2024 March 19
لولا علیّ لھلک عمر، والی روایت شیعہ اور اہل سنت کی کن کن کتابوں میں ذکر ہوئی ہے ؟
مندرجات: ٧٠٤ تاریخ اشاعت: ١٦ April ٢٠١٧ - ١٦:٤١ مشاہدات: 11476
سوال و جواب » امام علی (ع)
جدید
لولا علیّ لھلک عمر، والی روایت شیعہ اور اہل سنت کی کن کن کتابوں میں ذکر ہوئی ہے ؟

 اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔۔
 
سوال:

لولا علیّ لھلک عمر، والی روایت شیعہ اور اہل سنت کی کن کن کتابوں میں ذکر ہوئی ہے ؟

جواب:

عمر کی زبان سے یہ الفاظ مختلف مواقع اور مقامات پر بار بار امیر المؤمنین علی (ع) کے بارے میں ادا ہوئے ہیں۔ ہم اس روایت کے بارے میں سب سے پہلے شیعہ معتبر کتب سے اسناد کو ذکر کرتے ہیں اور پھر اہل سنت کی معتبر کتب سے اس روایت کے سلسلہ سند کو ذکر کریں گے۔ جس سے یہ واضح ہو گا کہ فریقین کے نزدیک یہ روایت معتبر اور قابل اعتماد ہے۔

شیعہ کتب اور روایت، لولا علیّ لھلک عمر:

كافی ، كليني ، ج 7 ، ص 424، تهذيب الاحكام ،

شيخ طوسي ، ج 6 ، ص 606، ج 10 ، ص50،

من لايحضره الفقيه ، شيخ صدوق ، ج 4 ، ص 36 ،

اختصاص ، شيخ مفيد ، ص 111 و 149،

مناقب آل ابي طالب ، ابن شهر آشوب ، ج 1 ، ص 311 ،

المسترشد ، طبري شيعي ، ص 548 و 583 ،

شرح الاخبار ، قاضي نعمان ، ج 2 ، ص 319 ،

مدينه المعاجز ، علامه بحراني ، ج 2 ، ص 460 و ج 5 ، ص 71، الشافي في الامامة ، سيد مرتضي ، ج 1 ، ص 203، ج 3 ، ص ،130 منهاج الكرامة ، علامه حلي ، ص 18،

الطرائف ، سيد ابن طاووس ، ص 255 و 516.

 اہل سنت کی کتب اور روایت، لولا علیّ لھلک عمر:

تاويل مختلف الحديث ، ابن قتيبه ، ص 152،

مواقف ، ايجي ، ج 3 ، ص 627 و 636،

شرح مقاصد ، تفتازاني ، ج 2 ، ص 294 ،

التفسير الكبير ، فخررازي ، ج 21 ، ص 22،

شرح نهج البلاغه ، ابن ابي الحديد ، ج 1 ، ص 18و ج 12 ، ص 179، تمهيد الاوائل ، باقلاني ، ص 476 ،

مناقب علي ابن ابيطالب ، ابن مردويه اصفهاني ، ص 88،

ينابيع المودة ، قندوزي حنفي ، ج 1 ، ص 216و ج 2 ، ص 172و ج 3 ، ص 147 ،

تاويل مختلف الحديث ، ابن قتيبه، ج 1 ، ص 162،

تمهيد الاوائل في تلخيص الدلائل ، باقلاني ، ج 1 ، ص 476 و 547 ، الحاوي الكبير ، ماوردي شافعي ، ج 12 ، ص 115 و ج 13 ، ص 213 ، تفسير سمعاني ، ج 5 ، ص 154

المفصل في صنعه الاعراب ، زمخشري ، ج 1 ، ص 432 ،

العواصم من القواصم ، ابوبكر بن عربي ، ج 1 ، ص 203 ،

حاشيه الرملي ، رملي ، ج 4 ص 39 ، الجد الحثيث ،

سعودي غزي عامري ، ج 1 ، ص 186،

بريقه محموديه ، محمد بن محمد خادمي ، ج 2 ص 108،

منع الجليل ، محمد عليش ، ج 9 ، ص 648،

دستور العلماء ، قاضي عبدالنبي نكري، ج 1 ، ص 80.

 

وہ مواقع کہ جن پر عمر نے ان الفاظ کو بیان کیا:

1 . قال أحمد ابن زهير حدثنا عبيد الله بن عمر القواريري حدثنا مؤمل بن إسماعيل حدثنا سفيان الثوري عن يحيي بن سعيد عن سعيد بن المسيب قال كان عمر يتعوذ بالله من معضلة ليس لها أبو الحسن وقال في المجنونة التي أمر برجمها وفي التي وضعت لستة أشهر فأراد عمر رجمها فقال له علي إن الله تعالي يقول وحملة وفصاله ثلاثون شهرا الحديث وقال له إن الله رفع القلم عن المجنون الحديث فكان عمر يقول لولا علي لهلك عمر.

 عمر نے ایک پاگل عورت کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور ایک عورت کہ جس کے ہاں حاملہ ہونے کے 6 مہینے بعد بچہ پیدا ہوا تھا، اس کو بھی عمر نے حکم دیا کہ اسکو سنگسار کر دیا جائے۔ اس پر حضرت علی نے عمر سے کہا کہ بے شک خداوند نے قرآن میں حمل اور دودھ پلانے کی مدت تیس مہینے ذکر کی ہے.....، اور اسی طرح عمر سے کہا کہ: بے شک خداوند نے پاگل انسانوں سے رفع قلم کیا ہے، اور انکے لیے کوئی شئی حلال و حرام و واجب نہیں ہے.....، یہ سب سن کر عمر نے کہا: میں ایسے علمی مسئلے سے پناہ مانگتا ہوں کہ جس کے حل کرنے کے لیے ابو الحسن علی نہ ہوں، اگر علی نہ ہوتے تو میں عمر ہلاک ہو جاتا۔

استيعاب ابن عبدالبر ج 3 ص 1103.

 

سند روايت:

سعيد بن مسيب (یہ کتاب صحيح بخاری کے راویوں میں سے بھی ہے،)

سعيد بن المسيب ... أحد العلماء الأثبات الفقهاء الكبار من كبار الثانية اتفقوا علي أن مرسلاته أصح المراسيل وقال ابن المديني لا أعلم في التابعين أوسع علما منه.

علماء نے اتفاق کیا ہے کہ اسکی روایات صحیح ہیں اور ابن مدینی نے کہا ہے کہ: تابعین میں سے کوئی بھی سعید ابن مسیب سے زیادہ عالم نہیں ہے۔

تقريب التهذيب - ابن حجر - ج 1 ص 364.

يحيی بن سعيد ( یہ کتاب صحیح بخاری کے راویوں میں سے بھی ہے،)

يحيي بن سعيد بن قيس بن عمرو ، الإمام أبو سعيد الأنصاري ، قاضي السفاح ، عن أنس ، وابن المسيب ، وعنه مالك ، والقطان ، حافظ فقيه حجة ، مات  143

یحیی حافظ و فقیہ ہے اور اسکی روایات حجت  و معتبر ہیں۔

الكاشف في معرفة من له رواية في كتب الستة - الذهبي - ج 2 ص 366.

يحيي بن سعيد بن قيس الأنصاري المدني أبو سعيد القاضي ثقة ثبت ، من الخامسة مات سنة أربع وأربعين أو بعدها / ع .

یحیی ابن سعید ایک ثقہ راوی ہے.....،

تقريب التهذيب - ابن حجر - ج 2 ص 303.

سفيان ثوری (یہ کتاب صحيح بخاری کے راویوں میں سے بھی ہے،)

وقال شعبة ، وسفيان بن عيينة ، وأبو عاصم النبيل ، ويحيي بن معين ، وغير واحد من العلماء : سفيان أمير المؤمنين في الحديث .

سفیان کو اپنے زمانے میں علم حدیث میں امیر المؤمنین کہا جاتا تھا۔

تهذيب الكمال - المزي - ج 11 ص 165.

مومل بن اسماعيل (یہ کتاب صحيح بخاری کے راویوں میں سے بھی ہے،)

مؤمل بن إسماعيل البصري العمري مولاهم ... قال أبو حاتم: صدوق شديد في السنة كثير الخطأ ... مات 206 . ت س ق .

حدیث میں ایک سچا راوی تھا......،

الكاشف في معرفة من له رواية في كتب الستة - الذهبي - ج 2 ص 309.

قال ابن أبي خيثمة عن ابن معين ثقة وقال عثمان الدارمي قلت لابن معين أي شئ حاله فقال ثقة قلت هو أحب إليك أو عبيد الله يعني ابن موسي فلم يفضل وقال أبو حاتم صدوق شديد في السنة كثير الخطأ .

تهذيب التهذيب - ابن حجر - ج 10 ص 340

عبيد الله بن عمر القواريری (یہ کتاب صحيح بخاری کے راویوں میں سے ہے،)

عبيد الله بن عمر القواريري أبو سعيد البصري الحافظ روي مائة ألف حديث ... مات في ذي الحجة 235 . خ م د س.

الكاشف في معرفة من له رواية في كتب الستة - الذهبي - ج 1 ص 685.

عبيد الله بن عمر بن ميسرة القواريري أبو سعيد البصري نزيل بغداد ثقة ثبت.

تقريب التهذيب - ابن حجر - ج 1 ص 637.

احمد بن زہير:

احمد بن زهير بن حرب بن شداد ... الحافظ الكبير ابن الحافظ ... قال الخطيب كان ثقة عالما متقنا حافظا بصيرا بأيام الناس وأئمة الأدب.

لسان الميزان - ابن حجر - ج 1 ص 174

لہذا عمر کی روایت اہل سنت کے علم رجال اور علم حدیث کے قواعد کے مطابق صحیح اور معتبر ہو گی۔ ہم نے اطمئنان قلب کے لیے اس روایت کی سند کے بارے میں بحث کی ہے، ورنہ وہ راوی کہ جنکی روایات کتاب صحیح بخاری میں ذکر ہوں، اہل سنت کے عقیدے کے مطابق ان راویوں کی روایت صحیح ہوتی ہے اور انکے بارے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

2 . ان رجلا اتي به إلي عمر كأن قال : في جوابهم لما سألوه كيف أصبحت قال : أصبحت أحب الفتنة ، وأكره الحق ، واصدق اليهود والنصاري ، وآمن بما لم أره وأقر بما لم يخلق ، فأرسل عمر إلي علي ( ع ) فلما جاء اخبره بما قال الرجل فقال : صدق قال الله تعالي : إنما أموالكم وأولادكم فتنة ، ويكره الحق يعني الموت ، قال الله تعالي وجائت سكرة الموت بالحق ، وصدق اليهود والنصاري قال الله تعالي : وقالت اليهود ليست النصاري علي شئ وقالت النصاري ليست اليهود علي شئ ، ويؤمن بما لم يره يعني الله ، ويقر بما لم يخلق يعني الساعة فقال عمر : لولا علي لهلك عمر .

ایک دن ایک بندہ عمر کے پاس آیا اور اس سے کسی نے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے تو اس نے جواب میں کہا کہ: میں نے اس حالت میں صبح کی ہے کہ میں فتنے سے محبت کرتا ہوں، اور حق سے نفرت کرتا ہوں، یہود و نصاری کی بات کی تصدیق کرتا ہوں، اور نظر نہ آنے والی چیز پر ایمان لاتا ہوں اور وہ چیز کہ جو ابھی خلق ہی نہیں ہوئی، اسکا اقرار کرتا ہوں اور اسے قبول کرتا ہوں۔ یہ تمام باتیں سن کر عمر نے حضرت علی کو بلایا کہ وہ آ کر اس شخص کی کہی ہوئی، عجیب و غریب باتوں کا جواب دیں اور فیصلہ کریں۔

جب مولا نے آ کر اس شخص کی ساری باتوں کو سنا تو عمر اور دوسروں سے کہا کہ یہ شخص ٹھیک کہہ رہا ہے، کیونکہ خداوند نے قرآن میں کہا ہے کہ: بے شک تمہارا مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں، اور وہ جو حق سے نفرت کرتا ہے تو یہاں حق سے مراد، موت ہے، کیونکہ خداوند نے فرمایا ہے کہ: موت حق ہے، اور وہ جو یہود و نصاری کی بات کی تصدیق کرتا ہے تو اس سے یہ مراد ہے کہ: خداوند نے فرمایا ہے کہ: اور یہود کہتے ہیں کہ نصاری کچھ بھی نہیں ہیں اور نصاری کہتے ہیں کہ یہود کچھ بھی نہیں ہیں، اور جس چیز پر وہ بغیر دیکھے ایمان لانے کا کہہ رہا ہے تو اسکی مراد، خداوند ہے، اور جس خلق نشدہ چیز کا اقرار کرتا ہے تو اس سے اسکی مراد، قیامت ہے۔ یہ سن کر عمر نے کہا: اگر علی نہ ہوتے تو میں عمر ہلاک ہو جاتا۔  

نظم درر السمطين زرندي حنفي ص 130.

قاضی عضد الدين ايجی کہ جو اہل سنت کے علم كلام کا بہت ہی ماہر عالم ہے اور اس نے اس بارے میں كتاب، مواقف ، بھی لکھی ہے۔ اس کتاب میں اس نے حضرت علی (ع) کے تمام صحابہ پر اعلم ہونے کے بارے میں ادلہ کو بیان کرتے ہوئے، اسی روایت کو ذکر اور اسکی تائید بھی کی ہے:

3 . وروي أن امرأة أتت بولد لستة أشهر من وقت النكاح في زمان عمر رضي الله عنه فهم عمر برجمها ، فقال علي رضي الله عنه لا سبيل لك عليها ، وتلا قوله تعالي : * ( وحمله وفصاله ثلاثون شهرا ) فقال عمر : لولا علي لهلك عمر .

روایت نقل ہوئی ہے کہ عمر کے زمانے میں ایک عورت نے اپنی شادی کے 6 ماہ بعد ایک بچے کو جنم دیا۔ جب عمر کو اس بات کا پتا چلا تو اس نے حکم دیا کہ اس عورت نے زنا کیا ہے، لہذا اسکو سنگسار کیا جائے۔ جب علی (ع) کو اس جاہلانہ فتوے کا علم ہوا تو عمر سے کہا کہ تم کو ایسا حکم صادر کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے، پھر علی (ع) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ:

 (و حمله و فصاله ثلاثون شهرا) سوره احقاف آیت 15

بے شک خداوند نے قرآن میں حمل اور دودھ پلانے کی کل مدت تیس مہینے ذکر کی ہے.....،

یہ سن کر عمر نے کہا کہ: اگر علی نہ ہوتے تو میں عمر ہلاک ہو جاتا۔

مواقف ايجي ج 3 ص 636 ، تفسير سمعاني ج 5 ص 154.

خوارزمی نے اسی واقعے کو نقل کرنے کے بعد عمر کے الفاظ کو مکمل طور پر اس طرح سے بیان کیا ہے کہ:

عجزت النساء أن تلدن مثل علي بن أبي طالب ، لولا علي لهلك عمر۔

عرب کی عورتیں اس سے عاجز ہیں کہ اب کوئی علی ابن ابی طالب جیسے انسان کو دوبارہ جنم دیں سکیں، اگر علی نہ ہوتے تو میں عمر ہلاک ہو جاتا۔

المناقب موفق خوارزمي ص 81

اعوذ بالله من كل معضلة:

دوسرے بھی بہت سے واقعات میں عمر سے کچھ دوسرے الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں اور قابل توجہ ہے کہ عمر خدا کی پناہ مانگتا ہے ہر اس مشکل سے کہ جس کے حل کرنے کے لیے حضرت علی (ع) موجود نہ ہوں اور اس مسئلے کو حل نہ کریں۔

ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب فتح الباری ميں لکھا ہے کہ:

وفي كتاب النوادر للحميدي والطبقات لمحمد بن سعد من رواية سعيد بن المسيب قال كان عمر يتعوذ بالله من معضلة ليس لها أبو الحسن يعني علي بن أبي طالب۔

عمر ہمیشہ خدا کی پناہ مانگتا تھا ہر اس مشکل سے کہ جس کے حل کرنے کے لیے حضرت علی(ع) موجود نہ ہوں۔

فتح الباري ، ابن حجر ، ج 13 ، ص 286.

وقال أحمد بن زهير حدثنا أبي قال حدثنا ابن عيينة عن ابن جريح عن ابن أبي ملكية عن ابن عباس قال قال عمر علي أقضانا قال أحمد ابن زهير حدثنا عبيد الله بن عمر القواريري حدثنا مؤمل بن إسماعيل حدثنا سفيان الثوري عن يحيي بن سعيد عن سعيد بن المسيب قال كان عمر يتعوذ بالله من معضلة ليس لها أبو الحسن.

ترجمه:....................................

استيعاب ، ابن عبدالبر ، ج 3 ، ص 1103 .

اسی طرح اہل سنت کی مندرجہ ذیل معتبر کتب میں بھی یہ روایت ذکر ہوئی ہے:

فيض القدير ، مناوي ، ج 4 ، ص 470 ،

اسدالغابة ، ابن اثير ، ج 4 ، ص 23 ،

تهذيب التهذيب ، ابن حجر ، ج 7 ، ص 296 ،

من حياة خليفة عمر بن الخطاب ، احمد البكري ، ص 320 ،

نهج الايمان ، ابن جبر ، ص 147 ،

ينابيع المودة ، قندوزي حنفي ، ج 2 ، ص 405 ،

تاج العروس ، ج 15 ، ص497 ،

تاويل مختلف الحديث ، ابن قتيبه ، ص 152 ،

الفائق في غريب الحديث ، زمخشري ، ج 2 ، ص 375 ،

تاريخ مدينه دمشق ، ج 25 ، ص 369 و ج 42 ، ص 406 ،

تاريخ الاسلام ، ذهبي ، ج 3 ، ص 638 ،

البداية و النهاية ، ابن كثير ، ج 7 ، 397 ،

المناقب ، موفق خوارزمي ، ص 96 ،

غريب الحديث ، ابن قتيبه ، ج 2 ، ص 293 ،

النهاية في غريب الحديث ، ج 3 ، ص 254 ،

لسان العرب ، ابن منظور ، ج 11 ص 453 .

التماس دعا.....




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات