2024 March 19
امام علی (ع) اور حكومت کا قبول کرنا
مندرجات: ١٨٠٩ تاریخ اشاعت: ١٠ June ٢٠١٩ - ١٩:٠٦ مشاہدات: 5851
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
امام علی (ع) اور حكومت کا قبول کرنا

 

امیر المؤمنین علی (ع) کے اس خطبے میں موجود سوالات کے جوابات دیں تا کہ شبہات ختم ہو سکیں۔

امير المؤمنين علی (ع) نے کتاب نہج البلاغہ کے خطبہ 91 میں فرمایا ہے:

دَعُونِي وَ الْتمِسُوا غَيْرِي فَإِنَّا مُسْتَقْبِلُونَ أَمْراً لَهُ وُجُوهٌ وَ أَلْوَانٌ لَا تَقُومُ لَهُ الْقُلُوبُ وَ لَا تَثْبُتُ عَلَيْهِ الْعُقُولُ وَ إِنَّ الْ آفَاقَ قَدْ أَغَامَتْ وَ الْمحَجَّةَ قَدْ تَنَكَّرَتْ. وَ اعْلَمُوا أَنِّي إِنْ أَجَبْتُكُمْ رَكِبْتُ بِكُمْ مَا أَعْلَمُ وَ لَمْ أُصْغِ إِلَي قَوْلِ الْقَائِلِ وَ عَتْبِ الْعَاتِبِ وَ إِنْ تَرَكْتُمُونِي فَأَنَا كَأَحَدِكُمْ وَ لَعَلِّي أَسْمَعُكُمْ وَ أَطْوَعُكُمْ لِمَنْ وَلَّيْتُمُوهُ أَمْرَكُمْ وَ أَنَا لَكُمْ وَزِيراً خَيْرٌ لَكُمْ مِنِّي أَمِيراً. 

سوال 1:

اگر امامت اصول دين میں سے ہے، اگر علی (ع) انبیاء کی طرح خداوند کی طرف سے انتخاب شدہ ہیں، اگر آیت تبلیغ، آيت تطہير، حديث غدير اور حديث منزلت وغیرہ کے مطابق متعدد مرتبہ رسول خدا (ص) کے جانشین کے طور پر نصب ہوئے ہیں تو پھر کیوں وہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے چھوڑو جاؤ کسی دوسرے کو اپنا خلیفہ بناؤ ؟

سوال 2:

کیا یہ اسکا انداز کلام ہے کہ جو خداوند کی طرف سے انتخاب ہوا ہے ؟ اگر وہ واقعا رسول خدا (ص) کی طرف سے معیّن ہوئے تھے تو پھر ان شرائط کو رکھنے کا کیا معنی ہے ؟ کیا کبھی کسی نے سنا ہے کہ خدا کی طرف سے ایک نبی آیا ہو اور وہ کہے کہ ابھی حالات مناسب نہیں ہیں لہذا مجھے ان کاموں سے معاف کرو «دعوني و التمسوا غيري» اور کہے کہ اگر تم اتنا اصرار کر رہے ہو تو میں بھی اس شرط کے ساتھ قبول کروں گا کہ جیسے میں خود چاہوں گا، ویسے امت اسلامی پر حکومت کروں گا ؟

سوال 3

وہ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے اس کام سے معاف کر دو تو میں بھی تمہاری طرح عوام میں شمار ہوں گا، کیسے ؟ یعنی جسکا وظیفہ انبیاء سے بھی مہم تر ہو وہ اس حد تک وظیفے سے فرار کرے کہ اپنے آپکو عام عوام کی طرح شمار کرے بلکہ یہ بھی فرمائے کہ: جسکو تم لوگ حکومت دو شاید میں تم لوگوں کی نسبت کا زیادہ مطیع اور فرمانبردار ہوں گا۔

سوال 4:

حضرت علی (ع) نے فرمایا:

لِمَنْ وَلَّيْتُمُوهُ أَمْرَكُمْ،

جسکے حوالے تم اپنی حکومت کرو گے،

کیوں فرمایا: اپنی حکومت کو ؟ کیا کسی کو حکومت دینا لوگوں کے اختیار میں ہے کہ جسے چاہیں دے دیں ؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ خداوند امام اور خلیفہ کو معیّن کرتا ہے اور لوگوں کو اس میں دخالت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ؟ کیا تم لوگ نہیں کہتے کہ شورا خلیفہ کا انتخاب نہیں کر سکتی ؟ کیا انھوں نے اہل شورا کو غاصب نہیں کہا ؟ پس کیسے حضرت علی (ع) فرما رہے ہیں: تم جسکو بھی اپنی حکومت دے دو گے، میں بھی اسکی اطاعت کروں گا،

«وليتموه» کا لفظ استعمال کیا کیوں نہ کہا: «ولاه الله» ؟ جسکو بھی خدا معیّن کرے گا میں اسی کی اطاعت کروں گا ؟

سوال 5:

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں:

وَ أَنَا لَكُمْ وَزِيراً خَيْرٌ لَكُمْ مِنِّي أَمِيراً،

میرے تم پر امیر و حاکم بننے سے بہتر ہے کہ میں تمہارا وزیر رہوں،

یہ کیسے ہے ؟ مگر جسکو خدا نے معیّن کیا ہے، جسکو رسول خدا (ص) نے نصب کیا ہے، جسکی امامت پر بے شمار آیات و روایات دلالت کرتی ہوں، اسکا دائرہ اختیار کتنا ہے کہ اپنی مرضی سے منصب الہی کو قبول نہ کرے اور سخاوت سے کام لیتے ہوئے کہے کہ اصرار نہ کرو میں حاکم نہیں بنتا میں وزیر اور مشاور ہی ٹھیک ہوں، اگر وہ خدا کی طرف سے انتخاب ہوئے تھے تو انکا کہنا کہ میرا وزیر بننا، میرے حاکم بننے سے بہتر ہے تو پھر عہدے کا چناؤ کرنا کس کے اختیار میں ہے ؟

یہ خداوند ہی ہے کہ جو معیّن کرتا ہے کہ کون امام بہتر ہے اور کون سا وزیر ؟ اب قبول بھی کر لیں کہ حضرت علی معصوم تھے، کیا معصوم اپنی رائے سے حکم خدا کو تبدیل کر سکتا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو اس بات پر دلیل کیا ہے ؟  

امام علی (ع) اور حكومت کا قبول کرنا:

مندرجہ بالا سوالات کے جواب میں کہنا چاہیے کہ:

اولاً: حضرت علی (ع) نے یہ خطبہ اس وقت ارشاد فرمایا تھا کہ جب امت اسلامی میں آشوب و فتنے شروع ہو چکے تھے اور خلفاء کی ایجاد کردہ بدعتوں کی وجہ سے لوگ اسلام واقعی سے دور اور سنت حقیقی کو بالکل بھولا چکے تھے۔

امام شافعی نے كتاب الام میں وہب ابن كيسان سے نقل کیا ہے کہ:

كلّ سنن رسول الله قد غيّرت حتي الصلاة،

نماز سمیت رسول خدا کی ہر سنت کو تبدیل کر دیا گیا تھا۔

كتاب الام: ج 1 ص 208 

ابن سعد نے کتاب طبقات میں ذکر کیا ہے:

عن الزهري قال: دخلت علي أنس ابن مالك بدمشق و هو وحده يبكي، فقلت: ما يبكيك؟ قال: لا أعرف شيئا مما أدركت ، إلا هذه الصلاة وقد ضيّعت،

زہری کہتا ہے کہ میں انس ابن مالک کے پاس گیا، میں نے دیکھا کہ وہ اکیلا بیٹھا رو رہا ہے، میں نے اس سے پوچھا: کیوں رو رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا: مجھے کوئی چیز بھی رسول خدا کے زمانے کے مطابق نظر نہیں آ رہی، ایک نماز تھی اسکو بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔

صحيح الترمذي: ج 3 ص 302

وجامع بيان العلم: ج 2 ص 244

والزهد والرقائق: ص 531

وضحي الإسلام: ج 1 ص 365 

امام مالک نے كتاب الموطأ میں اپنے جدّ سے نقل کیا ہے:

ما أعرف شيئاً ممّا أدركت الناس إلا النداء بالصلاة،

نماز کے علاوہ کوئی شے اپنی اصلی حالت میں نہیں ہے۔

الموطأ، ج 1 ص 93 وشرحه ج 1 ص 122 

اور اسکے علاوہ بہت سے موارد ایسے ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خلفاء کی اسلام حقیقی سے عدم آگاہی اور خلاف سنت اعمال انجام دینے کی وجہ سے، حقیقی اسلام اور شرعی احکام لوگوں کے درمیان سے ختم ہو چکے تھے۔

اور حتی نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ جب 25 سال بعد حضرت علی (ع) نے خلیفہ بننے کے بعد نماز با جماعت پڑھائی تو لوگوں اور بوڑھے اصحاب نے کہا:

علی کی نماز نے آج ہمیں رسول خدا کی نماز کی یاد دلا دی ہے۔

كما روي مسلم بإسناده عن مطرف قال: صلّيت أنا وعمران بن حصين خلف علي بن أبي طالب فكان إذا سجد كبر، وإذا نهض من الركعتين كبر، فلما انصرفنا من الصلاة قال: أخذ عمران بيدي، ثم قال: لقد صلي بنا هذا صلاة محمد صلي الله عليه وسلم، أو قال: قد ذكرني هذا صلاة محمّد صلي الله عليه وسلم،

مطرف سے نقل ہوا ہے کہ کہتا ہے کہ میں اور عمران ابن حصین نے علی کے پیچھے نماز پڑھی، وہ (علی) جب سجدہ کرتا تھا تو تکبیر کہتا تھا، اور جب وہ دو رکعت کے بعد قیام کے لیے کھڑا ہوتا تھا تو بھی تکبیر کہتا تھا، جب ہم نماز سے فارغ ہو گئے تو عمران نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: ہم نے بالکل یہی نماز رسول خدا کے ساتھ بھی پڑھی تھی،

یا اس نے کہا: اس (علی) نے ہمیں رسول خدا کی نماز کی یاد دلا دی ہے۔

صحيح مسلم: ج 2 ص 8 ، (1 / 169) باب إثبات التكبير من كتاب الصلاة 

روي البخاري، عن عمران بن حصين قال: صلّي مع علي بالبصرة فقال: ذكرنا هذا الرجل صلاة كنّا نصليها مع رسول اللّه صلي الله عليه وسلم. 

عمران ابن حصین سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا ہم نے بصرہ میں علی کے ساتھ نماز پڑھی تو اس مرد (علی) نے ہمیں رسول خدا کے ساتھ پڑھنے والی نماز کی یاد دلا دی ہے۔

صحيح البخاري: ج 1 ص 200، باب إتمام التكبير في الركوع من كتاب الآذان 

و في رواية اخري عن مطرف بن عبد اللّه، قال: صليت خلف علي بن أبي طالب أنا وعمران بن حصين فكان إذا سجد كبر، وإذا رفع رأسه كبر، وإذا نهض من الركعتين كبر، فلما قضي الصلوات أخذ بيدي عمران بن حصين فقال: لقد ذكرني هذا صلاة محمّد صلي الله عليه وسلم، أو قال: لقد صلّي بنا صلواة محمّد صلي الله عليه وسلم. 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صحيح البخاري: ج 1 ص 191، باب إتمام التكبير في السجود 

ثانياً:

عثمان کی خلافت کے دور میں بنی امیہ کے کچھ والیوں کو ناجائز طور پر بیت المال کو استعمال کرنے کی عادت پڑ گئی تھی اور انکو امید تھی کہ علی (ع) کی خلافت میں بھی ایسے ہی ہو گا۔ حضرت علی (ع) بھی ساری صورتحال کو دیکھ رہے تھے، اسی لیے انھوں نے بیعت کرنے کے لیے آنے والے لوگوں سے کہا:

اگر تم خیال کرتے ہو کہ میری حکومت بھی گذشتہ خلفاء کی طرح ہو گی کہ جس میں قرآن و سنت کی خلاف ورزی کی جائے گی وغیرہ وغیرہ تو ایسی حکومت میں ہرگز قبول نہیں کروں گا، جیسا کہ:

وخلا (عبد الرحمن بن عوف) بعلي بن أبي طالب، فقال: لنا اللّه عليك، إن وليّت هذا الأمر، أن تسير فينا بكتاب اللّه، وسنّة نبيّه، وسيرة أبي بكر وعمر. فقال: أسير فيكم بكتاب اللّه، وسنّة نبيّه ما استطعت. فخلا بعثمان فقال له: لنا اللّه عليك، إن وليّت هذا الأمر، أن تسير فينا بكتاب اللّه، وسنّة نبيّه، وسيرة أبي بكر وعمر. فقال: لكم أن أسير فيكم بكتاب اللّه، وسنة نبيه، وسيرة أبي بكر وعمر. 

عمر کی ہلاکت کے بعد چھ افراد پر مشتمل شورا میں جب عبد الرحمن ابن عوف نے علی (ع) کو مشورہ دیا کہ اگر تم حکومت کرنے میں شیخین (ابوبکر و عمر) کی سیرت پر عمل کرنے کا وعدہ دیتے ہو تو ہم سب تمہاری بیعت کر کے تمہیں عمر کے بعد خلیفہ بنا دیتے ہیں، لیکن علی (ع) نے اسکی اس بات کو قبول نہ کیا اور کہا میں کتاب خدا اور سنت رسول پر عمل کر کے حکومت کروں گا،

پھر عبد الرحمن نے اسی بات کو عثمان سے کہا تو اس نے فورا مان لیا اور کہا کہ میں قرآن، سنت رسول اور شیخین (ابوبکر و عمر) کی سیرت پر عمل کروں گا۔ اسی سے وجہ سے وہ عمر کے بعد خلیفہ بنا دیا گیا تھا۔

تاريخ اليعقوبي ج 2 ص 162،

شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد ج 1 ص 188، ج 9 ص 53، ج 10 ص 245 زج 12 ص 263،

الفصول في الأصول از جصّاص، ج 4 ص 55،

أسد الغابة ج 4 ص 32،

السقيفة وفدك از جوهري ص 86،

تاريخ المدينة از ابن شبة النميري ج 3 ص 930،

تاريخ الطبري ج 3 ص 297،

تاريخ ابن خلدون ، ابن خلدون ج 2 ص 126. 

نوٹ:

 تاریخ گواہ ہے اور محققین نے بھی لکھا ہے کہ عثمان نے خلافت حاصل کرنے کے لیے سفید جھوٹ بولا تھا، اس لیے کہ اس نے نہ قرآن پر نہ سنت رسول خدا (ع) پر اور حتی نہ ہی ابوبکر و عمر کی سیرت پر عمل کیا تھا۔ اسی وجہ سے تو صحابہ نے غصے سے اسے قتل کر دیا تھا۔

احمد ابن حنبل نے بھی اسی بارے میں لکھا ہے کہ:

عن عاصم، عن أبي وائل، قال: قلت: لعبد الرحمن بن عوف كيف بايعتم عثمان وتركتم عليا رضي اللّه عنه، قال: ما ذنبي قد بدأت بعلي فقلت أبايعك علي كتاب اللّه، وسنة رسوله، وسيرة أبي بكر وعمر رضي اللّه عنهما، قال: فقال: فيما استطعت، قال: ثم عرضتها علي عثمان رضي اللّه عنه فقبلها، 

اور عاص ابن وائل کہتا ہے میں نے عبد الرحمن سے کہا: علی جیسی شخصیت ہونے کے باوجود تم نے کیسے عثمان کی بیعت کر لی ہے ؟ اس نے جواب دیا:

 اس میں میرا کیا قصور ہے میں نے تین مرتبہ علی کو مشورہ دیا کہ خلافت کو کتاب خدا، سنت رسول خدا اور سیرت شیخین پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ قبول کر لے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ جب عثمان نے میرے مشورے کو مان لیا تو ہم نے اسکی بیعت کر کے اسے خلیفہ بنا دیا ہے۔

مسند أحمد بن حنبل ج 1 ص 75،

فتح الباري ج 13 ص 170 

اور جس خطبے کو تم نے ذکر کیا ہے اسی میں حضرت علی (ع) نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

فَإِنَّا مُسْتَقْبِلُونَ أَمْراً لَهُ وُجُوهٌ وَ أَلْوَانٌ لَا تَقُومُ لَهُ الْقُلُوبُ وَ لَا تَثْبُتُ عَلَيْهِ الْعُقُولُ وَ إِنَّ الْآفَاقَ قَدْ أَغَامَتْ وَ الْمحَجَّةَ قَدْ تَنَكَّرَتْ،

کیونکہ ہمارا سامنا ایسی چیز سے ہے کہ جسکے کئی چہرے اور کئی رنگ ہیں، وہ ایسی چیز ہے کہ دل اس پر محکم اور عقل اس پر ثابت قدم نہیں رہتی، حقیقت کے آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے ہیں اور صراط مستقیم تبدیل اور غیر مشہور ہو گیا ہے۔

پس واضح ہوا کہ حضرت علی (ع) جو کہہ رہے ہیں کہ مجھے چھوڑو اور کسی دوسرے کو اپنا خلیفہ بناؤ تو انکی اس بات سے یہ مراد ہے کہ:

اگر تم گذشتہ خلفاء کے زمانے کی طرح قرآن و سنت سے دور رہ کر اور کھلی آزادی کی زندگی گزارنا چاہتے ہو تو ایسے حالات کے پیش نظر میں تمہارا خلیفہ نہیں بنوں گا لہذا تم جاؤ اور کسی دوسرے کو اپنا خلیفہ بنا لو کیونکہ ایسی حکومت کو نہ صرف یہ کہ یہ آیت:

وما كان لمؤمن ولا مؤمنة إذا قضي اللّه ورسوله امراً...

شامل نہیں ہوتی بلکہ ایسی حکومت خداوند کے فرمان کے بھی خلاف ہے، جیسا کہ خداوند نے حضرت داود سے فرمایا:

يا داود إنّا جعلناك خليفة في الأرض فاحكم بين الناس بالحق،

سوره ص: 26 

اور حاكم اسلامی اس وقت معاشرے میں حق و عدالت قائم کر سکتا ہے کہ جب عوام حق و عدالت کو قبول کرنے والے ہوں اور اگرچہ وہ حاکم خداوند کی طرف سے بنایا گیا ہو اور وہ معاشرے میں حق و عدالت کو برپا کرنے پر قادر نہ ہو تو اس پر حکومت کو قائم کرنا یا حکومت کو قبول کرنا واجب نہیں ہوتا، جیسا کہ رسول خدا (ص) کچھ عرصہ مکہ میں تھے لیکن وہاں انھوں نے اسلامی حکومت کو قائم نہیں کیا تھا، لیکن مدینہ میں ہجرت کے بعد اور لوگوں کے ساتھ دینے کیوجہ سے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھ دی۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ موضوع امامت اور مسئلہ حکومت دو الگ الگ چیزیں ہیں کیونکہ امامت ایک منصب الہی ہے لیکن حکومت، امامت کے ما تحت شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے، پس خداوند جسکو بھی اس عظیم مرتبے پر فائز فرمائے، وہ امام ہوتا ہے، لوگ اسکو چاہیں یا نہ چاہیں، لوگ اسکی حمایت کریں یا نہ کریں۔

خداوند نے حضرت ابراہیم (ع) کے بارے میں فرمایا ہے:

إنّي جاعلك للنّاس إماماً،

میں نے تم کو لوگوں کا امام قرار دیا ہے۔

سوره بقره آیت 124 

اور حضرت داود (ع) کے بارے میں فرمایا ہے:

يا داود إنّا جعلناك خليفة في الأرض فاحكم بين الناس بالحق،

اے داود ہم نے آپکو زمین پر جانشین قرار دیا ہے پس آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں۔

سورہ ص آیت 26 

حضرت موسی (ع) نے خداوند سے چاہا کہ انکے بعد انکے جانشین کو معیّن کرے:

واجعل لي وزيراً من أهلي،

ہارون کو میرا وزیر قرار دیں۔

سورہ طہ آیت 29 

خداوند نے بھی حضرت موسی (ع) کی دعا کے جواب میں فرمایا:

قال قد أوتيت سؤلك يا موسي،

خداوند نے فرمایا ہم نے آپکی دعا مستجاب کر دی ہے۔

سورہ طہ آیت 36 

اور خداوند نے بنی اسرائیل کے بارے میں بھی فرمایا ہے:

وجعلنا منهم أئمّة يهدون بأمرنا،

ہم نے بنی اسرائیل میں سے کچھ افراد کو امام و راہبر قرار دیا ہے۔

سورہ السجدة آیت 24 

پس ان تمام آیات میں خداوند نے خلیفہ کے انتخاب کرنے کو اپنی طرف نسبت دی ہے۔

اور اسی طرح اہل سنت کے بزرگ علماء جیسے ابن ہشام ، ابن كثير ، ابن حبّان وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ جب رسول خدا (ص) نے عرب کے قبائل کو اسلام کی دعوت دی تو عرب کی بزرگ شخصیت جیسے بنی عامر ابن صعصعہ نے ان حضرت سے کہا:

أيكون لنا الأمر من بعدك ؟

اگر ہم نے تمہاری مدد کی اور تمہاری حکومت قائم ہو جائے تو کیا تمہارے بعد جانشینی ہماری ہو گی ؟

رسول خدا نے جواب دیا: اپنے بعد جانشین کا تعیّن کرنا یہ میرے بھی اختیار میں نہیں ہے بلکہ:

الأمر إلي اللّه يضعه حيث يشاء،

یہ خداوند کے اختیار میں ہے کہ جیسے چاہے انتخاب کرے۔

اس عرب نے کہا:

فقالوا: أنهدف نحورنا للعرب دونك، فإذا ظهرت كان الأمر في غيرنا؟ لا حاجة لنا في هذا من أمرك،

ہم اپنے آپکو تمہارے اہداف کے لیے قربان نہیں کر سکتے کہ اسلام کے غلبے کے بعد ریاست کا عہدہ کسی دوسرے کو ملے اور ہمیں کوئی عہدہ بھی نہ ملے۔

الثقات لابن حبان ج 1 ص 89،

البداية والنهاية لابن كثير ج 3 ص 171 

اور اسی طرح کا ایک واقعہ قشیر ابن کعب ابن ربیعہ کے ساتھ بھی ہوا تھا کہ جب اس نے بھی رسول خدا (ص) سے کہا:

اگر تمہاری حکومت و ریاست اسلامی سے ہمیں کوئی حصہ نہ ملے تو ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔

سيرة ابن هشام ج 2 ص 289،

السيرة النبوية لابن كثير ج 2 ص 157،

مع المصطفي للدكتورة بنت الشاطئ ص 161. 

رسول گرامی (ص) اتنے برے حالات میں، کہ جب انکو اسلام اور مسلمین کے لیے مدد کی ضرورت تھی، بھی وہ راضی نہ ہوئے کہ کسی کو اپنی جانشینی کا وعدہ دے کر انکے قبائل کی حمایت و مدد حاصل کریں۔

اور حکومت قائم کرنے کی شرائط فراہم ہوں یا نہ ہوں:

الحسن والحسين إمامان قاما أو قعدا،

حسن و حسین (ع) پھر بھی امام ہیں۔۔۔۔

ابن شہرآشوب نے کہا ہے:

واجتمع أهل القبلة علي أنّ الرسول قال: الحسن والحسين إمامان، قاما أو قعدا.

المناقب: ج 3 ص 163،

بحار الانوار ج 43 ص 291 

لیکن جب تک معاشرہ حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو اور حکومت قائم کرنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہوں تو حاکم اسلامی کے لیے حکومت کو تشکیل دینا واجب نہیں ہے، لیکن جونہی موانع برطرف ہو جائیں اور حکومت قائم کرنے کے لیے حالات سازگار ہو جائیں تو حکومت اسلامی کو تشکیل دیا جائے گا۔  

واضح ہے کہ لوگوں کا بیعت کرنا یہ حکومت قائم کرنے کی راہ میں حائل موانع کو برطرف کرتا ہے، نہ یہ کہ یہ بیعت حاکم اسلامی کی حکومت کو شرعی حیثیت عطا کرتی ہے۔

رسول خدا (ص) کے بعد حتی تین خلفاء کے دور میں خداوند کے حکم سے رسول خدا کی طرف سے منصوب امام و خلیفہ علی (ع) ہی تھے اور اگر علی (ع) خلفاء کے زمانے میں اسلام کی نجات اور سر بلندی خاطر کوئی کام انجام دیتے ہیں تو وہ خلفاء کی مدد اور ان سے تعاون کرنا شمار نہیں ہو گا بلکہ اپنے دینی اور اخلاقی وظیفے پر عمل کرنا شمار ہو گا یا فاسد کام کے ساتھ افسد چیز کو دفع کرنے کے عنوان سے خلفاء کی مدد کرنا شمار ہو گا۔ خود حضرت امیر (ع) نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے:

فنهضت في تلك الأحداث حتي زاح الباطل وزهق، واطمأنّ الدين وتنَهْنَه،

نهج البلاغة (صبحي الصالح) الكتاب ص 451،

شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد: ج 6 ص 95 ،

الامامة والسياسة: ج 1 ص 175 

بعض علماء نے غلطی سے یہ خیال کیا ہے کہ امامت اور حکومت ایک ہی چیز ہیں حالانکہ حکومت کرنا، امامت کے دائرہ کار میں سے شمار ہوتا ہے، جیسا کہ لوگوں کی ہدایت کرنا، حفظ دین و شریعت، خداوند اور لوگوں کے درمیان فیض کا واسطہ ہونا اور معاشرے میں عدالت کا قائم کرنا وغیرہ بھی امامت کے دائرہ کار میں شمار ہوتے ہیں۔

خلفاء کی خلافت کے زمانے میں عدالت کو قائم کرنے کے علاوہ باقی تمام امور امیر المؤمنین علی (ع) سے مربوط تھے، لیکن معاشرے میں عدالت کو قائم کرنا حکومت کے سائے تلے اور عوام کے چاہنے سے مشروط ہوتا ہے کہ ان حضرت کے لیے یہ ظاہری حکومت، عثمان کے قتل ہونے کے بعد فراہم ہوئی، لیکن بد قسمتی سے عائشہ اور معاویہ وغیرہ نے حتی ان حضرت کو حکومت ملنے کے بعد بھی معاشرے میں عدالتی نظام صحیح معنوں میں قائم نہیں کرنے دیا۔

سوال دوم کے بارے میں یہ کہ:

أوّلاً: حضرت علی (ع) کا مقصود یہ ہے کہ: اگر میں نے حکومت کو قبول کر لیا تو میں قرآن و سنت کے مطابق تم لوگوں پر حکومت کروں گا نہ کہ تمہاری مرضی کے مطابق اور اسی شرط کو ان حضرت نے عمر کی چھ افراد پر مشتمل شورا میں بھی بیان کیا تھا۔

و ثانياً: قرآن نے بہت واضح طور پر کہا ہے: حاکم اسلامی خداوند کو دستورات کے مطابق حکم دینا چاہیے نہ لوگوں کی مرضی کے مطابق:

لتحكم بين الناس بما أراك اللّه، ومن لم يحكم بما أنزل اللّه فأولئك هم الكافرون الفاسقون الظالمون،

و ثالثاً: کیا حضرت موسی (ع) لوگوں کی مرضی کے مطابق حکومت کرتے تھے، اگر ایسا تھا تو، گوسالہ پرستی اور بہت سے دوسرے غلط کام کہ جنکو لوگ پسند کرتے تھے، کی مخالفت نہ کرتے۔

و رابعاً: ہر حاکم اسلامی یا غیر اسلامی اگر لوگوں کی خواہشات کے مطابق حکومت کرے گا تو معاشرے کا نظام درہم برہم ہو جائے گا، کیونکہ تمام لوگوں کی خواہشات ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں اور حاکم کس کس کی مانے گا اور کس کس کو خوش رکھے گا۔

یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ علی (ع) نے کچھ ناصر و مددگار ہونے کے باوجود کیوں سکوت کیا ؟

جواب: اگر آپ کتاب نہج البلاغہ اور حتی اہل سنت کی بعض کتب کا مطالعہ کرتے تو کبھی ایسا سوال نہ کرتے، کیونکہ حضرت علی (ع) نے واضح طور پر نہج البلاغہ میں فرمایا ہے:

اللهمّ إني أستعديك علي قريش فإنهم قد قطعوا رحمي، وأكفأوا إنائي ، وأجمعوا علي منازعتي حقا كنت أولي به من غيري ، وقالوا: ألا إن في الحق أن تأخذه وفي الحق أن تمنعه، فاصبر مغموما أو مت متأسفا ، فنظرت فإذا ليس لي رافد ولا ذاب ولا مساعد إلا أهل بيتي، فضننت بهم عن المنية فأغضيت علي القذي ، وجرعت ريقي علي الشجي، وصبرت من كظم الغيظ علي أمر من العلقم، وآلم للقلب من حز الشفار،

نهج البلاغة لمحمد عبده: ج 2 ص 202، الخطبة 217 

اور اس خطبے کو ابن ابی الحديد معتزلی نے کتاب شرح نہج البلاغہ میں ج 6 ص 95 و ج 11 ص 109 میں ذکر کیا ہے اور اسی طرح ابن قتيبہ دينوری نے بھی کتاب الإمامة والسياسة کی ج 1 ص 134 میں تھوڑے فرق کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

اور ایک دوسرے مقام پر ان حضرت نے فرمایا ہے:

وأيم الله لولا مخافة الفرقة بين المسلمين ، وأن يعود الكفر ، ويبور الدين ، لكنا علي غير ما كنا لهم عليه....

خدا کی قسم اگر نئی قائم ہونے والی امت اسلامی میں تفرقہ ایجاد ہونے کا خوف نہ ہوتا تو تم دیکھتے کہ حالات کچھ اور ہوتے۔

شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد ج 1 ص 307.

اور اسی طرح صراحت سے فرمایا: میں نے ابوبکر اور عمر کی نسبت خلافت کے لیے مناسب ہونے کے باوجود دیکھا کہ اگر چپ نہ رہوں اور اطاعت نہ کروں تو لوگ اختلاف کا شکار ہو کر کفر کی طرف واپس پلٹ جاتے اور امت اسلامی میں داخلی جنگیں شروع ہو جاتیں۔

قال عامر بن واثلة: (كنت علي الباب يوم الشوري ، فارتفعت الأصوات بينهم ، فسمعت عليا (ع) يقول: بايع الناس أبا بكر وأنا والله أولي بالأمر وأحق به ، فسمعت وأطعت مخافة أن يرجع الناس كفارا ، يضرب بعضهم رقاب بعض بالسيف ، ثم بايع أبو بكر لعمر وأنا والله أولي بالأمر منه ، فسمعت وأطعت مخافة أن يرجع الناس كفارا،

مناقب الخوارزمي: 313، الفصل 19 الرقم 314 ،

تاريخ دمشق لابن عساكر الشافعي: ج 3 ص 118 الرقم 1143،

فرائد السمطين ج 1 ص 320 الرقم 251،

كنز العمال: ج 5 ص 724،

تاريخ مدينة دمشق: ج 42 ص 434،

ميزان الاعتدال: ج 1 ص 442،

لسان الميزان: ج 2 ص 156 

نكتہ سوم: حضرت علی (ع) نے فرمایا کہ:

وَ إِنْ تَرَكْتُمُونِي فَأَنَا كَأَحَدِكُمْ،

اگر مجھے خلیفہ نہ بناؤ تو میں بھی تمہاری طرح کا ایک عام سا بندہ ہوں گا۔

تو حضرت کی مراد اس فرمان سے وظیفہ انجام دینے سے فرار کرنا نہیں ہے بلکہ لوگوں کی مرضی سے حکومت کرنے سے فرار کرنا ہے کیونکہ ایسی حکومت قرآن و سنت کی تعلیمات کے مخالف ہوتی ہے۔

اور جملہ لِمَنْ وَلَّيْتُمُوهُ أَمْرَكُمْ، بہترين دليل ہے کہ تمہاری من پسند کی ولایت مجھے قبول نہیں ہے، لہذا اسی لیے فرمایا کہ مجھے چھوڑو اور کسی ایسے کو اپنا خلیفہ بناؤ کہ جو تم پر تمہاری مرضی کی حکومت کرنا چاہتا ہو۔

اور آخری نکتہ كہ جو حضرت نے فرمایا کہ:

وَ أَنَا لَكُمْ وَزِيراً خَيْرٌ لَكُمْ مِنِّي أَمِيراً،

میرے حاکم بننے سے میرا تمہارے لیے وزیر بننا بہتر ہے۔

حضرت علی (ع) کی اس بات سے یہ مراد ہے کہ اگر میں نے حکومت کو قبول کر لیا تو میں خلفاء کے گذشتہ تمام غلط قوانین اور کاموں (بدعتوں) کو تبدیل کر دوں گا

 اور نا اہل والیوں کو انکے عہدوں سے برطرف کر دوں گا اور اہل و قابل افراد کو عہدوں پر آگے لے کر آؤں گا:

ولتساطنّ سوط القدر حتّي يعود أسفلكم أعلاكم وأعلاكم أسفلكم، 

نهج البلاغه خطبہ 16

اور بیت المال کا تمام ناحق غصب اور خرچ کیا گیا مال بیت المال میں واپس پلٹا دوں گا:

واللّه لو وجدته قد تزوّج به النساء وملك به الإماء لررددته،

نهج البلاغه خطبہ 15

خلاصہ یہ کہ اگر حکومت مجھے مل گئی تو میں رسول خدا (ص) کے طریقے کے مطابق حکومت کروں گا:

وإن بليتكم قد عادت كهيئتها يوم بعث اللّه نبيّكم والذي بعثه بالحق،

نهج البلاغه خطبہ 16

اور قطعی طور پر ایسے نظام حکومت کو تم برداشت نہیں سکو گے، لیکن اگر میرے پاس کوئی عہدہ نہیں ہو گا تو میری ذمہ داری بھی کوئی نہیں ہو گی اور وزیر و مشاور کے طور پر جب ضرورت پڑا کرے گی تو پہلے کی طرح تمہاری اور اسلام کی بہتری کے لیے اپنی رائے دے دیا کروں گا اور یہی تمہارے لیے بہتر ہو گا، لہذا حضرت نے اسی لیے خَيْرٌ لَكُمْ کہا ہے اور اس بات کا مطلب حضرت کا خلافت الہی کے عہدے سے کنارہ گیری کرنا نہیں ہے بلکہ انکی من پسند کی حکومت قبول کرنے سے انکار کرنا ہے۔

اور آپ نے سوال میں کہا ہے کہ آپ صرف کتاب نہج البلاغہ میں موجود  اسرار کو کشف کرنا چاہتے ہیں:

تو آپ سے عرض یہ ہے کیا آپ نے پوری نہج البلاغہ سے صرف اسی ایک خطبے کو کشف کیا ہے ؟ یا آپ نے حضرت علی (ع) کے باقی خطبوں کا بھی مطالعہ کرنے کی زحمت فرمائی ہے ؟ کیا آپ حضرت علی (ع) صرف اسی خطبے کو قبول کرتے ہیں یا مسئلہ امامت و خلافت کے بارے میں بیان کیے گئے دوسرے خطبات کو بھی قبول کرتے ہیں کہ جن میں ان حضرت نے صراحت سے فرمایا ہے کہ:

خلافت میرا حق ہے اور گذشتہ خلفاء کی خلافت پر سوالیہ نشان لگایا ہے ؟

کیا حضرت علی (ع) نے خطبہ سوم میں واضح نہیں فرمایا کہ:

خود ابوبکر بھی جانتا تھا کہ اس نے جو خلافت کا لباس پہنا ہے، وہ میرا حق تھا لیکن میں نے اس حق کے غصب ہونے پر امت کی بہتری کے لیے صبر کیا اور اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے حق کو پامال ہوتا دیکھتا رہا۔ :

أما واللّه ، لقد تقمّصها ابن أبي قحافة ، وإنّه ليعلم أنّ محلي منها محل القطب من الرحا ، ينحدر عني السيل ، ولا يرقي إلي الطير. فسدلت دونها ثوبا ، وطويت عنها كشحا ، وطفقت أرتئي بين أن أصول بيد جذاء ، أو أصبر علي طخية عمياء ، يهرم فيها الكبير ، ويشيب فيها الصغير ، ويكدح فيها مؤمن حتي يلقي ربه ، فرأيت أن الصبر علي هاتا أحجي ، فصبرت وفي العين قذي ، وفي الحلق شجا ، أري تراثي نهبا،

شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد ج 1 ص 151. 

اور اگر نہج البلاغہ امام عبده میں جملہ:

أما والله لقد تقمصها فلان،

ذکر ہوا ہے تو انھوں نے تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

وفلان كناية عن الخليفة الاول أبي بكر رضي الله عنه،

حضرت علی کی لفظ فلاں سے مراد، پہلا خلیفہ ابوبکر ہے۔

کیا حضرت علی (ع) نے خطبہ دوم میں واضح نہیں فرمایا:

ولایت صرف آل محمد کا حق ہے اور وہی رسول خدا کے وصی و وارث ہیں اور ابھی میرے ولایت کو قبول کرنے سے حق اپنے حقدار کو مل گیا ہے اور اپنی اصلی جگہ پر واپس پلٹ آیا ہے:

لا يقاس بآل محمد صلي الله عليه وآله من هذه الامة أحد، ولا يسوي بهم من جرت نعمتهم عليه أبدا. هم أساس الدين، وعماد اليقين. إليهم يفئ الغالي، وبهم يلحق التالي، ولهم خصائص حق الولاية، وفيهم الوصية والوراثة، الآن إذ رجع الحق إلي أهله ونقل إلي منتقله،  

نهج البلاغة عبده ج 1 ص 30،

نهج البلاغة (صبحي الصالح) الخطبة 2 ص 47،

شرح نهج البلاغة ابن أبي الحديد ج 1 ص 139،

ينابيع المودة قندوزي حنفي ج 3 ص 449 

اور اہل مصر کے نام اپنے خط میں لکھا ہے:

خدا کی قسم مجھے یقین نہیں آ رہا اور میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قوم عرب اسطرح سے رسول خدا کی وصیت کو فراموش کر دیں گے اور خلافت کو انکے خاندان سے دور کر دیں گے، میں بغیر حساب کتاب کے لوگوں کے ابوبکر کی طرف جانے سے پریشان ہو گیا ہوں، لیکن میں ہرگز ایسی بیعت نہیں کر سکتا تھا، اس لیے کہ میں نے دیکھا کہ ایک گروہ اسلام سے واپس پلٹ گیا ہے اور دشمن، اسلام کو مکمل طور پر نابود کرنے کے لیے کمر ہمت باندھ رہے ہیں اور میں ڈر گیا کہ اگر اسلام اور مسلمین کی مدد کے لیے کھڑا نہ ہوں تو دین اسلام کو نا قابل جبران نقصان ہو جائے گا اور یا دین کلی طور پر نابود ہو جائے گا کہ اور یہ میرے لیے اپنے حق کو ہاتھ سے دینے سے بھی زیادہ بڑی مصیبت ہوتی پس میں کسی کی پروا کیے بغیر کھڑا ہو گیا اور دین محمد (ص) کو نابودی سے نجات دے دی۔:

فو اللّه ماكان يلقي في روعي ولا يخطر ببالي أنّ العرب تزعج هذا الأمر من بعده صلي الله عليه وآله عن أهل بيته ، ولا أنّهم منحوه عنّي من بعده ، فما راعني إلا انثيال الناس علي فلان يبايعونه ، فأمسكت يدي حتّي رأيت راجعة الناس قد رجعت عن الاسلام يدعون إلي محق دين محمد صلي الله عليه وآله ، فخشيت إن لم أنصر الاسلام وأهله أن أري فيه ثلماً أو هدماً تكون المصيبة به علي أعظم من فوت ولايتكم التي إنما هي متاع أيام قلائل يزول منها ما كان كما يزول السراب ، أو كما يتقشع السحاب ، فنهضت في تلك الاحداث حتي زاح الباطل وزهق ، واطمأن الدين وتنهنه.

نهج البلاغة، الكتاب الرقم 62، كتابه إلي أهل مصر مع مالك الأشتر لمّا ولاه إ مارتها،

شرح نهج البلاغه ابن أبي الحديد: ج 6 ص 95، و ج 17 ص 151،

الإمامة والسياسة: ج 1 ص 133 بتحقيق الدكتور طه الزيني،

اہل سنت سے چند سوال:

1 – آپ لوگ کہتے ہو کہ رسول خدا (ص) نے اپنا خلیفہ اور جانشین معیّن نہیں کیا تھا اور یہ کام امت کے سپرد کر دیا تھا۔

اگر ان حضرت کا یہ کام حق و صحیح، امت کے فائدے اور امت کی ہدایت کا ضامن تھا تو پھر سب پر واجب ہے کہ انکی پیروی کریں کیونکہ وہ حضرت ہم سب کے لیے عملی نمونہ ہیں:

لقد كان لكم في رسول اللّه أسوة حسنة لمن كان يرجوا اللّه واليوم الآخر،

سورہ احزاب آیت 21 

لہذا ابوبکر کا اپنے بعد اپنا خلیفہ معیّن کرنا، بر خلاف سنت پیغمبر اور موجب ضلالت و گمراہی امت تھا۔

اور اسی طرح عمر کا کام، کہ اس نے خلیفہ کی تعیین کے لیے چھ افراد پر مشتمل شورا بنائی تھی، بھی بر خلاف سنت پیغمبر اور سیرت ابوبکر تھا۔

اور اگر تم کہتے ہو کہ ابوبکر و عمر کا کام امت کے فائدے میں تھا تو پھر لا محالہ ماننا پڑے گا کہ رسول خدا (ص) کا کام امت کے نقصان میں تھا۔

نستجير بالله من ذلك. 

2 – رسول خدا (ص) جب کچھ دنوں کے لیے مدینہ سے باہر سفر پر جاتے تو اپنے ایک صحابی کو جانشین کے طور پر معیّن کر کے جاتے تھے:

لأنّ النبي صلي الله عليه وسلم استخلف في كلّ غزاة غزاها رجلاً من أصحابه،

تفسير القرطبي ج 1 ص 268 

ابن ام مكتوم  کو  13  مرتبہ غزوات جیسے  بدر، احد، ابواء، سويق، ذات الرقاع، حجّۃ الوداع وغیرہ کے موقع پر مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔

عون المعبود لعظيم آبادي ج 8 ص 106،

كنز العمال ج 8 ص 268،

الطبقات الكبري لابن سعد ج 4 ص 209،

الإصابة ج 4 ص 495،

تاريخ خليفة بن خياط ص 60

المغني لابن قدامه ج 2 ص 30 

اور اسی طرح ابو رہم کو مکہ، جنگ حنین اور جنگ خبیر کے موقع اور محمد ابن مسلمہ کو جنگ قرقرہ اور نمیلہ ابن عبد اللہ کو بنی المصطلق اور عویف کو جنگ حدیبیہ کو موقع پر اپنا خلیفہ و جانشین مقرر کیا۔

التنبيه والإشراف للمسعودي: 211، 214.213، 215، 216، 217، 218، 221، 225، 228، 231، 235،

تاريخ خليفة بن خياط ص 60.

الصحيح من السيرة للسيد جعفر مرتضي ج 8 ص 283، باب من استخلف النبي (ص) علي المدينة ، 

اس تفصیل کی روشنی میں کیا معقول ہے اور کیا تھوڑی سی بھی عقل رکھنے والا عام سا انسان بھی قبول کر سکتا ہے کہ جو رسول خدا (ص) ایک دن کے لیے مدینہ سے باہر جاتے تھے تو اپنی امت کے لیے جانشین معیّن کر کے جاتے تھے تو کیا اپنی شہادت کے موقع پر امت اسلامی کو لا وارث چھوڑ کر جا سکتے ہیں ؟!

کیا صحیح ہے کہ رسول خدا (ص) نے جنگ خندق میں، کہ جو مدینہ کے نزدیک ہی واقع ہوئی تھی، تو اپنا جانشین مقرر کیا ہو لیکن جب اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے جا رہے تو کسی کو اپنا جانشین مقرر نہ کیا ہو !

ان مذکورہ موارد میں کیا کوئی ایک بھی مورد ایسا ہے کہ رسول خدا (ص) نے جانشین کے انتخاب کو لوگوں کے اختیار و مرضی پر چھوڑا ہو ؟!

اور کیا کوئی ایک بھی مورد ایسا ہے کہ رسول خدا (ص) نے جانشین کے انتخاب کے بارے میں مسلمانوں سے مشورہ کیا ہو ؟!

3 – تم نے ایک طرف سے اپنی روایات کی کتب میں رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ:

 ہر پیغمبر کا اپنا وصی و جانشین تھا۔

لكل نبيّ وصيّ ووارث،

تاريخ مدينة دمشق: ج 42 ص 392،

والرياض النضرة: ج 3 ص 138 (ج 2 / 178)

ذخائر العقبي، ص 71،

الكامل لابن عدي: ج 4 ص 14،

المناقب للخوارمي: ص 42، و85 ط. مؤسسة النشر الإسلامي بتحقيق المحمودي،

الفردوس: ج 3 ص 382 ح 5047،

المناقب لابن المغازلي: ص 201 ح 238،

كفاية الطالب: ص 260،

ميزان الاعتدال للذهبي ج 2 ص 273. 

اور سلمان فارسی سے تم نقل کرتے ہو کہ اس نے رسول خدا سے پوچھا کہ:

ہر پیغمبر کا اپنا وصی و جانشین تھا تو آپکا وصی کون ہے ؟

إنّ لكلّ نبيّ وصيّاً، فمن وصيّك ؟

المعجم الكبير: ج 6 ص 221،

مجمع الزوائد: ج 9 ص 113،

فتح الباري: ج 8 ص 114،

كنز العمال: ج 11 ص 61 ح 32952،

شواهد التنزيل: ج 1 ص 98،

ميزان الاعتدال: ج 1 ص 635 عن أنس عن سلمان.

وفي ج 4 ص 240 عن أبي سعيد الخدري عن سلمان 

اور دوسری طرف سے تم ہی کہتے ہو کہ رسول خدا (ص) نے اپنا کوئی جانشین معیّن نہیں کیا تھا !!!

حالانکہ خداوند قرآن میں رسول خدا (ص) کو تمام انبیاء کی ہدایت کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے:

أولئك الذين هدي اللّه فبهداهم اقتده،

سورہ انعام آیت 90

تو کیا رسول خدا کا اپنا جانشین معیّن نہ کرنا، حکم خداوند کی خلاف ورزی اور بر خلاف سنت انبیاء شمار نہیں ہو گا ؟!

4 – تم کہتے ہو رسول خدا (ص) اس امت کو خلیفہ و جانشین کے بغیر چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے ہیں، کیا رسول خدا نے خلیفہ کو معیّن کرنے کا اختیار امت کو دیا تھا کہ جیسے انکی مرضی ہو اور جسکو پسند کریں اسی کو ہی خلیفہ بنا دیں اور خود رسول خدا نے اس بارے میں کسی قسم کی شرائط و ضوابط کو بیان نہیں کیا تھا ؟!

ایسا سوچنا بالکل صحیح نہیں ہو گا کیونکہ رسول خدا (ص) ایسے حالات میں دنیا سے گئے تھے کہ جب اسلامی معاشرہ بہت نازک حالات سے گزر رہا تھا، اس لیے کہ دو قدرتمند ملک روم و ایران ایک طرف سے اسلامی حکومت کے لیے خطرہ بنے ہوئے تھے، رسول خدا (ص) کا لشکر اسامہ کو تیار کرنا اس بات پر بہترین دلیل ہے اور دوسری طرف سے منافقین، مشرکین اور یہودی ہر روز اسلامی معاشرے کے لیے نئی نئی مشکلات کھڑی کر رہے تھے۔

واضح ہے کہ ان حالات میں کسی بھی معاشرے کا عام سا حاکم بھی اپنے معاشرے اور عوام کو بے یار و مددگار چھوڑ کر نہیں جاتا، پھر کیسے قبول کر لیا جائے کہ اسلامی معاشرے اور مسلمانوں پر رسول خدا (ص) جیسی مہربان شخصیت امت اسلامی کو بے یار و مددگار چھوڑ کر دنیا سے جا سکتی تھی ؟!

خداوند نے رسول خدا (ص) کے امت اسلامی کے لیے مہربان اور دلسوز ہونے کے بارے میں فرمایا ہے:

لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتّم، حريص عليكم بالمؤمنين رئوف رحيم،

رسول خدا (ص) کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ وہ امت اسلامی کو بغیر خلیفہ کے چھوڑ کر گئے ہیں تو یہ ان حضرت کی بہت بڑی اہانت اور انکے ساتھ بہت بڑی خیانت ہو گی، جیسا کہ احمد امين مصری نے واضح کہا ہے:

رسول خدا کا اپنا جانشین مقرر کیے بغیر، یا تعیین حاکم کی شرائط و ضوابط کو بیان کیے بغیر دنیا سے چلے جانا، یہ اسلامی معاشرے کو بہت خطرناک حالات میں چھوڑ کر جانے کے مترادف ہے۔ :

توفّي رسول اللّه صلي اللّه عليه وآله ولم يعيّن من يخلفه ، ولم يبيّن كيف يكون اختياره ، فواجه المسلمون أشق مسألة وأخطرها!!

فجر الاسلام، ص 225 

اسی طرح ابن خلدون نے کہا ہے:

ایک معاشرے کو راہبر اور سرپرست کے بغیر چھوڑنا محال ہے کیونکہ یہ کام معاشرے میں اختلاف اور فساد کا باعث بنتا ہے، اسی لیے ہر معاشرے میں حاکم کا ہونا لازمی ہے کہ جو معاشرے کو درہم برہم ہونے سے محفوظ رکھے:

فاستحال بقاؤهم فوضيّ دون حاكم يزع بعضهم عن بعض واحتاجوا من أجل ذلك إلي الوازع وهو الحاكم عليهم، 

مقدمة ابن خلدون، ص 187

5 – کتاب صحیح مسلم کی نقل کے مطابق حفصہ نے اپنے باپ عمر سے کہا کہ کسی شخص کو اپنے جانشین کے طور پر معیّن کرے اور پھر عبد اللہ ابن عمر نے اپنے باپ سے کہا:

اگر تمہارے اونٹوں اور بھی‍ڑ بکریوں کا چرواہا ان حیوانات کو چھوڑ کر چلا جائے تو تم اس پر اعتراض کرو گے کہ تم نے کیوں ایسا کیا ہے ؟

پس تم (عمر) کو اس امت کے بارے میں سوچنا چاہیے ! اور کسی کو بعنوان خلیفہ معیّن کرنا چاہیے ! کیونکہ اس امت کا خیال رکھنا، اونٹوں اور بکریوں کے خیال رکھنے سے زیادہ ضروری ہے۔

عن ابن عمر قال: دخلت علي حفصة فقالت: أعلمت أنّ أباك غير مستخلف؟ قال: قلت: ما كان ليفعل. 

قالت: إنّه فاعل. قال ابن عمر: فحلفت أنّي أكلّمه في ذلك. فسكت، حتّي غدوت. ولم أكلّمه. 

قال: فكنت كأنّما أحمل بيميني جبلاً، حتي رجعت فدخلت عليه ، فقلت له: إنّي سمعت، الناس يقولون مقالة فآليت أن أقولها لك ، زعموا أنّك غير مستخلف ، وأنّه لو كان لك راعي إبل، أو راعي غنم ثمّ جاءك وتركها رأيت أن قد ضيّع ، فرعاية الناس أشدّ. 

صحيح مسلم: ج 6 ص 5 (3 / 1823) ، كتاب الإمارة ، باب الاستخلاف وتركه،

مسند أحمد: ج 1 ص 47،

المصنف لعبد الرزاق: ج 5 ص 448 

6 – اسی طرح عائشہ نے عبد اللہ ابن عمر کے ذریعے عمر کو پیغام بھیجا کہ:

محمد (ص) کی امت کو کسی سرپرست کے بغیر نہ چھوڑنا اور کسی کو بعنوان خلیفہ معیّن کرنا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو مجھے امت میں فتنے برپا ہونے کا خطرہ ہے:

ثمّ قالت (أي عائشة): يا بُنيّ! أبلغ عمر سلامي، وقل له: لا تدع أمّة محمد بلاراع، استخلف عليهم ولا تدعهم بعدك هملاً، فإنّي أخشي عليهم الفتنة. 

الإمامة والسياسة: ج 1 ص 42 بتحقيق الشيري، ج 1 ص 28 بتحقيق الزيني

اور اسی طرح جب معاویہ ملعون یزید لعین کے لیے بیعت لینے کی غرض سے مدینہ گیا تو اس نے صحابہ کے سامنے عبد اللہ ابن عمر سے بات کرتے ہوئے کہا:

إنّي أرهب أن أدع أمّة محمد بعدي كالضأن لا راعي لها،

میں امت محمد (ص) کو بھیڑ بکریوں کی طرح بغیر چرواہے کے چھوڑ کر جانے سے ڈرتا ہوں۔

تاريخ الطبري: ج 4 ص 226، ط. مؤسسة الأعلمي بيروت،

الإمامة والسياسة: ج 1 ص 206 بتحقيق الشيري، ج 1 ص 159 بتحقيق الزيني، ط. مؤسسة الحلبي القاهرة 

اور کتاب طبقات میں ابن سعد کی نقل کے مطابق عبد اللہ ابن عمر نے اپنے باپ عمر سے کہا:

اگر تم اپنی کھیتی باڑی والی زمینوں پر مقرر اپنے نگران کو تبدیل کر دو تو زمینوں کی نگرانی کے لیے کیا اسکی جگہ پر کسی دوسرے بندے کو لا‎ؤ گے ؟ اس (عمر) نے جواب دیا: ہاں لاؤں گا !

اور پھر پوچھا: اگر تم اپنی بھیڑوں کی نگرانی پر مامور شخص کو تبدیل کرو تو کیا اسکی جگہ پر کسی دوسرے بندے کو لا‎ؤ گے ؟ اس نے کہا: ہاں لاؤں گا۔ :

وقال عبد الله بن عمر لأبيه: لو استخلفت؟ قال: من؟ قال: تجتهد فإنّك لست لهم بربّ، تجتهد ، أرأيت لو أنّك بعثت إلي قيّم أرضك ألم تكن تحبّ أن يستخلف مكانه حتي يرجع إلي الأرض؟ قال: بلي. قال: أرأيت لو بعثت إلي راعي غنمك ألم تكن تحبّ أن يستخلف رجلاً حتي يرجع؟

طبقات ابن سعد ج 3 ص 343، ط. دار صادر بيروت،

تاريخ مدينة دمشق: ج 44 ص 435

کیا اس سے بڑھ کر اور کوئی رسول خدا (ص) کی توہین ہو سکتی ہے کہ عائشہ، حفصہ، معاویہ اور ابن عمر کو تو اس امت کا خیال تھا لیکن ان حضرت کو اس امت کا کوئی خیال نہیں تھا ؟!!!

کیا وہ حضرت اس امت کو بھیڑوں بکریوں سے بھی کم تر شمار کرتے تھے ؟!!! (نعوذ باللہ)

عمر کو تو سمجھانے والے بہت تھی، کیا رسول خدا کو کوئی سمجھانے والا نہیں تھا کہ اس امت کو بغیر جانشین کے چھوڑ کر نہ جائیں ؟!!!

7 – آپ کہتے ہو کہ رسول خدا (ص) بغیر کسی وصیت کے دنیا سے چلے گئے تھے، کیا آپ جانتے ہو کہ آپ نے ان حضرت کی طرف قرآن و سنت کے خلاف ایک کام کرنے کی نسبت دی ہے ؟!!!

کیونکہ قرآن نے تمام مسلمین کو وصیت کرنے کا حکم دیا ہے:

كتب عليكم إذا حضر أحدكم الموت إن ترك خيراً الوصيّة،

سورة مائدة آیت 3

اس لیے کہ جملہ (كتب عليكم) روزے والی آیت (كتب عليكم الصيام) کی طرح وصیت کے بھی واجب ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

اسکے علاوہ رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے:

ہر مسلمان پر وصیت کرنا واجب ہے، ایسا نہ ہو کہ تین راتیں گزر جائیں اور اسکا وصیت نامہ اسکے پاس نہ ہو:

ما حق امرئ مسلم له شئ يوصي به ، يبيت ثلاث ليال إلا ووصيّته عنده مكتوبة. 

اس طرح سے کہ عبد اللہ ابن عمر کہتا ہے:

جب سے میں نے اس حدیث کو رسول خدا سے سنا تو میں ایک رات بھی بغیر وصیت کے نہیں سوتا تھا۔

قال عبد اللّه بن عمر: ما مرّت عليّ ليلة منذ سمعت رسول اللّه صلي اللّه عليه وسلم قال ذلك، إلّا وعندي وصيّتي. 

صحيح مسلم: ج 5 ص 70، أوّل كتاب الوصيّة، ط. دار الفكر بيروت وفي الطبعة الحديثة: ج 3 ص 1250 

کیا کوئی عقلمند اور با غیرت مسلمان ایسا سوچ سکتا ہے کہ عبد اللہ ابن عمر رسول خدا (ص) کی حدیث کا خود ان حضرت زیادہ پابند تھا ؟!

کیا ایسا ممکن ہے کہ رسول خدا (ص) اپنی ہی بات پر عمل نہ کریں ؟!

خداوند کا فرمان ہے:

تم کیوں ایسی بات کرتے ہو کہ جس پر عمل نہیں کرتے ؟ اور اس قول و فعل کے تضاد پر خداوند غضبناک ہوتا ہے:

يا أيّها الذين آمنوا لِمَ تقولون ما لا تفعلون كبر مقتاً عند اللّه أن تقولوا ما لاتفعلون،

سورہ صف آیت 2 و3 

اور رسول خدا کا خود وصیت کرنے کا حکم دینا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ حضرت بغیر وصیت کے دنیا سے چلے گئے ہیں۔ اس بات میں تضاد اس قدر واضح ہے کہ بعض راویوں نے اعتراض کیا ہے جیسے طلحہ ابن مصرف نے عبد اللہ ابن اوفی سے کہا کہ:

یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اکرم دوسروں کو تو وصیت کرنے کا حکم دیں اور خود اس کام کو انجام نہ دیں:

عن طلحة بن مصرف، قال: سألت عبداللّه بن أبي أوفي: هل كان النبي (ص) أوصي؟ قال: لا. فقلت: كيف كتب علي الناس الوصيّة، ثمّ تركها - قال: أوصي بكتاب اللّه. 

صحيح البخاري: ج 3 ص 186، كتاب الجهاد، ج 5 ص 144، باب مرض النبي (ص) من كتاب المغازي، ج 6 ص 107، باب الوصاة بكتاب اللّه،

و في رواية أحمد: فكيف أمر المؤمنين بالوصيّة ولم يوص؟ قال: أوصي بكتاب اللّه. 

مسند احمد بن حنبل: ج 4 ص 354،

فتح الباري: ج 5 ص 268،

تحفة الأحوذي: ج 6 ص 257 

وصیت کرنے والی آیت اور حدیث اگر وصیت کے واجب ہونے پر دلالت نہ بھی کرے تو کم از کم وصیت کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ وصیت کرنا ایک اچھا اور نیک کام ہے اور رسول خدا (ص) کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ ایک اچھے اور نیک کام کو ترک کریں کیونکہ قرآن میں ہے کہ:

کیا تم لوگوں کو نیک کام کی دعوت دیتے ہو اور خود کو فراموش کر دیتے ہو (یعنی خود اس پر عمل نہیں کرتے):

أتأمرون الناس بالبرّ وتنسون أنفسكم، 

سورہ بقره آیت 44

8 – آپ کہتے ہو کہ رسول خدا (ص) بغیر جانشین مقرر کیے دنیا سے چلے گئے اور یہ کام امت کے سپرد کر دیا تھا، تو کیا انھوں نے اسلامی معاشرے کے قائد و راہبر کی کچھ شرائط اور اسی طرح اس قائد و راہبر کے انتخاب کرنے والوں کی شرائط کو معیّن کیا تھا یا نہیں ؟

اگر معين فرمایا تھا تو وہ شرائط کس حدیث میں ذکر ہوئی ہیں ؟

اگر یہ شرائط رسول خدا (ص) نے بیان کیں تھیں تو سقیفہ بنی ساعدہ میں کیوں کسی نے ان شرائط کا ذکر نہیں کیا تھا ؟!

اسی طرح اگر ابوبکر کا خلیفہ بننا رسول خدا کی بیان کردہ شرائط کے مطابق تھا تو کیوں خود ابوبکر نے کہا تھا:

میری بیعت اچانک ، اتفاقی اور بغیر سوچے سمجھے ہو گئی تھی اور خداوند اس بیعت کے شرّ سے سب کو محفوظ رکھے۔ :

قال أبو بكر في أوائل خلافته: إنّ بيعتي كانت فلتة وقي اللّه شرّها وخشيت الفتنة. 

شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد: ج 6 ص 47 بتحقيق محمد ابوالفضل،

أنساب الأشراف للبلاذري: ج 1 ص 590 ط. مصر 

یعنی اسکی بیعت حقیقت میں ایک غلط کام تھا، لیکن خداوند نے اسکے شرّ سے سب کو بچا لیا تھا:

قال ابن الأثير: أراد بالفلتة الفجأة، ومثل هذه البيعة جديرة بأن تكون مهيّجة للشر. 

النهاية في غريب الحديث: ج 3 ص 467 

اور انہی الفاظ کو عمر نے بھی اپنی خلافت کے آخری ایام میں منبر پر کہا تھا:

اگر کوئی دوبارہ ایسا کام کرنے میں جلد بازی کرے گا تو جان سے مار دیا جائے گا:

إنّ بيعة أبي بكر كانت فلتة وقي اللّه شرّها فمن عاد إلي مثلها فاقتلوه، 

شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد: ج 2 ص 26،

صحيح البخاري ج 8 ص 26، كتاب المحاربين، باب رجم الحبلي من الزنا، 

مسند احمد ج 1 ص 55.

المصنف لعبد الرزاق الصنعاني ج 5 ص 445،

المعيار والموازنة لأبي جعفر الإسكافي ص 38،

المصنف - لابن أبي شيبة الكوفي ج 7 ص 615 

ابن اثير نے کہا ہے:

بغیر سوچے سمجھے کے کام کو (فلتۃ) کہتے ہیں اور خلافت کے بارے میں انتشار کے خوف سے انھوں نے جلدی سے ابوبکر کی بیعت کر لی:

والفلتة كلّ شي ء من غير رويّة وإنّما بودر بها خوف انتشار الأمر. 

النهاية في غريب الحديث: ج 3 ص 467 

اے کاش کوئی ابن اثیر سے سوال کرتا کہ خلافت میں کس قسم کے انتشار کا خوف تھا ؟

کیا اس خلافت سے خوف تھا کہ جسے رسول خدا (ص) نے معیّن کیا تھا ؟

یا نا اہل ابوبکر کے مقابلے پر کسی دوسرے اہل شخص کے آنے کا خوف تھا ؟

رسول خدا (ص) کی معیّن کردہ خلافت کا نہ صرف خوف نہیں تھا بلکہ وہ خلافت امت کی اصلاح و ترقی کی بھی ضامن تھی اور سب پر لازم تھا کہ ان حضرت کے حکم پر سر تسلیم خم کرتے۔

ما كان لمؤمن و لا مؤمنة إذا قضي اللّه ورسوله أمراً أن يكون لهم الخيرة من أمرهم،

سورہ أحزاب آیت 36 

9 –  سچ سب سے مہم یہ کہ اگر حقیقت میں ابوبکر کی خلافت رسول خدا (ص) کی سنت کے مطابق تھی تو پھر اسکے دوست عمر نے کیوں کہا:

فمن عاد إلي مثلها فاقتلوه،

اب جو بھی دوبارہ ایسی بیعت کرے گا تو قتل کر دیا جائے گا!

10 – آپ ایک طرف سے کہتے ہو کہ رسول خدا (ص) نے کسی کو اپنا جانشین معیّن نہیں کیا اور کسی کو حکم بھی نہیں دیا کہ فلاں شخص کو خلیفہ کے عنوان سے انتخاب کیا جائے، بلکہ لوگوں نے مل کر ابوبکر کو خلیفہ معیّن کیا اور اس نے عمر کو اور عمر کی بنائی ہوئی شورا نے عثمان کو خلیفہ انتخاب کیا،

اور دوسری طرف سے آپ کہتے ہو کہ یہ تینوں رسول خدا (ص) کے خلیفہ و جانشین تھے اور انھیں (خليفة الرسول) کہتے پھرتے ہو، کیا یہ رسول خدا (ص) کی طرف جھوٹی نسبت دینا شمار نہیں ہو گا ؟

اور متواتر حدیث ہے کہ:

من كذب عليّ متعمداً فليتبؤ مقعده من النار،

جو جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی نسبت دے گا تو اسکا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔

صحيح البخاري: ج 1 ص 36 و ج 2 ص 81 و ج 4 ص 145 و ج 7 ص 118 

قال ابن الجوزي: رواه من الصحابة ثمانية وتسعون نفساً.

الموضوعات: ج 1 ص 57،

وقال النووي: قال بعضهم: رواه مائتان من الصحابة. 

شرح مسلم للنووي: ج 1 ص 68 

رسول خدا (ص) کی طرف ہر طرح کے جھوٹ کی نسبت دینا گناہ ہے۔

پس کیا تمہاری یہ بات صحیح ہے کہ رسول خدا (ص) نے کسی کو خلیفہ معیّن نہیں کیا تھا ؟

 یا یہ بات صحیح ہے کہ تم خلفائے راشدین کو رسول خدا کے خلیفہ کہتے ہو ؟!

 تم لوگوں کی کونسی بات غلط اور کونسی بات صحیح ہے، 1400 سال سے آج تک یہ واضح ہی نہیں ہوا، اسی لیے کہتے ہیں کہ:

جھوٹے انسان کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔

یعنی اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ اس نے پہلے کیا بات کی تھی اور اب کیا بات کر رہا ہے اور بعد میں کیا بات کرنی ہے، اسی لیے وہ ہمیشہ اپنی بات تبدیل کرتا رہتا ہے۔

التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی