2024 March 19
امام حسین (ع) اور زیارت اربعین
مندرجات: ١٧٧٣ تاریخ اشاعت: ٢١ August ٢٠٢٢ - ١٣:٤٥ مشاہدات: 12326
مضامین و مقالات » پبلک
امام حسین (ع) اور زیارت اربعین

 

 

 

مطالب کی فہرست

امام حسین (ع) اور زیارت اربعین 

زیارت اربعین کے ذریعے امام حسین (ع) سے محبت اور انتظار امام مہدی (ع) میں قوی رابطہ

سید الشہداء امام حسین (ع) کی پیدل زیارت کا ثواب

معصومین (ع) کے کلام میں اربعین کی تکریم و تعظیم اور سوگواری:

اربعین کے دن زیارت امام حسین علیہ السلام کی تأکید:

چہلم کیا ہے ؟ ( قرآن اور روایات کی روشنی میں )

نجف سے کربلا کا پیدل سفر:

ثقافت اہلبیت علیہم السلام میں اربعین کی فضیلت:

زیارت اربعین سے اقتباس:


امام حسین (ع) اور زیارت اربعین

زیارت اربعین روز اربعین کی زیارت مخصوصہ ہے اور ائمۂ شیعہ نے اس کی بہت سفارش کی ہے، جس کی بناء پر شیعیان اہل بیت (ع) اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔

شیعیان عراق روز اربعین کربلا پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر عراقی یہ راستہ پیدل طے کرتے ہیں۔ اربعین کا جلوس دنیا کا عظیم ترین اجتماع شمار ہوتا ہے۔

روز اربعین سید الشہداء علیہ السلام 20 صفر ہی کا دن ہے۔ شیخ طوسی نے اپنی کتاب تہذیب الاحکام اور مصباح المتہجد میں امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں:

ہر شب و روز میں 51 رکعتیں نماز (یعنی 17 رکعتیں واجب اور نوافل کی 34 رکعتیں) بجا لانا،

زیارت اربعین،

داہیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا،

سجدے میں پیشانی خاک پر رکھنا،

نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم اونچی آواز سے پڑھنا،

طوسی، تہذیب الاحكام، ج 6، ص 52

اربعین کے روز زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھنا دو صورتوں میں وارد ہوا ہے۔

زیارت اربعین کی پہلی روایت:

یہ وہ زیارت ہے کہ جو شیخ طوسی نے اپنی دو کتابوں تہذیب الاحکام اور مصباح المتہجد میں صفوان جمال سے روایت کرتے ہوئے نقل کی ہے۔ صفوان جمال کہتے ہیں: میرے مولا امام صادق علیہ السلام نے زیارت اربعین کے بارے میں مجھ سے فرمایا:

جب دن کا قابل توجہ حصہ چڑھ جائے تو زیارت اربعین کو پڑھو۔ پھر زیارت کے بعد دو رکعت نماز بجا لاؤ اور جو حاجت چاہتے ہو، خداوند سے مانگو اور واپس چلے آؤ۔

طوسی، تہذیب الاحکام، ج 6، ص 113

 مصباح المتہجد، ص 787

زیارت اربعین کی دوسری روایت:

یہ وہ زیارت ہے کہ جو جابر ابن عبد اللہ انصاری سے روایت ہوئی ہے اور اس کی کیفیت وہی ہے جو عطاء سے نقل ہوئی ہے۔ (عطاء ظاہرا وہی عطیۂ عوفی کوفی ہے جو اربعین کے موقع پر جابر کے ہمراہ تھا، جب وہ زیارت امام حسین علیہ السلام کے لیے کربلا جا رہا تھا) عطاء نے کہا ہے کہ:

میں 20 صفر کو جابر ابن عبد اللہ انصاری کے ساتھ تھا، جب ہم غاضریہ پہنچے تو انھوں نے آب فرات سے غسل کیا اور ایک پاکیزہ پیراہن جو ان کے پاس تھا، پہن لیا اور پھر مجھ سے کہا:

اے عطا ! کیا تمہارے پاس عطر میں سے کچھ ہے ؟ میں نے کہا: میرے پاس عطر سعد ہے۔ جابر نے اس میں کچھ لے لیا اور اپنے سر اور بدن پر مل لیا۔ ننگے پاؤں روانہ ہوئے حتی کہ قبر مطہر پر پہنچے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہو گئے اور تین مرتبہ " اللہ اکبر " کہا اور گر کر بے ہوش ہوئے۔ ہوش میں آئے تو میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا:

السلام علیکم یا آل اللہ ...

جو درحقیقت وہی نصف رجب کو وارد ہونے والی زیارت ہے۔

شیخ عباس قمي، مفاتيح الجنان، باب سوم، زيارت امام حسين در روز اربعين

 یہ زیارت امام حسین (ع) ہے جو 15 ماہ رجب کو پڑھی جاتی ہے کہ یہ اربعین کی دوسری زیارت ہے جو کتاب مفاتیح الجنان میں ذکر ہوئی ہے۔

زیارت اربعین کے ذریعے امام حسین (ع) سے محبت اور انتظار امام مہدی (ع) میں قوی رابطہ:

اس وقت ہم امام مہدی (ع) کے انتظار کے زمانے میں ہیں اور ہمارے پاس دو چیزیں ہیں ایک حسینی مومن اور دوسرا مہدوی مومن۔ کیا ہم زیارت اربعین کے ذریعے ان دونوں کو اکٹھا اور یکجان کر سکتے ہیں کہ جن میں سے ایک امام حسین (ع) کی سچی محبت ہے اور دوسرا امام مہدی کا حقیقی انتظار۔

واضح رہے کہ امام حسین (ع) کے زائر اور اہل بیت کے سچے شیعہ ہونے میں فرق ہے لہذا زیارت اربعین کے ذریعے زائر کس طرح امام حسین (ع) سے اپنی سچی محبت اور امام مہدی (ع) کے سچے انتظار کو کیسے اکٹھا کرے ؟

ایک سچا انتظار ہوتا ہے اور ایک جھوٹا انتظار بھی ہوتا ہے.....

اللہ تعالی کے نزدیک امام مہدی (ع) کے انتظار کی قدر و قیمت اور مرتبہ کیا ہے ؟

ہمارے پاس اس سلسلہ میں بہت سی احادیث موجود ہیں ہمارے لیے ان میں غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے ایک حدیث میں مذکور ہے:

أفضل عبادة المؤمن انتظار فرج الله،

مومن کی سب سے افضل عبادت اللہ کی طرف سے گشائش (ظہور امام) کا انتظار ہے۔

ایک اور حدیث میں آیا ہے:

من مات منكم و هو منتظر لهذا الأمر كمن هو مع القائم في فسطاطه،

جو بھی اس امر (ظہور امام) کا انتظار کرتے ہوئے مر جائے وہ ایسے ہی ہے جیسے وہ ان (امام مہدی) کے ساتھ ان کے خیمے میں کھڑا ہے۔

اگر ہم ان احادیث میں غور کریں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ان درجات کا مستحق مومن وہ ہے جو باعمل ہو، امام مہدی (ع) کے ساتھ مخلص ہو، حقیقی سچا انتظار کر رہا ہو، ظہور کے لیے مکمل تیار ہو کہ جیسے ہی ظہور ہو میڈیا وار کے تمام تر حملوں کے باوجود وہ فورا اپنے امام سے جا ملے۔

اربعین میں پیدل کربلا کی زیارت کا ثواب (چہلم کی حقیقت):

اربعین یا چالیس ایک ایسا عدد ہے کہ جو بڑی خصوصیتوں کا حامل ہے مثلاً زیادہ تر انبیاء چالیس سال کی عمر میں مبعوث بہ رسالت ہوئے، حضرت موسیٰ (ع) اور خداوند کی خصوصی ملاقات چالیس شب قرار پائی، نماز شب میں بھی چالیس مومنین کے لیے دعا کی بھی سفارش کی گئی ہے، ہمسایوں کے احکام میں چالیس گھروں تک کو شامل کیا گیا ہے۔

روایات میں ہے کہ کوہ، زمین وغیرہ جہاں پر بھی انبیاء یا ولی یا کسی مومن و عابد بندے نے عبادت کی ہے، اسکے مرنے کے بعد چالیس دن تک زمین ان پر روتی ہے،

یا لکھا گیا ہے کہ امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد چالیس دن تک زمین و آسمان خون کے آنسو روتے رہے و...

آج کے دن سید الشہداء کو چالیس دن پورے ہوئے ہیں ، آج کے دن سن 61 ہجری میں صحابی پیامبر جناب جابر ابن عبد ﷲ انصاری نے شہادت امام حسین کے بعد پہلی مرتبہ آپکی قبر مطہر کی زیارت کی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جابر ابن عبد اللہ انصاری امام مظلوم کی قبر مطہر کے سب سے پہلے زائر رہے ہیں مگر یہ سنت حسنہ سالہا سال ائمہ معصومیں (ع) کے زمانہ میں بھی اموی اور عباسی حکومتوں کے مظالم کے باوجود جاری و ساری رہی ہے۔

سید الشہداء امام حسین (ع) کی پیدل زیارت کا ثواب:

امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جو نہایت خوبی سے اس موضوع کے پوشیدہ پہلوؤں کو آشکار کرتی ہے۔ امام صادق (ع) امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پا پیادہ سفر کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

جو شخص بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پیدل سفر کرتا ہے، خداوند اس کے ہر قدم کے بدلے اس کے لیے ایک حسنہ لکھتا ہے اور اس کا ایک گناہ معاف کر دیتا ہے اور اس کا ایک رتبہ بڑھا دیتا ہے۔ جب وہ زیارت کے لیے جاتا ہے تو حق تعالی دو فرشتوں کو مقرر فرماتا ہے تا کہ اس کے منہ سے خارج ہونے والی ہر خیر و نیکی کو تحریر کریں اور جو بھی شر اور برائی ہو، اسے تحریر میں نہ لائیں اور لوٹتے وقت اسے الوداع کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اے خدا کے ولی ! تیرے گناہ بخش دیئے جا چکے ہیں اور تو حزب اللہ، حزب رسول (ص) اور حزب اہل بیت علیہم السلام میں شامل ہو چکا ہے۔ خدا کی قسم ! تو کبھی (جہنم کی) آگ نہیں دیکھے گا نہ (جہنم کی) آگ کبھی تجھے نہ دیکھ سکے گی اور نہ تجھے اپنا لقمہ بنا سکے گی۔

کامل الزیارات، ص 134

بنا بر قول مشہور آج ہی کے دن اہلبیت حرم شام سے کربلا لوٹے ہیں ، اور بنا بر قول سید مرتضی آج ہی کے دن سر مبارک امام حسین بدست امام زین العابدین (ع) شام سے کربلا لایا گیا ہے اور آپ کے جسم اطہر کے ساتھ ملحق کیا گیا اور آج کے دن شیعیان علی و اہلبیت ، کسب و کار چھوڑ کر ، سیاہ پوش مجلس عزا و سینہ زنی کرتے ہوئے واقعہ کربلا اور عاشورا کی تعظیم کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔

اگر ہم دقت سے زیارت اربعین کے متن و ترجمے پر نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ زیارت اربعین میں قیام امام حسین علیہ السلام کے مقصد کی وہی چیزیں بیان کی گئی ہیں جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا ہدف اور مقصد تھا چنانچہ قرآن کریم اور نہج البلاغہ کے مطابق دو چیزیں انبیائے الٰہی کا ہدف ہیں :

1- تعلیم علم و حکمت

 2- تزکیہ نفوس

بعبارت دیگر یعنی لوگوں کو عالم اور عاقل بنانا انبیاء کا اصلی مقصد ہے تا کہ لوگ اچھائیوں کی راہ پر گامزن ہو سکیں اور ضلالت و گمراہی کی دنیا سے باہر آ سکیں جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے بھی نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا کہ:

فھداھم بہ من الضلالۃ انقذھم بمکانہ من الجھالۃ،

یعنی خداوند نے نبی اکرم کے ہاتھوں لوگوں کو عالم اور عاقل بنایا۔

چنانچہ امام حسین علیہ السلام نے بھی جو کہ سیرت نبوی کے حامل اور حسین منی و انا من الحسین کے مصداق حقیقی تھے لوگوں کو عالم و عادل و عاقل بنانے میں اپنی جان و مال کی بازی لگا دی اور ہدف رسالت کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لہٰذا زیارت اربعین میں عبارت موجود ہے :

و بذل مھجتہ فیک لیستنقذ عبادک من الجھالۃ و حیرۃ الضلالۃ۔

یعنی اپنے خون کو خدا کی راہ میں نثار کر دیا صرف اس لیے تا کہ بندگان خدا کو جہالت اور نادانی کی لا محدود وادی سے باہر نکال سکیں۔

معصومین (ع) کے کلام میں اربعین کی تکریم و تعظیم اور سوگواری:

امام حسن عسکری علیہ السلام سے منقولہ روایت سید الشہداء علیہ السلام کے چہلم (اربعین) کی تکریم و تعظیم اور سوگواری کی  بہترین دلیل ہے جس میں آپ (ع) نے فرمایا ہے:

مؤمن کی پانچ نشانیان ہیں: ... جسمیں زیارت اربعین کی تلاوت بھی ایک ہے۔

امام صادق علیہ السلام نے اربعین کی تکریم و تعظیم پر تأکید کرتے ہوئے صفوان ابن مہران جمّال کو زیارت اربعین، تعلیم دی۔

شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ص 788- 789

قدیم شیعہ منابع کے مطابق " اربعین " کی اہمیت دو وجوہات کی بنا پر قابل توجہ ہے:

1۔ اس روز فرزندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ، شام میں یزید ابن معاویہ ابن ابی سفیان کی اسارت سے آزاد ہو کر مدینہ کی طرف لوٹے تھے۔

2- اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے مشہور و معروف صحابی حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاری رضوان اللہ تعالی علیہ نے کربلا میں حاضر ہو کر قبر سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی تھی۔

اربعین کے بارے میں علماء کی رائے:

شیخ مفید، شیخ طوسی اور علامہ حلّی اس سلسلے میں رقمطراز ہیں کہ:

20 صفر کا دن وہ دن ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم شام سے مدینہ منورہ کی طرف لوٹے، اور اسی روز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے صحابی جابر ابن عبد اللہ انصاری نے سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی نیت سے مدینہ سے کربلائے معلی پہنچے اور جابر وہ پہلی شخصیت ہے جنہوں نے قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے کا شرف اپنے نام کیا۔

رضی الدین علی بن یوسف مطہر حلی، العدد القویہ، ص 219

اسی طرح سید ابن ‏طاؤوس نے کتاب اقبال الاعمال میں، علامہ حلی نے کتاب المنتھی میں، علامہ مجلسی نے کتاب بحار الانوار کے باب مزار میں، شیخ یوسف بحرانی نے کتاب حدائق میں، حاجی نوری نے کتاب تحیة الزائر میں اورشیخ عباس قمی نے کتاب مفاتیح الجنان میں، اور ان سب نے شیخ طوسی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ:

اربعین اور زیارت امام حسین علیہ‏السلام کا دو ناموں کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ ان میں سے ایک نام عطیة ابن عوف کوفی کا ہے۔ جو امام حسین علیہ السلام کے پہلے چہلم پر کربلا مشرف ہوئے اور امام علیہ السلام کے مرقد منور کی زیارت سے مستفیض ہوئے۔

جس وقت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک نیزے پر اور اہل بیت علیہم السلام کو اسیر کر کے شام لے جایا گیا، اسی وقت سے کربلا میں حاضری کا شوق اور امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت کا عشق ممکن ہونے سے بالکل باہر سمجها جاتا تها کیونکہ اموی ستم کی حاکمیت نے عالم اسلام کے سر پر ایسا گہرا سیاہ پردہ بچها رکھا تها کہ کسی کو یقین نہیں آ سکتا تها کہ ظلم کا یہ پردہ آخر کار چاک ہو سکے گا اور کوئی نفاق کے اس پردے سے گزر کر سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کے لیے کربلا میں حاضری دے سکے گا۔ مگر امام حسین علیہ السلام کی محبت کی آگ اس طرح سے ان کے عاشقوں کے قلب میں روشن تھی کہ اموی اور عباسی طاغوتوں کی پوری طاقت بھی اسے ٹھنڈا نہ کر سکی۔

جی ہاں ! یہی محبت ہی تو تھی جو عاشق اور دلباختہ انسانوں کو کربلا تک لی گئی اور امام سید الشہداء علیہ السلام کی شہادت کے چالیس روز نہیں گزرے تھے کہ عشق حسینی جابر ابن عبداللہ انصاری کو کربلا کی طرف لے گیا۔

جابر جب کربلا پہنچے تو سب سے پہلے دریائے فرات کے کنارے چلے گئے اور غسل کیا اور پاک و مطہر ہو کر ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی قبر منور کی طرف روانہ ہوئے اور جب پہنچے تو اپنا ہاتھ قبر شریف پر رکھا اور اچانک اپنے وجود کی گہرائی سے چِلّائے اور بے ہوش ہو گئے اور جب ہوش میں آئے تو تین بار کہا: یا حسین ! یا حسین ! یا حسین اور اس کے بعد زیارت پڑھنا شروع کی۔

اربعین کے دن زیارت امام حسین علیہ السلام کی تأکید:

اسلامی تعلیمات میں جن اعمال کو مقدس ترین عبادات میں شمار کیا گیا ہے اور ان کی بجا آوری پر بہت تاکید کی گئی ہے ان میں اولیائے الہی اور ائمۂ معصومیں علیہم السلام کی زیارت بھی شامل ہے۔ معصومیں علیہم السلام کی زیارات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو ایک خصوصی اہمیت دی گئی ہے، چنانچہ کسی بھی امام معصوم (ع) کی زیارت پر اتنی تأکید نہیں ہوئی جتنی کہ سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت پر ہوئی ہے۔

امام صادق علیہ السلام نے ابن بُکَیر سے جو امام حسین علیہ السلام کی راہ میں خوف و ہراس کے بارے میں بتا رہے تھے، سے ارشاد فرمایا:

اما تحب ان یراک اللہ فینا خائفا ؟ اما تعلم انہ من خاف لخوفنا اظلہ اللہ فی عرشہ،

کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ خداوند تمہیں ہماری راہ میں خوف و ہراس کی حالت میں دیکھے ؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جو ہمارے خوف کی بناء پر خائف ہو، اللہ تعالی اپنے عرش پر اس کے سر پر سایہ کرے گا ؟

چونکہ اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں کو امام حسین علیہ السلام کے عشق سے پر نور کیا ہے اور عشق ہر صورت میں عاشق کو دوست کی منزل تک پہنچا ہی دیتا ہے لہذا عاشقان حسینی نے پہلے اربعین سے ہی اموی ستم کی حکمرانی اور ہر خفیہ اور اعلانیہ دباؤ کے باوجود سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی راہ پر گامزن ہوئے اور آج تک ہر مسلمان مرد اور عورت کی دلی آرزو امام حسین علیہ السلام کی زیارت ہے۔

زیارت امام حسین علیہ السلام کے ثمرات و اثرات:

اسلامی روایات میں امام حسین علیہ السلام کے لیے بہت سے آثار و برکات بیان ہوئے ہیں، بشرطیکہ زیارت میں تقرب اور اخلاص کے ساتھ ساتھ معرفت اور شناخت کا عنصر بھی شامل ہو۔

علامہ محمد باقر مجلسی سے منقول ہے:

1۔ اللہ تعالی نے اپنے مقرب فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: کیا تم امام حسین علیہ السلام کے زائرین کو نہیں دیکھ رہے ہو کہ کس طرح شوق و رغبت کے ساتھ ان کی زیارت کے لیے آتے ہیں ؟

2۔ امام حسین علیہ‏السلام کا زائر عرش کی بلندیوں پر اپنے خالق سے ہم کلام ہوتا ہے۔

3۔ امام حسین علیہ ‏السلام کے زائر کو بہشت برین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ (ص) کے خاندان پاک کی قربت اور ہمسائگی کا اعزاز حاصل ہو گا اور وہ ان کا مہمان ہو گا۔

4۔ امام حسین علیہ‏ السلام کا زائر اللہ کے محترم فرشتوں کے مقام تک مقام رفعت پائے گا۔

چہلم کیا ہے ؟ ( قرآن اور روایات کی روشنی میں )

چہلم سے مراد کیا ہے، علماء نے اس موضوع پر کافی بحث کی ہے لیکن جس بات کا شیخ طوسی نے عندیہ دیا ہے وہ یہ ہے کہ زیارت اربعین سے مراد 20 صفر کو امام حسین علیه السلام کی زیارت ہے کہ جو عاشورا کے بعد چالیسواں دن ہے۔ اس لیے انہوں نے اس روایت کو اپنی کتاب تہذیب کے زیارت کے باب میں اور اربعین کے اعمال میں ذکر کیا ہے۔

اس دن کی مخصوص زیارت بھی نقل ہوئی ہے جسے مرحوم شیخ عباس قمی نے کتاب مفاتیح الجنان میں ذکر کیا ہے لیکن چالیس دن کے بعد ہی کیوں ؟ کہنا چاہیے کہ چالیس کا عدد روایات میں حتیّ قرآن میں بھی اسکا خاص مقام ہے اور اس عدد کی کچھ خصوصیات ہیں کہ جو دوسرے اعداد کے اندر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر خداوند قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

اذا بلغ اشدّہ و بلغ اربعین سنة ،

یعنی جس وقت وہ کمال کی حالت تک پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا۔

سورہ احقاف آیت 51

اسی طرح بعض انبیاء چالیس سال کی عمر میں مقام رسالت پر فائز ہوئے، مثال کے طور پر حضرت علی علیہ السلام نے ایک آدمی کو جواب میں جب اس نے سوال کیا کہ عزیر کتنی سال کی عمر میں رسالت کے مقام پر فائز ہوئے:

بعثہ اللہ و لہ اربعون سنة ،

یعنی اس سوال کے جواب میں کہ جناب عزیر کی عمر رسالت کے آغاز میں کتنی تھی ؟ فرمایا کہ رسالت کے آغاز میں انکی عمر چالیس سال تھی۔

بحار الانوار، ج 1، ص 88

اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ظاہری طور پر چالیس سال کی عمر میں مقام رسالت پر فائز ہوئے جیسا کہ معتبر روایات میں بھی آیا ہے۔

صدع بالرسالة یوم السابع والعشرین من رجب و لہ یومئذ اربعون سنة،

یعنی حضرت محمّد ابن عبد اللہ خاتم انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  27 رجب کو چالیس سال کی عمر میں رسالت پر مبعوث ہوئے۔

بحار الانوار ج 51 ص 882

اسی طرح دعاؤں میں اور بعض دینی معارف میں چالیس کے عدد کا ایک خاص مقام ہے۔ علاّمہ مجلسی اس دعا کو نقل کرنے کے بعد کہ جس میں خداوند کے نام ہیں، یوں نقل کرتے ہیں:

عن النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم لو دعا بھا رجل اربعین لیلة جمعة غفر اللہ لہ ،

اگر کوئی شخص چالیس شبہائے جمعہ کو خداوند متعال کی بارگاہ میں اس دعا کو پڑھے  تو خدا اسکو بخش دے گا۔

بحار الانوار ج 59 ص 683

خداوند کو مخصوص اذکار کے ساتھ یاد کرنا اور عدد چالیس کے ساتھ اسکی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ جسطرح کہ رات کو جاگنا اور نماز کا پڑھنا لگا تار چالیس رات تک اور نماز وتر کے قنوت میں استغفار کرنا، اس بات کا سبب بنتا ہے کہ خداوند متعال انسان کو سحر کے وقت میں استغفار کرنے والے لوگوں کے ساتھ شمار کرے اور خداوند نے قرآن میں انکو نیکی سے یاد کیا ہے۔ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لا یجتمع اربعون رجلاً فی امر واحد الّا استجاب اللہ،

یعنی چالیس مسلمان جب بھی جمع ہو کر خدا سے کسی چیز کے بارے میں دعا کرتے ہیں تو خداوند متعال بھی اس دعا کو قبول کرتا ہے۔

بحار الانوار، ج 39، ص 493

ایک دوسری روایت میں وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:

من اخلص العبادة للہ اربعین صباحاً جرت ینابیع الحکمة من قلبہ علیٰ لسانہ ،

یعنی اگر کوئی شخص چالیس دن اپنی عبادت صرف اور صرف خدا کیلئے انجام دے اور اسکا عمل خالص ہو تو خداوند حکمت کے چشمہ اسکے دل سے اسکی زبان پر جاری کر دیگا۔

بحار الانوار ج 35 ،ص 623

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ امام نے فرمایا:

من حفظ من شیعتنا اربعین حدیثاً بعثہ اللہ یوم القیامة عالماً فقیہاً و لم یعذّب ،

ہمارے شیعوں میں سے اگر کوئی چالیس حدیثوں کو حفظ کرے تو خداوند متعال اسکو قیامت کے دن عالم، دانشمند اور فقیہ محشور کرے گا۔

بحار الانوار ج 2، ص 351

البتہ اس بات کیطرف توجہ رکھنا ضروری ہے کہ احادیث کو حفظ کرنے سے مراد صرف عبارات ہی کو حفظ کرنا نہیں ہے بلکہ جو چیز طلب کی گئی ہے کہ حدیث کو اسکے پورے لوازمات کیساتھ حفظ کرنا ہے اور حقیقت میں اس سے مراد حدیث کا سمجھنا اور اس پر عمل کرنا اور اسکا رائج کرنا ہے۔

اسی طرح روایات میں وارد ہوا ہے کہ انسان کی عقل چالیس سال میں کامل ہوتی ہے۔ امام جعفر صادق علیه السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:

اذا بلغ العبد اربعین سنة قد انتھی منتھاہ ،

حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جب انسان چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اسکی عقل کامل ہو جاتی ہے۔

بحار الانوار ج 6، ص 21

اسی طرح نماز جماعت کو برپا کرنا اور اسمیں چالیس دن تک شرکت کی تاکید بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے:

من صلّی اربعین یوماً فی الجماعة یدرک تکبیرة الاولیٰ کتب اللہ براءتان: براءة من النار و براءة من النفاق ،

یعنی وہ شخص جو مسلسل ابتداء سے نماز جماعت میں شرکت کرے تو خداوند اسکو دو چیزوں سے محفوظ رکھے گا، ایک آتش جہنم، دوسرے نفاق و منافقت سے۔

بحار الانوار ، ج 88 ، ص 4

آداب دعا میں آیا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپکی دعا قبول ہو جائے تو پہلے چالیس مومنوں کیلئے دعا کریں اور اسکے بعد خداوند سے اپنی حاجت طلب کریں:

من قدّم اربعین من المومنین ثمّ دعا استجیب لہ ،

اس روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دعا کرنے سے پہلے اگر 40 مومنوں کیلئے دعا کی جائے تو اس بندے کی اپنی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے۔

بحار الانوار، ج 68 ، ص 212

روایات میں پڑوسیوں اور انکے حقوق کے بارے میں فرمایا ہے کہ پڑوسی چالیس گھر تک شامل ہوتا ہے یعنی جہاں وہ رہتا ہے اس سے ہر طرف سے چالیس گھر تک۔ امام علی علیه السلام نے ایک حدیث میں فرمایا:

الجوار اربعون داراً من اربعة جوانبھا ،

پڑوسی گھر کے ہر طرف سے چالیس گھر تک شامل ہوتا ہے۔

بحار الانوار، ج 48، ص 3

اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے:

انّ السماء و الارض لتبکی علی المومن اذا مات اربعین صباحاً و انّما تبکی علیٰ العالم اذا مات اربعین شھراً ،

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس وقت ایک مومن دنیا سے رحلت کرتا ہے تو زمین اور آسمان چالیس دن تک اسکے لیے گریہ کرتے ہیں اور اگر کوئی مومن عالم اس دنیا سے رحلت کر جائے تو زمین اور آسمان اسکے فراق میں چالیس ماہ تک روتے رہتے ہیں۔

بحار الانوار ، ج 24، ص 803

امیر المومنین حضرت علی علیه السلام فرماتے ہیں:

اذا صلیٰ علی المومن اربعون رجلاً من المومنین و اجتھدوا فی الدّعاء لہ استجیب لھم ،

یعنی جس وقت مومنین میں سے چالیس آدمی کسی مومن کے جنازے پر نماز پڑھیں اور اسکے لیے دعا کریں تو خداوند متعال ان چالیس مؤمنین کی دعا قبول کرتا ہے۔

بحار الانوار ، ج 18، ص 473

یہ ان روایات کا خلاصہ ہے کہ جن میں چالیس کے عدد کا ذکر ہوا ہے۔ حقیقی مومن اور عالم کا مصداق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے انبیاء اور آئمّہ طاہرین علیہم السلام ہیں کہ زمین اور آسمان چالیس مہینے انکے فراق میں گریہ کرتے ہیں خاص طور سے امام حسین علیه السلام کی شہادت ایک بہت بڑی مصیبت ہے اور انکی شہادت اس قدر جانگداز ہے کہ روایات کے مطابق ہمیشہ رونا چاہیے۔

اس لحاظ سے ایک روایت کہ جس کو محدّث قمی نے کتاب منتھی الامال میں ذکر کیا ہے کہ حضرت امام رضا علیه السلام نے ریّان ابن شبیب سے کہا:

اے شبیب کے بیٹے اگر کسی چیز پر رونا چاہتے ہو تو میرے جدّ کی مصیبت پر گریہ کرو کہ جس کو پیاسا شہید کیا گیا۔

یہ بات واضح ہے کہ یہ ساری چیزیں اس وقت ہیں جب رونا معرفت اور اسکے دستورات کی پیروی کے ساتھ ہو اور ہمیں چاہیے کہ کربلا کے ہدف اور مقصد کو درک کریں۔ اگرچہ خود رونا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان امام علیه السلام کی معرفت حاصل کرے، اس لیے کہ اگر امام حسین علیہ السلام قیام نہ کرتے تو اسلام ختم ہو جاتا اور اسکا کوئی اثر باقی نہ رہتا۔ اس بات کا دعوی صرف ہم نہیں کرتے بلکہ مورّخین حتّی وہ جو شیعہ نہیں ہیں، وہ بھی اس بات کے معترف ہیں۔ کربلا کے بعد جو بھی قیام ظلم اور ستم کے مقابلے میں ہوا، اس نے امام حسین علیہ السلام کے قیام سے درس و سبق لیا ہے۔

شیخ طوسی کتاب مصباح المتہجد میں لکھتے ہیں:

صفر کا بیسواں دن وہ دن ہے کہ جابر ابن عبد اللہ انصاری جو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں، مدینہ سے امام کی زیارت کیلئے کربلا آئے، آپ امام کی قبر کے پہلے زائر ہیں، اس دن میں امام حسین علیه السلام کی زیارت کرنا مستحب ہے۔

شیخ طوسی، مصباح المتہجد ، ص 442

مرحوم شیخ طوسی کی عبارات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جابر امام حسین علیه السلام کی زیارت کے قصد ہی سے مدینہ سے نکلے اور 20 صفر کو کربلا پہنچے ہیں لیکن یہ کہ مدینہ والے کس طرح اور کیسے امام کی شہادت سے مطلع ہوئے اور یہ کہ جابر نے اپنے آپ کو کیسے کربلا پہنچایا ؟ 

تاریخی شواہد کے مطابق ابن زیاد نے اہلبیت کے کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی عبد الملک ابن ابی الحارث سلمی کو حجاز روانہ کر دیا تھا تا کہ جتنا جلدی ممکن ہو سکے حاکم مدینہ ، امام حسین علیه السلام اور انکے ساتھیوں کی شہادت سے با خبر ہو جائے۔ اہلبیت کے کوفہ پہنچنے کے چند دن بعد ہی شہر کے لوگ من جملہ مدینہ والے فرزند پیغمبر کی شہادت سے آگاہ ہو گئے تھے۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ جابر بھی اس بات سے با خبر ہو گئے ہوں اور اپنے آپ کو کربلا پہنچایا ہو۔ جس وقت آپ مدینہ سے کربلا کیلئے روانہ ہوئے ہیں ضعیفی اور ناتوانی نے انکو پریشان کر رکھا تھا اور بعض روایات کے مطابق آپ نابینا بھی تھے لیکن جابر نے لوگوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کیلئے اس کام کو انجام دیا۔ اس زیارت میں جابر کے ہمراہ عطیّہ بھی تھے جو کہ اسلام کی بڑی شخصیتوں اور مفسر قرآن کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے۔  اس دن میں دور یا نزدیک سے امام حسین (ع) کی زیارت کرنے کے سلسلہ میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں۔

نجف سے کربلا کا پیدل سفر:

قدیم الایام سے عراقی شیعوں میں خصوصاً علمائے نجف میں یہ رواج تھا کہ وہ اربعین امام حسین (ع) کے چہلم کے موقع پر نجف سے کئی دن کا سفر کر کے کربلا پیادہ (پیدل) جایا کرتے تھے۔

گروہی اور اجتماعی طور پر نجف سے کربلا پیدل جانے کا یہ سلسلہ مرجع عالی قدر آیت اللہ مجتہد شیخ انصاری کے زمانے سے شروع ہوا لیکن بعد میں اس رسم کو فقراء کے طبقہ سے منسوب سمجھا جانے لگا لیکن بعد میں عالم بزرگوار محدث نوری نے اس رسم کو دوبارہ زندہ کیا۔

آقا بزرگ تهرانی، نقباء البشر، ج1، ص349

رضا مختاری، سیمای فرزانگان، ص193

اسی طرح لوگوں میں ان زائرین کی خدمت کا بے مثال جذبہ بھی صدیوں سے جاری و ساری ہے، جس نے تمام دنیا کو ورتہ حیرت میں ڈالا ہوا ہے اور ان خدمت گزاروں میں شیعہ علماء کی موجودگی کسی سے پوشیدہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے مومنین نے اس سنت حسنہ کو قائم رکھا ہوا ہے۔

حتی صدام ملعون کے زمانے میں اس کے شیعوں پر ناروا مظالم کی وجہ سے اس کی رونق میں کمی آ گئی تھی لیکن اس زمانے میں بھی عراق کے مومنین نے اس رسم کو جاری و زندہ رکھا تھا۔ صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد لوگوں کا اربعین حسینی پر جوش اور ولولہ کے ساتھ جانا آج کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے۔

ثقافت اہلبیت علیہم السلام میں اربعین کی فضیلت:

اربعین کا لفظ دینی نکتہ نظر سے اور احادیث میں بہت بڑی فضیلت کا حامل ہے۔ چالیس حدیثوں کو یاد کرنے کی تاثیر ، چالیس دن خلوص سے عمل کرنا، چالیس دن صبح کو دعائے عہد کی تلاوت کرنا، چالیس سال کی عمر میں عقل انسانی کا کامل ہونا، میت کیلئے چالیس مومنیں کی گواہی، امام زمان (ع) کی زیارت اور دیدار کیلئے چالیس بدھ کی راتوں میں توسل اور عبادت کو انجام دینا، اکثر انبیاء کا چالیس سال کی عمر میں مبعوث ہونا، یہ موارد اس علمی، اسلامی اور عرفانی اصطلاح کی منزلت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اربعین ان رائج اصطلاحات میں سے ہے کہ جو اسلامی عبارتوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔

1- چالیس مؤمنین کی شہادت اور گواہی:

امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

اذا مات المؤمن فحضر جنازته اربعون رجلا من المؤمنين و قالوا: اللهم انا لا نعلم منه الا خيرا و انت اعلم به منا، قال الله تبارک و تعالي: قد اجزت شهاداتکم و غفرت له ما علمت مما لا تعلمون ،

جب بھی کسی مومن کا انتقال ہوتا ہے اور اس کے جنازے میں چالیس مومنین حاضر ہوتے ہیں اور گواہی دیتے ہیں : پروردگارا ! ہم اس مومن کے بارے میں نیکی اور خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تو اس کے بارے میں ہم سے بہتر جانتا ہے۔ تو اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: میں تم لوگوں کی گواہی کو قبول کرتا ہوں اور جن گناہوں کے بارے میں تم نہیں جانتے اور میں جانتا ہوں، وہ سارے کے سارے معاف کرتا ہوں۔

من لايحضره الفقيه، ج 1، ص 166، ح 472

مستدرک سفينة البحار، ج 4، ص 64

اسی طرح امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا جو ہمیشہ عبادت اور اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول رہتا تھا۔ اللہ تعالی نے حضرت داوود پر وحی نازل فرمائی:

یہ عابد ریا کار ہے اور کوئی خلوص نہیں رکھتا۔ حضرت داوود اس کی تشییع جنازہ کے لیے حاضر نہ ہوئے لیکن بنی اسرائیل کے چالیس مومنین وہاں حاضر ہوئے اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس میت کیلئے نیکی اور خوبی کی گواہی دی اور اللہ تعالی سے اس میت کی مغفرت طلب کی۔ غسل میت کے دوران دوسرے چالیس مومنین نے بھی مغفرت طلب کی۔ اسی طرح دفن کے دوران بھی چالیس مومنین نے اس میت کی نیکی اور خوبی کی گواہی دی اور اس کیلئے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کی۔ اس وقت اللہ تعالی نے حضرت داوود پر الہام فرمایا:

میں نے اتنی تعداد میں مومنین کی گواہی کی وجہ سے اس میت کے گناہوں اور ریاکاری سے درگذر فرمایا ہے۔

مستدرک الوسائل، ج 2، ص 471

2- چالیس مومنین کیلئے دعا کرنا:

امام جعفر صادق علیہ السلام دعا کی قبولیت کے اہم ترین عوامل میں سے ایک، اپنے لیے دعا سے پہلے دوسرے مومنین کے مقدم کرنے کو شمار کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:

من قدم اربعين من المؤمنين ثم دعا استجيب له ،

جو بھی اپنے لیے دعا کرنے سے پہلے چالیس مومنین کو مقدم کرے اور پھر اپنے لیے حاجت طلب کرے تو اس کی دعا قبول ہو گی۔

اصول کافى، ج 2، ص 509، ح 5

آپ تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

اگر اس طرح نماز شب یا اس کے بعد دعا مانگی جائے تو اس دعا کا اثر اور بڑھ جاتا ہے۔

بحار الانوار، ج 90، ص 389

اسی طرح چالیس مومنین کیلئے تاریک راتوں کی نماز وتر کے قنوت میں دعا مانگنے سے دعا قبولیت سے زیادہ قریب ہو جاتی ہے۔

کشف الغطاء، ج 1، ص 246

3- چالیس لوگوں کا دعا کرنا:

دعا کرنا ہمیشہ ایک اچھا کام ہے، دعا مومن کا ہتھیار ہے، دعا اللہ تعالی سے راز و نیاز کرنے کا ذریعہ ہے۔

جب انسان خود کو عاجز اور لاچار پاتا ہے تو دل و جان سے فریاد کرتے ہوئے دعا کرتا ہے۔

ان حساس لمحات میں دعا امید کی ایک کرن بن کر اس انسان کے دل کو روشن کر دیتی ہے۔ دعا کرنے والا اپنے اندر سکون محسوس کرنے کے علاوہ اعتماد نفس، روحانی لذت، عشق اور معرفت کو بھی پا لیتا ہے۔

امام صادق علیہ السلام اپنے ایک حکیمانہ کلام میں ہمیں اجتماعی دعا کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

اگر چالیس مومنین مل کر اللہ تعالی سے دعا مانگیں یقین اور اطمنان ہے کہ وہ دعا ضرور قبول ہو گی اور اگر چالیس لوگ نہ ہوں اور چار لوگ دس بار اللہ تعالی سے دعا مانگیں تو وہ دعا بھی اتنا ہی اثر رکھتی ہے اور اگر ایک بندہ دس بار اللہ تعالی سے دعا مانگے تو خداوند عزیز اور جبار اس کی دعا کو قبول کرتا ہے۔

اصول کافى، ج 2، ص 487

4- چالیس گناہوں کی معافی:

امام محمد باقر علیہ السلام مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق میں سے ایک، ان کے جنازے میں شرکت کرنے کو شمار کرتے ہیں۔ مسلمان کے جنازہ میں شرکت کرنے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی معنوی تاثیر کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

من حمل جنازة من اربع جوانبها غفر الله له اربعين کبيرة،

جو بھی جنازہ کو چاروں طرف سے کاندھا دے گا، اللہ تعالی اس کے چالیس گناہوں کو معاف فرمائے گا۔

اصول کافی ، ج 3، ص 174، ح 1

5- چالیس سالوں میں انسانی عقل کا کامل ہونا:

جن چیزوں کا انسانی زندگی اور اس کی شخصیت اور کمال میں بہت بڑا اثر ہے، ان میں سے ایک انسان کا کامل اور پختہ ہونا ہے۔ اللہ تعالی اس سلسلے میں چالیس سالوں کو انسانی زندگی کی معراج مانتا ہے اور فرماتا ہے:

حتى اذا بلغ اشده وبلغ اربعين سنة قال رب اوزعنى ان اشکر نعمتک التى انعمت على وعلى والدى وان اعمل صالحا ترضيه واصلح لى فى ذريتى انى تبت اليک وانى من المسلمين،

سورہ احقاف آیت 15

6- چالیس دن کے خلوص کے اثرات:

امام رضا علیہ السلام ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے ارشاد فرمایا:

ما اخلص عبد لله عزوجل اربعين صباحا الا جرت ينابيع الحکمة من قلبه على لسانه،

جو بھی چالیس دنوں تک اللہ تعالی کیلئے خلوص سے عمل کرتا رہے گا تو اللہ تعالی اس کے دل سے اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری فرمائے گا۔

عيون اخبار الرضا عليه السلام، ج 1، ص 74، ح 321

7- امام زمان (ع) کے ساتھی:

جب امام زمان (ع) ظہور فرمائیں گے تو ان کے ہر مددگار اور شیعہ ساتھی کی قوت اور طاقت، جسمانی اور روحانی لحاظ سے مضبوط چالیس مردوں جتنی ہو گی۔

امام زین العابدین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

اذا قام قائمنا اذهب الله عزوجل عن شيعتنا العاهة وجعل قلوبهم کزبر الحديد وجعل قوة الرجل منهم قوة اربعين رجلا،

جب ہمارے قائم عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا ظہور ہو گا تو اللہ تعالی ہمارے شیعوں سے آفت اور بلاؤں کو دور کرے گا اور ان میں سے ہر ایک کو چالیس مردوں کی طاقت عنایت فرمائے گا۔

الخصال شیخ صدوق، ج 2، ص 541، ح 14

8- چالیس دن مومن کیلئے سوگ منانا:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مومن کے مقام کے متعلق ابوذر کو سفارش کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

يا اباذر ! ان الارض لتبکى على المؤمن اذا مات اربعين صباحا،

اے ابوذر ! جب مومن اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو چالیس دنوں تک یہ زمین اس پر گریہ اور عزاداری کرتی ہے۔

مکارم الاخلاق، ص 465

٭ ممکن ہے مومنین کے چہلم کی مجالس کی یہی دلیل ہو۔

9- چالیس سالہ زندگی:

جب فرزدق نے ظالم عباسی خلیفہ ہشام ابن عبد الملک کے سامنے امام زین العابدین علیہ السلام کی مدح میں ایک بہترین قصیدہ خوبصورت انداز میں پڑھا جس کا مطلع یہ تھا:

هذا الذى تعرف البطحاء وطاته

والبيت يعرفه والحل والحرم

اسے سر زمین بطحا اور اس کی گلیاں جانتی ہیں۔ اسے اللہ کا گھر بیت الحرام، حل اور حرم پہچانتے ہیں۔

تو خلیفہ، فرزدق پر بہت ناراض ہوا اور اس نے حکم دیا کہ فرزدق کا ماہانہ وظیفہ قطع کرتے ہوئے اسکو اہلبیت کے حق سے دفاع کرنے کے جرم میں قید کیا جائے لیکن وہ امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا سے چند دنوں میں ہی رہا ہو گیا۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اس کی چالیس سالہ زندگی کے خرچ جتنا مال اس کیلئے تحفہ بھیجا اور فرمایا:

لو علمت انک تحتاج الى اکثر من ذلک لاعطيتک،

اے فرزدق ! اگر مجھے تیری چالیس سال سے زیادہ زندگی کا علم ہوتا تو میں اس سے زیادہ مال تمہیں بھیجتا۔

الصراط المستقيم، ج 2، ص 181

علی ابن یونس بیاضی لکھتے ہیں: اس تاریخ سے دقیقا چالیس سال بعد فرزدق نے اس فانی دنیا کو خدا حافظ کہا جس سے امام زین العابدین علیہ السلام کی صداقت اور کرامت سب پر واضح و ثابت ہو گئی۔

10- چالیس سالوں کی عمر میں انبیاء کی بعثت:

ایک روایت میں آیا ہے کہ اکثر انبیاء کی بعثت چالیس سال کی عمر میں ہوئی۔

بحار الانوار، ج 13، ص 50

اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ظاہری طور پر چالیس سال کی عمر میں مبعوث ہوئے۔

تاريخ يعقوبى، ج 2، ص 22

امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  63 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے اور آخری سال ہجرت کا دسواں سال تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب اپنی پیدائش سے چالیس سال مکمل کیے تو اللہ تعالی نے انہیں مبعوث فرمایا۔ اس کے بعد 13 سال رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ میں گزارے اور 53 سال کی عمر میں آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور دس سال بعد مدینہ میں ہی داعی اجل کو لبیک کہا۔

کشف الغمه، ج 1، ص 14

11- چالیس حدیثوں کو یاد (حفظ) کرنا:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسلامی معارف اور اسلامی ثقافت کی حفاظت کیلئے مقدمہ سازی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

من حفظ من امتى اربعين حديثا مما يحتاجون اليه من امر دينهم بعثه الله يوم القيامة فقيها عالما،

میری امت میں سے جو بھی ایسی چالیس حدیثیں یاد کرے کہ جنکی معاشرے کو عموما ضرورت پڑتی ہے تو اللہ تعالی اسے قیامت کے دن فقیہ اور دانشمند بنا کر محشور کرے گا۔

خصال شیخ صدوق، ج 2، ص 541، ح 15

اسی حدیث کی بنیاد پر بہت سے شیعہ بزرگ علماء نے چالیس حدیثوں کے عنوان سے کتابیں تالیف کی ہیں اور اپنی یادگار چھوڑی ہیں، اس امید پر کہ  اللہ تعالی انہیں بھی رسول اکرم (ص) کے اس نورانی فرمان کا مصداق بنائے،جیسے اربعين شيخ بہائى، اربعين شہيد اول، اربعين مجلسى دوم، اربعين جامى و چہل حديث امام خمينى وغیرہ۔

12- چالیس دنوں تک گناہ کا اثر:

انسان جس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، اس گناہ کا اثر چالیس دنوں تک انسان کی روح اور نفس پر باقی رہتا ہے۔

امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

لا تقبل صلاة شارب الخمر اربعين يوما الا ان يتوب،

شراب پینے والے کی نماز چالیس دنوں تک قبول نہیں ہوتی، یہاں تک کہ وہ توبہ کر لے۔

مستدرک الوسائل، ج 17، ص 57

13- چالیس سالوں تک اصلاح:

بنیادی طور پر سعادتمند افراد وہ ہوتے ہیں جو خوشبختی اور کمال کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور چالیس سال کی عمر تک ان کے اخلاق اور کردار میں اصلاح پیدا ہو جائے اور اگر چالیس سال تک کسی کے کردار اور اخلاق میں تبدیلی نہ آئے اور وہ اپنے آپکو بری چیزوں سے روک نہ پائے تو اس کے بعد اسکی اصلاح مشکل ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام مسلمانوں کو اس معاملہ میں خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

اذا بلغ الرجل اربعين سنة ولم يغلب خيره شره قبل الشيطان بين عينيه وقال: هذا وجه لا يفلح،

جب انسان چالیس سال کا ہو جائے اور اس کے اچھے اعمال کی تعداد اس کے برے اعمال سے زیادہ نہ ہو تو شیطان اس کی پیشانی پر بوسہ دیتا ہے اور کہتا ہے اس چہرے والا کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔

مشکاة الانوار، ص 295

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ: جو افراد چالیس سال تک اپنی اصلاح کیلئے کوشش نہیں کرتے ان کو جہنمی شمار کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:

وہ چالیس سالہ انسان جسکو نیکی کی فکر نہیں وہ اپنے آپ کو جہنم کیلئے تیار کرے اور اس کی نجات مشکل ہے۔

مشکاة الانوار، ص 295

14- چالیس سالہ افراد کو آگاہ کرنا:

امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:

اذا بلغ الرجل اربعين سنة نادى مناد من السماء دنا الرحيل فاعد زادا ولقد کان فيما مضى اذا اتت على الرجل اربعون سنة حاسب نفسه،

جب انسان چالیس سال کا ہوتا ہے تو آسمان سے ایک فرشتہ ندا دیتا ہے، سفر کا وقت قریب ہے سفر کی تیاری کر لو۔ گزشتہ زمانے میں انسان جب بھی چالیس سال کا ہوتا تھا تو اپنا حساب کتاب کرنا شروع کر دیتا تھا۔

مستدرک الوسائل، ج 12، ص 156

مجموعه ورام، ج 1، ص 35

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ اللہ تعالی نے ایک فرشتہ کو مقرر فرمایا ہے جس کا کام ہر رات یہ فریاد کرنا ہے:

يا ابناء الاربعين ماذا اعددتم للقاء ربکم ،

اپنی زندگی کی چالیس بہاریں دیکھنے والے لوگو ! تم نے اپنے پروردگار سے ملاقات کیلئے کیا تیاری کی ہے ؟ تمہارے پاس کیا جواب ہے ؟

مستدرک الوسائل، ج 12، ص 157

15- اربعین اور کھانا:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں:

من ترک اللحم اربعين صباحا ساء خلقه ،

جو بھی چالیس دنوں تک گوشت نہ کھائے تو اس کا اخلاق برا ہو جائے گا۔

مستدرک الوسائل ج 16، ص 305

16- چالیس افراد جتنے لشکر کی تعداد:

جب امام حسن مجتبی علیہ السلام کے ماننے والوں میں سے کسی نے امام سے ظلم اور ستم کے مقابل خصوصا معاویہ کے ظلم کے خلاف قیام کرنے کی درخواست کی تو امام نے ارشاد فرمایا :

لى اسوة بجدى رسول الله حين عبد الله سرا وهو يومئذ فى تسعة وثلاثين رجلا فلما اکمل الله له الاربعين صاروا فى عدة واظهروا امر الله فلو کان معى عدتهم جاهدت فى الله حق جهاده،

امت کی رہبری میں میرے نانا کی سیرت میرے لیے نمونہ عمل ہے، جب تک ان کی تعداد انتالیس تھی وہ چھپ کر اللہ تعالی کی عبادت کرتے رہے۔ جب ان کی تعداد چالیس ہوئی تو آپ نے اللہ تعالی کے دین کو ظاہر کیا اور اس کی تبلیغ فرمائی۔ اگر میرے ساتھ چالیس لوگ ہوتے تو اس طرح جہاد کرتا کہ جسطرح جہاد کرنے کا حق ہے۔

مستدرک الوسائل، ج 11، ص 77

17- چالیس سچے دوستوں کا نہ ہونا:

امام علی علیہ السلام اپنی غربت اور مظلومیت کی شکایت کرتے ہوئے فریاد کرتے ہیں:

میں نے کئی بار لوگوں سے مدد اور نصرت طلب کی لیکن چار لوگوں  زبیر، سلمان، ابوذر اور مقداد کے علاوہ کسی نے میری دعوت کو قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد امام نے ارشاد فرمایا:

لو کنت وجدت يوم بويع (اخوتيم) اربعين رجلا مطيعين لجاهدتهم،

اگر بیعت کے دن میرے پاس چالیس فرمانبردار اور مطیع افراد ہوتے تو میں ان سے مقابلہ اور جہاد کرتا۔

مستدرک الوسائل ، ج 11 ص 74

18- ہمسایوں کے حقوق:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معاشرہ کی سلامتی کیلئے اور لوگوں کے درمیان اعتماد اور اطمئنان کی فضا کو برقرار رکھنے کیلئے اور اسی طرح اتحاد کی تقویت کیلئے، اسلامی ماحول میں ہمسایہ کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

کل اربعين دارا جيران من بين يديه ومن خلفه وعن يمينه وعن شماله،

ایک مسلمان کے گھر کے چاروں طرف ، آگے ، پیچھے، دائیں اور بائیں سے چالیس گھروں تک ایک مسلمان کے ہمسایگی میں شامل ہوتے ہیں۔

وسائل الشيعة، ج 12، ص 132

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکمت بھرے پیغام کے حوالے سے امام علی علیہ السلام کو سلمان، ابوذر اور مقداد کے ساتھ حکم دیا کہ لوگوں کے درمیاں ندا کرو اور ان کو ہمسائے کے حقوق اور حدود کے بارے میں بتاؤ کہ:

انه لا ايمان لمن لم يامن جاره بوائقه،

جس شخص کے ہمسائے اس کے شر اور آزار سے امان میں نہ ہوں، اس کے پاس کوئی ایمان نہیں۔

مستدرک الوسائل، ج 8، ص 431

19- چالیس دنوں کی مہلت:

کچھ مسلمان دینی مسائل اور اپنی عزت کے حوالے سے سستی اور کاہلی کا شکار ہوتے ہیں اور اس وجہ سے اللہ کے عذاب کے مستحق قرار پاتے ہیں تو اللہ تعالی ان کو چالیس دنوں کی مہلت دیتا ہے تا کہ اپنی اور اپنے خاندان کے اصلاح کر سکے اگر وہ پھر بھی دینی مسائل میں سستی اور کاہلی کرتا ہے اور چشم پوشی کرتا ہے تو وہ حقیقت کی پہچان سے عاجز ہو جاتا ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں:

جو بھی اپنے اہل و عیال میں کسی برائی کو مشاہدہ کرے اور دینی غیرت کا مظاہرہ نہ کرے اور اپنے خاندان کو گناہ سے باز نہیں رکھے اور انکی اصلاح کی کوشش نہ کرے تو اللہ تعالی ایک سفید پرندے کو اس پر مامور کرتا ہے کہ جو چالیس دنوں تک اس کے گھر کے دروازے پر پروں کو پھیلائے رکھتا ہے اور اس کے آتے جاتے اس سے کہتا ہے:

اپنی اصلاح کرو ! اپنی اصلاح کرو ! غیرت کرو ! غیرت کرو ! اگر اس نے اپنے اہل اور عیال کی اصلاح کی تو ٹھیک، ورنہ وہ اپنے پروں کو اس شخص کی آنکھوں پر ملتا ہے اور اس کے بعد وہ شخص کچھ نہیں دیکھ پاتا یعنی نیکی کو اچھا اور برائی کو برا نہیں سمجھتا۔

الجعفريات، شيخ صدوق، ص 89

20- بچوں کی صحت اور صفائی:

اپنے نو مولود بچوں کے ختنہ کرانے کے لازمی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں:

اختنوا اولادکم يوم السابع فانه اطهر واسرع لنبات اللحم فقال ان الارض تنجس ببول الاغلف اربعين يوما،

اپنے نو مولود بیٹوں کا ختنہ انکی پیدائش کے ساتویں دن انجام دو، ایسا کرنا انکی سلامتی اور پاکیزگی کا سبب ہے اور ختنہ، ان کی نشو و نما میں بہت زیادہ اثر رکھتا ہے۔ جس کا ختنہ نہ ہوا ہو اسکے پیشاب سے زمین چالیس دنوں تکآلودہ رہتی ہے اور کراہت کرتی ہے۔

مکارم الاخلاق، ص 230

21- حیوانات کی تسبیح:

امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ایک رات حضرت داوود (ع) خوشی خوشی زبور کی تلاوت فرما رہے تھے اور اس تلاوت سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس رات انہیں اندازہ ہوا کہ شب بیداری کتنی لذت آور چیز ہے۔ اس بات پر وہ بہت تعجب کر رہے تھے کہ ناگاہ ایک بڑی چٹان کے نیچے سے ایک مینڈک نے اللہ تعالی سے مناجات کرتے ہوئے کہا:

يا داود تعجبت من سهرک ليلة وانى لتحت هذه الصخرة منذ اربعين سنة ماجف لسانى عن ذکر الله تعالي،

اے داوود ! ایک رات کی بیداری ، ذکر اور عبادت پر تعجب نہ کرو ! مجھے اس چٹان کے نیچے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہوئے چالیس سال ہو گئے ہیں اور اس عرصے میں ایک لمحہ بھی میری زبان اللہ کے ذکر سے خاموش نہیں ہوئی۔

بحار الانوار، ج 61، ص 50

22- رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام کی کرامت:

حضرت امام علی علیہ السلام، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدحت اور منقبت کرتے ہوئے ایک بہت طولانی روایت میں ارشاد فرماتے ہیں:

ایک دن یہودیوں کے علماء میں سے ایک عالم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے متعدد سوالات پوچھے اور ان کے جوابات دریافت کیے اور مسلمان ہو گیا، پھر اس نے کچھ تختیاں باہر نکالیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دکھاتے ہوئے کہا: یہ ان نورانی عبارتوں میں سے ہیں کہ جو حضرت موسی ابن عمران علیہ السلام پر نازل ہوئیں۔ میں نے آپ کے فضائل اس میں پڑھے پھر بھی شک کرتا تھا اور چالیس سال تک آپ کا نام گرامی تورات سے مٹاتا رہا لیکن اس ذات حق کی قسم! جس نے آپ کو مبعوث کیا میں نے جتنی بار بھی آپ کا نام گرامی مٹایا، اتنی بار دوبارہ وہاں آپ کا نام گرامی لکھا ہوا  پایا۔

خصال شیخ صدوق، ج 2، ص 356

23- قرآن میں اربعین (چالیس):

قرآن مجید میں اربعین کے لفظ کی طرف متعدد بار اشارہ ہوا ہے۔ جیسے حضرت موسی علیہ السلام کے قصہ میں ارشاد ہوتا ہے:

واذ واعدنا موسى اربعين ليلة،

اور ہم نے موسٰی سے چالیس راتوں کا وعدہ لیا۔

سورہ بقره آیت 51

اور پھر ارشاد رب العزت ہوتا ہے:

و واعدنا موسى ثلثين ليلة واتممناها بعشر فتم ميقات ربه اربعين ليلة،

اور ہم نے موسٰی سے تیس راتوں کا وعدہ لیا اور اسے دس مزید راتوں سے مکمل کر دیا کہ اس طرح ان کے رب کا وعدہ چالیس راتوں کا وعدہ ہو گیا۔

سورہ اعراف آیت 141

قرآن کریم نے بنی اسرائیل کی حضرت موسی سے نافرمانی  کو ذکر کیا ہے اور یہودیوں میں سے اس نا فرمان گروہ کی سزا اور عتاب چالیس سالوں تک سرگردان بھٹکنا، بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

فانها محرمة عليهم اربعين سنة يتيهون فى الارض فلا تاس على القوم الفاسقين،

ارشاد ہوا کہ اب ان پر چالیس سال حرام کر دئیے گئے کہ یہ زمین میں چکرّ لگاتے رہیں گے لہذا تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ کرو۔

سورہ مائده آیت 26

24- چالیس سال تک اپنی سولی ساتھ لیے پھرنے والا جاں نثار:

دعبل ابن علی خزائی ، اہلبیت علیہم السلام کے عارف اور شجاع شعراء میں سے ایک تھے اور وہ امام رضا علیہ السلام کے ہاتھوں سے بہت سارے مادی اور معنوی تحفہ تحائف سے شرفیاب بھی ہوئے تھے۔ اس نے وصیت کی کہ اس کے قصیدہ کو جو کہ مدارس آیات کے نام سے مشہور تھا اور اہلبیت کی تائید اور تصدیق کا مورد تھا، وہ اس کے کفن پر تحریر کیا جائے۔ اس کی زبان میں اتنا اثر تھا کہ ظالم حکمران اس سے خوف کھاتے تھے۔

ابن مدبر لکھتا ہے : میں نے ایک دن دعبل سے کہا میں نے تیرے جیسا بے باک، بہادر اور  نڈر انسان نہیں دیکھا تم اسقدر بے باک ہو کہ سفاک اور ظالم حکمرانوں کے کرتوتوں کو بے نقاب کرتے ہو اور ان کی حقیقت کو اپنے اشعار میں بیان کرتے ہو اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا بھی رہے ہو۔

دعبل ،  ابن مدبر کی اس خبرداری کے با وجود اہلبیت کے عشق اور محبت پہ ڈٹا رہا اور اس بات کے جواب میں کہا: میں چالیس سال سے اپنے سر کیلئے سولی ساتھ لے کے پھرتا ہوں لیکن آج تک مجھے اس سولی پہ لٹکانے والا نہیں ملا !

شيعه يعنى دعبل چشم انتظار

مى کشد بر دوش خود چل سال دار

شيعه يعنى همچو امثال کميل

سر نهد بر خاک پاى اهل بيت

شیعہ یعنی دعبل چالیس سال تک اپنی سولی ساتھ لیے اپنی موت کا انتظار کرتا ہے۔

شیعہ یعنی کمیل کی طرح اہلبیت علیہم السلام کے نقش پا پر سر رکھ دیتا ہے۔

25- عدالت کا مقام اور فضیلت:

امام موسی کاظم علیہ السلام اس آیت :

يحيى الارض بعد موتها،

کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں:

اللہ تعالی مردہ زمین کو بارش کے قطروں کے ذریعہ سے زندہ اور آباد نہیں کرتا بلکہ عدل اور عدالت کو قائم کرنے والے انسانوں کے ذریعہ زندہ اور آباد کرتا ہے ۔۔۔ کیونکہ عدل اور عدالت کو قائم کرنا اس چالیس دنوں کی بارش اور اس سے حاصل ہونے والے مادی منافع سے ہزار مرتبہ بہتر ہے۔

تهذيب الاحکام، ج 10، ص 146

26- ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کی مذمت:

امام صادق علیہ السلام تاجروں کے لوگوں کی مورد نیاز روز مرہ کی اشیاء کو ذخیرہ کرنے اور اس کو کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

الحکرة فى الخصب اربعون يوما وفى الشدة والبلاء ثلاثة ايام فمازاد على الاربعين يوما فى الخصب فصاحبه ملعون ومازاد على ثلاثة ايام فى العسرة فصاحبه ملعون،

لوگوں کی مورد نیاز چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کی حد عام حالت میں چالیس دن اور خشکسالی کے دور میں تین دن ہے جو بھی تاجر جنس کی زیادتی کے زمانہ میں چالیس دن اور جنس کی نایابی کے زمانہ میں تین دن سے زیادہ ذخیرہ اندوزی کرے گا تو اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہو گی۔

الکافى، ج 5، ص 165

27- حاجت کی بر آوری کیلئے چلہ کاٹنا:

امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

اللہ تعالی نے حضرت داوود (ع) پر وحی نازل فرمائی:

انک نعم العبد لولا انک تاکل من بيت المال ولا تعمل بيدک شيئا،

اے داوود ! اگر تو بیت المال میں سے نہ کھاتا اور اپنی محنت سے کما کر کھاتا تو میرا بہترین بندہ ہوتا !

حضرت داوود علیہ السلام چالیس دنوں تک اللہ تعالی کی بارگاہ میں گریہ اور زاری کرتے رہے، خداوند سے اس مشکل کی دوری کی دعا مانگتے رہے اور اللہ تعالی نے اس بات کے مقدمات فراہم کیے اور لوہے کو حٖضرت داوود کے کنٹرول میں دے دیا تا کہ وہ اس لوہے سے روزانہ ایک زرہ بنا سکے۔ حضرت داوود علیہ السلام نے اس زرہ کو ایک ہزار درہم میں فروخت کیا اور انھوں نے تین سو ساٹھ زرہیں بنائیں اور تین سو ساٹھ ہزار درہم کمائے جو انکے اپنے گھر کے خرچے کیلئے کافی تھے اور اسطرح سے وہ بیت المال سے بے نیاز ہو گئے۔

وسائل الشيعه، ج 17، ص 37

28- زیارت اربعین ایمان اور تشیع کی علامت:

امام حسن عسکری علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

علامات المؤمنين خمس: صلاة الاحدى و الخمسين و زيارة الاربعين و التختم فى اليمين و تعفيرالجبين و الجهر ببسم الله الرحمن الرحيم،

مومن (شیعہ) کی پانچ علامتیں ہیں: روزانہ اکاون رکعتیں نماز ادا کرنا (سترہ رکعتیں واجب، چونتیس رکعتیں مستحب)، اربعین کے دن امام حسین کی زیارت کرنا، دائیں ہاتھ میں انگشتر پہننا، سجدے کی حالت میں پیشانی کو خاک پر رکھنا، اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نماز میں بلند آواز سے پڑھنا۔

مصباح المتهجد، ص 787

29- امام حسین علیہ السلام پر چالیس روز گریہ:

امام صادق علیہ السلام  ایک روایت میں تمام موجودات کے سالار شہداء پر گریہ کرنے کو بیان کرتے ہوئے زرارہ سے فرماتے ہیں:

يا زرارة ! ان السماء بکت على الحسين عليه السلام اربعين صباحا بالدم وان الارض بکت اربعين صباحا بالسواد و ان الشمس بکت اربعين صباحا بالکسوف والحمرة ... و ان الملائکة بکت اربعين صباحا على الحسين عليه السلام،

اے زرارہ ! آسمان نے چالیس دنوں تک امام حسین علیہ السلام پر خون کے آنسوں سے گریہ کیا اور زمین نے امام حسین علیہ السلام پر سیاہی کے ذریعے سے گریہ کیا۔ سورج نے بھی امام حسین علیہ السلام پر گرہن اور لالی کے ذریعہ گریہ کیا اور ملائکہ نے بھی چالیس روز امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور عزاداری کی۔

مستدرک الوسائل، ج 10، ص 314، تلخيص کے ساتھ

 - زیارت اربعین سے اقتباس:

صفوان ابن مہران جمال کہتے ہیں: میرے مولا امام صادق علیہ السلام نے مجھے زیارت اربعین کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: امام حسین علیہ السلام کے چہلم کے روز میرے دادا ، آقا ، مولا حسین علیہ السلام کی زیارت اس طرح کیا کرو:

السلام على ولى الله وحبيبه  ...

اے اللہ کے ولی اور حبیب تم پر  سلام ہو ! ۔۔۔۔۔

زیارت اربعین میں بہت بلند عرفانی اور معنوی مطالب پائے جاتے ہیں جیسے:

وبذل مهجته فيک ليستنقذ عبادک من الجهالة وحيرة الضلالة،

پروردگارا ! میں گواہی دیتا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام نے تیری بارگاہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تا کہ تیرے بندوں کو جہالت اور سرگردانی سے نجات بخشے !     

تهذيب الاحکام، ج 6، ص 113

روز اربعین زیارت امام حسین علیہ السلام کی کیفیت:

اس زیارت کو شیخ طوسی نے کتاب تہذیب اور کتاب مصباح میں صفوان جمّال سے نقل کیا ہے :

صفوان جمّال نے کہا میرے مولا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ زیارت اربعین اس وقت جب دن چڑھ گیا ہو اس طرح پڑھو :

السَّلَامُ عَلَی وَلِیِّ ﷲِ وَحَبِیبِہِ اَلسَّلَامُ عَلَی خَلِیلِ ﷲِ وَنَجِیبِہِ اَلسَّلَامُ عَلَی

سلام ہو خدا کے ولی اور اس کے پیارے پر سلام ہو خدا کے سچے دوست اور انتخاب کیے ہوئے پر سلام ہو خدا کے

صَفِیِّ ﷲِ وَابْنِ صَفِیِّہِ، اَلسَّلَامُ عَلَی الْحُسَیْنِ الْمَظْلُومِ الشَّھِیدِ، اَلسَّلَامُ عَلَی

پسندیدہ اور اس کے پسندیدہ کے فرزند پر سلام ہو حسین (ع) پر جو ستم دیدہ شہید ہیں سلام ہو حسین (ع) پر

ٲَسِیرِ الْکُرُباتِ وَقَتِیلِ الْعَبَرَاتِ۔ اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَشْھَدُ ٲَنَّہُ وَلِیُّکَ وَابْنُ وَلِیِّکَ، وَصَفِیُّکَ

جو مشکلوں میں پڑے اور انکی شہادت پر آنسو بہے اے معبود میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ تیرے ولی اور تیرے ولی کے فرزند تیرے پسندیدہ

وَابْنُ صَفِیِّکَ، الْفَائِزُ بِکَرَامَتِکَ، ٲَکْرَمْتَہُ بِالشَّھَادَۃِ، وَحَبَوْتَہُ بِالسَّعَادَۃِ، وَاجْتَبَیْتَہُ

اور تیرے پسندیدہ کے فرزند ہیں جنہوں نے تجھ سے عزت پائی تو نے انہیں شہادت کی عزت دی ان کو خوش بختی نصیب کی اور انہیں

بِطِیبِ الْوِلادَۃِ، وَجَعَلْتَہُ سَیِّداً مِنَ السَّادَۃِ، وَقَائِداً مِنَ الْقَادَۃِ، وَذَائِداً مِنَ الذَّادَۃِ،

پاک گھرانے میں پیدا کیا، تو نے قرار دیا انہیں سرداروں میں سردار پیشوائوں میں پیشوا مجاہدوں میں مجاہد اور انہیں

وَٲَعْطَیْتَہُ مَوَارِیثَ الْاَنْبِیَائِ، وَجَعَلْتَہُ حُجَّۃً عَلَی خَلْقِکَ مِنَ الْاَوْصِیَائِ، فَٲَعْذَرَ فِی

نبیوں کے ورثے عنایت کیے تو نے قرار دیا ان کو اوصیاء میں سے اپنی مخلوقات پر حجت پس انہوں نے تبلیغ کا

الدُّعَائِ، وَمَنَحَ النُّصْحَ، وَبَذَلَ مُھْجَتَہُ فِیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الْجَھَالَۃِ، وَحَیْرَۃِ

حق ادا کیا، بہترین خیر خواہی کی اور تیری خاطر اپنی جان قربان کی تا کہ تیرے بندوں کو نجات دلائیں نادانی و گمراہی کی پریشانیوں سے

الضَّلالَۃِ، وَقَدْ تَوَازَر َعَلَیْہِ مَنْ غَرَّتْہُ الدُّنْیا، وَبَاعَ حَظَّہُ بِالْاَرْذَلِ الْاَدْنیٰ، وَشَرَیٰ

جب کہ ان پر ان لوگوں نے ظلم کیا جنہیں دنیا نے مغرور بنا دیا تھا، جنہوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اور اپنی

آخِرَتَہُ بِالثَّمَنِ الْاَوْکَسِ، وَتَغَطْرَسَ وَتَرَدَّیٰ فِی ھَوَاہُ، وَٲَسْخَطَکَ وَٲَسْخَطَ نَبِیَّکَ

آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا انہوں نے سر کشی کی اور لالچ کے پیچھے چل پڑے انہوں نے تجھے غضب ناک اور تیرے نبی (ص) کو

وَٲَطَاعَ مِنْ عِبادِکَ ٲَھْلَ الشِّقاقِ وَالنِّفاقِ، وَحَمَلَۃَ الْاَوْزارِ، الْمُسْتَوْجِبِینَ النَّارَ،

ناراض کیا انہوں نے تیرے بندوں میں سے انکی بات مانی جو ضدی اور بے ایمان تھے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ لے کر جہنم کی طرف چلے گئے

فَجاھَدَھُمْ فِیکَ صابِراً مُحْتَسِباً حَتَّی سُفِکَ فِی طَاعَتِکَ دَمُہُ وَاسْتُبِیحَ حَرِیمُہُ۔

پس حسین (ع) ان سے تیرے لیے لڑے جم کر ہوشمندی کیساتھ یہاں تک کہ تیری فرمانبرداری کرنے پر انکا خون بہایا گیا اور انکے اہل حرم کو لوٹا گیا

اَللّٰھُمَّ فَالْعَنْھُمْ لَعْناً وَبِیلاً، وَعَذِّبْھُمْ عَذاباً ٲَلِیماً۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ اﷲِ،

اے معبود لعنت کر ان ظالموں پر سختی کے ساتھ اور عذاب دے ان کو درد ناک عذاب آپ پر سلام ہو اے رسول (ص) کے فرزند

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ سَیِّدِ الْاَوْصِیائِ ٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ ٲَمِینُ ﷲِ وَابْنُ ٲَمِینِہِ عِشْتَ سَعِیداً

آپ پر سلام ہو اے سردار اوصیاء کے فرزند میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے امین اور اسکے امین کے فرزند ہیں آپ نیک بختی میں زندہ رہے

وَمَضَیْتَ حَمِیداً، وَمُتَّ فَقِیداً، مَظْلُوماً شَھِیداً، وَٲَشْھَدُ ٲَنَّ ﷲَ مُنْجِزٌ

قابل تعریف حال میں گزرے اور وفات پائی وطن سے دور کہ آپ ستم زدہ شہید ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا آپ کو جزا دے گا

مَا وَعَدَکَ، وَمُھْلِکٌ مَنْ خَذَلَکَ، وَمُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَکَ، وَٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ

جس کا اس نے وعدہ کیا اور اسکو تباہ کریگا وہ جس نے آپکا ساتھ چھوڑا اور اسکو عذاب دیگا جس نے آپکو قتل کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ

وَفَیْتَ بِعَھْدِ ﷲِ، وَجاھَدْتَ فِی سَبِیلِہِ حَتّی ٲَتَاکَ الْیَقِینُ، فَلَعَنَ ﷲُ مَنْ قَتَلَکَ،

آپ نے خدا کی دی ہوئی ذمہ داری نبھائی آپ نے اسکی راہ میں جہاد کیا حتی کہ شہید ہو گئے پس خدا لعنت کرے جس نے آپکو قتل کیا

وَلَعَنَ ﷲُ مَنْ ظَلَمَکَ، وَلَعَنَ ﷲُ ٲُمَّۃً سَمِعَتْ بِذلِکَ فَرَضِیَتْ بِہِ۔ اَللّٰھُمَّ إنِّی

خدا لعنت کرے جس نے آپ پر ظلم کیا اور خدا لعنت کرے اس قوم پر جس نے یہ واقعہ شہادت سنا تو اس پر خوشی ظاہر کی اے معبود میں

ٲُشْھِدُکَ ٲَنِّی وَلِیٌّ لِمَنْ والاہُ وَعَدُوٌّ لِمَنْ عاداہُ بِٲَبِی ٲَنْتَ وَٲُمِّی یَابْنَ رَسُولِ ﷲِ

تجھے گواہ بناتا ہوں کہ ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں، میرے ماں باپ قربان آپ پر اے فرزند رسول خدا

ٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ کُنْتَ نُوراً فِی الْاَصْلابِ الشَّامِخَۃِ، وَالْاَرْحامِ الْمُطَھَّرَۃِ، لَمْ تُنَجِّسْکَ (ص)

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نور کی شکل میں رہے صاحب عزت صلبوں میں اور پاکیزہ رحموں میں جنہیں جاہلیت نے اپنی نجاست

الْجاھِلِیَّۃُ بِٲَنْجاسِھا وَلَمْ تُلْبِسْکَ الْمُدْلَھِمَّاتُ مِنْ ثِیابِھا وَٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ مِنْ دَعائِمِ الدِّینِ

سے آلودہ نہ کیا اور نہ ہی اس نے اپنے بے ہنگم لباس آپ کو پہنائے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ دین کے ستون ہیں

وَٲَرْکانِ الْمُسْلِمِینَ، وَمَعْقِلِ الْمُؤْمِنِینَ، وَٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ الْاِمامُ الْبَرُّ التَّقِیُّ الرَّضِیُّ

مسلمانوں کے سردار ہیں اور مومنوں کی پناہ گاہ ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امام (ع) ہیں نیک و پرہیز گار پسندیدہ

الزَّکِیُّ الْھادِی الْمَھْدِیُّ وَٲَشْھَدُ ٲَنَّ الْاَئِمَّۃَ مِنْ وُلْدِکَ کَلِمَۃُ التَّقْوی وَٲَعْلامُ الْھُدیٰ

پاک رہبر راہ یافتہ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جو امام آپ کی اولاد میں سے ہیں وہ پرہیزگاری کے ترجمان ہدایت کے

وَالْعُرْوَۃُ الْوُثْقی وَالْحُجَّۃُ عَلَی ٲَھْلِ الدُّنْیا وَٲَشْھَدُ ٲَنِّی بِکُمْ مُؤْمِنٌ وَبِ إیابِکُمْ مُوقِنٌ

نشان محکم تر سلسلہ اور دنیا والوں پر خدا کی دلیل و حجت ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا اور آپ کے بزرگوں کا ماننے والا

بِشَرائِعِ دِینِی وَخَواتِیمِ عَمَلِی وَقَلْبِی لِقَلْبِکُمْ سِلْمٌ وَ ٲَمْرِی لاَمْرِکُمْ مُتَّبِعٌ

اپنے دینی احکام اور عمل کی جزاء پر یقین رکھنے والا ہوں، میرا دل آپکے دل کیساتھ پیوستہ ہے، میرا معاملہ آپ کے معاملے کے تابع اور میری

وَنُصْرَتِی لَکُمْ مُعَدَّۃٌ حَتَّی یَٲْذَنَ ﷲُ لَکُمْ فَمَعَکُمْ مَعَکُمْ لاَ مَعَ عَدُّوِکُمْ صَلَواتُ

مدد آپ کیلئے حاضر ہے حتی کہ خدا آپکو اذن قیام دے پس آپکے ساتھ ہوں آپکے ساتھ نہ کہ آپکے دشمن کیساتھ خدا کی رحمتیں ہوں

ﷲِ عَلَیْکُمْ وَ عَلَی ٲَرْواحِکُمْ وَ ٲَجْسادِکُمْ وَشاھِدِکُمْ وَ غَائِبِکُمْ وَ ظَاھِرِکُمْ وَ بَاطِنِکُمْ،

آپ پر آپ کی پاک روحوں پر آپ کے جسموں پر آپ کے حاضر پر آپ کے غائب پر آپ کے ظاہر اور آپ کے باطن پر

 آمِینَ رَبَّ الْعالَمِینَ،

ایسا ہی ہو جہانوں کے پروردگار۔

التماس دعا۔۔۔۔۔

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی