سلام علیکم :
جناب پہلی بات تو یہ ہے کہ ارث کا قانون ایک عمومی قانون ہے اس میں نبی اور غیر نبی میں فرق نہیں ہے ۔۔
شریعت نے دین اولاد کو والدین کی ارث سے محروم قرار دیا ہے ،
ولد الزنا ْْ۔۔ والدین کا قاتل ۔۔۔۔ کافر اولاد۔۔
ان وراثت سے محروم کرنا ایک قسم کی سزا ، عیب اور معاشرے کو برائیوں سے دور رکھنے کے لئے شریعت کی طرف سے چارہ جوئی ہے۔۔۔ انبیا کی اولاد کا کیا جرم ہے ؟ کیا ان کو وراثت کی ضرورت نہیں ؟ کیا انبیا کی وراثت بیت المال کا حصہ بننے اور فقرا میں تقسیم ہونے پر انبیا کی تاریخ سے کوئی ایک نمونہ دکھا سکتے ہو۔۔۔۔۔۔
دوسری بات :
قرآن میں ارث کےحکم کو بتانے والی دس سے زیادہ آیات موجود ہیں لیکن ایک آیت بھی انبیا کی مالی وراثت کی نفی پر نہیں ہے لہذا یہ حکم قرآن کے حکم کے خلاف ہے۔۔۔۔
ہم قرآنی حکم کے خلاف کوئی حدیث ہو تو اس کو قبول نہیں کرتے کیونکہ ہمارے ائمہ قرآن کے خلاف نہیں بولتے ۔۔
تیسری بات :
آپ نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اصول کافی کی حدیث کا معنی غلط کیا ہے ۔ایک سادہ ادبی تحلیل کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔
دیکھیں : إن العلماء ورثة الأنبياء وذاك أن الأنبياء لم يورثوا درهما۔۔۔۔ آپ نے اس کا ترجمہ کیا ہے :۔۔۔ وارث انبیاء ہیں ، اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے درہم یا دینار کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ترجمہ میں (کسی کو وارث نہیں بناتے) غلط ترجمہ ہے ۔۔۔۔ صحیح ترجمہ ۔۔۔ انبیاء علماء کو درھم و دینار ارث میں چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہذا آپ نے اپنے مقصد کے لئے ( لم يورثوا) کا دوسرا مفعول کسی کو کیا ہے جبکہ اس کا دوسرا مفعول العلماء کی طرف پلٹنے والی ضمیر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے اس سلسلے میں تفصیل جواب اسی مقالے میں دیا ہے ۔۔۔ اگر مطالعہ کرتے تو تکراری بات نہ کرتے ۔۔۔۔
چھوتھی بات :
یہ حدیث علم اور عالم کی فضیلت سے متعلق ہے اس کا مالی وراثت سے کوئی تعلق نہیں ۔۔۔ یہی حدیث آپ کی کتابوں میں بھی ہے لیکن آپ کے کسی محدث اور صحاح ستہ کے مصنف نے اس کو ارث کے باب میں ذکر نہیں کیا ہے بلکہ سب نے اصول کافی کے مصنف کی طرح اس کو علم و عالم کی فضیلت کے ابواب میں ذکر کیا ہے ۔۔۔ اگر آپ اپنے بزرگوں کے فھم و درک کے خلاف استدلال کرنا چاہئے تو ہم آپ کو نہیں روکتے ۔۔
پانچویں بات :
قرب الاسناد کی روایت : ن رسول الله صلى الله عليه وآله لم يورث دينارا ولا درهما، ولا عبدا ولا وليدة، ولا شاة ولا بعيرا، ولقد قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وإن درعه مرهونة عند يهودي من يهود المدينة بعشرين صاعا من شعير، استسلفها نفقة لأهله ۔۔
پہلا نکتہ : تو یہ ہے کہ اس کی سند میں حسین بن علوان ہے یہ سنی راوی ہے اور ہمارے علما نے اس کی توثیق نہیں کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کسی نے توثیق کی ہے تو یہ روایت قرآن کے خلاف ہے ۔۔۔۔
دوسرا نکتہ : اس روایت میں انبیاء کی مالی وراثت کی نفی نہیں ہوئی ہے بلکہ مندرجہ چیزوں کو وراثت میں چھوڑ کر جاننے کی نفی کی ہے ۔۔۔۔ ۔
چھٹی بات :
کلینی نے الکافی میں ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے ۔ باب (ان النساء لا يرثن ۔
عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔
۔۔۔۔ اس سلسلے میں موجود شبھہ کا بھی ہم نے تفصیلی جواب دیا ہے ۔۔۔۔۔
یہ بیوی سے متعلق موضوع ہے ،ہمارا آپ لوگوں سے نزاع بیٹی کی وراثت کے بارے میں ہے ۔۔