سوال:
کیا حدیث ثقلین امام زمان حضرت مہدی (ع) کے وجود پر دلالت کرتی ہے ؟
جواب:
امام زمان (ع) کا وجود آیات قرآن، رسول خدا (ص) و آئمہ معصومین (ع) کی روایات اور قطعی دلائل عقلی سے قابل اثبات ہے۔ اس جواب میں ہم فریقین (شیعہ و سنی) کی مورد اتفاق و متواتر حدیث ثقلین کی روشنی میں امام زمان (ع) کے وجود کو ثابت کریں گے۔
مسئلے کے بہتر واضح ہونے کے لیے پہلے ہم مختصر طور پر اصل حدیث ثقلین کو اہل سنت کی معتبر ترین کتب سے ذکر کرتے ہیں اور پھر اس حدیث کے بارے میں انکے علماء کے اقوال کو ذکر کریں گے اور آخر میں بیان کریں گے کہ حدیث ثقلین کس طرح امام زمان (ع) کے وجود مبارک پر دلالت کرتی ہے۔
متن حديث ثقلين:
حدیث ثقلین اہل سنت کی کتب میں مخلتف الفاظ و عبارات کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ ہم امانت علمی کو نظر میں رکھتے ہوئے، انکی معتبر کتب سے حدیث ثقلین کو انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں:
احمد بن حنبل نے اپنی دو كتابوں مسند احمد و فضائل الصحابہ میں اس حدیث کو مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے:
1. تارك فيكم الثقلين، لن يفترقا:
اس نے ابی سعيد خدری اور زيد بن ارقم سے نقل کیا ہے کہ:
حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي حدثنا أَسْوَدُ بن عَامِرٍ أخبرنا أبو إِسْرَائِيلَ يعني إِسْمَاعِيلَ بن أبي إِسْحَاقَ الملائي عن عَطِيةَ عن أبي سَعِيدٍ قال: قال رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم: اني تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَينِ أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الآخَرِ كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إلي الأَرْضِ وعترتي أَهْلُ بيتي وانهما لَنْ يفْتَرِقَا حتي يرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.
ابو سعيد خدری نے کہا ہے کہ: رسول خدا نے فرمایا کہ: میں تمہارے لیے دو قیمتی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ ان میں سے ایک چیز دوسری سے رتبے و مقام میں بڑی ہے، ایک قرآن کریم اور دوسری میرے اہل بیت ہیں، یہ دونوں چیزیں حوض کوثر پر میرے پاس آنے تک آپس میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی۔
الشيباني، ابو عبد الله أحمد بن حنبل (متوفي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج3، ص14، ح11119، و ص371، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر؛
الشيباني، ابو عبد الله أحمد بن حنبل (متوفي241هـ)، فضائل الصحابة، ج2، ص779، تحقيق د. وصي الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1403هـ - 1983م.
2. تارك فيكم خليفتين، لن يتفرقا:
اوپر والی روایت مختلف الفاظ کے ساتھ کتاب مسند احمد اور فضائل الصحابہ میں زید بن ثابت سے اس طرح سے نقل ہوئی ہے:
حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا الأَسْوَدُ بن عَامِرٍ ثنا شَرِيكٌ عَنِ الرُّكَينِ عَنِ الْقَاسِم بن حَسَّانَ عن زَيدِ بن ثَابِتٍ قال: قال رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم:اني تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَينِ كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ ما بين السَّمَاءِ وَالأَرْضِ أو ما بين السَّمَاءِ إلي الأَرْضِ وعترتي أَهْلُ بيتي وَإِنَّهُمَا لَنْ يتَفَرَّقَا حتي يرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.
زيد بن ثابت نے کہا ہے کہ: رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: میں تمہارے لیے اپنے دو خلیفہ و جانشین چھوڑ کر جا رہا ہوں، ایک خداوند کی کتاب کہ جو زمین و آسمان کے درمیان ایک لٹکتی ہوئی رسی کی طرح ہے، اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، یہ دو چیزیں حوض کوثر پر میرے پاس آنے تک آپس میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی۔
الشيباني، ابو عبد الله أحمد بن حنبل (متوفي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج5، ص181، ح21618، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر؛
الشيباني، ابو عبد الله أحمد بن حنبل (متوفي241هـ)، فضائل الصحابة، ج2، ص603، تحقيق د. وصي الله محمد عباس، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1403هـ - 1983م.
3. تركت فيكم ما ان اخذتم به... الثقلين:
حدثنا عبد اللَّهِ حدثني أبي ثنا بن نُمَيرٍ ثنا عبد الْمَلِكِ بن أبي سُلَيمَانَ عن عَطِيةَ العوفي عن أبي سَعِيدٍ الخدري قال قال رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم اني قد تَرَكْتُ فِيكُمْ ما ان أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بعدي الثَّقَلَينِ أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الآخَرِ كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إلي الأَرْضِ وعترتي أَهْلُ بيتي الا وانهما لَنْ يفْتَرِقَا حتي يرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.
ابو سعید خدری سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا کہ: میں تمہارے لیے دو قیمتی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ ان میں سے ایک چیز دوسری سے رتبے و مقام میں بڑی ہے، ایک قرآن کریم اور دوسری میرے اہل بیت ہیں، اگر ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے تو میرے بعد کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے.......
الشيباني، ابو عبد الله أحمد بن حنبل (متوفي241هـ)، مسند أحمد بن حنبل، ج3، ص59، ح11578، ناشر: مؤسسة قرطبة - مصر.
ترمذی نے اپنی سنن اور طبرانی نے کتاب معجم الكبير، اور بعض دوسروں نے اسی حدیث کو انہی الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے:
الترمذي السلمي، ابوعيسي محمد بن عيسي (متوفي 279هـ)، سنن الترمذي، ج5، ص663، تحقيق: أحمد محمد شاكر وآخرون، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
الطبراني، ابوالقاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفي360هـ)، المعجم الكبير، ج5، ص153، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.
بعض روایات میں «ما ان اخذتم به»، کی عبارت کی جگہ «ما ان تمسكتم به» کی عبارت ذکر ہوئی ہے۔
4. «لن ينقضيا حتي يردا علي الحوض»:
طبرانی نے اپنی کتاب معجم الكبير میں حدیث ثقلین کو دو واسطوں سے اس عبارت کے ساتھ ذکر کیا ہے:
حدثنا محمد بن الْفَضْلِ السَّقَطِي ثنا سَعِيدُ بن سُلَيمَانَ ح وَحَدَّثَنَا محمد بن عبد اللَّهِ الْحَضْرَمِي وَزَكَرِيا بن يحيي السَّاجِي قَالا ثنا نَصْرُ بن عبد الرحمن الْوَشَّاءُ ثنا زَيدُ بن الْحَسَنِ الأَنْمَاطِي ثنا مَعْرُوفُ بن خَرَّبُوذَ عن أبي الطُّفَيلِ عن حُذَيفَةَ بن أُسَيدٍ الْغِفَارِي أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلي اللَّهُ عليه وسلم قال أَيهَا الناس إني فَرَطٌ لَكُمْ وَارِدُونَ عَلَي الْحَوْضَ حَوْضٌ أَعْرَضُ ما بين صَنْعَاءَ وَبُصْرَي فيه عَدَدُ النُّجُومِ قِدْحانٌ من فِضَّةٍ وَإِنِّي سَائِلُكُمْ حين تَرِدُونَ عَلَي عَنِ الثَّقَلَينِ فَانْظُرُوا كَيفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا السَّبَبُ الأَكْبَرُ كِتَابُ اللَّهِ عز وجل سَبَبٌ طَرَفُهُ بِيدِ اللَّهِ وَطَرَفُهُ بِأَيدِيكُمْ فاسْتَمْسِكُوا بِهِ وَلا تَضِلُّوا وَلا تُبَدِّلُوا وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيتِي فإنه قد نَبَّأَنِي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ أَنَّهُمَا لَنْ ينْقَضِيا حتي يرِدَا عَلَي الْحَوْضَ.
حذيفة بن اسيد غفاری نے کہا ہے کہ: رسول خدا نے فرمایا کہ: اے لوگو میں تمہارے دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں...................،
الطبراني، ابو القاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفي360هـ)، المعجم الكبير، ج3، ص67، ح2683، تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.
طبرانی کی دوسری سند یہ ہے:
حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي وَزَكَرِيا بن يحيي السَّاجي قَالا ثنا نَصْرُ بن عبد الرحمن الْوَشَّاءُ؛ وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بن الْقَاسِمِ بن مُسَاوِرٍ الْجَوْهَرِي ثنا سَعِيدُ بن سُلَيمَانَ الْوَاسِطِي قَالا ثنا زَيدُ بن الْحَسَنِ الأَنْمَاطِي ثنا مَعْرُوفُ بن خَرَّبُوذَ عن أبي الطُّفَيلِ عن حُذَيفَةَ بن أُسَيدٍ الْغِفَارِي قال:...
الطبراني، ابو القاسم سليمان بن أحمد بن أيوب (متوفي360هـ)، المعجم الكبير، ج3، ص180، ح3052، تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي، ناشر: مكتبة الزهراء - الموصل، الطبعة: الثانية، 1404هـ - 1983م.
اہل سنت کے علماء کی نظر میں حدیث ثقلین کا معتبر ہونا:
اہل سنت کے بہت سے علماء اس حدیث کے لیے ایک خاص اعتبار و اہمیت کے قائل ہیں:
1. محمد بن عيسی ترمذی:
ترمذی نے حديث ثقلين کو زيد بن ثابت سے نقل کیا ہے اور آخر میں کہا ہے کہ:
هذا حديث حسن غريب.
الترمذي السلمي، ابوعيسي محمد بن عيسي (متوفي 279هـ)، سنن الترمذي، ج5، ص663، تحقيق: أحمد محمد شاكر وآخرون، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت.
2. حاكم نيشاپوری:
حاكم نے کتاب مستدرک صحیحین میں اس حدیث کو زید ابن ارقم سے نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ:
هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين و لم يخرجاه.
یہ حدیث مسلم اور بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح ہے، لیکن ان دونوں نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا۔
الحاكم النيسابوري، ابو عبد الله محمد بن عبد الله (متوفي 405 هـ)، المستدرك علي الصحيحين، ج3، ص160، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت الطبعة: الأولي، 1411هـ - 1990م.
3. ابن كثير دمشقی:
ابن كثير سلفی وہابی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ:
وقد ثبت في الصحيح م 2408 أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال في خطبة بغدير خم إن تارك فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي وإنهما لم يفترقا حتي يردا علي الحوض.
صحیح مسلم میں حدیث نمبر 2408 میں ثبت ہوا ہے کہ رسول خدا نے اپنے خطبہ غدیر میں فرمایا کہ: اے لوگو میں تمہارے دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں...................،
ابن كثير الدمشقي، ابو الفداء إسماعيل بن عمر القرشي (متوفي774هـ)، تفسير القرآن العظيم، ج4، ص114، ناشر: دار الفكر - بيروت - 1401هـ.
4. ابو الحسن ہيثمی:
ہيثمی نے اپنی کتاب مجمع الزوائد میں اس روایت میں کہ جس میں لفظ خلیفتین آیا ہے، کی سند کو واضح طور پر معتبر قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ:
رواه أحمد وسنده جيد.
اس حدیث کو احمد ابن حنبل نے اپنی کتاب مسند احمد میں نقل کیا ہے اور اسکی سند اچھی و ٹھیک ہے۔
الهيثمي، ابو الحسن علي بن أبي بكر (متوفي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص163، ناشر: دار الريان للتراث، دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.
اور ایک دوسری جگہ پر کہا ہے کہ:
ورجاله ثقات.
حدیث ثقلین کے نقل کرنے والے سارے راوی ثقہ و قابل اعتماد ہیں۔
الهيثمي، ابو الحسن علي بن أبي بكر (متوفي 807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج1، ص170، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.
5. سيوطی اور محمد بن يوسف صالحیی شامی:
ان دونوں نے حدیث ثقلین کے حسن و صحیح ہونے کے بارے میں ترمذی اور حاکم کے کلام کو نقل کیا ہے اور انکے کلام کو بالکل ردّ نہیں کیا اور انکے کلام پر کسی قسم کا اعتراض و اشکال بھی نہیں کیا:
وأخرج الترمذي وحسنه والحاكم وصححه عن زيد بن أرقم أن النبي صلي الله عليه وسلم قال (إني تارك فيكم الثقلين كتاب الله وأهل بيتي)
السيوطي، أبو الفضل جلال الدين عبد الرحمن أبي بكر (متوفي 911هـ)، الخصائص الكبري، ج2، ص466، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1405هـ - 1985م.
الصالحي الشامي، محمد بن يوسف (متوفي942هـ)، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد، ج11، ص6، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1414هـ.
6. حسن بن علی سقاف:
سيد سقاف قرشی نے اپنی کتاب شرح صحيح عقيده طحاويہ ميں لکھا ہے کہ:
ورواه الترمذي (5 / 663 برقم 3788) بسند صحيح بلفظ: «إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي، أحدهما أعظم من الآخر: كتاب الله حبل ممدود من السماء إلي الأرض، وعترتي أهل بيتي، ولن يتفرقا حتي يردا علي الحوض، فانظروا كيف تخلفوني فيهما».
ترمذی نے اس حدیث کو اس نمبر کے ساتھ ، صحیح سند کے ساتھ اس لفظ کے ساتھ نقل کیا ہے:اني تارك فیکم.....
رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: میں دو چیزیں اپنے خلیفہ و جانشین کے طور پر تمہارے لیے چھوڑ کر جا رہا ہوں، ایک خداوند کی کتاب کہ جو زمین و آسمان کے درمیان ایک لٹکتی ہوئی رسی کی طرح ہے، اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، یہ دو چیزیں حوض کوثر پر میرے پاس آنے تک آپس میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی، پس اب یہ دیکھنا کہ میرے بعد تم میرے اہل بیت سے کیسا سلوک کرتے ہو ؟؟؟
السقاف القرشي الهاشمي، حسن بن علي (معاصر) صحيح شرح العقيدة الطحاوية أو المنهج الصحيح في فهم عقيدة أهل السنة والجماعة مع التنقيح، 654، ناشر: دار الإمام النووي - عمان - الأردن، الطبعة الأولي، 1416 - 1995 م.
7. البانی، مفتی اہل سنت:
البانی وہابی (متوفي 1420) کہ اسکو امير المؤمنين في الحديث اور اپنے زمانے کا بخاری کے القاب سے یاد کیا جاتا تھا، اس نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب صحيح الجامع الصغير میں حديث نمبر 2457 کے طور پر ذکر کیا اور اسے صحیح قرار بھی دیا ہے۔
یہ حدیث ثقلین کے بارے میں اہل سنت کے بزرگ علماء کے اقوال تھے، مزید علماء کے نام اور اقوال کو ذکر کیا جا سکتا ہے لیکن ہم اتنی ہی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں۔
حدیث ثقلین کیسے امام زمان حضرت مہدی (ع)کے وجود پر دلالت کرتی ہے ؟
یہ حدیث مہم و دقیق نکات پر مشتمل ہے کہ ان نکات میں سے امام زمان کے زندہ ہونے اور سلسلہ امامت کے قیامت تک باقی رہنے کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔
استدلال علماء شيعہ:
حضرت آيت الله العظمی شیخ وحيد خراسانی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ:
ومن الأدلة النقلية علي ضرورة وجوده حديث الثقلين، فإن هذا الحديث المتفق علي صحته عند الفريقين يدل علي وجود إمام في كل زمان من أهل بيت النبوة (عليهم السلام) إلي يوم القيامة، لا يفترق عن القرآن، ولا يفترق القرآن عنه (لن يفترقا حتي يردا علي الحوض).
امام زمان کے لازمی طور پر موجود ہونے پر ایک دلیل نقلی، حدیث ثقلین ہے، کیونکہ اس حدیث کے صحیح ہونے پر علمائے شیعہ و سنی کا اتفاق ہے، اور یہ حدیث رسول خدا کے اہل بیت میں سے ایک امام کے قیامت تک موجود و باقی ہونے پر دلالت کرتی ہے، ایسا امام معصوم کہ جو قرآن سے جدا اور قرآن بھی اس سے جدا نہیں ہو گا۔
الخراساني، الشيخ وحيد (معاصر)، منهاج الصالحين، ج1، ص472.
حضرت آيت الله العظمی صافی گلپايگانی مرجع تقليد نے کہا ہے کہ:
حدیث ثقلین سے 6 مہم مطلب سمجھے جا سکتے ہیں:
1. قرآن و اہل بیت سے تمسک کا واجب ہونا،
2. قرآن و اہل بیت سے تمسک کرنا ہی گمراہی سے نجات کا ضامن ہے،
3. گمراہی سے نجات ہر دو یعنی قرآن و اہل بیت سے تمسک کرنے سے حاصل ہو گی، نہ فقط ایک سے تمسک کرنے سے،
4. اہل بیت گناہ و خطا سے معصوم ہیں،
5. رسول خدا (ص) کے بعد امت میں عاقل ترین اہل بیت (ع) ہی ہیں،
6. زمین کبھی بھی حجت خدا کے وجود سے خالی نہیں رہ سکتی،
«(السادس) بقاء العترة الهادية إلي يوم القيامة، وعدم خلو الزمان من عالم من أهل البيت تكون أقواله حجة كالكتاب المجيد.»
چھٹا نکتہ کہ جو حدیث ثقلین سے استفادہ ہوتا ہے، یہ ہے کہ اہل بیت کا ایک فرد کہ جو ہدایت گر ہے، وہ قیامت تک باقی رہے گا، اور یہ کائنات کبھی بھی ایسے فرد کہ جو قرآن کی مانند ہو، سے کبھی خالی نہیں ہو گی۔
وہ اپنے اس مطلب کو ثابت کرنے کے لیے، اس طرح سے استدلال کرتے ہیں کہ:
ويدل علي ذلك أمور:
1 - قوله صلي الله عليه وآله «اني تارك فيكم الثقلين» وقوله «اني مخلف فيكم» وقوله «اني تارك فيكم خليفتين» وقوله «اني قد تركت فيكم» وقوله «اني قد خلفت فيكم الثقلين» فإنها تدل علي أنه صلي الله عليه وآله ترك في أمته من يكون مرجعا في أمورهم وخليفته عليهم، وهو القرآن والعترة. ومن المعلوم ان احتياج الأمة اليهما ليس مختصا بزمان دون زمان، فلو لم يبق ما ترك في الأمة مدي الدهر لا يصدق عليه أنه ترك فيهم من يكون كذلك، وعليه فلا يصح صدور هذه التعابير والتصريحات منه. والفرق واضح بين أن يكون تاركا ومخلفا في الجميع ما ان تمسكوا به لن يضلوا أو في البعض، وهذه العبارات كلها صريحة في الأول دون الثاني.
2 - قوله صلي الله عليه وآله «ما ان تمسكتم به لن تضلوا» وقوله «ان تمسكتم بهما لن تضلوا» فان نفي الضلال علي سبيل التأبيد ان تمسكوا بالثقلين لا يصح الا إذا كان ما يتمسك به باقيا متأبدا.
3 - قوله صلي الله عليه وآله «لن يفترقا حتي يردا علي الحوض» فإنه لو لم يكن في زمن من الأزمنة من هو عدل الكتاب وقرينه لزم افتراق كل منهما عن الاخر، وهذا ينافي ما هو صريح الحديث من كونهما عدلين وعدم افتراقهما ابدا.
4 - قوله صلي الله عليه وآله «لن ينقضيا حتي يردا علي الحوض» فإنه يدل علي دوامهما وعدم انقضائهما ابدا.
یہ حدیث چند جہات سے امام زمان (ع) کے وجود پر دلالت کرتی ہے:
1. اس حدیث کے یہ جملے «اني تارك فيكم الثقلين»، «اني مخلف فيكم»، «اني تارك فيكم خليفتين»، «اني قد تركت فيكم» و «اني قد خلفت فيكم الثقلين»، دلالت کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے اس امت میں انکو باقی چھوڑا ہے کہ جو انکے جانشین ہیں اور لوگ انکی طرف اپنے معاملات میں رجوع کرنے والے ہیں، اور واضح ہے کہ یہ انکی طرف رجوع کرنا، یہ فقط ایک زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ لہذا اگر اہل بیت کا ایک ایسا فرد کہ جسکی طرف ہر زمانے میں رجوع نہ کیا جا سکتا ہو تو، رسول خدا کا یہ فرمان حکمت و حقیقت سے خالی و فالتو ہو جائے گا اور رسول حکیم سے اس طرح کا کلام صادر ہونا، یہ خود قرآن کریم کے خلاف ہو گا۔
ان دو عبارتوں میں فرق واضح ہے کہ رسول خدا کہیں کہ: میں اس جانشین کو اپنے بعد چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جسکی طرف تمام امور میں رجوع کیا جا سکتا ہے اور اگر اس سے تمسک و رجوع کرو گے تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے، یا یہ کہیں کہ: میں اسکو بعض امور و کاموں میں اپنا جانشین بنا کر جا رہا ہوں، حدیث ثقلین کے تمام الفاظ سے مراد پہلی عبارت ہے نہ کہ دوسری عبارت۔
2. رسول خدا کی حدیث کا جملہ، لن تضلوا، بتا رہا ہے کہ اگر ثقلین سے تمسک کرو گے تو میرے بعد کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے، یہ کبھی بھی گمراہ نہ ہونا، اس صورت میں صحیح ہو گا کہ جس سے تمسک کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے، وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موجود ہو۔
3. جملہ «لن يفترقا حتي...» کہہ رہا ہے کہ قرآن و اہل بیت کہ جو ہر لحاظ سے آپس میں مساوی ہیں، کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے اور اگر کسی بھی زمانے میں آپس میں مساوی نہ ہو کر، ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو، یہ فرض بالکل حدیث ثقلین کے معنی و مفہوم کے خلاف ہو گا۔
4. جملہ «لن ينقضيا حتي يردا... » بھی قرآن و اہل بیت کے دائمی طور پر موجود ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
الصافي، الشيخ لطف الله (معاصر)، أمان الأمة من الضلال والإختلاف، ص140، چاپخانه: العلمية - قم، الطبعة الأولي1397
آيت الله سيد علی ميلانی نے بھی کہا ہے کہ:
إن حديث الثقلين كما يدل علي إمامة الأئمة الاثني عشر من أهل البيت عليهم السلام وإمامة علي عليه السلام بلا فصل بعد رسول الله، كذلك يدل علي وجود الإمام الثاني عشر الحجة المنتظر وبقائه عجل الله تعالي ظهوره. وذلك لأن هذا الحديث يدل علي عدم افتراق الكتاب والعترة إلي يوم القيامة وحتي الورود علي الحوض، فكما أن القرآن باق إلي يوم القيامة فكذلك يجب وجود من يكون أهلا للتمسك والاقتداء به، وإماما للزمان وحجة للوقت من العترة الطاهرة إلي يوم القيامة.
حديث ثقلين جس طرح کہ 12 اماموں کی امامت اور امیر المؤمنین علی (ع) کی رسول خدا (ص) کے بعد امامت بلا فصل پر دلالت کرتی ہے، اسی طرح بارویں امام حجت منتظر (ع) کے وجود اور اسکے باقی ہونے پر بھی دلالت کرتی ہے، کیونکہ واضح طور پر اس حدیث میں آیا ہے کہ قرآن و اہل بیت قیامت تک اور حوض کوثر پر داخل ہونے تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ پس جس طرح کہ قرآن قیامت تک باقی ہے، اسی طرح واجب ہے کہ جو قرآن کے مساوی ہے اور اس سے تمسک کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ قرآن کی طرح امام زمان و حجت خداوند اور رسول خدا کے اہل بیت میں سے ہے، وہ بھی قیامت تک باقی رہنا چاہیے ورنہ اہل بیت کا قرآن سے جدا ہونا لازم آئے گا۔
الميلاني، السيد علي (معاصر)، نفحات الأزهار في خلاصة عبقات الانوار، ج2، ص262، چاپخانه: مهر، الطبعة الأولي:1414
استدلال علمائے اہل سنت:
حدیث ثقلین کے الفاظ و معنی و مفہوم کی طرف توجہ کرتے ہوئے، اہل سنت کے بعض علماء نے اسی حدیث سے امام زمان (ع) کے وجود کو ثابت کیا ہے، ہم چند علماء کے اقوال کو اسی بارے میں ذکر کرتے ہیں:
عالم اہل سنت مناوی نے کتاب جواہر العقدین سے علامہ سمہودی کے کلام کو حدیث ثقلین کے بارے میں اس طرح سے نقل کیا ہے کہ:
إنَّ ذلك يفهم وجود من يكون أهلاً للتمسك من أهل البيت والعترة الطاهرة في كلِّ زمان وجدوا فيه إلي قيام الساعة حتَّي يتوجَّه الحثُّ المذكور إلي التمسك به، كما أنَّ الكتاب العزيز كذلك، ولهذا كانوا كما سيأتي أمانًا لأهل الأرض، فإذا ذهبوا ذهب أهل الأرض.
اس حدیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ رسول خدا کے اہل بیت میں سے ہر زمانے میں ایک ایسا فرد ہونا چاہیے کہ جس سے تمسک کرنا بھی صحیح و شرعی ہو، اور وہ قیامت تک باقی بھی رہے، تا کہ اس حدیث میں تمسک کرنے کا حکم اپنا معنی دے سکے، جس طرح کہ قرآن کریم بھی ایسا ہی ہے، اسی وجہ سے بعض روایات میں اہل بیت کو زمین کے لیے امان قرار دیا گیا ہے کہ جب بھی وہ سارے زمین سے چلے جائیں تو زمین اپنے اہل کے ساتھ نابود ہو جائے گی۔
المناوي، محمد عبد الرؤوف بن علي بن زين العابدين (متوفي 1031هـ)، فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج3، ص15، ناشر: المكتبة التجارية - مصر، الطبعة: الأولي، 1356هـ.
ابن حجر ہيثمی کہ جو اہل سنت کا محدث ہے، حدیث ثقلین کو نقل کرنے کے بعد امام کے وجود پر اس طرح سے استدلال کرتا ہے:
والحاصل ان الحث وقع علي التمسك بالكتاب والسنة وبالعلماء بهما من أهل البيت ويستفاد من مجموع ذلك بقاء الأمور الثلثة إلي قيام الساعة.
وہ جو اس روایت سے معلوم ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت اور رسول خدا کہ اہل بیت کہ جو قرآن و سنت کے عالم ہیں، سے تمسک کرنے کی تشویق و ترغیب دلائی گئی ہے، اور ساری اس بات سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ چیزیں یعنی قرآن و سنت و اہل بیت یہ قیامت تک باقی رہیں گی۔
الهيثمي، ابوالعباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفي973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج2، ص439، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولي، 1417هـ - 1997م.
اہل بیت سے تمسک کرنے کے بارے میں چند دوسری روایات کو نقل کرنے کے بعد ابن حجر کہتا ہے کہ:
وفي أحاديث الحث علي التمسك بأهل البيت إشارةٌ إلي عدم انقطاع متأهل منهم للتمسك به إلي يوم القيامة، كما أنَّ الكتاب العزيز كذلك، ولهذا كانوا أماناً لأهل الأرض كما يأتي، ويشهد لذلك الخبر السابق: في كل خلَفٍ من أمتي عدول من أهل بيتي.
جن احادیث میں اہل بیت سے تمسک کرنے کے بارے میں حکم دیا گیا ہے، ان میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ زمین ہدایت کرنے والے اہل بیت سے کبھی بھی خالی نہیں ہو گی، جس طرح کہ قرآن بھی ایسے ہی ہے، اور اسی وجہ سے اہل بیت کو زمین کے لیے امان قرار دیا گیا ہے۔ اس بات پر دلیل گذشتہ روایت ہے کہ جس میں فرمایا ہے کہ: میری امت کی ہر قوم کے درمیان میرے عادل اہل بیت موجود ہوں گے۔
الهيثمي، ابوالعباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر (متوفي973هـ)، الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة، ج2، ص442، تحقيق عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط، ناشر: مؤسسة الرسالة - لبنان، الطبعة: الأولي، 1417هـ - 1997م.
آيت الله بروجردی نے اپنی کتاب جامع احاديث شيعہ میں کتاب ذخيرة المآل کے مصنف عجیلی کے اس حدیث کے بارے میں استدلال کو ذکر کیا ہے:
وقال العجيلي: وهم الحافظون لكتاب الله وسنة رسوله لا يفارقونهما إلي يوم القيمة لأنه لا بد من قيام الله بحجة منهم ووراثة نبوته وخلافة رسوله فمنهم الظاهر ومنهم المختفي حتي يكون خاتمهم في الوراثة المهدي ولهذا يتقدم علي عيسي بن مريم وتقدم ان قطب الأولياء الذي به صلاح العالم لا يكون الا منهم.
وہ ( رسول خدا کے اہل بیت ) قرآن و سنت کے حافظ ہیں کہ جو قیامت تک قرآن و سنت سے جدا نہیں ہوں گے، کیونکہ خداوند پر لازم و ضروری ہے کہ وہ اپنی حجت کو کہ جو رسول خدا کی نبوت کی وارث اور انکی جانشین ہو، اسکو لوگوں کی ہدایت کے لیے قرار دے۔ خداوند کی بعض حجتیں ظاہر و آشکار ہیں اور بعض نظروں سے غائب اور مخفی ہیں۔ رسول خدا کے وارثوں میں سے آخری وارث حضرت مھدی ہیں، اسی وجہ سے وہ حضرت عیسی ابن مریم کے بھی امام ہوں گے اور یہ بات پہلے بھی ذکر کی گئی ہے کہ اولیاء خدا کا مرکز و محور کہ جس سے اس امت کی اصلاح ہو گی، وہ فقط اور فقط رسول خدا کے اہل بیت میں سے ہو گا۔
البروجردي، حاج حسين طباطبايي (متوفي1383هـ)، جامع أحاديث الشيعة، ج1، ص75، المطبعة العلمية - قم، سال چاپ: 1399
نتيجہ:
اولاً: حدیث ثقلین کو اہل سنت کے علماء، جیسے مسلم نيشاپوری، احمد حنبل، طبرانی، ہيثمي وغیرہ نے اپنی معتبر کتابوں میں ذکر کیا ہے اور اہل سنت کے بزرگ محدثین نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور اس حدیث کے سلسلہ سند کے راویوں کو ثقہ و قابل اعتماد قرار دیا ہے اور اسی اعتبار علمی کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان یہ ایک متواتر حدیث شمار ہوتی ہے۔
ثانياً: شیعہ اور سنی علماء نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ: اہل بیت قرآن کے ہم پلہ و مساوی ہیں، جس طرح کہ قرآن قیامت تک باقی رہے گا، اسی رسول خدا کے اہل بیت میں سے بھی ایک شخص ہمیشہ زندہ رہے گا، تا کہ رسول خدا (ص) کی حدیث غلط ثابت نہ ہو سکے، اور اہل بیت کا وہ شخص کہ جو کبھی بھی قرآن سے جدا نہیں ہو گا۔ فریقین کی صحیح و معتبر روایات کے مطابق رسول خدا کے اہل بیت میں سے ایک حجت خداوند آج بھی روئے زمین پر زندہ اور باقی ہے اور وہ بقیت اللہ امام زمان (عج) ہیں۔
جس طرح سے امام جواد (ع) سے نقل ہوا ہے کہ:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَظِيمِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ علیه السلام الْحَسَنِيُّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى سَيِّدِي مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ علیهم السلام وَ أَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَهُ عَنِ الْقَائِمِ أَ هُوَ الْمَهْدِيُّ أَوْ غَيْرُهُ فَابْتَدَأَنِي فَقَالَ لِي يَا أَبَا الْقَاسِمِ إِنَّ الْقَائِمَ مِنَّا هُوَ الْمَهْدِيُّ الَّذِي يَجِبُ أَنْ يُنْتَظَرَ فِي غَيْبَتِهِ وَ يُطَاعَ فِي ظُهُورِهِ وَ هُوَ الثَّالِثُ مِنْ وُلْدِي وَ الَّذِي بَعَثَ مُحَمَّداً ص بِالنُّبُوَّةِ وَ خَصَّنَا بِالْإِمَامَةِ إِنَّهُ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ وَاحِدٌ لَطَوَّلَ اللَّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ حَتَّى يَخْرُجَ فِيهِ فَيَمْلَأَ الْأَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وَ ظُلْماً وَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَيُصْلِحُ لَهُ أَمْرَهُ فِي لَيْلَةٍ كَمَا أَصْلَحَ أَمْرَ كَلِيمِهِ مُوسَى علیه السلام إِذْ ذَهَبَ لِيَقْتَبِسَ لِأَهْلِهِ نَاراً فَرَجَعَ وَ هُوَ رَسُولٌ نَبِيٌّ ثُمَّ قَالَ علیه السلام أَفْضَلُ أَعْمَالِ شِيعَتِنَا انْتِظَارُ الْفَرَج،
عبد العظیم حسنی نے کہا ہے کہ: میں اپنے مولا امام جواد (ع) کے پاس گیا اور میں یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ قائم و مہدی وہ ہیں یا کوئی اور امام ہیں ؟ امام نے فرمایا کہ: نہیں میں قائم نہیں ہوں، ہمارے قائم وہی مہدی ہیں کہ حتما ان کا غیبت کے دوران انتظار کرنا ہو گا اور انکے ظاہر ہونے کے بعد انکی اطاعت کرنا ہو گی، اور وہ میری نسل سے میرے تیسرے بیٹے ہوں گے اور رسول خدا حضرت محمد (ص) کی قسم اگر اس دنیا کے ختم ہونے میں ایک دن بھی باقی بچتا ہو گا تو خداوند اس ایک دن کو اتنا طولانی کرے گا کہ یہاں تک کہ اس دن میں ہمارا قائم ظہور اور قیام کرے گا........، ہمارے شیعوں کے لیے سب سے افضل عمل، اپنے زمانے کے امام کا انتظار کرنا ہے۔
سنن السجشاني ج 4 ص 151،
کشف النعمة ج 2 ص 476،
اثبات الهداة ج 3 ص 609،
عقدالدرر ص 18،
بحار الانوار ج 51 ص 85