2024 March 28
شہادت امیر المؤمنین، امام المتقین، قرآن ناطق، خلیفہ بلا فصل رسول خدا (ص) حضرت علی ابن ابی طالب (ع)
مندرجات: ١٥٩٧ تاریخ اشاعت: ٠٥ June ٢٠١٨ - ١٧:٣٤ مشاہدات: 17511
مضامین و مقالات » پبلک
شہادت امیر المؤمنین، امام المتقین، قرآن ناطق، خلیفہ بلا فصل رسول خدا (ص) حضرت علی ابن ابی طالب (ع)

 

امیر المؤمنین امام علی (ع) مکتب تشیع کے پہلے امام ، رسول خدا (ص) کے داماد ، کاتب وحی، اہل سنت کے نزدیک چوتھے خلیفہ، حضرت فاطمہ (س) کے شریک حیات اور گیارہ شیعہ آئمہ کے والد اور جد امجد ہیں۔

تمام شیعہ اور اکثر سنی مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔ رسول خدا (ص) نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو ان پر سب سے پہلے آپ نے ایمان لے آیا۔ شیعوں کے مطابق آپ بحکم خدا رسول خدا (ص) کے بلا فصل جانشین ہیں، جس کا اعلان پیغمبر اکرم نے اپنی زندگی میں مختلف مواقع پر کیا۔ قرآن کریم کی صریح آیات کی روشنی میں آپ کی عصمت ثابت ہے۔

شیعہ سنی مفسرین کے مطابق قرآن مجید کی تقریبا 300 آیات کریمہ آپ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں۔ شب ہجرت رسول خدا (ص) کے بستر پر سو کر حضور کو قریش کے گزند سے آپ نے بچایا۔ مدینہ میں جب مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم ہوا تو، رسول خدا (ص) نے آپ کو اپنا بھائی قرار دیا۔

آپ اسلام کے مایہ ناز سپہ سالار اور شیر خدا تھے اور جنگ تبوک کے سوا پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ تمام غزوات میں شریک تھے۔ جنگ تبوک میں رسول خدا کے فرمان پر مدینے میں ہی رہے۔

رسول خدا (ص) کے وصال اور سازش و بغاوت کے ساتھ ابوبکر کے خلیفہ بننے کے بعد آپ نے 25 سال تک گوشہ نشینی اختیار کی لیکن اسلام اور مسلمین کی خاطر، ان تینوں کے دور میں انہیں مشورہ دینے سے دریغ نہیں فرمایا۔عثمان کے قتل کے بعد مسلمانوں کے بہت اصرار کی وجہ سے آپ نے حکومت کا عہدہ سنبھالا۔ اپنی مختصر حکومت کے عرصے میں تین داخلی بھاری جنگوں کا سامنا کرنا پڑا اور آخر کار مسجد کوفہ میں نماز کی حالت میں شہید ہوئے اور مخفیانہ طور پر نجف میں دفن کر دیئے گئے۔

آپ کے فضائل کے مقابلے میں دوسرے چھوٹے موٹے لوگوں کے حق میں بہت سی جعلی اور جھوٹی احادیث گھڑی گئیں۔ خاص طور پر بنی امیہ کے دور میں معاویہ ملعون کے کہنے پر منبروں سے آپ پر لعن کی گئی اور آپ کے مداحوں کو نہ صرف ڈرایا دھمکایا گیا بلکہ انہیں یا تو جیل خانوں میں بند کیا جاتا یا انہیں قتل کیا جاتا تھا، یہاں تک کہ لوگوں کو اپنے بچوں کا نام " علی " رکھنے سے بھی منع کیا گیا، بلکہ اس سے بالا تر یہ کہ معاویہ اور بنی امیہ کے دور میں جس بچے کا نام "علی" رکھا جاتا تھا، اسکو فوری طور پر شہید کر دیا جاتا تھا۔

کلام، تفسیر اور فقہ سمیت بہت سے علوم کا سلسلہ آپ (ع) تک پہنچتا ہے اور مختلف مکاتب فکر اپنا سلسلہ آپ ہی سے ملا دیتے ہیں۔ آپ غیر معمولی جسمانی قوت کے مالک، بہت زیادہ بہادر اور ساتھ ساتھ حلیم و بردبار، درگذر کرنے والے، مہربان اور حسن سلوک رکھنے والے اور صاحب ہیبت تھے۔ آپ چاپلوسوں کے ساتھ نہایت سختی سے پیش آتے تھے اور لوگوں کو حکومت اور رعایا کے دو طرفہ حقوق کی یاد آوری کرتے تھے اور ہمیشہ کے لیے نہایت سختی سے نفاذ عدل پر قائم رہے اور حتی اسی عدل و عدالت کی وجہ سے شہید کر دئیے گئے۔

نسب، کنیت اور لقب:

آپ کا نسب علی ابن ابی طالب ابن عبد المطلب ابن ہاشم ابن عبد مناف ابن قُصَی ابن کلاب، ہاشمی قرشی ہیں۔

آپ کے والد ماجد حضرت ابو طالب (ع) ایک سخی اور عدل پرور انسان اور عرب کے درمیان انتہائی قابل احترام تھے۔ وہ رسول خدا کے چچا اور حامی اور قریش کی بزرگ شخصیات میں سے تھے۔

ابن اثیر، اسد الغابہ، ج 1، ص 15

حضرت ابو طالب (ع) سالہا سال رسول خدا (ص) کی حمایت و سرپرستی کے بعد بعثت کے 10ویں سال ایمان کامل کے ساتھ انتقال فرما گئے۔

شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ص 812

آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد ابن ہاشم ابن عبد مناف ہیں۔

شیخ مفید، الارشاد، ج 1، ص2

بھائی: طالب، عقیل اور جعفر۔

بہنیں: ہند یا ام ہانی، جمانہ، ریطہ یا ام طالب اور اسماء۔

بحار الانوار  مجلسی، ج 19، ص 57

کنیت:

ابو الحسن،

ابو الحسین،

ابو السبطین،

ابو الریحانتین،

ابو تراب

ابو الآئمہ

القاب:

امیر المؤمنین،

یعسوب الدین والمسلمین،

مبیر الشرک والمشرکین،

قاتل الناکثین والقاسطین والمارقین،

مولٰی المؤمنین،

شبیہ ہارون،

حیدر،

مرتضی،

نفس الرسول،

أخو الرسول،

زوج البتول،

سیف اللّہ‏ المسلول،

امیر البررة،

قاتل الفجرة،

قسیم الجنّة والنار،

صاحب اللواء،

سیّد العرب،

کشّاف الکرب،

الصدّیق الأکبر،

ذوالقرنین،

الھادی،

الفاروق الاعظم،

الداعی،

الشاھد،

باب المدینة،

والی،

وصیّ،

قاضی دین رسول اللّہ‏،

منجز وعدہ،

النبأ العظیم،

الصراط المستقیم

والأنزع البطین،

ابن شہر آشوب، ج 3، ص 321-334

لقب امیر المؤمنین:

امیر المؤمنین کے معنی مؤمنین کے امیر، حاکم اور رہبر کے ہیں۔ شیعہ امامیہ کے مطابق یہ لقب حضرت علی (ع) کے ساتھ مختص ہے۔ ان کے مطابق یہ لقب پہلی بار پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی کے لئے استعمال کیا تھا اور صرف آپ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسی لیے شیعہ امامیہ اس کا استعمال دوسرے غاصب خلفاء حتی امام علی (ع) کے علاوہ اپنے دوسرے ائمہ (ع) کے لیے بھی صحیح نہیں سمجھتے۔

حیات طیبہ:

امام علی (ع) 23 عام الفیل 13 رجب بروز جمعہ خانہ کعبہ کے اندر متولد ہوئے۔

شیخ مفید، الارشاد، ج 1، ص 5

امام علی (ع) کے مقام ولادت کے بارے میں شیخ مفید کی عبارت کچھ یوں ہے:

وُلِدَ بِمَکَّةَ فِی البَیتِ الحرامِ،

مکہ میں بیت الحرام کعبہ میں پیدا ہوئے۔

مسعودی نے امام علی (ع) کے مقام ولادت کے بارے میں لکھا ہے:

وکان مولدہ فی الکعبة،

آپ کا مولد (مقام ولادت) کعبہ تھا۔

مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج 2، ص 349

کعبہ میں آپ کی ولادت کی روایت کو سید رضی، شیخ مفید، قطب راوندی اور ابن شہر آشوب سمیت تمام شیعہ علماء اور حاکم نیشاپوری، حافظ گنجی شافعی، ابن جوزی حنفی، ابن صباغ مالکی، حلبی اور مسعودی سمیت بیشتر سنی علماء متواتر (مسَلَّمہ) سمجھتے ہیں۔

الغدیر، علامہ امینی، ج 6، ص 21-23

آپ 19 رمضان سن 40 ہجری کی صبح ابن ملجم مرادی ملعون کے ہاتھوں مسجد کوفہ میں زخمی ہوئے اور اسی مہینے کی 21 تاریخ کو جام شہادت نوش کر گئے۔

شیخ مفید، الارشاد، ج 1، ص 9

آپ (ع) کے بچپن کا زمانہ:

آپ 6 سال کے تھے کہ مکہ میں قحط پڑ گیا۔ ابو طالب کا کنبہ بڑا تھا اور پورے کنبے کے اخراجات برداشت کرنا، قحط سالی میں ان کے لیے کافی دشوار تھا۔ اسی بناء پر حضرت محمد (ص) اور آپ کے چچا عباس اور حمزہ نے اس سلسلے میں ابو طالب (ع) کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ عباس جعفر کو، حمزہ طالب کو اور حضرت محمد (ص)، حضرت علی (ع) کو اپنے اپنے گھر لے گئے۔

السیرہ النبویہ، ابن ہشام، ج‏1، ص‏236

بحار الانوار، مجلسی، ج 35 ص 118

حضرت علی (ع) کی ابتدائی درسگاہ:

اگرچہ تاریخی روایات کے مطابق رسول خدا (ص) کے گھر آپ کی منتقلی قحط سالی کی وجہ سے تھی، لیکن خود آپ (ع) کے کلام میں اس بات کی طرف ایسا کوئی اشارہ نہيں ملتا اور لگتا ہے کہ مشیت الہی کا تقاضا تھا کہ علی (ع) ، رسول خدا (ص) کے گھر میں منتقل ہوں یا یوں کہیے کہ رسول خدا (ص) کو حکم تھا کہ اللہ کے ولی اور اپنے جانشین کو اپنے گھر منتقل کریں اور اللہ کی مشیت ازلی کے مطابق ان کی تربیت کریں اور آپ براہ راست سید المرسلین کے مکتب سے علوم کے خزانے سمیٹ لیں، حالانکہ قبل ازاں بھی ان کا گھر الگ نہ تھا اور جب علی (ع) پیدا ہوئے تو، رسول خدا نے جو اس وقت ابو طالب کے زیر سرپرستی تھےـ آپ کی تربیت کا آغاز کیا۔

روایت میں ہے کہ جب علی (ع) پیدا ہوئے تو رسول خدا (ص) پہلے دن سے ہی آپ کو چھوٹے بھائی یا اپنی اولاد کی نظر سے دیکھتے تھے اور آپ کی تربیت میں فاطمہ بنت اسد (س) کا ہاتھ بٹاتے تھے، آپ کے گہوارے کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ جاتے تھے یا پھر علی (ع) کو گود میں لے لیتے تھے، آپ کو کھانا کھلاتے تھے اور سلا دیتے تھے۔

محسن امین العاملی، اعیان الشیعۃ، ج 1، ص 335

سیرہ ابن ہشام، ج 1، ص 187

شرح العلامۃ الزرقاني علی المواہب اللدنيۃ بالمنح المحمديۃ،

الاستیعاب۔ سیرہ ابن ہشام، ج 1، ص 245

جب علی (ع) نے کچھ بڑے ہو کر زبان کھولی تو، رسول خدا ہی نے آپ کو زبان سکھانے کی ذمہ داری سنبھالی۔ آپ (ص) علی (ع) کو کندھے پر اٹھاتے اور کوہ و صحرا کی سیر کراتے اور آپ سے بات چیت کرتے اور آپ کے تجسس آمیز سوالات کے جوابات دیتے، علی (ع)، رسول خدا (ص) کے خاندان کے رکن تھے اور ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔

نہج ‌البلاغہ، خطبہ قاصعہ،

اسی دائمی تعلق و ہمراہی کی بناء پر ہی سنی اور شیعہ سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) نے علی (ع) سے مخاطب ہو کر فرمایا:

أنت مني وأنا منك،

تم میرے وجود کا جزو ہو اور میرے تمہارے وجود کا جزو ہوں۔

صحیح، ترمذی، ج2، ص297 و 299

مسند، ابن حنبل، ج1، ص108 و330

اور فرمایا:

اِنَّ علیاً لَحْمُہ مِنْ لَحْمِي و دَمُہُ مِنْ دَمِي،

علی کا گوشت، میرے گوشت سے ہے اور ان کا خون، میرے خون سے ہے۔

کنز العمال، ج12،  ص 1176

اور علی(ع)، رسول خدا (ص) کے گھر سے ہی علوم باطنیہ اور علوم ظاہریہ کے مالک بنے، یہاں تک کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

أعلم أمتي من بعدي علي بن أبی طالب،

میرے بعد میری امت کے عالم ترین فرد علی ابن ابیطالب ہیں،

کنز العمال، ج12، ص1217

اور علی (ع) خود فرماتے تھے:

سلوني قبل ان تفقدوني فإني لا أُسأَلُ عن شيءٍ دونَ العرشِ إلّا أَخبرتُ عَنہ،

مجھے کھو جانے سے قبل ہی مجھ سے پوچھو لو جو پوچھنا چاہو پس یقینا میں عرش کے نیچے ہر اس چیز کا جواب دے سکتا ہوں، جس کے بارے میں مجھ سے پوچھا جائے۔

کنز العمال، ج15، ص417

رسول خدا (ص) 8 سال کی عمر میں حضرت ابو طالب (ع) کے گھر میں منتقل ہوئے تھے، حضرت علی (ع) 6 سال کی عمر میں رسول خدا (ص) کے گھر منتقل ہوئے۔

امام علی (ع) خود اس دور کے بارے میں فرماتے ہیں:

تم جانتے ہو کہ رسول خدا کے نزدیک میرا کیا مرتبہ تھا اور آپ سے میری قرابت کس حد تک تھی۔ جب میں بچہ تھا، رسول خدا مجھے اپنے ساتھ سلاتے اور مجھے اپنے سینے پر جگہ دیتے تھے اور مجھے اپنے بستر پر لٹاتے تھے، یہاں تک کہ میرا بدن آپکے بدن سے مس کرتا تھا اور اپنی خوشبو مجھے سونگھا دیتے تھے۔ کبھی کچھ دہن مبارک میں چبا کر مجھے کھلا دیا کرتے تھے۔ آپ نے کبھی مجھ سے جھوٹ نہیں سنا اور میرے کردار میں کبھی کسی خطا کا مشاہدہ نہیں کیا اور میں اس طرح آپ کے پیچھے چلتا اور سفر و حضر میں اس طرح آپ کے ساتھ رہتا تھا کہ جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہے۔ رسول خدا ہر روز اپنے اخلاق کا ایک نمونہ میرے لیے بیان کر دیتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کا حکم دیتے تھے، ہر سال غار حراء میں خلوت اختیار کرتے تھے تو، صرف میں آپ کو دیکھتا تھا اور میرے سوا کوئی آپ کو نہیں دیکھتا تھا۔ جس زمانے میں سوائے اس گھر کے جس میں رسول خدا اور خدیجہ کبری تھےـ اسلام و ایمان کسی گھر میں داخل نہيں ہوا تھاـ میں ان کے درمیان تیسرا فرد تھا، وحی اور نبوت کی روشنی کو دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو کو محسوس کرتا تھا۔ جب آپ پر ( پہلی ) وحی نازل ہوئی تو، میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی۔ میں نے عرض کیا:

یا رسول اللہؐ یہ آواز کیسی ہے؟ فرمایا: یہ شیطان ہے جو اس بات سے خوفزدہ ہے کہ لوگ اس کی پرستش چھوڑ دیں گے، بےشک تم وہ سنتے ہو جو میں سنتا اور تم وہ دیکھتے ہو جو میں دیکھتا ہوں، سوائے اس کے کہ تم نبی نہیں ہو۔ تم میرے وزیر ہو اور خیر کی راہ پر گامزن اور مؤمنین کے امیر ہو۔

نہج البلاغہ ، خطبہ 192 (القاصعة)

ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، تحقیق مصطفی السقاء، ص 262

اگر کوئی کہے کہ آپ کا اسلام اور ایمان بچپنے کی حالت میں تھا تو، در حقیقت یہ رسول خدا کے علم و عقل پر اعتراض کرنا ہے، کیونکہ آپ نے نہ صرف آپ کا ایمان و اسلام قبول کیا بلکہ دعوت ذوالعشیرہ میں بنو عبد المطلب کے دعوت شدہ مردوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:

إنّہ ھذا أخي ووصيّي وخليفتي فيكم، فاسمعوا لہ وأطيعوا،

یقینا یہ میرے بھائی اور وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ و جانشین ہیں پس ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔

طبري، التاریخ، ج2، ص319ـ 321، ط دار المعارف مصر

كامل ابن اثير، ج2، ص 62ـ 36 ط دار صادر بيروت

سيرہ حلبي، ج71 ص 311، ط البہيۃ، ط مصر

تاريخ ابن عساكر، ج1، ص 65، حديث 139 و 140

یوں آپ (ص) نے آپ (ع) کے ایمان کو تسلیم کیا اور اس کی بنیاد پر آپ کو اپنا بھائی، وزیر، خلیفہ اور وصی قرار دیا جبکہ دوسرے مسلمانوں کے اسلام پر انہیں ایسے کسی عہدے سے نہيں نوازا گیا، چنانچہ آپ کا ایمان سب پر بھاری تھا، جس کا ثبوت رسول خدا (ص) کا مذکورہ کلام ہے۔

جسمانی قوت اور طاقت:

بعض منابع کے مطابق رسول خدا (ص) نے انہیں بطین کے لقب سے نوازا، اسی وجہ سے بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ امام علی (ع) جسمانی لحاظ سے موٹاپے کی طرف مایل تھے، لیکن بعض نے اس بطین سے البطین من العلم (یعنی علم سے بھرا ہوا) مراد لیا ہے۔ دیگر اور قرائن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض زیارتوں میں حضرت علی (ع) کو بطین کی صفت سے یاد کیا گیا ہے۔

مستدرك‏ الوسائل ج  18 ص  152

ابن قتیبہ نے لکھا ہے: امام علی جس کسی کے ساتھ بھی لڑے، اس کو زمین پر دے مارا۔

ابن قتیبہ، المعارف، بیروت: دار الکتب العلمیہ، ص 121

ابن ابی الحدید کہتا ہے: امام علی کی جسمانی قوت ضرب المثل میں بدل گئی ہے۔ آپ ہی تھے جنہوں نے در خیبر اکھاڑا اور ایک جماعت نے وہ دروازہ دوبارہ لگانے کی کوشش کی لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے ہبَل نامی بت کو جو حقیقتاً بڑا بت تھا، کعبہ کے اوپر سے زمین پر دے مارا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک بہت بڑی چٹان کو اکھاڑ دیا اور اس کے نیچے سے پانی ابل پڑا، جبکہ آپ کے لشکر میں شامل تمام افراد مل کر بھی اس کو ہلانے میں ناکام ہو چکے تھے۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 21

جہاد میں شرکت:

امام علی (ع) نے اسلام کے غزوات اور سرایا میں بہت ہی مؤثر کردار ادا کیا۔ غزوہ تبوک کے سوا تمام غزوات میں رسول خدا کے ساتھ دشمنان اسلام کے خلاف لڑے۔ آپ (ع) نے اسلام اور مسلمین کے خلاف لڑی جانے والی تمام جنگوں حضرت محمد (ص) کے بعد دوسری اسلامی عسکری شخصیت کے عنوان سے کردار ادا کیا ہے۔

طبقات الکبری، ابن سعد، ج 3، ص 24

جنگ بدر:

جنگ بدر، یا غزوہ بدر مسلمانوں اور کفار کے درمیان پہلی جنگ تھی جو بروز جمعہ 17 رمضان المبارک سن 2 ہجری کو بدر کے کنوؤں کے کنارے واقع ہوئی۔

انساب الاشراف، بلاذری، ج1، ص2883

اس جنگ میں مسلمانوں نے مشرکین کو ہلاک کر دیا، جن میں کفر و شرک کے بعض بڑے بڑے نام: ابو جہل، عتبہ، شیبہ، امیہ وغیرہ بھی شامل تھے۔

عرب روایات کے مطابق عمومی حملے سے قبل افراد کے درمیان تن بہ تن لڑائی ہوتی تھی۔ چنانچہ اموی خاندان کا عتبہ ابن ربیعہ اور اس کا بیٹا ولید اور بھائی شیبہ، نے پیغمبر سے کہا: ہمارے مقابلے کے لیے ہمارے ہم رتبہ آدمی روانہ کریں۔ حضرت محمد (ص)، نے على (ع)، حمزہ اور عبیدة ابن حارث کو ان کے مقابلے کے لیے بھجوایا۔ علی (ع) نے ولید کو اور حمزہ نے عتبہ کو زیادہ فرصت دیئے بغیر ہلاک کر دیا اور پھر جا کر عبیدہ کی مدد کر کے ان کے دشمن کو بھی ہلاک کر ڈالا۔

تاریخ طبری،  طبری، ج 2، ص 148

نیز اس جنگ میں حنظلہ، عاص ابن سعید اور طعیمہ ابن عدی سمیت قریش کے تقریبا 20 بہادر جنگجو، امام علی کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے۔

سیرہ ابن شام، ج 1، ص 708-713

جنگ احد:

جنگ احد میں مسلمانوں کی پہلی صف میں سب سے آگے علىؑ، حمزہ ، اور ابو دجانہ وغیرہ لڑ رہے تھے، جنہوں نے دشمنوں کی صفوں کو کمزور کر دیا۔ رسول خدا (ص) کو ہر طرف سے لشکر قریش کے مختلف گروہوں کی طرف سے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جو بھی گروہ آپؐ پر حملہ کرتا، علیؑ آپ (ص) کے حکم سے اس پر حملہ کر دیتے تھے۔ اس جان نثاری کے صلے میں جبرائیل نازل ہوئے اور رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہو کر علیؑ کے ایثار کی تعریف و تمجید کی اور عرض کیا:

یہ ایثار اور قربانی کی انتہاء ہے جو وہ دکھا رہے ہیں۔

رسول خدا (ص) نے تصدیق کرتے ہوئے فرمایا:

إِنَّہ ُمِنِّي وَأَنَا مِنْہ ،

وہ مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔

اس کے بعد ایک ندا آسمان سے سنائی دی:

لا سیف الا ذوالفقار و لا فتٰی الا علي۔

ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں اور علی کے سوا کوئی جوان نہیں ہے۔

ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج‏2، ص‏107

جنگ خندق (احزاب):

جنگ خندق میں رسول خدا (ص) نے اصحاب کے ساتھ مشورہ کیا تو سلمان فارسی نے رائے دی کہ مدینہ کے اطراف میں ایک خندق کھودی جائے، جو حملہ آوروں اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو۔

سیرہ ابن‌ ہشام، ج3، ص235

کئی دن تک لشکر اسلام اور لشکر کفر خندق کے دو کناروں پر آمنے سامنے رہے اور کبھی کبھی ایک دوسرے کی طرف تیر یا پتھر پھینکتے تھے، بالآخر لشکر کفار سے عمرو ابن عبدود اور اس کے چند ساتھی خندق کے سب سے تنگ حصے سے گزر کر دوسری طرف مسلمانوں کے سامنے آنے میں کامیاب ہوئے۔ علی (ع) نے رسول خدا (ص) سے درخواست کی کہ انہیں عمرو کا مقابلہ کرنے کا اذن دیں اور آپ (ص) نے اذن دے دیا۔ علی (ع) نے عمرو کو زمین پر گرا کر ہلاک کر دیا۔

تاریخ  طبری، ج2، ص574-573

جب علی (ع) عمرو کا سر لے کر رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (ص) نے فرمایا:

ضَربَةُ عَليٍ يَومَ الخَندَقِ اَفضَلُ مِن عِبادَةِ الثَّقَلَینِ۔

روز خندق علی کا ایک وار جن و انس کی عبادت سے افضل ہے۔

بحار الانوار مجلسی، ج‏20، ص‏216

بغدادی،تاریخ بغداد، ج 13 ص 18

جنگ خیبر:

جنگ خیبر ماہ جمادی الاولی سن 7 ہجری میں واقع ہوئی، جب رسول خدا نے یہودیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کے قلعوں پر حملہ کرنے کا فرمان جاری کیا اور جب ابوبکر اور عمر ڈر کی وجہ سے یہودی قلعوں کی تسخیر کے مشن میں بالکل ناکام رہے اور ان دونوں کے میدان جنگ سے فرار کرنے کے بعد، تو رسول خدا (ص) نے فرمایا:

لأعطين الراية رجلا يحب اللہ ورسولہ و يحبہ اللہ ورسولہ،

میں کل پرچم ایسے فرد کے سپرد کر رہا ہوں جو خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور اس کا رسول بھی اسے دوست رکھتے ہیں۔

سیرہ ابن ہشام، ج 2، ص 328

صحیح مسلم، ج 15، ص 178-179

صبح کے وقت رسول خدا (ص) نے علی (ع) کو بلایا اور پرچم ان کے سپرد کر دیا۔

علیؑ اپنی ذوالفقار لے کر میدان جنگ میں اترے اور جب ڈھال ہاتھ سے گر گئی تو آپ نے ایک قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر اسے ڈھال قرار دیا اور جنگ کے آخر تک اسے ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔

شیخ مفید، الارشاد، 590

فتح مکہ:

رسول خدا (ص) ماہ مبارک رمضان سن 8 ہجری کو فتح مکہ کی غرض سے مدینہ سے خارج ہوئے۔ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے لشکر اسلام کا پرچم سعد ابن عبادہ کے ہاتھ میں تھا، لیکن سعد نے جنگ ، خون ریزی اور انتقام جوئی کے بارے میں باتیں کیں۔ پیغمبر اسلام (ص) کو جب اس بارے میں معلوم ہوا تو، آپ نے امام علی (ع) کو کہا کہ اس سے تم پرچم لے لو۔ فتح مکہ کے بعد رسول خدا کی ہدایت پر تمام بتوں کو توڑ دیا گیا اور آپ (ص) کی ہدایت پر علی (ع) نے آپ (ص) کے دوش پر کھڑے ہو کر سارے بتوں کو توڑ دیا۔ امام علیؑ نے خزاعہ کے بت کو کعبہ کے اوپر سے نیچے گرا دیا اور مستحکم بتوں کو زمین سے اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیا۔

السیرہ الحلبیہ، حلبى، ج 3، ص 30

جنگ حنین:

جنگ حنین سن 8 ہجری میں واقع ہوئی۔ اس غزوہ کا سبب یہ تھا کہ قبیلہ ہواز اور قبیلہ ثقیف کے اشراف نے فتح مکہ کے بعد رسول اللہ کی طرف اپنے خلاف جنگ کے آغاز کے خوف سے حفظ ما تقدم کے تحت مسلمانوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ علی (ع) اس جنگ میں مہاجرین کے علمبرار تھے اور آپ نے 40 کے قریب دشمنوں کو ہلاک کر دیا۔

المغازی، واقدی، ج3، ص885

المغازی، واقدی، ج3، ص902 و 904

جنگ تبوک:

وہ واحد غزوہ کہ جس میں علی (ع) نے رسول اللہ (ص) کے ساتھ، خود رسول اللہ کے حکم کے مطابق شرکت نہیں کی، وہ غزوہ تبوک تھا۔ علی (ع) رسول اللہ (ص) کی ہدایت پر مدینہ میں ٹہرے تا کہ آپ (ص) کی غیر موجودگی میں مسلمانوں اور اسلام کو منافقین کی سازشوں سے محفوظ رکھیں۔

علی (ع) کے مدینہ میں ٹھہرنے کے بعد، منافقین نے علی (ع) کے خلاف تشہیری مہم کا آغاز کیا اور علی نے فتنے کی آگ بجھانے کی غرض سے اپنا اسلحہ اٹھایا اور مدینے سے باہر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور منافقین کی تشہیری مہم کی اطلاع دی۔

یہی وہ موقع تھا جب رسول اللہ نے حدیث منزلت ارشاد فرمائی کہ:

میرے بھائی علی! مدینہ واپس پلٹ جاؤ، کیونکہ وہاں کے معاملات سلجھانے کے لیے تمہارے اور میرے بغیر کسی میں اہلیت نہیں ہے۔ پس تم میرے اہل بیت اور میرے گھر اور میری قوم کے اندر میرے جانشین ہو ! کہ تم خوشنود نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے، جو موسی سے ہارون کی تھی، سوا اس کے میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

شیخ مفید، الارشاد، ج 1، ص 156

سیرہ ابن ہشام، ج 4، ص 163

دلائل امامت امیر المؤمنین علی (ع):

شیعہ عقائد کے مطابق نبی اور امام کا معصوم ہونا ضروری ہے، کیونکہ ان کے نزدیک یہ الہی عہدے ہیں نیز نبی اور امام بنیادی طور پر خداوند کے نمائندے ہیں۔

نبی اور رسول خدا کی طرف سے پیغامات کو وحی کی صورت میں لیتے ہیں اور پھر انہیں انسانوں تک ابلاغ کرتے ہیں، جبکہ امام اسی وحی شدہ پیغامات کی محافظت کا فریضہ انجام دیتا ہے اور نبی کے بعد لوگوں کیلئے قرآن کی تفسیر اور معارف دین کی تبیین میں علمی مرجع کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے اسے خطا سے پاک اور معصوم ہونا چاہیے تا کہ وہ قرآن اور دینی معارف کو کسی قسم کی خطا کا ارتکاب کیے بغیر منشائے الہی کے مطابق بیان کرے اور لوگ اسکی بات پر اعتقاد رکھ سکیں۔

اگر امام معصوم نہ ہو تو لوگوں کے درمیان سے اسکا اعتماد اٹھ جائے گا اور لوگوں کی ہدایت کی خاطر آئمہ مقرر کرنے کے خدائی ہدف میں خلل اور نقض لازم آتا ہے۔ اس وجہ سے شیعہ عقیدے کے مطابق امام کا معصوم ہونا واجب اور ضروری ہے۔

آیت اطاعت:

يَا أَيُّھا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّہ َ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ۔

اے ایمان والو! فرماں برداری کرو اللہ کی اور فرماں برداری کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں فرماں روائی کے حق دار [اور تمہارے اولیائے امر] ہیں۔

سورہ نساء، آیت 59

تمام شیعہ اور اکثر سنی علماء کا اتفاق ہے کہ یہ آیت کریمہ امام علی اور آئمہ کی شان میں نازل ہوئی ہے اور ان کے وجوبِ اطاعت کا واضح ثبوت ہے۔

اصول کافی، کلینی، ج1، ص 189

صدوق، الہدایہ، ص 31

صدوق، کمال الدین، ص 24

تذکرہ الفقہاء، حلی، ج 1، ص 453

بحار الانوار، مجلسی، ج23، ص89

فیض کاشانی، الحق المبین، ص 4

طبرسی، جوامع الجامع، ج1، ص 410

تفسیر البرھان، حویزی، ج2، ص 158

تفسیر المیزان، طباطبایی، ج4، ص 411

آیت ولایت:

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّہ ُ وَرَسُولُه ُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ،

تمہارا ولی امر (یعنی حاکم و سر پرست) بس اللہ ہے اور اس کا پیغمبر اور وہ ایمان رکھنے والے جو نماز ادا کرتے ہیں اور حالتِ رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں۔

سورہ مائدہ آیت 55

یہ آیت امام علی (ع) اور دیگر آئمہ (ع) کی ولایت کو ثابت کرتی ہے۔ مفسرین نے ثابت کیا ہے کہ یہ آیت امام علی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ جب آپ نے ایک سائل کو رکوع کی حالت میں اپنی انگشتری عطا فرمائی تھی۔

تفسیر قرطبی، ج6، ص208

تفسیر المیزان، طباطبایی، ج6، ص25

تفسیر کبیر، فخر رازی، ج12، ص30

سیوطی، الدر المنثور، ج3، ص98

حدیث منزلت:

رسول خدا (ص) نے علی (ع) سے مخاطب ہو کر فرمایا:

أنتَ مِنِّي‌ بمَنزِلَةِ ھارونَ مِن‌ مُوسَي‌ إلا أنَّہ لا نَبيَّ بعدي،

مجھ سے تمہاری نسبت وہی ہے جو موسی سے ہارون کو ہے سوا اس کے، کہ میرے بعد کوئی نبی نہ آئے گا۔

قندوزی حنفی، ینابیع المودہ، ص 50

حدیث یوم انذار (دعوت ذوالعشیرہ):

رسول خدا (ص) نے جب اپنے خاندان والوں کو ابلاغ رسالت کا الہی فریضہ انجام دیا اور صرف علی (ع) نے آپ کی دعوت قبول کی تو آپ نے فرمایا:

أنتَ أخِي‌، وَ وَزِيري وَ وارِثِي وَ خَلِيفَتِي مِن بَعدِي،

تم میرے بھائی، وزیر اور وارث اور میرے بعد میرے جانشین ہو۔

کفایۃ الطالب، گنجی شافعی، ص 205

رسول خدا (ص) سے متعدد احادیث منقول ہیں کہ جن میں امیر المؤمنین علی (ع) اور آپ کے بعد بقیہ 11 آئمہ کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث تمام آئمہ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔

مفید، الاختصاص، ص211

منتخب الاثر باب ہشتم ص97

طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181

عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285

جابر ابن عبد اللہ کہتے ہیں کہ:

سورہ نساء کی آیت 59 (اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم) نازل ہوئی تو رسول اللہ نے 12 آئمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعت اور اولو الامر ہیں۔

بحار الأنوار ج 23 ص290

اثبات الہداة ج 3،‌ ص 123

المناقب ابن شہر آشوب، ج1، ص 283

روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں۔

بحار الأنوار ج36 ص337

کفایة الأثر ص 157

ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپ (ص) نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔

سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، ج 2، ص 387 – 392، باب 76۔

واقعۂ غدیر:

رسول خدا (ص) نے سن 10 ہجری میں اپنے حج کا فریضہ انجام دینے اور اس کے احکام مسلمانوں کو سکھانے کی غرض سے مکہ کی طرف عزیمت کی۔ حج کے اعمال مکمل ہوئے اور رسول اللہ مکہ کو ترک کر کے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو اس وقت مسلمانوں کا ایک جم غفیر آپ کے ہمراہ تھا۔ 18 ذی الحجہ کے دن جب یہ قافلہ جحفہ کے قریب غدیر خم کے مقام پر پہنچا تو وحی نازل ہوئی اور آپ کو حکم ہوا کہ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کی ولایت و جانشینی کا اعلان فرمائیں، چنانچہ آپ نے ہدایت کی کہ سب رک جائیں تا کہ پیچھے رہنے والے آ پہنچیں۔

اس کے بعد رسول اللہ نے آیت تبلیغ کے ضمن میں آنے والے پروردگار کے حکمِ کا ابلاغ فرمایا، جو کچھ یوں تھا:

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ،

اے پیغمبر ! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اس کا پیغام پہنچایا ہی نہیں اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا، بلا شبہ اللہ کافروں کو منزل تک نہیں پہنچایا کرتا۔

سورہ مائدة آیت 67

مناقب علی بن ابی طالب، ابن ‌مغازلی، ص 16

اصول کافی ، کلینی، ج1، ص290

طبرسی، احتجاج، ج1، ص73

تفسیر قمی، علی بن ابراہیم، ج1، ص 173

تفسیر المنار، رشید رضا، ج6، ص 464

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول خدا (ص) نے مسلمانوں سے فرمایا:

أَلَستُ أَولٰى بِالمُؤمِنِينَ مِن أَنفُسِهِم ؟ قالوا بَلىٰ، قال: مَن کُنتُ مَولاه ُ فَهذا عَلٰى مَولاہ ُ، اللّٰهُمَّ والِ مَن والاہ ُ وَعادِ مَن عاداہ ُ وَانصُر مَن نَصَرَہ ُ وَاخذُل مَن خَذَلَه ُ۔

کیا میں مؤمنین پر حقِ تصرف رکھنے میں ان پر مقدم نہیں ہوں ؟ سب نے کہا: کیوں نہیں ! چنانچہ آپ نے فرمایا: میں جس کا مولا و سرپرست ہوں، یہ علی اس کے مولا اور سرپرست ہیں، یا اللہ ! تو اس کے دوست کو دوست رکھ اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ ، جو اس کی نصرت کرے اس کی مدد کر اور جو اس کو تنہا چھوڑے اس کو خوار و تنہا کر دے۔

احمد ابن حنبل، مسند ج 1 ص 119

محمد بن یزید قزوینی، سنن ابن ماجہ ج 1 ص 34، 119

نسائی، فضائل الصحابہ ص 16

ابو یعلی موصلی، مسند ابی یعلی ج 1 ص 429

شیخ صدوق،معانی الاخبار ص 8 ، 67

محمد بن سلیمان کوفی،مناقب امیر المومنین ج 2 ص 368

قاضی نعمان مغربی، شرح الاخبار ج 1 ص 24 ، 100

ابن مغازلی شافعی، مناقب علي بن ابي طالب، ص 24

شہادت رسول خدا (ص) اور سقیفہ بنی ساعدہ:

رسول خدا (ص) کی حیات طیبہ کے آخری لمحات تھے، جب علی (ع) آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول خدا نے ایک طویل راز آپ کو بتایا اور اس کے بعد آپ کی بیماری نے شدت اختیار کی اور علی (ع) سے ارشاد فرمایا:

میرا سر اپنی آغوش میں رکھنا، کیونکہ اللہ کا فرمان آن پہنچا ہے، جب روح میرے بدن سے جدا ہو جائے تو اسے اپنے ہاتھ میں لے لینا اور اپنے چہرے پر مل لینا اور اس کے بعد مجھے قبلہ رخ لٹا دینا اور تجہیز و تکفین کرنا اور سب سے پہلے میرے بدن پر نماز بجا لانا اور جب تک تم نے میرا پیکر خاک میں نہاں نہیں کیا ہو تو مجھ سے جدا نہ ہونا اور اللہ تعالی سے مدد طلب کرنا۔

شیخ مفید، الارشاد، ج 1، ص 186

حضرت محمد (ص) کے وصال کے بعد على (ع) اور بنی ہاشم، آپ کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں مصروف تھے لیکن ابو بکر، عمر، ابو عبیدہ جراح، عبد الرحمن ابن عوف، سعد ابن عبادہ، ثابت ابن قیس اور عثمان ابن عفان سمیت بعض مہاجرین و انصار مدینہ سے نکل گئے اور سقیفۂ بنی ساعدہ نامی مقام پر جمع ہوئے تا کہ حکومت کا فیصلہ کریں ! جہاں ان کے درمیان تنازعات اور اختلافات اور بحث و جدل کے بعد ابو بکر کو رسول خدا کے بعد خلیفہ کے عنوان سے متعارف کرایا گیا اور کچھ ہی عرصہ قبل مقام غدیر پر ہونے والے اعلان خلافت اور علی (ع) کے ہاتھ پر ان سب کی بیعت کےاعلان کو بھلا دیا گیا۔

شرح نہج البلاغہ،  ابن ابی الحدید، ج 6، ص 8

ابوبکر، عمر اور عثمان کا دور:

ابوبکر کا دور شروع ہوتے ہی خاندان رسول کو نہایت ہی ہولناک حوادث و واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں یہ تین واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں:

علی (ع) کے گھر پر حملہ اور ابوبکر کے لیے جبری بیعت۔

شیخ طوسی، تلخیص الشافی، ج‏3، ص‏76

الملل و النحل، شہرستانی، ج‏2، ص 95

الامامۃ والسیاسۃ، ابن قتیبہ ، ج‏2، ص 12

فدک کو غصب کیا گیا۔

السیرۃ الحلبیۃ، حلبى، ج‏3، ص 400

شرح نہج البلاغہ، ابن ابى الحدید، ج‏16، ص‏316

انساب الاشراف، بلاذری، ص 40

اصول کافی، کلینی، ج 1 ص 543

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو شہید کرنا۔

ان تینوں غیر شرعی خلفائے ثلاثہ کا دور 25 سال تک جاری رہا، تاہم امام علی (ع) نے اسلامی معاشرے کے دیگر معاملات سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی بلکہ آپ نے اس دور میں بہت زیادہ علمی اور سماجی خدمات سر انجام دیں،جن میں درج ذیل امور خاص طور پر قابل ذکر ہیں:

قرآن کی جمع آوری،

دینی امور، فتوحات اور انتظامات حکومت میں تینوں خلفاء کو مشورے دینا، غربا، ایتام اور مساکین کو خیرات دینا اور امداد فراہم کرنا،

غلام آزاد کرنا، حتی کہ روایات میں ہے کہ آپ نے ایک ہزار غلام خرید کر آزاد کیے،

زراعت، شجرکاری، کاریزوں کی کھدائی اور انہیں وقف کرنا،

مساجد کی تعمیر، منجملہ مدینہ میں مسجد فتح، حمزہ سید الشہدا کے مزار کے ساتھ ایک مسجد، میقات میں ایک مسجد، کوفہ میں ایک مسجد اور بصرہ میں ایک مسجد،

مختلف مقامات اور املاک وقف کرنا جن کی مجموعی آمدنی چالیس ہزار دینار تک بتائی گئی ہے۔

مناقب ، ابن شہر آشوب، ج‏1، ص‏388

ذیل میں اس دور کے بعض اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا جائے گا:

بیعت:

بیعت سے امام علی (ع) کا اجتناب اور بعض صحابہ کے خلافت ابوبکر کے مخالف اقدامات ابوبکر اور حتی عمر کے لیے سنجیدہ خطرے میں تبدیل ہو گئے۔ چنانچہ ابوبکر اور عمر نے اس خطرے کے خاتمے اور اپنے منصوبے کے تحت علی ابن ابیطالب کو بیعت پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔

سیرہ پیشوایان، پیشوائی، ج 2، ص 191

ابوبکر نے کئی مرتبہ امام علی (ع) سے بیعت لینے کیلئے قُنفُذ نامی شخص کو امام علی (ع) کے گھر کے دروازے پر بھجوایا لیکن امام نے قبول نہ کیا چنانچہ عمر نے ابوبکر سے کہا: خود ہی اٹھو، ہم مل کر علی ابن ابیطالب کے پاس جاتے ہیں اور یوں ابو بکر، عمر، عثمان، خالد ابن ولید، مغیرہ ابن شعبہ، ابو عبیدہ جراح اور قنفذ علی (ع) کے گھر کے دروازے پر پہنچے۔

یہ گروہ جب گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے بنت رسول حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی توہین کی اور دروازے کو دھکا دیا اور سیدہ (س) دروازے اور دیوار کے درمیان دب گئیں اور قنفذ نے عمر کے حکم پر سیدہ (س) کو تازیانے مارے اور اس کے بعد امام علی (ع) پر حملہ کیا اور اپ کا لباس ان کی گردن میں لپیٹا اور انہیں گھسیٹ کر مسجد لے گئے !

الامامۃ والسیاسۃ، ابن قتیبہ، ج 1، ص 29-30

بحار الانوار، مجلسی، ج 43، ص 70

مجلسی، مرآة العقول، ج 5، ص 320

الملل و النحل، شہرستانی، ج1، ص 57

قرآن کی جمع آوری:

شیعہ اور سنی علماء کے بقول امام علی (ع) نے رسول خدا (ص) کی وصیت کے مطابق آپ (ص) کی شہادت کے بعد جمع و تدوین قرآن کا آغاز کیا تھا۔

سیوطی، الاتقان، ج 1، ص 99

فہرست ابن ندیم، ابن ندیم، ص 42ـ41

سلیمان بن عبد الوہاب، فصل الخطاب، ص 97

فیض کاشانی، تفسیر الصافى، ج 1، ص 24

جیسا کہ ایک روایت میں منقول ہے کہ: امام علی (ع) نے قسم اٹھائی کہ جب تک وہ قرآن کو جمع نہ کر لیں، وہ ردا دوش پر نہ ڈالیں گے۔

فہرست ابن ندیم، ابن ندیم، ص 42ـ 41

نیز مروی ہے کہ امام علی (ع) نے رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد قرآن کو 6 مہینوں میں جمع کیا۔

بحار الانوار، مجلسی، ج 89، ص52

اہل روم کے ساتھ جنگ کا واقعہ:

رسول خدا (ص) نے اپنی شہادت سے قبل رومیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اسامہ ابن زید کی سرکردگی میں ایک لشکر روانہ کیا لیکن وہ لشکر روانہ نہيں ہوا ! بلکہ ابوبکر کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی رسول اللہ کے فرمان پر عمل درآمد کے سلسلے میں غیر یقینی کیفیت کا سامنا رہا۔ چنانچہ صحابہ کی ایک جماعت سے مشورہ کیا گیا اور امام علی (ع) نے ابوبکر کو رسول اللہ کے فرمان پر عمل درآمد کرنے کی ترغیب دلائی اور فرمایا: لڑو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے۔

ابوبکر کو امام علی (ع) کی ترغیب پر خوشی ہوئی اور کہا: آپ کا کلام نیک فال ہے اور آپ نے خیر کی بشارت دی ہے۔

تاریخ یعقوبی، یعقوبى، ج 2 ص 113

اسلامی تاریخ کا نقطۂ آغاز:

علی (ع) کی تجویز پر ہی عمر نے مکہ سے رسول اللہ (ص) کی ہجرت کو مسلمانوں کی تاریخ کا آغاز قرار دیا۔

حاکم نیشاپوری، المستدرک علی الصحیحین، ج 3، ص 14

دوران حکومت ظاہری امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ع):

سن 35 ہجری قمری میں قتل عثمان کے بعد اصحاب کی ایک جماعت امام علی (ع) کے پاس حاضر ہوئی اور کہا: ہم کسی کو نہیں جانتے جو خلافت کے لیے آپ سے زیادہ مناسب ہو۔ علی (ع) نے کہا: میں اگر تمہارا وزیر رہوں تو بہتر ہے، اس سے کہ تمہارا امیر بنوں۔

انھوں نے کہا: ہم آپ کی بیعت کے سوا کچھ بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہيں ہیں۔ تب آپ نے فرمایا: میری بیعت رازداری میں نہيں ہو گی، بلکہ مسجد میں ہونی چاہیے۔

تاریخ طبری، ج 4، ص 429

انصار میں سے چند افراد کے سوا سب نے علی (ع) کی بیعت کی۔ مخالفین میں حسان ابن ثابت، کعب ابن مالک، مسلمہ ابن مخلَّد، محمد ابن مُسًلمہ اور چند دیگر افراد شامل تھے، جنہیں عثمانیہ میں شمار کیا جاتا تھا۔ غیر انصاری مخالفین میں عبد اللہ ابن عمر، زید ابن ثابت، اور اسامہ ابن زید کی طرف شارہ کیا جا سکتا ہے، جو عثمان کے قریبیوں میں شمار ہوتے تھے۔

تاریخ طبری، ج 4، ص 427-431

حضرت علی (ع) کی جانب سے لوگوں کی بیعت قبول نہ کرنے کا سبب یہ تھا کہ آپ اپنے دور کے معاشرے کو اس قدر فساد زدہ سمجھتے تھے کہ جس کی قیادت کرنا، اس میں اپنے منصوبوں اور ارادوں کو عملی جامہ پہنانا آپ کے لیے ممکن نہ تھا اور اتفاقا ایسا ہی ہوا جیسا کہ وہ سوچ رہے تھے۔

نہج البلاغہ، خطبہ 92

عوام اور حاکم کے باہمی (دو طرفہ) حقوق:

امام علی (ع) کے نزدیک رعایا پر حاکم کا حق اور حاکم پر رعایا کا حق، سب سے بڑا حق ہے جو خداوند نے مقرر کیا ہے اور یہ مکمل طور پر دو طرفہ حق ہے۔

چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

جس طرح ایک شخص کا دوسرے پر حق ہے، اسی طرح دوسرے کا بھی اس پر حق ہے اور جس کا سب پر حق ہے اور کسی کا اس پر کوئی حق نہیں ہے وہ صرف خداوند متعال کی ذات ہے۔

نہج البلاغہ، خطبہ 207

امام علی (ع) کی نظر میں حاکم اور رعایا کے دو طرفہ حقوق کی رعایت کرنے کے متعدد فوائد و ثمرات ہیں:

جب رعیت والی کی نسبت اپنا حق ادا کرے اور والی بھی رعیت کی نسبت اپنا حق ادا کرے تو، حق کو ان کے درمیان عزت و عظمت ملے گی اور ان کے دین کی بنیادیں استوار ہونگی، عدل کی نشانیاں نمایاں ہونگی اور رسول اللہ کی سنتیں صحیح ڈگر پر آ کر نافذ ہونگی۔

نہج البلاغہ، خطبہ 207

عدل و عدالت:

امام علی (ع) نے اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں ہی خلفاء کی اس غلط روایت کی مخالفت کی کہ جس میں بیت المال کو صدر اول کی جنگوں میں شرکت و سبقت یا پھر ایمان میں سبقت کی بنیاد پر افراد کے درمیان تقسیم کیا کرتے تھے۔ آپ (ع) نے فرمایا:

بیت المال کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کرو اور کسی کو بھی کسی پر ترجیح نہ دو۔ میں نے قرآن کو پڑھ لیا ہے لیکن اس کے اول سے آخر تک مجھے ایسی کوئی بات نہیں ملی ہے کہ اسمٰعیل کے فرزندوں (مکہ کے عربوں) کو اسحٰق کے فزندوں پر کوئی فضیلت و فوقیت حاصل ہے۔

نہج السعادۃ فی مستدرک نہج البلاغہ، محمودی، ج 1، ص 224

شیخ مفید، کتاب الاختصاص، ص 151

آپ نے عمار یاسر اور ابو الہیثم ابن تیہان کو بیت المال کی ذمہ داری سونپ دی تھی اور انہيں تحریری ہدایت کی تھی کہ:

عرب اور عجم اور ہر مسلمان خواہ وہ کسی بھی قوم اور نسل سے ہو بیت المال میں مساوی ہیں۔

حسینی دشتی، سید مصطفی، معارف و معاریف، ج 7، ص 457

نیز جب آپ نے خلافت کا عہدہ سنبھالا تو آپ نے ان تمام زمینوں کو " مال اللہ " قرار دیا جو عثمان نے مختلف افراد میں بانٹ دیں تھیں اور آپ نے حکم دیا کہ انہیں بیت المال میں واپس لوٹا دیا جائے۔

مسعودی، اثبات الوصیہ ، ص 158

بیت المال میں دوستوں اور اقارب کے ساتھ آپ (ع) کا رویہ:

علی (ع) بیت المال کے تحفظ میں سخت گیر اور بہت سخت اصولی رویہ رکھتے تھے، چنانچہ جب آپ کی بیٹی نے بیت المال کے کلید بردار سے موتیوں کا ایک ہار بطور امانت لے لیا تو، آپ نے اپنی بیٹی سے بھی اور کلید بردار علی ابن ابی رافع سے شدت کے ساتھ تفتیش کی۔

تاریخ طبری، ج 3، جزء 6، ص 90

ایک دفعہ ایک صحابی نے آپ سے مخصوص مالی امداد کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا:

نہ تو یہ مال میرا ہے اور نہ ہی تمہارا بلکہ مسلمانوں کے لیے وہ غنیمت ہے جو انھوں نے شمشیر کے ذریعے حاصل کی ہے۔ اگر تم اس جنگ میں شریک ہو تو تمہیں دوسروں کے برابر حصہ ملے گا، ورنہ جو کچھ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے حاصل کیا ہے، مناسب نہیں ہے کہ دوسروں کے منہ میں چلا جائے۔

ابراہیم بن محمد ثقفی، الغارات، ج 2، ص 45

دین اور قانون کے نفاذ میں سختی سے پیش آنا:

امیر المؤمنین علی (ع) دین کے معاملے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے تھے اور اسی بناء پر آپ بعض لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہو گئے تھے۔ ذیل کی دو حکایتیں اس حقیقت کا ثبوت ہیں:

ایک دفعہ آپ نے اپنے غلام قنبر کو حکم دیا کہ ایک مرد پر حد جاری کرے۔ قنبر نے جذباتی ہو کر تین تازیانے زیادہ مارے تو امام علی (ع) نے اس مرد کو اضافی تازیانوں کے عوض قنبر کو تازیانے مارنے پر آمادہ کیا۔

سفینۃ البحار، قمی، ج 2، ص 167

بصرہ کے ایک صاحب ثروت شخص نے ایک دفعہ بصرہ کے والی (گورنر) عثمان ابن حنیف کے لیے ایک مجلس ضیافت ترتیب دی۔ اس ضیافت کی اطلاع امیر المؤمنین علی (ع) کو ملی، چنانچہ آپ نے فوری طور پر عثمان ابن حنیف کے نام خط روانہ کیا اور لکھا:

اے فرزند حنیف ! مجھے اطلاع ملی ہے کہ بصرہ کے ایک صاحب ثروت شخص نے تمہیں ضیافت پر بلایا ہے اور تم نے بھی دعوت قبول کی ہے، حالانکہ وہاں پر  رنگا رنگ کھانوں کو لایا گیا اور تمہارے سامنے رکھا گیا ہے۔ جان لو کہ ہر ماموم (اور پیروکار) کے لیے ایک امام کا ہونا لازم ہے، جو اس کی اقتدا کرتا ہے اور اس کی دانش نور سے فیضیاب ہوتا ہے۔ جان لو کہ تمہارے امام اور پیشوا نے اپنی دنیا میں دو بوسیدہ کپڑوں اور دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔

نہج البلاغہ، نامہ 45

خوشامدیوں اور چاپلوسوں کی مذمت:

امام علی (ع) افراد کی مداحیوں اور ثنا گوئیوں سے بیزار تھے اور مسلمانوں کو ان اعمال سے شدت سے منع کیا کرتے تھے۔ ذیل کی حکایات اس حقیقت کو نمایاں کرتی ہیں:

امیر المؤمنین علی (ع) جنگ صفین سے واپسی پر کوفہ میں ایک شخص حرب ابن شرحبیل شیامی کے ساتھ پیدل چل رہے تھے، جبکہ وہ سواری پر تھا، امام رک گئے اور حرب سے کہا: لوٹو ! مگر حرب نے انکار کیا ! امام (ع) نے دو مرتبہ اس شخص سے کہا:

لوٹو اور واپس چلے جاؤ کیونکہ تم جیسے آدمی کا مجھ جیسے آدمی کے ساتھ پیدل چل کے آنا ایک حاکم و زمامدار کے لیے فتنہ اور ایک مؤمن کے لیے ذلت اور خواری ہے۔

ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج 3، ص 318

ایک دفعہ اصحاب میں سے ایک شخص نے امام علی (ع) کی خوب تعریف و تمجید کی تو، آپ نے اس کو شدت کے ساتھ ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا:

۔۔۔ جان لو کہ صالحین کے نزدیک حکمرانوں کے لیے بدترین حالت یہ ہے کہ گمان کیا جائے کہ وہ تفاخر کے شیدائی ہو گئے ہیں اور ان کا کام فوقیت طلبی کے رنگ میں رنگ چکا ہے، میں اس بات سے ناخوشنود ہوں کہ حتی تمہارے ذہن میں یہ بات آئے کہ مجھے مدح و ستایش پسند ہے اور میں مدح و ثناء سن کر خوش ہوتا ہوں۔۔۔ مجھ سے اس طرح بات نہ کرو جس طرح کہ جابروں اور ظالم حکمرانوں سے بات کی جاتی ہے، تم میرے لیے جذباتی اور لفاظی پر مبنی القاب استعمال نہ کیا کرو۔۔۔

نہج البلاغہ، خطبہ 216

امیر المؤمنین علی (ع) نے شام کی طرف عزیمت کی تو شہر انبار کے دہقانوں نے صفیں باندھی تھیں اور آپ قریب پہنچے تو وہ آپ کے آگے آگے دوڑنے لگے اور آپ کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہنے لگے۔ اس موقع پر امیر المؤمنین (ع) نے فرمایا:

یہ کیسا عمل تھا جو تم نے انجام دیا ؟! لوگوں نے کہا: یہ ہماری روایت ہے کہ اپنے شہریاروں اور بادشاہوں کا اس روش سے احترام بجا لاتے ہیں۔ امام (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم ! تمہارے شہریاروں کو تمہارے اس کام سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور تم اپنے آپ کو زحمت و مشقت میں ڈالتے ہو اور اگلی دنیا میں بھی خداوند کے اپنے کیفر کردار اور ابدی عذاب میں مبتلا ہو جاؤ گے۔

نہج البلاغہ، کلمات قصار، شمارہ 37

جنگیں:

جنگ جمل (ناکثین):

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: جو لڑائی جھگڑے میں حد سے بڑھ جائے وہ گنہگار ہوتا ہے اور جو اس میں کمی کرے تو اس پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں اور جو (بلاوجہ) لڑتا جھگڑتا ہے، وہ خوف خدا کو قائم نہيں رکھ سکتا۔

نہج البلاغہ، حکمت 298

جنگ جمل اسلامی معاشرے کی اپنی داخلی پہلی جنگ تھی جو رسول خدا کی شہادت کے بعد، عائشہ، طلحہ اور زبیر کی طرف سے امام علی (ع) کے خلاف فتنے کی صورت میں شروع کی گئی تھی جو آپ اور ناکثین کے درمیان واقع ہوئی۔ نکث بمعنی نقض اور توڑنا، اور چونکہ طلحہ، زبیر اور ان کے پیروکاروں نے ابتدا میں امام علی (ع) کی بیعت کی تھی جو بالآخر انھوں نے توڑ دی، چنانچہ انہیں ناکثین اور عہد شکنوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

تاج العروس، زبیدی، ج3، ص 273

یہ جنگ جمادی الثانی سن 36 ہجری میں لڑی گئی تھی۔

تاریخ طبری، ج‌4، ص‌534

طلحہ اور زبیر جو قتل عثمان کے بعد ابتدا میں خلافت پر نظریں جمائے ہوئے تھے، جب ناکام ہوئے اور خلافت امام علی (ع) کو ملی تو انہیں توقع تھی کہ علی (ع) کے ساتھ خلافت میں شریک ہو جائیں گے۔ ان دونوں نے آ کر آپ سے بصرہ اور کوفہ‌ کی ولایت مانگی، لیکن علی (ع) نے انہیں اس کام کے لیے اہل قرار نہیں دیا۔

جبکہ وہ دونوں قتل عثمان کے اصل ملزم تھے اور عوام کے درمیان کوئی بھی طلحہ جتنا قتل عثمان کا خواہاں نہ تھا۔ وہ دونوں اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لیے عائشہ‌ سے جا ملے، حالانکہ عائشہ نے عثمان کے محاصرے کے وقت نہ صرف ان کی مدد نہیں کی تھی بلکہ موقف اختیار کیا تھا کہ عثمان کو گھیرنے والے حق طلب ہیں، اور عائشہ نے فتوا دیا کہ عثمان واجب القتل ہے، لیکن جب عائشہ کو خبر ملی کہ لوگوں نے علی (ع) کی بیعت کر لی ہے تو کہنے لگی کہ:

عثمان کو ظلم کر کے قتل کیا گیا ہے اور اس کے بعد اس نے عثمان کے قتل کے سلسلے میں انصاف مانگنا شروع کیا ! عائشہ اس سے پیشتر علی (ع) کے لیے عداوت یا عدواتیں دل میں رکھے ہوئی تھی، اسی وجہ سے اس نے طلحہ اور زبیر کا ساتھ دیا۔ چنانچہ ان تین افراد نے تین ہزار افراد پر مشتمل لشکر تیار کیا اور بصرہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس جنگ میں عائشہ "عسکر" نامی اونٹ (جمل) پر بعنوان سالار جنگ سوار ہوئی تھی، اسی وجہ سے اس جنگ کو جنگ جمل کا نام دیا گیا۔

علی (ع) نے والیِ بصرہ عثمان ابن حنیف کو ہدایت کی کہ باغیوں کو راہ حق پر پلٹ آنے کی دعوت دیں اور اگر نہ مانیں تو میرے بصرہ پہنچنے تک مزاحمت کریں۔

امام علی (ع) نے بصرہ پہنچ کر سب سے پہلے عہد شکن باغیوں کو نصیحت کی اور یوں جنگ کا راستہ روکنے کی کوشش کی، لیکن باغیوں نے امام کے ایک ساتھی کو قتل کر کے جنگ کا آغاز کیا، تاہم زبیر نے جنگ شروع ہونے سے قبل ہی لشکر سے کنارہ کشی اختیار کی جس کا سبب یہ تھا کہ علی (ع) نے اسے وہ حدیث یاد دلائی کہ جب رسول اللہ نے زبیر سے کہا تھا کہ:

ایک دن تم علی (ع) کے خلاف بغاوت کرو گے۔

زبیر جنگ سے دستبردار ہونے کے بعد بصرہ کے باہر ایک تمیمی مرد عمرو ابن جرموز کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔

اصحاب جمل کو چند گھنٹوں کی مختصر جنگ میں بڑا جانی نقصان اٹھا کر شکست ہوئی۔ جسکی ساری ذمہ داری عائشہ، طلحہ اور زبیر کی گردن پر ہے۔ اس جنگ میں طلحہ (اپنے لشکر میں شامل مروان) کے ہاتھوں مارا گیا اور عائشہ کو اسکے نہ چاہتے ہوئے بھی مدینہ لوٹا دیا گیا۔

تاریخ طبری‌، ج‌4، ص‌453

نہج ‌البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی، خطبہ 174، ص 180

تاریخ طبری، ج 6، ص 3096

تاریخ طبری‌، ج‌4، ص ‌451، 544 و ج 5، ص 150

تاریخ طبری‌، ج‌4، ص ‌454

تاریخ طبری‌، ج‌4، ص ‌507

المعیار و الموازنۃ‌ فی‌ فضائل‌ امیر المؤمنین‌ علی ‌بن‌ ابی ‌طالب‌ اسکافی، ج 1، ص ‌60

تاریخ طبری‌، ج‌4، ص‌511

تاریخ یعقوبی، ج‌2، ص‌183

تاریخ طبری‌، ج‌4، ص ‌510

جنگ صفین (قاسطین):

جنگ صفین اسلامی معاشرے کی اپنی دوسری داخلی جنگ تھی کہ جو معاویہ کی طرف سے امام علی کے خلاف شروع کی گئی۔ یہ جنگ صفر المظفر سن 37 ہجری کو شام میں دریائے فرات کے قریب صفین نامی مقام پر لڑی گئی اور اس کا اختتام اُس حَکَمیت پر ہوا جو ماہ رمضان سن 38 ہجری کو انجام پائی۔

الصحاح، جوہری، ج3، ص 1152

تاریخ یعقوبى، ج 2، ص 188

خليفۃ بن خياط العصفری، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، ص 191

عثمان کے اپنے غلط اقدامات کی وجہ سے، اسکو تنگ آ کر رسول خدا (ص) کے اصحاب نے گھیرے میں لیا تو، معاویہ اسکی مدد کر سکتا تھا، لیکن اس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔ وہ عثمان کو دمشق منتقل کرنا چاہتا تھا تا کہ وہ وہاں امور مملکت کی باگ ڈور خود سنبھال لے۔ اس نے قتل عثمان کے بعد شامیوں کے درمیان علی (ع) کو ان کے قاتل کے طور پر پہچان کرانے کی کوشش کی۔

امام علی (ع) نے اپنی حکومت کے آغاز پر معاویہ کو خط لکھا اور اس کو بیعت کرنے کا کہا لیکن اس نے حیلوں بہانوں سے کام لیا اور کہا کہ پہلے عثمان کے ان قاتلوں کو میرے حوالے کریں جو آپ کے پاس موجود ہیں تا کہ میں ان سے قصاص لوں اور اگر آپ نے ایسا کیا تو میں بیعت کروں گا۔

امام (ع) نے معاویہ کے ساتھ خط و کتابت کی اور اپنا نمائندہ بھیجا اور جب آپ کو معلوم ہوا کہ معاویہ جنگ چاہتا ہے، کیونکہ معاویہ نے حیلوں، بہانوں، علی (ع) کے کارگزاروں کو قتل وغیرہ کر کے جنگ کے حالات پیدا کر دیئے تھے، اس پر علی (ع) نے ہر طرح کی حجت تمام کرنے کے بعد مجبور ہو کر اپنا لشکر لے کر شام کی جانب رخ کیا، ورنہ تو علی (ع) مدینہ میں تھے اور معاویہ شام میں تھا، ادھر معاویہ بھی اپنا لشکر لے کر روانہ ہوا اور دونوں لشکروں کا سامنا صفین کے مقام پر ہوا۔ امام علی (ع) کی کوشش تھی کہ جہاں تک ممکن ہو یہ مسئلہ جنگ پر ختم نہ ہو۔ لہذا آپ نے پھر بھی خطوط روانہ کیے، لیکن معاویہ کی ہڈ دھرمی اور خلافت کے حصول کے لالچ کی وجہ سے کوئی نتیجہ حاصل نہ ہوا اور آخر کار سن 36 ہجری میں جنگ کا آغاز ہوا۔

شہیدی، علی از زبان علی، صص 113-121

سپاہ علی (ع) کا آخری حملہ شروع ہوا اور اگر جاری رہتا تو علوی سپاہ کی کامیابی یقینی تھی، لیکن معاویہ نے موت کو سامنے دیکھ کر عمرو ابن عاص کے ساتھ مشورہ کر کے ایک مکارانہ چال چلی اور حکم دیا کہ لشکر کے پاس قرآن کے جتنے بھی نسخے ہیں انہيں نیزوں پر اٹھائیں اور سپاہ علی (ع) کے سامنے جائيں اور انہيں قرآن کے فیصلے کی طرف بلائیں۔ یہ بہانہ کارگر ثابت ہوا اور سپاہ علی میں قاریوں کی جماعت علی کے پاس آئی اور اور کہا:

ہمیں کوئی حق نہيں ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ لڑیں چنانچہ وہ جو کہتے ہیں وہی ہمیں قبول کرنا پڑے گا۔

علی (ع) نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ایک چال ہے جس کے ذریعے وہ ہاری ہوئی جنگ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن بےسود۔

المعیار و الموازنہ، ص 162

امام (ع) نے مجبور ہو کر معاویہ کے نام ایک خط کے ضمن میں لکھا:

ہم جانتے ہیں کہ تمہارا قرآن سے کوئی تعلق نہيں ہے، تاہم ہم قرآن کی حکمیت (یا قرآنی فیصلہ) قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔

وقعۃ صفین، ابن مزاحم، ص 490

طے یہ پایا کہ ایک فرد سپاہ شام کی طرف سے آ جائے اور ایک فرد سپاہ عراق کی طرف سے اور وہ دونوں بیٹھ کر فیصلہ کریں کہ اس موضوع میں قرآن کا حکم کیا ہے۔ شامیوں نے عمرو ابن عاص کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا اور اشعث اور بعد میں خوارج کے مسلک میں شامل ہونے والے کئی دیگر افراد نے ابو موسى اشعرى کا نام تجویز کیا۔ امام علی (ع) نے عبد اللہ ابن عباس یا مالک اشتر کے نام تجویز کیے لیکن اشعث اور اس کے گروہ نے کہا کہ چونکہ مالک اشتر جنگ جاری رکھنے پر یقین رکھتے ہیں اور عبد اللہ ابن عباس کو ہونا ہی نہیں چاہیے اور چونکہ عمرو ابن عاص مصر سے ہے، اسی لیے دوسرے فریق کا نمائندہ یمنى ہونا چاہیے !

آخر کار عمرو ابن عاص نے ابو موسی اشعری کو دھوکہ دیا اور بظاہر قرآنی حَکَمِیت کو معاویہ کے مفاد میں ختم کر دیا۔

الفتوح، ابن اعثم، ج 3، ص 163

شہیدی، علی از زبان علی، ص 129

جنگ نہروان (مارقین):

جنگ صفین میں حَکَمِیت کے نتیجے میں امام علی (ع) کے بعض ساتھیوں نے احتجاج کیا اور آپ سے کہنے لگے: آپ نے خدا کے کام میں کسی کو فیصلہ کرنے کی اجازت کیوں دی ہے ؟ حالانکہ امام علی (ع) شروع سے ہی حَکَمِیت کی مخالفت کر رہے تھے اور ان ہی لوگوں نے امام کو اس کام پر مجبور کیا تھا لیکن بہر صورت انھوں نے امام (ع) کو کافر قرار دیا اور آپ پر لعن کرنے لگے۔

شہرستانی، الملل و النحل، صص 106-107

یہ لوگ خوارج یا مارقین کہلائے جنہوں نے آخر کار لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ انھوں نے صحابی رسول خدا کے فرزند عبد اللہ ابن خباب کو قتل کیا اور اس کی بیوی کا پیٹ چیر کر اس میں موجود بچے کو بھی قتل کر دیا۔

چنانچہ امام (ع) نے مجبورا جنگ کا فیصلہ کیا۔ آپ نے ابتدا میں عبد اللہ ابن عباس کو بات چیت کی غرض سے ان کے پاس بھیجا اور بات چیت ہوئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بہت سے تو اپنی رائے سے دستبردار ہوئے لیکن بہت سے رہ گئے۔ آخر کار نہروان کے مقام پر جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں امام کے لشکر سے 7 یا 9 افراد شہید ہوئے اور خوارج میں سے 9 افراد زندہ بچ گئے۔

شہیدی، علی از زبان علی، صص 133-134

کوفہ کے عوام سے خطاب:

میں کل فرمان دیتا تھا اور آج مجھے فرمان دیا جاتا ہے، کل روک دیتا تھا اور آج مجھے روکا جاتا ہے، تم کو جینے سے محبت ہے اور میرا کام یہ نہیں ہے کہ میں اس چیز پر تمہیں مجبور کروں جس کو تم ناپسند کرتے۔

نہج البلاغہ، خطبہ 208

بہرحال امام علی (ع) ایک بڑا لشکر تیار کر کے صفین جانے کا ارادہ رکھتے تھے کہ اسی دوران 19 رمضان سن 40 ہجری کی صبح مسجد کوفہ میں نماز فجر کے وقت عبد الرحمن ابن ملجم مرادی نامی خارجی ملعون کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور 21 رمضان کو جام شہادت نوش کر گئے۔

بعض تاریخی ذرائع نے کہا ہے کہ خوارج کے تین افراد نے امیر المؤمنین علی (ع)، معاویہ اور عمرو ابن عاص کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور یہ بھی کہا ہے کہ قطام نامی عورت نے بھی امام کے قتل میں کردار ادا کیا ہے۔

جعفریان، رسول، گزیدہ حیات سیاسی و فکری امامان شیعہ، ص 55۔

امیر المؤمنین علی (ع) کے بیٹوں امام حسن، امام حسین اور محمد ابن حنفیہ نے اپنے چچا زاد بھائی عبد اللہ ابن جعفر کے تعاون سے رات کے وقت آپ کو غریین (موجودہ نجف) کے مقام پر سپرد خاک کیا۔

کیونکہ بنی امیہ اور خوارج اگر آپ کی قبر کو ڈھونڈ لیتے تو قبر گشائی کر کے آپ کی بےحرمتی کرتے۔

شیخ مفید، الارشاد، صص 27-28۔

عبد الکریم بن احمد بن طاووس، فرحة الغریٰ، ص 93؛

مجلسی، بحار، ج 42، ص 222، بحوالۂ مقدسی، ید اللہ ، باز پژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان، صص 239-240۔

وصیتیں:

امام علی (ع) نے مسجد کوفہ میں زخمی ہوتے وقت فرمایا:

فُزتُ وَرَبِّ الكعبةِ،

رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔

امیر المؤمنین علی (ع) سے ایسی روایات نقل ہوئی ہیں کہ جن میں آپ نے اپنے بیٹوں کو اپنے غسل، کفن، نماز اور تدفین کی کیفیت کے بارے میں ہدایات دی ہیں۔ آپ نے اپنے فرزندوں کو اپنی قبر مخفی رکھنے کی ہدایت کی۔

بلاذری، انساب الاشراف، ص499

بحار الانوار، مجلسی، ج 36، ص 5

بحار الانوار، مجلسی، ج 42، ص 290

جب محراب مسجد میں ابن ملجم کے ہاتھوں زخمی ہوئے تو آپ نے اپنے بیٹوں حسن اور حسین (ع) کو یوں وصیت فرمائی:

میں تم دونوں کو وصیت کرتا ہوں کہ خداوند سے ڈرتے رہنا، دنیا کے خواہشمند نہ ہونا، اگرچہ وہ تمہارے پيچھے لگے اور دنیا کی کسی ایسی چیز پر نہ کڑھنا جو تم سے روک لی جائے جو کہنا حق کے لیے کہنا اور جو کرنا ثواب کے لیے کرنا، ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔ تمہیں اور اپنے تمام فرزندوں اور اعزاز و اقارب اور ہر اس شخص کو کہ جس تک میرا یہ نوشتہ پہنچے، وصیت کرتا ہوں خوف خدا قا‏ئم رکھنا، اپنے امور و معاملات کو سلجھائے رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ کو فرماتے سنا ہے کہ:

لوگوں کے درمیان مصالحت کرانا برسوں کی نماز اور روزے سے افضل ہے۔

دیکھو یتیموں کے بارے میں خداوند سے ڈرتے رہنا، انہیں کبھی پیٹ بھر کر کھلانے اور کبھی فاقے کرانے سے پرہیز کرنا، (اور ان کی ضرورت پوری کرنا)، اور انہیں اپنی موجودگی میں ضائع اور تباہ مت ہونے دینا، کیونکہ تمہارے پیغمبر نے مسلسل ہدایات دی ہیں اور آپ اس حد تک پڑوسیوں کی سفارش کرتے تھے کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ انہیں بھی وراثت سے ترکہ دلائیں گے۔ قرآن کے بارے میں خداوند سے ڈرتے رہنا، ایسا نہ ہو کہ دوسرے قرآن پر عمل کرنے میں تم سے سبقت لیں۔

نماز کے بارے میں خداوند سے ڈرتے رہنا کہ جو تمہارے دین کا ستون ہے۔ اپنے رب کے گھر کعبہ کے بارے میں خداوند سے ڈرتے رہنا، جب تک اس دنیا میں ہو کبھی اسے جیتے جی خالی مت چھوڑنا کیونکہ اگر تم نے اسے خالی چھوڑا اور اس کی خدمت و پاسداری نہ کی تو خدا کے عذاب سے چھٹکارا نہ پا سکو گے۔ راہ خدا میں جہاد کے بارے میں خداوند سے ڈرتے رہنا۔ اپنے اموال اور اپنی جانوں اور زبانوں کے ساتھ ! تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھو اور ایک دوسرے کی مدد کرو۔ خبردار ! ایک دوسرے سے منہ مت موڑنا، اور باہمی تعلق توڑنے اور اپنے رشتوں کو توڑنے سے پرہیز کرنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو کبھی ترک مت کرنا (اگر تم نے ایسا کیا تو) تمہارے بدکردار ترین افراد تم پر مسلط ہو کر حکمرانی کریں گے ! پھر تم دعا مانگو گے تو، تمہاری دعا قبول نہ ہو گی۔

( پھر ارشاد فرمایا ) اے عبد الطلب کے بیٹو ! ایسا نہ ہونے پائے کہ امیر المؤمنین کو قتل کیا گیا، امیر المؤمنین کو قتل کیا گیا کے نعرے لگا کر لوگوں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کر دو۔ سوائے میرے قاتل کے، کسی کو میرے خون کے بدلے قتل نہیں ہونا چاہیے۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے کبھی ہاتھ نہ اٹھانا، ورنہ بد کردار تم پر مسلط ہو جائیں گے، پھر دعا مانگو گے تو قبول نہیں ہو گی۔

دیکھ لینا ! اگر میں اس ایک ضرب سے مر گیا تو ایک ضرب لگا کر اسے مار دینا اور اس کے ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء و جوارح مت کاٹنا کیونکہ میں نے رسول خدا (ص) سے سنا ہے کہ:

مردے کے اعضا کاٹنے سے پرہیز کرو خواہ وہ پاگل کتا ہی کیوں نہ ہو۔

نہج البلاغہ، مکتوب 47

امیر المؤمنین علی (ع) کی قبر کا خفیہ رہنا:

امیر المؤمنین نے وصیت کی تھی کہ آپ کی قبر مخفی رکھی جائے، جس کی وجہ یہ تھی کہ خوارج اور منافقین سے خوف تھا کہ وہ کہیں قبر کھول کر آپ کے جسم کی بے حرمتی نہ کریں۔

بحار الانوار، مجلسی، ج 42، ص 338

قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، ج 1، ص 234

شیخ مفید، الارشاد، ج 1، ص 10

امام علی (ع) کے مدفن سے صرف آپ کے فرزند اور اصحاب خاص اطلاع رکھتے تھے، حتی کہ امام صادق (ع) نے منصور عباسی کے زمانے (سن 135 ہجری) میں پہلی بار نجف میں آپ کے مقام تدفین کو آشکار کیا تھا۔

شیخ مفید، الارشاد، ص 13

فضائل و مناقب امیر المؤمنین علی (ع):

قرآن کے ظاہر و باطن، تنزیل و تاویل کی شناخت میں رسول خدا (ص) کے بعد حضرت علی (ع) سب سے زیادہ آگاہ تھے نیز ابن عباس اور مجاہد جیسے بڑے مفسر قرآن، حضرت علی (ع) کے مکتب کے ہی پروردہ تھے۔ رسول خدا (ص) کے بعد سب سے پہلے قرآن تدوین کرنے والی شخصیت، حضرت علی (ع) ہی تھے۔ اہل بیت اور اصحاب میں سے کوئی شخص شرف و فضیلت میں انکی برابری نہیں کر سکتا، کیونکہ قرآن پاک کی 300 سے زیادہ ایسی آیات انکی شان میں نازل ہوئی ہیں۔

خطیب بغدادی نے اسماعیل ابن جعفر سے اور ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ 300 آیات قرآنی حضرت علی کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔

تاریخ بغداد، ج 6، ص 221

ابن حجر ہیتمی اور شبلنجی نے ابن عساکر اور ابن عباس سے 300 آیات کی حضرت علی کے بارے میں نازل ہونے کی تائید کی ہے۔

صواعق المحرقہ، ص 761

نور الابصار، ص 73

ان آیات میں سے آیت تبلیغ، اکمال، مودت، مباہلہ،شب ہجرت آیت اشترائے نفس ، آیت نجوا، سورہ ھل اتی اور آیت اولو الامر، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

نیز شیعہ مفسرین ، شیعہ متکلمین اور بعض اہل سنت مفسرین کی تصریح کے مطابق سورہ تحریم آیت 4 میں صالح المؤمنین سے مراد، حضرت علی ہیں نیز سورہ حاقہ آیت 12 میں اذن واعیہ، سورہ بینہ آيت 7 خیر البریہ میں یہی مراد ہیں۔

بعض شیعہ و سنی علماء نے حضرت علی (ع) اور اہل بیت کے بارے میں نازل ہونے والی آیات پر مستقل کتابیں لکھیں ہیں جیسے تأویل الآیات الظاھرة فی فضائل العترة الطاھرة، اثر سید شرف الدین استر آبادی، شواہد التنزیل، ینابیع المودة ہیں۔

خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج 2، ص 1486

حضرت علی (ع)، رسول خدا (ص) کے نزدیکترین ، ہمدم اور ہمسخن ساتھی تھے نیز کاتب وحی ، ناظر وحی و محافظ وحی اور مفسر قرآن بھی تھے۔ حضرت علی (ع) خود اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ:

کوئی ایسی آیت نہیں کہ جس کے متعلق میں نہ جانتا ہوں کہ کب اور کیسے نازل ہوئی، دن کو نازل ہوئی یا رات کو نازل ہوئی، دشت میں یا پہاڑ پر نازل ہوئی۔

سیوطی، الاتقان ، ج 2، ص 412

کتاب عیون اخبار الرضا میں امام رضا (ع) نے امام حسین (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ:

امیر المؤمنین نے فرمایا کہ قرآن کے بارے میں جو چاہو مجھ سے پوچھو، یہاں تک کہ میں ہر آیت کے کے متعلق تمہیں بتاؤں گا کہ یہ آیت کس کے بارے میں اور کہاں اور کس وقت نازل ہوئی ہے۔

خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج 2، ص 1486

جیسا کہ ذکر ہو چکا کہ بہت سی آیات حضرت علی (ع) کے فضائل اور مناقب میں نازل ہوئیں یہاں تک ک ابن عباس نے ان آیات کی تعداد 300 تک بیان کی ہے۔

کفایۃ الطالب، گنجی شافعی، ص 231

الصواعق المحرقہ، ہیثمی، ص 76

ینابیع المودۃ، تحقیق سید علی جمال اشرف، قندوزی، ص 126

ان میں سے بعض آیات یہ ہیں:

آیت مباہلہ:

فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَھلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّہ ِ عَلَى الْكَاذِبِينَ۔

تو کہہ دیجیے کہ آؤ ! ہم بلا لیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔

سورہ آل عمران آیت 61

سن 10 ہجری کو روز مباہلہ میں یہ طے پایا تھا کہ مسلمان اور نجران کے عیسائی ایک دوسرے پر لعنت کریں، تا کہ خدا جھوٹی جماعت پر عذاب نازل کرے۔ اسی مقصد سے رسول خدا (ص)، علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو لے کر صحرا میں نکلے۔ عیسائیوں نے جب دیکھا کہ آپ اس قدر مطمئن ہیں کہ صرف قریب ترین افراد خاندان کو ساتھ لائے ہیں، تو خوفزدہ ہوئے اور جزیہ کی ادائیگی قبول کر لی، لیکن مباہلہ نہ کیا۔

سیوطی، الدر المنثور، ذیل آیہ 61

الکشاف، زمخشری، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران

طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران

تفسیر المیزان، طباطبایی، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران

آیت تطہیر:

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّہ ُ لِيُذْھبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَھلَ الْبَيْتِ وَيُطَھرَكُمْ تَطْھيراً،

اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر پلیدی کو دور رکھے اے اہل بیت ! اللہ تمہیں ایسا پاک رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ہے۔

سورہ احزاب آیت 33

شیعہ علماء کی عمومی رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ، ام المؤمنین ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی اور نزول کے وقت رسول اللہ کے علاوہ، علی، فاطمہ اور حسنین بھی موجود تھے۔ یہ آيت نازل ہونے کے بعد رسول خدا نے اس چادر کساء کو اٹھا کر اصحاب کساء یعنی اپنے آپ، علی، فاطمہ اور حسنین کے اوپر ڈال دیا اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور عرض کرنے لگے: خداوندا ! میرے اہل بیت یہ چار افراد ہیں، انہیں ہر پلیدی سے پاک رکھ ۔

کتاب الخصال، ابن بابویہ، ج2، ص403

فی ظلال القرآن، سید قطب، ج6، ص586

طبرسی، مجمع ‌البیان، ج 8، ص 559

آیت مودت:

قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہ ِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۔

کہہ دیں کہ میں تم سے صاحبان قرابت کی محبت کے سوا اس رسالت پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔

سورہ شوری آیت 23

ابن عباس کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس آیت کی رو سے جن لوگوں کی مودت واجب ہوئی ہے، وہ کون ہیں ؟ آپ (ص) نے فرمایا:

علی، فاطمہ، حسن اور حسین، اور یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔

مجلسی، بحار الانوار، ج 23، ص 233

مسلمِ اول:

حضرت علی (ع) کا مسلم اول ہونا مشہور ہے، بلکہ یہ روایت تواتر کی حد تک پہنچ چکی ہے کہ علی، اولین مسلمان تھے۔

الغدیر، امینی، ج 3، ص 191-213

چنانچہ رسول خدا کہتے ہیں: سب سے پہلا فرد جو تم میں سے، روز قیامت، حوض کوثر پر مجھ سے آ ملے گا، وہ اسلام میں سب پر سبقت لینے والے علی ہیں۔

مستدرك على الصحيحين، حاکم نیشاپوری، ج‏3، ص‏136

نیز رسول اللہ (ص) اپنی بیٹی حضرت فاطمہ (س) سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:

کیا آپ نہیں چاہتی کہ میں آپکی شادی ایسے فرد سے کروں کہ جو میری امت میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والا ہے اور ان میں دانا ترین ، عالم ترین اور سب سے زيادہ صابر و بردبار ہے۔

مسند، احمد حنبل، ج 5، ص 26

شب ہجرت (لیلۃ المبیت):

قریش نے مسلمانوں کو آزار و اذيت کا نشانہ بنایا تو پیغمبر اکرم نے اپنے اصحاب کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ کے اصحاب مرحلہ وار مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔

السیرہ النبویہ، تحقیق محمد محی الدین عبد الحمید، ابن ہشام، ج 1، ص 480

دار الندوہ میں مشرکین کا اجلاس ہوا تو قریشی سرداروں کے درمیان مختلف آرا پر بحث و مباحثہ ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ہر قبیلے کا ایک نڈر اور بہادر نوجوان اٹھے اور رسول خدا کے قتل میں شرکت کرے۔ جبرائیل نے اللہ کے حکم پر نازل ہو کر آپ کو سازش سے آگاہ کیا اور آپ کو اللہ کا یہ حکم پہنچایا کہ: آج رات اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کریں۔ پیغمبر نے اپنے بھائی علی کو حقیقت حال سے آگاہ کیا اور حکم دیا کہ آپ کی خوابگاہ میں آپ کے بستر پر آرام کریں۔

ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص 72

بحار الانوار، مجلسی، ج 19، 59

آیت اور اس کا شان نزول:

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَہ ُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہ ِ وَاللّہ ُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ،

اور آدمیوں ہی میں وہ بھی ہے جو اللہ کی مرضی کی طلب میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اللہ بندوں پر بڑا شفیق و مہربان ہے۔

سورہ بقرہ آیت 207

مفسرین کے مطابق یہ آیت کریمہ لیلۃ المبیت سے تعلق رکھتی ہے اور علی (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

تفسیر الرازی، فخر رازی، ج 5، 223

شواہد التنزیل، تحقیق محمدباقر محمودی، حاکم حسکانی، ج 1، 96

تفسیر القمی، تحقیق سید طیب موسوی، علی بن ابراہیم، ص 61

تفسیر المیزان، طباطبائی، ج 2، ص 150

رسول خدا (ص) کے ساتھ مؤاخات:

رسول خدا (ع) نے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچنے پر مہاجرین کے درمیان عقد اخوت برقرار کیا اور پھر مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت قائم کی اور دونوں مواقع پر علی (ع) سے فرمایا:

تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو نیز اپنے اور علی کے درمیان عقد اخوت جاری کیا۔

ابن عبد البر، الاستیعاب، بحوالہ محسن امین العاملی، اعیان الشیعہ، ج 2، ص 27

ردّ الشمس:

یہ سن 7 ہجری کا واقعہ ہے جب رسول خدا (ص) اور علی (ع) نے نماز ظہر ادا کی اور رسول خدا نے علی کو کسی کام کی غرض سے کہیں بھیجا جبکہ علی نے نماز عصر ادا نہیں کی تھی۔ جب علی (ع) واپس لوٹ کر آئے تو پیغمبر نے اپنا سر علی کی گود میں رکھا اور سو گئے یہاں تک سورج غروب ہو گیا۔ جب رسول خدا جاگ اٹھے بار گاہ الہی میں دعا کی:

خدایا ! تیرے بندے علی نے اپنے آپ کو تیرے رسول کے لیے وقف کیا، سورج کی تابش اس کی طرف لوٹا دے۔ پس علی اٹھے، وضو تازہ کیا اور نماز عصر ادا کی اور سورج ایک بار پھر غروب ہو گیا۔

الغدیر، امینی، ج 3، ص 140

شوشتری، احقاق الحق،ج 5،ص 522

سورہ برائت ( توبہ) کا ابلاغ:

سورہ توبہ کی ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا تھا کہ مشرکین کو چار مہینوں تک مہلت دی جاتی ہے کہ یکتا پرستی اور توحید کا عقیدہ قبول کریں، جس کے بعد وہ مسلمانوں کے زمرے میں آئیں گے لیکن اگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں تو انہیں جنگ کے لیے تیار ہونا پڑے گا اور انہیں جان لینا چاہیے کہ جہاں بھی پکڑے جائیں گے مارے جائیں گے۔

یہ آیات کریمہ ایسے حال میں نازل ہوئیں کہ پیغمبر حج کی انجام دہی میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتے تھے، چنانچہ خداوند کے فرمان کے مطابق ان پیغامات کے ابلاغ کی ذمہ داری یا تو رسول اللہ خود نبھائیں یا پھر ایسا فرد یہ ذمہ داری پوری کرے کہ جو آپ (ص) سے ہو، اور ان کے سوا کوئی بھی اس کام کی اہلیت نہيں رکھتا۔

حضرت محمد (ص) نے علی (ع) کو بلوایا اور حکم دیا کہ مکہ تشریف لے جائے اور عید الاضحیٰ کے دن مِنیٰ کے مقام پر سورہ برائت کو مشرکین تک پہنچا دیں۔

السیرہ النبویہ، تحقیق محمد محی الدین عبدالحمید، ابن ہشام، ج‏4، ص 545

تاریخ طبری، طبری، ج 6، جزء 10

حدیث حق:

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

عَلىٌّ مَعَ الحقِّ والحقُّ مَعَ عَلىٍّ۔

على ہمیشہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ہمیشہ علی کے ساتھ ہے۔

غایۃ المرام، تحقیق سیدعلی عاشور، بحرانی، باب 360

حدیث سد الابواب (دروازوں کا بند کرنا):

صدر اسلام میں مسجد النبی کے اطراف میں موجود گھروں کے دروازے مسجد کے اندر کھلتے تھے۔ پیغمبر اکرم (ع) نے حضرت علی (ع) کے سوا تمام گھروں کے مسجد النبی میں کھلنے والے دروازوں کے بند کرنے کا حکم دیا گیا، لوگوں نے سبب پوچھا تو رسول خدا نے فرمایا:

مجھے علی کے گھر کے سوا تمام گھروں کے دروازے بند کرنے کا حکم تھا، لیکن اس بارے میں بہت سی باتیں ہوئی ہیں۔ خدا کی قسم ! میں نے کوئی دروازہ بند نہيں کیا اور نہيں کھولا مگر یہ کہ ایسا کرنے کا مجھے حکم ہوا اور میں نے بھی اطاعت کی۔

کنز العمال، متقی ہندی، ج 6، ص 155

امیر المؤمنین علی (ع) کی علمی خدمات:

ساتویں صدی ہجری کے بڑے سنی عالم ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ پر اپنی مفصل شرح کے دیباچے میں لکھا ہے کہ:

میں کیا کہوں اس مرد کے بارے میں جس کے دشمن اس کی فضیلت کے قائل تھے اور نہ تو اس کے فضائل کو چھپا سکے اور نہ ہی ان کا انکار کر سکے۔ سب جانتے ہیں کہ بنی امیہ نے عالم اسلام کے مغرب اور مشرق پر قابو پا لیا اور اس خاندان نے اپنی پوری قوت سے، تمام تر مکاریوں اور حیلہ بازیوں کے ذریعے علی کی عظمت کا نور بجھانے کی کوشش کی اور ان کی مذمت و ملامت میں بے شمار حدیثیں بھی گھڑ لیں، اور تمام منابر پر ان کو لعن کا نشانہ بنایا اور ان کے حامیوں اور مداحوں کو نہ صرف منع کیا اور ستایا بلکہ زندانوں میں بند کیا اور قتل کیا۔ امویوں نے حتی کہ عوام کو اپنے بچوں پر علی کا نام رکھنے تک سے منع کیا، لیکن ان ساری رکاوٹوں کا کوئی اثر نہ تھا سوائے اس کہ اس کا نام بلندیوں کو سر کرتا رہا اور برتر و بالاتر ہوتا چلا گیا۔ وہ اس مُشک کی مانند ہے کہ جسے جس قدر چھپایا جائے فضا کو اتنا ہی زیادہ معطر بنا دیتا ہے۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، صص 16-17

ابن ابی الحدید نے مزید لکھا ہے کہ:

کیا کہوں اس فرد کے بارے میں جو ہر فضیلت اور انسان کی ہر امتیازی عظمت کا سر منشأ اور سرچشمہ ہے اور ہر فرقہ اور ہر گروپ اس کو ہی اپنا سر چشمہ اور سر آغاز سمجھتا ہے، اور اس سے منسوب ہو کر فخر محسوس کرتا ہےکیونکہ وہ تمام انسانی امتیازات و خصوصیات کا سر چشمہ ہے اور اس میدان میں سب کو پیچھے چھوڑ گیا ہے اور اس معرکے میں پیشرو وہی ہے۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 17

علم کلام:

ابن ابی الحدید کہتے ہیں: اشرف علوم علم کلام یعنی علم الٰہیات اور صفاتِ باری تعالی کی شناخت کی تفصیل کا بیان بھی علی (ع) سے شروع ہوا اور اس فنّ کے تمام اہل نظر اور استدلال آپ ہی کے شاگرد تھے۔

اہل توحید اور عدل معتزلہ آپ ہی کے شاگرد اور اصحاب ہیں کیونکہ ان کے تفکر کا بانی واصل ابن عطاء ابو ہاشم عبد اللہ ابن محمد ابن حنفیہ کا شاگرد ہے اور ابو ہاشم اپنے باپ محمد حنفیہ کا شاگرد ہے اور محمد اپنے والد ماجد، امام علی علیہ السلام کے شاگرد ہیں۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 17

اشاعرہ کا سلسلہ بھی آپ ہی تک پہنچتا ہے اور اس فرقے کا بانی ابو الحسن علی ابن (اسمعیل بن) ابی بشر اشعری ہے جو ابو علی الجبائی کا شاگرد اور جو در حقیقت معتزلہ کے اساتذہ میں سے ہے۔ پس اشاعرہ کا سلسلہ بھی معتزلہ کے استاد تک پہنچتا ہے اور ان کے استاد امام علی علیہ السلام ہیں۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 17

امامیہ اور زیدیہ کا امام علی (ع) سے انتساب، مسلّم اور واضح ہے کہ جس کے لیے کسی قسم کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 17

علم فقہ:

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ:

امام علی علم فقہ کی جڑ اور بنیاد ہیں اور عالم اسلام میں ہر فقیہ آپ کے خوانِ نعمت کے ٹکڑے چننے والے ہیں۔ شیعہ فقہ کا آپ سے استناد واضح ہے اور اس کے لیے کسی بیان کی ضرورت نہيں ہے۔

ابو حنیفہ کے اصحاب جن میں ابو یوسف، محمد وغیرہ شامل ہیں، نے فقہ ابو حنیفہ سے لی ہے۔

احمد ابن حنبل شافعی کا شاگرد تھا اور شافعی نے اپنی فقہ ابو حنیفہ سے اخذ کی ہے اور ابو حنیفہ امام جعفر صادق (ع) کا شاگرد ہے،

امام صادق اپنے والد امام باقر کے شاگرد اور وہ اپنے والد کے شاگرد ہیں اور یہ سلسلہ بھی بالآخر امام علی علیہ السلام تک ہی پہنچتا ہے۔

مالک ابن انس نے علم فقہ ربیعۃ الرأی سے اخذ کیا ہے اور وہ عکرمہ کا شاگرد ہے اور عکرمہ عبد اللہ ابن عباس کا اور ابن عباس علی (ع) کے شاگرد ہیں۔

چونکہ شافعی مالک کا شاگرد ہے اسی لیے اس کی فقہ کو بھی امام علی سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ یوں اہل سنت کے فقہائے اربعہ امام علی علیہ السلام سے منسوب ہیں۔

فقہائے صحابہ یعنی عمر ابن خطاب اور عبد اللہ ابن عباس، دونوں نے اپنا علم امام علی (ع) سے اخذ کیا ہے۔

ابن عباس کی شاگردی واضح ہے اور سب جانتے ہیں کہ عمر نے بہت سے مشکل مسائل میں امام علی سے رجوع کیا ہے اور کئی مرتبہ اقرار کیا کہ:

لولا علي لهلك عمر،

اگر علی نہ ہوتے تو عمر نابود ہو جاتا،

اور یہ بھی عمر نے کہا کہ:

خدا نہ کرے کہ مجھے کوئی مشکل پیش آئے اور ابو الحسن (علیؑ) میرے ساتھ نہ ہوں،

نیز عمر کہا کرتا تھا کہ:

جب تک علیؑ مسجد میں حاضر ہوں کسی کو فتوی دینے کا حق نہيں ہے۔ اس حوالے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کی فقہ کا سر چشمہ علی ابن ابی طالب ہی کی ذات ہے۔

شیعہ اور سنی نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

اقضاكم علي،

علی تم میں سے سب سے زیادہ بہتر فیصلے کرنے والے ہیں،

اور چونکہ قضاء یا لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کا علم، فقہ کا جزء ہے لہذا اس لحاظ سے بھی علی (ع) دیگر صحابہ سے بڑے فقیہ ہیں۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 18

تفسیر قرآن:

ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ: علی (ع) علم تفسیر کے بانی ہیں اور جو بھی تفاسیر سے رجوع کرے، اس حقیقت کو بڑے وضوح کے ساتھ پا لیتا ہے، خواہ وہ آیات کریمہ جن کی تفسیر براہ راست آپ سے نقل ہوئی ہے، خواہ وہ آیات جن کی تفسیر ابن عباس سے منقول ہے کیونکہ ابن عباس نے بھی علم تفسیر آپ ہی سے اخذ کیا ہے۔

کسی نے ابن عباس سے دریافت کیا: آپ کے چچا زاد بھائی علی ابن ابی طالب کے علم سے آپ کے علم کی نسبت کیا ہے ؟ تو انھوں نے کہا:

وہی نسبت جو بارش کے ایک قطرے کو بحر بے کراں سے ہے۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 19

علم طریقت:

ابن ابی الحدید نے مزید لکھا ہے کہ: علم طریقت و حقیقت اور احوال تصوف سے وابستہ افراد بھی اپنی سند (نسبت) ، امام علی تک پہنچاتے ہیں اور خرقہ جو آج تک صوفیہ کا شعار ہے، اس امر کا واضح ثبوت ہے۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 19

عربی ادب (قواعد عربی گرائمر):

محمد ابن اسحاق کا کہنا ہے اکثر علماء کے نزدیک علم نحو، ابو الاسود دوئلی نے وضع کیا اور ابو الاسود دوئلی نے اس علم کو حضرت علی (ع) سے حاصل کیا۔

ابن ندیم، الفہرست ص62

ابن ابی الحدید کہتا ہے کہ: سب جانتے ہیں کہ امام علی (ع) ہی علم نحو اور ادبیات عرب کے بانی اور تخلیق کار ہیں۔ آپ نے ابو الاسود دُوئَلی کو اس علم کے قواعد کلیہ کی تعلیم دی۔ آپ نے جو قواعد ابو الاسود کو سکھائے ان میں بعض یہ ہیں: کلمہ کی تین قسمیں ہیں: اسم و فعل و حرف، اسم یا معرفہ ہے یا نکرہ، اور وجوہ اعراب کو رفع، نصب، جرّ اور جزم میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 20

فصاحت و بلاغت:

ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی امام علی (ع) فصحا کے امام و پیشوا اور بلغا کے سید و سردار ہیں اور جیسا کہ آپ کے کلام کے بارے میں کہا گیا ہے کہ:

دون كلام الخالق وفوق كلام المخلوق،

یعنی (علیؑ کا کلام) کلام خالق کے نیچے اور کلام مخلوق سے برتر و بالاتر ہے،

اور اس دعوے کا واضح ترین ثبوت نہج البلاغہ ہے۔

عبد الحمید ابن یحیی نے کہا ہے کہ اس نے آپ کے خطبات میں سے ستر خطبے ازبر کر لیے ہیں اور اس کے ادبی ادب کا آغاز یہيں سے ہوا ہے۔

ابن نباتہ نے کہا کہ: میں نے ان خطابات سے ایک خزانہ ازبر کیا کہ اس میں جس قدر بھی اٹھاؤں، کم نہيں ہوتا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ میں نے علی ابن ابیطالب کے مواعظ کی سو فصلیں حفظ کر لیں ہیں۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 24

اخلاقی خصوصیات:

سخاوت و فیاضی:

ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

فیاضی اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ روزہ رکھتے تو اپنا افطار محتاجوں کو دے دیتے۔ آیت کریمہ:

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّہ ِ مِسْكِيناً وَيَتِيماً وَأَسِيراً۔

اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت کے ساتھ ساتھ غریب، محتاج ، یتیم اور جنگ کے قیدی کو،

سورہ انسان آیت 8

آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اگر کسی دن علی (ع) کے پاس صرف چار درہم ہوتے تو ایک درہم رات کو، ایک دن کو اور تیسرا درہم خفیہ طور پر اور ایک اعلانیہ بطور صدقہ عطا کرتے تھے، اور آیت کریمہ:

الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَھم بِاللَّيْلِ وَالنَّھارِ سِرّاً وَعَلاَنِيَةً فَلَھمْ أَجْرُھمْ عِندَ رَبِّھمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْھمْ وَلاَ ھمْ يَحْزَنُونَ۔

وہ جو اپنے اموال رات اور دن میں، خفیہ اور اعلانیہ خیرات میں دیتے ہیں، ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے پروردگار کے یہاں اور انہیں کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ افسوس ہو گا،

سورہ بقرہ آیت 174

روایت میں ہے کہ اپنے ہاتھوں سے مدینہ کے یہودیوں کے نخلستان کی آبیاری کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے ہاتھوں پر گٹھے پڑے گئے تھے اور اجرت لے کر صدقہ دیا کرتے تھے اور خود بھوکے رہتے تھے۔

روایت ہے کہ آپ نے کبھی بھی کسی سائل کو " نہ " نہیں کہا تھا۔

ایک دفعہ محفن ابن ابی محفن معاویہ کے پاس پہنچا۔ معاویہ نے پوچھا: کہاں سے آ رہے ہو ؟ تو اس نے معاویہ کی چاپلوسی کی غرض سے کہا: میں بخیل ترین شخص [یعنی علیؑ] کے ہاں سے آ رہا ہوں ! معاویہ نے کہا: وائے ہو تم پر ! تو کس طرح ایسی بات ایسے فرد کے بارے میں کہتا ہے کہ اگر اس کے پاس ایک گودام بھوسے کا بھرا ہوا ہو اور ایک سونے کا تو وہ سونے کا گودام بھوسے کے گودام سے پہلے محتاجوں پر خرچ کرے گا ؟

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، صص 22-21

عفو و حلم حیدری:

ابن ابی الحدید کہتے ہیں: امام علی (ع) حلم و درگذر اور مجرموں سے چشم پوشی کے حوالے سے، سب سے زیادہ صاحب حلم و بخشش تھے، چنانچہ واقعہ جمل اس مدعا کی بہترین دلیل ہے۔ جب آپ نے اپنے معاند ترین دشمن مروان ابن حکم پر قابو پا لیا تو اس کو رہا کر دیا اور اس کے عظیم جرم سے چشم پوشی کی۔

عبد اللہ ابن زبیر اعلانیہ امام کی بدگوئی کرتا تھا اور جب عبد اللہ ابن زبیر، عائشہ کے سپاہ کے ہمراہ بصرہ آیا تو اس نے خطبہ دیا اور خطبے کے دوران جو بھی وہ علی (ع) کے خلاف کہہ سکتا تھا، کہہ گیا حتی کہ اس نے کہا:

اب لوگوں میں ادنی ترین اور پست ترین انسان علی ابن ابی طالب تمہارے شہر میں آ رہا ہے، لیکن جب علی (ع) نے اس پر قابو پایا تو اسے چھوڑ دیا اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ایسے جاؤ کہ میں پھر کہیں تجھے نہ دیکھوں۔

نیز جنگ جمل کے بعد آپ نے مکہ معظمہ میں اپنے دشمن سعید ابن عاص پر قابو پا لیا لیکن اس سے نظریں موڑ لیں اور اس سے کچھ بھی نہ کہا۔

جنگ جمل کے بعد عائشہ کے ساتھ آپ کا برتاؤ مشہور ہے۔ جب جنگ جمل میں سپاہ عائشہ کو ہار ہوئی اور آپ فاتح ہوئے تو عائشہ کو فقط رسول خدا کی وجہ سے قبیلہ عبد قیس کی مردانہ لباس میں ملبوس اور تلواروں سے لیس بیس خواتین کو اس کے ہمراہ مدینہ واپس روانہ کر دیا۔ عائشہ سفر کے دوران مسلسل اعتراض کرتی رہی اور علی (ع) کو برا بھلا کہتی رہی کہ آپ نے اپنے اصحاب میں سے مردوں کو میرے ساتھ بھجوایا ہے اور میری حرمت شکنی کی ہے لیکن جب یہ قافلہ مدینہ پہنچا تو خواتین نے عائشہ سے کہا: دیکھو ہم سب عورتیں ہیں اور ہم ہی سفر میں تمہارے ساتھ تھیں۔

بصریوں نے عائشہ کا ساتھ دیا تھا اور علیؑ کے خلاف لڑے تھے اور آپ کے کئی ساتھیوں کو قتل بھی کیا تھا، لیکن جنگ کے بعد آپ نے سب کو معاف کیا اور اپنی سپاہ کو ہدایت کی کہ انہیں نہ چھیڑیں اور اعلان کیا کہ جو بھی ہتھیار زمین پر رکھے وہ آزاد ہے۔ آپ نے ان میں سے نہ کسی کو قیدی بنایا اور نہ ان کے اموال کو بطور غنیمت اخذ کیا اور آپ نے وہی کیا جو رسول خدا (ص) نے فتح مکہ کے بعد مکیوں کے ساتھ کیا تھا۔

صفین کے مقام پر معاویہ کی سپاہ نے امام علی (ع) کے لشکر کا پانی بند کیا اور شریعۂ فرات اور آپ کے لشکر کے درمیان حائل ہوا اور لشکر معاویہ کے سالار کہتے تھے کہ:

ہمیں علی کے لشکر کو پیاس کی حالت میں تہہ تیغ کرنا پڑے گا جیسا کہ انھوں نے عثمان کو پیاسا قتل کیا تھا ! اس کے بعد علی (ع) کی سپاہ نے لڑ کر دریا اور پانی کو ان سے واپس لے لیا۔ یہاں امام کی سپاہ میں بھی بعض لوگوں نے تجویز دی کہ بہتر ہے کہ ہم پانی کا ایک قطرہ بھی سپاہ معاویہ تک نہ پہنچنے دیں تا کہ جنگ کی مشقت برداشت کیے بغیر، وہ پیاس کی شدت سے مر جائیں۔ امام نے فرمایا:

ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے۔ دریا کے ایک حصے سے انہيں پانی اٹھانے دو۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، صص 24-22

نفاست و خوش طبعی:

ابن ابی الحدید نے ہی لکھا ہے کہ:

امام علی (ع) ہشاشت اور نفاست و خوش طبیعی کے لحاظ سے ضرب المثل تھے، چنانچہ آپ کے دشمن اس صفت کو آپ کے لیے عیب قرار دیتے تھے۔ صعصعہ ابن صوحان اور دیگر اصحاب نے آپ (ع) کے بارے میں کہا ہے کہ:

علی (ع) ہمارے درمیان ہم جیسے ایک تھے اور اپنے لیے کسی امتیازی حیثیت کے قائل نہيں تھے لیکن اپنی منکسر المزاجی اور ملنساری میں اس قدر صاحب رعب و ہیبت تھے کہ ہم آپ کے حضور شمشیر بدست شخص کے سامنے ہاتھ پاؤں بندھے قیدیوں کی مانند تھے۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 25

جہاد فی سبیل اللہ:

ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ: دوست اور دشمن کا اقرار ہے کہ آپ مجاہدین کے آقا ، سید اور سرور ہیں اور کوئی بھی آپ کے مقابلے میں اس عنوان کا لائق نہیں ہے اور سب جانتے ہیں کہ اسلام کی دشوار ترین اور شدید ترین جنگ، جنگ بدر تھی۔ جس میں 70 مشرکین ہلاک ہوئے اور 35 سے زائد علی (ع) کے ہاتھوں مارے گئے اور نصف کے قریب مشرکوں کو دوسرے مسلمانوں نے فرشتوں کی مدد سے ہلاک کر ڈالا۔

احد، احزاب (یا خندق)، خیبر، حنین اور دوسرے غزوات میں آپ کا کردار تاریخ کے ماتھے پر جھلک رہا ہے، جس کو بیان کی ضرورت نہيں ہے اور واضح اور بدیہی امور کی شناخت کی مانند ہے، بالکل اسی طرح، جس طرح کہ ہم مکہ اور مصر وغیرہ کے بارے میں جانتے ہیں۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 24

شجاعت حیدری:

ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ:

آپ میدان شجاعت کے وہ یکہ تاز ہیں جنہوں نے گزرنے والوں کو بھلوا دیا اور آنے والوں کو اپنے وجود میں فنا کیا۔ جنگوں میں علی (ع) کا کردار کچھ اس طرح سے تاریخ میں جانا پہچانا ہے کہ لوگ قیامت تک اس کی مثالیں دیتے ہیں۔ وہ مرد دلاور جو کبھی فرار نہیں ہوئے اور دشمن کی کثرت سے مرعوب نہیں ہوئے اور کسی سے دست بگریباں نہيں ہوئے، جس کو آپ نے ملک عدم کی طرف روانہ نہ کیا ہو اور کبھی ایسا وار نہ کیا کہ دوسرے وار کی ضرورت پڑے اور جب آپ نے معاویہ کو جنگ کے لیے بلایا اور فرمایا کہ:

آؤ دونوں تن بہ تن لڑتے ہيں تا کہ ہم میں سے ایک مارا جائے اور مسلمانوں کو آسودگی نصیب ہو۔ عمرو ابن عاص نے معاویہ سے کہا: علی نے تمہارے ساتھ انصاف کیا ہے۔ معاویہ نے کہا: جب سے تو میرے ساتھ ہے، تو نے کبھی میرے ساتھ ایسی چال نہيں چلی ہے ! تو مجھے ایسے فرد سے جنگ کا حکم دیتا ہے جس کے چنگل سے آج تک کوئی زندہ نکل سکا ہے ؟ میرا خیال ہے کہ تو میرے بعد حکومت شام پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 20

ملت عرب ہمیشہ اس بات پر فخر کرتی رہی ہے کہ:

میں فلاں جنگ میں علی کے سامنے گیا تھا، یا میرا فلاں عزیز جنگ میں علی کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ معاویہ اپنے بستر پر سویا ہوا تھا، اچانک آنکھیں کھولیں تو عبد اللہ ابن زبیر کو اپنے قریب دیکھا اور عبد اللہ ابن زییر نے مذاق کے انداز میں کہا:

یا امیر المؤمنین ! ہم آپس میں کشتی نہ لڑیں ؟ معاویہ نے کہا: ارے اے عبد ال لہ! دیکھ رہا ہوں کہ دلیری اور جوانمردی کی بات کر رہے ہو ! عبد اللہ نے کہا: کیا تم میری شجاعت کے منکر ہو ؟ میں وہ ہوں جو علی کے مقابلے کے لیے نکلا اور ان کے خلاف جنگ میں شریک ہوا۔

معاویہ نےکہا: ہرگز ایسا نہ تھا اور تم ایک لمحہ علی کے سامنے ڈٹ جاتے تو وہ تمہیں اور تمہارے باپ کو اپنے بائیں ہاتھ سے ہلاک کر دیتے اور ان کا دایاں ہاتھ بدستور فارغ اور جنگ کا منتظر رہتا۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، صص 21-20

عبادت امیر المؤمنین علی (ع):

ابن ابی الحدید کہتے ہیں: علی (ع) لوگوں میں عابد ترین تھے اور سب سے زیادہ نماز قائم کرتے اور روزے رکھتے تھے۔ لوگوں نے نماز تہجد، اوراد و اذکار اور مستحب نمازوں کی پابندی آپ سے سیکھی اور کیا سمجھتے ہو اس مرد کو کہ جو مستحب نمازوں اور نوافل کے تحفظ کے اس قدر پابند تھے کہ جنگ صفین میں لیلۃ الہریر نامی رات کو دو صفوں کے درمیان ایک بچھونا آپ کے لیے بچھایا گیا تھا اور تیر دائیں اور بائیں طرف سے کانوں کے ساتھ سرسراہٹ کے ساتھ گزرتے تھے اور آپ کسی خوف و خطر کے بغیر نماز میں مصروف تھے۔ آپ کی پیشانی کثرت سجود کی وجہ سے اونٹ کے گھٹنے کی مانند تھی، جو بھی آپ کی دعاؤں اور مناجاتوں کا بغور جائزہ لے، اور خداوند سبحان کی تعظیم اور بزرگی اور اس کی ہیبت کے سامنے خضوع و خاکساری اور اس کی عزت کے سامنے خشوع کو دیکھے تو، وہ آپ کے کلام میں چھپے ہوئے خلوص کا اندازہ لگا سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے کہ یہ کلام کس طرح کے دل سے جاری ہوا ہے اور کس زبان پر جاری ہوا ہے۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 27

زہد علوی:

علی (ع) زاہدوں کے سردار تھے اور جو بھی اس راہ پر گامزن رہنا چاہتا، وہ علی (ع) کی ذات کو مدنظر رکھتا تھا۔ علی (ع) نے کبھی کھانے سے اپنا پیٹ نہيں بھرا، آپ کا کھانا سخت ترین اور آپ کا لباس نہایت کھردرا ہوتا تھا۔

عبد اللہ ابن ابی رافع کہتے ہیں: میں عید کے دن علی (ع) سے ملا تو میں نے ایک سر بمہر تھیلا آپ کے قریب دیکھا، آپ نے اس کو کھولا تو میں نے دیکھا کہ جو کے آٹے سے تیار کردہ روٹی کے ٹکڑے ہیں۔ آپ نے کھانا شروع کیا۔ میں نے کہا: یا امیر المؤمنین ! آپ نے اس تھیلے کو سربمہر کیوں کیا ہے ؟ فرمایا: مجھے خوف ہوتا ہے کہ میرے بچے کہیں ان ٹکڑوں کو چربی یا روغن زیتون لگا دیں !

آپ کا لباس کبھی کھجوروں کے ریشوں اور کبھی کھال کا پیوند لگا ہوتا تھا۔ آپ کے جوتے ہمیشہ کھجور کے ریشوں سے بنے ہوتے تھے۔ آپ کا لباس نہایت کھردرے ٹاٹ کا بنا ہوتا تھا۔ آپ کا نان اور سالن اگر تھا تو سرکہ یا نمک تھا اور اگر اس سے آگے بڑھ جاتا تو زمین کے بعض گیاہ کھا لیتے تھے اور اگر اس سے بھی آگے بڑھ جاتا تو تھوڑا سا اونٹنی کا دودھ ہوتا تھا۔ گوشت نہيں کھاتے تھے مگر بہت کم اور فرمایا کرتے تھے کہ پیٹ کو جانوروں کا قبرستان نہ بناؤ۔ اس کے باوجود لوگوں میں سب سے زيادہ طاقتور تھے اور بھوک آپ کی طاقت میں کمی کا سبب نہیں بنتی تھی۔ آپ نے دنیا کو ترک کر دیا تھا جبکہ ما سوائے شام کے، پوری اسلامی سرزمین سے دولت آپ کی طرف جاری و ساری تھی، لیکن آپ ساری دولت لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیتے تھے۔

ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 26

اصحاب باوفا امیر المؤمنین علی (ع):

سلمان فارسی:

رسول خدا (ص) اور امام علی (ع) کے سب سے برتر اور نمایاں صحابی ہیں۔ معصومین سے ان کے بارے میں بہت زیادہ احادیث وارد ہوئی ہیں۔

من جملہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: سلمان ہم اہل بیت سے ہیں۔

بحار الانوار مجلسی، ج22، ص343

شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ج1، ص70

مالک اشتر نخعی:

مالک ابن حارث عبد یغوث نخعی معروف بہ مالک اشتر، یمن میں پیدا ہوئے۔ مالک اشتر نے سب سے پہلے امام علی (ع) کے ہاتھ پر بیعت کی۔ وہ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں امام علی (ع) کے سپہ سالار تھے۔

نہج ‌البلاغہ،‌ ترجمہ محمد دشتی، ص 565

ابو ذر غفاری:

جندب ابن جنادہ معروف بنام ابو ذر غفاری، رسول خدا پر ایمان لانے والے چوتھے فرد ہیں۔

ابو ذر، رسول اللہ کی شہادت کے بعد امام کے حامی تھے اور ان چند افراد میں سے ایک ہیں کہ جنہوں نے ابوبکر کی بیعت سے شدت سے انکار کیا تھا۔

طبقات الکبری، ابن سعد، ج 4، ص 224

دائرہ المعارف تشیع، ج 1، ذیل ابو ذر

مقداد ابن عمرو:

مقداد ابن اسود کندی کے نام سے مشہور ہیں اور ان سات افراد میں سے ایک ہیں جو رسول اللہ کی بعثت کے ابتدائی ایام میں ایمان لائے اور مسلمان ہوئے۔ رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد مقداد بھی ابوبکر کی بیعت سے انکار کرنے والوں میں ایک تھے اور امام علی (ع) کی 25 سالہ گوشہ نشینی کے ایام میں ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے۔

تاریخ یعقوبی، ج1، ص524

کمیل ابن زیاد:

کمیل ابن زیاد نخعی اصحاب رسول کے تابعین میں شامل ہیں اور ان کا شمار امام علی (ع) اور امام حسن (ع) کے اصحاب خاص میں ہوتا ہے۔

وہ ان شیعیان آل رسول (ص) میں سے ہیں کہ جنہوں نے حضرت علی (ع) کی خلافت کے ابتدائی ایام میں آپ کی بیعت کی اور امام علی کی جنگوں میں آپ کے دشمنوں کے خلاف لڑے۔

قطب راوندی، منہاج البراعہ ، ج 21، ص 219

شیخ مفید، الاختصاص، ص 108

عمار یاسر:

عمار ابن یاسر اولین شہدائے اسلام، یاسر اور سمیہ کے بیٹے ہیں۔ وہ رسول اللہ (ص) پر ایمان لانے والے پہلے مسلمانوں میں سے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی پہلی ہجرت یعنی ہجرت حبشہ میں حبشہ نامی افریقی ملک میں ہجرت کر گئے اور رسول اللہ (ص) کی ہجرت مدینہ کے بعد، مدینہ میں آپ سے آ ملے۔

وہ رسول اللہ (ص) کی وفات کے بعد بدستور اہل بیت اور امام علی (ع) کے دفاع میں استوار رہے۔ عمر ابن خطاب کی خلافت کے ایام میں کچھ عرصے تک کوفہ کے امیر رہے لیکن چونکہ عادل انسان تھے اور سادہ زندگی گزارنے کے قائل تھے، کچھ لوگوں نے ان کی برطرفی کے اسباب فراہم کیے، جس کے بعد وہ مدینہ واپس آ گئے اور علی (ع) کے ساتھ رہے اور آپ سے فیض حاصل کرتے رہے۔

علی کیست، کمپانی، ص 412

ابن عباس:

عبد اللہ ابن عباس پیغمبر (ص) اور امام علی (ع) کے چچا زاد بھائی ہیں۔ انھوں نے رسول اللہ (ص) سے بہت زيادہ حدیثیں نقل کی ہیں۔

ابن عباس خلفاء کے دور میں ہمیشہ علی (ع) کو لائق خلافت سمجھتے تھے اور امام علی کی خلافت کے دوران جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں امام کی مدد کو آئے اور امام کی طرف سے بصرہ کے والی تھے۔

شیخ مفید، امالی، ص 140

شیخ مفید، جمل، ص265

وقعۃ صفین، ابن مزاحم، ص 410

شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج 2، ص 273 و ج 6، ص 293

محمد بن ابی بکر:

یہ ابوبکر کے فرزند تھے۔ سن 10 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ وہ امام کے اصحاب خاص میں شمار ہوتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ سابقہ خلفاء نے امام علی کا حق پامال کیا ہے اور کہتے تھے کہ کوئی بھی خلافت کا منصب سنبھالنے کے سلسلے میں امام علی سے زیادہ اہل نہیں ہے۔

شوشتری، قاموس الرجال، ج 7، ص 495

محمد نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں امام علی کا ساتھ دیا۔ وہ رمضان سن 36 ہجری کو مصر کے حاکم مقرر ہوئے اور صفر سن 38 ہجری کو معاویہ کی سپاہ کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔

الغارات، تحقیق ارموی، ابراہیم بن محمد، ج 1، ص224 و 285

الاعلام، زرکلی، ج 6، ص 220

میثم تمار:

میثَم تمّار اَسَدی کوفی امام علی (ع) اور حسنین (ع) کے اصحاب خاص میں شامل ہیں۔ وہ شرطۃ الخمیس کے رکن تھے۔ یہ وہ جماعت تھی جس کے اراکین نے امام علی کے ساتھ عہد کیا تھا کہ زندگی کے آخری لمحے تک آپ کا ساتھ دیں گے اور آپ کی مدد کریں گے۔

رجال برقی، برقی، ص 3

اویس قرنی:

اویس ابن عامر مرادی قرنی یمن کے مشہور زاہدین و عابدین میں سے ہیں۔ وہ رسول اللہ (ص) کے دور میں ایمان لائے۔

اویس، امام علی (ع) کے اصحاب خاص میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے امام کی بیعت کی اور عہد کیا کہ جان کی قربانی کی حد تک آپ کا دفاع اور کبھی بھی جنگ کی طرف پشت نہیں کریں گے۔

ابن اثیر، اسد الغابہ، ج 1، ص 179

شیخ مفید، الجمل، ص 59

زید ابن صوحان:

زید ابن صوحان عبدی امام علی (ص) کے اصحاب میں شامل ہیں جنہوں نے ہمیشہ امام علی (ع) کا ساتھ دیا اور آخر کار جنگ جمل میں ناکثین یا عہد شکنوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

شوشتری، مجالس المؤ منین، ج 1، ص 289

صعصعہ ابن صوحان:

صعصعہ ابن صوحان عبدی امام علی (ع) کے اصحاب میں شامل ہیں۔ انھوں نے امام علی کی تمام جنگوں میں شرکت کی۔

وہ ان اولین افراد میں شامل ہیں کہ جنہوں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ بیعت کی۔

ابن اثیر، اسدالغابہ ، ج 3، ص 20

تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 179

عبید اللہ ابن ابی رافع:

عبید اللَّہ ابن ابی رافع کے والد ابو رافع رسول اللہ (ص) کے آزاد کردہ غلام تھے جبکہ وہ خود امیر المؤمنین کے کاتب اور اصحاب خاص میں سے تھے۔ انھوں نے علی (ع) کے فیصلے اور تسمیۃ من شہد مع امیر المؤمنین ان اصحاب رسول (ص) کے نام لکھے جو جمل، صفین اور نہروان میں علی (ع) کے ساتھ رہے، کے نام سے دو کتب تالیف کی ہیں۔

شیخ طوسی ،الفہرست ، ص 174، ش 467

خوئی ، معجم رجال الحدیث، ج 12 ص 69

رجال برقی، ص 4

حجر ابن عدی:

اپنے بھائی ہانی ابن عدی کے ہمراہ رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوئے تھے۔ وہ حجر الخیر کے لقب سے بھی مشہور ہیں۔ مستجاب الدعوہ تھے۔ ابو ذر کی وفات کے وقت مالک اشتر کے ہمراہ ان کی بالین پر حاضر ہوئے۔ با وضو رہتے اور جب بھی وضو کرتے نماز بھی پڑھتے۔ جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں علی (ع) کے ساتھ آپ کے دشمنوں سے لڑے۔

قصۂ کربلا، ص 43

تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 230

کامل بن اثیر، ج 3، ص 472

فضائل امیر امؤمنین علی (ع) صحیحین (بخاری و مسلم) کی روشنی میں:

پہلی فضیلت: دشمنانِ علی (ع)، دشمنانِ خدا ہیں:

1- عن ابی ذر قال نزلت الآیة: ھذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّھمْ،

سورہ حج آیت 9

فی ستة مِن قریشٍ عَلِی وَحَمزَة وَ عُبَیدَة بالحارث،  و شیبة بن ربیعة وعُتبة بن ربیعة والولید بن عتبة،

ابو ذر کہتے ہیں : یہ آیت «ھذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّہِ» دو قریش کے گروہ جو راہ خدا میں آپس میں دشمنی اور عداوت رکھتے تھے یہ آیت تین خالص مومن اور قریش کے تین کافروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یعنی علی (ع) ، حمزہ (ع)، عبیدہ ابن حارث، یہ توحید کے پرچم کو بلند کرنے کے لیے لڑے اور عتبہ، شیبہ، ولید، یہ توحید کے پرچم کو سرنگوں کرنے کے لیے لڑے۔

صحیح بخاری، ج 5 ، کتاب المغازی،باب 8 قتل ابی جھل، حدیث نمبر 3747، 3751، 3750، 3748، 3749

و ج 6، کتاب التفسیر، تفسیر سورہ الحج،باب: 3  آیہٴ ھذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّھمْ، حدیث 4467

2- قیس ابن عباد عن علی (ع) فینا نزلت ھذہ الآیة: ھذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِیْ رَبِّھمْ۔

قیس ابن عباد حضرت علی (ع) سے نقل کرتے ہیں:

آیہٴ  ھذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّھمْ، ہماری شان میں نازل ہوئی ہے۔

صحیح بخاری، ج 5 ، کتاب المغازی،باب 8 قتل ابی جھل، حدیث نمبر 3747، 3751، 3750، 3748، 3749

و ج 6، کتاب التفسیر، تفسیر سورہ الحج،باب: 3  آیہٴ ھذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّھمْ، حدیث 4467

دوسری فضیلت : حضرت علی (ع) کی محبت ایمان کی پہچان اور آپ کی دشمنی نفاق کی علامت ہے:

3- عن عدی بن ثابت عن زر قال: قال علی (ع): والَّذی فلق الحبة و بریٴ النسمة انہ لعھد النبی (ص) الی، اَنْ لَا یُحِبَّنِی اِلَّا مُوٴمِنٌ وَ لاَ یَبْغِضُنِی اِلَّا مُنَافِقٌ،

عدی ابن ثابت زر سے نقل کرتے ہیں:

امیر المومنین حضرت علی (ع) نے فرمایا : قسم اس ذات وحدہ لا شریک کی جس نے دانہ کو شگافتہ اور مخلوق کو پیدا کیا کہ یہ رسول خدا (ص) کا مجھ سے عھد و پیمان ہے کہ مجھے دوست نہیں رکھے گا سوائے مومن کے اور مجھ سے دشمنی نھیں کرے گا سوائے منافق کے۔

صحیح مسلم ج 3 ، کتاب الایمان، باب 33 ، ان حب الانصار و علی (ع) من الایمان، حدیث 78

تیسری فضیلت : علی (ع) کی نماز، رسول خدا (ص) کی نماز ہے:

عن مُطَرِّف بن عبد الله عن عمران بن حصین، قال: صلّی مع علی علیہ السلام بالبصرة، فقال: ذکرنا ھذا الرجل صلٰوة نصلیھا مع رسول اللّٰہ، فذکر انہ کان یکبر کلما رفع ، وکلما وضع،

مطرف ابن عبد اللہ کہتے ہیں: ایک مرتبہ عمران ابن حُصَین نے بصرہ میں حضرت علی (ع) کے پیچھے نماز پڑھی تو کہنے لگے آج تو میں نے وہ نماز پڑھی ہے جو رسول خدا کے پیچھے پڑھا کرتا تھا، کیونکہ رسول خدا (ص) بھی ایسے ہی رکوع و سجود نشست و برخواست میں تکبیر کہا کرتے تھے۔

صحیح بخاری ج 1 ، کتاب الصلوٰة، باب اتمام تکبیر فی الرکوع حدیث 751،  و باب اتمام التکبیر فی السجود، حدیث 353

صحیح مسلم ج 2 ، کتاب الصلوٰة، باب 10 اثبات التکبیر فی کل خفض و رفع حدیث 393

چوتھی فضیلت: رسول خدا (ص) کا حضرت علی (ع) کو ابو تراب کا لقب عطا کرنا:

عن ابی حازم ان رجلاً جاء الی سھل بن سعد، فقال: ھذا فلان (امیرالمدینة) یدعو علیاً عند المنبر، قال : فیقول: ماذا قال ؟ یقول لہ ابو تراب، فضحک، قال:والله ما سماہ الا النبی، وما کان لہ اسم احب الیہ منہ۔

ابو حازم نے نقل کیا ہے کہ: ایک مرد سہل ابن سعد کے پاس آیا اور کہنے لگا: فلاں شخص (امیر مدینہ) رسول خدا (ص) کے منبر کے پاس حضرت علی (ع) کو برا بھلا کہتا ہے، سہل ابن سعد نے اس سے پوچھا : وہ کیا کہتا ہے ؟ اس نے کہا : علی کو ابوتراب کہتا ہے، سہل یہ سن کر مسکرائے اور کہنے لگے : قسم بخدا یہ نام اور لقب انہیں رسول خدا (ص) کے سوا کسی نے نہیں دیا اور حضرت علی علیہ السلام اس لقب کو دیگر تمام القاب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔

صحیح بخاری ج 4 ،کتاب فضایل الصحابة، باب مناقب علی ابن ابی طالب (ع) حدیث 3500۔

و ج 1، کتاب الصلاة ابواب المسجد، باب نوم الرجل فی المسجد حدیث 430،

و ج 4 ، کتاب الادب، باب التکنیّ بابی تراب حدیث 5851۔

و ج 8 ،کتاب الاستئذان، باب القائلہ فی المسجد حدیث 5924۔ صحیح مسلم ج 7 ، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل علی ابن ابی طالب علیہ السلام حدیث 2409

جیسا کہ متن حدیث میں آیا ہے کہ لقب ِ ابو تراب وہ لقب تھا جس سے امیر الموٴ منین (ع) بہت خوش ہوتے اور اس پر افتخار کرتے تھے، لیکن دشمنان علی (ع) کو یہ لقب بھی گراں گزرا ، لہٰذا چونکہ اس سے انکار نہیں کر سکتے تھے، اس لیے انھوں نے اس میں ایسی تحریف کر دی کہ حضرت امیر لموٴمنین (ع) کی اس لقب سے فضیلت ظاہر نہیں ہوتی، چنانچہ اس لقب کے عطا کرنے کے بارے میں انھوں نے ایسی روایات جعل کیں کہ جن سے امام المتقین حضرت امیر (ع) کی منقصت ظاہر ہوتی ہے۔

پانچویں فضیلت : علی (ع) سب سے زیادہ قضاوت سے آشنا تھے:

بخاری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے:

عمر نے کہا: حضرت علی (ع) ہم میں سب سے زیادہ قضاوت سے آشنا ہیں،

وَاَقْضَاْنَاْ عَلِیٌّ ،

صحیح بخاری ، ج 6، کتاب التفسیر سورہ بقرہ ،باب تفسیر ما ننسخ من آیة، حدیث 4211

عمر کا اعتراف خود اپنی طرف سے نہ تھا بلکہ رسول اسلام نے بار ہا اس جملہ کو لوگوں کے سامنے فرمایا تھا کہ علی (ع) اصحاب میں سب سے زیادہ علم قضاوت رکھتے ہیں اور کبھی آپ فرماتے تھے کہ علی (ع) اس امت میں سب سے زیادہ علم قضاوت رکھتے ہیں۔

سنن ابن ماجہ ج 1۔

استیعاب ج 1 ،حرف العین باب علی ص 8 ۔ (اس کتاب میں اقضانا اور اقضاھم آیا ہے۔

بہرحال قابل توجہ نکتہ یہاں پر یہ ہے کہ مسئلہٴ قضاوت میں تقوا و پرہیزگاری کے علاوہ وسیع معلومات اور کافی آگاہی کا ہونا ضروری ہے اور جب تک ان علوم سے آشنا نہیں ہو سکتا، قضاوت کرنا نا ممکن امر ہے ، لہٰذا حضرت علی علیہ السلام کا بقول مرسل اعظم علم قضاوت میں سب سے زیادہ آشنا ہونا، اس بات کی دلیل ہے آپ (ع) سب سے زیادہ علم و آگاہی رکھتے تھے، گویا اَقْضَاْھُم کا جملہ اَعْلَمُھُمْ اور اَتَقَاْھمْ وغیرہ… کی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔

چھٹی فضیلت : علی (ع) خدا و رسول (ص) کو دوست رکھتے تھے اور خدا و رسول (ص) بھی آپ (ع) کو دوست رکھتے تھے:

عن سھل بن سعد قال: قال النبی (ص): یوم خیبر لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ غَداً رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ فبات الناس لیلتھم ایھم یُعطٰی ؟ فغدَوْا کلھم یرجوہ فقال (ص): این علی (ع) ؟ فقیل : یشتکی عینیہ، فبصق فی عینیہ ،ودعی لہ، فبرء کاٴن لم یکن بہ وجع، فاعطاہ، فقال (ع): اٴُقاتلھم حتی یکونوا مثلنا ؟ فقال: انفذ علی رِسْلِکَ حتیٰ تَنْزِلَ بِساحَتِھم، ثم ادعھم علی الاسلام، واخبرھم بما یجب علیھم ، فو الله لِاٴَن یھدی الله بک رجلا،خیرٌ لک من ان یکون لک حمر النعم۔

سہل ابن سعد نے رسول اسلام (ص) سے نقل کیا ہے: رسول خدا (ص) نے جنگ خیبر کے دن یہ ارشاد فرمایا:

لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ غَداً رَجُلاً یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ وَ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ،

کل میں ایسے مرد کو علم دوں گا جو اللہ و رسول (ص) کو دوست رکھتا ہو اور اللہ و رسول (ص) اسے دوست رکھتے ہوں۔

سہل کہتا ہے کہ: اس شب تمام لشکر اسلام کو چین کی نیند نہ آئی، کیونکہ ہر شخص اسی انتظار میں تھا کہ کل مجھے علم اسلام مل جائے لیکن رسول (ص) نے ارشاد فرمایا : علی (ع) کہاں ہیں ؟

لوگوں نے کہا: ان کی آنکھوں میں درد ہے( آپ نے مولا علی (ع) کو طلب فرما کر) آپ کی آنکھوں میں لعاب دہن لگا دیا اور دعا فرمائی: ( اے اللہ علی (ع) کو شفا یاب فرما دے) رسول (ص) کی دعا کے نتیجہ میں آپ (ع) کی آنکھیں ایسی ٹھیک ہو گئیں جیسے کہ آپ کی آنکھوں میں درد ہی نہ تھا، چنانچہ رسول (ص) نے علم اسلام کو آپ کے ہاتھوں میں دے دیا، آپ (ع) نے فرمایا: یا رسول اللہ ! (ص) کب تک جنگ کروں ؟ کیا اس وقت تک جنگ کرو جب تک کہ وہ ایمان و عمل میں ہمارے جیسے نہ ہو جائیں۔

رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے علی (ع) ! اس لشکر کفار کی طرف حرکت کرو ،اور انہیں دعوت اسلام دو، انہیں قوانین اسلام سے آگاہ کرو ، کیونکہ قسم بخدا اگر خدا نے تمہارے ذریعہ سے ایک شخص کو بھی ہدایت فرما دی تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہو گا۔

صحیح بخاری ج 4 ، کتاب الجھاد و السیر ، باب 121 ما قیل فی لواء النبی (ص) حدیث  2812،

باب 143 فضل من اسلم علی یدیہ رجل حدیث 2847،کتاب فضایل الصحابہ،

باب 9 مناقب علی ابن ابی طالب حدیث 3498، 3499

صحیح مسلم ج 7 ، کتاب فضائل الصحابة ، باب فضائل علی ابن ابی طالب حدیث 2405، کتاب الجھاد و السیر،

باب 45 عزوہ ذی قرد وغیرھا حدیث 1807

ساتویں فضیلت : حضرت علی (ع) کی رسول خدا (ص) کے نزدیک وہی منزلت تھی، جو ہارون کی موسیٰ کے نزدیک تھی:

عن مصعب بن سعد عن ابیہ ان رسول الله (ص) خرج الی تبوک واستخلف علیاً ،فقال: اٴ تخلفنی فی الصبیان والنساء ؟ قال رسول اللّٰہ: اَلاَ ترَضِیْ اَنْ َتکُوْنَ ِمنیِّ بِمَنْزِلَةِ ھاَرُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ،اِلاَّ اَنہَّ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ،

مصعب ابن سعد نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے: جب رسول اسلام (ص) جنگ تبوک کیلئے خارج ہوئے اور آپ نے علی (ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا ، تو حضرت علی (ع) نے دریافت کیا: یا رسول الله ! آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ رسول خدا (ص) نے جواب میں ارشاد فرمایا: اے علی (ع) ! تمہاری میرے نزدیک وہی منزلت ہے جو ہارون (ع) کی موسی (ع) کے نزدیک تھی، بس فرق اتنا ہے کہ وہ موسیٰ (ع) کے بعد نبی تھے اور تم میرے بعد نبی نہیں ہو۔

صحیح بخاری ج 5 ، کتاب فضایل الصحابة ، باب 9 مناقب علی ابن ابی طالب علیہ السلام، حدیث 3503

و ج 5 ، کتاب المغازی، باب 74 عزوہ تبوک حدیث 4154

صحیح مسلم ج 2 ، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل علی (ع) حدیث 2404

یہی حدیث دوسری  سند کے ساتھ بھی اسی کتاب میں مذکور  ہوئی ہے۔

مذکورہ حدیث شیعہ و سنی دونوں کے درمیان متفق علیہ ہے، یہاں تک کہ علی (ع) کے قدیمی اور جانی منافق  دشمن معاویہ نے بھی اس حدیث سے انکار کرنے کی جراٴت نہیں کی !

اس حدیث میں رسول خدا (ص) نے علی (ع) کو تمام چیزوں میں ہارون سے تشبیہ دی ہے اور صرف نبوت کو خارج کیا ہے، یعنی ہارون اور علی (ع) کے درمیان صرف نبوت کا فرق ہے، بقیہ تمام اوصاف، کمالات، منصب اور مقام میں باہم شریک ہیں ، کیونکہ اگر فرق ہوتا تو رسول خدا (ص) نے جس طرح نبوت کو جدا کر دیا، اسی طرح دوسری جہت کو بھی جدا کر دیتے، لہٰذا رسول خدا (ص) کا دیگر مناصب و کمالات سے استثناء نہ کرنا واضح دلیل ہے کہ آپ میں ہارون (ع) کے تمام اوصاف پائے جانے چاہیے، تب تشبیہ صحیح قرار پائے گی اور جاننا چاہیے کہ جناب ہارون مندجہ ذیل منصب اور کمال پر فائز تھے لہٰذا مولا علی (ع) میں یہ اوصاف پائے جانے چاہیے تا کہ تشبیہ صحیح قرار پائے:

1- مقام وزارت:

اس تشبیہ کیمطابق نبوت کے علاوہ تمام اوصاف علی (ع) میں پائے جانے چاہیے تب مذکورہ تشبیہ صحیح ہو گی، لہٰذا جس طرح حضرت موسی (ع) کے بھائی ہارون (ع) آپ کے وزیر تھے جیساکہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:

وَاجْعَلْ لِیْ وَزِیْراً مِنْ اَھْلِیْ. ھَاْرُوْنَ اَخِیْ ،

سورہٴ طہ آیت 30

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام بھی رسول اسلام (ص) کے وزیر ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ر سول خدا (ص) نے متعدد جگہوں پر علی (ع) کے لیے اپنی وزارت کا اظہار کیا تھا۔

2- مقام اخوت و برادری:

جس طرح ہارون موسی (ع) کے بھائی تھے،ھاْرُوْنَ اَخِیْ، اسی طرح علی (ع) بھی رسول خدا (ص) کے رشتہ اور روحانی اعتبار سے بھائی ہیں۔

قال رسول اللہ (ص): یا علی انت اخی فی الدنیا و الآخرۃ،

اے علی تو میرا دنیا اور آخرت میں بھائی ہے۔

3- مقام خلافت:

جس طرح موسی (ع) نے ہارون کو کوہ طور پر جاتے وقت اپنا خلیفہ بنایا:…

وَ قَاْلَ مُوْسیٰ ِلَاخِیْہِ ھاْرُوْنَ اخْلُفنْیْ فِیْ قَوْمِیْ…

سورہ ٴاعراف، آیت 142

جناب ہارون (ع) بنی اسرائیل کے درمیان حضرت موسی (ع) کے خلیفہ اور جانشین قرار پائے اور حضرت موسیٰ (ع) نے ہارون کی اطاعت کو بنی اسرائیل پر واجب قرار دیا اور ہارون (ع) کو وصیت کی کہ رسالت کی تبلیغ کریں اور میرے دین کو وسعت دیں ، اسی طرح حضرت علی علیہ السلام رسول اسلام (ص) کے خلیفہ اور جانشین ہیں۔

4- مقام وصایت (وصی):

جب تک موسی (ع) زندہ تھے، ہارون موسیٰ کے خلیفہ اور جانشین تھے، لہٰذا اگر حضرت موسیٰ (ع) وفات پا جاتے تو یقینا حضرت ہارون (ع) ہی ان کے وصی قرار پاتے، لیکن ہارون (ع) کا انتقال جناب موسیٰ کی حیات میں ہو گیا تھا، بہرحال جس طرح حضرت موسی (ع) کے ہارون(ع) وصی ہوتے، اسی طرح حضرت علی (ع) بھی مذکورہ حدیث کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) کے وصی ہیں۔

5- مقام معاونت:

جس طرح جناب ہارون حضرت موسی (ع) کے قوت بازو اور امر رسالت میں معاون تھے ، جیسا کہ قرآن میں جناب موسی (ع) کی ہارون (ع) کے بارے میں دعا اور اس کے قبول ہونے کے الفاظ آئے ہیں:

اُشْدُدْ بِہ اَزْرِی. وَاَشْرِکْہُ فِیْ اَمْرِیْ .… قَاْلَ َقْد اُوْتِیت سُوْٴلَکَ یٰا مُوْسٰی،

سورہٴ طٰہٰ آیت 31، 32، 36

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام بھی اس صریح حدیث کے مطابق رسول خدا (ص) کے قوت بازو اور معاونِ رسالت تھے ، البتہ خلافت اور جانشینی کے اعتبار سے نہ نبوت کے لحا ظ سے۔

ایک قابل توجہ نکتہ:

اس جگہ ایک غلط فہمی کا ازالہ کر دینا لازم ہے اور وہ یہ کہ بعض اہل سنت یہ سمجھتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے حدیث ِمنزلت، صرف جنگ تبوک کی طرف روانہ ہوتے وقت ارشاد فرمائی تھی، یعنی اس کے علاوہ کہیں بھی اس حدیث کا ذکر نہیں فرمایا تھا، لہٰذا حضرت علی (ص) کی خلافت ایک زمانہ کے لیے مخصوص اور محصور ہے،

حالانکہ بالکل ایسا نہیں ہے بلکہ اہل سنت کی اپنی متعدد معتبر کتابوں کے مطابق رسول خدا (ص) نے تقریبا 6 موارد پر یہ حدیث اختلاف زمان و مکان کے ساتھ ارشاد فرمائی ہے، لہٰذا حدیث ِمنزلت کو ایک خاص زمانہ میں منحصر نہیں کیا جا سکتا۔

تفصیل دیکھئے: کتاب المراجعات، علامہ سید شرف الدین ،

کفایة الطالب فی مناقب علی بن ابی طالب ص 281، باب 60 فی تخصیص علی بقولہ(ص) انت بمنزلة ھارون من موسی،

آٹھویں فضیلت:  علی (ع) رسول خدا (ص) سے اور رسول خدا (ص) علی (ع) سے ہیں:

اَنْتَ مِنّیِ وَاَنَاْ مِنْکَّ،

حضرت رسالتمآب (ص) نے فرمایا: اے علی! تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔

صحیح بخاری ج 5، کتاب فضایل الصحابة، باب مناقب علی۔

و ج 4، کتاب المغازی، باب 41 عمرة القضاء (صلح حدیبیہ) حدیث 4005 ۔

کتاب الصلح ، باب 6 کیف یُکتَبُ: ھذا ما صالح فلان بن فلان،حدیث 2552

نویں فضیلت: رسول خدا (ص) وقتِ وفات علی (ع) سے راضی رخصت ہوئے تھے:

عمر کا بیان ہے کہ جب رسول خدا (ص) نے وفات پائی تو آپ حضرت علی (ع) سے راضی تھے۔

صحیح بخاری ج 5، کتاب فضائل الصحابة ،باب مناقب علی(ع)

حضرت علی علیہ السلام کا یوم شہادت:

عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کی مفتخر ترین ہستیوں میں مرسل اعظم ، نبی رحمت حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد سب سے پہلا نام امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کا آتا ہے، لیکن آپ سے متعلق محبت و معرفت کی تاریخ میں بہت سے لوگ عمدا یا سہوا افراط و تفریط کا بھی شکار ہوئے ہیں اور شاید اسی لیے ایک دنیا دوستی اور دشمنیوں کی بنیاد پر مختلف گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم ہو گئی ہے، خود امیر المومنین علی (ع) نے نہج البلاغہ کے خطبہ 127 میں ایک جگہ خبردار کیا ہے کہ :

جلد ہی میرے سلسلے میں دو گروہ ہلاک ہوں گے، ایک وہ دوست جو افراط سے کام لیں گے اور ناحق باتیں میری طرف منسوب کریں گے اور دوسرے وہ دشمن جو تفریط سے کام لے کر کینہ و دشمنی میں آگے بڑھ جائیں گے اور باطل کی راہ اپنا لیں گے۔ میرے سلسلے میں بہترین افراد وہ ہیں جو میانہ رو ہیں اور راہ حق و اعتدال سے تجاوز نہیں کرتے۔

19 ماہ رمضان المبارک کو وقت سحر سجدۂ معبود میں جس وقت امیر المومنین کی پیشانی خون میں غلطاں ہوئی خدا کے معتمد اور رسول اسلام (ص) کے امین ، فرشتوں کے امیر ، جنگ احد میں لافتی الّا علی لاسیف الّا ذوالفقار کا نعرہ بلند کرنے والے جبرئیل نے تڑپ کر آواز بلند کی تھی :

ان تَہَدّمَت و اَللہ اَرکان الہُدیٰ،

خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہو گئے،

اور مسجد کوفہ میں جب سارے مسلمان اپنے امام و پیشوا کے غم میں نوحہ و ماتم کرنے میں مصروف تھے، خداوند کا مخلص بندہ اپنے معبود سے ملاقات کا اشتیاق دل میں لیے آواز دے رہا تھا:

فُزتُ وَ رَبّ الکَعبہ،

رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا،

اور علی (ع) آج بھی کامیاب ہیں کیونکہ ان کی سیرت ، ان کا کردار ، ان کے اقوال و ارشادات ان کی حیات اور شہادت کا ایک ایک پہلو نہ صرف عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کی کامیابی و کامرانی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے، اسی لیے علی ابن ابی طالب (ع) سے محبت اور معرفت رکھنے والے کل بھی اور آج بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ علی (ع) کی شہادت تاریخ بشریت کے لیے ایک عظیم خسارہ اور ایسی مصیبت ہے کہ اس پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔

نبی اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ملت اسلامیہ کا وہ کارواں جو 25 سال پیچھے دھکیل دیا گيا تھا، جب حضرت علی (ع) کی ولایت و امامت پر متفق ہوا اور حکومت و اقتدار امیر المومنین کے حوالے کر دیا گیا تو 18 ذی الحجّہ سن 35 ہجری سے 21 ماہ رمضان المبارک سن 40 ہجری تک چار سال دس مہینہ کی مختصر مدت میں علی ابن ابی طالب نے وہ عظیم کارنامے قلب تاریخ پر ثبت کر دئیے کہ اگر ظلم و خیانت کی شمشیر نہ چلتی اور جرم و سازش کا وہ گھنونا کھیل نہ کھیلا جاتا جو عبد الرحمن ابن ملجم اور اموی خاندان کے جاہ طلبوں نے مل کر کھیلا تھا، تو شاید دنیائے اسلام کی تقدیر ہی بدل جاتی پھر بھی علی ابن ابی طالب (ع) نبی اکرم (ص) کی 23 سالہ زندگی کے ساتھ اپنی پانچ سالہ حکومت کے وہ زریں نقوش تفسیر و تشریح کی صورت میں چھوڑ گئے ہیں کہ رہتی دنیا تک کے لیے اسلام کی حیات کا بیمہ ہو چکا ہے اور قیامت تک روئے زمین پر قائم ہونے والی ہر حکومت اس کی روشنی میں عالم بشریت کی ہر ضرورت کی تکمیل کر سکتی ہے۔

چونکہ 21 رمضان المبارک کو علوی زندگی کا وہ صاف و شفاف چشمہ جو دنیائے اسلام کو ہمیشہ سیر و سیراب کر سکتا تھا، ہم سے چھین لیا گيا لہذا یہ مصیبت ایک دائمی مصیبت ہے اور آج بھی ایک دنیا علی (ع) کے غم میں سوگوار اور ماتم کناں ہے۔

19 رمضان المبارک:

سن 40 ہجری قمری حضرت علی علیہ السلام مسجد کوفہ میں قاتلانہ حملہ سے شدید زخمی ہوئے۔

عبد الرحمن ابن ملجم مرادی ملعون خوارج میں سے تھا اور ان تین آدمیوں میں سے تھا کہ جنہوں نے مکہ معظمہ میں قسم کھا کر عہد کیا تھا کہ تین افراد یعنی امام علی بن ابیطالب (ع) معاویہ ابن ابی سفیان اور عمرو عاص کو قتل کر ڈالیں گے۔

ہر کوئی اپنے منصوبے کے مطابق اپنی جگہ کی طرف روانہ ہوا اور اس طرح عبد الرحمن ابن ملجم مرادی 20 شعبان سن 40 ہجری کو شہر کوفہ میں داخل ہوا۔

19 رمضان سن 40 ہجری کی سحر کو کوفہ کی جامعہ مسجد میں  امیر المومنین علی (ع) کے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔

دوسری طرف قطامہ نے وردان ابن مجالد نامی شخص کے ساتھ اپنے قبیلے کے دو آدمی اسکی مدد کے لیے روانہ کیے تھے۔

اشعث ابن قیس کندی جو کہ امام علی (ع) کے ناراض سپاہیوں اور اپنے زمانے کا زبردست چاپلوس اور منافق آدمی تھا، حضرت امام علی (ع) کو قتل کرنے کی سازش میں ان کی رہنمائی کی اور انکا حوصلہ بڑھایا۔

حضرت علی علیہ السلام 19 رمضان کی شب اپنی بیٹی ام کلثوم کے ہاں مہمان تھے۔

روایت میں آیا ہے کہ آپ اس رات بیدار تھے اور کئی بار کمرے سے باہر آ کر آسمان کی طرف دیکھ  کر فرماتے تھے: خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے جھوٹ کہا گيا ہے۔ یہی وہ رات ہے جس میں مجھے شہادت کا وعدہ دیا گيا ہے۔

مولا علی (ع) بہر حال نماز صبح کے لیے کوفہ کی جامعہ مسجد میں داخل ہوئے اور سوئے ہوئے افراد کو نماز کے لیے بیدار کیا، من جملہ خود عبد الرحمن ابن ملجم مرادی کو جو کہ پیٹ کے بل سویا ہوا تھا کو بیدار کیا اور اسے نماز پڑھنے کو کہا۔

جب آپ محراب میں داخل ہوئے اور نماز شروع کی تو پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ شبث ابن بجرہ نے شمشیر سے حملہ کیا مگر وہ محراب کے طاق کو جا لگی اور اسکے بعد عبد الرحمن ابن ملجم مرادی نے نعرہ لگایا :

للہ الحکم یا علی ، لا لک و لا لاصحابک !

اور اپنی شمشیر سے حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک  پر حملہ کیا اور آنحضرت کا سر سجدے کی جگہ ( ماتھے ) تک زخمی ہو گیا۔

حضرت علی علیہ السلام نے محراب میں گر کر اسی حالت میں فرمایا:

بسم اللہ و بااللہ و علی ملّۃ رسول اللہ ، فزت و ربّ الکعبہ،

خدائے کعبہ کی قسم ، میں کامیاب ہو گيا۔

پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی: ہم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ہے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک سے تمہیں دوباره اٹھائیں گے۔

کچھ نماز گذار شبث اور ابن ملجم کو پکڑنے کے لیے باہر کی طرف دوڑ پڑے اور کچھ حضرت علی (ع) کی طرف بڑے اور کچھ سر و صورت پیٹتے ماتم کرنے لگے۔

حضرت علی (ع) کہ جن کے سر مبارک سے خون جاری تھا فرمایا:

ھذا وعدنا اللہ و رسولہ،

یہ وہی وعدہ ہے جو خدا اور اسکے رسول نے میرے ساتھ کیا تھا۔

حضرت علی (ع) چونکہ اس حالت میں نماز پڑھانے کی قوت نہیں رکھتے تھے، اس لیے اپنے فرزند امام حسن مجتبی (ع) سے نماز جماعت کو جاری رکھنے کو کہا اور خود بیٹھ کر نماز ادا کی۔

روایت میں آيا ہے کہ جب عبد الرحمن ابن ملجم نے سر مبارک حضرت علی (ع) پر شمشیر ماری زمین لرز گئی ، دریا کی موجیں تھم گئی اور آسمان متزلزل ہوا، کوفہ مسجد کے دروازے آپس میں ٹکرائے، آسمانی فرشتوں کی صدائيں بلند ہوئيں ، کالی گھٹا چھا گئیں ،

اس طرح کہ زمین تیرہ و تار ہو گی اور جبرائيل امین  نے صدا دی اور ہر کسی نے اس آواز کو سنا وہ کہہ رہا تھا:

تھدمت و اللہ اركان اللہ ھدي، و انطمست اعلام التّقي، و انفصمت العروۃ الوثقي، قُتل ابن عمّ المصطفي، قُتل الوصيّ المجتبي، قُتل عليّ المرتضي، قَتَلہ اشقي الْاشقياء ،

خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہو گئے، علم نبوت کے چمکتے ستارے کو خاموش کیا گيا اور پرہیزگاری کی علامت کو مٹایا گيا اور عروۃ الوثقی کو کاٹا گيا کیونکہ رسول خدا (ص) کے ابن عم کو شہید کیا گيا۔ سید الاوصیاء علی مرتضی کو شہید کیا گيا، انہیں شقی ترین شقی (ابن ملجم) نے شہید کر دیا ہے۔

آپ نے اپنی مبارک اور پربرکت زندگی کے بالکل آخری لمحات میں فرمایا کہ:

میں تمہیں اور جس تک میری نصیحت پہنچ رہی ہے ، تقویٰ و پرہیزگاری اور اپنے کاموں میں نظم و ضبط قائم کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یتیموں کاخیال رکھو، پڑوسیوں کے ساتھ نیکی کرو۔ پیغمبر اکرم (ص) اس قدر پڑوسیوں کے بارے میں نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ پڑوسی بھی ورثے میں شریک ہوں گے۔

قرآن سے دوری اختیار نہ کرنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم سے آگے نکل جائیں۔

نماز کو اہمیت دو کہ نماز دین کا ستون ہے۔

حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح عظیم وصیت کا ذکر فرمایا۔

آپ کے رحم و کرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کر کے آپ کے سامنے لایا گیا، اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا۔

آپ نے اپنے  دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام و امام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے بھی کھلانا،  اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کر دوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہرگز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیونکہ یہ اسلامی  تعلیم کے خلاف ہے۔

حضرت علی علیہ السّلام دو روز تک بستر بیماری پر کرب و بے چینی  کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہے۔ آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی روح جسم سے پرواز کر گئی۔ حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السّلام نے تجہیز و تکفین کے بعد آپ کے جسم اطہر کو نجف میں دفن کر دیا۔

شیر خدا، صدیق اکبر، فاروق اعظم، اول مظلوم کائنات، مولود کعبہ، شہید محراب، مجسمہ عدل و عدالت  حضرت مولانا امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ع) کی ایک زیارت کے چند جملے:

السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَصِيَّ الْأَوْصِيَاءِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا عِمَادَ الْأَتْقِيَاءِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَلِيَّ الْأَوْلِيَاءِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا سَيِّدَ الشُّهَدَاءِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا آيَةَ اللَّهِ الْعُظْمَى السَّلامُ عَلَيْكَ يَا خَامِسَ أَهْلِ الْعَبَاءِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا قَائِدَ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ الْأَتْقِيَاءِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا عِصْمَةَ الْأَوْلِيَاءِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا زَيْنَ الْمُوَحِّدِينَ النُّجَبَاءِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا خَالِصَ الْأَخِلاءِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَالِدَ الْأَئِمَّةِ الْأُمَنَاءِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا صَاحِبَ الْحَوْضِ وَ حَامِلَ اللِّوَاءِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا قَسِيمَ الْجَنَّةِ وَ لَظَى السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَنْ شُرِّفَتْ بِهِ مَكَّةُ وَ مِنًى السَّلامُ عَلَيْكَ يَا بَحْرَ الْعُلُومِ وَ كَنَفَ [كَهْفَ‏] الْفُقَرَاءِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ وَ زُوِّجَ فِي السَّمَاءِ بِسَيِّدَةِ النِّسَاءِ، السَّلامُ عَلَيْكَ يَا صدیق الاکبر و الفاروق الاعظم و  السَّلامُ عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ ،

السَّلامُ عَلَيْكَ يَا حُجَّةَ اللَّهِ عَلَى مَنْ كَفَرَ وَ أَنَابَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا إِمَامَ ذَوِي الْأَلْبَابِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَعْدِنَ الْحِكْمَةِ وَ فَصْلَ الْخِطَابِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مِيزَانَ يَوْمِ الْحِسَابِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا فَاصِلَ الْحُكْمِ النَّاطِقَ بِالصَّوَابِ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْمُتَصَدِّقُ بِالْخَاتَمِ فِي الْمِحْرَابِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَنْ كَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ بِهِ يَوْمَ الْأَحْزَابِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَنْ أَخْلَصَ لِلَّهِ الْوَحْدَانِيَّةَ وَ أَنَابَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا قَاتِلَ خَيْبَرَ وَ قَالِعَ الْبَابِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَنْ دَعَاهُ خَيْرُ الْأَنَامِ لِلْمَبِيتِ عَلَى فِرَاشِهِ فَأَسْلَمَ نَفْسَهُ لِلْمَنِيَّةِ وَ أَجَابَ،

السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَنْ لَهُ طُوبَى وَ حُسْنُ مَآبٍ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَلِيَّ عِصْمَةِ الدِّينِ وَ يَا سَيِّدَ السَّادَاتِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا صَاحِبَ الْمُعْجِزَاتِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَنْ نَزَلَتْ فِي فَضْلِهِ سُورَةُ الْعَادِيَاتِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَنْ كُتِبَ اسْمُهُ فِي السَّمَاءِ عَلَى السُّرَادِقَاتِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مُظْهِرَ الْعَجَائِبِ وَ الْآيَاتِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ الْغَزَوَاتِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مُخْبِرا بِمَا غَبَرَ وَ بِمَا هُوَ آتٍ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مُخَاطِبَ ذِئْبِ الْفَلَوَاتِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا خَاتِمَ الْحَصَى وَ مُبَيِّنَ الْمُشْكِلاتِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَنْ عَجِبَتْ مِنْ حَمَلاتِهِ فِي الْوَغَى مَلائِكَةُ السَّمَاوَاتِ،

السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَنْ نَاجَى الرَّسُولَ فَقَدَّمَ بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاهُ الصَّدَقَاتِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَالِدَ الْأَئِمَّةِ الْبَرَرَةِ السَّادَاتِ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا تَالِيَ الْمَبْعُوثِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَارِثَ عِلْمِ خَيْرِ مَوْرُوثٍ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا سَيِّدَ الْوَصِيِّينَ [الْمُؤْمِنِينَ‏] السَّلامُ عَلَيْكَ يَا إِمَامَ الْمُتَّقِينَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا غِيَاثَ الْمَكْرُوبِينَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا عِصْمَةَ الْمُؤْمِنِينَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مُظْهِرَ الْبَرَاهِينِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا طه وَ يس السَّلامُ عَلَيْكَ يَا حَبْلَ اللَّهِ الْمَتِينَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا مَنْ تَصَدَّقَ فِي صَلاتِهِ بِخَاتَمِهِ عَلَى الْمِسْكِينِ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا قَالِعَ الصَّخْرَةِ عَنْ فَمِ الْقَلِيبِ وَ مُظْهِرَ الْمَاءِ الْمَعِينِ،

السَّلامُ عَلَيْكَ يَا عَيْنَ اللَّهِ النَّاظِرَةَ وَ يَدَهُ الْبَاسِطَةَ وَ لِسَانَهُ الْمُعَبِّرَ عَنْهُ فِي بَرِيَّتِهِ أَجْمَعِينَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَارِثَ عِلْمِ النَّبِيِّينَ وَ مُسْتَوْدَعَ عِلْمِ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ وَ صَاحِبَ لِوَاءِ الْحَمْدِ وَ سَاقِيَ أَوْلِيَائِهِ مِنْ حَوْضِ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا يَعْسُوبَ الدِّينِ وَ قَائِدَ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ وَ وَالِدَ الْأَئِمَّةِ الْمَرْضِيِّينَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ السَّلامُ عَلَى اسْمِ اللَّهِ الرَّضِيِّ وَ وَجْهِهِ الْمُضِي‏ءِ وَ جَنْبِهِ الْقَوِيِّ وَ صِرَاطِهِ السَّوِيِّ السَّلامُ عَلَى الْإِمَامِ التَّقِيِّ الْمُخْلِصِ الصَّفِيِّ السَّلامُ عَلَى الْكَوْكَبِ الدُّرِّيِّ السَّلامُ عَلَى الْإِمَامِ أَبِي الْحَسَنِ عَلِيٍّ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ السَّلامُ عَلَى أَئِمَّةِ الْهُدَى وَ مَصَابِيحِ الدُّجَى وَ أَعْلامِ التُّقَى وَ مَنَارِ الْهُدَى وَ ذَوِي النُّهَى وَ كَهْفِ الْوَرَى وَ الْعُرْوَةِ الْوُثْقَى وَ الْحُجَّةِ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ السَّلامُ عَلَى نُورِ الْأَنْوَارِ،

وَ حُجَّةِ الْجَبَّارِ وَ وَالِدِ الْأَئِمَّةِ الْأَطْهَارِ وَ قَسِيمِ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ الْمُخْبِرِ عَنِ الْآثَارِ الْمُدَمِّرِ عَلَى الْكُفَّارِ مُسْتَنْقِذِ الشِّيعَةِ الْمُخْلِصِينَ مِنْ عَظِيمِ الْأَوْزَارِ السَّلامُ عَلَى الْمَخْصُوصِ بِالطَّاهِرَةِ التَّقِيَّةِ ابْنَةِ الْمُخْتَارِ الْمَوْلُودِ فِي الْبَيْتِ ذِي الْأَسْتَارِ الْمُزَوَّجِ فِي السَّمَاءِ بِالْبَرَّةِ الطَّاهِرَةِ الرَّضِيَّةِ الْمَرْضِيَّةِ وَالِدَةِ الْأَئِمَّةِ الْأَطْهَارِ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ السَّلامُ عَلَى النَّبَإِ الْعَظِيمِ الَّذِي هُمْ فِيهِ مُخْتَلِفُونَ وَ عَلَيْهِ يُعْرَضُونَ وَ عَنْهُ يُسْأَلُونَ السَّلامُ عَلَى نُورِ اللَّهِ الْأَنْوَرِ وَ ضِيَائِهِ الْأَزْهَرِ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ السَّلامُ عَلَيْكَ يَا وَلِيَّ اللَّهِ وَ حُجَّتَهُ وَ خَالِصَةَ اللَّهِ وَ خَاصَّتَهُ أَشْهَدُ أَنَّكَ يَا وَلِيَّ اللَّهِ [وَ حُجَّتَهُ‏] لَقَدْ جَاهَدْتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ،  فَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ دَفَعَكَ عَنْ حَقِّكَ وَ أَزَالَكَ عَنْ مَقَامِكَ وَ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ بَلَغَهُ ذَلِكَ فَرَضِيَ بِهِ أُشْهِدُ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ وَ أَنْبِيَاءَهُ وَ رُسُلَهُ أَنِّي وَلِيٌّ لِمَنْ وَالاكَ وَ عَدُوٌّ لِمَنْ عَادَاكَ السَّلامُ عَلَيْكَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ.

أَشْهَدُ أَنَّكَ تَسْمَعُ كَلامِي وَ تَشْهَدُ مَقَامِي وَ أَشْهَدُ لَكَ يَا وَلِيَّ اللَّهِ بِالْبَلاغِ وَ الْأَدَاءِ يَا مَوْلايَ يَا حُجَّةَ اللَّهِ يَا أَمِينَ اللَّهِ يَا وَلِيَّ اللَّهِ إِنَّ بَيْنِي وَ بَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ذُنُوبا قَدْ أَثْقَلَتْ ظَهْرِي وَ مَنَعَتْنِي مِنَ الرُّقَادِ وَ ذِكْرُهَا يُقَلْقِلُ أَحْشَائِي وَ قَدْ هَرَبْتُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ إِلَيْكَ فَبِحَقِّ مَنِ ائْتَمَنَكَ عَلَى سِرِّهِ وَ اسْتَرْعَاكَ أَمْرَ خَلْقِهِ وَ قَرَنَ طَاعَتَكَ بِطَاعَتِهِ وَ مُوَالاتَكَ بِمُوَالاتِهِ كُنْ لِي إِلَى اللَّهِ شَفِيعا وَ مِنَ النَّارِ مُجِيرا وَ عَلَى الدَّهْرِ ظَهِيرا.

يَا وَلِيَّ اللَّهِ يَا حُجَّةَ اللَّهِ يَا بَابَ حِطَّةِ اللَّهِ وَلِيُّكَ وَ زَائِرُكَ وَ اللائِذُ بِقَبْرِكَ وَ النَّازِلُ بِفِنَائِكَ وَ الْمُنِيخُ رَحْلَهُ فِي جِوَارِكَ يَسْأَلُكَ أَنْ تَشْفَعَ لَهُ إِلَى اللَّهِ فِي قَضَاءِ حَاجَتِهِ وَ نُجْحِ طَلِبَتِهِ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ فَإِنَّ لَكَ عِنْدَ اللَّهِ الْجَاهَ الْعَظِيمَ وَ الشَّفَاعَةَ الْمَقْبُولَةَ فَاجْعَلْنِي يَا مَوْلايَ مِنْ هَمِّكَ وَ أَدْخِلْنِي فِي حِزْبِكَ وَ السَّلامُ عَلَيْكَ وَ عَلَى ضَجِيعَيْكَ آدَمَ وَ نُوحٍ وَ السَّلامُ عَلَيْكَ وَ عَلَى وَلَدَيْكَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ وَ عَلَى الْأَئِمَّةِ الطَّاهِرِينَ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ .

التماس دعا.....





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی