2024 March 19
امامت، حضرت فاطمہ زہرا (س) کی نگاہ میں
مندرجات: ١٨١٤ تاریخ اشاعت: ١٥ July ٢٠١٩ - ١٨:٢٣ مشاہدات: 5559
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
امامت، حضرت فاطمہ زہرا (س) کی نگاہ میں

 

امامت، حضرت فاطمہ زہرا (س) کی نگاہ میں

امام اور مقام و منزلت امامت مکتب اہل بیت میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ امام کیونکہ تمام جہات سے رسول خدا (ص) کا جانشین اور نائب ہوتا ہے، اسی لیے وہ بھی خداوند کی طرف سے منصوب ہوتا ہے اور امام کا معصوم ہونا یہ شیعہ مکتب میں ضروريات عقلی میں سے ہے۔

امام رضا (ع) نے امامت کے بلند مرتبے کو واضح کرتے ہوئے فرمایا ہے:

إِنَّ الْإِمَامَةَ هِيَ مَنْزِلَةُ الْأَنْبِيَاءِ وَ إِرْثُ الْأَوْصِيَاءِ إِنَّ الْإِمَامَةَ خِلَافَةُ اللَّهِ وَ خِلَافَةُ الرَّسُولِ صلي الله عليه و آله وَ مَقَامُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام وَ مِيرَاثُ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ عليهما السلام إِنَّ الْإِمَامَةَ زِمَامُ الدِّينِ وَ نِظَامُ الْمُسْلِمِينَ وَ صَلَاحُ الدُّنْيَا وَ عِزُّ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ الْإِمَامَةَ أُسُّ الْإِسْلَامِ النَّامِي وَ فَرْعُهُ السَّامِي‏.

امامت وہی انبیاء والا مقام ہے اور اوصیاء کی میراث ہے۔ امامت، خلافت خداوند اور خلافت رسول خدا (ص) اور امیر المؤمنین علی (ع) کا مقام اور امام حسن (ع) و امام حسین (ع) کی میراث ہے۔ امامت دین اور مسلمین کا نظم ضبط ہے، امامت دنیا کی زندگی کی اصلاح اور مؤمنین کے لیے باعث عزت ہے۔ بے شک امامت اسلام کی پروان چڑھنے والی بنیاد اور اسکی بلند شاخ ہے۔

الكليني الرازي، محمد بن يعقوب بن إسحاق (المتوفى329 ق)، الأصول من الكافي، ج1، ص200، صححه وعلق عليه علي أكبر الغفاري، ناشر: دار الكتب الاسلامية ،

شیعہ متکلمین نے بھی صراحت سے بیان کیا ہے کہ امامت امور دینی میں ایک اصل اور اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔

جیسے شیعہ متکلم سيد مرتضی نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

الإمامة : رياسة عامة في الدين بالأصالة لا بالنيابة عمن هو في دار التكليف.

امامت امور دینی میں ایک عمومی ریاست (ذمہ داری) ہے کہ جو اسکی نیابت کے طور پر ہوتی ہے کہ جو دار تکلیف (یعنی اس دنیا) میں ہوتا ہے۔

المرتضي علم الهدي، علي بن الحسين بن موسي (متوفى436هـ)، رسائل المرتضى، ج2، ص264، ناشر: دار القرآن الكريم – قم، 1405هـ.

سيد مرتضی نے اسی طرح کتاب «الشافي» میں امور امامت کو دين و دنيا کے امور میں سے شمار کیا ہے:

الإمامة رئاسة عامة في أمور الدنيا والدين ، وقد أجمع المسلمون على وجوبها.

امامت دینی اور دنیوی امور میں ریاست و ذمہ داری ہے اور تمام مسلمین نے (معاشرے میں) لازمی طور پر اسکے ہونے پر اتفاق کیا ہے۔

الشريف المرتضى، علي بن الحسين الموسوي (المتوفي436هـ)، الشافي في الإمامة ، ج1، ص5، تحقيق و تعليق: السيد الحسيني الخطيب،

مرحوم علامہ حلی نے بھی لکھا ہے:

الإمام هو الإنسان الذي له الرياسة العامة في أمور الدين والدنيا بالأصالة في دار التكليف.

امام وہ شخص ہے کہ جسکے لیے اس دنیا میں اصلی و حقیقی طور پر امور دین و دنیا میں ریاست (حاکمیت) ہوتی ہے۔

الحلي، الحسن بن يوسف المطهر (المتوفي726هـ)، الألفين في إمامة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام، ص22، ناشر : مكتبة الألفين – الكويت،

مرحوم قاضی نور الله شوشتری نے بھی امامت کو دین و دنیا کے دائرہ کار میں شمار کرتے ہوئے لکھا ہے:

... مرتبة الإمامة فإنها رياسة عامة بحسب الدين والدنيا ومن البين أنها لا تحصل لشخص إلا بعد أن يكون آمنا من الزيادة والنقصان في أحكام الشرع وإلا لاختلت تلك الرياسة العامة وانتفت فائدة الإمامة كما لا يخفى على من له طبع سليم وعقل مستقيم.

مقام امامت وہی امور دین و دنیا میں عمومی ریاست و حاکمیت ہے اور واضح ہے کہ اس عظیم مرتبے پر وہ شخص فائز ہوتا ہے کہ جو شرعی احکام میں اپنی طرف سے کمی و اضافہ نہ کرتا ہو ورنہ یہ اس ریاست عمومی کا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور پھر امامت کا کوئی فائدہ نہیں رہے گا، جیسا کہ عقل سلیم رکھنے والے انسان پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے۔

التستري، السيد القاضي نور الله التستري الشهيد (المتوفي 1019 ه‍)، الصوارم المهرقة في جواب الصواعق المحرقة، ص51،

علمائے اہل سنت نے بھی مقام امام کو ایسے بیان کیا ہے:

الإمام: هو الذي له الرياسة العامة في الدين والدنيا جميعا.

امام وہی ہے کہ جسکے لیے تمام دینی اور دنیاوی امور میں عمومی حاکمیت و ریاست ہوتی ہے۔

الجرجاني، علي بن محمد بن علي (متوفاي 816 ق)، التعريفات، ص53، تحقيق : إبراهيم الأبياري دار النشر : دار الكتاب العربي – بيروت،

کیونکہ امام کا وظیفہ ہدایت بشر اور انسانیت کو اسکے اہداف کی منزل مقصود تک پہنچانا ہے، اسی لیے خلقت انسان کے آغاز سے ہی زمین پر امام کا وجود لازمی اور ضروری تھا۔ شیعہ روایات میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ابو حمزہ ثمالی نے امام باقر (ع) سے ایسے نقل کیا ہے:

وَ اللَّهِ مَا تَرَكَ اللَّهُ أَرْضاً مُنْذُ قَبَضَ آدَمَ عليه السلام إِلَّا وَ فِيهَا إِمَامٌ يُهْتَدَى بِهِ إِلَى اللَّهِ وَ هُوَ حُجَّتُهُ عَلَى عِبَادِهِ وَ لَا تَبْقَى الْأَرْضُ بِغَيْرِ إِمَامٍ حُجَّةٍ لِلَّهِ عَلَى عِبَادِهِ.

خدا کی قسم خداوند نے جب سے حضرت آدم کی روح کو قبض کیا ہے، اس وقت سے زمین کو خدا کی طرف ہدایت کرنے والے امام کے وجود سے خالی نہیں رکھا اور وہ امام لوگوں پر خدا کی طرف سے حجت ہے اور زمین امام کے وجود کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی، ایسا امام کہ جو بندوں پر خداوند کی حجت ہو۔

الكليني الرازي، محمد بن يعقوب بن إسحاق (المتوفى329 ق)، الأصول من الكافي، ج1، ص178-179، صححه وعلق عليه علي أكبر الغفاري، ناشر: دار الكتب الاسلامية،

اس تحریر میں حضرت فاطمہ زہرا (س) کے نورانی کلام کی روشنی میں ماہیت ، فوائد اور اہمیت امامت کو ذکر کیا جائے گا:

1. کلام حضرت زہرا (س) میں فلسفہ امامت:

روئے زمین پر وجود امام اور خلیفۃ اللہ کا وجود، یہ خداوند کے خاص لطف و کرم کا نتیجہ ہے اور امام امت اسلامی میں اتحاد و وحدت کی علامت ہے۔

صديقہ کبری حضرت زہرا (س) نے اپنے کلام میں وجود امام کے فلسفے کو امت میں تفرقہ سے محفوظ رہنے کا وسیلہ قرار دیا ہے:

وَ طَاعَتَنَا نِظَاماً لِلْمِلَّةِ وَ إِمَامَتَنَا لَمّاً لِلْفُرْقَة.

ہم اہل بیت کی اطاعت امت اسلامی میں نظم و ضبط کا باعث ہے اور ہماری امامت تفرقہ کو ختم کرنے کا باعث بنتی ہے۔

الطبري، ابي جعفر محمد بن جرير بن رستم (متوفي قرن پنجم)،‌ دلائل الامامة، ص113، تحقيق: قسم الدراسات الإسلامية ، ناشر: مركز الطباعة والنشر في مؤسسة البعثة، قم،

ایک دوسری روایت میں حضرت زہرا (س) نے فرمایا ہے:

وَ طَاعَتَنَا نِظَاماً لِلْمِلَّةِ وَ إِمَامَتَنَا أَمَاناً لِلْفُرْقَة.

ہم اہل بیت کی اطاعت امت اسلامی میں نظم و ضبط کا باعث ہے اور ہماری امامت تفرقہ سے محفوظ رہنے کا وسیلہ ہے۔

الطبرسي، أحمد بن علي بن أبي طالب (المتوفي 548ق)، الإحتجاج على أهل اللجاج، ج1، ص134، تحقيق: السيد محمد باقر الخرسان، ناشر : دار النعمان للطباعة والنشر - النجف الأشرف،

یہ روایت زیارت جامعہ کبیرہ کی عبارت کا مصداق ہے کہ جو زیارت امام ہادی النقی (ع) سے نقل ہوئی ہے۔ اس زیارت میں شیعہ مؤمن، اہل بیت کو خطاب کر کے عرض کرتا ہے:

وَ بِمُوَالاتِكُمْ تَمَّتِ الْكَلِمَةُ وَ عَظُمَتِ النِّعْمَةُ وَ ائْتَلَفَتِ الْفُرْقَة.

آپ آئمہ کی ولایت کی برکت سے کلمہ توحید کامل ہوا ہے اور نعمتوں کو عظمت ملی ہے اور تفرقہ، اتحاد و اتفاق امت میں تبدیل ہو گیا ہے۔

الصدوق، محمد بن علي بن الحسين بن بابويه (المتوفي381ق)، عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج2، ص309، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت – لبنان

اس وقت کے معاشرے میں بھی یہی سوچ پائی جاتی تھی اور حتی صحابہ کی بھی یہی رائے تھی کہ خلیفہ بر حق اور رسول خدا (ص) کے حقیقی و شرعی جانشین کے گرد جمع ہونا ہی معاشرے کے متحد ہونے کا ضامن ہے۔

ابوبکر کے خلیفہ ہونے کا دعوا کرنے کے بعد سلمان فارسی نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا:

ثُمَّ قَامَ سَلْمَانُ فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ اتَّقِ اللَّهَ وَ قُمْ عَنْ هَذَا الْمَجْلِسِ وَ دَعْهُ لِأَهْلِهِ يَأْكُلُوا بِهِ رَغَداً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا يَخْتَلِفْ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ سَيْفَانِ فَلَمْ يُجِبْهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَعَادَ سَلْمَانُ [فَقَالَ‏] مِثْلَهَا فَانْتَهَرَهُ عُمَرُ وَ قَالَ مَا لَكَ وَ لِهَذَا الْأَمْرِ وَ مَا يُدْخِلُكَ فِيمَا هَاهُنَا فَقَالَ مَهْلًا يَا عُمَرُ قُمْ يَا أَبَا بَكْرٍ عَنْ هَذَا الْمَجْلِسِ وَ دَعْهُ لِأَهْلِهِ يَأْكُلُوا بِهِ وَ اللَّهِ خُضْراً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ إِنْ أَبَيْتُمْ لَتَحْلُبُنَّ بِهِ دَماً وَ لَيَطْمَعَنَّ فِيهِ الطُّلَقَاءُ وَ الطُّرَدَاءُ وَ الْمُنَافِقُون‏.

پھر سلمان نے کھڑے ہو کر کہا: اے ابوبکر خدا سے ڈرو، اس منبر سے کھڑے ہو جاؤ اور اسکو اسکے اہل کے حوالے کر دو تا کہ لوگ قیامت تک اسکے ثمرات سے استفادہ کریں اور اس امت کے سر پر دو تلواریں آپس میں اختلاف نہ کریں۔ ابوبکر نے کوئی جواب نہ دیا۔ سلمان نے دوبارہ اسی بات کو تکرار کیا۔

عمر نے اسے (سلمان) دور کرتے ہوئے کہا: تمہارا اس مسئلے سے کیا تعلق ہے ؟ تم کیوں اپنے آپکو اس مسئلے میں داخل کرتے ہو ؟

سلمان نے کہا: اے عمر آرام سے تم کو کیا ہوا ہے ! اے ابوبکر جس جگہ (منبر رسول خدا) پر بیٹھے ہو یہاں سے اٹھ جاؤ اور اسکو اسکے اہل کے حوالے کر دو تا کہ لوگ قیامت تک اسکے ثمرات سے استفادہ کریں اور اگر تم نے میری بات کو قبول نہ کیا تو خون خرابہ ہو گا اور رسول خدا کے آزاد کردہ افراد (طلقاء)، مدینے سے رسول خدا کے نکالے ہوئے افراد اور منافقین بھی اس خلافت میں لالچ کرنے لگیں گے۔

الهلالي، سليم بن قيس (المتوفى80هـ)، كتاب سليم بن قيس الهلالي، ص388، تحقيق محمد باقر الأنصاري، ناشر : دليل ما،

اسی طرح احادیث کی شیعہ کتب میں متعدد روایات حضرت زہرا (س) سے نقل ہوئی ہیں کہ جن میں امامت کو امت کے اتحاد و وحدت کا مرکز و محور قرار دیا گیا ہے۔

مرحوم خزاز قمی نے روایت کو محمود ابن لبيد سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) کے جانشین کے بارے میں سوال کے ضمن میں حضرت زہرا (س) نے غدیر اور امیر المؤمنین علی (ع) کے وصی ہونے کے بارے میں، قسم کھاتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے اپنے والد گرامی سے سنا تھا کہ انکے بعد انکا خلیفہ امیر المؤمنین علی (ع) ہے اور پھر امام حسین (ع) کی نسل سے نو آئمہ ہوں گے اور انکی اطاعت سبب ہدایت اور انکی مخالفت سبب اختلاف تا قیامت ہو گی:

عن محمود بن لبيد قال : لما قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كانت فاطمة تأتي قبور الشهداء وتأتي قبر حمزة وتبكي هناك ، فلما كان في بعض الأيام أتيت قبر حمزة رضي الله عنه فوجدتها صلوات الله عليها تبكي هناك، فأمهلتها حتى سكت، فأتيتها وسلمت عليها وقلت: يا سيدة النسوان قد والله قطعت أنياط قلبي من بكائك . فقالت: يا ابا عمر يحق لي البكاء، ولقد أصبت بخير الآباء رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، واشوقاه إلى رسول الله، ثم أنشأت عليها السلام تقول: إذا مات يوما ميت قل ذكره * وذكر أبي مات والله أكثر.

قلت: يا سيدتي إني سائلك عن مسألة تلجلج في صدري. قالت: سل. قلت: هل نص رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قبل وفاته على علي بالإمامة ؟ قالت: واعجباه أنسيتم يوم غدير خم. قلت: قد كان ذلك، ولكن أخبريني بما أسر إليك. قالت: أشهد الله تعالى لقد سمعته يقول: علي خير من أخلفه فيكم، وهو الإمام والخليفة بعدي، وسبطي وتسعة من صلب الحسين أئمة أبرار، لئن اتبعتموهم وجدتموهم هادين مهديين، ولئن خالفتموهم ليكون الاختلاف فيكم إلى يوم القيامة.

محمود ابن لبيد کہتا ہے جب رسول خدا (ص) دنیا سے رخصت ہوئے تو حضرت فاطمہ ہمیشہ شہداء کی قبور اور حضرت حمزہ کی قبر پر آتی اور وہاں گریہ کیا کرتی تھیں۔

ایک دن میں حضرت حمزہ کی قبر پر آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ وہاں بیٹھی گریہ کر رہی ہیں۔ میں انکے پاس گیا، سلام کرنے کے بعد عرض کیا: اے عورتوں کی سردار بی بی، خدا کی قسم آپکا گریہ سن کر میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں۔

بی بی نے فرمایا: اے ابو عمر یہ میرا حق ہے کہ میں گریہ کروں کیونکہ میں اپنے بہترین والد گرامی سے جدا ہو گئی ہوں اور ان سے ملنے کی مشتاق ہوں۔۔۔۔۔

محمود کہتا ہے میں نے انکی خدمت میں عرض کیا: اے میری بی بی میرے دل میں کافی عرصے سے ایک سوال ہے۔ بی بی نے فرمایا: ہاں پوچھو، محمود نے کہا: کیا رسول خدا نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علی کی امامت کو صراحت سے بیان کیا تھا ؟

بی بی نے فرمایا: بہت عجیب بات ہے کیا تم نے غدیر خم کے دن کو بھولا دیا ہے ؟ محمود نے کہا: نہیں، لیکن جو راز آپکے پاس ہے، میں وہ سننا چاہتا ہوں۔

حضرت زہرا نے فرمایا: خداوند شاہد ہے میں نے رسول خدا کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ: میں نے بہترین شخص حضرت علی کو تمہارے لیے اپنا جانشین بنایا ہے اور وہ میرے بعد امام و جانشین ہے، میرے دو نواسے (امام حسن و امام حسین) اور امام حسین (ع) کی نسل سے نو فرزند آئمہ ہیں کہ اگر انکی اتباع و پیروی کرو گے تو انھیں ہدایت شدہ اور ہدایت کرنے والا پاؤ گے لیکن اگر انکی مخالفت کرو گے تو قیامت تک تم لوگوں میں اختلاف باقی رہے گا، پھر بی بی نے فرمایا:

مثل الإمام مثل الكعبة إذ تؤتى ولا يأتي ... ثم قالت : أما والله لو تركوا الحق على أهله واتبعوا عترة نبيه لما اختلف في الله تعالى اثنان ، ولورثها سلف عن سلف وخلف بعد خلف حتى يقوم قائمنا التاسع من ولد الحسين ، ولكن قدموا من أخره وأخروا من قدمه الله.

امام، کعبہ کی مانند ہے کہ اسکی طرف آیا جاتا ہے نہ کہ وہ کسی کی طرف آتا ہے۔۔۔۔۔ پھر فرمایا: خدا کی قسم اگر حقدار کو اسکا حق دے دیتے اور رسول خدا کے اہل بیت کی پیروی کرتے تو حتی دو افراد کا بھی آپس میں کوئی اختلاف نہ ہوتا اور اس حق کو آئمہ ارث میں لیتے رہتے یہاں تک کہ امام حسین کی نسل سے نواں فرزند قیام کرتا، لیکن انھوں نے آخری کو پہلے مقدم کیا اور خداوند نے جسے مقدم کیا تھا، اسے مؤخر کر دیا۔ (اسی لیے امت میں اب اختلاف ہے)۔

الخزاز القمي الرازي، علي بن محمد بن علي (متوفي400 ق)، كفاية الأثر في النص على الأئمة الاثني عشر، ص198-199، تحقيق: السيد عبد اللطيف الحسيني الكوه كمري الخوئي، ناشر: انتشارات ـ قم،

2- کلام حضرت زہرا (س) اور تعیین آئمہ (ع):

حضرت زہرا (س) نے اپنے کلام میں بیان کیا ہے کہ آئمہ کو خداوند کی طرف سے معیّن کیا گیا ہے۔

جیسے مرحوم خزاز قمی نے روایت کو سہل ابن سعيد انصاری سے اور اس نے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے ایسے نقل کیا ہے:

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: سَأَلْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه و آله عَنِ الْأَئِمَّةِ فَقَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ يَقُولُ لِعَلِيٍّ عليه السلام يَا عَلِيُّ أَنْتَ الْإِمَامُ وَ الْخَلِيفَةُ بَعْدِي وَ أَنْتَ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَإِذَا مَضَيْتَ فَابْنُكَ الْحَسَنُ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَإِذَا مَضَى الْحَسَنُ فَابْنُكَ الْحُسَيْنُ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَإِذَا مَضَى الْحُسَيْنُ فَابْنُكَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَإِذَا مَضَى عَلِيٌّ فَابْنُهُ مُحَمَّدٌ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَإِذَا مَضَى مُحَمَّدٌ فَابْنُهُ جَعْفَرٌ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَإِذَا مَضَى جَعْفَرٌ فَابْنُهُ مُوسَى أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَإِذَا مَضَى مُوسَى فَابْنُهُ عَلِيٌّ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَإِذَا مَضَى عَلِيٌّ فَابْنُهُ مُحَمَّدٌ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَإِذَا مَضَى مُحَمَّدٌ فَابْنُهُ عَلِيٌّ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَإِذَا مَضَى عَلِيٌّ فَابْنُهُ الْحَسَنُ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَإِذَا مَضَى الْحَسَنُ فَالْقَائِمُ الْمَهْدِيُّ أَوْلى‏ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَفْتَحُ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا فَهُمْ أَئِمَّةُ الْحَقِّ وَ أَلْسِنَةُ الصِّدْقِ مَنْصُورٌ مَنْ نَصَرَهُمْ مَخْذُولٌ مَنْ خَذَلَهُم‏.

سہل کہتا ہے میں نے حضرت فاطمہ بنت رسول خدا سے آئمہ کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا: رسول خدا ہمیشہ حضرت علی سے فرمایا کرتے تھے:

اس علی تم میرے بعد امام اور میرے جانشین ہو اور مؤمنین پر خود انکی نسبت زیادہ حق رکھتے ہو، جب تم دنیا سے جاؤ تو تمہارا بیٹا حسن مؤمنین پر خود انکی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے اور جب حسن دنیا سے چلا جائے تو تمہارا بیٹا حسین مؤمنین پر خود انکی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے، اور حسین دنیا سے چلا جائے تو تمہارا بیٹا علی ابن الحسین مؤمنین پر خود انکی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے، اور جب علی ابن الحسین دنیا سے چلا جائے تو اسکا بیٹا محمد مؤمنین پر خود انکی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے، اور جب محمد (ابن علی باقر) دنیا سے چلا جائے تو اسکا بیٹا جعفر مؤمنین پر خود انکی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے، اور جب جعفر دنیا سے چلا جائے تو اسکا بیٹا موسی مؤمنین پر خود انکی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے، اور جب موسی دنیا سے چلا جائے تو اسکا بیٹا علی مؤمنین پر خود انکی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے، اور جب علی دنیا سے چلا جائے تو اسکا بیٹا محمد مؤمنین پر خود انکی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے، اور جب محمد دنیا سے چلا جائے تو اسکا بیٹا علی مؤمنین پر خود انکی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے، اور جب علی دنیا سے چلا جائے تو اسکا بیٹا حسن مؤمنین پر خود انکی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے، اور جب حسن دنیا سے چلا جائے تو اسکا بیٹا قائم مہدی مؤمنین پر خود انکی نسبت زیادہ حق رکھتا ہے کہ خداوند اسکے ذریعے سے مشرق و مغرب اسلامی سر زمینوں کو فتح کرے گا، وہ آئمہ بر حق اور سچائی کی زبان ہیں، جو بھی انکی مدد کرے گا تو اسکی بھی مدد کی جائے گی اور جو بھی انکی مدد نہیں کرے گا تو اسکی بھی مدد نہیں کی جائے گی۔

الخزاز القمي الرازي، علي بن محمد بن علي (متوفي400 ق)، كفاية الأثر في النص على الأئمة الاثني عشر، ص195-196، ناشر: انتشارات ـ قم، 1401هـ

اسی طرح مرحوم کلينی نے کتاب اصول کافی میں سند معتبر کے ساتھ مفصل حديث تحت عنوان «حديث لوح» بيان کی ہے۔ حضرت زہرا (س) نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ امام کا انتخاب کرنا اور رسول خدا (ص) کا جانشین معیّن کرنا یہ خداوند کی طرف سے انجام پاتا ہے۔

الکافي، محمد بن يعقوب الکليني، ج1، ص527-528، ح3.

3۔ امامت حضرت علی (ع) در کلام حضرت زہرا (س):

حضرت زہرا (س) سے نقل شدہ بعض روایات صرف حضرت علی (ع) کی امامت و ولایت سے خاص ہیں۔ در اصل بی بی نے حضرت علی (ع) سے لوگوں کے نا مناسب رویے کے علل و اسباب کو بیان کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ:

ان حضرت کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں موجود بغض و کینہ انکی خلافت کے غصب ہونے کا باعث بنا ہے:

وَ مَا نَقَمُوا مِنْ أَبِي الْحَسَنِ نَقَمُوا وَ اللَّهِ مِنْهُ نَكِيرَ سَيْفِهِ وَ شِدَّةَ وَطْئِهِ وَ نَكَالَ وَقْعَتِهِ وَ تَنَمُّرَهُ فِي ذَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ اللَّهِ لَوْ تَكَافُّوا عَنْ زِمَامٍ نَبَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه و آله إِلَيْهِ لَاعْتَلَقَهُ وَ لَسَارَ بِهِمْ سَيْراً سُجُحا.

یہ کیسا انتقام تھا کہ جو ان لوگوں نے ابو الحسن (علی ع) سے لیا تھا ؟ خدا کی قسم اسکی شمشیر کے امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنے کا انتقام لیا گیا ہے، اسکا موت سے نہ ڈرنا، شدید جنگ کرنا اور خدا کے لیے غضب و غصہ کرنا تھا، خدا کی قسم رسول خدا نے جو چیز اس (علی ع) کے سپرد کی تھی، انھوں نے اسکی مدد نہیں کی کہ اگر وہ (علی ع) اس چیز (خلافت) کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے تو لوگوں کو بڑے آرام سے اسکی طرف لے کر جاتے۔

ابن عقدة الكوفي،‌ أحمد ابن محمد بن سعيد بن عبد الرحمن بن إبراهيم المعروف بابن عقدة الكوفي (متوفي333هـ)، فضائل أمير المؤمنين (ع)، ص62، تحقيق: تجميع عبد الرزاق محمد حسين فيض الدين.

اسی وجہ سے حضرت زہرا (س) نے حضرت علی (ع) کی امامت کے دلائل کو تفصیل سے ذکر کیا ہے تا کہ اس بارے میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔

1.حديث غدير:

حضرت زہرا (س) نے جس حدیث سے حضرت علی (ع) کی امامت و ولایت پر استدلال کیا ہے، وہ حدیث غدیر ہے۔ عمر کی سربراہی میں حکومت کے چمچوں کا حضرت زہرا (س) کے گھر پر حملہ کرنے کے بعد، بی بی نے دروازے کے پیچھے آ کر ان حملہ آوروں سے خطاب کرنے کے دوران، حدیث غدیر کی طرف اشارہ کیا اور اس حدیث سے موجودہ  غاصب حکومت کے باطل ہونے پر مہر ثبت کر دی:

وَ خَرَجَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه و آله إِلَيْهِمْ فَوَقَفَتْ خَلَفَ الْبَابِ ثُمَّ قَالَتْ لَا عَهْدَ لِي بِقَوْمٍ أَسْوَأَ مَحْضَراً مِنْكُمْ تَرَكْتُمْ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه و آله جَنَازَةً بَيْنَ أَيْدِينَا وَ قَطَعْتُمْ أَمْرَكُمْ فِيمَا بَيْنَكُمْ وَ لَمْ تُؤَمِّرُونَا وَ لَمْ تَرَوْا لَنَا حَقّاً كَأَنَّكُمْ لَمْ تَعْلَمُوا مَا قَالَ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ وَ اللَّهِ لَقَدْ عَقَدَ لَهُ يَوْمَئِذٍ الْوَلَاءَ لِيَقْطَعَ مِنْكُمْ بِذَلِكَ مِنْهَا الرَّجَاءَ وَ لَكِنَّكُمْ قَطَعْتُمُ الْأَسْبَابَ بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَ نَبِيِّكُم‏.

پھر حضرت فاطمہ بنت رسول خدا دروازے کے پیچھے آئیں اور فرمایا: کوئی قوم بھی تم لوگوں سے زیادہ بری نہیں ہے، رسول خدا کے جنازے کو ہمارے پاس چھوڑ کر تم لوگ اپنے کام (تعیین خلیفہ) میں مصروف ہو گئے ہو، تم لوگوں نے نہ ہم سے کوئی مشورہ کیا ہے اور نہ ہی ہمارے لیے کسی حق کے قائل ہوئے ہو، گویا تمہیں غدیر کے دن رسول خدا کے خطاب کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی، خدا کی قسم ان حضرت نے اسی دن امر ولایت کو ایسے مستحکم کر دیا تھا کہ کسی کے بھی ولایت میں لالچ کرنے اور امید رکھنے کی گنجائش کو ختم کر دیا تھا، لیکن تم کسی قسم کا کوئی خیال نہیں کیا اور اپنے پیغمبر سے اپنے ہر رابطے کو قطع کر لیا ہے۔

الطبرسي، أحمد بن علي بن أبي طالب (المتوفي 548ق)، الإحتجاج على أهل اللجاج، ص105، تحقيق : تعليق وملاحظات: السيد محمد باقر الخرسان، ناشر : دار النعمان للطباعة والنشر - النجف الأشرف،

اسی طرح شيخ صدوق نے بھی حضرت زہرا (س) کے حدیث غدیر کے ساتھ احتجاج کرنے کو بہت اہم قرار دیا ہے اور اس نے اشارہ کیا ہے کہ بی بی نے انصار کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے حدیث غدیر سے استدلال کیا تھا:

قال مصنف هذا الكتاب رضي الله عنه: إن يوم غدير خم لم يدع لاحد عذرا هكذا قالت سيدة النسوان فاطمة عليها السلام لما منعت فدك وخاطبت الأنصار ، فقالوا: يا بنت محمد لو سمعنا هذا الكلام منك قبل بيعتنا لأبي بكر ما عدلنا بعلي أحدا، فقالت: وهل ترك أبي يوم غدير خم لاحد عذرا.

اس کتاب کے مصنف نے کہا ہے: رسول خدا نے غدیر خم کے دن کسی کے لیے کوئی عذر و بہانہ نہیں چھوڑا اور حضرت زہرا کو جب فدک سے محروم کیا گیا تو جب بی بی نے اسی بات کو انصار کو بتایا تو انھوں نے کہا:

اے بنت رسول ! اگر ہم ان باتوں کو ابوبکر کی بیعت کرنے سے پہلے سنتے تو ہرگز علی سے منہ نہ موڑتے۔

اس پر بی بی نے فرمایا: کیا میرے والد نے غدیر خم کے دن کسی کے لیے کوئی بہانہ چھوڑا ہے ؟

الصدوق، محمد بن علي بن الحسين (المتوفى381ق)، الخصال، ج1، ص173، تحقيق، تصحيح وتعليق: علي أكبر الغفاري،‌ ناشر: منشورات جماعة المدرسين في الحوزة العلمية في قم المقدسة،

پہلے بھی اشارہ ہوا کہ حضرت زہرا (س) نے غدیر خم سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا:

واعجباه أنسيتم يوم غدير خم.

کتنی عجیب بات ہے کہ تم لوگوں نے غدیر کو بھولا دیا ہے۔

2.حديث ثقلين:

حديث ثقلين، اہل بیت کی امامت و ولایت کو ثابت کرنے کے لیے اہم ترین احادیث میں سے ہے۔ اس حدیث کا اہم ترین پیغام ، افضلیت اہل بیت اور امامت امير المؤمنين علی سلام الله عليہ ہے۔

قندوزی حنفی نے روایت کو نقل کیا ہے کہ حضرت زہرا (س) نے حدیث ثقلین کو بیان کیا ہے:

وأخرج ابن عقدة: من طريق عروة بن خارجة عن فاطمة الزهراء (رضي الله عنها) قالت: سمعت أبى صلى الله عليه واله وسلم في مرضه الذي قبض فيه يقول، وقد امتلات الحجرة من أصحابه: أيها الناس يوشك أن أقبض قبضا سريعا وفد قدمت إليكم القول معذرة اليكم، ألا وإني مخلف فيكم كتاب ربي (عزوجل) وعترتي أهل بيتي، ثم أخذ بيد علي فقال: هذا علي مع القرآن والقرآن مع علي لا يفترقان حتى يردا على الحوض فاسألكم ما تخلفوني فيهما.

ابن عقده نے عروة ابن خارجہ سے اور اس نے حضرت فاطمہ زہرا (س) سے نقل کیا ہے کہ بی بی نے فرمایا: رسول خدا مرض موت میں، اس حالت میں فرمایا کہ جب انکا حجرہ (کمرہ) اصحاب سے بھرا ہوا تھا:

اے لوگو ! میری موت کا وقت نزدیک ہے، میں تمہارے درمیان کتاب خدا قرآن اور اہل بیت کو چھوڑ کر جا رہا ہوں، پھر حضرت علی (ع) کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا:

یہ علی، قرآن کے ساتھ اور قرآن، علی کے ساتھ ہے، یہاں تک کہ ہر دو میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے اور میں تم لوگوں سے سوال کروں گا کہ تم نے کیسے ان دونوں سے منہ موڑا تھا۔  

القندوزي الحنفي، سليمان بن إبراهيم (متوفى1294هـ) ينابيع المودة لذوي القربى، ج1، ص125، تحقيق: سيد علي جمال أشرف الحسيني، ناشر: دار الأسوة للطباعة والنشرـ قم،

دوسری روايات جیسے: حديث منزلت، حديث اثنی عشر خليفۃ وغیرہ میں بھی حضرت زہرا س سے نقل ہوئی ہیں کہ فی الحال ہم انہی روایات کے ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔

نتيجہ:

مقام امامت کی اہمیت اور خاص طور پر مقام و منزلت امام ، وہ مہم ترین مفاہیم ہیں کہ جو حضرت زہرا (س) کے کلام میں ذکر کیے گئے ہیں اور واضح ہے کہ رسول خدا (ص) کی جانشینی ایک خاص اہمیت کی حامل ہے کہ جسے ان حضرت کے اہل بیت (ع) نے متعدد مقامات پر بیان کیا اور ان احادیث سے استدلال کیا ہے، حتی جب عمر نے ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا تو اسی کے حکم پر عمر نے جب حضرت زہرا (س) کے گھر پر حملہ کیا تو بی بی ان حملہ آوروں کے سامنے بھی امیر المؤمنین علی (ع) کے حق خلافت پر استدلال کیا تھا۔

اسی طرح حضرت زہرا (س) کے نورانی کلام میں ذکر ہوا کہ اہل بیت (ع) اور انکی امامت، امت اسلامی میں وحدت و اتحاد کی علامت و ضامن ہے اور انہی اہل بیت کی اطاعت سے ہی امت کو تفرقے اور اختلافات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی