2024 March 29
امام حسن عسکری {ع} کی میراث کی تقسیم اور امام مھدی {ع} کی ولادت کی نفی ؟
مندرجات: ٢٠٠٧ تاریخ اشاعت: ٠٩ March ٢٠٢٢ - ٠٤:٠٤ مشاہدات: 2876
سوال و جواب » پبلک
امام حسن عسکری {ع} کی میراث کی تقسیم اور امام مھدی {ع} کی ولادت کی نفی ؟

 کیا امام حسن عسکری علیہ السلام کی میراث ان کی ماں اور بھائی میں تقسیم ہوگئی؟

مطالب کی فہرست :

شبہ کی وضاحت

نقد و بررسی

قفاري کی باتوں میں واضح تضاد اور اختلاف :

اس عقيده کی شیعہ علماء کی طرف نسبت جھوٹی ہے :

نہ پانا نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔

اهل سنت کے فرقوں کے درمیان بھی شدید اختلاف ہے:

امام عسكري (ع) کی ميراث کی تقسیم ، امام مھدی(عج) کی عدم ولادت پر دلیل نہیں :

جعفر كذاب کے بارے شیعوں کا نظریہ :

 

شبهه کی وضاحت :

خاص کر وھابیوں کی طرف سے امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں اٹھائے جائے والے اشکالات اور اعترضات میں سے ایک یہ ہے کہ امام عسكري عليه السلام کی میراث ان کے بھائی جعفر كذاب اور آپ کی ماں کے درمیان تقسیم ہوئی لہذا یہ امام مھدی علیہ السلام کے متولد نہ ہونے پر دلیل ہے کیونکہ ان کا کوئی بیٹا ہوتا تو کیوں ان کی وراثت ان کی ماں اور ان کے بھائی کے درمیان تقسیم ہوئی ؟

اسی طرح وھابی اور سلفی نظریہ رکھنے والے یہ ادعا کرتے ہیں کہ شيعه علماء میں سے خاص کر سعد بن عبد الله (متوفاي300هـ) اور حسن بن موسي نوبختي (متوفاي310هـ) نے یہ نقل کیا ہے کہ امام عسكري عليه السلام جب دنيا سے چلے گئے تو اس وقت ان کا کوئی فرزند لوگوں نے نہیں دیکھا، کسی کو ان کے فرزند کے بارے کچھ معلوم نہ تھا لوگ ان کے فرزند کو نہیں پہچانتے تھے۔

ناصر الدين قفاري نے اصول مذهب الشيعه  میں یوں لکھا ہے :

إذ بعد وفاة الحسن ـ إمامهم الحادي عشر ـ سنة (260هـ) لم يُر له خلف، ولم يُعرف له ولد ظاهر، فاقتسم ما ظهر من ميراثه أخوه جعفر وأمّه، كما تعترف بذلك كتب الشيعة نفسها، وبسبب ذلك اضطرب أمر الشّيعة وتفرّق جمعهم؛ لأنّهم أصبحوا بلا إمام، ولا دين عندهم بدون إمام، لأنّه هو الحجّة علي أهل الأرض... .

جب شیعوں کے گیارویں[امام] امام حسن کی260هـ کو وفات ہوئی تو اس وقت ان کے  جانشین کو کسی نے نہیں دیکھا،لوگ آشکارا طور پر ان کے فرزند کو نہیں پہچانتے، ان کے  فرزند کسی لئے ظاہر نہیں ہوئے ۔ لہذا امام حسن علیہ السلام کی میراث ان کے بھائی اور ان کی ماں کے درمیان تقسیم ہوگئی،جیساکہ خود شیعوں کی کتابیں بھی اسی مطلب کو بیان کرتی ہیں اسی وجہ سے شیعہ مضطرب اورشیعہ تفرقہ کا شکار ہوئے کیونکہ اب ان کا کوئی امام نہیں تھا ، یہ لوگ بغیر امام کے رہ گئے تھے ،امام کے بغیر تو ان کے دین کا کوئی معنی نہیں ہے ،ان کے نذدیک امام زمین پر اللہ کی حجت ہے ۔ناصر الدين القفاري (معاصر)، اصول مذهب الشيعة، ج2، ص 1004، ناشر: دار الرضا ـ الجيزة.

  احسان الهي ظهير نے بھی یہی باتیں کی ہے :

مات الحسن العسكري بدون خلف ولا عقب، كما نص علي ذلك النوبختي حيث قال: «توفي ولم ير له أثر، ولم يعرف له ولد ظاهر، فاقتسم ميراثه أخوه جعفر وامه».

[امام] حسن عسكري (عليه السلام) کسی جانشین اور فرزند کے بغیر دنیا سے چلے گئے؛ نوبختي نے اسی مطلب کو واضح طور پر بیان کیا ہے نوبختی کہتا ہے : امام دنیا سے چلے گئے جبکہ ان کا فرزند نظر نہیں آیا ، ان کے فرزند کو دیکھا نہیں اور کوئی ایسا شناختہ شدہ فرزند نہیں تھا جو لوگوں کے لئے ظاہر اور آشکار ہو ۔ لہذا امام حسن علیہ السلام کی میراث ان کے بھائی اور ان کی ماں کے درمیان تقسیم ہوگئی .

احسان الهي ظهير(معاصر)، الشيعة والتشيع، ص261.

نقد اور تحقیق:

شبهه کے بنیادی نکات :

الف: امام حسن عسكري عليه السلام، ایسی حالت میں دنیا سے چلے گئے کہ ان  ہاں کوئی فرزند نظر نہیں آیا اور لوگ ان کے فرزند کو نہیں پہچانتے تھے ۔

ب : امام عسكري عليه السلام کی وفات کے بعد شیعہ اختلاف کا شکار ہوئے اور فرقوں میں بٹ گئے ؛

ج: امام عسكري عليه السلام کی وفات کے بعد ان کی ميراث ان کے بھائی جعفر كذاب اور امام  کی ماں کے درمیان تقسیم ہوئی۔

قفاري کی باتوں میں واضح تناقض اور اختلاف :

ڈاکٹر قفاري یہاں واضح طور پر یہ ادعا کرتا ہے کہ لوگوں نے امام عسكري عليه السلام کے لئے شناختہ شدہ کوئی فرزند نہیں تھا،لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ اسی کتاب میں دوسری جگہ شیعوں کے نظریہ کو اس طرح بیان کرتا ہے:

أما الاثنا عشريّة فقد ذهبت إلي الزّعم بأنّ للحسن العسكري ولداً كان قد أخفي (أي الحسن) مولده، وستر أمره؛ لصعوبة الوقت وشدّة طلب السّلطان له، فلم يظهر ولده في حياته، ولا عرفه الجمهور بعد وفاته.

شیعہ اثنا عشر نے اس نظریہ کو قبول کیا ہے کہ [امام] حسن عسكري کا بیٹا تھا اور  [امام] حسن نے ان کی ولادت کو مخفی رکھا اور لوگوں کو ان کے بارے میں نہیں بتایا تھا کیونکہ اس وقت حاکموں کی طرف سے سختی تھی اور حاکم سختی سے ان کے فرزند کی تلاش میں تھے اسی لئے ان کی زندگی میں ان کے فرزند کو کسی نے آشکارا نہیں دیکھا اور اکثر شیعہ امام حسن عسکری  علیہ السلام کی وفات کے بعد انہیں نہیں پہچانتے تھے ۔

أصول مذهب الشيعة، ج2، ص1006

اب قفازی نے ان باتوں کے ذریعے اس چیز  کا اعتراف کیا ہے کہ شیعوں کا نظریہ یہ ہے کہ امام عسكري عليه السلام کا فرزند تھا لیکن دشمنوں کی طرف سے شدید نگرانی کی وجہ سے انہیں لوگوں سے مخفی رکھا۔ جبکہ وہ دوسری جگہ یہ کہتا ہے کہ شیعہ علماء کے نظریے کے مطابق ان کا کوئی فرزند نہیں تھا ۔۔۔۔۔  

شیعہ عقیدہ کے بارے میں اس طرح تناقض گوئی اور الگ الگ نظریہ بتانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ حقیقت کو پہچاننے کے پیچھے نہیں ہیں بلکہ شیعہ مذھب پر اعتراض کرنے اور شیعوں پر انگلی اٹھانے کے لئے ہر قسم کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔

اس عقيده کی شیعہ علماء کی طرف نسبت جھوٹی ہے :

جیساکہ بلکل واضح ہے کہ "فرق الشيعة" میں نوبختي اور کتاب " المقالات و الفرق" سعد بن عبد الله اشعري،پہلے مرحلے میں منحرف فرقوں کے نظریات کو بیان کرتے تھے اور اس کے بعد امامیہ ،اثنا عشریہ فرقے کے صحیح عقیدے کو بیان اور اس کی تائید کرتے ہیں لہذا صرف پہلے حصے کو نقل کر کے منحرف فرقوں کے نظریات کو شیعہ علماء کا نظریہ کہنا حقیقت اور انصاف کے خلاف عمل ہے ۔  

یہ باتیں ان کی کتابوں میں آئی تو ہیں لیکن انہوں نے منحرف فرقوں کی باتوں کو پہلے نقل کیا ہے اور بعد کے صفحات میں شیعہ اثنا عشرہ کے صحیح نظریات کو بیان کر کے اس کی تائید کی  ہے .

مرحوم نوبختي نے" فرق الشيعه" میں بارہ امامی شیعوں کے نظریے کو بھی بیان کیا ہے اور پھر اسی نظریے کو صحیح بھی قرار دیا ہے،جیساکہ انہوں نے اسی کتاب میں لکھا ہے :

وقالت الفرقة الثانية عشرة وهم الأمامية ليس القول كما قال هؤلاء كلهم بل لله عز وجل في الأرض حجة من ولد الحسن بن علي وأمر الله بالغ وهو وصي لأبيه علي المنهاج الأول والسنن الماضية ولا تكون الإمامة في أخوين بعد الحسن والحسين عليهما السلام ولا يجوز ذلك ولا تكون إلا في غيبة الحسن بن علي إلي أن ينقضي الخلق متصلا ذلك ما اتصلت أمور الله تعالي ولو كان في الأرض رجلان لكان أحدهما الحجة ولو مات أحدهما لكان الآخر الحجة ما دام أمر الله ونهيه قائمين في خلقه...

ولا يجوز أن تخلو الأرض من حجة ولو خلت ساعة لساخت الأرض ومن عليها ولا يجوز شيء من مقالات هذه الفرق كلها فنحن مستسلمون بالماضي وإمامته مقرون بوفاة معترفون بأن له خلفا قائما من صلبه وأن خلفه هو الإمام من بعده حتي يظهر ويعلن أمره كما ظهر وعلن أمر من مضي قبله من آبائه ويأذن الله في ذلك إذ الأمر لله يفعل ما يشاء ويأمر بما يريد من ظهوره وخفائه كما قال أمير المؤمنين عليه السلام «اللهم إنك لا تخلي الأرض من حجة لك علي خلقك ظاهرا معروفا أو خائفا مغمودا كيلا تبطل حجتك وبيناتك»

وبذلك أمرنا وبه جاءت الأخبار الصحيحة عن الأئمة الماضين... وقد رويت أخبار كثيرة أن القائم تخفي علي الناس ولادته ويخمل ذكره ولا يعرف إلا أنه لا يقوم حتي يظهر ويعرف أنه إمام ابن امام ووصي ابن وصي يوتم ۔۔۔۔

فهذا سبيل الإمامة والمنهاج الواضح اللاحب الذي لم تزل الشيعة الإمامية الصحيحة التشيع عليه.

اثنا عشریہ والے کہ جو وہی اماميه فرقہ والے ہیں، ان کا نظریہ یہ ہے کہ جو دوسرے منحرف فرقہ والے کہتے ہیں ان کی باتیں صحیح نہیں ہیں ،بلکہ حق یہ ہے کہ امام حسن بن علی کی نسل سے زمین پر اللہ کی حجت موجود ہے اس سلسلے میں اللہ کا فرمان واضح اور یقینی ہے ، اللہ کی سنت کے مطابق آپ اپنے والد کے وصی تھے۔

سنت الہی کے مطابق امامت امام حسن وامام حسين (ع) کے بعد ایک بھائی سے دوسرے بھائی تک منتقل نہیں ہوئی ہے بلکہ باپ سے فرزند کی طرف منتقل ہوئی ہے لہذا امامت صرف حضرت حسن عسكري (ع) کے فرزند کی طرف منتقل ہوئی ہے اور اللہ کا یہ ارادہ قیامت تک باقی ہے یہاں تک کہ اگر زمین پر دو ہی شخص موجود ہو تو ان میں سے ایک اللہ کی حجت ہے ان میں سے جو دنیا سے چلا جائے دوسرا جب تک زندہ ہے وہ اس وقت تک زمین پر اللہ کا حجت ہے جب تک  اللہ  کے واجبات اور محرمات باقی ہو۔ 

زمين اللہ کی حجت سے خالي نہیں ہوتی، اگر ایک لحظہ کے لئے بھی زمين اللہ کی حجت خدا سے خالی ہو تو زمین سب چیزوں کے ساتھ نابود ہوگئ لہذا ان باطل فرقوں کی باتیں باطل ہیں ۔

ہم اس اس چیز کو مانتے ہیں کہ امام عسكري دنیا سے چلے گئے  آپ کا فرزند اپ کے جانشین ہیں اور آپ کا فرزند ہی آپ کے بعد امام ہیں اور آپ  ظاہر ہوں گے اور جس طرح دوسرے اماموں نے امامت کی ذمہ داری انجام دی آپ بھی امامت کی ذمہ داری کو انجام دیں گے اور یہ اللہ کا حتمی ارادہ ہے اور اللہ کے ارادہ کے مطابق ہی ہوگا کیونکہ اللہ حاکم مطلق ہے ۔ اللہ جو بھی ارادہ کرئے گا وہی ہوگا اللہ جس طرح ان کی غیبت اور ظہور کے بارے میں ارادہ کرئے گا وہی ہوگا جیساکہ اميرالمؤمنین عليه السلام نے فرمایا:

«زمين اللہ کی حجت سے خالی نہیں ہوگی؛ چاہئے یہ ظاہر اور آشکار ہو یا مخفی اور پوشیدہ تاکہ اللہ کی حجت اور نشانیاں باطل نہ ہوں.»

یہ وہی نظریہ ہے کہ جس کی ہمیں خبر دی ہے اور اور اماموں سے معتبر روایات اس سلسلے میں ہم تک پہنچی ہیں ۔

بہت سی معتبر روایات موجود ہیں کہ جو یہ بتاتی ہیں کہ  حضرت قائم عليه السلام لوگوں سے مخفی رہیں گے اور آپ کو لوگ نہیں پہچانیں گے،جب تک آپ ظاہر نہیں ہوں گے اور آپ کی امامت کا اعلان نہیں ہوگا آپ قیام نہیں کریں گے۔  

امام مھدی، امام کے فرزند، وصی اور وصی کے فرزند ہیں۔

اماميه کا ہمیشہ سے یہ نظریہ رہا ہے اور ہمیشہ سے اسی نظریے پر کاربند ہیں اور یہی صحیح راہ اور صحیح نظریہ ہے .

النوبختي، الحسن بن موسي (متوفاي310هـ)، فرق الشيعة، ج 1 ص96 ـ 112، ناشر: دار الأضواء - بيروت، 1404هـ - 1984م

اسی طرح سعد بن عبد الله اشعري نے بھی " المقالات و الفرق " میں غیبت امام کے شروع میں پیش آنے والے اختلافات کی طرف اشارہ کرنے اور منحرف فرقوں کے نظریات کو بیان کرنے کے بعد شیعہ اثني عشريه کے نظریات کو اس طرح بیان کیا ہے :

ففرقة منها وهي المعروفة بالإمامية قالت:... فنحن متمسكون بإمامة الحسن بن علي، مقرّون بوفاته موقنون مؤمنون بأن له خلفاً من صلبه، متدينون بذلك وأنه الإمام من بعد أبيه الحسن بن علي، وأنه في هذه الحالة مستتر خائف مأمور بذلك حتي يأذن الله عز وجل له فيظهر ويعلن أمره.

ان فرقوں میں سے مشهور اماميه فرقہ کہتے ہیں کہ ہم امام حسن عسكري علیہ السام کی امامت کے قائل ہیں ان کی وفات کو ہم نے قبول کیا ہے اور اس بات پر ہمارا ایمان اور یقین ہے کہ ان کا جانشینی ان کی ہی نسل سے ہےہمارا یہ اعتقاد ہے ان کا فرزند ہی ان کے بعد امام ہے وہ اس دور میں اللہ کے حکم سے لوگوں سے پوشیدہ اور مخفی رہے اور جب تک اللہ ظہور کی اجازت نہ ہو  آپ مخفی ہی رہیں گے اور جب ظہور کی اجازت ہوگی تو آپ ظہور فرمائیں گے اور سب پر ظاہر ہوں گے ۔

الأشعري القمي، أبو خلف سعد بن عبد الله (متوفاي300هـ)، المقالات والفرق، ص102ـ 103، تحقيق: محمد جواد مشكور، ناشر: مركز انتشارات علمي و فرهنگي ـ قم، الطبعة: الأولي، 1363هـ ش.

اب دیکھیں قفاري اور احسان الهي ظهير نے مرحوم نوبختي اور سعد بن عبد الله اشعري سے یہ تو نقل کیا ہے کہ امام عسكري عليه السلام جب دنیا سے چلے گئے تو آپ کے فرزند کو کسی نے نہیں دیکھا اور کوئی انہیں نہیں پہچانتے تھے ، لیکن ان دونوں نے اس نظریے کو تمام شیعوں کا نظریہ بتانے کی کوشش کی اور اس کو سارے شیعوں کا نظریہ کہا لیکن جیساکہ بیان ہوا کہ ان دو شیعہ علماء کی باتوں سے جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ شیعہ بارہ امامی نے کبھی بھی آپ کے فرزند ہونے اور آپ کے فرزند کی ولادت میں شک نہیں کیا ہے اور شیعہ بارہ امامی کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب امام عسكري عليه السلام دنيا سے چلے گئے تو آپ کا فرزند پانچ سال کا تھا ۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ شیعہ شناسی اور شیعہ نظریات کی ترجمانی کا ادعا کرنے والے ان دو شیعہ مخالف مولویوں نے انصاف پسندی سے کام نہ لیتے ہوئے شیعہ علماء کی بعد کی باتوں کا تذکرہ ہی نہیں کیا اور دغل بازی اور دھوکہ بازی سے آپ کے فرزند نہ ہونے کی بات کو ان دو شیعہ بزرگ علماء  اور دوسرے شیعوں کے نظریے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اور اس کو سارے شیعوں کا نظریہ کہا ۔

اس قسم کی  دغل بازی سے معلوم ہوتا ہے کہ وھابی اور سلفی علماء کے ہاتھ شیعوں  کے نظریات کو رد کرنے کے دلائل اور برھان سے خالی ہے اور جس ہتھار کو شیعوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں وہ دھوکہ بازی اور جھوٹ کا ہتھار ہے ۔

دوسرے  صراط مستقيم سے منحرف فرقوں کے باطل نظریات کا مذھب حق، شیعہ اثنا عشریہ سے کیا تعلق ہے  ؟

نہ پانا نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے

یہ جو سعد بن عبد الله اور مرحوم نوبختي نے کہا «ولم ير له خلف ولم يعرف له ولد ظاهر؛ ان کے جانشین دکھائی نہیں دیا اور ان کے فرزند کو کسی نے آشکارا نہیں دیکھا» تو یہ اس بات کی دلیل تو نہیں کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا کوئی فرزند ہی نہ ہو .

مشهور قول ہے : عدم الوجدان لا يدل علي عدم الوجود؛ نہ پانا اور لوگوں کا نہ دیکھںا  آپ کے نہ ہونے پر دلیل تو نہیں کیونکہ نہ پانے کا لازمہ نہ ہونا نہیں ہے ۔

ہاں اگر  سعد بن عبد الله اور نوبختي کہتے  «لم يولد له ولد؛ یعنی اصلا آپ کا فرزند ہی نہیں تھا » تو ان دو وھابی ملاوں کی بات صحیح تھیں،لیکن سعد بن عبد الله اور نوبختي نے «ولم ير له خلف ولم يعرف له ولد ظاهر» کہا اور اس کا «لم يولد له ولد» کے ساتھ فرق زمین سے آسمان جتنا ہے ۔

اهل سنت کے فرقوں کے درمیان بھی شدید اختلاف ہے:

دكتر قفاري،نے شیعوں کے درمیان اختلاف کو شیعہ مذھب پر یک اعتراض کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ  الہی ادیان میں ہمیشہ اس قسم کے اختلافات موجود رہے ہیں یہاں تک کہ خود انبیاء کے زمانے میں ان کے پیروکاروں کے درمیان اختلاف رہا ہے اور فرقے وجود میں آئے ہیں لہذا فرقوں میں بٹنا اور اختلاف کا ہونا کسی مذھب کی حقانیت پر اعتراض کی دلیل نہیں ہے کیونکہ ھر قوم و ملت اور دین میں اختلاف کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک ہر قوم و ملت میں مفاد پرست اور دنیا پرست لوگوں کا وجود ہے کہ جو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو قوم و ملت کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے اللہ کے دین  اور آئین کو انحراف کی طرف لے جاتے ہیں اور مذھب میں اختلاف کا سبب بنتے ہیں۔

 خاص کر بنی امیہ اور بنی عباس کے حاکموں کی یہ کوشش رہی ہے کہ مذھب حقہ کا مقابلہ کرنے کے لئے شیعوں میں انتشار اور اختلاف ڈالا جائے اور جیساکہ بہت سے منحرف فرقے انہیں حاکموں کے وسیلے سے اور فنڈنگ سے وجود میں آئے، لہذا ایسے فرقوں کا وجود کہ جو کچھ مہینے یا چند سال کے بعد خود بخود ختم ہوجاتے تھے ،یہ شیعہ امامیہ کی حقانیت پر اعتراض کی دلیل نہیں ہے ۔

اگر کسی نظریہ کا شیعوں کی طرف نسبت دینے کا معیار بعض انحرافی فرقوں کے نظریات ہوں تو اس قسم کے اختلافات اور فرقہ بندی تو دوسرے مذاھب اور خود اھل سنت کے فرقوں کے درمیان شیعوں سے کہیں زیادہ ہیں ،یہاں تک کہ خود اھل سنت کے بعض فرقوں نے بعض کو کافر کہا ہے اور شدید قسم کے لڑائی جگڑے ان میں موجود رہتے ہیں ،ہم ذلیل میں اس کے کچھ نمونے پیش کرتے ہیں  :

جو بھی حنبلي نہیں وہ كافر ہے ۔

شمس الدين ذهبي نے تاريخ الإسلام  اور سير اعلام النبلاء میں اور اسی طرح ابن رجب حنبلي نے طبقات الحنابله میں نقل کیا ہے :

أحمد بن الحسين بن محمد. المحدث الأمام أبو حاتم بن خاموش الرازي البزاز. من علماء السنة... وحكاية شيخ الإسلام الأنصاري معه مشهورة. وقوله: مَن لم يكن حنبلياً فليس بمسلم.

شيخ الاسلام انصاري کا  احمد بن حسين بن محمد کے ساتھ واقعہ مشہور ہے کہ جو یہ کہتا تھا : جو بھی حنبلی نہیں وہ مسلمان نہیں ہے .

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 29، ص 303، تحقيق د. عمر عبد السلام تدمري، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1407هـ - 1987م؛

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 17، ص 625، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ؛

إبن رجب الحنبلي، عبد الرحمن بن أحمد (متوفاي795هـ)، ذيل طبقات الحنابلة، ج 1، ص 20، طبق برنامه الجامع الكبير.

احمد بن حنبل کی پیروی کرنے والے کافر ہیں

ابن اثير جزري لکھتے ہیں  :

ذكر الفتنة ببغداد بين الشافعية والحنابلة

ورد إلي بغداد هذه السنة الشريف أبو القاسم البكري المغربي الواعظ وكان أشعري المذهب وكان قد قصد نظام الملك فأحبه ومال إليه وسيره إلي بغداد وأجري عليه الجراية الوافرة فوعظ بالمدرسة النظامية وكان يذكر الحنابلة ويعيبهم ويقول ( وما كفر سليما ولكن الشياطين كفروا ) والله ما كفر أحمد ولكن أصحابه كفروا.

بغداد میں شافعی مذھب اور حنبلی مذھب والوں کے فتنے :

ابوالقاسم بكري مغربي کہ جو اشعري مذهب کا تھا، یہ بغداد میں داخل ہوا اور نظام الملك سے ملاقات کرنا چاہتا تھا اور اس سے محبت کرتا اور ان کی طرف جکاو تھا ، اس نے مدرسه نظاميه میں وعظ اور خطابت کا سلسلہ چلایا اور وہ حنبلی والوں کا ذکر کرتا تھا اور ان کی بدگوئی کرتا تھا اور کہتا تھا احمد بن حنبل کافر نہیں ہے لیکن اس کے پیروکار کافر ہیں۔

الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفاي630هـ)، الكامل في التاريخ، ج 8، ص 428، تحقيق عبد الله القاضي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة الثانية، 1415هـ.

 نويري نے بھی اسی سلسلے میں لکھا ہے :

وفي سنة خمس وسبعين كانت الفتنة بين الطائفيين، وسببها أنه ورد إلي بغداد الشريف أبو القاسم البكري المقرئ الواعظ وكان أشعريّ المذهب، وكان قد قصد نظام الملك فأحبّه ومال إليه وسيّره إلي بغداد، وأحري عليه الجراية الوافرة. وكان يعِظ بالمدرسة النظامية، ويذكر الحنابلة ويعيبهم ويقول «وما كفر سُليمان ولكن الشياطين كفروا» وما كفر أحمد ولكن أصحابه كفروا ثم قصد يوماً دار قاضي القضاة أبي عبد الله الدامغاني فجري بينه وبين قومٍ من الحنابلة مشاجرة أدّت إلي الفتنة.

اسی مذکورہ واقعے کو ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ قاضي القضاة أبي عبد الله الدامغاني کے پاس گیا اور ان کے اور ایک حنبلی گروہ کے درمیان بحث ہوئی اور یہ فتنہ اور فساد کا باعث بنا ۔

النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 23، ص 141، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1424هـ - 2004م.

ابن خلكان نے اشاعره کا  حنابله کے درمیان دشمنی اور اس کے نتیجے میں قتل و غارت گری کے بارے میں لکھا ہے:

وكان ولده [أبو القاسم القشيري] أبو نصر عبد الرحيم إماما كبيرا أشبه أباه في علومه... وجري له مع الحنابلة خصام بسبب الإعتقاد لأنه تعصب للأشاعرة وانتهي الأمر إلي فتنة قتل فيها جماعة من الفريقين.

ابوالقاسم قشيري کا بیٹا ابونصر عبد الرحيم، کہ جو بڑا پیشوا تھا علم میں اپنے والد کی طرح تھا،یہ اشعری مذھب اور متعصب تھا ،اس کے اور حنبلیوں کے درمیان اعتقادی مسائل میں دشمنی اور اختلاف بڑا اور اس کے نتیجے میں دونوں طرف سے بہت سے لوگ مارے گئے ۔

إبن خلكان، ابوالعباس شمس الدين أحمد بن محمد بن أبي بكر (متوفاي681هـ)، وفيات الأعيان و انباء أبناء الزمان، ج 3، ص 208، تحقيق احسان عباس، ناشر: دار الثقافة - لبنان؛

اليافعي، ابومحمد عبد الله بن أسعد بن علي بن سليمان (متوفاي768هـ)، مرآة الجنان وعبرة اليقظان، ج 3، ص 210، ناشر: دار الكتاب الإسلامي - القاهرة - 1413هـ - 1993م؛

العكري الحنبلي، عبد الحي بن أحمد بن محمد (متوفاي 1089هـ)، شذرات الذهب في أخبار من ذهب، ج 3، ص 322، تحقيق: عبد القادر الأرنؤوط، محمود الأرناؤوط، ناشر: دار بن كثير - دمشق، الطبعة: الأولي، 1406هـ.

عكري حنبلي نے ابوبكر بكري کے بارے میں لکھا ہے  :

البكري أبو بكر المقرئ الواعظ من دعاة الأشعرية وفد علي نظام الملك بخراسان فنفق عليه وكتب له سجلا أن يجلس بجوامع بغداد فقدم وجلس ووعظ ونال من الحنابلة سبا وتكفيرا ونالوا منه.

ابوبكر واعظ ،اشعري مبلغ تھا ، نظام الملك سے ملاقات کے لئے گیا اس سے کافی سارا مال لیا اور بغداد میں تبلیغ اور تقریر کی اجازت لینے کے لئے خط لکھا ،لیکن آس پاس کے حنبلیوں نے برا بلا کہا اور اسے کافر قرار دیا  .

العكري الحنبلي، عبد الحي بن أحمد بن محمد (متوفاي 1089هـ)، شذرات الذهب في أخبار من ذهب، ج 3، ص 353، تحقيق: عبد القادر الأرنؤوط، محمود الأرناؤوط، ناشر: دار بن كثير - دمشق، الطبعة: الأولي، 1406هـ.

نويري نے عز الدين سلمي شافعي (متوفاي 660هـ) کے بارے لکھا ہے:

فأنه [مظفر الدين موسي ابن الملك العادل] كان قد عزر جماعة من أعيان الحنابلة المبتدعة تعزيرا بليغا رادعا وبدع بهم وأهانهم.

مظفر الدين موسي نے حنبلي مذھب کے جانی پہچانی شخصیتوں کو کوڑے مارا اور انہیں ذلیل کیا  .

النويري، شهاب الدين أحمد بن عبد الوهاب (متوفاي733هـ)، نهاية الأرب في فنون الأدب، ج 30، ص 41، تحقيق مفيد قمحية وجماعة، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1424هـ - 2004م.

مذهب تبدیل کرنا ممنوع

محمد بن اسماعيل صنعاني نے  ملا علي قاري سے نقل کیا ہے :

اشتهر بين الحنفية أن الحنفي إذا انتقل إلي مذهب الشافعي يعزر وإذا كان بالعكس فإنه يخلع عليه.

حنفيوں کے درمیان یہ مشهور ہے کہ کوئی اگر حنفی مذھب کو چھوڑ کر شافعی مذھب اختیار کرئے تو اس پر کوڑے لگے گا لیکن کوئی حنفي مذهب اختیار کرئے تو اسے انعام ملے گا۔  

الصنعاني، محمد بن إسماعيل (متوفاي1182هـ)، إرشاد النقاد إلي تيسير الاجتهاد، ج 1، ص 147، تحقيق: صلاح الدين مقبول أحمد، ناشر: الدار السلفية - الكويت، الطبعة: الأولي، 1405هـ.

حنبلي مذھب والے شافعي پر سبّ و لعن کرتے تھے

ابن عساكر شافعي لکھتا ہے :

إن جماعة من الحشوية والأوباش الرعاع المتوسمين بالحنبلية أظهروا ببغداد من البدع الفضيعة والمخازي الشنيعة ما لم يتسمح به ملحد فضلاً عن موحد... وتناهوا في قذف الأئمة الماضين وثلب أهل الحق وعصابة الدين، ولعنهم في الجوامع والمشاهد، والمحافل والمساجد، والأسواق والطرقات، والخلوة والجماعات، ثم غرهم الطمع والإهمال ومدهم في طغيانهم الغي والضلال، إلي الطعن فيمن يعتضد به أئمة الهدي وهو للشريعة العروة الوثقي، وجعلوا أفعاله الدينية معاصي دنية، وترقوا من ذلك إلي القدح في الشافعي رحمة الله عليه وأصحابه.

۔۔۔۔

ابن عساكر الدمشقي الشافعي، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله،(متوفاي571هـ)، تبيين كذب المفتري، ص310، دار الكتاب العربي ـ بيروت.

حنبلی مذھب والوں سے جزیہ اور ٹیکس کا وصول

شمس الدين ذهبي ابوحامد طوسي کے بارے میں لکھا ہے :

وأبو حامد البروي الطوسي الفقيه الشافعي محمد بن محمد تلميذ تلميذ محمد بن يحيي ۔۔ بارعا في معرفة مذهب الأشعري قدم بغداد وشغب علي الحنابلة ۔۔۔۔۔۔۔ قال لو كان لي أمر لوضعت علي الحنابلة الجزية.

ابوحامد بروي طوسي، شافعي فقيه تھا، محمد بن يحيي کے شاگرد کے شاگرد تھا ۔۔۔یہ شافعی مذھب میں مہارت رکھتا تھا یہ بغداد آیا اس نے حنبلیوں کے خلاف فتنہ اور فساد برپا کیا  ۔۔۔۔ان سے نقل ہوا ہے کہ : اگر میں طاقت رکھتا تو حنبلیوں سے جزیہ لیتا .

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان ابوعبد الله (متوفاي 748 هـ)، العبر في خبر من غبر، ج 4، ص 200، تحقيق: د. صلاح الدين المنجد، ناشر: مطبعة حكومة الكويت - الكويت، الطبعة: الثاني، 1984؛

العكري الحنبلي، عبد الحي بن أحمد بن محمد (متوفاي 1089هـ)، شذرات الذهب في أخبار من ذهب، ج 4، ص 224، تحقيق: عبد القادر الأرنؤوط، محمود الأرناؤوط، ناشر: دار بن كثير - دمشق، الطبعة: الأولي، 1406هـ.

شافعي والوں سے جزیہ کا وصول

ابوالفداء السوداني نے تاج التراجم میں لکھا ہے :

محمد بن موسي بن عبد الله البلاشاغوني التركي تفقه ببغداد وقدم دمشق وولي بها القضاء ومات في جمادي الآخرة سنة ست وخمسمائة وكان يقول لو كان لي أمر لأخذت الجزية من الشافعية.

محمد بن موسي بن عبد الله بلاشاغوني تركي، نے بغداد میں فقه سیکھا اور دمشق گیا وہاں قضاوت کا مقام سنبھالا، کہتا تھا : اگر قدرت ہوتی تو شافعی والوں سے جزیہ لیتا   

السوداني، أبو الفداء زين الدين قاسم بن قطلوبغا (متوفاي879هـ)، تاج التراجم في طبقات الحنفية، ج 1، ص 350، تحقيق: محمد خير رمضان يوسف، ناشر: دار القلم - دمشق / سوريا، الطبعة: الأولي، 1413هـ- 1992م.

اسی مطلب کو ذهبي نے ميزان الإعتدال میں ، ابوالفداء قرشي نے الجواهر المضية میں  اور محمد بن اسماعيل صنعاني نے طبقات الحنفية میں نقل کیا ہے.

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج 6، ص 350، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1995م؛

القرشي، عبد القادر بن أبي الوفاء محمد بن أبي الوفاء أبو محمد (متوفاي775هـ)، الجواهر المضية في طبقات الحنفية، ج 2، ص 136، ناشر: مير محمد كتب خانه - كراچي؛

الصنعاني، محمد بن إسماعيل (متوفاي1182هـ)، إرشاد النقاد إلي تيسير الاجتهاد، ج 1، ص 23، تحقيق: صلاح الدين مقبول أحمد، ناشر: الدار السلفية - الكويت، الطبعة: الأولي، 1405هـ.

شافعیوں کا حنبلیوں سے شادی حرام اور مسجد جدا ۔

محمد بن اسماعيل صنعاني نے ارشاد النقاد میں لکھا ہے :

لقد وصل الخلاف إلي أن منع بعض الفقهاء الأحناف تزوج الحنفي من المرأة الشافعية ثم صدرت فتوي من فقيه آخر ملقب بمفتي الثقلين فأجاز تزوج الحنفي بالشافعية وعلل ذلك بقوله تنزيلا لها منزلة أهل الكتاب وقال العلامة رشيد رضا وقد بلغ من إيذاء بعض المتعصبين لبعض في طرابلس الشام في آخر القرن الماضي أن ذهب بعض شيوخ الشافعية إلي المفتي وهو رئيس العلماء وقال له اقسم المساجد بيننا وبين الحنفية فإنا فلانا من فقهائهم يعدنا كأهل الذمة بما أذاع في هذه الأيام من خلافهم في تزوج الرجل الحنفي بالمرأة الشافعية وقول بعضهم لا يصح لأنها تشك في إيمانها يعني أن الشافعية وغيرهم يجوزون أن يقول المسلم أنا مؤمن إن شاء الله وقول آخرين بل يصح نكاحها قياسا علي الذمية.

کبھی شافعی مذھب والوں کا حنبلی مذھب والوں سے اختلاف اتنا زیادہ ہوجاتا تھا کہ بعض جنفی فقہاء شافعی والوں سے نکاح کو حرام قرار دیتے  اور ان کو اھل کتاب کی طرح جانتے ۔۔

 رشيد رضا لکھتا ہے : اتنا ایک دوسرے کو آذیت و آزار دینا زیادہ ہوا تھا کہ بعض شافعي بزرگوں نے مفتي اعظم سے شافعي  اور حنفي والوں میں مسجد تقسیم کرنے کا تقاضا کیا  کیونکہ ان کے فقہاء اھل ذمہ کی طرح ان سے سلوک رکھتے تھے اور شادی کو حرام سمجھتے تھے  ۔۔۔۔۔

الصنعاني، محمد بن إسماعيل (متوفاي1182هـ)، إرشاد النقاد إلي تيسير الاجتهاد، ج 1، ص 20، تحقيق: صلاح الدين مقبول أحمد، ناشر: الدار السلفية - الكويت، الطبعة: الأولي، 1405هـ.

حنبلی والی مسجد ضرار بناتے تھے ۔

تنوخي بصري لکھتا ہے  :

الحنابلة يبنون مسجداً ضراراً. أخبرني جماعة من البغداديين: إن الحنابلة بنوا مسجداً ضراراً، وجعلوه سبباً للفتن والبلاء. ۔۔۔۔.

 حنبلي والے مسجد بناتے تھے لیکن شافعی والے ان مسجدوں کو شافعی کے خلاف اختلاف اور ان پر حملہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے ، مسجد ضرار کہتے تھے  

التنوخي البصري، ابوعلي المحسن بن علي بن محمد بن أبي الفهم (متوفاي 384هـ)، نشوار المحاضرة وأخبار المذاكرة، ج 1، ص 330، تحقيق: مصطفي حسين عبد الهادي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1424هـ-2004م.

امام عسكري (ع) کی ميراث کی تقسیم ، امام مھدی(عج) کی عدم ولادت پر دلیل نہیں :

قفاري  اور  احسان الهي ظهير کا یہ کہنا کہ امام عسكري عليه السلام کے بعد ان کی میراث ان کے بھائی اور ماں کے درمیاں تقسیم ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ امام عسكري کی کوئی اولاد ہی تھی ،اگر آپ کا کوئی بیٹا ہوتا تو میراث اس کو بھی ملنی چاہئے تھی ۔

ہم جواب میں کہتے ہیں: اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ امام عسكري علیہ السلام  کا کوئی فرزند ہی نہ ہو اگر کسی شیعہ نے اس مطلب کو نقل کیا ہے تو اس نے یہ نہیں کہا ہے کہ کیونکہ امام عسكري علیہ السلام  کا کوئی فرزند نہیں تھا لہذا آپ کی ميراث آپ کے بھائی اور ماں کے درمیاں تقسیم ہوگئی، بلکہ اس کو نقل کرنے والے شیعوں نے یہ بھی کہا ہے: آپ کے بھائی  جعفر جو جعفر كذاب کے لقب سے مشهور تھا اس نے امامت کا جھوٹا ادعا کیا اور مکر و فریب اور عباسي حاکموں کی مدد سے امام عسكري عليه السلام کی جائیداد اور میراث پر قبضہ کر لیا.

شيخ صدوق رضوان الله تعالي عليه نے كمال الدين میں نقل کیا ہے :

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَرَّاقُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ الصُّوفِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُوسَي عَنْ عَبْدِ الْعَظِيمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَسَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَحْيَي عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْكَابُلِيِّ قَالَ:... قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عليه السلام أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَالَ إِذَا وُلِدَ ابْنِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عليه السلام فَسَمُّوهُ الصَّادِقَ فَإِنَّ لِلْخَامِسِ مِنْ وُلْدِهِ وَلَداً اسْمُهُ جَعْفَرٌ يَدَّعِي الْإِمَامَةَ اجْتِرَاءً عَلَي اللَّهِ وَكَذِباً عَلَيْهِ فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ جَعْفَرٌ الْكَذَّابُ الْمُفْتَرِي عَلَي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُدَّعِي لِمَا لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ الْمُخَالِفُ عَلَي أَبِيهِ وَالْحَاسِدُ لِأَخِيهِ ذَلِكَ الَّذِي يَرُومُ كَشْفَ سَتْرِ اللَّهِ عِنْدَ غَيْبَةِ وَلِيِّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَ بَكَي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ عليه السلام بُكَاءً شَدِيداً ثُمَّ قَالَ كَأَنِّي بِجَعْفَرٍ الْكَذَّابِ وَقَدْ حَمَلَ طَاغِيَةَ زَمَانِهِ عَلَي تَفْتِيشِ أَمْرِ وَلِيِّ اللَّهِ وَالْمُغَيَّبِ فِي حِفْظِ اللَّهِ وَالتَّوْكِيلِ بِحَرَمِ أَبِيهِ جَهْلًا مِنْهُ بِوِلَادَتِهِ وَحِرْصاً مِنْهُ عَلَي قَتْلِهِ إِنْ ظَفِرَ بِهِ وَطَمَعاً فِي مِيرَاثِهِ حَتَّي يَأْخُذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ....

ابي خالد كابلي کہتا ہے :... امام زين العابدين علیہ السلام  نے فرمایا: میرے والے نے اپنے والد عليهما السّلام سے نقل کیا ہے کہ  رسول خدا صلي الله عليه وآله نے فرمایا: جب میرا فرزند جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن ابي طالب (عليهم السلام) کی ولادت ہوئی تو انہیں صادق کا لقب دینا ؛ کیونکہ ان کے پانچویں فرزند کا بیٹا، جعفر، جھوٹا امامت کا ادعا کرئے گا ،اللہ پر جھوٹ باندھے گا ، اللہ کے نذدیک وہ جعفر كذاب ہے ، وہ ایسے مقام کا مدعی ہے جس کا وہ اہل نہیں، وہ اپنے والد کے مخالف اور اپنے بھائی کی نسبت سے حسد کرنے والا ہے ۔۔۔.

پھر  علي بن الحسين علیہ السلام  روئے اور فرمایا : گويا میں جعفر كذاب کو دیکھ رہا ہوں وہ اپنے زمانے کے سرکش انسان کو اپنے زمانے کے اللہ کے ولی اور اللہ کی حفاظت کے ساتھ غیب ہونے والے اور اپنے والد کے حرم کے وکیل کے جستجو پر ورغلائے گا  اور یہ ان کی ولادت سے جہالت اور  اگر مل جائے تو انہیں قتل کرنے اور اپنے بھائی کی وراثت پر قبضہ جمانے کے لئے ایسا کرئے گا ۔

الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاي381هـ)، كمال الدين و تمام النعمة، ص319 ـ 320، تحقيق: علي اكبر الغفاري، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي ( التابعة ) لجماعة المدرسين ـ قم، 1405هـ.

یہ  روايت رسول خدا صلي الله عليه وآله سے نقل ہوئی ہے اور واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جعفر كذاب اپنے بھائی کی میراث پر قبضہ جمانے کی خاطر ،اللہ کے ولی کی غیبت کے راز کو  اپنے زمانے کے طاغوت کے لئے فاش کرنا چاہتا تھا اسی نے ہی حاکم کے کارندوں کو امام کے گھر کی تلاشی لینے کے لئے امام کے گھر لایا تاکہ ان کے فرزند کو تلاش کرئے ،انہیں قتل کر کے ان کے مال اور ثروت پر قبضہ کرئے ۔

لہذا امام عسكري کے فرزند حضرت مهدي عليهما السلام  کے بغیر امام حسن عسکری کی میراث کی تقسیم کرنا ان کے فرزند کی ولادت کی نفی پر دلیل نہیں ہے ۔

شيخ مفيد رضوان الله تعالي عليه اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

وَخَلَّفَ ابْنَهُ الْمُنْتَظَرَ لِدَوْلَةِ الْحَقِّ وَكَانَ قَدْ أَخْفَي مَوْلِدَهُ وَسَتَرَ أَمْرَهُ لِصُعُوبَةِ الْوَقْتِ وَشِدَّةِ طَلَبِ سُلْطَانِ الزَّمَانِ لَهُ وَاجْتِهَادِهِ فِي الْبَحْثِ عَنْ أَمْرِهِ وَلِمَا شَاعَ مِنْ مَذْهَبِ الشِّيعَةِ الْإِمَامِيَّةِ فِيهِ وَعُرِفَ مِنِ انْتِظَارِهِمْ لَهُ فَلَمْ يُظْهِرْ وَلَدَهُ عليه السلام فِي حَيَاتِهِ وَلَا عَرَفَهُ الْجُمْهُورُ بَعْدَ وَفَاتِهِ. وَتَوَلَّي جَعْفَرُ بْنُ عَلِيٍّ أَخُو أَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام أَخْذَ تَرِكَتِهِ وَسَعَي فِي حَبْسِ جَوَارِي أَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام وَاعْتِقَالِ حَلَائِلِهِ وَشَنَّعَ عَلَي أَصْحَابِهِ بِانْتِظَارِهِمْ وَلَدَهُ وَقَطْعِهِمْ بِوُجُودِهِ وَالْقَوْلِ بِإِمَامَتِهِ وَأَغْرَي بِالْقَوْمِ حَتَّي أَخَافَهُمْ وَشَرَّدَهُمْ وَجَرَي عَلَي مُخَلَّفِي أَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام بِسَبَبِ ذَلِكَ كُلُّ عَظِيمَةٍ مِنِ اعْتِقَالٍ وَحَبْسٍ وَتَهْدِيدٍ وَتَصْغِيرٍ وَاسْتِخْفَافٍ وَذُلٍّ وَلَمْ يَظْفَرِ السُّلْطَانُ مِنْهُمْ بِطَائِلٍ.

وَحَازَ جَعْفَرٌ ظَاهِرَ تَرِكَةِ أَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام وَاجْتَهَدَ فِي الْقِيَامِ عِنْدَ الشِّيعَةِ مَقَامَهُ فَلَمْ يَقْبَلْ أَحَدٌ مِنْهُمْ ذَلِكَ وَلَا اعْتَقَدَهُ فِيهِ فَصَارَ إِلَي سُلْطَانِ الْوَقْتِ يَلْتَمِسُ مَرْتَبَةَ أَخِيهِ وَبَذَلَ مَالًا جَلِيلًا وَتَقَرَّبَ بِكُلِّ مَا ظَنَّ أَنَّهُ يَتَقَرَّبُ بِهِ فَلَمْ يَنْتَفِعْ بِشَيْ ءٍ مِنْ ذَلِكَ.

امام عسكري عليه السلام اپنے بعد اپنے فرزند کو جانشین چھوڑ کر گئے کہ جو ابھی بھی زندہ ہے اور حق کی حکومت کے انتظار میں ہیں  (اللهم عجل فرجه و اجعلنا من انصاره).

حضرت امام عسكري نے اپنے فرزند کی ولادت کو لوگوں سے مخفی رکھا اور لوگوں کو پتہ چلنے نہیں دیا کیونکہ اس وقت حکومت کی کڑی نظر تھی اور حکومت سخت آپ کی تلاش میں تھی۔

اسی وقت یہ مشہور ہوا تھا کہ شیعہ امامی والے امام غائب کے انتظار میں ہیں اور یہ ابو محمد امام عسکری کے فرزند ہیں اسی لئے امام انہیں لوگوں کے سامنے نہیں لاتے تھے اور جب آپ کی وفات ہوئی تو آپ کے بعض قریبی لوگوں کے کسی اور کو ان کی ولادت کی خبر نہ تھی ۔

حضرت عسكري علیہ السلام  کی وفات کے وقت ظاہری طور پر آپ کا کوئی فرزند نہیں تھا لہذا آپ کے بھائی  جعفر بن علي (معروف به كذاب) نے موقع سے فائدہ اٹھا کر آپ کے  تركه پر قبضہ کیا ، آپ کی کنیزوں کو زندان میں ڈالا اور آپ کی ازواج کو بند کردیا اور آپ کے یار و انصار میں سے جو آپ کے فرزند کے انتظار میں تھے ۔یہ لوگ اس چیز کا عقیدہ رکھتے تھے کہ امام عسکری علیہ السلام کے لئے فرزند ہیں اور وہی وقت کے امام ہیں، تو جعفر کذاب ان لوگوں کو برا بلاکہتا تھا اور انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا تھا  تاکہ انہیں پریشان کر کے ان میں اختلاف ڈالے ۔ اس طرح اس کی وجہ سے آپ کے رشتہ داروں اور گھر میں کام کرنے والوں کی بے احترامی کی گئی.

لیکن ان سب کے باوجود اس وقت کے حاکم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا اور امام عسکری علیہ السلام کے فرزند کو نہیں پاسکا ۔

جیساکہ بیان ہوا اس جعفر نے امام کی ارث پر قبضہ کیا اور اس طرح شیعوں کے درمیان اپنے لئے امام عسکری علیہ السلام جیسا مقام حاصل کرنا چاہا ۔لیکن کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی اور اس کی امامت کے قائل نہیں ہوئے۔  

اور آخر کار خلیفہ کے پاس گیا اور کہا مجھے میرے بھائی کی جگہ پر قرار دئے اور اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کیا اور ہر ممکن طریقے سے اس مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوا ۔

الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري البغدادي (متوفاي413 هـ)، الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج2، ص 336، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993 م.

 جعفر كذاب کے بارے شیعوں کا نظریہ :

اس سلسلے میں شیعوں کے نظریہ کا خلاصہ یہ ہے:

الف: اس نے امامت کا ادعا کیا ؛ جبکہ وہ اس مقام کے لائق ہی نہیں تھا،اسی لئے ظالم اور جابر حاکموں سے مدد لی تاکہ ان کے ذریعے سے امامت کے منصب پر فائز ہونے میں کامیاب ہوسکے ۔لیکن وہ بری طرح ناکام رہا ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ جب یہ  عبيد الله بن يحيي بن خاقان کے وزیر کے پاس گیا اور اسے واسطہ قرار دینا چاہا کہ بادشاہ اس کو مقام امامت تفویض کرئے تو اس نے آگے سے جواب دیا :

يَا أَحْمَقُ السُّلْطَانُ جَرَّدَ سَيْفَهُ فِي الَّذِينَ زَعَمُوا أَنَّ أَبَاكَ وَأَخَاكَ أَئِمَّةٌ لِيَرُدَّهُمْ عَنْ ذَلِكَ فَلَمْ يَتَهَيَّأْ لَهُ ذَلِكَ فَإِنْ كُنْتَ عِنْدَ شِيعَةِ أَبِيكَ أَوْ أَخِيكَ إِمَاماً فَلَا حَاجَةَ بِكَ إِلَي السُّلْطَانِ أَنْ يُرَتِّبَكَ مَرَاتِبَهُمَا وَلَا غَيْرِ السُّلْطَانِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ عِنْدَهُمْ بِهَذِهِ الْمَنْزِلَةِ لَمْ تَنَلْهَا بِنَا.

اے احمق! بادشاہ نے اپنی تلوار غلاف سے باہر نکالی تاکہ تیرے باب اور بھائی کی امامت سے لوگوں کو دور رکھا جائے لیکن وہ اس کام میں کامیاب نہیں ہوا ۔اور ابھی تم آیا ہے تاکہ بادشاہ اپنے فرمان سے تمہیں امامت کے مقام پر بٹھائے ؟اگر تم اپنے باب اور بھائی کے شیعوں کے درمیان امام ہوتا تو بادشاہ اور کسی اور کے حکم کی ضرورت ہی نہیں اور اگر تم امام ہی نہ ہو تو بادشاہ کے فرمان سے تمہیں فائدہ نہیں ہوگا اور تم اس مقام کو نہیں پاسکے گا .

الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاي328 هـ)، الأصول من الكافي، ج1، ص505، ناشر: اسلاميه ، تهران ، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.  

ب : جعفر، نے ناحق امامت کا دعوا کیا  اور اپنے بھائی کے مال و اموال پر قبضہ کیا اور مقام امامت اور خلافت کو حاصل کرنے میں ناکام ہوا ۔ بہت زیادہ تلاش اور کوشش کے بعد امام عسکری علیہ السلام کے مال و اموال پر حاکموں کی مدد سے قبضہ جمانے میں کامیاب ہوا  .

ابن شهرآشوب مازنداني نے مناقب میں لکھا ہے :

وَتَوَلَّي أَخُوهُ أَخْذَ تَرِكَتِهِ وَسَعَي إِلَي السُّلْطَانِ فِي حَبْسِ جَوَارِي أَبِي مُحَمَّدٍ عليه السلام وَشَنَّعَ عَلَي الشِّيعَةِ فِي انْتِظَارِهِمْ وَلَدَهُ وَجَرَي عَلَي مُخَلَّفِ كُلُّ بَلَاءٍ وَاجْتَهَدَ جَعْفَرٌ فِي المَقامِ مَقَامَهُ فَلَمْ يَقْبَلْهُ أَحَدٌ بَرَأوْ مِنه وَلَقَّبُوهُ الْكَذَّاب .

امام حسن عسكري عليه السّلام کے بھائی جعفر نے اپنے بھائی کی ميراث پر قبضہ کیا  اور خلیفہ اور حاکم کی مدد سے  ابو محمد عليه السّلام کی کنیزوں کو زندانی بنایا اور شیعوں کو جو اس کے بھائی کے فرزند کے انتظار میں تھے اور امام مہدی علیہ السلام کی امامت کے معتقد تھے ،انہیں بہت تکلیف پہنچائی اور اپنے بھائی کے جانشینی کے مقام تک پہنچنے کے لئے بہت کوشش کی لیکن شیعوں نے اس کی باتوں کو قبول نہیں کیا ۔ شیعوں نے اس سے اظہار بیزای اور اس کو کذاب کا لقب دیا .

ابن شهرآشوب، رشيد الدين أبي عبد الله محمد بن علي السروي المازندراني (متوفاي588هـ)، مناقب آل أبي طالب، ج3، ص524، تحقيق: لجنة من أساتذة النجف الأشرف، ناشر: المكتبة والمطبعة الحيدرية، 1376هـ ـ 1956م.

ج: اپنے بھائی امام عسكري عليه السلام کے گھر کے راز کو فاش کرنا اس کے برے کاموں میں سے ایک ہے وہ حاکم کے پاس گیا اور اس کو  حضرت مهدي عجل الله تعالي فرجه الشريف کی ولادت سے آگاہ کیا، اسی لئے امام عسکری علیہ السلام کے خاندان والوں اور ان کے گھر میں کام کرنے والوں اور ان کے شیعوں پر سختی کی گئی اور امام  کے فرزند کو تلاش کرنے کے لئے حاکموں نے بہت زیادہ کوشش کی ۔ لیکن اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اللہ کی حجت ان لوگوں سے مخفی رہے اور ان کے ہاتھوں میں نہ آئے۔

اب جب جعفر کے بارے میں یہ بات واضح ہوئی کہ یہ شیعوں کے ہاں «كذاب» مشهور تھا اب کیسے ایک ایسے شخص کی طرف سے امام کے اموال پر قبضہ کرنے اور ان کی میراث کی تقسیم، امام مهدي عجل الله تعالي فرجه الشريف کی ولادت نہ ہونے پر دلیل ہوسکتی ہے ؟

التماس دعا ۔۔۔۔

شبھات کے جواب دینے والی ٹیم ، تحقيقاتي ادارہ ،حضرت ولي عصر (عج)





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات