2024 March 28
جناب مختار ثقفی کے بارے میں چار سوالات کے جوابات:
مندرجات: ١٧٥٩ تاریخ اشاعت: ٢٥ September ٢٠١٨ - ١٩:٤٣ مشاہدات: 5727
سوال و جواب » متفرق
جدید
جناب مختار ثقفی کے بارے میں چار سوالات کے جوابات:

جناب مختار ثقفی کے بارے میں چار سوالات کے جوابات:

سؤال اول:

کیا مختار ایک عالم تھا یا ایک بہادر جنگجو اور محب اہل بیت تھا ؟ کیا وہ علم کے اس مرتبے پر فائز تھا کہ اپنی طرف سے فتوا صادر کر سکے ؟

جواب:

مختار کے شجاع ، ماہر جنگجو ہونے اور اسکے اہل بیت (ع) سے محبت کرنے کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے اور شیعہ علماء نے بھی مختار کے بارے میں اس بات کو ذکر کیا ہے اور شیعہ کتب میں اسکی مدح و تعریف میں روایات ذکر ہوئی ہیں اور بعض روایات میں واضح طور پر اسکو برا بھلا کہنے سے منع کیا گیا ہے۔

بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ وہ روایات کو امیر المؤمنین علی (ع) کے بیٹے محمد ابن حنفیہ سے لیا کرتا تھا۔

 ابن نمای حلی نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

وولي علي عليه السلام عمه علي المدائن عاملا والمختار معه، فلما ولي المغيرة بن شعبة الكوفة من قبل معاوية - لعنه الله - رحل المختار إلي المدينة ، وكان يجالس محمد بن الحنفية ويأخذ عنه الأحاديث.

علی (ع) نے مدائن میں مختار کے چچا کو اپنے والی و حاکم کے طور پر بھیجا اور مختار بھی اسکے ساتھ تھا، جب مغیرہ ابن شعبہ، معاویہ کی جانب سے کوفہ کا حاکم بنا تو مختار مدینہ چلا گیا اور وہ محمد ابن حنفیہ کے پاس آتا جاتا تھا اور وہ اس سے احادیث کو پڑھا اور لیا کرتا تھا۔

ابن نما الحلي، جعفر بن محمد بن جعفر بن هبة الله (متوفي645هـ)، ذوب النضار في شرح الثار، ص67، الطبعة الاولي 1416

عالم علم رجال جناب نمازی شاہرودی نے مختار کو اپنے زمانے کا ایک فصیح و بلیغ شخص قرار دیا ہے اور اس نے اپنی کتاب میں اس سے خطبے اور بعض کلمات کو ذکر کیا ہے کہ جو ظاہر کرتے ہیں کہ مختار ایک فصیح و بلیغ انسان تھا:

ومن الفصحاء البلغاء المختار بن أبي عبيدة الثقفي ، له كلمات فصيحة . ومنها قوله عند خروجه : والذي أنزل القرآن ، وبين الفرقان ، وشرع الأديان ، وكره العصيان ، لأقتلن العصاة من أزد عمان ، ومذحج وهمدان ، ونهد وخولان ، وبكر وهران ، وثعل وبنهان ، وقبائل قيس عيلان ، غضبا لابن بنت نبي الرحمن . ...

فصحاء میں سے ایک فصیح مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی ہے کہ اس سے فصیح کلمات نقل ہوئے ہیں، اس کے بعض فصیح کلمات وہ ہیں کہ جو اس نے اپنے خروج کے وقت بولے تھے:

اس خدا کی قسم کہ جس نے قرآن کو نازل کیا ہے، فرقان کو بیان کیا اور ادیان کو شرعی حثیت عطا کی اور معصیت کو برا شمار کیا، بے شک میں قبیلہ ازد، عمان، مذحج، ہمدان، نہد، خولان ، بكر، ہران ، ثعل، بنہان اور قبايل قيس عيلان کے گناہ گار افراد کو قتل کروں گا کیونکہ میں نے ان پر رسول خدا (ص) کے بیٹے کی خاطر غضب کیا ہے۔۔۔۔۔

النمازي الشاهرودي، الشيخ علي (متوفي1405هـ)، مستدرك سفينة البحار، ج 8 ، ص 208، تحقيق وتصحيح: الشيخ حسن بن علي النمازي،

اس عبارت کے مطابق واضح ہوا کہ مختار ایک فصیح و بلیغ عالم تھا اور احادیث کو پڑھنے اور سمجھنے میں جناب محمد ابن حنفیہ کا شاگرد تھا، اب یہ کہ وہ فتوا بھی دیتا تھا یا نہیں، اس بارے میں کتب میں کوئی بات ذکر نہیں ہوئی ہے۔

شیعہ علماء کی نظر میں مختار ایک بلند مقام اور محب اہل بیت (ع) انسان تھا اور اسکا قیام بر حق اور امام حسین (ع) کے قاتلوں سے انتقام لینے کے لیے تھا۔

جعفر ابن نمای حلّی نے مختار کے بارے میں کہا ہے کہ:

مختار مجاہدین میں سے تھا کہ جنکی خداوند نے قرآن میں مدح کی ہے اور اسکے لیے امام سجاد (ع) کا دعا کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرت کے نزدیک مختار کا کیا مقام و مرتبہ تھا اور اہل بیت کے دشمنوں نے مختار کی مذمت کے بارے میں غلط اور جھوٹی روایات گھڑی ہیں:

إعلم أن كثيرا من العلماء ... ولو تدبروا أقوال الأئمة في مدح المختار لعلموا أنه من السابقين المجاهدين الذين مدحهم الله تعالي جل جلاله في كتابه المبين ، ودعاء زين العابدين عليه السلام للمختار دليل واضح ، وبرهان لائح ، علي أنه عنده من المصطفين الأخيار ، ولو كان علي غير الطريقة المشكورة ، ويعلم أنه مخالف له في اعتقاده لما كان يدعو له دعاء لا يستجاب ، ويقول فيه قولا لا يستطاب، وكان دعاؤه عليه السلام له عبثا ، والامام منزه عن ذلك ، وقد أسلفنا من أقوال الأئمة في مطاوي الكتاب تكرار مدحهم له، ونهيهم عن ذمه ما فيه غنية لذوي الابصار ، وبغية لذوي الاعتبار، وإنما أعداؤه عملوا له مثالب ليباعدوه من قلوب الشيعة ، كما عمل أعداء أمير المؤمنين عليه السلام له مساوي، وهلك بها كثير ممن حاد من محبته ، وحال عن طاعته ، فالولي له عليه السلام لم تغيره الأوهام ، ولا باحته تلك الأحلام ، بل كشفت له عن فضله المكنون وعلمه المصون . فعمل في قضية المختار ما عمل مع أبي الأئمة الأطهار . . إلخ .

بہت سے علماء کو توفیق نصیب نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔ اور اگر وہ مختار کے بارے میں آئمہ کے کلام میں غور کرتے تو جان لیتے کہ مختار مجاہدین میں سے تھا کہ جنکی خداوند نے قرآن میں مدح کی ہے اور اسکے لیے امام سجاد (ع) کا دعا کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرت کے نزدیک مختار ایک خاص بندہ تھا، اور اگر وہ (مختار) غلط راستے پر ہوتا اور اگر ان حضرت کو علم ہوتا کہ اسکے اعتقادات ہمارے اعتقادات سے مخالف ہیں تو وہ حضرت مختار کے لیے دعا ہی نہیں کرتے کہ جو قبول ہو اور اس صورت میں ان حضرت کا اسکے لیے دعا کرنا، ایک فالتو اور بیہودہ کام ہوتا، حالانکہ ایک حکیم امام فالتو و لغو کاموں سے منزہ و پاک ہوتا ہے۔ ہم نے آئمہ کے کلام کو، کتاب کے مختلف مقامات پر مختار کی مدح و تعریف میں اور اسکی مذمت کرنے سے منع کرنے کے بارے میں، بیان کیا ہے۔

مختار کے دشمنوں نے اسکے لیے ایسی غلط باتیں ذکر کیں ہیں تا کہ اسکو شیعوں کے دلوں سے دور کر دیں، جسطرح کہ امیر المؤمنین علی (ع) کے دشمنوں نے بھی انکے بارے میں ایسا ہی کیا تھا، اسی جعلی و جھوٹی باتوں کی وجہ سے ان حضرت کے بہت سے محبین ہلاکت کا شکار ہو گئے اور انکی اطاعت کرنے سے دور ہو گئے، لیکن ان حضرت کے سچے ولایت مدار افراد اسطرح کی غلط تہمتوں سے بالکل تبدیل نہ ہوئے اور وہ اسطرح کی غلط باتوں سے اخلاص کے راستے سے دور نہ ہوئے، مختار کے ساتھ بھی انھوں نے وہی کچھ کیا کہ جو انھوں نے امیر المؤمنین علی (ع) کے ساتھ انجام دیا تھا۔

الحلي ، المعروف بابن نما الحلي من اعلام القرن السابع، ذوب النضار، ص 146، تحقيق: فارس حسون كريم، سال چاپ: شوال المكرم 1416 

سؤال دوم:

کیا یہ دو روایت سند کے لحاظ سے صحیح و معتبر ہیں ؟

1- عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ لِي: يجُوزُ النَّبِي(ص) الصِّرَاطَ يتْلُوهُ عَلِي وَ يتْلُو عَلِياً الْحَسَنُ وَ يتْلُو الْحَسَنَ الْحُسَينُ فَإِذَا تَوَسَّطُوهُ نَادَي الْمُخْتَارُ الْحُسَينَ(ع) :يا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (ع) إِنِّي طَلَبْتُ بِثَارِكَ فَيقُولُ النَّبِي(ص) لِلْحُسَينِ(ع) :أَجِبْهُ؛ فَينْقَضُّ الْحُسَينُ(ع) فِي النَّارِ كَأَنَّهُ عُقَابٌ كَاسِرٌ فَيخْرِجُ الْمُخْتَارَ حُمَمَةً وَ لَوْ شُقَّ عَنْ قَلْبِهِ لَوُجِدَ حُبُّهُمَا فِي قَلْبِهِ.

امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: رسول خدا (ص) پل صراط سے گزریں گے، حضرت علی (ع) اور امام حسن (ع) بھی انکے پیچھے ہوں گے اور پھر جب امام حسین (ع) پل صراط کے درمیان پہنچیں گے تو مختار ( کہ جو عذاب دوزخ میں ہو گا) ندا دے کر کہے گا: یا ابا عبد اللہ میں آپکے خون کا انتقام لینے والا ہوں، یہ سن کر رسول خدا (ص) فرمائیں گے: اے حسین اسکی بات کا جواب دیں، پھر امام حسین عقاب کی سی تیزی سے مختار کو دوزخ سے نجات دیں گے اور اگر مختار کے دل کو کھول کر دیکھا جائے تو شاید اسکے دل میں ان دونوں (ابوبکر و عمر) کے لیے محبت موجود ہو۔

2. دوسری روایت بھی تقریبا اسی معنی و مضمون پر مشتمل ہے کہ جو امام صادق (ع) سے نقل ہوئی ہے کہ اس روایت کے آخر میں راوی امام سے سوال کرتا ہے کہ: مختار اتنی خدمات انجام دینے کے باوجود بھی کیوں عذاب جہنم میں مبتلا ہے ؟ امام جواب میں فرمائیں گے کہ: کیونکہ اسکے دل میں ان دو خلفاء کی محبت موجود تھی، پھر امام قسم کھا کر فرمائیں گے کہ اگر جبرائیل اور میکائیل کے دل میں بھی ان دو کے لیے ذرہ بھر بھی محبت موجود ہوتی تو خداوند ان دونوں کو بھی منہ کے بل آتش جہنم میں ڈال دیتے۔

اور کیا مختار کی دوسرے خلیفہ (عمر) کے ساتھ کوئی نسبت تھی ؟

جواب:

اولا: یہ دونوں روایات سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں اور نتیجے کے طور پر قابل اعتماد و استناد بھی نہیں ہوں گی۔

مرحوم آيت الله خوئی نے نقل روايات کے بعد لکھا ہے کہ:

أقول: الروايتان ضعيفتان، أما رواية التهذيب فبالارسال أولا، وبأمية بن علي القيسي ثانيا.....

ہر دو روايت سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں، اولا: کتاب تہذیب کی روایت مرسل ہے اور ثانیا: اميۃ ابن علی قيسی (دوسری روايت میں) ضعيف ہے۔

الموسوي الخوئي، السيد أبو القاسم (متوفي1411هـ)، معجم رجال الحديث وتفصيل طبقات الرواة، ج19، ص108

ثانيا: مختار ابن ابی عبيد کی عمر ابن خطاب سے کسی قسم کی کوئی نسبت اور تعلق نہیں تھا، بلکہ عبد اللہ ابن عمر، مختار کا داماد (بہن کا شوہر) تھا۔ یہ بات بہت سی کتب میں نقل ہوئی ہے:

جیسے ابن اثير جزری نے کتاب أسد الغابۃ في معرفۃ الصحابۃ میں لکھا ہے کہ:

أبو عُبَيد بن مسعود بن عَمْرو ابن عُمَير بن عَوف بن عُقْدَة بن غِيَرَةَ بن عوف ابن ثقيفٍ الثَّقَفِي . والد المختار بن أبي عبيد، ووالد صَفِيّة امرأة عبد الله بن عُمَر،

ابو عبيد ابن مسعود ابن عمرو .... والد مختار ابن ابی عبيد اور والد صفيہ زوجہ عبد الله ابن عمر ہے۔

ابن أثير الجزري، عز الدين بن الأثير أبي الحسن علي بن محمد (متوفي630هـ)، أسد الغابة في معرفة الصحابة، ج6، ص217، ناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت

اسی وجہ سے مختار کی بہن نے اپنے شوہر عبد اللہ ابن عمر سے چاہا کہ وہ یزید سے بات کرے تا کہ وہ مختار کو زندان سے آزاد کر دے،

ابن ابی الحديد نے مختار کے زندان سے آزاد ہونے کے بارے میں لکھا ہے کہ:

وذاك أن أخته كانت تحت عبد الله بن عمر بن الخطاب ، فسألت بعلها أن يشفع فيه إلي يزيد فشفع ، فأمضي شفاعته ، وكتب بتخلية سبيل المختار علي البريد ، فوافي البريد وقد أخرج ليضرب عنقه ، فأطلق.

مختار کے زندان سے آزاد ہونے کا سبب یہ ہے کہ اسکی بہن زوجہ عبد اللہ ابن عمر تھی، اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ مختار کے بارے میں یزید سے بات کرے اور یزید نے بھی اسکی بات مان لی اور اپنے قاصد کے ہاتھ ایک خط مختار کی آزادی کے بارے میں بھیجا اور جب مختار کی گردن کاٹنے کے لیے اسے زندان سے باہر لایا گیا تھا تو قاصد نے اسی وقت خط کو عبید اللہ ابن زیاد کو دیا، اس نے خط پڑھنے کے بعد مختار کو آزاد کر دیا۔

إبن أبي الحديد المدائني المعتزلي، (متوفي655 هـ)، شرح نهج البلاغة،ج2، ص171، تحقيق محمد عبد الكريم النمري، ناشر: دار الكتب العلمية ، بيروت، لبنان،

سؤال سوم:

کیا یہ تاریخی روایت صحیح ہے کہ جب امام حسن (ع) شہر مدائن میں موجود تھے تو مختار انکو معاویہ کے قبضے میں دے کر عراق کی حکومت لینا چاہتا تھا ؟

جواب:

یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، آيت الله العظمی خوئی اور علامہ مامقانی نے بھی اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔

سوال چہارم:

مختار ثقفی روز عاشورا کہاں تھا ؟

مختار کی شخصیت کے بارے میں ایک مہم سوال جو ہمیشہ سے ہوتا آ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ مختار نے قیام عاشورا میں امام حسین (ع) کی کیوں مدد نہیں کی تھی، لیکن بعد میں ان حضرت کے قاتلوں سے انتقام لیا تھا ؟

جواب: 
تاریخی اعتبار سے اور شیخ مفید و طبری نے صراحت سے لکھا ہے کہ:

جناب مسلم سفیر امام حسین (ع) کوفہ میں آنے کے بعد سیدھے مختار کے گھر گئے تو مختار نے انکا بہت احترام کیا اور رسمی طور پر انکی حمایت اور ساتھ دینے کا اعلان بھی کیا۔

الارشاد، ص 205؛

تاریخ طبری، ج 5، ص 355

بلاذری نے لکھا ہے کہ: مسلم مختار کے گھر آئے تھے۔

انساب الاشراف، ج 6، ص 376.

لیکن ابن زیاد کے مکارانہ طور پر بھیس بدل کر کوفہ میں آنے سے کوفہ کے حالات ایک دم سے بدل گئے، اسی وجہ سے جناب مسلم مختار کے گھر سے نکل کر جناب ہانی ابن عروہ کے گھر آ گئے۔

مختار جناب مسلم کے کوفہ میں آنے کے بعد آرام سے نہ بیٹھا اور وہ جناب مسلم کی بیعت کر کے کوفہ کے اطراف کے علاقے خطرنیہ چلا گیا اور وہاں جا کر جناب مسلم کے لیے افراد کو بیعت کے لیے جمع کرنے لگا، لیکن اچانک کوفہ کے حالات تبدیل ہونے کے بعد اور اہل کوفہ کے ابن زیاد کے سامنے تسلیم ہونے کے بعد، مختار دوباہ کوفہ واپس پلٹ آیا۔

ابن زیاد نے حکم دیا کہ امام حسین کو کوفہ میں آنے کی دعوت دینے والے اور مختار کی حمایت کرنے والے سب میری بیعت کریں، ورنہ سب کو قید کے پھانسی دے دی جائے گی۔

ابن اثیر نے لکھا ہے کہ:

مسلم اور ہانی کی گرفتاری کے وقت مختار کوفہ میں نہیں تھا اور وہ لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے کوفہ سے باہر گیا ہوا تھا اور جب اس نے جناب مسلم کے اسیر ہونے کی خبر سنی تو اپنے چند افراد کے ساتھ کوفہ واپس آیا۔

شہر میں داخل ہوتے وقت مختار اور اسکے ساتھیوں کا ابن زیاد کے مسلح افراد کے ساتھ سامنا ہوا اور لفظی گفتگو کے بعد انکے درمیان لڑائی شروع ہو گئی کہ جس میں اس مسلح گروہ کا سالار قتل ہو گیا اور پھر مختار نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہاں سے ادھر ادھر بھاگ جائیں، اسکے بعد دیکھیں گے کہ صورتحال کیا بنتی ہے۔

کامل ابن اثیر، ج 4، ص 169.

ابن زیاد کوفہ کے حالات پر قابو پانے اور جناب مسلم و ہانی کو شہید کرنے کے بعد، شدت سے مختار کی تلاش میں تھا اور اس نے مختار کو گرفتار کرنے پر انعام بھی مقرر کیا ہوا تھا۔

تـاریـخ طـبـری، ج 5، ص 381؛

کـامـل ابـن اثـیـر، ج 4، ص 36.

ابن زیاد ملعون  کا جناب مختار کو گرفتار کرنا:

ہانی ابن جبہ نامی مختار کا ایک قریبی دوست عمرو ابن حریث کے پاس گیا اور مختار کے مخفی ہونے کی جگہ کا اسکو بتا دیا۔ عمرو نے اس شخص سے کہا کہ مختار سے کہو کہ ہوشیار رہے کہ ہم اسکے پیچھے ہیں اور وہ خطرے میں ہے۔

مختار عمرو ابن حریث کی حمایت کی وجہ سے ابن زیاد کے پاس گیا۔ ابن زیاد کی نگاہ جب مختار پر پڑی تو اس نے چيخ کر کہا تم وہی ہو جس نے ابن عقیل کی مدد کی تھی ؟ مختار نے قسم کھا کر کہا میں شہر کوفہ میں نہیں تھا اور کل رات بھی عمرو ابن حریث کے پاس تھا۔

مقتل الحسین (ع) ، ابی مخنف، ص 268-270.

ابن زیاد بہت غصے میں تھا، اس نے اسی حالت میں زور سے اپنی عصا کو مختار کی صورت پر دے مارا کہ جس سے اسکی ایک آنکھ شدید زخمی ہو گئی۔ عمرو کھڑا ہو گیا اور اس نے مختار کی حمایت کرتے ہوئے گواہی دی کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ یہ سن کر ابن زیاد کو آرام آ گیا اور کہا:

اگر عمرو تمہاری حمایت میں گواہی نہ دیتا تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا اور پھر اسکے حکم کے مطابق مختار کو زندان میں ڈال دیا گیا، مختار واقعہ عاشورا اور امام حسین (ع) کی شہادت کے وقت تک ابن زیاد کے زندان میں تھا۔

انـسـاب الاشـراف، ج 6، ص 376- 377

کامل ابن اثیر، ج 4، ص 116

مقتل ابی مخنف، ص 271

البدایة والنهایة، ج 8، ص 249

پس اس تفصیل کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ قیام امام حسین (ع) اور واقعہ کربلا کے وقت مختار کے زندان میں ہونے اور شہر کوفہ کے حالات ہی ایسے تھے کہ وہ امام حسین (ع) کے قیام میں شریک ہی نہیں ہو سکتا تھا، نہ کہ وہ شریک ہی نہیں ہوا تھا۔

جناب مختار کا مزار اور زیارت نامہ:

شہر کوفہ میں مختار کا مزار زمانہ قدیم سے متبرک مقامات میں شمار ہوتا تھا۔ قبر مختار حضرت مسلم ابن عقیل کے صحن میں کوفہ کی مسجد اعظم میں ہے۔

تنزيه المختار، ص 14 ـ 13

علامہ امینی  نے شہید ثانی کی کتاب مزار سے جناب مختار کے لیے ایک زیارت نامہ نقل کیا ہے اور اس زیارت نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ قبر مختار زمانہ قدیم سے ہی شیعوں کی توجہ کا مرکز تھی اور ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں اسی بات کا ذکر کیا ہے۔

رحله، ابن بطوطه، ص 232.

علامہ مجلسی نے جناب مختار کی شخصیت کے بارے میں لکھا ہے کہ:

مختار رسول خدا (ص) کے اہل بیت کے فضائل بیان کیا کرتا تھا اور حتی امیر المؤمنین علی (ع)، امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے فضائل کو لوگوں میں پھیلایا کرتا تھا اور مختار کا عقیدہ تھا کہ رسول خدا (ص) کا خاندان ہی امامت اور حکومت کے لیے سب سے زیادہ مناسب ہے اور وہ اہل بیت (ع) پر ہونے والے مظالم اور مصائب کے بارے میں ہمیشہ غم و غصے کی حالت میں رہتا تھا۔

بحار الانوار، ج 45، ص 352.

جناب مختار کا سارا خاندان ہی رسول خدا (ص) کے اہل بیت کا عاشق اور مخلص خاندان تھا۔

التماس دعا۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات