2024 March 19
سیرت رضوی اور اخلاق عملی
مندرجات: ١٨١٧ تاریخ اشاعت: ١٦ July ٢٠١٩ - ١٨:٥٦ مشاہدات: 4698
مضامین و مقالات » پبلک
سیرت رضوی اور اخلاق عملی

 

اخلاق انسان کی شخصیت کے عملی اور قولی پہلو کو کہا جاتا ہے اور یہ انسانی معاشرے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اہل بیت سے نقل ہونے والی بہت سی روایات میں اخلاق کی رعایت کرنے کی دعوت دی گئی ہے کہ یہ بات خود اخلاق کی اہمیت کو ثابت کرتی ہے۔

ہر انسان کا اپنے اطراف میں موجود افراد کے ساتھ اچھے قول و فعل کے ساتھ پیش آنا، یہ اس انسان کی صحیح دینی تربیت کی علامت ہے اگرچہ ممکن ہے اسی انسان سے بعض اوقات اور بعض افعال میں تربیت و اخلاق اسلامی ظاہر نہ ہو لیکن کیونکہ اسکے باطن اور طبیعت میں خوش اخلاقی موجود ہے اس لیے اس کا اپنا اثر ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ صحیح تربیت و نشو و نما کی فضا اور ماحول سے دور ہونا، یہ اسلامی معاشرے اور امت اسلامی کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

اہل بیت (ع) کی قولی و فعلی تعلیمات کا مطالعہ معاشرے کی نجات میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے اور معاشرے کو صحیح معنوں اسلامی و محمدی بنانے میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔

اس تحریر میں مختصر طور پر امام رضا (ع) کی سیرت عملی کو دوسروں اور معاشرے کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔

بے مثال امام:

ابراہيم ابن عباس نے ابراہيم ابن ہاشم جعفری کے بزرگ شیعہ اساتذہ کہ جہنوں نے امام رضا (ع)  سے ملاقات کی تھی، انھوں نے امام اخلاقی صفات اور خصوصیات کے بارے میں ایسے بیان کیا ہے:

وَ فِي رِوَايَةٍ أُخْرَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْعَبَّاسِ أَنَّهُ قَالَ: مَا رَأَيْتُ وَ لَا سَمِعْتُ بِأَحَدٍ أَفْضَلَ‏ مِنْ‏ أَبِي‏ الْحَسَنِ‏ الرِّضَا وَ شَاهَدْتُ مِنْهُ مَا لَمْ أُشَاهِدْ مِنْ أَحَدٍ وَ مَا رَأَيْتُهُ جَفَا أَحَداً بِكَلَامِهِ وَ لَا رَأَيْتُهُ قَطَعَ عَلَى أَحَدٍ كَلَامَهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهُ وَ مَا رَدَّ أَحَداً عَنْ حَاجَةٍ يَقْدِرُ عَلَيْهَا وَ لَا مَدَّ رِجْلَيْهِ بَيْنَ يَدَيْ جَلِيسٍ لَهُ قَطُّ وَ لَا رَأَيْتُهُ يَشْتِمُ أَحَداً مِنْ مَوَالِيهِ وَ مَمَالِيكِهِ وَ مَا رَأَيْتُهُ تَفَلَ وَ لَا رَأَيْتُهُ يُقَهْقِهُ فِي ضَحِكِهِ بَلْ كَانَ ضَحِكُهُ التَّبَسُّمَ وَ كَانَ إِذَا خَلَا وَ نُصِبَتْ مَائِدَتُهُ أَجْلَسَ عَلَى مَائِدَتِهِ مَوَالِيَهُ وَ مَمَالِيكَهُ حَتَّى الْبَوَّابَ وَ السَّائِسَ وَ كَانَ قَلِيلَ النَّوْمِ بِاللَّيْلِ كَثِيرَ السَّهَرِ يُحْيِي أَكْثَرَ لَيَالِيهِ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى الصُّبْحِ وَ كَانَ كَثِيرَ الصَّوْمِ وَ لَا يَفُوتُهُ صِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الشَّهْرِ وَ يَقُولُ ذَلِكَ صَوْمُ الدَّهْرِ وَ كَانَ كَثِيرَ الْمَعْرُوفِ وَ الصَّدَقَةِ فِي السِّرِّ وَ أَكْثَرُ ذَلِكَ يَكُونُ مِنْهُ فِي اللَّيَالِي الْمُظْلِمَةِ فَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ رَأَى مِثْلَهُ فِي فَضْلِهِ فَلَا تُصَدِّقُوهُ.

ابراہيم ابن عباس کہتا ہے میں نے کسی کو بھی ابی الحسن رضا (ع) سے برتر و بالا تر دیکھا اور سنا نہیں ہے، میں نے جو چیزیں ان سے دیکھی ہیں، وہ کسی سے بھی نہیں دیکھیں، میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ انھوں نے اپنی زبان سے کسی کی توہین کی ہو اور نہیں دیکھا کہ انھوں نے کسی کی قطع کلامی کی ہو اور جسکی جو بھی حاجت ہوتی، اپنی طاقت کے مطابق اسے پورا کرتے تھے۔ اپنے پا‎ؤں کو کبھی بھی کسی کے سامنے دراز نہیں کرتے تھے اور کبھی بھی اپنے خادموں اور نوکروں کو برا بھلا نہیں کہتے تھے۔ میں نے کبھی انکو تھوکتے نہیں دیکھا تھا اور کبھی نہیں دیکھا کہ قہقہہ لگا کر وہ ہنسے ہوں، وہ تبسم فرماتے تھے۔

جب انکے لیے دستر خوان تیار ہو جاتا تھا تو اپنے غلاموں، خادموں کو بھی اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھاتے تھے، وہ رات کو بہت کم سوتے اور زیادہ عبادت کیا کرتے تھے، اکثر راتوں کو رات سے صبح تک جاگتے رہتے تھے اور بہت زیادہ روزے رکھتے تھے اور ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھنے کو ترک نہیں کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: یہ زندگی بھر کے روزے رکھنے کے برابر ہے۔

وہ بہت زیادہ نیک کاموں کو انجام دیتے اور خلوت میں مخفی طور پر صدقہ دیتے تھے اور اکثر اوقات وہ یہ کام رات کی تاریکی میں انجامدیتے تھے اور اگر جو بھی یہ گمان کرے کہ کوئی بھی برتری میں اسکی مانند ہے تو تم اسکی بات کی تائید و تصدیق نہ کرنا۔

الطبرسي، أبي علي الفضل بن الحسن _المتوفى548 ق_، إعلام الورى بأعلام الهدى، ج2، ص63، تحقيق و نشر: تحقيق مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث ـ قم،

امام رضا (ع) کا حمام میں برتاؤ:

جب امام رضا (ع) خراسان میں تھے تو ایک دن آپ حمام تشریف لے گئے تو وہاں پر موجود ایک شخص نے امام سے کہا کہ میرے بدن پر پانی ڈالے، وہ امام کو نہیں پہچانتا تھا،

جیسے شافعی عالم شبلنجی نے اس واقعے کو تفصیل سے ایسے بیان کیا ہے:

إنه احتاج إلى الحمام فكره أن يأمر أحدا بتهيئته له، ومضى إلى حمام في البلد لم يكن صاحبه يظن أن ولي العهد يأتي إلى الحمام في السوق فيشغل فيه، وانما حمامات الملوك في قصورهم. ولما دخل الامام الحمام كان فيه جندي، فأزال الامام عن موضعه، وأمره أن يصب الماء على رأسه ، ففعل الامام ذلك، ودخل الحمام رجل كان يعرف الامام فصاح بالجندي هلكت، أتستخدم ابن بنت رسول الله صلى الله عليه وآله؟ فذعر الجندي، ووقع على الامام يقبل أقدامه، ويقول له متضرعا يا بن رسول الله! هلا عصيتني إذ أمرتك ؟ فتبسم الامام في وجهه وقال له، برفق ولطف: إنها لمثوبة وما أردت أن أعصيك فيما أثاب عليه.

وہ (امام رضا) حمام جانا چاہتے تھے اور وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی دوسرا انکے لیے حمام کو تیار کرے لہذا وہ شہر کے حمام میں گئے تا کہ اسکے مالک کو پتا نہ چلے کہ ولی عہد اسکے حمام میں آیا ہے تا کہ وہ انکی خدمت وغیرہ کرنے میں مصروف نہ ہو جائے۔ بادشاہوں کے حمام انکے قصروں میں ہی ہوتے تھے۔ جب امام حمام میں گئے تو وہاں پر موجود ایک شخص نے امام کو انکی جگہ سے اٹھنے اور اسکے سر پر پانی ڈالنے کا کہا تو امام نے اسکے سر پر پانی ڈالنا شروع کر دیا۔ اتنے میں ایک دوسرا شخص حمام میں داخل ہوا، وہ امام کو پہچانتا تھا، اس نے اونچی آواز سے چیخ کر کہا: کیا تم اپنے اس کام سے خود کو مارنا چاہتے ہو، کیا تم رسول خدا کے نواسے سے کام لے رہے ہو ؟ وہ شخص ڈر گیا اور امام کے پاؤں پر گر کر پا‎ؤں کے بوسے لینے لگا اور رونے کی حالت میں امام سے التماس کی: اے فرزند رسول خدا کیا مجھ سے کوئی گناہ ہو گیا ہے کہ آپکو کام کرنے کا حکم دیا ہے ؟ امام نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا: تمہارا حکم تمہارے لیے ثواب تھا اور تم اپنے اس کام سے کوئی گناہ نہیں کیا۔

شبلنجي الشافعي، حسن بن مومن، نور الابصار في مناقب آل بيت النبي المختار، ص 141، المطبعة المحمودية، سنة الطبع: 1313هـ.

عمل صالح:

امام رضا (ع) کی ایک نورانی روایت میں امام نے رسول خدا (ص) سے اپنی رشتے داری کو صرف دوسروں پر برتری و فضیلت کا سبب ذکر نہیں کیا بلکہ عمل صالح کو برتری کا سبب ذکر کیا ہے کہ یہ بات خود ایک انسانی زندگی کا بہترین عملی درس ہے کیونکہ بعض افراد کسی خاص فرد یا خاص جماعت وغیرہ سے نسبت ہونے کی وجہ سے بہت غرور و تکبر کرتے ہیں اور خود کو بہت بلند و بالا اور دوسروں کو حقیر و پست شمار کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا الْحَاكِمُ أَبُو عَلِيٍّ الْحُسَيْنُ بْنُ أَحْمَدَ الْبَيْهَقِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الصَّوْلِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو ذَكْوَانَ قَالَ سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ الْعَبَّاسِ يَقُولُ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ مُوسَى الرِّضَا ع يَقُولُ‏ حَلَفْتُ‏ بِالْعِتْقِ‏ أَلَّا أَحْلِفَ بِالْعِتْقِ إِلَّا أَعْتَقْتُ رَقَبَةً وَ أَعْتَقْتُ بَعْدَهَا جَمِيعَ مَا أَمْلِكُ إِنْ كَانَ يَرَى‏ أَنَّهُ خَيْرٌ مِنْ هَذَا [وَ أَوْمَى إِلَى عَبْدٍ أَسْوَدَ مِنْ غِلْمَانِهِ‏] بِقَرَابَتِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه و آله إِلَّا أَنْ يَكُونَ لِي عَمَلٌ صَالِحٌ فَأَكُونَ أَفْضَلَ بِهِ مِنْهُ.

ابراہیم ابن عباس کہتا ہے میں نے علی ابن موسی الرضا (ع) کو فرماتے ہوئے سنا کہ: میں نے اپنے خدا سے عہد و پیمان کیا ہے کہ شرافت و بزرگی کی قسم نہ کھاؤں مگر یہ کہ ایک غلام کو آزاد کروں، اب میں نے اپنے تمام غلاموں کو آزاد کر دیا ہے، اگر کوئی یہ خیال کرے کہ میں اپنے سیاہ رنگ غلام سے رسول خدا سے رشتے داری کی وجہ سے برتر و بالا تر ہوں، (بلکہ ایسا نہیں ہے) مگر یہ کہ ایک نیک عمل کروں اور اسکی وجہ سے اس غلام پر فضیلت حاصل کروں، (یعنی صرف رسول خدا سے تعلق یہ برتری کا معیار نہیں ہے)۔

الصدوق، محمد بن علي بن الحسين بن بابويه (المتوفي381ق)، عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج2، ص262، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: الشيخ حسين الأعلمي، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت – لبنان،

تقوا، باعث برتری و فضیلت:

امام رضا (ع) کے کلام میں برتری و فضیلت کا اہم ترین معیار، تقوا ہے، ان حضرت نے ایک شخص کے جواب میں کہ جو اپنے آباء و اجداد کی وجہ سے خود کو برتر و بالا تر جانتا تھا، کو بتایا کہ فضیلت کا معیار صرف تقوا ہے، جیسا کہ شیخ صدوق نے روایت میں ذکر کیا ہے:

حَدَّثَنَا الْحَاكِمُ أَبُو عَلِيٍّ الْحُسَيْنُ بْنُ أَحْمَدَ الْبَيْهَقِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الصَّوْلِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ نَصْرٍ الرَّازِيُّ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ قَالَ رَجُلٌ لِلرِّضَا عليه السلام وَ اللَّهِ مَا عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَشْرَفُ مِنْكَ أَباً فَقَالَ التَّقْوَى شَرَّفَهُمْ وَ طَاعَةُ اللَّهِ أَحْظَتْهُمْ فَقَالَ لَهُ آخَرُ أَنْتَ وَ اللَّهِ خَيْرُ النَّاسِ فَقَالَ لَهُ لَا تَحْلِفْ يَا هَذَا خَيْرٌ مِنِّي مَنْ كَانَ أَتْقَى لِلَّهِ تَعَالَى وَ أَطْوَعَ لَهُ وَ اللَّهِ مَا نُسِخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ.

موسی ابن نصر کہتا ہے: ایک شخص نے امام رضا (ع) سے عرض کیا: خدا کی قسم اپنے والد کے لحاظ سے روئے زمین پر کوئی آپ سے زیادہ با شرف ترین نہیں ہے، امام نے جواب فرمایا: تقوا نے یہ شرف انھیں دیا ہے اور اطاعت خداوند نے انھیں یہ شرافت عطا کی ہے۔

ایک دوسرے شخص نے عرض کیا: خدا کی قسم آپ سب سے زیادہ بہترین ہیں، امام نے فرمایا: اے شخص قسم نہ کھاؤ، مجھ سے بہتر وہ ہے کہ جسکا تقوا خداوند کی نسبت مجھ سے زیادہ ہے اور اسکی اطاعت بھی زیادہ ہے، خدا کی قسم یہ آیت قرآنی منسوخ نہیں ہوئی کہ خداوند نے فرمایا ہے:

وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ،

ہم نے تم کو مختلف گرہوں اور قبیلوں میں قرار دیا ہے تا کہ اس سے تمہاری شناخت اور پہچان ہو سکے، بے شک تم میں سے خداوند کے نزدیک وہ احترام رکھتا ہے کہ جو زیادہ با تقوا ہو، (یعنی یہ قبیلے وغیرہ انسان کو شرافت، فضیلت و برتری نہیں دے سکتے، فضیلت صرف تقوا اور عمل صالح کے ساتھ ملتی ہے)۔

الصدوق، محمد بن علي بن الحسين بن بابويه (المتوفي381ق)، عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج2، ص261، تحقيق: تصحيح وتعليق وتقديم: الشيخ حسين الأعلمي، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت – لبنان،

امام رضا (ع) کی شخصیت اور اخلاق:

امام (ع) کی شخصیت معنوی کے ضمن میں نجم الحسن کراروی لکھتے ہیں کہ امام (ع) گفتگو میں بیحد نرم مزاج تھے۔ جب بات کرنے والا اپنی بات ختم کر لیتا، تب اپنی طرف سے کلام کا آغاز فرماتے۔ کسی کے کلام کو قطع نہیں کرتے تھے۔ راتوں کو کم سوتے۔ اکثر روزہ رکھتے تھے،

مزدور کی مزدوری پہلے طے فرماتے پھر اس سے کام لیتے۔ مشہور شاعر ابو نواس نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جس کے آباء و اجداد کے آستانہ کا جبرائیل خدمتگار تھا، اس کی مدح محال تھی۔

عبد ﷲ ابن مطرف ابن ہامان سے مامون رشید نے امام رضا (ع) کی بابت دریافت کیا تو اس نے برجستہ کہا کہ اس کے بارے میں کیا کہوں جس کی طینت رسالت میں پیوستہ اور اس کی سرشت میں وحی ہے۔

امام رضا (ع) اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں خلق پیغمبر کی ایسی تصویر تھے کہ بے اختیار رسول اکرم (ص) کا خلق یاد آ جاتا تھا۔

امام (ع) کی شخصیت کے اخلاقی اور روحانی اوصاف کے ضمن میں حسب ذیل حوالوں کا ذکر ضروری ہے:

امام کے اخلاق کے پرتو ان کے بے شمار اقوال اور احادیث میں عیاں ہیں۔

مولانا روشن علی نجفی نے" گفتار دلنشین چہاردہ معصوم علیہ السلام" کے اردو ترجمہ میں چہاردہ معصومین (ع) میں سے ہر ایک کے حوالہ سے 40 اقوال اور احادیث کو نقل کیا ہے۔

امام رضا (ع) کی احادیث میں ایمان، قران، توحید، مومن کی خصوصیات اور فلسفہ نماز کا ذکر ہے۔

2- امام (ع) نے ذاتِ خداوند کے اوصاف کی نسبت سے حروف تہجی کے ہر حرف کے پنہاں معنی پر بصیرت ، افروز تبصرہ فرمایا ہے۔

3- امام کے روحانی تصرفات اور معجزات سے متعلق معلومات میں مرزا محمد علی خراسانی نے انگریزی میں زائرین مشہد کے حوالہ سے امام (ع) کے 34 معجزات تحریر کیے ہیں۔

عباس حیدر سید نے اپنی تالیف " الحمد للّٰہ " میں امام رضا (ع) کے 10 معجزات شامل کیے ہیں۔

ائمہ علیہ السلام کی شخصیتوں کو سمجھنے کے لیے تاریخی بخل کے کوہ گراں کی رکاوٹوں کو تحقیق اور تجسس سے عبور کرنا ضروری ہے، اس جستجو میں ہمیں فضل ﷲ ابن روزبہان اصفہانی نظر آتے ہیں جو اپنی بعض تالیفات کی وجہ سے فریقین میں متنازع شخصیت ہیں ، لیکن چہاردہ معصومین (ع) پر صلوات کے موضوع پر اپنی کتاب "وسیلۃ الخادم الی المخدوم" میں آپ نے امام رضا (ع) کو احسان اور مودت کا پیکر، توحید کی نشانیوں کو رفعت عطا کرنے والا اور کمال علم و معرفت کے القاب سے یاد کیا ہے۔

حضرت امام رضا (ع) کے چند حسن اخلاق:

آپ (ع) کا عرفان اور تقوی:

امام رضا (ع) کے عرفان کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ حق پر پائیدار تھے، اور آپ نے ظلم کے خلاف قیام کیا تھا، اس لیے آپ مامون عباسی کو تقوائے الٰہی کی سفارش فرماتے تھے اور دین سے مناسبت نہ رکھنے والے اس کے افعال کی مذمت فرماتے تھے، جس کی بناء پر مامون آپ کا دشمن ہو گیا اور اس نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا، اگر امام (ع) اس کی روش کی مذمت نہ کرتے جس طرح کہ اس کے اطرافیوں نے اس کے ہر گناہ کی تائید کی تو آ پ کا مقام اس کے نزدیک بہت عظیم ہوتا۔ اسی بناء پر مامون نے بہت جلد ہی آپ کو زہر دے کر آپ (ع) کی حیات ظاہری کا خاتمہ کر دیا تھا۔

آپ کا بلند و بالا اخلاق:

امام رضا (ع) بلند و بالا اخلاق اور آداب رفیعہ سے آراستہ تھے اور آپ کی سب سے بہترین عادت یہ تھی کہ جب آپ دسترخوان پر بیٹھتے تھے تو اپنے غلاموں یہاں تک کہ اصطبل کے رکھوالوں اور نگہبانوں تک کو بھی اسی دستر خوان پر بٹھاتے تھے۔

امام (ع) اپنے جد رسول اکرم (ص) کے مثل بلند اخلاق پر فائز تھے جو اخلاق کے اعتبار سے تمام انبیاء سے ممتاز تھے۔

آپ (ع) کا زہد:

امام (ع) نے اس پرمسرت اور زیب و زینت والی زندگی میں اپنے آباء عظام کے مانند کردار پیش کیا جنھوں نے دنیا میں زہد اختیار کیا، آپ (ع) کے جد بزرگوار امام امیر المومنین علی (ع) نے اس دنیا کو تین مرتبہ طلاق دی جس کے بعد اس سے رجوع نہیں کیا جا سکتا۔

محمد ابن عباد نے امام کے زہد کے متعلق روایت کی ہے:

امام (ع) گرمی کے موسم میں چٹائی پر بیٹھتے ، سردی کے موسم میں ٹاٹ پر بیٹھتے تھے، آپ سخت کھردرا لباس پہنتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ لوگوں سے ملاقات کے لیے جاتے تو پسینہ سے شرابور ہو جاتے تھے۔

دنیا میں زہد اختیار کرنا امام (ع) کے بلند اور آشکار اور آپ کے ذاتی صفات میں سے تھا، تمام راویوں اور مورخین کا اتفاق ہے کہ جب امام (ع) کو ولی عہد بنایا گیا تو آپ (ع) نے سلطنت کے مانند کوئی بھی مظاہرہ نہیں فرمایا، حکومت و سلطنت کو کوئی اہمیت نہ دی، اس کے کسی بھی رسمی موقف کی طرف رغبت نہیں فرمائی، آپ کسی بھی ایسے مظاہرے سے شدید کراہت کرتے تھے کہ جس سے حاکم کی لوگوں پر حکومت و بادشاہت کا اظہار ہوتا ہے، چنانچہ آپ فرماتے تھے :

لوگوں کا کسی شخص کی اقتدا کرنا اس شخص کے لیے فتنہ ہے اور اتباع کرنے والے کے لیے ذلت و رسوائی ہے۔

آپ (ع) کے علوم کی وسعت و رفعت:

امام رضا (ع) اپنے زمانے میں سب سے زیادہ اعلم اور افضل تھے اور آپ نے ان (اہل زمانہ) کو مختلف قسم کے علوم جیسے علم فقہ، فلسفہ، علوم قرآن اور علم طب وغیرہ کی تعلیم دی۔

ہروی نے آپ کے علوم کی وسعت کے سلسلہ میں یوں کہا ہے:

میں نے علی ابن موسی رضا (ع) سے زیادہ اعلم کسی کو نہیں دیکھا۔

مامون نے متعدد جلسوں میں علماء ادیان ، فقہاء شریعت اور متکلمین کو جمع کیا لیکن آپ ان سب پر غالب آ گئے یہاں تک کہ ان میں کوئی ایسا باقی نہ رہا جس نے آپ کی فضیلت کا اقرار نہ کیا ہو، اور میں نے آپ (ع) کو یہ فرماتے سنا ہے:

میں ایک مجلس میں موجود تھا اور مدینہ کے متعدد علماء بھی موجود تھے ، جب ان میں سے کوئی کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھتا تھا تو اس کو میری طرف اشارہ کر دیتے تھے اور مسئلہ میرے پاس بھیج دیتے تھے اور میں اس کا جواب دیتا تھا۔

ابراہیم ابن عباس سے مروی ہے: میں نے امام رضا (ع) کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ آپ (ع) نے ہر سوال کا جواب دیا ہے، میں نے آپ کے زمانہ میں کسی کو آپ سے اعلم نہیں دیکھا اور مامون ہر چیز کے متعلق آپ سے سوال کر کے آپ کا امتحان لیتا تھا اور آپ (ع) اس کا جواب عطا فرماتے تھے۔

مامون سے مروی ہے:

میں امام رضا (ع) سے افضل کسی کو نہیں جانتا۔

بصرہ، خراسان اور مدینہ میں علماء کے ساتھ آپ کے مناظرے آپ کے علوم کی وسعت پر دلالت کرتے ہیں۔ دنیا کے جن علماء کو مامون آپ کا امتحان لینے کے لیے جمع کرتا تھا، وہ ان سب سے زیادہ آپ (ع) پر یقین اور آپ کے فضل و شرف کا اقرار کرتے تھے، کسی علمی وفد نے امام (ع) سے ملاقات نہیں کی مگر یہ کہ اس نے آپ کے فضل کا اقرار کر لیا۔ مامون آپ کو لوگوں سے دور رکھنے پر مجبور ہو گیا کہ کہیں آپ کی وجہ سے لوگ اس سے بد ظن نہ ہو جائیں۔

التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی