2024 March 28
خلیفہ اول کے حکم سے مخالف مسلمانوں کا قتل :
مندرجات: ٢١٦٣ تاریخ اشاعت: ١٥ December ٢٠٢١ - ١٩:١٤ مشاہدات: 3380
وھابی فتنہ » پبلک
خلیفہ اول کے حکم سے مخالف مسلمانوں کا قتل :

 

خلیفہ اول  کے حکم سے  مخالف مسلمانوں کا قتل :

«لَمَّا تُوُفِّيَ رسول اللَّهِ وكان أبو بَكْرٍ رضي الله عنه وَكَفَرَ من كَفَرَ من الْعَرَبِ فقال عُمَرُ رضي الله عنه كَيْفَ تُقَاتِلُ الناس وقد قال رسول اللَّهِ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ الناس حتى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إلا الله فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إلا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ على اللَّهِ فقال والله لَأُقَاتِلَنَّ من فَرَّقَ بين الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ فإن الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ والله لو مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إلى رسول اللَّهِ لَقَاتَلْتُهُمْ على مَنْعِهَا»

صحیح البخاری،چاپ دارالفکر، ج۱، ص۳۳۲- حدیث ۱۳۹۹و۱۴۰۰/ كِتَاب الزَّكَاةِ – باب وجوب الزکاه.

ابوھریرہ سے نقل ہے  جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنایا گیا اور عرب والے کافر ہوئے تو ابوبکر نے ان سے لڑنا چاہا تو عمر نے ابوبکر سے کہا کہ آپ لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کریں گے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں پس جو شخص اقرار کر لے کہ لا الہٰ الا اللہ تو میری طرف سے اس کا مال اور اس کی جان محفوظ ہے۔ البتہ کسی حق کے بدل ہو تو وہ اور بات ہے مثلاً کسی کا خون کرے، اب اس کے باقی اعمال کا حساب اللہ کے حوالے ہے لیکن ابوبکر نے کہا کہ واللہ! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، واللہ! اگر وہ مجھے ایک رسی [یا بکری کا بچہ ] بھی دینے سے رکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کو دیتے تھے تو میں ان سے ان کے انکار پر بھی جنگ کروں گا۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔

 

دقت کریں :

یہاں خلیفہ دوم کے نذدیک مانعین زکات مسلمان تھے۔

کیف تُقَاتِلُ الناس وقد قال رسول اللَّهِ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ الناس حتى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إلا الله ۔۔۔۔۔۔۔

 

یہ لوگ نماز پڑھتے تھے ۔

جیساکہ خلیفہ اول کے اس جملے میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے «والله لَأُقَاتِلَنَّ من فَرَّقَ بين الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ»

یہ لوگ ابوبکر کو زکات دینا نہیں چاہتے تھے ، زکات کا منکر نہیں تھے ۔«والله لو مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إلى رسول اللَّهِ لَقَاتَلْتُهُمْ على مَنْعِهَا»

جیساکہ بن کثیر دمشقی سلفی (متوفی 774) لکھتا ہے :

«وجعلت وفود العرب تقدم المدينة يقرون بالصلاة ويمتنعون من أداء الزكاة ومنهم من امتنع من دفعها إلى الصديق وذكر أن منهم من احتج بقوله تعالى (خذ من أموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها وصل عليهم إن صلاتك سكن لهم) قالوا فلسنا ندفع زكاتنا الا إلى من صلاته سكن لنا»

البداية والنهاية، اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء، دار النشر: مكتبة المعارف – بيروت؛ ج 6، ص 311

دقت کریں :

«يقرون بالصلاة»  یعنی نماز پرھتے تھے ،

  «ويمتنعون من أداء الزكاة» زکات کے منکر نہیں تھے ، زکات اداﺀ کرنا نہیں چاہتے تھے، یعنی کسی طرح زکات اداﺀ کرنے سے چھوٹ حاصل کرنے کی چکر میں تھے۔

ایک گروہ ابوبکر کو زکات نہیں دینا چاہتے تھے . «ومنهم من امتنع من دفعها إلى الصديق» جیساکہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق خلیفہ اول نے اپنے کو زکات نہ دینے والوں سے جنگ کا اعلان کیا تھا ۔

بعض ابوبکر کو زکات نہ دینے کے لئے قرآن سے استدلال کرتے تھے ۔

«وذكر أن منهم من احتج بقوله تعالى (خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيهِمْ بِها وَ صَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَ اللَّهُ سَميعٌ عَليم‏)سوره توبه (9): آیه 103

یہ لوگ کہتے تھے کہ ہم صدقہ اسے دیں گے جس کے درود ہمارے لئے سکون کا باعث ہو ۔

نوٹ :

 بحث اس میں نہیں ہے کہ مرتد ہونے والوں سے جنگ کرنا اور ان کا قتل جائز ہے یا نہیں ۔۔۔ وہ تو سب کا اتفاقی مسئلہ ہے ۔۔

بحث مسلمانوں سے جنگ اور مانعین زکات کے قتل کے فتوا کا ہے ۔

 

کیاخلیفہ کا یہ حکم قرآن اور سنت کے واضح طور پر خلاف تھا ؟

  قرآن میں ارشاد ہوتا ہے :

(يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِذا ضَرَبْتُمْ في‏ سَبيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَ لا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقى‏ إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِنا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَياةِ الدُّنْيا)

اے ایمان والو! جب تم راہ خدا میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تمہیں سلام کرئے [اپنے کو مسلمان کہے ] اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو، تم دنیاوی مفاد کے طالب ہو، جب کہ اللہ کے پاس غنیمتیں بہت ہیں، پہلے خود تم بھی تو ایسی حالت میں مبتلا تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا، لہٰذا تحقیق سے کام لو، یقینا اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

سوره نساء (4): آیه 94

جیساکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث میں بھی یہی حکم موجود ہے

«أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ الناس حتى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إلا الله»

«فإذا قَالُوهَا وَصَلَّوْا صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا وَذَبَحُوا ذَبِيحَتَنَا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ»فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ «إلا بِحَقِّهَا»

انس بن مالک سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے ساتھ جنگ کروں یہاں تک کہ وہ «لا إله إلا الله» کہیں۔ پس جب وہ اس کا اقرار کر لیں اور ہماری طرح نماز پڑھنے لگیں اور ہمارے قبلہ کی طرف نماز میں منہ کریں اور ہمارے ذبیحہ کو کھانے لگیں تو ان کا خون اور ان کے اموال ہم پر حرام ہو گئے۔ مگر کسی حق کے بدلے اور (باطن میںان کا حساب اللہ پر رہے گا۔

الجامع الصحيح ، دار النشر: دار ابن كثير اليمامة - بيروت - 1407 - 1987، الطبعة: الثالثة، تحقيق: د. مصطفى ديب البغا؛ ج1، ص 153، ح 385

 قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہماری طرح قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ہے۔ پس تم اللہ کے ساتھ اس کی دی ہوئی پناہ میں خیانت نہ کرو۔

الجامع الصحيح ، دار النشر: دار ابن كثير اليمامة - بيروت - 1407 - 1987، الطبعة: الثالثة، تحقيق: د. مصطفى ديب البغا؛ ج1، ص 153، ح 385

 

لہذا چند  بنیادی سوالات :

کیا جناب ابوبکر کو اللہ اور اللہ کے رسول [ص] نے خلیفہ بنایا تھا کہ ان کی مخالفت اور انہیں زکات نہ دینے والے سے جنگ کرنا جائز ہو ؟

کیا مسلمان نمازی اور اہل قبلہ اگر حاکم کو زکات دینے سے انکار کرئے تو اس کی سزا قتل ہوگا ؟

  کیا خلیفہ اول نے اپنے مخالفین کے ساتھ اتنا سخت رویہ اپنایا اور انہیں رسمی طور پر خلیفہ    تسلیم نہ کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم دیا ؟

اگر خلیفہ نے اپنے مخالفین کو اس طرح سے اپنی خلافت ماننےپر مجبور کیا ہو تو کیا یہ اس کو امت کا اجماع کہا جائے گا ؟

کیا اہل سنت کے علماﺀ نے سب کو اصحاب ردہ اور مرتد کا عنوان دئے کر اس تاریخی حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی ہے  ؟

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات