2024 March 29
کیا شیعہ یقیناً اہل غلو ہیں ؟؟
مندرجات: ١٨٥١ تاریخ اشاعت: ٠٢ February ٢٠٢١ - ١٨:٢١ مشاہدات: 3367
یاداشتیں » پبلک
غلو اور مبالغہ گویی
کیا شیعہ یقیناً اہل غلو ہیں ؟؟

اعتراض:

شیعہ یقیناً اہل غلو ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے ائمہ خاص طور پر پہلے امام سے ایسی خصوصیات اور توانائیاں منسوب کرتے ہیں جو انسانی طاقت سے باہر ہے۔ وہ ائمہؑ کو خدا کی مانند اعلٰی مانتے ہیں۔ زیارت ناموں میں ائمہؑ کی اس طرح تعریف کرتے ہیں جیسے خدا بھی ائمہؑ کے محتاج ہو۔ مثال کے طور پر وہ ائمہؑ کو مخاطب قرار دے کر کہتے ہیں:

"بکم فتح اللہ و بکم یختم اللہ و بکم ینزّل الغیث۔۔۔"

اس بارے میں چند نکتوں کی یاد دہانی ضروری ہے:

پہلا نکتہ:

"غلو" لغت میں" حد سے گذرنے"  کو کہتے ہیں۔[1] ابن منظور تعدّی اور غلّو کے درمیان فرق کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: تعدّی حد سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں لیکن "غلّو" بہت زیادہ حد سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں۔[2]

اللہ نے عیسائیوں کے اس گروہ کو جو عیسیؑ کو خدا مانتے ہیں "غلو" سے توصیف کیا ہے:

يا أَهْلَ الْكِتابِ لا تَغْلُوا في‏ دينِكُم، اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو"[3]

یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسان سے خدایی کی نسبت دینا غلو اور مبالغہ گویی ہے۔

اصطلاح میں بھی غلو اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی دینی پیشواؤں کے بارے میں مبالغہ کیا جائے اور انہیں خدایی کی حد تک پہنچا دیں۔

علامہ مجلسی لکھتے ہیں:

اسلام میں غلو سے مراد یہ ہے کہ پیغمبرﷺ، اماموں اور دوسرے افراد کو خدایی کی حد تک لے جائیں۔ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے  کہ وہ معبودیت، خلقت یا روزی دینے میں خدا کے شریک ہیں۔ یا خدا کی ذاتی صفات جیسے علم، قدرت، رحمت، میں وہ شریک ہو،  یا حلول کا عقیدہ رکھتے ہوں یعنی خدا افراد میں حلول کر کے ان کے ساتھ متحد ہوا ہے۔ یا علم غیب کا عقیدہ بغیر وحی و الہام کے، یا یہ کہ ائمہؑ کو پیغمبر مان لیں، یا اس چیز کا عقیدہ کہ ان کی روحیں تناسب کے لحاظ سے ایک دوسرے کے جسم میں موجود ہیں یا یہ قول کہ ان کی معرفت، دینی ذمہ داریوں کے سقوط کا باعث بنتی ہے۔ [4] یہ سب غلو کے مصادیق ہیں۔

شہرستانی(اہل سنت عالم)  نے غلو کا اصطلاحی معنی اسطرح " دینی پیشواؤں کے لیے الوہیت کے مقام کا قائل ہونا" بیان کیا ہے ۔[5]

قابل توجہ بات یہ کہ کوئی بھی شیعہ اماموں کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ نہیں رکھتے ۔ وہ ائمہ کو اللہ کے مخلص ترین بندے مانتے ہیں انہیں مقام بندگی سے اونچا نہیں لے جاتے، یہاں تک کہ ان کے لیے تشریع کے بھی قائل نہیں ، چہ جائے خدایی۔

شیعہ  ائمہؑ کے لیے جن فضائل اور مرتبوں کے قائل ہیں جیسے عالم تکوین میں تصرف، اعجاز، علم غیب اور دیگر علوم سب کو اذن الہٰی سے متعلق مانتے ہیں۔ حضرت عیسیؑ کے معجزے کی طرح جسے قرآن نے بیان کیا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ عیسیؑ اذن الہٰی سے مردہ زندہ کرتے تھے تو  کیا  وہ  غلو ک کا مرتکب ہوا ہے؟

دوسرا نکتہ:

یہ کہ کچھ افراد امام علیؑ کے بارے میں غلو کرتے ہیں، ان کے بارے میں اہل سنت کتب میں بھی ذکر ہوا ہے۔ منجملہ نقل ہوا ہے کہ پیغمبرﷺ نے حضرت علیؑ سے فرمایا:

یا علی انّما مثلک فی ھذہ الامۃ کمثل عیسی بن مریم احبّہ قومہ فافرطوا فیہ، یا علی! آپ کی مثال اس امت میں عیسی بن مریم کی مانند ہے ان کی قوم ان سے محبت کرتے تھے لہذا ان کے بارے میں افراط کیا۔[6]

یہ افراطی گروہ شہرستانی کی کتاب ملل و نحل اور بغدادی کی کتاب الفِرَق بن الفِرَق میں متعارف ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو الوہیت کے قائل ہیں جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی نسبت ایک گروہ کا یہی عقیدہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کا شیعہ اثنا عشریہ سے کیا تعلق ہے؟ کونسے شیعہ نے حضرت علیؑ کے بارے میں ایسی بات کی ہے؟ اثنا عشری شیعہ اور غالیوں کو برابر ماننا یا تو جہالت اور ناعلمی کی بنیاد پر ہے یا بغض و عداوت کی وجہ سے۔

اس جھوٹ کو شیعوں سے کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے جبکہ آج شیعوں کی آواز کو تمام دنیا میں سن سکتے ہیں کہ وہ اذان میں "اشہد ان علیاً ولی اللہ"کی گواہی دیتے ہیں جو گروہ صبح و شام علی ولی  اللہ کی گواہی دیتے ہیں کیا وہ ان کے خدائی کے قائل ہوسکتے ہیں؟

یہ کیسے ممکن ہے شیعوں پر اس قسم کا الزام لگایا جائے جبکہ "غالی" اماموں اور شیعہ بزرگ عالموں کے توسط "کافر وگمراہ" کے عنوان سے متعارف ہوئے ہیں۔؟

حضرت علیؑ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

ان ابراء الی اللہ تبارک تعالی ممن یغلو فینا و یرفعنا فوق حدّنا کبراءۃ عیسی بن مریم  من النّصاری،  میں ان لوگوں سے جو ہمارے بارے میں غلو کرتے ہیں  اور حد سے زیادہ اونچا لے جاتے ہیں،بے زاری کا اظہار کرتا ہوں جیسا کہ عیسی بن مریم نے نصاریٰ سے بےزاری کا اظہار کیا تھا۔[7]

امام رضاؑ غالیوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

الغلاۃ کفار۔۔۔خرج من ولایۃ اللہ عزوجل و ولایۃ رسول اللہ، و ولایتنا اہل بیت، غالی کافر ہے، جو کوئی ان کے ساتھ نشست و برخاست کرے گا خدا، رسول اور ہم اہل بیت کی ولایت سے خارج ہوجائے گا۔[8]

شیخ مفید(ایک بڑے شیعہ عالم) غالیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

غالی اسلام کا دیکھاوا کرنے والا گروہ ہے جنہوں نے حضرت علیؑ اور اولاد علیؑ کو الوہیت اور نبوت سے متصف کیا ہے۔ اور ان کے بارے میں اعتدال کی حد سے تجاوز کر گئے ہیں۔ وہ گمراہ اور کافر ہیں۔[9]

شیخ صدوق( ایک اور مشہور شیعہ عالم) غالیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

 غالیوں اور مفوضہ کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ کافر ، یہودی، نصرانی، مجوس، قدریہ، حروریہ اور دیگر گمراہ فرقوں سے بدتر ہیں۔[10]

علامہ مجلسی غالیوں کے اقسام کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ سب دین سے خارج ہونے کا سبب ہے جیسا کہ عقلی، نقلی دلائل قرآنی آیات و وروایات اس پر دلالت کرتی ہیں۔اور اگر بالفرض احادیث میں سے کوئی حدیث غلو کے اقسام پر دلالت کرتی نظر آئے تو اس کی تاویل کی جائے اگر قابل تاویل نہ ہو تو وہ غالیوں کے افترائات میں سے ہے۔[11] لہذا شیعوں اور غالیوں کو برابر جاننا شیعوں پر ایک بڑا الزام ہے۔

تیسرا نکتہ:

غلو، کلامی اور عقیدتی موضوعات سے متعلق ہے اورعقیدتی مباحث کو کلامی کتب سے بیان کرنا ضروری ہے لہذا  اس قسم کے مباحث کو کتب حدیث سے ثابت کرنا غیرمعقول ہے۔ کیونکہ کتب حدیث کے مصنفین کا مقصد صحیح اور غیر صحیح دونوں قسم کے احادیث کو جمع کرنا ہوتا ہے لہذاکتب حدیث میں  ضعیف روایات کی موجودگی کو بنیاد بنا کر کسی مذہب پر کسی عقیدے کا الزام نہیں لگا یا جاسکتا۔

اگر غلو کے بارے میں موجود چند ضعیف احادیث کو بنیاد بنا کر یا غالیوں کی وجہ سے شیعوں پر غلو کا الزام لگایا جائے تو دوسرے مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے؟ کیونکہ دوسرے فرقوں میں بھی غلو والی احادیث اور غلو کرنے والے افراد موجود ہیں۔ کیاا سی دلیل کی بنیاد پر اہل اسلام کے تما م فرقوں پر غلو کا الزام لگایا جاسکتا ہے؟

اہل سنت فرقے سے منسوب غالیوں میں سے راوندیہ کا نام لیا جاسکتا ہے جن کا سربراہ عبداللہ راوندی ہے۔ یہ لوگ ابتدا میں منصور عباسی کی الوہیت اور ابومسلم خراسانی کی نبوت کا عقیدہ رکھتے تھے۔ یہ گروہ 141 ہجری کو ابومسلم کے قتل کے بعد زندیقیت کی بنیاد پر جلائے گئے۔ اسی گروہ سے ابو مسلمیہ، ابو ہریریہ، رزامیہ اور ہاشمیہ جیسے گروہ وجود میں آئے۔[12] کیا صرف  اس لیے کہ یہ گروہ خود کو اہل سنت سے منسوب کرتے ہیں اور وہابی خود کو اہل سنت مانتے ہیں،لہذا  اہل سنت پر غلو کا الزام لگا سکتے ہیں؟

اسی طرح اگر چند ضعیف احادیث کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ ہم ایک عقیدے کو کسی فرقے سے منسوب کر سکتے ہیں تو ان احادیث کے ساتھ کیا کیا جائے؟ جو غلو پر دلالت کرتی ہیں اور وہابیت کے قابل قبول کتب میں بیان ہوئیں ہیں۔؟

ایک روایت اس طرح نقل ہوئی ہے کہ پیغمبرﷺ نے فرمایا:

                     اگراللہ نے میرے بعد کسی نبی کو بھیجنا ہوتا تو عمر کو نبی بنا کر بھجتا[13]

ایک روایت میں اس طرح بیان ہوئی ہے:

عمر نے مسجد مدینہ میں خطبے کی حالت میں ساریہ(نھاوند میں اسلامی لشکر کا سپہ سالار) کو جو فرسخوں فاصلے پر تھا، حکم دیا کہ وہ خود کو پہاڑ تک پہنچائے۔ اور خدا نے عمر کی آواز کو اتنے فاصلے  پر(مدینہ سے نھاوند) ساریہ تک پہنچا دیا اور ساریہ کی نجات کا باعث بنی۔[14] اس مبالغہ آمیز حدیث کے ساتھ کیا کیا جائے؟ احادیث میں نقل ہوا ہے کہ عمر نے پہلی بار اذان کی آواز کو جبرئیل سے براہ راست سنی تھی پھر پیغمبرﷺ نے عمر سے اذان کو سیکھ لی اور بلال کو فرمان دیا کہ وہ اذان دے دیں۔[15]

ترمذی(صحاح ستۃ، وہابیت کے مورد قبول کتب میں سے ایک کتاب کا مصنف) نقل کرتے ہیں کہ: ابوبکر نے کہا: سمعت رسول اللہﷺ یقول:ماطلعت الشمس علی رجل خیر من عمر، ابھی تک سورج نے عمر سے بہتر کسی شخص پر طلوع نہیں کیا ہے۔[16]

کیا عمر تمام انبیا یہاں تک کہ رسول اللہﷺ سے بھی افضل ہیں؟ وہابی اس حدیث سے غلو کا احساس کیوں نہیں کرتے؟

اگر اسی قسم کی روایت شیعہ علیؑ کے لیے بیان کرتے  تو وہابی کیا کرتے؟ کیا وہ یہ فریاد بلند نہ کرتے کہ شیعہ غلو بلکہ کفر آمیز جملے زبان پر جاری کرتے ہیں؟ اب یہ باتیں بلکہ ان سے بھی  زیادہ حیرت انگیز باتیں عمر کے بارے میں موجود ہیں، لیکن کوئی مشکل پیش نہیں آتا؟

اگراس قسم کی باتیں ان کے روحانی باپ(ابن تیمیہ) سے صادر ہوجائے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ ابن تیمیہ اہل بیتؑ کی فضائل کے مقابل   توہین آمیز طریقے سے کھڑا ہوجاتا ہے لیکن اپنے بارے میں یوں  کہتا ہے:

نحن لا نحس من انفسنا عجزا عن ابراء الاکمہ و الابرص  و احیاء الموتی  و نحو ھذہ الامور، ہم اپنے بارے میں نابینایان کو بینا کرنے، برص کے بیمارکو شفا دینے یہاں تک کہ مردوں کو زندہ کرنے میں کسی قسم کی عجز اور ناتوانی نہیں پاتے[17]۔

وہابی اہل بیتؑ کے معمولی فضائل کو غلو پر حمل کرتے ہیں لیکن جب ان کے روحانی باپ کی باری آتی ہے تو سکوت اختیار کرتے ہیں اور کسی قسم کا رد العمل نہیں دیکھاتے ۔

چوتھا نکتہ:

شیعوں پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ زیارت ناموں میں ائمہؑ کی اس طرح  سےتعریف کرتے ہیں جیسا کہ خدا بھی ائمہؑ کے محتاج ہو۔ مثال کے طور پر وہ ائمہؑ کو خطاب کر کہتے ہیں: "بکم فتح اللہ و بکم یختم اللہ و بکم ینزّل الغیث۔۔۔، خدا آپ کے وسیلہ فتح کرتا ہے اور آپ کے وسیلہ بارش نازل کرتا ہے۔

اس کے جواب میں یہ کہنا ضروری ہے کہ خدا کاموں کو انجام دینے میں کسی کے محتاج نہیں، لیکن محتاج  نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیا میں جاری کاموں میں اپنے ارادے میں اسباب کو دخالت نہیں دیتا۔ کیونکہ اس قاعدے کے مطابق: ابی اللہ ان یجری الامور الا باسبابھا" اللہ نے خود اس عالم اسباب کو خلق کیا اور اپنے ارادے کو انہیں اسباب پر جاری کیا ہے لیکن یہ خدا کے محتاج ہونے کی دلیل ہرگز نہیں ہے۔

خدا مدّبر امور ہے یہاں تک کہ اگر مشرکین سے بھی پوچھا جائے: مَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ، اور کون امور (عالم ) کی تدبیر کر رہا ہے؟[18] تو وہ جواب میں کہیں گے: خدا۔ دوسری جانب سے خدا امور کی تدبیر کو فرشتوں ے نسبت دیتا ہے: فَالْمُدَبِّراتِ أَمْرا، پھر امر کی تدبیر کرنے والے ہیں۔[19]

یہ دو طرفہ نسبت ایکدوسرے سے متصادم نہیں  کیونکہ یہ عالم، عالم اسباب ہے اور خود خدا اسی طرح چاہتا ہے۔ حقیقت میں خداوند جو کہ ذاتا اور بطور استقلال تدبیر کرنے والا ہے، عالم کی تدبیر کو فرشتوں کے ذریعے انجام دیتا ہے نہ یہ کہ عالم کی تدبیر کے لیے خدا فرشتوں کا محتاج ہے۔

ایک اور جگہ یہ دو طرفہ نسبت موجود ہے، ایک طرف خدا موت کو خود سے نسبت دیتا ہے اور اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حينَ مَوْتِها، موت کے وقت اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے۔[20]

دوسری طرف سے اسے موت کے فرشتے سے منسوب کرتا ہے: قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذي وُكِّلَ بِكُمْ، کہدیجئے: موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرتا ہے۔[21]

اس سے واضح کچھ اور نہیں ہے کہ عذاب کرنے والا اللہ ہے اس کے باوجود فرماتا ہے: قاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْديكُم، ان سے لڑو تاکہ تمہارے ہاتھوں اللہ انہیں عذاب دے۔[22]

اب سوال یہ ہے:کیا مشرکین کی عذاب کے لیے خدا مؤمنین کا محتاج تھا؟ کیا وہابی اس آیت کو غلو مانتے ہیں؟ اس خطاب: يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْديكُم، اور اس خطاب: بکم ینزل الغیث میں کیا فرق ہے؟ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْديكُم کا جو جواب وہابی  دیں گے ہم بھی بکم ینزل الغیث میں وہی جواب دیں گے۔ بلکہ بکم ینزل الغیث کا یہ معنی ہو سکتا ہے کہ خدا آپ کی خاطر بارش نازل کرتا ہے۔ اور باء سببیہ نہ ہو۔

 نیز اس آیت کے بارے میں وہابی کیا کہتے ہیں: َ لَوْ لا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْض، اگر اللہ لوگوں میں سے بعض کا بعض کے ذریعے دفاع نہ فرماتا رہتا تو زمین میں فساد برپا ہو جاتا"[23] کیا ان کی نگاہ میں یہ مبالغہ آمیز ہے؟ کیا یہاں بھی یہ کہتے ہیں کہ بعض کو دفع کرنے کے لیے اللہ کو افراد کی ضرورت تھی؟!

اس کے علاوہ اس قسم کے جملے اہل سنت کتب میں بیان ہوئے ہیں: کیا وہابی خود کو بھی غالی سمجھتے ہیں؟ ذیل کی روایات پر توجہ کیجیے:

1-    احمد بن حنبل اور ابن عساکر نے امام علیؑ سے روایت کی ہے: کہ انہوں نے پیغمبرﷺ سے سنا:  الابدال یکونون بالشام  وھم اربعون رجلا کلما مات رجل ابدال اللہ  رجلا مکانا یسقی بھم الغیث و ینتصر بھم علی الاعداء و یصرف عن اھل الشام بھم العذاب، ابدال شام میں ہیں وہ چالیس افراد ہیں، جب بھی ان میں سے کوئی مرجاتا ہے اللہ اس کی جگہ کسی اور کو قرار دیتا ہے، ان کے وسیلے سے بارش نازل کرتا ہے ان کے ذریعے تمہیں دشمن پر نصرت عطا کرتا ہے اور ان کے وسیلے اہل شام سے عذاب دور کرتا ہے۔[24]

2-    طبرانی نے الاوسط میں انس سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: لن تخلوا الارض من اربعین رجلا مثل ابراہیم خلیل الرحمان فبھم یسقون و بھم ینصرون، مامات احد الا ابدال اللہ مکانہ آخر، ابراہیم خلیل  الرحمان جیسے چالیس مردوں سےزمین خالی نہیں ہوتی، تم ان کے وسیلے سیراب اور دشمنوں پر پیروز ہوتے ہو، اس گروہ میں سے کوئی نہیں مرتا مگر یہ کہ خدا اس کی جگہ کسی اور کو مقرر کرتا ہے۔[25]

3-     ابن عساکر نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ پیغمبرﷺ نے ابدال کے بارے میں فرمایا: فبھم یحیی و یمیت و یمطر و ینبت و یدفع البلاء، خدا ان کے وسلیے زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، بارش نازل کرتا ہے، اگاتا ہےاور بلاؤں کو دفع کرتا ہے۔[26]

4-    ابن حبان نے ابو ہریرہ سے نقل کیا کہ پیغمبرﷺ نے فرمایا: لن تخلوا الارض من ثلاثین مثل ابراہیم خلیل اللہ بھم تغاثون و بھم ترزقون، زمین کبھی بھی ابراہیم خلیل کے مانند  تیس نفر سے خالی نہیں ہوگی، ان کے وسیلے تم پر بارش  برستی ہے اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔[27]

کیا ان احادیث کی موجودگی کی وجہ سے تمام اہل اسلام  یہاں تک کہ خود وہابیوں کو بھی غالی کہا جاسکتا ہے؟

نتیجہ:

شیعہ اماموں کی پیروی کرتے ہوئے ہمیشہ غالیوں سے بے زار ہیں اورانہیں کافر و گمراہ مانتے ہیں، کوئی بھی اثنی عشریہ شیعہ اماموں کو خدایی کی حد تک نہیں لے جاتے، اگرشیعہ اماموں کے لیے ولایت تکوینی اور معجزے کا قائل ہیں تو اسے اذن الہٰی  سے منسوب کرتے ہیں  کہ خدا کی خالصانہ عبادت اور بندگی کی وجہ سےوہ  اس مقام تک پہنچے ہیں۔ لہذا شیعوں کو غالی کہنا ان پرلگائے جانے والابے بنیاد الزام ہے۔

مزید مطالعہ کے لیے کتب

بحار الانوار ج 25، علامہ باقر مجلسی

درسنامہ وضع حدیث، ناصر رفیعی

شناخت وہابیت، نجم الدین طبسی

 



[1] ۔مفردات الفاظ قرآن ص613، "غلو"

[2] ۔ لسان العرب ج 15ص132

[3] ۔نساء/117

[4] ۔ بحار الانوار ج 25 ص346

[5] ۔الملل و النحل ج1 ص93

[6] ۔کنزالعمال ج 2ص500 حدیث: 4596

[7] ۔عیون اخبار الرضا ج1ص 201

[8] ۔ عیون اخبار الرضا ج1ص203

[9] ۔تصحیح اعتقادات الامامیہ ص131

[10] ۔اعتقادات فی دین الامامیہ ص97

[11] ۔ بحار الانوار ج 25ص346

[12] ۔فرق الشیعہ ص46، 49

[13] ۔مجمع الزوائد ج 9 ص69(لوکان اللہ باعثا رسولا بعدی لبعث عمر بن خطاب)

[14] ۔کنز العمال ج 12ص571- 574، الاصابہ ج 3 ص5،"فقال فی اثنا خطبۃ یا ساریہ! الجبل الجبل و رفع صوتہ فالقاہ اللہ  فی سمع ساریہ فانحاز بالناس الی الجبل"

[15] ۔بغیۃ الباحث ص51

[16] ۔سنن ترمذی ج 5 ص281، حدیث 3767۔ فلقد سمعت رسول اللہ یقول: ماطلعت الشمس علی رجل خیر من عمر۔

[17] ۔النبوات ج 1 ص32

[18] ۔یونس/ 31

[19] ۔نازعات/5

[20] ۔زمر/42

[21] ۔سجدہ/11

[22] ۔توبہ/14

[23] ۔بقرہ/251

[24] ۔مسند احمد ج 1ص112، تاریخ مدینہ دمشق ج1 ص289

[25] ۔ المعجم الاوسط ج 4ص245

[26] ۔تاریخ مدینہ دمشق ج1 ص304

[27] ۔المجروحین ج2 ص61، الدر المنثور 1 ص320





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی