2024 March 19
کیا امیر المؤمنین علی (ع) تین خلفاء کی خلافت کو شرعی اور جائز جانتے تھے؟
مندرجات: ٥٣٨ تاریخ اشاعت: ٢٨ November ٢٠٢٢ - ٠١:٠٧ مشاہدات: 11082
سوال و جواب » امام علی (ع)
جدید
کیا امیر المؤمنین علی (ع) تین خلفاء کی خلافت کو شرعی اور جائز جانتے تھے؟

 
 
 
 
 
 
 
 
 

  سوال:

 کیا امیر المؤمنین علی (ع) تین خلفاء کی خلافت کو شرعی اور جائز جانتے تھے ؟

توضيح سؤال :

  
حضرت امير (ع) نے معاویہ کو خط لکھا کہ:

إِنَّهُ بَايَعَنِي الْقَوْمُ الَّذِينَ بَايَعُوا أَبَا بَكْرٍ وَ عُمَرَ وَ عُثْمَانَ عَلَي مَا بَايَعُوهُمْ عَلَيْهِ فَلَمْ يَكُنْ لِلشَّاهِدِ أَنْ يَخْتَارَ وَ لا لِلْغَائِبِ أَنْ يَرُدَّ وَ إِنَّمَا الشُّورَي لِلْمُهَاجِرِينَ وَ الْأَنْصَارِ فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَي رَجُلٍ وَ سَمَّوْهُ إِمَاماً كَانَ ذَلِكَ لِلَّهِ رِضًا فَإِنْ خَرَجَ عَنْ أَمْرِهِمْ خَارِجٌ بِطَعْنٍ أَوْ بِدْعَةٍ رَدُّوهُ إِلَي مَا خَرَجَ مِنْهُ فَإِنْ أَبَي قَاتَلُوهُ عَلَي اتِّبَاعِهِ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ وَ وَلَّاهُ اللَّهُ مَا تَوَلَّی.

بے شک جہنوں نے میری بیعت کی ہے، انھوں نے ہی ابوبکر ، عمر اور عثمان کے ساتھ بھی انہی شرائط کے ساتھ بیعت کی تھی، پس جو بیعت کرنے کے وقت حاضر تھا، وہ اس خلیفہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی بیعت نہیں کر سکتا، اور جو بیعت کے وقت حاضر نہیں تھا، وہ لوگوں کی بیعت کا انکار نہیں کر سکتا۔ بے شک شورای مسلمین، مہاجرین اور انصار کے لیے ہے، پس لوگ اگر کسی کی امامت پر جمع ہو جائیں اور اسکو اپنا امام انتخاب کر لیں تو خداوند کی رضایت اور خوشنودی بھی اسی میں ہے۔

اب جو لوگوں کے کام کی مذمت کرے یا ایک بدعت کو ایجاد کرے تو اسکو لوگوں کی قانونی بیعت کی طرف پلٹایا جائے گا، اگر وہ اس پر راضی نہ ہو تو اس سے مقابلہ کیا جائے گا، کیونکہ وہ مسلمانوں کے راستے سے دور ہوا ہے، خداوند بھی اسکو اسکی گمراہی میں آزاد چھوڑ دے گا۔

نهج البلاغة: خط نمبر 6.

بعض لوگ اس خط کو دلیل لاتے ہیں کہ ابوبکر، عمر اور عثمان کی خلافت شرعی اور قانونی تھی اور کہتے ہیں کہ:

اس خط میں علی (ع) نے واضح طور پر کسی کی بھی امامت کو شرعی ہونے پر مہاجرین و انصار کے اجماع کو صحیح کہا ہے، اور اسی اجماع کو اپنی خلافت کے شرعی ہونے کے بارے میں بھی صحیح کہتے ہیں اور اسی اجماع کو مورد رضایت خداوند بھی کہتے ہیں اور جو بھی اس اجماع کی مخالفت کرے، اس سے جنگ کرنے کو بھی حلال و جائز کہا ہے۔

اس کے جواب میں کہنا چاہیے کہ علی (ع) نے جو معاویہ کو یہ خط لکھا ہے، اس میں چند نکتے قابل توجہ ہیں: 

 
 یہ بات مسلّم ہے کہ امام علی (ع) نے اس خط میں ایک قاعدہ کلی بیان نہیں کیا، بلکہ وہ اس خط میں ایک ضدی دشمن معاویہ کے ساتھ احتجاج و استدلال کر رہے ہیں کہ جو مہاجرین و انصار کی بیعت کی وجہ سے خلفاء کی خلافت کو شرعی و قانونی جانتا تھا، یعنی معاویہ جیسے ضدی خصم کے ساتھ اسی کے قابل قبول عقائد و نظریات کے ساتھ استدلال کر رہے ہیں کہ استدلال کے اس طریقے کو بعنوان:

و جادلهم بالتی هی أحسن " کہتے ہیں۔

واضح عبارت کے ساتھ کہ: حضرت امیر (ع)، معاویہ سے کہ جو عمر و عثمان کی طرف سے شام کا حاکم تھا، اور ان دونوں کو شرعی و قانونی خلیفہ مانتا تھا، مخاطب ہو کر رہے ہیں کہ: اے معاویہ اگر تیری نظر میں ان خلفاء کی خلافت کے شرعی و قانونی ہونے کی دلیل مہاجرین اور انصار کا جمع ہو کر اجتماع کرنا ہے، اور تم نے بڑے آرام سے اس بناء پر انکی خلافت کو قبول کر لیا تھا تو اب مجھے بھی تو انہی مہاجرین اور انصار نے اجتماع کر کے بعنوان خلیفہ انتخاب کیا ہے، لیکن اب تم میری خلافت کو قبول نہیں کر رہے اور مجھے مسلمین کا خلیفہ قبول نہیں کر رہے !!!

کیونکہ کتاب نہج البلاغہ کے جمع کرنے والے کا اصلی ہدف، حضرت امیر کے فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اعلی ترین کلام و کلمات کو جمع کرنا تھا، اسی وجہ سے مؤلف نے اس خط کے بعض حصے کو ذکر نہیں کیا، لیکن دوسرے مؤلفین نے جیسے نصر بن مزاحم اور ابن قتيبہ دينوری نے اس خط کو تھوڑی تفصیل سے نقل کیا ہے اور اس خط میں بعض ایسے نکات ہیں کہ جو حقیقت کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔

حضرت امیر (ع) کے خط کی ابتدا میں آیا ہے کہ:

فإنّ بيعتی بالمدينة لزمتک و أنت بالشام .

اے معاویہ جس طرح ابوبکر اور عمر کی بیعت مدینہ میں ہوئی اور تم شام میں تھے اور تم نے انکی خلافت کو قبول کر لیا تھا، اسی اب میری بھی بیعت مدینہ میں ہوئی ہے اور تم شام میں ہو، اب تم کو میری خلافت کو بھی قبول کر لینا چاہیے، ( لیکن اب تم مکر و فریب سے بہانے بازی کر کے میری خلافت کر قبول نہیں کر رہے!!!)،

وقعة صفين- ابن مزاحم المنقری ص 29 - با تحقيق عبد السلام محمد ہارون- چاپ مؤسسة العربيّة الحديثة

الامامة و السياسة - ابن قتيبة الدينوری - با تحقيق شيری ج 1- ص 113 و با تحقيق زينی - ج 1 - ص 84

 المناقب - موفق الخوارزمی - متوفی 568ہجری - ص 202 - با تحقيق شيخ مالک محمودی - چاپ جامعہ مدرسين قم

 جواهر المطالب - ابن دمشقی شافعی ج 1 - ص 367- با تحقيق شيخ محمودی - چاپ مجمع احياء الثقافة الاسلاميّة

 تاريخ مدينة دمشق - ابن عساكر ج 59 - ص 128 - با تحقيق علی شيری - چاپ دار الفكر

 شرح نهج البلاغة - ابن أبی الحديد  ج 3 - ص 75 اور ج 14- ص 35 و 43 .

حضرت امیر (ع) نے یہ استدلال، معاویہ کی انکی کی خلافت کو قبول نہ کرنے کی بہت ہی گھٹیا اور پست دلیل کے جواب میں بیان کیا تھا۔ معاویہ نے علی (ع) کی خلافت کو قبول نہ کرنے پر یہ جھوٹا بہانہ لایا تھا کہ کیونکہ شام کے لوگوں نے آپ کی خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، اسلیے میں بھی اے علی تمہاری خلافت کو قبول نہیں کروں گا !!!

حضرت امیر (ع) نے معاویہ کے اس پست بہانے کے جواب میں اس سے کہا کہ :

و أما قولک أنّ بيعتی لم تصحّ لأنّ أهل الشام لم يدخلوا فيها كيف و إنّما هی بيعة واحدة ، تلزم الحاضر و الغائب ، لا يثنی فيها النظر ، و لا يستانف فيها۔

بہرحال تیری یہ بات، کہ کیونکہ اہل شام نے میری بیعت کرنے سے انکار کیا ہے، اسلیے تم نے بھی خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، یہ بات بہت ہی پیست اور بے بنیاد ہے، کیونکہ وہ بیعت جو حکومت اسلامی کے مرکز میں خلیفہ مسلمین کے ساتھ کی جاتی ہے، اس بیعت کو تمام حاضر اور غائب مسلمانوں پر قبول کرنا، لازم و واجب ہوتا ہے اور اس بیعت کے سامنے کسی کو اظہار نظر کرنے کا یا کسی دوسرے کی نئے  سرے سے بیعت کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔

شرح نهج البلاغة - ابن أبی الحديد ج 14- ص 43

 بحار الأنوار - علامہ مجلسی ج 33 - ص82

 الغدير - علامہ امينی ج 10- ص 320

نهج السعادة - محمودی ج 4 - ص 263

حضرت امیر (ع) نے خط کے آخر میں طلحہ اور زبیر کے بیعت توڑنے والی بات کا ذکر کیا ہے اور پھر معاویہ سے کہا ہے کہ دوسرے مسلمانوں کی طرح، خلیفہ مسلمین کی بیعت کر لے اور اس امت میں فتنہ ایجاد نہ کرے، ورنہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے لیے تم سے جنگ کرنے سے بھی دریغ نہیں کروں گا:

و إن طلحة و الزبير بايعانی ثم نقضا بيعتی، و كان نقضهما كردّهما، فجاهدتهما . علی ذلک حتی جاء الحق و ظهر أمر اللّه و هم كارهون. فادخل فيما دخل فيه المسلمون، فإن أحب الأمور إلی فيک العافية، إلا أن تتعرض للبلاء . فإن تعرضت له قاتلتک و استعنت اللّه عليک۔

مجھے اپنی جان کی قسم، اگر راہبر و خلیفہ کو انتخاب کرنے کی شرط، تمام لوگوں کا حاضر و جمع ہونا ہے تو ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے، بلکہ فقط وہ لوگ جو صلاحیت و قابلیت رکھتے ہیں، وہ جب راہبر و خلیفہ کو انتخاب کرتے ہیں تو دوسرے مسلمانوں پر ان کے انتخاب کو قبول کرنا واجب ہوتا ہے، تو بیعت کے وقت جو لوگ حاضر ہوں گے،نہ انکو انتخاب کے بعد تجدید نظر کا حق ہے اور نہ ہی وہ لوگ جو غائب ہیں، انکو کسی دوسرے کو انتخاب کرنے کا حق حاصل ہے۔

وقعة صفّين: ص 20 و 29،

 الامامة و السياسة: ج 1، ص 113،

 المناقب خوارزمی: ص 202،

 جواهر المطالب: ج 1، ص 367،

 تاريخ مدينة دمشق، ابن عساكر: ج 59، ص 128

 شرح نهج البلاغة، ابن أبی الحديد: ج 14، ص 36،

اگر امام علی (ع) تین پہلے خلفاء کی خلافت کو بیعت کے ذریعے شرعی و صحیح مانتے تھے تو پھر آپ نے خود ان تینوں کی بیعت کیوں نہیں کی ؟

یہ بات کہ حضرت امیر (ع) نے ان تین خلفاء کی بیعت نہیں کی تھی، تاریخ اسلام کے مسلّمات میں سے ہے، حتی اہل سنت کی معتبر کتب نے بھی اس بات کا اعتراف کا ہے کہ علی (ع) نے تین خلفاء کی بیعت نہیں کی تھی۔

محمد بن اسماعيل بخاری نے لکھا ہے کہ:

و عاشت بعد النبی صلی الله عليه و سلم، ستة أشهر فلما توفيت دفنها زوجها علی ليلا و لم يوءذن بها أبابكر و صلی عليها و كان لعلی من الناس وجه حياة فاطمة فلما توفيت استنكر علی وجوه الناس فالتمس مصالحة أبی بكر و مبايعته و لم يكن يبايع تلک الأشهر۔

فاطمہ زہرا (س) رسول خدا (ص) کے بعد چھے مہینے تک زندہ رہیں، جب وہ دنیا سے گئیں تو انکے شوہر نے انکو رات کو مخفیانہ طور پر دفن کیا اور ابوبکر کو خبر تک نہ دی اور خود اس پر نماز پڑھی۔ جب تک فاطمہ (س) زندہ تھیں، علی (ع) کا لوگ احترام کیا کرتے تھے، لیکن جب وہ دنیا سے چلی گئیں، تو لوگوں نے علی (ع) سے منہ پھیر لیا۔ ایسے حالات میں علی (ع) نے ابوبکر سے صلح و بیعت کرنے کا سوچا۔ علی (ع) نے ان چھے ماہ میں کہ فاطمہ زندہ تھیں، ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی۔

صحيح البخاری، ج 5، ص 82 .

اسکے بعد بھی جب بیعت کی تھی تو وہ بھی اپنے اختیار و شوق سے نہیں کی تھی، بلکہ ان سے زبردستی زور سے بیعت لی گئی تھی، جیسا کہ حضرت امیر نے کتاب نہج البلاغہ کے خط نمبر 28 میں لکھا ہے کہ:

إنّی كنت أقاد كما يقاد الجمل المخشوش حتی أبايع۔

مجھے میرے گھر سے زبردستی گھسیٹ گھسیٹ کر مسجد لے کر گئے، جس طرح کہ ایک اونٹ کو اسکی لگام سے پکڑ کر لے جاتے ہیں اور وہ نہ ہی تو فرار کر سکتا ہے اور نہ اسکا کوئی اس میں ارادہ و اختیار ہوتا ہے.....،

اور جالب یہ ہے کہ تاریخ میں ہے کہ جب امیر المؤمنین کو مسجد لایا گيا تو، انھوں نے حضرت امیر سے کہا کہ:

فقالوا له : بايع . فقال : إن أنا لم أفعل فمه ؟ ! قالوا : إذا والله الذی لا إله إلا هو نضرب عنقک ! قال : إذا تقتلون عبد الله و أخا رسوله، و أبو بكر ساكت لا يتكلم۔

ابوبکر کی بیعت کرو۔ حضرت امیر (ع) نے فرمایا کہ اگر میں بیعت نہ کروں تو کیا ہو گا ؟ انھوں نے کہا کہ خدا کی قسم، ہم تمہارے سر کو قلم کر دیں گے۔ اس پر حضرت امیر نے فرمایا کہ: اس صورت میں پھر تم لوگ خدا کے بندے اور رسول خدا کے بھائی کو قتل کرو گے۔ یہ سن کر ابوبکر خاموش ہو گیا۔

الإمامة و السياسة بتحقيق الشيری: 31، باب كيف كانت بيعة علی بن أبی طالب،

اور اس سے بھی جالب یہ ہے کہ مسعودی کی کتاب اثبات الوصیۃ میں آیا ہے کہ :

فروی عن عدی بن حاتم أنه قال : و الله ، ما رحمت أحدا قط رحمتی علی بن أبی طالب عليه السلام حين اتی به ملببا بثوبه يقودونه إلی أبی بكر و قالوا : بايع ، قال : فإن لم أفعل ؟ قالوا : نضرب الذی فيه عيناک ، قال : فرفع رأسه إلی السماء ، و قال : اللهم إنی اشهدک أنهم أتوا أن يقتلونی فإنی عبد الله و أخو رسول الله ، فقالوا له : مد يدک فبايع فأبی عليهم فمدوا يده كرها ، فقبض علی أنامله  فراموا بأجمعهم فتحها فلم يقدروا ، فمسح عليها أبو بكر و هی مضمومة .....،

امیر المؤمنین کو جب مسجد میں ابوبکر کے پاس لے کر گئے اور ان سے کہا کہ اب تم کو ضرور بیعت کرنی ہو گی۔ علی کا ہاتھ مٹھی کی صورت میں بند تھا۔ سب نے مل کر زور لگایا کہ حضرت امیر کے ہاتھ کو کھولیں اور انکے ہاتھ کو ابوبکر کے ہاتھ پر رکھیں، لیکن سب مل کر بھی انکے ہاتھ کو نہ کھول سکے۔ یہ دیکھ کر خود ابوبکر اٹھ کر آگے آيا اور اپنے ہاتھ کو حضرت امیر کے بند ہاتھ پر بیعت کے عنوان سے رکھ دیا.....،

 إثبات الوصية للمسعودی: 146،

 الشافي :ج 3 ص 244 ،      

علم اليقين :ج 2 ص 386 و 388 .

بيت الأحزان للمحدث القمی: 118،

الأسرار الفاطميّة للشيخ محمد فاضل المسعودی: 122،

علم اليقين للكاشانی: 686، المقصد الثالث ،

الهجوم علی بيت فاطمة (عليه السلام) لعبد الزهراء مهدی: 136، 343 . 

 
اگر علی (ع) انکی خلافت کو شرعی و جائز جانتے تو کیوں شورا والے دن جب چھے بندوں نے جب تین مرتبہ حضرت امیر کو کہا کہ اگر آپ ابوبکر اور عمر کی سنت کے مطابق عمل کریں گے تو ہم آپکی بیعت کر کے عمر کے آپکو اپنا خلیفہ انتخاب کر لیتے ہیں، لیکن علی نے پورے عزم و جزم سے اعلان کیا کہ میں اگر خلیفہ بن گیا تو میری خلافت فقط کتاب خدا اور سنت رسول کے مطابق ہو گی اور ابوبکر و عمر کی روش و طریقے پر میں عمل نہیں کروں گا۔

 اہل سنت کے معروف مؤرخ یعقوبی نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

و خلا بعلی بن أبی طالب ، فقال : لنا الله عليک ، إن وليت هذا الامر ، أن تسير فينا بكتاب الله و سنة نبيه و سيرة أبی بكر و عمر، فقال : أسير فيكم بكتاب الله و سنة نبيه ما استطعت . فخلا بعثمان فقال له : لنا الله عليک ، إن  وليت هذا الامر ، أن تسير فينا بكتاب الله و سنة نبيه و سيرة أبی بكر و عمر . فقال : لكم أن أسير فيكم بكتاب الله و سنة نبيه و سيرة أبی بكر و عمر ، ثم خلا بعلی فقال له مثل مقالته الأولی ، فأجابه مثل الجواب الأول ، ثم خلا بعثمان فقال له مثل المقالة الأولی ، فأجابه مثل ما كان أجابه ، ثم خلا بعلی فقال له  مثل المقالة الأولی ، فقال : إن كتاب الله و سنة نبيه لا يحتاج معهما إلی إجيری أحد . أنت مجتهد أن تزوی هذا الامر عنّی . فخلا بعثمان فأعاد عليه القول ، فأجابه بذلک الجواب ، و صفق علی يده۔

عبد الرحمن بن عوف، علی بن أبی طالب کے پاس آیا اور کہا: ہم تمہاری بیعت کرتے ہیں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جب تم خلیفہ بنو تو کتاب خدا، سنت رسول خدا اور ابوبکر و عمر کی سیرت کے مطابق عمل کرو گے، امام علی نے فرمایا کہ: میں جتنی حد تک ممکن ہوا، فقط کتاب خدا اور سنت رسول خدا کے مطابق عمل کروں گا۔

 اس کے بعد عبد الرحمن بن عوف عثمان کے پاس گیا، اور کہا: ہم تمہاری بیعت کرتے ہیں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ جب تم خلیفہ بنو تو کتاب خدا، سنت رسول خدا اور ابوبکر و عمر کی سیرت کے مطابق عمل کرو گے،عثمان نے جواب دیا: میں تم لوگوں میں کتاب خدا، سنت رسول خدا اور ابوبکر و عمر کی سیرت کے مطابق عمل کروں گا۔

عبد الرحمن دوبارہ علی کے پاس گیا اور دوبارہ اس نے وہی بات تکرار کی اور علی نے بھی اسکو دوبارہ وہی جواب دیا، پھر وہ دوبارہ عثمان کے پاس گیا، پھر اس نے عثمان کو وہی کہا اور عثمان نے بھی اسکو دوبارہ وہی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ پھر تیسری مرتبہ علی بن ابی طالب کے پاس گیا اور وہی بات امام سے کہی، تو اس پر حضرت امیر نے فرمایا کہ :

جب کتاب خدا اور سنت رسول خدا ہمارے پاس ہے تو پھر ہمیں کسی دوسرے کی سیرت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم ان بہانوں سے خلافت کو مجھ سے دور کرنا چاہتے ہو۔

پھر عبد الرحمن تیسری مرتبہ عثمان کے گیا اور وہی بات سے اس سے کی اور عثمان نے بھی دوبارہ وہی جواب دیا۔ یہ سن کر عبد الرحمن نے اپنا ہاتھ عثمان کے ہاتھ پر رکھ کر اسکی بیعت کر کے خلافت اسکو دے دی۔

تاريخ اليعقوبی - اليعقوبی - ج 2 - ص 162

احمد بن حنبل نے بھی اپنی مسند میں اس بات کو عبد الرحمن ابن عوف کی زبان سے اس طرح نقل کیا ہے کہ:

عن أبی وائل قال قلت لعبد الرحمن بن عوف كيف بايعتم عثمان و تركتم عليا رضی الله عنه قال ما ذنبی قد بدأت بعلی فقلت أبايعک علی كتاب الله و سنة رسوله و سيرة أبی بكر و عمر رضی الله عنهما قال فقال فيما استطعت قال ثم عرضتها علی عثمان رضی الله عنه فقبلها۔

أبی وائل کہتا ہے کہ میں نے عبد الرحمن ابن عوف سے کہا کہ: کیا ہوا ہے کہ تم نے علی کو چھوڑ کر عثمان کی بیعت کر لی ہے ؟ عبد الرحمن نے کہا کہ: اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے، میں نے علی (ع) سے کہا کہ میں تمہاری بیعت کرتا ہوں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ تم کتاب خدا، سنت رسول خدا (ص) اور ابوبکر و عمر کی سیرت کے مطابق عمل کرو گے، اس پر علی (ع) نے فرمایا کہ: نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا، اور میں نے یہی بات عثمان سے کہی۔ اس نے بات کو قبول کر لیا، لہذا میں نے عثمان کی بیعت کر لی۔

مسند احمد - الإمام احمد بن حنبل - ج 1 - ص 75

مجمع الزوائد - الهيثمی - ج 5 - ص 185

تاريخ مدينة دمشق - ابن عساكر - ج 39 - ص 202

أسد الغابة - ابن الأثير - ج 4 - ص 32 و .....

حضرت امیر کی بات کا یہ معنی ہے کہ قرآن اور سنت رسول خدا میں کوئی نقص و کمی نہیں ہے کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کی سیرت کو بھی ملایا جائے، یعنی میں انکی سیرت و سنت کو شرعی و جائز نہیں، لہذا میں انکی سنت کو اسلام کا جزء نہیں بنا سکتا۔

اور عبد الرحمن مکمل طور پر اس بات کو جانتا تھا کہ امام علی اس طرح کی شرط کو بالکل قبول نہیں کریں گے، لیکن اس کے با وجود جان بوجھ یہ شرط بار بار تکرار کی اور عملی طور پر خلافت کو حضرت امیر سے دور کر دیا اور خلافت کو اسکو دے دیا کہ جس کو شورا بیٹھنے سے پہلے ہی خلافت دینے کا پروگرام بن چکا تھا۔

اگر امیر المؤمنین ان دونوں کی خلافت و سیرت کو شرعی و قانونی جانتے ہوتے تو اس حسّاس موقعے پر عبد الرحمن کی شرط کو مان لیتے اور رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد مزید بارہ سال گھر میں نہ بیٹھتے۔

اور حتی علی (ع) جب عثمان کے بعد ظاہری طور پر خلیفہ بن گئے تھے تو، جب ربيعہ بن ابی شداد خثعمی نے ان حضرت کو مشورہ دیا کہ میں آپ کی اس شرط کے ساتھ بیعت کروں گا کہ آپ ابوبکر و عمر کی سیرت پر عمل کرو، حضرت امیر نے پھر بات کو ماننے سے پھر انکار کر دیا اور فرمایا کہ :

ويلک لو أن أبا بكر و عمر عملا بغير كتاب الله و سنة رسول الله صلی الله عليه و سلم لم يكونا علی شئ من الحق فبايعه ...

بہت افسوس کی بات ہے کہ اگر ابوبکر و عمر نے کتاب خدا اور سنت رسول خدا کے خلاف عمل کیا ہو تو، وہ حق پر نہیں ہوں گے تو پھر انکی سیرت و سنت کی کوئی قیمت نہیں ہو گی۔

تاريخ الطبری ، الطبری ، ج 4 ، ص 56 .

 

حضرت امیر (ع) نے فرمایا کہ:

وَ إِنَّمَا الشُّورَی لِلْمُهَاجِرِينَ وَ الْأَنْصَارِ فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَی رَجُلٍ وَ سَمَّوْهُ إِمَاماً كَانَ ذَلِک لِلَّهِ رِضًا۔

اگرچہ بعض لوگ ان جملات سے مہاجرین و انصار کی برپا کردہ شورا سے منتخب شدہ خلافت کے شرعی و قانونی ہونے کے بارے میں استدلال کرتے ہیں، لیکن یہ نظریہ بالکل غلط ہے، کیونکہ:

 
 

حضرت امیر (ع) نے یہ بات معاویہ سے کی تھی کہ جو خود اور دوسرے طلقاء کی بیعت نہ کرنے کی وجہ سے، ان حضرت کی خلافت کا انکار کرنا چاہتا تھا۔ علی (ع) نے اس خط میں فرمایا ہے کہ:

وَ إِنَّمَا الشُّورَی لِلْمُهَاجِرِينَ وَ الْأَنْصَارِ۔

اگر فرض بھی کریں کہ خلیفہ کا انتخاب کرنا، شورا کی بنیاد پر بھی ہو، شورا مہاجرین اور انصار کا حق مسلّم ہے، تو اے معاویہ تو نہ مہاجرین میں سے ہے اور نہ ہی انصار میں سے ہے، بلکہ تو فتح مکہ والے سال مسلمانوں کی شمشیروں کے ڈر سے ظاہری طور پر مسلمان ہوا ہے، تمہیں مسلمانوں پر خلافت و حکومت کرنے سے کیا کام ہے !!!

علی (ع) نے جنگ صفین میں معاویہ اور اس کے لشکر کے بارے میں واضح طور پر فرمایا تھا کہ

فَوَ الَّذِی فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسَمَةَ مَا أَسْلَمُوا وَ لَكِنِ اسْتَسْلَمُوا وَ أَسَرُّوا الْكُفْرَ فَلَمَّا وَجَدُوا أَعْوَاناً عَلَيْهِ أَظْهَرُوهُ۔

اس خدا کی قسم کہ جس نے دانے میں شگاف ایجاد کیا ہے، اور مخلوقات کو خلق کیا ہے، انھوں نے اسلام کو دل سے قبول نہیں کیا تھا، بلکہ مجبوری کی حالت میں ظاہری طور پر مسلمان ہوئے تھے، انھوں نے اپنے کفر کو دل میں پنہان کیا، لیکن جب اپنے اعوان و انصار کو دیکھا تو کفر پنہانی کو اسلام و مسلمانوں کے خلاف ظاہر کر دیا۔

خطبه 16.

امیر المؤمنین علی کے با وفا صحابی عمار یاسر نے بھی اپنے امام کی پیروی میں معاویہ اور اسکے ساتھیوں کے بارے میں کہا ہے کہ:       

و اللّه ما أسلموا ، و لكن استسلموا و أَسَرُّوا الْكُفْرَ فَلَمَّا رأوا عليه أَعْوَاناً عَلَيْهِ أَظْهَرُوهُ .

خدا کی قسم انھوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا تھا، بلکہ  ظاہری طور پر اسلام کو قبول کیا تھا اور جب طاقت و قدرت حاصل کر لی تو اپنے باطنی کفر کو ظاہر کر دیا۔

مجمع الزوائد: ج1 ص113، عن الطبرانی

مکہ کے فتح ہونے کے بعد ہجرت ختم ہو گئی، جس طرح کہ بخاری نے اپنی کتاب میں رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ:

 لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ فَتْحِ مَكَّةَ .

صحيح البخاری، ج 4، ص 38، ح 3079، كتاب الجهاد و السير، ب 194 ، باب لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ .

عایشہ سے بھی نقل کیا ہے کہ:

انْقَطَعَتِ الْهِجْرَةُ مُنْذُ فَتَحَ اللَّهُ علی نَبِيِّهِ صلی الله عليه و سلم مَكَّةَ.

جس دن سے خداوند نے اپنے پیغمبر کے لیے مکہ کو فتح کیا تو اس دن سے ہجرت ختم ہو گئی ہے۔

صحيح البخاری، ج 4، ص 38، ح 3080 ، كتاب الجهاد و السير، ب 194 ، باب لاَ هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ .

ابوبکر کی خلافت کے وقت کوئی شورا نہیں تھی، بلکہ خود ابوبکر کے قول کے مطابق:

إنّ بيعتی كانت فلتة وقی اللّه شرّها و خشيت الفتنة .

میری بیعت اچانک اور بغیر سوچے سمجھے تھی، لیکن خداوند نے ہمیں اس خلافت کے شر سے محفوظ رکھا اور میں نے اس امت میں فتنے کے ڈر سے خلافت کو قبول کیا تھا۔

أنساب الأشراف للبلاذری، ج 1 ص 590،

       شرح نهج البلاغة لابن أبی الحديد، ج 6 ص 47 بتحقيق محمد ابو الفضل .

عمر نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ :

إنّ بيعة أبی بكر كانت فلتة وقی اللّه شرّها فمن عاد إلی مثلها فاقتلوه .

ابوبکر کی بیعت، اچانک و بغیر سوچے سمجھے ہوئی تھی، لیکن خداوند نے ہمیں اس خلافت کے شر سے محفوظ رکھا اور جو بھی دوبارہ اس جیسی بیعت کے ساتھ خلیفہ بنے تو اسے قتل کر دو !!!

شرح نهج البلاغة لابن أبی الحديد، ج 2 ص 26،

       صحيح البخاری، ج 8، ص 26، كتاب المحاربين، باب رجم الحبلی من الزنا؛

مسند احمد، ج 1، ص 55 . 

حضرت امیر انتصابی خلافت کے معتقد تھے اور انتخابی خلافت کو قرآن و سنت کے خلاف جانتے تھے۔ یہ بات کتاب نہج البلاغہ میں بار بار ذکر کی گئی ہے۔ حضرت امیر نے خلافت کو آل محمد (ع) کے لیے مخصوص کہا ہے اور اپنے اس دعوی پر رسول خدا (ص) کی وصیت کو بھی ذکر کیا ہے:

و لهم خصائصُ حقِّ الولاية، و فيهم الوصيّةُ و الوِراثةُ.

ولایت آل محمد کا مسلّم حق ہے، اور یہی رسول خدا کے وصی و وارث ہیں۔

نهج البلاغة عبده ج 1 ص 30،

نهج البلاغة ( صبحی الصالح ) خطبة 2 ص 47،

شرح نهج البلاغة ابن أبی الحديد ج 1 ص 139،

ينابيع المودة قندوزی حنفی ج 3 ص 449 .

اور مصر کے لوگوں کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ:

فو اللّه ما كان يُلْقَی فی رُوعِی و لا يَخْطُرُ بِبالی أنّ العَرَب تُزْعِجُ هذا الأمْرَ من بعده صلی اللّه عليه و آله عن أهل بيته ، و لا أنّهم مُنَحُّوهُ عَنّی من بعده.

خدا کی قسم میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور بالکل میری عقل بھی اسکو قبول نہیں کرتی تھی کہ یہ لوگ اس طرح رسول خدا کی وصیت کو پس پشت ڈال دیں گے اور خلافت کو خاندان رسالت سے دور کر دیں گے۔

نهج البلاغة، الكتاب الرقم 62، كتابه إلي أهل مصر مع مالک الأشتر لمّا ولاه إمارتها،

شرح نهج البلاغه ابن أبي الحديد: ج6 ص 95، ج17 ص 151          الإمامة و السياسة: ج1 ص 133 بتحقيق الدكتور طه الزينی ط. مؤسسة الحلبی القاهرة .

اور خطبہ نمبر 74 میں فرمایا ہے کہ:

لَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّی أَحَقُّ النَّاسِ بِهَا مِنْ غَيْرِی وَ اللَّهِ لَأُسْلِمَنَّ مَا سَلِمَتْ أُمُورُ الْمُسْلِمِينَ وَ لَمْ يَكُنْ فِيهَا جَوْرٌ إِلَّا عَلَيَّ خَاصَّةً الْتِمَاساً لِأَجْرِ ذَلِک وَ فَضْلِهِ وَ زُهْداً فِيمَا تَنَافَسْتُمُوهُ مِنْ زُخْرُفِهِ وَ زِبْرِجِهِ.

بے شک تم جانتے ہو کہ دوسروں کی نسبت میں خلافت کے لیے مناسب تر ہوں، خدا کی قسم جو کچھ تم لوگوں نے انجام دیا ہے، میں اسکو برداشت کر لیتا ہوں، تا کہ مسلمانوں کے حالات تھوڑے بہتر ہو جائیں اور ان میں فتنہ و اختلاف ایجاد نہ ہو، میں چاہتا ہوں کہ تمہارے اس کام سے فقط مجھ پر ظلم ہو،( اسلام کو نقصان نہ ہو ) اور اس صبر اور سکوت کرنے پر میں فقط خداوند سے اجر چاہتا ہوں اور جس درہم و دینار کے لیے تم ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہو، میں اس سے دوری اختیار کرتا ہوں۔ 

 حضرت امیر خلفاء کی خلافت کو جمہوریت کی بنیاد پر عوامی نہیں جانتے تھے، بلکہ واضح طور پر کہتے ہیں انکی حکومت زبردستی ظلم کے ساتھ غصب شدہ تھی۔ جس طرح کہ انھوں نے ابوبکر کو مخاطب کر کے کہا کہ:

و لكنّک استبددت علينا بالأمر و كنّا نری لقرابتنا من رسول اللّه صلی اللّه عليه و سلم نصيباً حتّی فاضت عينا أبی بكر۔

اے ابوبکر تم نے میرے ساتھ ظلم کیا ہے اور رسول خدا سے قرابت کی وجہ سے خلافت میرا مسلّم حق تھا، علی کی یہ بات سن کر ابوبکر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

صحيح البخاری: ج5 ص 82، كتاب المغازی، با غزوة خيبر، مسلم، ج 5، ص 154، (چاپ جديد: ص 729 ح 1758)، كتاب الجهاد، باب قول النبی (ص) لانورَث ما تركناه صدقة . 

اور اسی طرح جب حضرت امیر کو خبر ملتی ہے کہ ابوبکر کا ارادہ ہے کہ اپنے بعد عمر کو خلیفہ بنائے تو آپ نے واضح طور پر بہت شدید اعتراض کیا، جیسا کہ ابن سعد نے اپنی کتاب طبقات میں نقل کیا ہے کہ:

عن عائشة قالت لما حضرت أبا بكر الوفاة استخلف عمر فدخل عليه علی و طلحة فقالا من استخلفت قال عمر قالا فماذا أنت قائل لربک قال بالله تعرفانی لأنا أعلم بالله و بعمر منكما أقول استخلفت عليهم خير أهلک.

عایشہ نے نقل کیا ہے کہ: ابوبکر کی زندگی کے آخری لحظات میں علی اور طلحہ، ابوبکر کے پاس گئے اور اس سے پوچھا کہ: اپنے بعد کس کو خلیفہ بنا کر اس دنیا سے جا رہے ہو ؟

ابوبکر نے جواب دیا: عمر کو،

اس پر علی و طلحہ نے کہا کہ: اس صورت میں تم خداوند کو کیا جواب دو گے ؟

ابوبکر نے جواب دیا: کیا تم مجھے خدا کے بارے میں معرفت دینا چاہتے ہو ؟ میں خدا اور عمر کو تمہاری نسبت بہتر جانتا ہوں، میں مرنے کے بعد خدا سے کہوں گا کہ خدایا: میں نے تیرے بہترین بندے کو اپنے بعد خلیفہ بنایا ہے۔

الطبقات: ج3 ص196،

تاريخ مدينة دمشق: ج44 ص 251

 عمر بن الخطاب للاستاذ عبد الكريم الخطيب ص 75 .

 

اور عثمان کے خلیفہ کے طور پر منتخب ہونے پر بھی علی (ع) نے واضح طور پر اپنے اعتراض و مخالفت کا اظہار کیا، یہاں تک کہ عبد الرحمن ابن عوف نے ان حضرت کو قتل کی دھمکی دی تھی:

قال عبد الرحمن بن عوف : فلا تجعل يا علی سبيلاً إلی نفسک ، فإنّه السيف لا غير .

عبد الرحمن ابن عوف نے کہا: اے علی اس اعتراض سے اپنے آپکو شمشیر سے قتل ہونے کے در پے پر قرار نہ دو.....،

الامامة و السياسة ، تحقيق الشيری ج 1 ص 45، تحقيق الزينی ج 1 ص 31 .

اور علی (ع) نے عمر کی بنائی ہوئی چھے بندوں کی شورا کے بارے میں بھی اعتراض کیا ہے:

فَيَا لَلَّهِ وَ لِلشُّورَی مَتَی اعْتَرَضَ الرَّيْبُ فِيَّ مَعَ الْأَوَّلِ مِنْهُمْ حَتَّی صِرْتُ أُقْرَنُ إِلَی هَذِهِ النَّظَائِرِ لَكِنِّی أَسْفَفْتُ إِذْ أَسَفُّوا وَ طِرْتُ إِذْ طَارُوا فَصَغَا رَجُلٌ مِنْهُمْ لِضِغْنِهِ وَ مَالَ الآخَرُ لِصِهْرِهِ مَعَ هَنٍ وَ هَنٍ إِلَی أَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ نَافِجاً حِضْنَيْهِ بَيْنَ نَثِيلِهِ وَ مُعْتَلَفِهِ وَ قَامَ مَعَهُ بَنُو أَبِيهِ يَخْضَمُونَ مَالَ اللَّهِ خِضْمَةَ الْإِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِيعِ إِلَی أَنِ انْتَكَثَ عَلَيْهِ فَتْلُهُ وَ أَجْهَزَ عَلَيْهِ عَمَلُهُ وَ كَبَتْ بِهِ بِطْنَتُهُ.

خدا کی پناہ اس شوری سے ! میں کب اس شورا میں موجود افراد کے مساوی تھا کہ اب مجھے انکی طرح کا ایک شمار کر رہے ہیں، اسکے با وجود بھی میں نے ان کا ساتھ دیا۔ ان میں سے ایک مجھ سے کینہ رکھنے کی وجہ سے مجھ سے دور ہو گیا اور دوسرے نے اسکا داماد ہونے کی وجہ سے دامادی کو حقیقت پر ترجیح دی، اور وہ دونوں ( طلحہ و زبیر ) کہ انکا نام لینا ہی میرے لیے بہت برا ہے۔ یہاں تک کہ تیسرا بھی خلیفہ بن گیا، بہت زیادہ کھانے کی وجہ سے اسکے دونوں پہلو پھول گئے تھے، وہ ہمیشہ باورچی خانے اور بیت الخلاء کے درمیان ہی چکر لگاتا رہتا تھا۔ اس کے باپ کی طرف سے رشتے دار یعنی بنی امیہ، اس کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور بیت المال کو ایسے غارت و تباہ کرنا شروع کر دیا، جیسے ایک بھوکا اونٹ بہار کے موسم میں اگنے والی گھاس پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ عثمان نے اس قدر فضول خرچی کی کہ اس کا سب کچھ لوگوں کے سامنے آ گيا۔ اسی وجہ سے لوگ قیام کرنے پر مجبور ہو گئے اور اسکو اسکا بڑا پیٹ لے ڈوبا۔

نهج البلاغه، خطبه 3 . 

حضرت امیر ابوبکر اور عمر کو جھوٹے، گناہ کار، حیلے گر اور خیانت کار جانتے تھے۔

یہ مطلب صحیح مسلم میں خود عمر کی زبان سے نقل ہوا ہے کہ: عمر نے علی (ع) اور عباس سے کہا کہ:

فلمّا توفّی رسول اللّه صلی اللّه عليه و آله، قال أبو بكر: أنا ولی رسول اللّه... فرأيتماه كاذباً آثماً غادراً خائناً... ثمّ توفّی أبو بكر فقلت : أنا وليّ رسول اللّه صلی اللّه عليه و آله، ولی أبی بكر، فرأيتمانی كاذباً آثماً غادراً خائناً ! و اللّه يعلم أنّی لصادق، بارّ، تابع للحقّ! .

رسول خدا کی وفات کے بعد ابوبکر نے کہا کہ میں رسول خدا کا جانشین ہوں، اور تم دونوں ( علی و عباس ) ابوبکر کو جھوٹا، گناہ کار، حیلے گر اور خائن کہتے ہو، اور ابوبکر کے مرنے کے بعد، میں نے کہا کہ میں رسول خدا اور ابوبکر کا جانشین ہوں۔ اور تم دونوں پھر مجھے بھی جھوٹا، گناہ کار، حیلے گر اور خائن کہتے ہو۔

صحيح مسلم ج 5 ص 152، (ص 728 ح 1757) كتاب الجهاد باب 15 حكم الفئ حديث 49،

فتح الباری ج 6 ص 144 

علی (ع) گذشتہ خلفاء کی خلافت کو غیر شرعی اور غیر قانونی جانتے تھے اور انکو اپنے مسلّم حق کی نسبت غاصب جانتے تھے۔ جس طرح کہ عقیل کو لکھے گئے خط میں بھی اس مطلب کو بیان کیا ہے:

فَجَزَتْ قُرَيْشاً عَنِّی الْجَوَازِی فَقَدْ قَطَعُوا رَحِمِی وَ سَلَبُونِی سُلْطَانَ ابْنِ أُمِّی۔

خداوند قریش کو ان کے برے اعمال کے ساتھ عذاب کرے، انھوں نے اپنی رشتے داری کے تعلق کو مجھ سے کاٹا ہے اور میری ماں کے بیٹے ( رسول خدا ) کی حکومت کو مجھ سے زبردستی چھینا ہے۔

نهج البلاغة، خط نمبر 36 .

ابن ابی الحدید کی نقل کے مطابق، حضرت امیر نے فرمایا کہ:

و غصبونی حقی ، و أجمعوا علی منازعتی أمرا كنت أولی به.

قریش نے میرے حق کو غصب کیا اور جس خلافت کے لیے میں سب سے زیادہ حقدار تھا، اسکے لیے انھوں نے مجھ سے جھگڑا اور اختلاف کیا۔

شرح نهج البلاغة لابن أبی الحديد، ج 4، ص 104، ج 9، ص 306 .

ابن قتیبہ کی نقل کے مطابق جب ابوبکر نے قنفذ کو علی کے پاس بھیجا تو اسکو کہا کہ:

يدعوكم خليفة رسول الله (ص)

رسول خدا کے خلیفہ نے تم کو بلایا ہے۔

علی (ع) نے جواب میں فرمایا کہ:

لسريع ما كذبتم علی رسول الله (ص)

کتنی جلدی تم نے رسول خدا پر جھوٹ باندھا ہے اور خود کو انکا خلیفہ قرار دیا ہے۔

ثمّ قال أبو بكر : عد إليه فقل : أمير المؤمنين يدعوكم ، فرفع علی صوته فقال : سبحان الله لقد ادعی ما ليس له .

ابوبکر نے پھر دوسری مرتبہ قنفذ کو علی کے پاس بھیجا اور اس سے کہا کہ: علی سے کہو کہ: امیر المؤمنین  ابوبکر نے تم کو بلایا ہے۔ علی (ع) نے جب یہ سنا تو اونچی آواز سے کہا: سبحان اللہ تم نے اس چیز کا دعوی کیا ہے کہ جس کا وہ اہل نہیں ہے۔

الإمامة و السياسة بتحقيق الزينی، ص 19 و بتحقيق الشيری، ص 30 .

کیا ان نکات اور مطالب کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ علی (ع) شورا کی منتخب کردہ خلافت کے قائل تھے اور وہ گذشتہ خلفاء کی خلافت کو شرعی اور قانونی جانتے تھے ؟؟؟

یقینا ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہو گا !!! 

حضرت امیر نے یہ جو فرمایا ہے کہ:

فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَی رَجُلٍ وَ سَمَّوْهُ إِمَاماً كَانَ ذَلِک لِلَّهِ رِضًا۔

پس اگر مہاجرین اور انصار کسی کے امام و خلیفہ ہونے پر جمع ہو جائیں اور اسکو امام و خلیفہ انتخاب کر لیں تو خداوند کی رضایت و خوشنودی بھی اسی میں ہے۔

اہل سنت حضرت امیر کے اس کلام سے خلفاء کی خلافت کو شرعی و قانونی ثابت نہیں کر سکتے، کیونکہ:

اولا: نہج البلاغہ کے بعض نسخوں میں  "كَانَ ذَلِكَ لِلَّهِ رِضًا "

کی بجائے " كَانَ ذَلِک رِضًا آیا ہے، یعنی لفظ اللہ کے بغیر جملہ آیا ہے۔

 (نهج البلاغة چاپ: مصر، قاهره، الاستقامة. كه كلمه «للّه» بریکٹ کے اندر ذکر ہوا ہے، یعنی یہ لفظ اصلی عبارت کا حصہ نہیں ہے ):

یعنی اگر مہاجرین اور انصار کسی کو خلافت کے لیے انتخاب کر لیں تو یہی ان کے اس انتخاب پر راضی ہونے کی دلیل بھی ہے اور یہ بیعت زبردستی اور شمشیر کی نوک پر نہیں لی گئی۔

ثانياً: اگر فرض بھی کر لیں کہ لفظ اللہ خطبے اور اصلی عبارت کا حصہ ہے تو اس عبارت کا یہ معنی ہو گا کہ وہ تمام مہاجرین اور انصار کہ جن میں حضرت علی (ع)، حضرت زہرا (س)، امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) بھی شامل ہوں اور یہ سب مل کر کسی کو خلیفہ و امام انتخاب کریں تو اس انتخاب پر خداوند بھی یقینا راضی ہو گا۔

 کیا حضرت زہرا (س) نے بھی ابوبکر کی بیعت کی تھی ؟

مگر صدیقہ شہیدہ حضرت زہرا (س) کی صحیح روایات کے مطابق، کی رضایت رسول خدا (ص) کی رضایت اور انکا غضب، رسول خدا (ص) کا غضب نہیں ہے،

حاکم نیشاپوری کی نقل کے مطابق رسول خدا (ص) نے حضرت زہرا سے فرمایا کہ:

إنّ اللّه يغضب لغضبک، و يرضی لرضاک.

خداوند تیرے غضب کی وجہ سے غضبناک اور تیری رضایت کی وجہ سے راضی ہوتا ہے۔

اس کے بعد حاکم نیشاپوری نے کہا ہے کہ:

هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه.

یہ حدیث صحیح ہے، لیکن بخاری اور مسلم نے اس کو اپنی اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا۔

مستدرک: ج3 ص 153

مجمع الزوائد: ج9 ص 203

الآحاد و المثانی للضحاک: ج5 ص 363

الإصابة: ج8 ح 266265

تهذيب التهذيب: ج21 ص 392

 سبل الهدی و الرشاد للصالحی الشامی: ج11 ص44 .

بخاری کی نقل کے مطابق، رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ:

فاطمة بَضْعَة منّی فمن أغضبها أغضبنی .

فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے بھی اسکو غضبناک کیا، اس نے مجھ کو غضبناک کیا ہے۔

صحيح البخاري ج4 ص 210، (ص 710، ح 3714)، كتاب فضائل الصحابة، ب 12 - باب مَنَاقِبُ قَرَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم . و ج4 ص 219 ، (ص 717، ح 3767) كتاب فضائل الصحابة ، ب 29 - باب مَنَاقِبُ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ .

مسلم نیشاپوری کی نقل کے مطابق، رسول خدا نے فرمایا کہ:

إِنَّمَا فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّی يُؤْذِينِی مَا آذَاهَا.

فاطمہ میرے تن کا ٹکڑا ہے، جس نے اسکو اذیت کی، اس نے مجھ کو اذیت کی ہے۔

صحيح مسلم ج7 ص 141 ح 6202 كتاب فضائل الصحابة رضي الله تعالي عنهم، ب 15 -باب فَضَائِلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ النَّبِيِّ عَلَيْهَا الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ .

اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ حضرت زہرا (س) نے نہ صرف ابوبکر کی بیعت نہیں کی، بلکہ اس پر غضب و غصے کی حالت میں اس دنیا سے چلی گئیں اور اس کو اپنے جنازے میں بھی شریک ہونے سے منع کر دیا۔

بخاری نے نقل کیا ہے کہ:

فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله عليه و سلم فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّی تُوُفِّيَتْ.

 رسول خدا کی بیٹی حضرت فاطمہ نے ابوبکر پر غضب کیا اور مرتے دم تک اس سے بات نہیں کی۔

صحيح البخاری: ج4 ص 42، ح 3093، كتاب فرض الخمس، ب 1 - باب فَرْضِ الْخُمُسِ .

خود حضرت زہرا (س) کی وصیت کے مطابق، حضرت امیر (ع) نے ان کو رات کی تاریکی میں دفن کیا، ابوبکر کو بی بی کے جنازے میں بھی آنے سے سختی سے منع کر دیا گیا تھا:

فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ، دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلاً، وَ لَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَ صَلَّی عَلَيْهَا .

صحيح بخاری، ج 5، ص 82، ح 4240، كتاب المغازی، ب 38، باب غَزْوَةُ خَيْبَرَ،

صحيح مسلم، ج 5، ص 154، ح 4470، كتاب الجهاد و السير (المغازی )، ب 16 - باب قَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وسلم «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ» . 

بخاری کی نقل کے مطابق علی نے چھے ماہ تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی:

و عاشت بعد النبی صلی الله عليه و سلم، ستة أشهر... و لم يكن يبايع تلک الأشهر .

حضرت فاطمہ رسول خدا کی وفات کے بعد چھے ماہ تک زندہ رہیں اور اس مدت میں علی نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی۔

        صحيح البخاری، ج 5، ص 82،

          صحيح مسلم، ج 5، ص 154.

کیا علی کا ابوبکر کی بیعت نہ کرنا، یہ ابوبکر کی خلافت کے غصبی اور غیر شرعی ہونے کی دلیل نہیں ہے ؟؟؟

کیا بنی ہاشم نے علی کی پیروی کرتے ہوئے، ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار نہیں کیا تھا ؟؟؟

بخاری کے استاد عبد الرزاق کی نقل کے مطابق:

فقال رجل للزهری : فلم يبايعه عليّ ستة أشهر ؟ قال: لا ، و لا أحد من بنی هاشم .

ایک شخص نے زہری سے کہا: کیا یہ بات صحیح ہے کہ علی نے چھے ماہ تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی ؟ اس نے جواب دیا: نہ علی اور نہ بنی ہاشم میں سے کسی نے بھی اس مدت میں ابوکر کی بیعت نہیں کی تھی۔

المصنف لعبد الرزاق الصنعانی، ج 5، ص 472 - 473.

اسی بات کو بیہقی نے سنن میں، طبری نے اپنی تاریخ میں، اور ابن اثیر نے اپنی دو کتابوں رجال و تاریخ میں نقل کیا ہے۔

اسد الغابة: ج3 ص 222

الكامل فی التاريخ ، ج 2 ، ص 325

السنن الكبری، ج 6، ص 300

تاريخ الطبری، ج 2، ص 448 .

ابن حزم عالم اہل سنت نے کہا ہے کہ:

و لعنة اللّه علی كلّ إجماع يخرج عنه علی بن أبی طالب و من بحضرته من الصحابة .

خداوند کی لعنت ہو ہر اس اجماع پر کہ علی اور ان کے ساتھ دوسرے صحابہ، اس اجماع سے خارج ہوں۔

المحلی: ج 9، ص 345، بتحقيق أحمد محمد شاكر، ط. بيروت - دارالفكر .

التماس دعا.....

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات