أو شهادة شاهدين.

اٹھواں : رمضان شروع ہونے اور روزہ واجب ہونے کے اسباب دو میں سے ایک ہے ؛یا خود شخص چاند دیکھے ، یا دو شاہد گواہی دئے ۔

الطوسي، محمد بن الحسن، (متوفاي460هـ)، الخلاف، ج 2 ص 169، المحققون : السيد علي الخراساني ، السيد جواد الشهرستاني ، الشيخ مهدي نجف / المشرف : الشيخ مجتبى العراقي، دار النشر: مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة، الطبعة الجديدة، 1409 هـ .

اسی مضمون کے ساتھ  نقل ہوا ہے :

الطوسي، محمد بن الحسن، (متوفاي460هـ)، المبسوط، ج 1 ص 267 ، تحقيق: السيد محمد تقي الكشفي، دار النشر: المكتبة المرتضوية لإحياء آثار الجعفرية، 1387 هـ .

مرحوم ابن ادريس حلي نے بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے :

علامة شهر رمضان ووجوب صومه أحد شيئين : إمّا رؤية الهلال ، أو شهادة شاهدين رمضان شروع ہونے کی نشانی اور روزہ واجب ہونے کے اسباب ،دو میں سے ایک ہے  یا خود شخص چاند دیکھے ، یا دو شاہد گواہی دئے ۔

ابن إدريس الحلي (متوفاي598هـ)، مستطرفات السرائر، ج 1 ص 383 و ج 2 ص 34 ،‌ تحقيق: لجنة التحقيق،‌ ناشر: مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة،‌ چاپ1411 هـ .

آيت الله مرواريد نے بھی اس طرح لکھا ہے :

علامة شهر رمضان ووجوب صومه أحد شيئين: إما رؤية الهلال أو شهادة شاهدين ، فإن غم عد شعبان ثلاثين يوما ويصام بعد ذلك بنية الفرض.

رمضان شروع ہونے اور روزہ واجب ہونے کی نشانی ان دو میں سے ایک ہے ؛یا خود چاند دیکھے یا دو عادل شاہد گواہی دئے ۔اگر چاند پوشیدہ ہو اور بادل وغیرہ کی وجہ سے نظر نہ آئے تو شعبان کے شروع سے ۳۰ دن گنے گا اور جب ۳۰ دن پورا ہو تو رمضان کی نیت کرئے گا ۔

مرواريد، علي أصغر، الينابيع الفقهية، ج 29 ص 24 ، دار النشر: مؤسسة فقه الشيعة - بيروت – لبنان، الطبعة الأولي: 1413 - 1993 م .

نتيجه:

شیعہ حدیثی اور شیعہ علماء کے نظریات پر مشتمل کتابوں کی طرف رجوع کرئے تو ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھنے  اور رمضان کی پہلی تاریخ ثابت کرنے کے لئے یا چاند نظر آنا ہوا ہوگا یا بادل اور موسمی خرابی کی وجہ سے چاند نظر نہ آںے تو شعبان کے مہنے کی ۳۰ دن مکمل ہونا ہوگا۔ لہذا یہ چیزیں ابن تیمیہ کے ادعا اور شیعوں کی طرف دی گئی نسبتوں کے خلاف ہے ۔

تحقیقی ادارہ ،موسسہ امام ولی العصر  علیہ اسلام ۔

 



چٹیں: شیعوں,


Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی