2024 March 28
مردوں کو صدا دینا اور دعا و حاجت کی درخواست
مندرجات: ١٩٢٤ تاریخ اشاعت: ١٨ October ٢٠٢١ - ١٦:٥٢ مشاہدات: 3154
یاداشتیں » پبلک
مردوں کو صدا دینا اور دعا و حاجت کی درخواست

مردوں کو صدا دینا اور دعا و حاجت کی درخواست

(تحریر  رستمی نژاد ۔۔ ترجمہ سید محمد میثم زیدی )

اعتراض: ۔

 

توسل کرنے والے مردوں کوصدا دیتے ہیں اور ان سے دعا  کی درخواست کرتے ہیں جبکہ قرآن واضح کہتا ہے کہ تمہاری آواز مردوں تک نہیں پہنچتی، قرآن فرماتا ہے:

إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى‏ وَ لا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ ، آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں نہ ہی بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہیں ۔[1]

ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

" من يأتي إلى قبر نبي أو صالح .. يسأله حاجته مثل أن يسأله أن يزيل مرضه أو مرض دوابه أو يقضي دينه أو …. ونحو ذلك مما لا يقدر عليه إلا الله عز و جل فهذا شرك صريح يجب أن يستتاب صاحبه فإن تاب وإلا قتل.

 اگر کوئی کسی نبی یا فرد صالح کی قبر پر حاضری دے اور اس سے حاجت طلب کرے مثلا اس سے بیماری کی شفا مانگے یا قرض ادا ہونے کی دعا مانگے نیز اسی طرح کے دوسرے حوائج جن کو صرف خدا پورا کرسکتا ہے، شرک ہے ایسے شخص کو چاہیے کہ توبہ کرے، اگر توبہ کرے تو بہت بہتر ورنہ اسے قتل کردیا جائے۔[2]

محمد بن عبدالوہاب بھی نیک افراد سے دعا مانگنے کے بارے میں لکھتے ہیں:

و ھذا جائز فی الدنیا و الاخرۃ  و ان ذلک ان تاتی عند رجل صالح  حیّ یجالسک و یسمع کلامک فتقول لہ:ادع اللہ لی کما کان اصحاب رسول اللہ یسالونہ ذلک فی حیاتہ  و اما بعد موتہ  فحاشا و کلاّ انھم سالوہ ذلک عند قبرہ.

  دنیوی اور اخروی زندی میں شخص، صالح انسان کے پاس جاکراس سے دعا کی درخواست کرسکتے ہیں جیسا کہ پیغمبر کے اصحاب ان کی زندگی میں کرتے تھے لیکن ان کی وفات کے بعد ان کی قبر پر ہرگز اس طرح نہیں کیا۔[3]

تحیل اور جائزہ

اس اعتراض میں چند نکتے قابل ملاحظہ ہیں:

پہلا نکتہ:

کسی بھی کام کو شرک نہیں کہہ سکتے مگر یہ کہ معیار شرک اس کام میں موجود ہو، جیسا کہ معیار شرک قرآنی آیات اور عقل کے مطابق واسطوں کو مستقل جاننا ہے اگر کوئی صالح شخص  سے حاجت طلب کرتا ہے اس عقیدے کے ساتھ کہ وہ شخص براہ راست خود ہی اس کام کو انجام دے سکتا ہے تو یہ عقیدہ مشرکانہ عقیدہ ہے، لیکن اگر یہ عقیدہ نہ رکھتا ہو تو شرک سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی پیغمبر کی قبر کے کنارے آپ کو اس کام کے انجام میں مستقل جانے بغیر ان سے کوئی دعا مانگ لے تو شرک سے اس کا کیا تعلق ہوگا؟

·         جس طرح وہابی خیال کرتے ہیں کہ پیغمبر کی وفات کے بعد ان سے دعا مانگنا شرک ہے اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اس میں معیار شرک موجود ہے اور نہ ہی کسی آیت یا روایت میں اسے شرک کہا گیا ہے۔

دوسرا نکتہ:

اگر اس عمل کو شرک کہنے کی دلیل یہ ہو کہ پیغمبر  موت کے بعدکسی کی آواز سن نہیں  سکتے اوراگر سن بھی لے تو حاجت روائی نہیں کر سکتے تو ان کا جواب یہ ہے کہ اس صورت  حال میں پیغمبر سے دعاا ور حاجت کی درخواست بے ہودہ کام ہوگا نہ  کہ شرک ۔

ہم واضح طور پرکہہ سکتے ہیں کہ کسی ایسے شخص سے دعا کی درخواست جو سن نہیں سکتا یا انجام دے نہیں پاتا  ہے تو  اس کام میں معیارعقلی یا غیر عقلی ہونا ہے  لہذاتوحید و شرک کے معیار کو نہیں دیکھا جائےگا۔مثال کے طور پر وہ شخص جو کنویں کی گہرائی میں گر گیا ہو اگر کنویں کی دیوار اور پتھروں سے مدد مانگے توعقل کہتی ہے کہ یہ بے ہودہ کام ہے کونکہ پتھر اور مٹی سے مدد کی کیا توقع۔ یہاں یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ مشرک ہے۔لہذا بالفرض اگروفات کے بعد پیغمبر نہ سن سکتے ہیں نہ ہی کسی کام کو انجام دے سکتے ہیں لہذا آپ سے دعا کی درخواست کرنا بے ہودہ کام ہے شرک نہیں ہے۔

تیسرا نکتہ:

قرآنی تصور کائنات کے مطابق موت، دنیوی زندگی کا اختتام ہے لیکن انسانی زندگی ابھی جاری ہے موت ایک پل ہے دوسری بڑی دنیا میں جانے کا۔ موت کو نابودی کے برابر سمجھنا مادہ پرست لوگوں کا عقیدہ ہے جو انسان کو صرف مادی سمجھتے ہیں اور اس کی زندگی کو مادہ میں منحصر مانتے ہیں۔ لیکن سارے ادیان انسان کے جسم کے علاوہ اس کے لیے روح کے قائل ہیں جو کچھ عرصہ جسم کے ساتھ رہتی ہے اور مرنے کے بعد جسم سے الگ ہوکر عالم برزخ میں رہتی ہے جو کچھ انسان درک کرتا ہے سنتا ہے دیکھتا ہے اور انسانی حقیقت کو تشکیل دیتی ہے وہ روح ہے۔ وہابیوں کا   اس بات پراصرار کہ روح نہیں سنتی، یہ قرآن کے خلاف ہے۔ برزخی حیات کا اعتقاد تمام ادیان کا مشترکہ اصول ہے۔ قرآن نے مُردوں کے درک و شعور یہاں تک کہ  تکلم، روزی کھانا، ان کی خوشی اور غم کے بارے میں بتایا ہے۔ لیکن یہاں پہنچتے ہی وہابیت تمام نصوص سے چشم پوشی کرتے ہیں۔قرآن شہداء کے بارے میں فرماتا ہے:

وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلُوا في‏ سَبيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُون، اور جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں قطعاً انہیں مردہ نہ سمجھوبلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔[4]

 پھر فرماتا ہے:

فَرِحِينَ بِمَا ءَاتَئهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَ يَسْتَبْشرُِونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بهِِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيهِْمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُون، اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ انہیں دیا ہے اس پر وہ خوش ہیں اور جو لوگ ابھی ان کے پیچھے ان سے نہیں جا ملے ان کے بارے میں بھی خوش ہیں کہ انہیں (قیامت کے روز) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے[5]

مزید فرماتا ہے: * يَسْتَبْشرِونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَ فَضْلٍ وَ أَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِين، وہ اللہ کی عطا کردہ نعمت اور اس کے فضل پر خوش ہیں اور اس بات پربھی کہ اللہ مومنوں کا اجرضائع نہیں کرتا[6]

ان آیات میں عالم برزخ میں موجود شہدا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روزی کھاتے ہیں خود  پر اور اپنے ان دوستوں پر جو ابھی ان سے ملحق نہیں ہوئے ،  فضل خدا سے خوش ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہل دنیا کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

قرآن مؤمن آل یاسین کے بارے فرماتا ہے جب انہیں شہید کیا گیا: قِيلَ ادْخُلِ الجْنَّةَ  قَالَ يَالَيْتَ قَوْمِى يَعْلَمُونَ، بِمَا غَفَرَ لىِ رَبىّ‏ وَ جَعَلَنىِ مِنَ الْمُكْرَمِين، اس سے کہدیاگیا: جنت میں داخل ہو جاؤ، اس نے کہا: کاش! میری قوم کو اس بات کا علم ہو جاتا، کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا ہے۔[7]

اس آیت میں جنت سے مراد وہی برزخی جنت ہے قیامت والی بہشت نہیں ہے کیونکہ اس کا وقت ابھی نہیں آن پہنچا۔

قرآن میں اور بھی آیات ہیں جو برزخی زندگی کو ثابت کرتیں ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ جب شہدا عالم برزخ میں اس طرح درک اور شعور رکھتے ہوں تو پیغمبر اسلام جو کہ اشرف مخلوقات ہیں اور قرب الہی کے آخری درجے پرفائز ہیں کیا یہ ممکن ہے کہ ان کے لیے شہداء جیسی  شان اور مرتبہ نہ ہو؟

چوتھا نکتہ:

قرآنی آیات سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ عالم ارواح سے رابطہ ممکن ہے۔ قرآن حضرت صالح کی قوم جو عذاب الہٰی سے ہلاک ہوئے فرماتا ہے:

 وَ قَالُواْ يَاصَلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فىِ دَارِهِمْ جَاثِمِينَ فَتَوَلىَ‏ عَنهُْمْ وَ قَالَ يَاقَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبىّ‏ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لَكِن لَّا تحُبُّونَ النَّاصِحِين، اور کہنے لگے : اے صالح! اگر تم واقعی پیغمبر ہو تو ہمارے لیے وہ (عذاب) لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو۔ چنانچہ انہیں زلزلے نے گرفت میں لے لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔۔۔پس صالح اس بستی سے نکل پڑے اور کہا:اے میری قوم! میں نے تو اپنے رب کا پیغام تمہیں پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔[8]

حضرت صالح نے اپنی قوم کو اس وقت مخاطب قرار دیا جب وہ عذاب سے ہلاک اور عالم برزخ منتقل ہوچکے تھے۔ اگر ان کی قوم ان باتوں کو نہ سنتے اور ان کی نسبت کوئی احساس نہیں رکھتے  تو حضرت صالح کن لوگوں سے باتیں کر رہے تھے؟

قرآن اسی کی مانند باتیں قوم شعیب سے نقل کرتا ہے:

وَ قالَ يا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالاتِ رَبِّي وَ نَصَحْتُ لَكُمْ فَكَيْفَ آسى‏ عَلى‏ قَوْمٍ كافِرينَ، ۔ شعیب ان سے نکل آئے اور کہنے لگے: اے میری قوم!میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچائے اور تمہیں نصیحت کی، تو (آج) میں کافروں پر رنج و غم کیوں کروں؟[9]

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم ارواح سے رابطہ نہ صرف ممکن بلکہ واقع بھی ہوا ہے.

تاریخی اور حدیثی اسناد کے مطابق جب جنگ بدر ختم ہوئی اور پیغمبر کے حکم سے کفار کے لاشوں کو بدر کے کنویں میں ڈالا گیا، پیغمبر کنویں پر کھڑے ہوکر انہیں خطاب کر کے فرمایا:

اے کنویں والو! اے عتبہ بن ربیعہ، اے ابا جہل! تمہارے رب نے جو وعدہ دیا تھا کیا اس پر عمل پیرا ہوا ہے؟ البتہ میرے رب نے جو وعدہ مجھ سے کیا تھا میں نے اسے پایا ہے۔

اس وقت پیغمبر کے ایک صحابی نے عرض کیا:یا رسول اللہ آپ مرے ہوئے لوگوں سے گفتگو کر رہے ہیں؟ پیغمبر نے فرمایا: " ما انتم باسمع لما اقول منھم غیر انھم لا یستطعون ان یردّوا علیّ شیئا، جو کچھ میں بول رہا ہوں، تم ان مردوں سے زیادہ سننے والے نہیں ہو! لیکن وہ میرا جواب نہیں دے سکتے۔[10]

پانچواں نکتہ :

آیت(لَا تُسْمِعُ الْمَوْتىَ) کا برزخی حیات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس آیت میں(موتی)سے مراد مردہ دل ہے جسمانی مردہ مراد نہیں ہے۔اس بات کی دلیل آیت کا آخری حصہ ہے: (إِذَا وَلَّوْاْ مُدْبِرِين، جب وہ پیٹھ پھر کر جا رہے ہوں۔) اگر مراد یہی جسمانی  مردہ ہوتو پیٹھ پھیر کے جانے کا کیا مطلب ہوگا؟ کیا مردہ آدمی رخ پھیر سکتا ہے۔؟

اس آیت سے بعد والی آیت میں ہدایت اور ضلالت کا ذکر بیان ہوا ہے لہذا اس آیت میں موتیٰ سے مراد وہ لوگ ہیں جو راہ ہدایت پر نہیں چلتے، اسی طرح بعد والی آیت میں بیان ہوا ہے: ((آپ ان لوگوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔)) اگر موتی سے مراد جسمانی مردے ہوتے تو مؤمن او رغیر مؤمن  کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس آیت میں پڑھتے ہیں:

(وَ مَا أَنتَ بهِادِى الْعُمْىِ عَن ضَلَالَتِهِمْ  إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِايَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُون، اور نہ ہی آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے بچا کر راستہ دکھا سکتے ہیں، آپ ان لوگوں تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں اور پھر فرمانبردار بن جا تے ہیں)[11] ان قرائن اور نشانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ(انک لَا تُسْمِعُ الْمَوْتىَ) کا مردوں اور اموات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا مردوں کے عدم ادراک پر ان کے دلائل بے بنیاد ہیں۔

چھٹا نکتہ:

وہابی مدعی ہیں کہ انبیا کرام جیسےحضرت عیسی، موسی اور نبی اکرم صرف زندہ حالت میں معجزے اور خارق العادت کام انجام دے سکتے ہیں وفات کے بعد کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ ہمارے عقیدے کے مطابق اگر وہابیوں کی اسی بات پر توجہ کریں تو شرک کی بو آنے لگے گی کیونکہ وہ اندرونی طور پر، انبیاء کی زندگی میں انہیں ان امور کی انجام دہی میں مستقل فرض کرتے ہیں، لیکن اب چونکہ وہ وفات پاگئے ہیں لہذا یہ کام نہیں کرسکتے جبکہ انبیاء  حیات کی صورت  میں بھی ان امور میں مستقل نہیں تھے بلکہ تمام امور ان کی زندگی  میں اور موت کے بعد اللہ کے وسیلے انجام پاتے ہیں۔

گویا وہ یہ بات فراموش کرچکے کہ اگر انبیاء اپنی زندگی میں بھی کسی مردے کو زندہ کرتے یا عصا سے پہاڑ کو چیرتے اور دریائے نیل کو طوفان سے بچاتے تو یہ سب امور اللہ کے براہ راست ارادے سے انجام پاتے، جب عصا کو پتھر یا دریا پر مارتے انہیں خود بھی نہیں معلوم تھا کہ کس قسم کا واقعہ پیش آنے والا ہے جی ہاں آپ عصا کو خدا کے حکم سے حرکت میں لاتے لیکن تمام امور خدا کے ارادے سے انجام پاتے تھے۔

حضرت عیسی، مسیحایی پھونک پھونکتے لیکن مردوں کا زندہ کرنا خدا کے اختیار میں تھا لہذا ان امور کا فاعل اور انجام دینے والا خدا ہے جب فاعل خدا ہے تو انبیاء کی حیات اور ممات کا ان امور میں کوئی مداخلہ نہیں ہے اگر وہ اپنی زندگی میں بھی اس قسم کے امور انجام دیتے تو مستقل نہ تھے بلکہ خدا ان امور کو انجام دیتا ہے۔

البتہ خدا ان امور کو ان کے ارادے کے ساتھ  وجود میں لاتا تا کہ ان کے سچے ہونے پر گواہ ہو اور لوگ ان کی رسالت کو تسلیم کر لیں۔ اب اگر خدا ان کی موت کے  بعد انہیں وہی اجازت عطا کرے اور ان کے مرتبے کو دیکھانے کی خاطراپنی رحمت کے فیض کو ان کی دعا کے ساتھ عالم برزخ میں اپنے نیک بندوں تک پہنچائے تو توحید کے ساتھ ٹکراؤ کیسا؟ بنی اسرائیل کے گائے کی داستان میں پڑھتے ہیں: اللہ نے سب سے پہلے گائے کو ذبح کرنے اور ذبح کے بعد اس کے گوشت کو مقتول کے بدن پرمارنے کا حکم دیا، جب بنی اسرائیل نے ایسا کیا تو مقتول زندہ ہوا اور قاتل کا نام بتا دیا۔[12]

 اب سوال یہاں ہے کہ جب خدا مردہ گائے کے مرنے کے بعد اس کے گوشت میں یہ اثرڈال سکتا ہے تو اس میں کیا مشکل ہے کہ اللہ اپنے بعض نیک اور کامل انسانوں کے روح کی عروج کے بعد انہیں کچھ آثار اور برکات سے نوازے؟!

اگر خدا نے ایسا کیا تو کیا شرک لازم آتا ہے؟

قرآن خبر دیتا ہے کہ آل موسی و آل ہارون کی وفات کے بعد ایک صندوچے میں ان کی چھوڑی ہوئی چیزیں تھیں جن سے بنی اسرائیل سکون و اطمینان پاتے تھے۔ قرآن اس بارے میں فرماتا ہے:

 فيهِ سَكينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَ بَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسى‏ وَ آلُ هارُونَ،جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے سکون و اطمینان کا سامان ہے اور جس میں آل موسیٰ و ہارون کی چھوڑی ہوئی چیزیں ہیں۔[13]

"ماترک" کی اصطلاح اس وقت استعمال ہوتی ہے جب فرد مقابل دنیا سے چلا گیا ہو لہذا  اس صندوچے میں موجود چیزوں سےسکون اور اطمینان کے بارے میں اللہ کا کلام، آل موسی و ہارون کی وفات کے بعد سے متعلق ہے۔

اب وہابیوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ: موسی و ہارون کے خاندان کی چھوڑی ہوئی چیزیں ان کی وفات کے بعد سکون و اطمینان کا باعث بن سکتی ہیں۔ لیکن پیغمبر اور ان کی آل کی چھوڑی ہوئی چیزیں کسی کام کی نہیں؟! کیا وہابیوں کی نگاہ میں پیغمبر اکرم کا مقام و مرتبہ آل ہارون سے کم تر ہے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ:  اگر موسی و ہارون کی وفات کے بعد خدا ان کی چوڑی ہوئی چیزوں  کویہ خاصیت عطا کرتا ہے تو موسی و ہارون کی وفات کے بعد یہی خاصیت خدا ان کے جسم کو عطاکرے تو کیا مشکل ہے؟

نتیجہ:

اموات صالح کو صدا دینا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا شرعی اور عقلی لحاظ سے بلا مانع ہے بلکہ اس کی درستی اور جائز ہونے پر بہت سارے دلائل موجود ہیں۔

 مزید مطالعہ کے لیے کتب

راہنمائے حقیقت، جعفر سبحانی             

          الغدیر ج5، علامہ امینی

کشف الارتیاب، سید محسن امین

 

 



[1][1] ۔ نمل/80

[2] ۔زیارۃ القبور و استنجاد بالقبور ج1ص17

[3] ۔کشف الشبھات ص41، کشف الارتیاب ص231

[4] ۔آل عمران/ 169

[5] ۔آل عمران/ 170

[6] ۔آل عمران/ 171

[7] ۔یاسین/ 26-27

[8] ۔اعراف/ 77-80

[9] ۔اعراف/ 93

[10] ۔صحیح بخاری ج5ص21، مسند ابویعلی ج1ص130، المعجم الصغیر ج 2ص113۔

[11] ۔نمل/ 81

[12] ۔ بقرہ/ 71-71قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنهََّا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَ لَا تَسْقِى الحَْرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيهَا  قَالُواْ الَْانَ جِئْتَ بِالْحَقّ‏ِ  فَذَبحَُوهَا وَ مَا كاَدُواْ يَفْعَلُونَ، وَ إِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا  وَ اللَّهُ مخُرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُون۔

[13] ۔بقرہ/248

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی