2024 March 28
شہادت حضرت امام علی النقی الہادی(ع) اور انکی حیات طیبہ:
مندرجات: ٦٦٨ تاریخ اشاعت: ٢٥ March ٢٠١٧ - ١٤:٤٨ مشاہدات: 9932
یاداشتیں » پبلک
شہادت حضرت امام علی النقی الہادی(ع) اور انکی حیات طیبہ:

 

شہادت حضرت امام علی النقی الہادی(ع) اور انکی حیات طیبہ:

نام : علی بن محمد
نام پدر : محمد بن علی
نام مادر : بی بی سمانہ
تاریخ ولادت :15 ذیحجہ212 ہجری

طبرسی ، اعلام الوری ، الطبعة الثالثه ، دارالکتب الاسلامیه ، ص 355  شیخ مفید ، الارشاد ، قم ، مکتبه بصیرتی ، ص 327 

ایک اور روایت کے مطابق 2 رجب 212 ھ کو واقع ہوئی ہے ۔ 
لقب : تقی ، ہادی
کنیت : ابو الحسن ثالث
مدت امامت : 33 سال
تاریخ شہادت : 3 رجب 254 ھ شہر سامرا

شبلنجی ، نور الابصار ، ص 166 ، قاہره ، مکتبتہ المشہد الحسینی 

امام دہم حضرت امام علی بن محمد النقی الہادی (ع) 15 ذوالحجہ سن 212 ہجری، مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔

ارشاد، مفید، بیروت، دار المفید، 211 من سلسلہ مؤلفات الشیخ المفید، ص297.

آپ (ع) کا نام "علی" رکھا گیا اور کنیت ابو الحسن،

مناقب آل ابی‏طالب، ابن شہر آشوب، انتشارات ذوی‏القربی، ج1، 1379، ج4، ص432.

اور آپ (ع) کے مشہور ترین القاب "النقی اور الہادی" ہیں۔

جلاء العیون، محمد باقر مجلسی، انتشارات علمیہ اسلامیہ، ص568.

اور آپ (ع) کو ابو الحسن ثالث اور فقیہ العسکری بھی کھا جاتا ہے۔

مناقب، ص432.

 جبکہ امیر المؤمنین (ع) اور امام رضا (ع) ابو الحسن الاول اور ابو الحسن الثانی کہلاتے ہیں۔

 آپ (ع) کے والد حضرت امام محمد تقی الجواد ع اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام "سیدہ سمانہ المغربیہ" ہے۔

ارشاد شیخ مفید، ص432.

 امام ہادی علیہ السلام عباسی بادشاہ معتز کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

شیخ مفید، ارشاد، ص327

آپ (ع) کی عمر ابھی چھ سال پانچ مہینے تھی کہ ستمگر عباسی ملوکیت نے آپ کے والد کو ایام شباب میں ہی شہید کر دیا اور آپ (ع) نے بھی اپنے والد حضرت امام محمد تقی الجواد ع کی طرح چھوٹی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا تھا۔

مناقب، ص433.

 اور آپ کی مدت امامت 33 سال ہے۔

مناقب، ص433.

امام علی النقی الہادی(ع) اپنی عمر کے آخری دس برسوں کے دوران مسلسل متوکل عباسی کے ہاتھوں سامرا میں نظر بند رہے۔

مناقب، ص433؛ ارشاد، ص297.

گو کہ سبط بن جوزی نے تذکرة الخواص میں لکھا ہے کہ امام ع 20 سال اور 9 مہینے سامرا کی فوجی چھاؤنی میں نظر بند رہے۔ آپ کی شہادت بھی عباسی ملوکیت کے ہاتھوں رجب المرجب سن 254 ہجری کے ابتدائی ایام میں ہوئی۔

ارشاد، ص297.

آپ (ع) شہادت کے بعد سامرا میں اپنے گھر میں ہی سپرد خاک کیے گئے تھے۔

اعلام الوری، طبرسی، دارالمعرفہ، ص339.

امام ہادی ع اپنی حیات طیبہ کے دوران کئی عباسی بادشاہوں کے معاصر رہے۔ جن کے نام یہ ہیں: معتصم عباسی، واثق عباسی، متوکل عباسی، منتصر عباسی، مستعین عباسی اور معتز عباسی۔

مناقب، ص433

ہم عصر خلفاء:

امام ہادی (ع) کے امامت کے دور میں چند عباسی خلفاء گذرے ہیں جن کے نام یہ ہیں :
1۔ معتصم ( مامون کا بھائی ) 217 سے 227 ھ تک 
2۔ واثق ( معتصم کا بیٹا ) 227 سے 232 ھ تک 
3۔ متوکل ( واثق کا بھائی ) 232 سے 248 ھ تک
4
۔ منتصر ( متوکل کا بیٹا ) 6 ماہ
5۔ مستعین ( منتصر کا چچا زاد ) 248 سے 252 ھ تک
6۔ معتز ( متوکل کا دوسرا بیٹا ) 252 سے 255 ھ تک
امام ہادی (ع) آخری خلیفہ کے ہاتھوں شہید ہوئے اور اپنے گھر میں ہی مدفون ہیں۔

امام علی نقی (ع) کی سال ولادت212 ھ اور شہادت 254 ہجری میں واقع ہونے کے بارے اتفاق ہے لیکن آپ کی تاریخ ولادت و شہادت میں اختلاف ہے ۔ ولادت کو بعض مورخین نے 15 ذی الحجہ اور بعض نے دوم یا پنجم رجب بتائی ہے اسی طرح شہادت کو بعض تیسری رجب مانتے ہیں لیکن شیخ کلینی اور مسعودی نے ستائیس جمادی الثانی بیان کی ہے۔
وقایع الایام، ص282

البتہ رجب میں امام ہادی ع کی پیدایش کی ایک قوی احتمال وہ دعائے مقدسہ ناحیہ کا جملہ ہے، جس میں امام (ع) فرماتے ہیں: "اللھم انی اسئلک بالمولودین فی رجب ، محمد بن علی الثانی و ابنہ علی ابن محمد "

آپ کا نام گرامی علی اور لقب ،ہادی، نقی، نجیب ، مرتضی ، ناصح، عالم ، امین ، مؤتمن ، منتجب ، اور طیب ہیں، البتہ ہادی اور نقی معروف ترین القاب میں سے ہیں، آنحضرت کی کنیت " ابو الحسن " ہے اور یہ کنیت چہار اماموں یعنی امام علی ابن ابی طالب ، امام موسی ابن جعفر ، امام رضا (ع) کیلئے استعمال ہوا ہے ، فقط (ابو الحسن) صرف امام علی ابن ابی طالب (ع) کے لیے اور امام موسی بن جعفر (ع) کو ابو الحسن اول ،امام رضا (ع) کو ابو الحسن الثانی، اور امام علی النقی (ع) کو ابو الحسن الثالث کہا جاتا ہے۔

امام علی النقی الہادی (ع) کی ولادت مدینہ منورہ کے قریب ایک گاؤں بنام " صریا " میں ہوئی، جسے امام موسی کاظم (ع) نے آباد کیا اور کئ سالوں تک آپ کی اولاد کا وطن رہا تھا۔ حضرت امام علی النقی (ع) جو کہ ہادی اور نقی کے لقب سے معروف ہیں 3 رجب اور دوسری قول کے مطابق 25 جمادی الثانی کو سامرا میں شہید کیے گئے، حضرت امام علی النقی (ع) کا دور امامت، عباسی خلفاء معتصم ، واثق، متوکل ، منتصر ، مستعین ، اور معتز کے ہمعصر تھے۔ حضرت امام علی النقی (ع) کے ساتھ عباسی خلفا کا سلوک مختلف تھا، بعض نے امام کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو کسی نے حسب معمول برا ، البتہ سب کے سب خلافت کو غصب کرنے اور امامت کو چھیننے میں متفق اور ہم عقیدہ تھے، جن میں سے متوکل عباسی اہل بیت کی نسبت دشمنی رکھنے میں زیادہ مشہور تھا اور اس نے خاندان رسالت کو آزار و اذیت پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی ، یہاں تک کہ اماموں کی قبروں کو مسمار کیا ، خاص طور پر قبر مطہر سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) اور اس کے اطراف کے تمام گھروں کو مسمار کر کے اور وہاں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔ متوکل نے حضرت امام نقی (ع) کو سن 243 ہجری میں مدینہ منورہ سے سامرا بلایا ۔ عباسی خلفا میں سے صرف منتصر باللہ نے اپنے مختصر دور خلافت میں خاندان امامت و رسالت کے ساتھ قدرے نیک سلوک کیا۔ حضرت امام علی النقی (ع) کو سامرا " عباسیوں کے دار الخلافہ" میں 11 سال ایک فوجی چھاونی میں قید رکھا ، اس دوران مکمل طور پر لوگوں کو اپنے امام کے ملاقات سے محروم رکھا گیا۔ آخر کار 3 رجب اور دوسری روایت کے مطابق 25 جمادی الثانی سن 254 ہجری کو معتز عباسی خلیفہ نے اپنے بھائی معتمد عباسی کے ہاتھوں زہر دے کر آپ کو شہید کر دیا۔

امام ہادی (ع) کے دور میں سیاسی اور اجتماعی حالات:

عباسی خلافت کا دور چند خصوصیات کی بناء پر دوسرے ادوار سے مختلف تھا، لہذا بطور اختصار ان خصوصیات کو بیان کیا جا رہا ہے:

1۔ خلافت کی عظمت اور اس کا زوال :

 خواہ اموی خلافت کا دور ہو یا عباسی کا ، خلافت ایک عظمت و حیثیت رکھتی تھی لیکن اس دور میں ترک اور غلاموں کے تسلط کی وجہ سے خلافت گیند کی مانند بن گئی تھی، جس طرف چاہتے تھے ، گما کر پھینک دیتے تھے۔

2۔ درباریوں کا خوش گذرانی اور ہوسرانی کرنا :

 عباسی خلفاء نے اپنے دور کے اس خلافت میں خوش گذرانی و شرابخواری و ... کے فساد و گناہ میں غرق تھے جس کو تاریخ نے اپنے سینے میں ثبت و ضبط کیا ہے۔

3۔ ظلم و بربریت کی بے انتہا :

 عباسی خلفاء کے مظالم سے تاریخ بھری پڑی ہے، جسے قلم لکھنے سے قاصر ہے۔

4۔ علوی تحریکوں کا وسعت اختیار کرنا :

 اس عصر میں عباسی حکومت کی یہ کوشش رہی کہ جامعہ میں علویوں سے نفرت پیدا کی جائے اور مختصر بہانے پر ان کو بے رحمانہ طور پر قتل کیا جاتا تھا کیونکہ علوی تحریک کو عباسی حکومت ہمیشہ اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتی تھی۔

اسی لیے اس سلسلے کی ایک کڑی یعنی امام ہادی (ع) کو حکومت وقت نے مدینے سے سامرا بلایا اور فوجی چھاونی میں بہت سخت حفاظتی انتظام کے ساتھ گیارہ سال قید و بند میں رکھا تھا۔

عباسی خلفاء کا سیاہ ترین دور اور امام ہادی (ع) کا موقف:

عباسی خلفاء میں سے خصوصا خلیفہ متوکل سب سے زیادہ علویوں اور شیعوں کے ساتھ عجیب دشمنی رکھتا تھا ، اس لیے یہ دور تاریخ کا سب سے زیادہ سخت ترین اور سیاہ ترین دور کہا جاتا ہے لہذا امام ہادی (ع) اس خلیفہ کے زمانے میں اپنے ماننے والوں کیلئے بہت ہی احتیاط کے ساتھ ان سے رابطہ کرتے اور پیغام دیتے تھے، چونکہ امام (ع) پر سخت پہرا تھا۔ اسی وجہ سے امام (ع) نے وکالت اور نمایندگی کے طریقے کو اپنایا ہوا تھا۔

امام ہادی (ع) اور کلامی مذاہب:

امام ہادی (ع) کے اس سخت ترین دور کے میں دیگر مکاتب اور مذاہب کے ماننے والے اپنے عروج پر تھے اور باطل عقائد اور نظریات مثلا جبر و تفویض ، خلق قرآن وغیرہ جامعہ اسلامی اور شیعوں کے محافل میں نفوذ کر کے امام (ع) کی ہدایت و رہبری کی ضرورت کو دو چندان کر دیا تھا اور بہت سے مناظرے ان موضوعات پر روشن گواہ ہیں۔

امام ہادی (ع) کی تعلیمات میں غور وفکر:

امام ہادی (ع) نے شیعوں کی امامت کو اس وقت قبول کیا کہ جس وقت حکومت کی طرف سے شیعوں پر دباؤ اور پریشانیاں حد سے زیادہ تھیں۔

دایرة المعارف فقہ مقارن ، ج1 ، ص104

اسی طرح ثقافتی اور تبلیغی کام انجام دینے میں آپ آزاد نہیں تھے، لیکن آپ نے اسی ماحول میں اعتقادی اعتراض کے جوابات بھی دئیے ، حدیثی اور فقھی میدان میں کام انجام دیا اور بہت سے شاگردوں کی تربیت فرمائی ، فقھی مشکلات کا حل اور سوالات کے جوابات آپ کے علم و دانش پر بہترین گواہ ہیں۔

عیسائی زنا کار جو کہ حد جاری ہونے سے پہلے مسلمان ہو گیا تھا ، کے متعلق امام ہادی (ع) کا فقھی فتوی اور یحیی بن اکثم اور دوسرے درباری فقہاء کے نظریات کی مخالفت میں امام ہادی (ع) کا فتوی بہت اہم ہے۔

 وسائل الشیعہ، ج18 ص408 ، ابواب حد الزنا، باب 36) ۔

اسی طرح متوکل کی نذر اور اس کو انجام دینے میں اختلافات اور پھر امام ہادی (ع) کا مشکل کو حل کرنا ایک دوسری مثال ہے۔

   تذکرة الخواص ، ص360

  دایرة المعارف فقہ مقارن ، ج1 ، ص104

لہذا امام ہادی (ع) کے برجستہ شاگردوں میں ایوب بن نوح، عثمان بن سعید اہوازی اور عبد العظیم حسنی، کا نام لیا جا سکتا ہے ، ان میں سے بعض اصحاب کی علمی اور فقہی کتابیں بھی موجود ہیں۔

دایرة المعارف فقہ مقارن ، ج1، ص107

امام ہادی(ع) ع کی نظر میں دنیا کی حقیقت:

دنیا ،آخرت کا تجارت خانہ ہے۔

امام ہادی (ع) نے دنیا کی حقیقت کو ایک بازار کے عنوان سے بیان کیا ہے کہ جس میں کچھ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور کچھ لوگ نقصان اٹھاتے ہیں ، آپ نے فرمایا :

الدنیا سوق ربح فیھا قوم و خسر آخرون۔

 دنیا ایسا بازار ہے جس میں ایک گروہ فائدہ اٹھاتا ہے اور دوسرا گروہ نقصان اٹھاتا ہے۔

بحار الانوار ، ج75

مواعظ امام ہادی (ع) ، ص366

امام ہادی (ع) کے اس نورانی کلام کی تفسیر میں آیت اللہ مکارم شیرازی نے لکھا ہے کہ :

امام علی نقی (ع) کی یہ روایت بتاتی ہے کہ دنیا کی طرف فقط ایک آخری ہدف کے عنوان سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ ایسا وسیلہ ہے جس میں عمل صالح انجام دینے کے بعد آخرت کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

پیام امام امیر المومنین (ع) ، ج2 ،ص185

امام (ع) کے اس کلام کی تفسیر میں وہ پھر لکھتے ہیں کہ:

یہ دنیا انسان کا اصلی وطن نہیں ہے اور نہ ہی ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے بلکہ ایک بہت بڑا تجارت خانہ ہے جس میں انسان اپنی عمر، طاقت،فکری اور عملی کاموں کے عظیم سرمایہ کو لگانے کے بعد آخرت کی ابدی زندگی کو حاصل کر سکتا ہے۔

یکصد و پنجاہ درس زندگی (فارسی) ، ص78

پھر وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ:

 جو لوگ بہت زیادہ کارکردگی انجام دیتے ہیں اور بہت زیادہ ہوشیار اور آگاہ ہیں وہ اس تجارت خانے کے فنون سے با خبر ہیں ، وہ ایک لمحہ کے لیے آرام سے نہیں بیٹھتے اور ہمیشہ اس کوشش میں ہیں کہ اس سرمایہ کے ذریعہ اپنے لیے اور اپنے معاشرہ کے لیے بہترین زندگی کا انتخاب کر لیں۔

دنیا امتحان اور مشکلات کا گھر ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے کا گھر ہے، اگر دنیا کو آخرت کی کھیتی ، بازار اور یونیورسٹی سمجھیں تو زیادہ سے زیادہ سعی و کوشش کریں گے ، ورنہ مادیوں کی طرح بیکار زندگی بسر کریں گے۔ مادی اور توحیدی نظریات کو الگ الگ کرتے ہوئے فرمایا : پاک و پاکیزہ زندگی بسر کرنے کیلئے ہم کچھ خرچ کرنا پڑے گا اور بغیر خرچ کیے ہوئے اس تک نہیں پہنچ سکتے۔

یکصد و پنجاہ درس زندگی (فارسی) ، ص78

دنیا میں ایک بڑے نقصان سے بچنے کیلئے خداوند پر توکل و اعتماد کرنا ضروری ہے:

آیت اللہ مکارم شیرازی نے امام ہادی (ع) کے کلام کی تفسیر کرتے ہوئے خطرہ اور نقصان سے بچنے کے لیے سورہ عصر کو متوجہ اور متنبہ کرنے والے کے عنوان سے پیش کیا اور فرمایا : ایک بزرگ نے کہا ہے: میں نے اس سورہ عصر کے معنی برف بیچنے والے مرد سے سیکھے ہیں ، وہ آواز لگاتا ہوا کہہ رہا تھا کہ : ' 'ارحموا من یذوب راس مالہ ارحموا من یذوب راس مالہ ' ' !

اس شخص پر رحم کرو جس کا سرمایہ پانی بن کر بہہ رہا ہے ، اس شخص پر رحم کرو جس کا سرمایہ پگھل رہا ہے ، میں نے اپنے آپ سے کہا : ' 'ان الانسان لفی خسر ' '۔

سورہ عصر ، آیت 2

کے معنی یہ ہیں ، زمانہ اس کے اوپر سے گزر جاتا ہے اور اس کی عمر ختم ہو جاتی ہے اور اسے کوئی ثواب حاصل نہیں ہوتا اور وہ بہت ہی نقصان اٹھانے والا ہے۔

تفسیر فخر رازی ، ج32 ،ص85

تفسیر نمونہ ، ج27 ،ص296

لہذا اس عظیم خسران سے بچنے کیلئے صرف ایک راستہ باقی رہ جاتا ہے جس کے متعلق خداوند فرماتا ہے کہ:  وہ لوگ گھاٹے اور نقصان میں نہیں ہیں جو ایمان لائے اور اعمال صالح انجام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو حق اور صحیح کام کرنے کی نصیحت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر و استقامت کی نصیحت کرتے ہیں:

  ' ' الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر ' '

سورہ عصر ، آیت 3

تفسیر نمونہ ، ج27 ،ص296

دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ جو چیز اس عظیم نقصان کو روک سکتی ہے اور اس کو عظیم فائدہ میں تبدیل کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں گرانقدر اور قیمتی سرمایہ کو حاصل کر لیں۔

تفسیر نمونہ ، ج27 ،ص297

یقینا انسان اگر ایک سانس بھی لیتا ہے تو وہ موت سے نزدیک ہوتا چلا جاتا ہے ، اس بناء پر انسان کا جب ایک مرتبہ دل دہڑکتا ہے تو اس کی عمر کا ایک قدم کم ہو جاتا ہے ، لہذا اس عظیم نقصان کے سامنے ایسے کام کرنا چاہیے تا کہ خالی جگہ پر ہو جائے۔

تفسیر نمونہ ، ج27 ،ص297

گویا آیت اللہ مکارم شیرازی نے دنیا میں انسان کی زندگی اور عمر کو اس طرح تقسیم کیا ہے کہ:

1-  بہت سے لوگ اپنی زندگی اور عمر کے نفیس سرمایہ کے مقابلہ میں بہت کم مال یا بہت حقیر اور چھوٹا سا گھر حاصل کر لیتے ہیں ۔

2-  بہت سے لوگ کسی عہدہ و مقام کو حاصل کرنے کیلئے اس پورے سرمایہ کو ختم کر دیتے ہیں ۔

3-  بہت سے اس سرمایہ کو عیش و نوش اور مادی لذات کے مقابلہ میں کھو دیتے ہیں ۔

4-  یقینا اس عظیم سرمایہ کی ان میں سے ایک بھی قیمت نہیں ہے ، اس کی قیمت صرف اور صرف خدا کی مرضی اور اس سے تقرب حاصل کرنا ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کا ایک نام ' 'یوم التغابن ' ' ہے ، جیسا کہ سورہ تغابن کی آیت 9 میں ذکر ہوا ہے : ' 'ذالک یوم التغابن ' ' ۔ اس دن معلوم ہو گا کہ کون مغبون ہوا ہے اور کس نے نقصان اٹھایا ہے۔

تفسیر نمونہ ، ج27 ،ص298

اس وجہ سے کہنا چاہیے کہ دنیا ، امتحان و مشکلات کا گھر ہے اور آخرت ہمیشہ کیلئے چین و سکون کا گھر ہے اور اگر دنیا کو آخرت کی کھیتی ، بازار تجارت اور یونیورسٹی سمجھ لیں تو زیادہ سے زیادہ سعی و کوشش کریں کیونکہ اسلام کی نظر میں دنیا ایک بازار تجارت ہے ، جیسا کہ امام ہادی (ع) کی روایت میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

تفسیر نمونہ ، ج27 ،ص296

تہذیب نفس میں خود شناسی بہترین قانون ہے:

آیت اللہ مکارم نے امام ہادی (ع) کی تعلیمات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

جیسا کہ تہذیب نفس اور اخلاقی مسائل میں خود شناسی بنیادی ترین مسئلہ ہے ، اپنی قدر و منزلت سے جاہل ہونا دوسری چیزوں اور خداوند سے دوری کا سبب ہے ، لہذا ایک حدیث میں امام ہادی (ع) نے فرمایا ہے کہ :

  ' 'من ھانت علیہ نفسہ فلا تامن شرہ ' '۔

 جس کی نظر میں اپنی کوئی قدر و قیمت نہ ہو اس کے شر سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا۔

تحف العقول ،ص362

اخلاق در قرآن ، ج1 ، ص326

امام ہادی (ع) کی اس روایت کے مضمون سے اچھی طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ فضائل اخلاقی اور معنوی تکامل کی اصلی پرورش کی بنیاد خود شناسی اور معرفة النفس ہے اور جب تک انسان اس دشوار مرحلہ کو انجام نہیں دے گا ، اس وقت تک معنوی مقام تک نہیں پہنچ سکتا ، یہی وجہ ہے کہ اخلاق کے بزرگ علماء نے اس بات پر بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ اس راستہ پر گامزن ہونے والے اپنے آپ کو پہچانیں اور اس اہم مسئلے سے غافل نہ ہوں۔

اخلاق در قرآن ، ج1، ص326

 

حقیقت میں فساد اور بدکاری کو روکنے والا سب سے اہم سبب ، شخصیت یا کم از کم اپنی شخصیت کا احساس ہے ، جن لوگوں کی کوئی حیثیت ہے ، یا وہ اپنے لیے کسی شخصیت کے قائل ہیں ، چاہے دوسروں کی نظر میں ان کی کوئی شخصیت نہ ہو ،اپنی شخصیت اور حیثیت کو باقی رکھنے کیلئے بہت سے برے اور غلط کاموں سے پرہیز کرتے ہیں ، لیکن جیسے ہی ان کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ ان کی نہ کوئی عزت ہے ، نہ احترام اور کوئی شخصیت ہے ، وہ کسی کی پروا نہیں کرتے ۔ لہذا امام ہادی (ع) نے فرمایا ہے کہ ایسے افراد سے دور رہنا چاہیے۔

یکصد و پنجاہ درس زندگی (فارسی) ، ص142

خود سازی ، ' 'جہاد اکبر ' ' کو ایجاد کرنے کا وسیلہ:

آیت اللہ مکارم شیرازی ، امام ہادی (ع) کی روایت کی تفسیر میں ' 'جہاد اکبر ' ' کو بہت ہی ضروری سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ : ہم جانتے ہیں کہ ہوائے نفس جو کہ گناہوں کا اصلی سر چشمہ ہے ، سے مقابلہ کرنے کو اسلام میں ' 'جہاد اکبر ' ' کے نام سے بیان کیا ہے اور اس سے مقابلہ کرنا بہت سخت ہے لیکن اہم اور سر سخت دشمن سے مقابلہ کرنا آسان ہے کیونکہ یہ جہاد ، خود سازی کا وسیلہ ہے اور جب تک خودسازی نہ ہو ،کامیابی نہیں مل سکتی ، کیونکہ کمزوریوں کے مقابلہ میں انسان کو شکست ہوتی ہے۔

یکصد و پنجاہ درس زندگی (فارسی) ، ص143

ادیان آسمانی اور جوامع بشری میں ایک اہم مسئلہ ، قیمتی نظام ہے ۔ عالم مادہ اور عالم معنویت میں ہر چیز کی ایک قیمت ہے ، کچھ امور قیمتی اور کچھ بے قیمت ہیں اور فطری سی بات ہے کہ اگر انسان کس چیز کو کم قیمت تشخیص دے ، بہت ہی آسانی سے اس کو کھو بیٹھتا ہے اور اگر اس کو قیمتی قرار دے تو آسانی سے اس کو نہیں جانے دیتا ، مثال کے طور پر ایک قیمتی گوہر ، بچے کو دیدیا جائے تو وہ اس سے کھیلنے کا کام لے گا اور اس کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور بہت ہی آسانی سے وہ اس کو کھو دیتا ہے۔

مشکات ہدایت ، ص71

انسان کی شخصیت بھی یہی ہے ، اگر اس کی قیمت کے قائل ہو جائیں تو آسانی سے نہیں بیچ سکتے ، قرآن کریم نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے کہ :

عالم ہستی میں خداوند کی ذات کے بعد سب سے گرانقدر چیز انسان ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ تمام چیزیں اسی کے لیے خلق ہوئی ہیں :

' 'خلقت الاشیاء لاجلک و خلقتک لاجلی ' '

 میں نے تمام چیزوں کو تیرے لیے خلق کیا ہے اور میں نے تجھے اپنے لیے خلق کیا ہے۔

جواہر السنة ، ص361

 اور خدا کی بہتری مخلوق (فرشتوں) نے انسان کو سجدہ کیا ہے کہ:

  ' 'فسجد الملائکة کلھم اجمعون ' '

سورہ حجر ، آیت 30

یہاں سے انسان کی اہمیت اور قیمت واضح ہو جاتی ہے ، اس کے علاوہ تمام اشیاء انسان کے لیے مسخر ہو گئی ہیں ، یعنی وہ سب انسان کے لیے کام کرتی ہیں جو کہ انسان کے مقام و مرتبہ کو واضح کرتی ہیں۔

اب ہمیں اپنے گوہر نفس کو پہچان لینا چاہیے اور اس کو جلدی ختم ہونے والی شہوتوں اور دنیا کے بے قدر و قیمت عہدہ و مقام کے مقابلہ میں نہیں بیچنا چاہیے کیونکہ اگر ہم اپنی اہمیت کو نہیں پہچانیں گے تو اپنی شخصیت کو بیچ دیں گے اور ایسے انسان کے شر سے بچنا چائے کیونکہ وہ بہت کم پیسہ کے مقابلہ میں انسان کو قتل کر دیتا ہے کیونکہ وہ اپنی اہمیت اور قیمت کا قائل نہیں ہے۔

مشکات ہدایت ، ص 72۔73

امام ہادی (ع) کی تعلیمات میں شکر نعمت کی حقیقت:

انسانوں کے درمیان شکر نعمت ایسی چیز ہے جس کی طرف توجہ بہت کم کی جاتی ہے اسی وجہ سے آیت اللہ مکارم شیرازی نے حضرت امام علی نقی (ع) کی ایک روایت سے استناد کرتے ہوئے شکر نعمت کی اہمیت کو بیان کیا ہے کہ:

 امام ہادی (ع) فرماتے ہیں کہ :

  ' 'الشاکر اسعد بالشکر منہ بالنعمة التی اوجبت الشکر لان النعم متاع و الشکر نعم و عقبی ' '

جو شخص شکر نعمت کرتا ہے ، شکر کی وجہ سے اس کی سعادت نعمتوں سے زیادہ ہے، کیونکہ نعمتیں اس دنیا کی زندگی کا وسیلہ ہیں اور شکریہ دنیا و آخرت کا سرمایہ ہے ۔

تحف العقول ، ص362

امام ہادی (ع) کی تعلیمات میں شکر کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ :

 شکر فقط زبان سے قدر دانی کا نام نہیں ہے بلکہ قدر دانی عملی طور پر ہونی چاہیے اور ہر نعمت کو اس کی جگہ پر استعمال کرنا چاہیے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شکر نعمت کرنے سے برکتیں اور سعادتیں حاصل ہوتی ہیں جس کے مقابلہ میں نعمتیں کچھ بھی نہیں ہیں ، نعمتوں کو خداوند کی مرضی اور اس کے نیک بندوں کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے جس سے دنیا اور آخرت دونوں کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے ، انسان اگر نعمت کی طرف غور و فکر کرے تو معلوم ہو جائے گا کہ نعمت ایک مادی ہدیہ ہے لیکن شکر نعمت، نعمت سے بہتر ہے۔

یکصد و پنجاہ درس زندگی (فارسی) ، ص153

اس بناء پر قلبی، زبانی اور عملی شکر بھی شکر ہے ، اگر انسان شکر خدا بجا لائے تو جو چیز اس کے بدلے میں ملنے والی ہے وہ اس سے بھی بالا تر ہے اور افسوس کہ اس طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے۔ سب کو اس بات کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ اگر ہم خداوند کی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں تو اس کا نتیجہ ہماری ہی طرف پلٹے گا اور خداوند عالم ، انسانوں کی شکر گزاری سے بے نیاز ہے۔

آیت اللہ مکارم نے اس دعوی کے اثبات میں امام ہادی (ع) کی سیرت کو پیش کیا اور فرمایا ہے کہ :

 امام ہادی (ع) کی سوانح حیات میں ملتا ہے کھ آپ کے ایک صحابی جن کا نام ' 'ابو ہاشم جعفری ' ' تھا ، کہتا ہے کہ : میرے حالات بہت خراب تھے ،میں امام ہادی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تا کہ ان سے شکایت کروں ، میرے کچھ کہنے سے پہلے امام نے فرمایا : اے ' 'ابو ہاشم ' ' تم خدا کی کس نعمت کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہو ؟ ابو ہاشم کہتے ہیں : میں اس بات سے ناراض ہو گیا اور خاموش رہا اور میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دوں ، امام نے خود بات کو آگے بڑھایا اور فرمایا : خداوند عالم نے تجھے ایمان دیا ہے اور اس کے ذریعہ تمہارے بدن پر آتش دوزخ کو حرام قرار دیا ہے ، خداوند عالم نے تجھے سلامتی اور تندرستی دی ہے اور اپنی عبادت کرنے میں تیری مدد کی ہے ، خداوند عالم نے تجھے قناعت دی ہے تا کہ لوگوں کے سامنے تیری عزت و اہمیت باقی رہے۔

اے ابو ہاشم ! میں نے اس لیے تم سے پہلے بات شروع کی کیونکہ مجھے خیال تھا کہ تم اس کی شکایت کرنے جا رہے ہو جس نے تمہیں یہ سب نعمتیں دی ہیں اور میں نے حکم دیا ہے کہ تجھے سو دینار دئیے جائیں (اور اس کے ذریعہ اپنی مشکل کو حل کرو )

اخلاق در قرآن ، ج3 ،ص160

آپ کی یہ بزرگواری اور اچھا برتاؤ اس بات کا سبب بنی کہ وہ راضی و خشنود ہو گیا اور امام کی خدمت میں اپنی شکایت بھی بیان نہ کر سکا۔

اسی طرح آیت اللہ مکارم شیرازی نے اس زمانہ میں ناشکری کے مصداق کی شرح کرتے ہوئے خاندانوں اور معاشروں میں اس کے بعض نقصانات کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ :

مثال کے طور پر خداوند عالم کسی کو اولاد دیتا ہے لیکن وہ اس کی تربیت میں کوتاہی کرتے ہیں اور عملی طور پر خدا کی نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے اور یہ نعمت ، زحمت اور وبال میں تبدیل ہو جاتی ہے ، مثلا وہ بری عادتوں میں پڑ جاتا ہے ۔ اس کے برعکس کوئی شخص بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس پر صبر کرتا ہے اور شکر خدا بجا لاتا ہے ، اس طرح اس کی بیماری دور ہو جاتی ہے اور وہ پھر متوجہ ہوتا ہے کہ اگر صحیح و سالم ہوتا تو فلاں پروگرام میں شرکت کرتا اور اس کی وجہ سے میں نیست و نابود ہو جاتا۔

سوگندہای پر بار قرآن ، ص422،421

امام ہادی(ع) کا منحرف عقائد کے خلاف  علمی جہاد کرنا:

 

معاشرے کے ہادی و راہنما:

چونکہ رسول اللہ (ص) کے وصال کے بعد معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کی ذمہ داری آئمہ طاہرین (ع) پر عائد کی گئی ہے چنانچہ آئمہ نے اپنے اپنے عصری حالات کے پیش نظر یہ ذمہ داری بطور احسن نبہائی اور اصل و خالص محمدی اسلام کی ترویج میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ آئمہ کی ذمہ داری تھی کہ لوگوں کے عقائد کو انحرافات اور ضلالتوں سے باز رکھیں اور حقیقی اسلام کو واضح کریں چنانچہ امام علی النقی الہادی (ع) کو بھی اپنے زمانے میں مختلف قسم کے انحرافات کا سامنا کرنا پڑا اور انحرافات اور گمراہیوں کا مقابلہ کیا۔ آپ (ع) کے زمانے میں رائج انحرافات کی جڑیں گذشتہ ادوار میں پیوست تھیں جن کی بنیادیں ان لوگوں نے رکھی تھیں کہ جو یا تو انسان کو مجبور محض سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ انسان اپنے افعال میں مختار نہیں ہے اور وہ عقل کو معطل کیے ہوئے تھے اور ذاتی حسن و قبح کے منکر تھے اور کہہ رہے تھے کہ کوئی چیز بھی بذات خود اچھی یا بری نہیں ہے اور ان کا عقیدہ تھا کہ خداوند سے (معاذاللہ) اگر کوئی برا فعل بھی سر زد ہو جائے تو درست ہے اور اس فعل کو برا فعل نہیں کہا جا سکے گا۔ ان لوگوں کے ہاں جنگ جمل اور جنگ جمل کے دونوں فریق برحق تھے یا دوسری طرف سے وہ لوگ تھے جنہوں نے انسان کو مختار کل قرار دیا اور معاذ اللہ خدا کے ہاتھ باندھ لیے ہیں۔ یا وہ لوگ جنہوں نے دین کو خرافات سے بھر دیا اور امام ہادی (ع) کے دور میں یہ سارے مسائل موجود تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کو بھی ان مسائل کا سامنا تھا چنانچہ امام (ع) نے ان تمام مسائل کا مقابلہ کیا اور ہر موقع و مناسبت سے لوگوں کے عقائد کی اصلاح کا اہتمام کیا۔

جبر و تفویض:

علم عقائد میں افراط و تفریط کے نام پر دو عقائد "جبر و تفویض" مشہور ہیں کہ جو حقیقت میں باطل عقائد ہیں۔

شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا (ج 1 ص 114) میں اپنی سند سے امام علی بن موسی الرضا (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا کہ:

برید بن عمیر شامی کہتے ہیں کہ میں "مرو" میں امام رضا (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (ع) سے عرض کیا: آپ کے جد بزرگوار امام صادق (ع) سے روایت ہوئی کہ آپ (ع) نے فرمایا: نہ جبر ہے اور نہ ہی تفویض ہے بلکہ امر دو ان دو کے درمیان ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟

امام رضا (ع) نے فرمایا: جو شخص گمان کرے کہ "خدا نے ہمارے افعال انجام دیئے ہیں [یعنی ہم نے جو کیا ہے وہ در حقیقت ہم نے نہیں کیا بلکہ خدا نے کیے ہیں اور ہم مجبور ہیں] اور اب ان ہی اعمال کے نتیجے میں ہمیں عذاب کا مستحق ٹہرائے گا"، وہ جبر کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اور جس نے گمان کیا کہ خدا نے لوگوں کے امور اور رزق وغیرہ کا اختیار اپنے اولیاء اور حجتوں کے سپرد کیا ہے [جیسا کہ آج بھی بہت سوں کا عقیدہ ہے] وہ درحقیقت تفویض [خدا کے اختیارات کی سپردگی] کا قائل ہے، جو جبر کا معتقد ہوا وہ کافر ہے اور جو تفویض کا معتقد ہوا وہ مشرک ہے۔

راوی کہتا ہے میں نے پوچھا: اے فرزند رسول خدا (ص) ان دو کے درمیان کوئی تیسرا راستہ ہے؟

فرمایا: یابن رسول اللہ (ص)! "امرٌ بین الامرین" سے کیا مراد ہے؟

فرمایا: یہی کہ ایک راستہ موجود ہے جس پر چل کر انسان ان چیزوں پر عمل کرتا ہے جن کا اس کو حکم دیا گیا ہے اور ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے جن سے اس کو روکا گیا ہے۔ [یعنی انسان کو اللہ کے واجبات پر عمل کرنے اور اس کے محرمات کو ترک کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے یھی وہ تیسرا اور درمیانی راستہ ہے]۔

میں نے عرض کیا: یہ جو بندہ خداوند کے احکامات کی تعمیل کرتا ہے اور اس کی محرمات سے پرہیز کرتا ہے، اس میں خدا کی مشیت اور اس کے ارادے کا کوئی عمل دخل ہے؟

فرمایا: وہ جو طاعات اور عبادات ہیں ان کا ارادہ خداوند نے کیا ہے اور اس کی مشیت ان میں کچھ یوں ہے کہ خدا نے ہی ان کا حکم دیا ہے اور ان سے راضی اور خوشنود ہوتا ہے اور ان کی انجام دہی میں بندوں کی مدد کرتا ہے اور نافرمانیوں میں خداوند کا ارادہ اور اس کی مشیت کچھ یوں ہے کہ وہ ان اعمال سے نہی فرماتا ہے اور ان کی انجام دہی پر ناراض و ناخوشنود ہو جاتا ہے اور ان کی انجام دہی میں انسان کو تنہا چھوڑتا ھے اور اس کی مدد نہیں فرماتا۔

جبر و تفویض کا مسئلہ اور امام ہادی (ع):

شہر اہواز [جو آج ایران کے جنوبی صوبے خوزستان کا دار الحکومت ہے] کے عوام نے امام ہادی (ع) کے نام ایک خط میں اپنے لیے در پیش مسائل کے سلسلے میں سوالات پوچھے جن میں جبر اور تفویض اور دین پر لوگوں کے درمیان اختلافات کی خبر دی اور چارہ کار کی درخواست کی۔

امام ہادی (ع) نے اہواز کے عوام کے خط کا تفصیلی جواب دیا جو ابن شعبہ حرانی نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔

امام (ع) نے اس خط کی ابتداء میں مقدمے کی حیثیت سے مختلف موضوعات بیان کیے ہیں اور خط کے ضمن میں ایک بنیادی مسئلہ بیان کیا ہے جو ثقلین (قرآن و اہل بیت) سے تمسک ہے جس کو امام (ع) نے مفصل انداز سے بیان کیا ہے۔ اور اس کے بعد آیات الہی اور احادیث نبوی سے استناد کر کے حضرت امیر المؤمنین (ع) کی ولایت اور عظمت و مقام رفیع کا اثبات کیا ہے۔

تحف العقول، ابن شعبہ حرّانی، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، صص339 ـ 338

شاید یہاں یہ سوال اٹھے کہ "اس تمہید اور جبر و تفویض کی بحث کے درمیان کیا تعلق ہے ؟"، چنانچہ امام (ع) وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ہم نے یہ مقدمہ اور یہ امور تمہید میں ان مسائل کے ثبوت اور دلیل کے طور پر بیان کیے جو کہ جبر و تفویض کا مسئلہ اور ان دو کا درمیانی امر ہے۔

تحف العقول ، ص340.

شاید امام ہادی (ع) نے یہ تمہید رکھ کر جبر و تفویض کے مسئلے کو بنیادی طور حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ اگر لوگ ثقلین کا دامن تھامیں اور اس سلسلے میں رسول اللہ الاعظم (ص) کے احکامات پر عمل کریں تو مسلمانان عالم کسی بھی صورت میں گمراہ نہ ہونگے اور انتشار کا شکار نہ ہونگے اور کبھی منحرف نہ ہونگے۔

امام ہادی (ع) اس تمہید کے بعد موضوع کی طرف آتے ہیں اور امام صادق (ع) کے قول شریف:

 " لا جَبْرَ وَ لا تَفْویضَ و لكِنْ مَنْزِلَةٌ بَيْنَ الْمَنْزِلَتَيْن "

انسان نہ مجبور ہے نہ ہی اللہ نے اپنے اختیارات اس کو سونپ دیئے ہیں بلکہ امر ان دو کے درمیان ہے یا درمیانی رائے درست ہے۔

تحف العقول.

 کا حوالہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:

"اِنَّ الصّادِقَ سُئِلَ هلْ اَجْبَرَ اللّه الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی؟ فَقالَ الصّادِقُ علیه‏السلام هوَ اَعْدَلُ مِنْ ذلِكَ۔ فَقیلَ لَهُ: فَهلْ فَوَّضَ اِلَيْهمْ؟ فَقالَ علیھ‏السلام : هوَ اَعَزُّ وَاَقْهَرُ لَهمْ مِنْ ذلِكَ"؛

امام صادق (ع) سے پوچھا گیا کہ کیا خدا نے انسان کو نافرمانی اور معصیت پر مجبور کیا ہے؟

امام (ع) نے جواب دیا: خداوند اس سے کھیں زیادہ عادل ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔

تحف العقول.

پوچھا گیا: کیا خداوند متعال نے انسان کو اس کے حال پر چھوڑ رکھا ہے اور اختیار اسی کے سپرد کیا ہے؟

فرمایا: خداوند اس سے کہیں زیادہ قوی، عزیز اور مسلط ہے کہ ایسا عمل انجام دے۔

امام ہادی (ع) مزید فرماتے ہیں: مروی ہے کہ امام صادق (ع) نے فرمایا:

"النّاسُ فِی القَدَرِ عَلی ثَلاثَةِ اَوْجُهٍ: رَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ الاْمْرَ مُفَوَّضٌ اِلَيْهِ فَقَدْ وَهنَ اللّه‏َ فی سُلْطانِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه جَلَّ و عَزَّ اَجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی وَكَلَّفَهمْ ما لا يُطیقُون فَقَدْ ظَلَمَ اللّه‏ فی حُكْمِهِ فَهوَ هالِكٌ وَرَجُلٌ يَزْعَمُ اَنَّ اللّه‏ كَلَّفَ الْعِبادَ ما يُطیقُونَ وَلَمْ يُكَلِّفْهُمْ مالا يُطیقُونَ فَاِذا أَحْسَنَ حَمَدَ اللّه‏ وَاِذا أساءَ اِسْتَغْفَرَ اللّه؛ فَهذا مُسْلِمٌ بالِغٌ"۔

لوگ "قَدَر" پر اعتقاد کے حوالے سے تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں:

1- کچھ کا خیال ہے کہ تمام امور و معاملات انسان کو تفویض کیے گئے ہیں، ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے تسلط میں سست گردانا ہے، چنانچہ یہ گروہ ہلاکت اور نابودی سے دوچار ہو گیا ہے۔

2- کچھ لوگ وہ ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسانوں کو گناہوں اور نافرمانی پر مجبور کرتا ہے اور ان پر ایسے افعال اور امور واجب قرار دیتا ہے جن کی وہ طاقت نہیں رکھتے! ان لوگوں نے خداوند متعال کو اس کے احکام میں ظالم اور ستمگر قرار دیا ہے چنانچہ اس عقیدے کے پیروکار بھی ہلاک ہونے والوں میں سے ہیں۔

3- تیسرا گروہ وہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ خداوند متعال انسان کی طاقت و اہلیت کی بنیاد پر انہیں حکم دیتا ہے اور ان کی طاقت کے دائرے سے باہر ان پر کوئی چیز واجب نہیں کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اگر نیک کام انجام دیں تو اللہ کا شکر انجام دیتے ہیں اور اگر برا عمل انجام دیں تو مغفرت طلب کرتے ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی اسلام کو پا چکے ہیں۔

تحف العقول ص 371.

اس کے بعد امام ہادی (ع) مزید وضاحت کے ساتھ جبر و تفویض کے مسئلے کو بیان کرتے ہیں اور ان کے بطلان کو ثابت کرتے ہیں۔

فرماتے ہیں کہ:

"اَمّا الْجَبْرُ الَّذی يَلْزَمُ مَنْ دانَ بِهِ الْخَطَأَ فَهُوَ قَوْلُ مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّه‏ جَلَّ وَ عَزَّ أجْبَرَ الْعِبادَ عَلَی الْمَعاصی و عاقَبَهُمْ عَلَيْها وَ مَنْ قالَ بِهذَا الْقَوْلِ فَقَدْ ظَلَمَ اللّه فی حُكْمِهِ وَ كَذَّبَهُ وَ رَدَّ عَليْهِ قَوْلَهُ:

 «وَ لا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدا»    کھف/49.

وَ قَوْلَهُ «ذلكَ بِما قَدَّمَتْ يَداكَ وَ اَنَّ اللّه لَيْسَ بِظَلاّمٍ لِلْعَبید"۔ حج/10.

تحف العقول ص 461.

ترجمہ: جہاں تک جبر کا تعلق ہے ـ جس کا ارتکاب کرنے والا غلطی پر ہے ـ پس یہ اس شخص کا قول و عقیدہ ہے جو گمان کرتا ہے کہ خداوند متعال نے بندوں کو گناہ اور معصیت پر مجبور کیا ہے لیکن اسی حال میں ان کو ان ہی گناہوں اور معصیتوں کے بدلے سزا دے گا!، جس شخص کا عقیدہ یہ ہو گا اس نے اللہ تعالی کو اس کے حکم و حکومت میں ظلم کی نسبت دی ہے اور اس کو جھٹلایا ہے اور اس نے خدا کے کلام کو رد کردیا ہے جہاں ارشاد فرماتا ہے "تیرا پرورد‏گار کسی پر بھی ظلم نھیں کرتا"، نیز فرماتا ہے: "یہ ( عذاب آخرت ) اُسکی بناء پر ہے جو کچھ تُمہارے اپنے دو ہاتھوں نے آگے بھیجا ، اور بے شک اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے"۔

امام (ع) تفویض کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

"وَ اَمَّا التَّفْویضُ الَّذی اَبْطَلَهُ الصّادِقُ علیه ‏السلام وَ اَخْطَأَ مَنْ دانَ بِهِ وَ تَقَلَّدَه فَهوَ قَوْلُ الْقائِلِ: إنَّ اللّه جَلَّ ذِكْرُه فَوَّضَ إِلَی الْعِبادِ اخْتِیارَ أَمْرِه وَ نَهْيِهِ وَ أَهمَلَهمْ"؛

ترجمہ: اور جہاں تک تفویض کا تعلق ہے ـ کس کو امام صادق (ع) نے باطل کر دیا ہے اور اس کا معتقد غلطی پر ہے ـ خداوند متعال نے امر و نہی [اور امور و معاملات کے پورے انتظام] کو بندوں کے سپرد کیا ہے اور اس عقیدے کے حامل افراد کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔

تحف العقول ص 463.

فرماتے ہیں کہ:

"فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللّه‏ تَعالی فَوَّضَ اَمْرَه وَ نَهيَهُ إلی عِبادِهِ فَقَدْ أَثْبَتَ عَلَيْهِ الْعَجْزَ وَ أَوْجَبَ عَلَيْهِ قَبُولَ كُلِّ ما عَملُوا مِنْ خَيْرٍ وَ شَرٍّ وَ أَبْطَلَ أَمْرَ اللّه‏ وَ نَهْيَهُ وَ وَعْدَه وَ وَعیدَه، لِعِلَّةِ ما زَعَمَ اَنَّ اللّه‏ فَوَّضَها اِلَيْهِ لاِنَّ الْمُفَوَّضَ اِلَيْهِ يَعْمَلُ بِمَشیئَتِه، فَاِنْ شاءَ الْکفْرَ أَوِ الاْیمانَ کانَ غَيْرَ مَرْدُودٍ عَلَيْهِ وَ لاَ مَحْظُورٍ۔۔۔"

ترجمہ: پس جس نے گمان کیا کہ خدا نے امر و نہی [اور معاشرے کے انتظامات] کا کام مکمل طور پر اپنے بندوں کے سپرد کیا ہے اور ان لوگوں نے گویا خدا کو عاجز اور بے بس قرار دیا ہے اور انھوں نے [اپنے تئیں اتنا اختیار دیا ہے] کہ اپنے ہر اچھے اور برے عمل کو قبولیت کو اللہ پر واجب قرار دیا ہے! اور اللہ کے امر و نہی اور وعدہ و وعید کو جھٹلا کر باطل قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس کا وہم یہ ہے کہ خداوند متعال نے یہ تمام امور ان ہی کے سپرد کیے گئے ہیں اور جس کو تمام امور سپرد کیے جاتے ہیں وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ پس خواہ وہ کفر کو اختیار کرے خواہ ایمان کا راستہ اپنائے، اس پر کوئی رد ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی رکاوٹ ہے۔

تحف العقول ص 464.

امام ہادی (ع) یہ دونوں افراطی اور تفریطی نظریات کو باطل کرنے کے بعد قول حق اور صحیح نظریہ پیش کرتے ہیں جو "امرٌ بین الأمرین" سے عبارت ہے، فرماتے ہیں کہ:

"لكِنْ نَقُولُ: إِنَّ اللّه‏ جَلَّ وَ عَزَّ خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِه و مَلَّكَهُمْ اِسْتِطاعَةَ تَعَبُّدِهمْ بِها، فَاَمَرَهمْ وَ نَهاهُمْ بِما اَرادَ، فَقَبِلَ مِنْهُمُ اتِّباعَ أَمْرِه وَ رَضِىَ بِذلِكَ لَهمْ، وَ نَهاهمْ عَنْ مَعْصِيَتِهِ وَ ذَمّ مَنْ عَصاه وَ عاقَبَهُ عَلَيْها"؛

ترجمہ: لیکن ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ: خداوند عزّ و جلّ نے انسان کو اپنی قوت سے خلق فرمایا اور ان کو اپنی پرستش اور بندگی کی اہلیت عطا فرمائی اور جن امور کے بارے میں چاہا انہیں حکم دیا یا روک دیا۔ پس اس نے اپنے اوامر کی پیروی کو اپنے بندوں سے قبول فرمایا اور اس [بندوں کی طاعت و عبادت اور فرمانبرداری] پر راضی اور خوشنود ہوا اور ان کو اپنی نافرمانی سے روک لیا اور جو بھی اس کی نافرمانی کا مرتکب ہوا اس کی ملامت کی اور نافرمانی کے بموجب سزا دی۔

تحف العقول ص 465۔

امام علی النقی الہادی ع اور غلات (نصیریوں) کا مسئلہ:

ہر دین و مذہب اور ہر فرقے اور قوم میں ایسے افراد پائے جا سکتے ہیں جو بعض دینی تعلیمات یا اصولوں میں مبالغہ آرائی سے کام لیں یا بعض دینی شخصیات کے سلسلے میں غلو کا شکار ہوتے ہیں اور حد سے تجاوز کرتے ہیں۔ برادر مکاتب میں میں صحابیوں کی عمومی تنزیہ اور ان سب کو عادل سمجھنا اور بعض صحابہ کو رسول اللہ (ص) پر فوقیت دینا یا صحابہ کی شخصیت اور افعال کا دفاع کرنے کے لیے قرآن و سنت تک کی مرضی سے تأویل و تفسیر کرتے ہیں اور اگر صحاح سے رجوع کیا جائے تو ایسی حدیثوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو ان ہی مقاصد کے لیے وضع کی گئی ہیں۔

لیکن یہ بیماری دوسرے ادیان و مکاتب تک محدود نہیں ہے بلکہ پیروان اہل بیت (ع) یا شیعہ کہلانے والوں میں بہت سے افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ حضرت امیر المؤمنین (ع) کے زمانے سے جاری رہا اور ہمیشہ ایک گروہ یا چند افراد ایسے ضرور تھے جو آئمہ اہل بیت (ع) کی نسبت غلو کا شکار تھے اور غالیانہ انحراف میں مبتلا تھے۔

غالیوں کے یہ گروہ حضرات معصومین (ع) کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کر کے ان کے سلسلے میں غلو آمیز آراء قائم کرتے تھے اور بعض تو آئمہ معصومین کو معاذ اللہ الوہیت تک کا درجہ دیتے ہیں چنانچہ غلو کی بیماری امام ہادی (ع) کے زمانے میں نئی نہیں تھی بلکہ غلو بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند ایک تاریخی پس منظر کا حامل تھا۔

غلو کے مرض سے دوچار لوگ رسول اللہ ص کے وصال کے بعد ہر دور میں نظر آ رہے ہیں۔ حتی کہ امام سجاد (ع) کے زمانے میں بھی یہ لوگ حاضر تھے اور شیعیان اہل بیت (ع) کے لیے اعتقادی مسائل پیدا کر رہے تھے۔

نہ غالی ہم سے ہیں اور نہ ہمارا غالیوں سے کوئی تعلق ہے:

 امام علی بن الحسین زین العابدین (ع) غالیوں سے یوں برائت ظاہر کرتے ہیں کہ:

"إنَّ قَوْما مِنْ شیعَتِنا سَيُحِبُّونا حَتّی يَقُولُوا فینا ما قالَتِ الْيَهودُ فی عُزَيْرٍ وَ قالَتِ النَّصاری فی عیسَی ابْنِ مَرْيَمَ؛ فَلا همْ مِنّا وَ لا نَحْنُ مِنْهمْ"۔

ترجمہ: ہمارے بعض دوست ہم سے اسی طرح محبت اور دوستی کا اظھار کریں گے جس طرح کہ یھودی عزیر (ع) کے بارے میں اور نصرانی عیسی (ع) کے بارے میں اظہار عقیدت کرتے ہیں نہ تو یہ لوگ (غالی) ہم سے ہیں اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے۔

اختیار معرفة الرجال، طوسی، تصحیح و تعلیق حسن مصطفوی، ص102

امام سجاد (ع) کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ (ع) اپنے عصری تقاضوں کے مطابق اس قسم کے انحرافات کا مقابلہ کرتے تھے اور اس قسم کے تفکرات کے سامنے مضبوط اور فیصلہ کن موقف اپناتے تھے اور ممکنہ حد تک انہیں تشیع کو بدنام نہیں کرنے دیتے تھے۔

امام سجاد (ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ:

"أَحِبُّونا حُبَّ الاْسْلامِ فَوَ اللّه‏ ما زالَ بِنا ما تَقُولُونَ حَتّی بَغَّضْتُمُونا إلَی النّاسِ"۔

ترجمہ: ہم سے اسی طرح محبت کرو جس طرح کا اسلام نے تمہیں حکم دیا ہے؛ پس خدا کی قسم! جو کچھ تم [غالی اور نصیری] ہمارے بارے میں کہتے ہو اس کے ذریعے لوگوں کو ہماری دشمنی پر آمادہ کرتے ہو۔

الطبقات الکبری، ابن سعد، دار صادر، ج5، ص214.

 امام سجاد (ع) سے تاریخ دمشق میں بھی ایک روایت نقل ہوئی ہے جو کچھ یوں ہے کہ:

 أحبونا حب الإسلام و لا تحبونا حب الأصنام ! فما زال بنا حبکم حتی صار علینا شیناً )!

 ترجمہ: ہم سے اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی بنیاد پر محبت کرو اور ہم سے بت پرستوں کی مانند محبت نہ کرو کیونکہ تمہاری اس حد تک بڑھ گئی کہ ہمارے لیے شرم کا باعث ہو گئی۔ [یہاں بھی غلو اور محبت میں حد سے تجاوز کرنے کی مذمت مقصود ہے]۔

تاریخ دمشق:ج41ص392

یہاں اس بات کی یاد آوری کرانا ضروری ہے کہ غلو آمیز تفکر مختلف صورتوں میں نمودار ہو سکتا ہے۔ مرحوم مجلسی بحار الانوار میں لکھتے ہیں: "نبی (ص) اور آئمہ طاہرین (ع) کے بارے میں غلو کا معیار یہ ہے کہ کوئی شخص:

٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام آئمہ (ع) کی الوہیت [اور ربوبیت] کا قائل ہو جائے۔

٭ نبی (ص) یا کسی امام یا تمام آئمہ (ع) کو اللہ کا شریک قرار دے، کہ مثلاً ان کی عبادت کی جائے یا روزی رسانی میں انہیں اللہ کا شریک قرا دے یا کہا جائے کہ خداوند متعال آئمہ رسول اللہ (ص) یا آئمہ کی ذات میں حلول کر گیا ہے، یا وہ شخص:

٭ اس بات کا قائل ہو جائے کہ رسول اللہ (ص) خدا کی وحی یا الھام کے بغیر ہی علم غیب کے حامل ہیں،

٭ یا یہ کہ دعوی کیا جائے کہ آئمہ وہی انبیاء ہی ہیں ؟

٭ یا کہا جائے کہ بعض آئمہ کی روح بعض دوسرے آئمہ میں حلول کر چکی ہے۔

٭ یا کہا جائے کہ رسول اللہ (ص) اور آئمہ (ع) کی معرفت و پہچان انسان کو ہر قسم کی عبادت اور بندگی سے بے نیاز کر دیتی ہے اور اگر کوئی ان کی معرفت حاصل کرے تو ان پر کوئی عمل واجب نہ ہو گا اور نہ ہی محرمات اور گناہوں سے بچنے اور پرہیز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

بحار الانوار، ج25، ص346

جیسا کہ آپ نے دیکھا ان امور میں سے کسی ایک کا قائل ہونا غلو کے زمرے میں آتا ہے اور جو ان امور کا قائل ہو جائے اس کو غالی بھی کہتے ہیں اور بعض لوگ انھیں نصیری بھی کہتے ہیں۔

علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ جو غلو کی ان قسموں میں کسی ایک کا قائل ہو گا وہ کافر اور ملحد ہے اور دین سے خارج ہو چکا ہے۔ جیسا کہ عقلی دلائل، آیات مذکورہ روایات وغیرہ بھی اس بات کا ثبوت ہیں۔

بحار الانوار، ج25، ص346

امام علی النقی الھادی (ع) کے زمانے میں غالی سرگرم تھے اور اس زمانے میں ان کے سرغنے بڑے فعال تھے جو اس گمراہ اور گمراہ کن گروپ کی قیادت کر رہے تھے چنانچہ امام (ع) نے اس کے سامنے خاموشی روا نہ رکھی اور مضبوط اور واضح و فیصلہ کن انداز سے ان کی مخالفت کی اور ان کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس منحرف غالی گروہ کے سرغنے: علی بن حسکہ قمی، قاسم یقطینی، حسن بن محمد بن بابای قمی، محمد بن نُصیر فہری اور فارِس بن حاکم تھے۔

پیشوایی، سیرہ پیشوایان، ص603.

احمد بن محمد بن عیسی اور ابراہیم بن شیبہ، امام ہادی (ع) کے نام الگ الگ مراسلے روانہ کرتے ہیں اور اس زمانے میں غلات کے عقائد اور رویوں و تفکرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان کے بعض عقائد بیان کرتے ہیں اور اپنے زمانے کے دو بدنام غالیوں علی بن حسکہ اور قاسم یقطینی کی شکایت کرتے ہیں اور امام (ع) واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہیں کہ:

"لَيْسَ هذا دینُنا فَاعْتَزِلْهُ"

ترجمہ: یہ ہمارا دین نہیں ہے چنانچہ اس سے دوری اختیار کرو۔

اختیار معرفة الرجال (رجال کشی)، صص518 ـ 516.

اور ایک مقام پر امام سجاد، امام باقر اور امام صادق (ع) کی مانند غالیوں پر لعنت بھیجی ہے:

محمد بن عیسی کہتے ہیں کہ امام ہادی (ع) نے ایک مراسلے کے ضمن میں میرے لیے لکھا ہے کہ:

"لَعَنَ اللّه الْقاسِمَ الْيَقْطینی وَ لَعَنَ اللّه‏ عَلِىَّ بْنَ حَسْكَةِ الْقُمىّ، اِنَّ شَيْطانا تَرائی لِلْقاسِمِ فَيُوحی اِلَيْهِ زُخْرُفَ الْقَولِ غُرُورا"

ترجمہ: اللہ تعالی قاسم یقطینی اور علی بن حسکہ قمی پر لعنت کرے۔ ایک شیطان قاسم الیقطینی کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور باطل اقوال اقوال کو خوبصورت ظاہری صورت میں اس کو القاء کرتا ہے اور اس کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کو دھوکا دیتا ہے۔

رجال کشی ، ص518

نصر بن صبّاح کہتے ہیں کہ: حسن بن محمد المعروف ابن بابائے قمی، محمد بن نصیر نمیری اور فارس بن حاتم قزوینی پر امام حسن عسکری (ع) نے لعنت بھیجی ہے۔

رجال کشی ، ص520.

ہم تک پہنچنے والی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ غلو اور دوسرے انحرافات کے خلاف کہ امام ہادی (ع) کی جدوجہد اظہار برائت اور لعن و طعن سے کہیں بڑھ کر تھی اور آپ (ع) نے بعض غالیوں کے قتل کا حکم جاری فرمایا ہے۔

محمد بن عیسی کہتے ہیں کہ:

"إنَّ اَبَا الحَسَنِ العَسْكَرِی علیه السلام أمَر بِقَتلِ فارِسِ بْنِ حاتم القَزْوینىّ وَ ضَمِنَ لِمَنْ قَتَلَهُ الجَنَّةَ فَقَتَلَهُ جُنَيْدٌ"

ترجمہ: امام ہادی ع نے فارس بن حاتم قزوینی کے قتل کا حکم دیا اور اس شخص کے لیے جنت کی ضمانت دی جو اس کے قتل کرے گا چنانچہ جنید نامی شخص نے اس کو ہلاک کر دیا۔

رجال کشی ، ص524.

تجسیم اور تشبیہ:

بعض فرقے آج بھی خدا کے لیے جسم اور شبیہ کے قائل تھے اور بعض آج بھی ایسے ہی ہیں۔ سعودی عرب میں بادشاہی نظام ہے جس پر آل سعود مسلط ہے اور مذہبی رنگ وہابیت کو دیا گیا ہے اور یہ در حقیقت وہابیت اور آل سعود کے درمیان بہت پرانے معاہدے کا نتیجہ ہے اور اگر ایک طرف سے حکومت بعض خدمات حجاج کرام کو پیش کرتی ہے تو دوسری طرف سے وہابیت کے نمائندے حجاج کی بے حرمتیاں کر کے لوگوں کے دلوں کو نفرت سے بھر کر بلاد الحرمین سے رخصت کر دیتی۔ وہابیت اتنی سختگیریوں اور لوگوں کو متنفر کرنے کے باوجود ان کو وہابیت کی دعوت بھی دیتی ہے جو وہابیت کے عجائب میں سے ہے۔ کیونکہ دنیا کے تمام مذاہب حتی کہ غیر اسلام مکاتب میں تبلیغ کے لیے محبت کے پھول نچھاور کیے جاتے ہیں لیکن یہاں نفرت کے کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور پھر تبلیغ کی جرأت بھی کی جاتی ہے، جو باعث حیرت ہے!!!

وہابی اسلام کے پیروکار تجسیم کی بظاہر مخالفت کرتے ہیں لیکن باطن میں وہ تجسیم کے قائل ہیں اور ان کا خدا دنیا کے آسمانوں میں اتر کر بیٹھتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ اگر وہ دنیا کے آسمان پن اترا کر آیا ہے تو دوسرے آسمانوں کا کیا بنے گا اور زمینوں کا کیا بنے گا کیونکہ اس وقت تو دوسری جگہوں میں خدا نہیں ہے نا۔ معاذ اللہ۔

بہر حال تجسیم کا یہ عقیدہ ابتدائے اسلام سے تھا۔ یہ عقیدہ بھی دوسرے انحرافی عقائد کی مانند موجود تھا حتی کسی وقت یہ عقیدہ شیعیان آل محمد (ص) میں بھی رسوخ کر گیا تھا۔ اہل تشیع میں یہ عقیدہ نمودار ہوا تھا کہ خداوند متعال جسمانیت کا حامل ہے یا یہ کہ خدا کو دیکھا جا سکتا ہے یا نہیں ؟

ظاہر ہے کہ شیعہ عقائد مدینۃ العلم (رسول اللہ) اور باب مدینۃ العلم (امیرالمؤمنین) اور ان کے فرزندوں کے شفاف علمی سر چشمے سے منسلک ہونے کے باعث ہمیشہ انحرافات سے دور رہتے تھے اور ہمیشہ اسلام اور پیروان اہل بیت (ع) کے لیے باعث فخر و اعتزاز تھے لیکن کبھی بعض عوامل کی بنا پر ـ جن کا جائزہ لینے کے لیے ایک مستقل اور مفصل تحقیق کی ضرورت ہے ـ بعض عقائد نے پیروان آل محمد (ص) میں بھی رسوخ کیا ہے جو تشیع کے اوپر تھمت و بہتان کی بنیاد بن گئے ہیں حالانکہ ان کا تشیع سے کوئی تعلق نھیں ہے اور وہ دوسرے مکاتب سے تشیع میں نہیں بلکہ تشیع کے بعض پیروکاروں میں در آمد ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہمارے آئمہ معصومین ع اور آئمہ (ع) کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے اکابرین نے ان انحرفات کے خلاف قیام کیا ہے اور تشیع کے مبارک چہرے سے ہر قسم کی دھول دھوتے چلے آئے ہیں۔

یہ سطحی اور درآمد شدہ انحرافات ہی اس بات کا سبب بنے ہیں کہ ہمارے علماء بیٹھ کر اس سلسلے میں عظیم علمی کاوشیں خلق کریں۔ مرحوم شیخ صدوق اپنی کتاب "التوحید" کو اس لیے لکھنا شروع کیا کہ بعض مخالفین تشیع پر نہایت ناروا اور بہت شدید قسم کے الزمات لگا رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ شیعہ تشبیہ اور جبر کے قائل ہیں چنانچہ میں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تشیع جبر و تشبیہ کا قائل ہو! اور میں نے اللہ کا نام لیا اور قربت الہی کی نیت سے اس کتاب کو تالیف کر دیا جس کا نام ہے " جو تشبیہ اور جبر و تفویض کی نفی میں لکھی گئی ہے۔

رجال کشی ، صص18 ـ 17.

چنانچہ یہ مسئلہ اتنا غیر اہم نہ تھا کہ آئمہ اس کو نظر انداز کرتے کیونکہ اس طرح کے عقائد در حقیقت توحید کے بنیادی اصول سے متصادم ہیں۔

صقر بن ابی دلف امام ہادی (ع) سے توحید کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں اور امام ہادی (ع) اس کا جواب دیتے ہیں کہ:

"إنَّهُ لَیسَ مِنّا مَنْ زَعَمَ أنَّ اللّه‏ عَزَّ وَ جَلَّ جِسْمٌ وَ نَحْنُ مِنْهُ بَراءٌ فِی الدُّنْیا وَ الاْخِرَةِ، يَابْنَ [أبی] دُلَفِ إنَّ الْجِسْمَ مُحْدَثٌ و اللّه مُحدِثُهُ وَ مُجَسِّمُهُ"

ترجمہ: جو شخص گمان کرے کہ خداوند متعال جسم ہے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم دنیا اور آخرت میں ان سے بیزار ہیں۔ اے ابی دلف کے فرزند! جسم مخلوق ہے اور وجود میں لایا گیا ہے اور اللہ تعالی خالق ہے اور جسم کو معرض وجود میں لانے والا۔

بحار الانوار جلد 3 ص 291.

نیز سہل بن ابراہیم بن محمد ہمدانی سے نقل کرتے ہیں کہ: میں نے امام ہادی (ع) کے لیے لکھا کہ آپ کے محبین توحید میں اختلاف سے دوچار ہو گئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ خداوند متعال جسم ہے اور بعض دوسرے کہتے ہیں کہ خداوند متعال صورت ہے۔

امام (ع) نے اپنے دست مبارک سے لکھا:

"سُبْحانَ مَنْ لاَ يُحَدُّ وَ لا يُوصَفُ، لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَی‏ءٌ و هوَ السَّمیعُ الْعَلیم"

ترجمہ: پاک و منزہ ہے وہ جس کو محدود نہیں کیا جا سکتا اور [اشیاء کی مانند] اس کی حدیں معین نہیں کی جا سکتیں، کوئی شیئ بھی اس کی مانند نہیں وہ بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ دیکھنے والا ہے۔

اصول کافی جلد 1 ص: 136 روایة: 5

کیا خدا کو دیکھا جا سکتا ہے؟

بعض لوگوں کے کلام سے نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ گویا ان کا عقیدہ تھا کہ خداوند متعال کو دیکھا جا سکتا ہے اور انسان اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ سکتا ہے۔

آئمہ طاہرین (ع) نے اس قسم کی سوچ کا بھی مقابلہ کیا۔

امام صادق (ع) سے مروی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

"جاءَ حِبْرٌ إلی أمیرِ الْمُؤْمِنینَ علیہ السلام فَقالَ: یا أَمیرَ الُؤْمِنینَ هلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ حینَ عَبَدْتَهُ ؟ فَقالَ وَيْلَكَ ما كُنْتُ اَعْبُدُ رَبّا لَمْ اَرَه۔ قالَ: وَ كَيْفَ رَأَيْتَهُ ؟ قالَ وَيْلَكَ لاَ تُدْرِكُهُ الْعُيُونُ فی مُشاهِدَةِ الاْبْصارِ وَ لكِنْ رَأَتْهُ الْقُلُوبُ بِحَقائِقِ الاْیمانِ"۔

ترجمہ: ایک حبر (یھودی عالم) امیر المؤمنین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: کیا آپ نے عبادت کے وقت خدا کو دیکھا ہے؟

امیر المؤمنین (ع) : وائے ہو تم پر! میں نے ایسے خدا کی عبادت نہیں کی ہے جس کو میں نے دیکھا نہ ہو۔

حبر: آپ نے خدا کو کس طرح دیکھا ہے ؟ (خدا کو دیکھنے کی کیفیت کیا تھی)۔

امیر المؤمنین (ع) : وائے ہو تم پر آنکھیں دیکھتے وقت اور نظر ڈالتے وقت اس کا ادراک نہیں کر سکتیں لیکن دل (قلوب) حقیقت ایمان کی مدد سے اس کا ادراک کرتے ہیں۔

توحید، شیخ صدوق ص109، ح6.

احمد بن اسحق نے امام ہادی (ع) کے لیے خط لکھا اور آپ (ع) سے اللہ کی رؤیت کے بارے میں پوچھا اور اس سلسلے میں لوگوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کی طرف اشارہ کیا تو حضرت امام ہادی (ع) نے جواب میں تحریر فرمایا کہ:

"لا یجوز الرؤیة ما لم یکن بین و المرئی هواء ینفذه البصر، فإذا انقطع الهواء و عدم الضیاء بین الرائی و المرئی لم تصح الرؤیة و کان فی ذلک الاشتباه لان الرائی متی ساوی المرئی فی السبب الموجب بینهما فی الرؤیة وجب الاشتباه و کان فی ذلک التشبیه، لان الاسباب لابد من اتصالها بالمسببات"۔

ترجمہ: رؤیت (دیکھنا) ممکن نہیں ہے جب تک دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان ہوا اور فضا نہ ہو ایسی ہوا جس میں انسان کی نظریں نفوذ کریں اور جب تک دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان روشنی نہ ہو تو دیکھنے کا عمل انجام نہیں پاتا [اور پھر دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کو ایک ایسے مقام پر متعین ہونا چاہیے جہاں وہ جگہ گھریں تا کہ دیکھنے کا عمل انجام پا سکے اور اگر دونوں ایک مقام پر جگہ گھریں تو دونوں ایک دوسرے کی مانند اور دونوں محدود ہونگے اور] اور اس عمل میں اشتباہ اور شباہت کا واقع ہونا لازم آئے گا کیونکہ جب دیکھنے والا سبب یعنی وسیلۂ رؤیت کے حوالے سے برابر ہونگے تو اس بھی اشتباہ اور شباہت کا واقع ہونا لازم آئے گا اور اسی میں تشیبہ ہے کیونکہ اسباب کے لیے مسببات کے ساتھ متصل ہونا ضروری ہے۔

التوحید ص109، ح7.

اصول کافی جلد 1 ص 30 ؛حدیث 5

یہاں امام ہادی (ع) کے کلام شریف کا ماحصل ـ حق تعالی کی رؤیت کے امتناع کو ثابت کرنے کے لیے ـ قیاس استنثنائی ہے اور یوں کھ "اگر حق تعالی قابل رؤیت ہوں تو خدا اور رائی (دیکھنے والے) کے درمیان ہوا اور روشنی ہو گی کیونکہ ہوا اور روشنی رؤیت کے وسائل و شرائط ہیں پس رؤیت ان وسائل اور شرائط کے بغیر ممکن نہیں ہے جس طرح کہ یہ دوسرے وسا‏ئل اور شرائط کے بغیر بھی نا ممکن ہے اور اس کے سوا رؤیت باطل ہے چنانچہ اللہ تعالی کی رؤیت کا نظریہ نا ممکن ہے کیونکہ اس میں تشابہ لازم آتا ہے دیکھنے والے اور دیکھے جانے والے کے درمیان یعنی یہ کہ وہ دونوں مرئی (اور قابل رؤیت) ہیں اور دونوں رؤیت کا اسباب و وسائل میں ایک دوسرے کے برابر ہیں کہ وہ دونوں جگہ گھریں اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے والی سمتوں میں ہوں اور ان کے درمیان ہوا اور روشنی ہو چنانچہ اس لحاظ سے ایک جسم رکھنے والے رائی اور اللہ تعالی کے درمیان تشابہ لازم آئے گا اور اللہ تعالی کے لیے جگہ گھرنے کا تصور لازم لائے گآ اور اللہ تعالی پاک و منزہ اور برتر و بالاتر ہے ان اوصاف سے۔ اور ہاں یہ کہنا بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کو اس سبب کے بغیر دیکھا جا سکتا ہے۔

خداوند کی عظمت و معرفت:

"إلهی تاهتْ اَوْهامُ الْمُتَوَهمینَ وَ قَصُرَ طُرَفُ الطّارِفینَ وَ تَلاشَتْ اَوْصافُ الْواصِفینَ وَاضْمَحَلَّتْ اَقاویلُ الْمُبْطِلینَ عَنِ الدَّرَكِ لِعَجیبِ شَأْنِكَ أَوِ الْوُقُوعِ بِالْبُلُوغِ اِلی عُلُوِّكَ، فَاَنْتَ فىِ الْمَکانِ الَّذی لا يَتَناهی وَ لَمْ تَقَعْ عَلَيْكَ عُيُونٌ بِاِشارَةٍ وَ لا عِبارَةٍ هيْهاتَ ثُمَّ هَيْهاتَ یا اَوَّلىُّ، یا وَحدانىُّ، یا فَرْدانِىُّ، شَمَخْتَ فِی الْعُلُوِّ بِعِزِّ الْكِبْرِ، وَ ارْتَفَعْتَ مِنْ وَراءِ كُلِّ غَوْرَةٍ وَ نَهايَةٍ بِجَبَرُوتِ الْفَخْرِ"؛

ترجمہ: پروردگارا ! توہم کا شکار لوگوں کے گماں بھٹک گئے ہیں اور دیکھنے والوں کی نظروں کا عروج [تیرے اوصاف] تک نہیں پہنچ سکا ہے، اور توصیف کرنے والوں کی زبان عاجز ہو چکی ہے اور مبطلین [حق کو باطل کرنے کے لیے کوشاں لوگوں] کے دعوے نیست و نابود ہو گئے ہیں کیونکہ تیرا جاہ و جلال اور تیری شان و شوکت اس سے کہیں بالا تر ہے کہ انسانی عقل اس کا تصور کر سکے۔

التوحید ، ص66، ح19.

تو جہاں ہے اس کی کوئی انتھا نہیں ہے اور کوئی آنکھ تیری طرف اشارہ نہیں کر سکتی اور تجھ کو نہیں پا سکتی اور کسی عبارت میں تیری توصیف کی اہلیت و توانائی نہیں ہے، کس قدر بعید ہے کس قدر بعید ہے [حواس انسانی کے ذریعے تیرا ادراک] اے پورے عالم وجود کا سر چشمہ ! ای واحد و یکتا ! تو اپنی عزت اور کبریائی کے لباس میں ہر قوت سے بالا تر اور ماوراء تر ہے اور ہر متفکر و مفکر کی زد سے برتر و بالاتر ہے۔

ترجمہ از کتاب زندگانی امام علی الھادی ع ، باقر شریف قرشی، دفتر انتشارات اسلامی، ص112۔

امام ہادی (ع) کا آلام و مصائب برداشت کرنا:

معتصم کے بعد واثق نے بھی آپ کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ مگر متوکل کا تخت سلطنت پر بیٹھنا تھا کہ امام علی نقی (ع) پر تکالیف کا سیلاب امڈ آیا، یہ واثق کا بھائی او معتصم کا بیٹا تھا اور آلِ رسول کی دشمنی میں اپنے تمام آباؤ اجداد سے بڑھا ہوا تھا۔

اس سولہ برس میں جب سے امام علی نقی (ع) منصب امامت پر فائز ہوئے تھے آپ کی شہرت تمام مملکت میں پھیل چکی تھی اور تعلیمات اہل بیت ع کے پروانے اس شمع ہدایت کے برابر چکر لگا رہے تھے۔ ابھی متوکل کی سلطنت کو چار برس ہی ہوئے تھے کہ مدینے کے حاکم عبد الله بن حاکم نے امام سے مخالفت کا آغاز کیا۔ پہلے تو خود حضرت کو مختلف طرح کی تکلیفیں پہنچائیں پھر متوکل کو آپ کے متعلق اسی طرح کی باتیں لکھیں جیسی سابق سلاطین کے پاس آپ کے بزرگوں کی نسبت ان کے دشمنوں کی طرف سے پہنچائی جاتی تھیں . مثلاً یہ کہ حضرت (ع) اپنے گرد و پیش اسباب سلطنت جمع کر رہے ہیں . آپ کے ماننے والے اتنی تعداد میں بڑھ گئے ہیں کہ آپ جب چاہیں حکومت کے مقابلہ کے لیے کھڑے ھو سکتے ہیں- حضرت کو اس تحریرکی بر وقت اطلاع ہو گئی اور آپ نے اتمام حجت کے طور پر اسی کے ساتھ متوکل کے پاس اپنی جانب سے ایک خط تحریر فرما دیا جس میں حاکم مدینہ کی اپنے ساتھ ذاتی مخالفت کا تذکرہ اور اس کی غلط بیانیوں کا اظھار فرمایا تھا- متوکل نے از راہ سیاست امام علی نقی ع کے خط کو وقعت دیتے ہوئے مدینہ کے اس حاکم کو معزول کر دیا مگر ایک فوجی رسالے کو یحیٰی بن ہرثمہ کی قیادت میں بھیج کر حضرت  سے بظاہر دوستانہ انداز میں باصرار یہ خواہش کی کہ آپ مدینہ سے دار السلطنت سامرا تشریف لا کر کچھ دن قیام فرمائیں اور پھر واپس مدینہ تشریف لے جائیں۔
امام (ع) اس التجا کی حقیقت سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے یہ نیاز مندانہ دعوت تشریف آوری حقیقت میں جلا وطنی کا حکم ہے مگر انکار سے کوئی حاصل نہ تھا- جب کہ انکار کے بعد اسی طلبی کے انداز کا دوسری شکل اختیار کر لینا یقینی تھا- اور اس کے بعد روانگی ناگزیر تھی- بے شک مدینہ سے ہمیشہ کے لیے جدا ہونا آپ کے قلب کے لیے ویسا ہی تکلیف دہ صدمہ تھا جسے اس کے پہلے حضرت امام حسین (ع) ، امام موسی کاظم (ع) ، امام رضا (ع) اور امام محمد تقی (ع) آپ کے مقدس اور بلند مرتبہ اجداد برداشت کر چکے تھے- وہ اب آپ کے لیے ایک میراث بن چکا تھا- پھر بھی دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ مدینہ سے روانگی کے وقت آپ کے تاثرات اتنے شدید تھے جس سے احباب و اصحاب میں ایک کھرام برپا تھا-
متوکل کا عریضہ بارگاہ امام (ع) میں بڑے اخلاص اور اشتیاق قدم بوسی کا مظھر تھا- جو فوجی دستھ بھیجا گیا تھا وہ بظاہر سواری کے تزک و احتشام اور امام ع کی حفاظت کا ایک سامان تھا مگر جب حضرت سامرا میں پہنچ گئے اور متوکل کو اس کی اطلاع دی گئی تو اس کا پہلا ہی افسوسناک رویہ یہ تھا کہ بجائے امام (ع) کے استقبال یا کم از کم اپنے یہاں بلا کر ملاقات کرنے کے اس نے حکم دیا کہ حضرت کو خاف الصعالیک میں اتارا جائے۔ اس لفظ کے معنی ہی ہیں کہ بھیک مانگنے والے گدا گروں کی سرائے ، اس سے جگہ کی نوعیت کا پورے طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ شہر سے دور ویرانے میں ایک کھنڈر تھا- جہاں امام ع کو فروکش ہونے پر مجبور کیا گیا-
اگرچہ یہ مقدس حضرات خود فقراء کے ساتھ ہم نشینی کو اپنے لیے ننگ و عار نہیں سمجھتے تھے اور تکلفات ظاہری سے کنارہ کش رہتے تھے مگر متوکل کی نیت تو اس طرز عمل سے بہر حال تحقیر کے سوا اور کوئی نہیں تھی- تین دن تک حضرت کا قیام یہاں رہا- اس کے بعد متوکل نے آپ کو رزاقی کی حراست میں نظر بند کر دیا اور عوام کے لیے آپ سے ملنے جلنے کو ممنوع قرار دیا وہی بے گناہی اور حقانیت کی کشش جو امام موسی کاظم (ع) کی قید کے زمانہ میں سخت سے سخت محافظین کو کچھ دن کے بعد آپ کی رعایت پر مجبور کر دیتی تھی اسی کا اثر تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ بعد رزاقی کے دل پر امام علی نقی (ع) کی عظمت کا سکھ قائم ہو گیا اور وہ آپ کو تکلیف دینے کے بجائے آرام و راحت کے سامان بہم پہنچانے لگا مگر یہ بات زیادہ عرصہ تک متوکل سے چھپ نہیں سکتی تھی- اسے علم ہو گیا اور اس نے رزاقی کی قید سے نکل کر حضرت ع کو ایک دوسرے شخص سعید کی حراست میں دے دیا-
یہ شخص بے رحم اور امام (ع) کے ساتھ سختی برتنے والا تھا- اسی لیے اس کے تبادلے کی ضرورت نہیں پڑی اور حضرت پورے بارہ برس اس کی نگرانی میں مقید رہے- ان تکالیف کے ساتھ جو اس قید میں تھے حضرت (ع) شب و روز عبادت الہی میں بسر کرتے تھے- دن بھر روزہ رکھنا اور رات بھر نمازیں پڑہنا آپکا معمول تھا- آپ کا جسم کتنے ہی قید و بند میں رکھا گیا ہو مگر آپ کا ذکر چار دیواری میں محصور نہیں کیا جا سکتا تھا- نتیجہ یہ تھا کہ آپ تو تنگ و تاریک کوٹھڑی میں مقید تھے مگر آپ کا چرچہ سامرا بلکہ شاید عراق کے ہر گھر میں تھا اور اس بلند سیرت و کردار کے انسان کو قید رکھنے پر خلق خدا میں متوکل کے مظالم سے نفرت برابر پھیلتی جا رہی تھی-
اب وہ وقت آیا کہ فتح بن خاقان آلِ رسول سے محبت رکھنے کے باوجود صرف اپنی قابلیت اپنے تدبر اور اپنی دماغی و عملی صلاحیتوں کی بنا پر متوکل کا وزیر ہو گیا، تو اس کے کہنے سننے سے متوکل نے امام علی نقی ع کی قید کو نظر بندی سے تبدیل کر دیا اور آپ کو ایک مکان دے کر مکان تعمیر کرنے اور اپنے ذاتی مکان میں سکونت کی اجازت دے دی مگر اس شرط سے کہ آپ سامرا سے باہر نہ جائیں اور سعید آپ کی نقل وحرکت اور مراسلات و تعلقات کی نگرانی کرتا رہے گا.
اس دور میں بھی امام (ع) کا استغنائے نفس دیکھنے کے قابل تھا۔ دار السلطنت میں مستقل طور پر قیام کے باوجود نہ کبھی متوکل کے سامنے کوئی درخواست پیش کی نہ کبھی کسی قسم کے ترحم یا تکریم کی خواہش ۔ کی وہی عبادت و ریاضت کی زندگی جو قید کے عالم میں تھی۔ اس نظر بندی کے دور میں بھی رہی۔ جو کچھ تبدیلی ہوئی تھی وہ ظالم کے رویّہ میں تھی۔ مظلوم کی شان جیسے پہلے تھی، ویسی ہی اب بھی قائم رہی۔ اس زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ امام کو بالکل آرام و سکون کی زندگی بسر کرنے دی جاتی.
مختلف طرح کی تکالیف سے آپ کے مکان کی تلاشی لی گئی کہ وہاں اسلحہ ہیں یا ایسے خطوط ہیں جن سے حکومت کی مخالفت کا ثبوت ملتا ہے حالانکہ ایسی کوئی چیز ملی نہیں مگر یہ تلاشی ہی ایک بلند اور بے گناہ انسان کے لیے کتنی باعث تکلیف چیز ہے اس سے بڑھ کر یہ واقعہ کہ دربار شاہی میں عین اس وقت آپ کی طلبی ہوتی ہے جب کہ شراب کے دور چل رہے ہیں۔ متوکل اور تمام حاضرین دربار طرب و نشاط میں غرق ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ سر کش، بے غیرت اور جاہل بادشاہ حضرت ع کے سامنے جامِ شراب بڑھا کر پینے کی درخواست کرتا ہے .
شریعت اسلام کے محافظ معصوم کو اس سے جو تکلیف پہنچ سکتی ہے وہ تیر و خنجر سے یقیناً زیادہ ہے مگر حضرت نے نھایت متانت اور صبر و سکون کے ساتھ فرمایا کہ: مجھے اس سے معاف کرو، میرا اور میرے آباؤ اجداد کا خون اور گوشت اس سے کبھی مخلوط نہیں ہوا ہے۔
اگر متوکل کے احساسات میں کچھ بھی زندگی باقی ہوتی تو وہ اس معصومانہ مگر پر شکوہ جواب کا اثر لیتا مگر اس نے کہا کہ اچھا یہ نہیں تو کچھ گانا ہی ہم کو سنائیے۔ حضرت نے فرمایا کہ میں اس فن سے بھی واقف نہیں ہوں۔ آٓخر اس نے کہا کہ آپ کو کچھ اشعار جس طریقے سے بھی آپ چاہیں بہر حال پڑھنا ضرور پڑھیں گے۔
کوئی جذبات کی رو میں بہنے والا انسان ہوتا تو اس خفیف الحرکات بادشاہ کے اس حقارت انگیز یا تمسخر آمیز برتاؤ سے متاثر ہو کر شاید اپنا دماغی توازن کو کھو دیتا مگر وہ کوہ حلم و وقار، امام کی ہستی تھی جو اپنے کردار کو فرائض کی مطابقت سے تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ دار تھی، منہیات کے دائرہ سے نکل کر جب فرمائش اشعار سنانے تک پہنچی تو امام ع نے موعظہ و تبلیغ کے لیے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اپنے دل سے نکلی ہوئی پرُ صداقت آواز سے ایسے اشعار پڑھنا شروع کیے کہ جنھوں نے محفل طرب میں مجلس وعظ کی شکل پیدا کر دی۔
اشعار کچھ ایسے حقیقی تاثرات کے ساتھ امام (ع) کی زبان سے ادا ہوئے تھے کہ متوکل کے عیش و نشاط کی بساط الٹ گئی۔
شراب کے پیالے ہاتھوں سے چھوٹ گئے اور تمام مجمع زار و قطار رونے لگا۔ یہاں تک کہ خود متوکل دہاڑہیں مار مار کر بے اختیار رو رہا تھا۔ جوں ہی یہ گریہ و زاری اور رونا موقوف ہوا اس نے امام (ع) کو رخصت کر دیا اور آپ اپنے مکان پر تشریف لے گئے۔
ایک اور نہایت شدید روحانی تکلیف جو امام (ع) کو اس دور میں پہنچی وہ متوکل کے احکام تشدّد تھے جو نجف اور کربلا کے زائرین کے خلاف اس نے جاری کیے۔ اس نے یہ حکم تمام قلم رو حکومت میں جاری کر دیا کہ کوئی شخص جناب امیر (ع) اور امام حسین (ع) کے روضوں کی زیارت کو نہ جائے۔ جو بھی اس حکم کی مخالفت کرے گا اس کا خون حلال سمجھا جائے گا-
اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے حکم دیا کہ نجف اور کربلا کی عمارتیں بالکل گرا کر زمین کے برابر کر دی جائیں تمام مقبرے کھود ڈالے جائیں اور قبر امام حسین (ع) کے گرد و پیش کی تمام زمین پر کھیت بو دیئے جائیں۔ یہ ناممکن تھا کہ زیارت کے امتناعی احکام پر اہل بیت رسول کے جان نثار آسانی کے ساتھ عمل کرنے کے لیے تیار ہو جاتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس سلسلہ میں ہزاروں بے گناہوں کی لاشیں خاک و خون میں تڑپتی ہوئی نظر آئیں۔ کیا اس میں شک ہے کہ ان میں سے ہر ایک مقتول کا صدمہ امام (ع) کے دل پر اتنا ہی ہوا تھا جتنا کسی اپنے ایک عزیز کے بے گناہ کے قتل کیے جانے کا حضرت (ع) کو ہو سکتا تھا۔
پھر آپ تشدّد کے ایک ایسے ماحول میں قید کر کے رکھے گئے تھے کہ آپ وقت کی مناسبت کے لحاظ سے ان لوگوں تک کچھ مخصوص ہدایات بھی نہیں پہنچا سکتے تھے جو ان کے لیے صحیح فرائض شرعیہ کے ذیل میں اس وقت ضروری ہوں۔ یہ اندوہناک صورتِ حال ایک دو برس نہیں بلکہ متوکل کی زندگی کے آخری وقت تک برابر قائم رہی۔
علاوہ از ایں متوکل کے دربار میں حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب (ع) کی نقلیں کی جاتی تھی اور ان پر خود متوکل اور تمام اہل دربار میں زور زور سے ہنستے تھے اور مذاق اڑاتے تھے۔
یہ ایسا اہانت آمیز منظر تھا کہ ایک مرتبہ خود متوکل کے بیٹے سے رہا نہ گیا۔ اس نے متوکل سے کہا کہ خیر آپ اپنی زبان سے حضرت علی (ع) کے بارے میں کچھ الفاظ استعمال کریں مگر جب آپ اپنے کو ان کا عزیز قرار دیتے ہیں تو ان کم بختوں کی زبان سے حضرت علی (ع) کے خلاف ایسی باتوں کو کیونکر گوارا کرتے ہیں اس پر بجائے کچھ اثر لینے کے متوکل نے اپنے بیٹے کا فحش آمیز تمسخر کیا اور دو شعر نظم کر کے گانے والوں کو دئیے جس میں خود اس کے فرزند کے لیے مادرانہ گالی موجود تھی۔ گویّے ان شعروں کو گاتے تھے اور متوکل قہقے لگاتا تھا۔
اسی دور کا ایک واقعہ بھی کچھ کم قابل افسوس نھیں ہے ۔ ابن السکیت بغدادی علم نحو و لغت کے امام مانے جاتے تھے اور متوکل نے اپنے دو بیٹوں کی تعلیم کے لیے انھیں مقرر کیا تھا۔ ایک دن متوکل نے ان سے پوچھا کہ تمھیں میرے ان دونوں بیٹوں سے زیادہ محبت ہے یا حسن و حسین سے ؟ ابن السکیت محبت اہل بیت (ع) رکھتے تھے۔ اس سوال کو سن کر بیتاب ہو گئے اور انھوں نے متوکل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے دھڑک کہہ دیا کہ حسن و حسین (ع) کا کیا ذکر، مجھے تو علی کے غلام قنبر کے ساتھ ان دونوں سے کہیں زیادہ محبت ہے۔ اس جواب کا سننا تھا کہ متوکل غصّے سے بیخود ہو گیا اور حکم دیا کہ ابن السکیت کی زبان گدی سے کہینچ لی جائے۔ یہی ہوا اور اس طرح یہ آل رسول کے فدائی درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
ان واقعات کا براہ راست جسمانی طور پر حضرت امام علی نقی (ع) سے تو نہ تھا مگر بخدا ان کی ہر ہر بات ایک تلوار کی دہار تھی جو گلے پر نہیں دل پر چلا کرتی تھی۔ متوکل کا ظالمانہ رویّہ ایسا تھا جس سے کوئی بھی دور یا نزدیک کا شخص اس سے خوش یا مطمئن نہیں تھا۔ حد یہ ہے کہ اس کی اولاد تک اس کی جانی دشمن ہو گئی تھی، چنانچہ اسی کے بیٹے منتصر نے اس کے بڑے مخصوص غلام باغر رومی کو ملا کر خود متوکل ہی کی تلوار سے عین اس کی خواب گاہ میں اس کو قتل کرا دیا۔ جس کے بعد خلائق کو اس ظالم انسان سے نجات ملی اور منتصر کی خلافت کا اعلان ہو گیا۔
منتصر نے تخت حکومت پر بیٹھتے ہی اپنے باپ کے متشدانہ احکام کو فوری منسوخ کر دیا۔ نجف اور کربلا زیارت کے لیے عام اجازت دے دی اور ان مقدس روضوں کی کسی حد تک تعمیر کرا دی۔ امام علی نقی (ع) کے ساتھ بھی اس نے کسی خاص تشدد کا مظاہرہ نہیں کیا مگر منتصر کی عمر طولانی نہیں ہوئی۔ وہ چھ مہینوں کے بعد دنیا سے اٹھ گیا منتصر کے بعد مستعین کی طرف سے امام ع کے خلاف کسی خاص بدسلوکی کا برتاؤ نظر نہیں آتا۔
امام (ع) نے چونکہ مکان بنا کر مستقل قیام اختیار فرما لیا تھا اس لیے یا تو خود آپ ہی نے مناسب نہ سمجھا یا پھر ان بادشاہوں کی طرف سے آپ کے مدینہ واپس جانے کو پسند نہیں کیا گیا ہو گا۔ بہر حال جو بھی وجہ ہو آپ قیام کا سامرا ہی میں رہا۔ اتنے عرصے تک حکومت کی طرف سے مزاحمت نہ ہونے کی وجھ سے علوم اہلبیت (ع) کے طلب گار ذرا اطمینان کے ساتھ کثیر تعداد میں آپ سے استفادہ کے لیے جمع ہونے لگے جس کی وجہ سے مستعین کے بعد معتز کو پھر آپ سے پر خاش پیدا ہوئی اور اس نے آپ کی زندگی ہی کا خاتمہ کر دیا۔ آخر کار 3 رجب اور دوسری روایت کے مطابق 25 جمادی الثانی سن 254 ہجری کو معتز عباسی خلیفہ نے اپنے بھائی معتمد عباسی کے ہاتھوں زہر دے کر آپ کو شہید کر دیا۔

یا اَبا الحَسَنِ یا عَلِیَّ بنَ مُحَمَّدٍ اَیُّهَا الهادیِ النِّقِیُّ یَابنَ رَسوُلِ اللّهِ یا حُجَّةَ اللّهِ عَلی خَلقِهِ یا سَیِدَنا وَ مَولانا اِنا تَوَجَّهنا وَستَشفَعنا وَ تَوَسَّلنا بِکَ اِلیَ اللّهِ وَ قَدَّمناکَ بَینَ یَدَی حاجاتِنا یا وَجیهاً عِندَ اللّهِ اِشفَع لَنا عِندَ اللّه.....

التماس دعا.....

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی