موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
حدیث غدیر کے بارے میں علمائے اہلسنت کےبعض اشکالات اور ان کے جوابات:
مندرجات: 997 تاریخ اشاعت: 20 شهريور 2024 - 19:32 مشاہدات: 15552
یاداشتیں » پبلک
جدید
حدیث غدیر کے بارے میں علمائے اہلسنت کےبعض اشکالات اور ان کے جوابات:

تاریخ رسالت میں سوائے حکم ولایت کے کوئی ایک بھی ایسا حکم یا الہی دستور نہیں ملتا، جو اتنے تفصیلی مقدمات اور اہتمام کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔ تپتے صحراء میں دھوپ کی شدید طمازت کے باوجود حاجیوں کے سوا لاکھ کے مجمع کو یکجا جمع کرنا اور رسول اسلام (ص) کا ایک طولانی خطبہ بیان کرنا صرف ایک حکم کے لیے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام کا یہ الہی حکم دیگر تمام احکامات سے ممتاز اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

غدیر کے دن ولایت کے مانند کسی حکم کا اعلان نہیں ہوا۔

یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کے اکثر بزرگ علماء نے مسئلہ غدیر اور حدیث غدیر سے متعلق گفتگو کی ہے، لیکن حدیث کی صحت کا اقرار کرنے کے باوجود مختلف غلط توجیہات کی بناء پر انہوں نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی امامت اور بلافصل خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ہم اس مختصر تحریر میں اہل سنت کے چند ایک علماء کا ذکر کرتے ہیں کہ جنہوں نے اپنی کتابوں میں اس حدیث کو جگہ دی ہے اور اس کے بارے میں اپنے نظریات قائم کیے ہیں نیز ان کے نظریات اور اشکال کا جواب دینے کی بھی کوشش کرتے ہیں:

حدیث غدیر امام احمد ابن حنبل کی نگاہ میں:

امام احمد حنبل نے اپنی کتاب مسند میں یوں بیان کیا ہے کہ:

حدثنا عبد اللہ، حدثنی ابی، ثنا عفان، ثنا حماد بن سلمہ، انا علی بن زید، عن عدی بن ثابت ، عن البراء بن عازب، قال: کنا مع رسول اللہ[ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم] فی سفر فنزلنا بغدیر خم فنودی فینا: الصلاۃ جامعۃ، و کسح لرسول اللہ[ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم] تحت شجرتین فصلی الظھر و اخذ بید علی [رضی اللہ عنہ] فقال: الستم تعلمون انی اولی بکل مومن من نفسہ؟ قالوا: بلی ، قال فاخذ بید علی فقال: من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ۔ قال فلقیہ عمر بعد ذلک فقال لہ: ھنیئا یابن ابی طالب اصبحت و امسیت مولی کل مومن و مومنۃ۔ [1]

براء ابن عازب کا کہنا ہے کہ: ایک سفر میں ہم رسول خدا (ص) کے ہمراہ تھے، غدیر خم کے مقام پر پہنچے ایک آواز دی گئی: الصلاۃ جامعۃ،(یعنی نماز جماعت کے لیے تیار ہو جاؤ) دو درختوں کے نیچے رسول خدا (ص) کے لیے انتظام کیا گیا، رسول خدا نماز بجا لائے اور پھر حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کیا میں سب کی جان و مال کا مالک نہیں ہوں ؟ سب نے کہا ہاں آپ ہماری جان و مال کے مالک ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں، خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھے۔ پھر عمر آپ کے گلے ملا اور کہا مبارک ہو اے ابو طالب کے بیٹے آپ نے صبح و شام کی ہے، اس حالت میں کہ آپ ہر مؤمن مرد و عورت کے مولا ہیں۔

یہ روایت (مسند احمد) میں مختلف مقامات پر بہت زیادہ سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔[2]

حافظ ابن عبد اللہ نیشاپوری نے بھی مستدرک میں مختلف الفاظ میں مختلف مقامات پر حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔ منجملہ:

حدثنا ابوالحسین محمد بن احمد بن تمیم الحنظلى ببغداد، ثنا ابوقلابة عبدالملک بن محمد الرقاشى، ثنا یحیى بن حماد، وحدثنى ابوبکر محمد بن احمد بن بالویه وابوبکر احمد بن جعفر البزاز، قالا ثنا عبدالله بن احمد بن حنبل، حدثنى ابى، ثنا یحیى بن حماد و ثنا ابونصر احمد بن سهل الفقیه ببخارى، ثنا صالح بن محمد الحافظ البغدادى، ثنا خلف بن سالم المخرمى، ثنا یحیى بن حماد، ثنا ابوعوانة، عن سلیمان الاعمش، قال ثنا حبیب بن ابى ثابت عن ابى الطفیل، عن زید بن ارقم ـ رضى اللّه عنه ـ قال: لمّا رجع رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله وسلم ـ من حجة الوداع ونزل غدیرخم امر بدوحات فقممن فقال: کانّى قد دعیت فاجبت. انى قد ترکت فیکم الثقلین احدهما اکبر من الآخر: کتاب اللّه تعالى وعترتى فانظروا کیف تخلفونى فیهما فانّهما لن یفترقا حتى یردا علىّ الحوض. ثم قال: ان اللّه ـ عزّ وجلّ ـ مولاى وانا مولى کل مؤمن. ثم اخذ بید علی ـ رضى اللّه عنه ـ فقال: من کنت مولاه فهذا ولیّه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه. و ذکر الحدیث بطوله. هذا حدیث صحیح على شرط الشیخین ولم یخرجاه بطوله.[3]

اسی کتاب میں اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد دوسری سندوں کے ساتھ اسی روایت کو تکرار کیا ہے، دونوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ جملہ من کنت مولاہ سے پہلے کہتے ہیں:

ثم قال: أن تعلمون انى اولى بالمؤمنین من انفسهم ثلاث مرات قالوا: نعم فقال: رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله ـ من کنت مولاه فعلى مولاه.[4]

حدیث غدیر سنن ابن ماجہ اور ترمذی میں:

ابن ماجہ نے لکھا ہے کہ:

حدثنا على بن محمد، ثنا ابوالحسین، اخبرنى حماد بن سلمه، عن على ابن زید بن جدعان، عن عدىّ بن ثابت، عن البراء بن عازب، قال: اقبلنا مع رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله ـ فى حجّته التى حجّ فنزل فى بعض الطریق فامر الصلاة جامعة فأخذ بید علی فقال: ألست اولى بالمؤمنین من انفسهم؟ قالوا: بلى قال: الست اولى بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا: بلى. قال: فهذا ولىّ من أنا مولاه، اللهم وال من والاه اللهم عاد من عاداه۔[5]

ترمذی نے بھی " سنن " میں اسی مضمون کے ساتھ اس حدیث کو نقل کیا ہے۔[6]

حدیث غدیر کے بارے میں اسلامی فرقوں کے نظریات:

شیعہ امامیہ کا نظریہ:

شیعہ معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد لوگوں کی دنیاؤی اور دینی راہنمائی کا اہم مسئلہ خود لوگوں کے انتخاب پر نہیں چھوڑ دیا گیا۔ بلکہ رسول اکرم نے اسلام کی پہلی دعوت ( دعوت ذو العشیرہ) سے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک جگہ جگہ اس مسئلہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو اپنا بلافصل خلیفہ اور جانشین مقرر فرمایا ہے۔ حدیث غدیر انہیں روایات میں سے ایک ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہے۔

اہل سنت کا نظریہ:

اہل سنت شیعوں کے نظریہ کے مقابلے میں استدلال لاتے ہیں اور معتقد ہیں کہ یہ روایت حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کو ثابت نہیں کر سکتی صرف ان کی فضیلت کو بیان کرتی ہے۔ ہم یہاں پر ان کے نظریات کے بارے میں بحث و تحقیق کرتے ہیں۔

1- ایک روایت سے استدلال کرنے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اس کی سند صحیح ہو، دوسرے الفاظ میں، صرف اس روایت کو اس مسئلہ میں دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ جس کا پیغمبر اسلام (ص) سے صادر ہونا یقینی ہو۔ خاص طور پر شیعہ عقیدے کے مطابق جو مدعی ہیں کہ امامت کے مسئلہ میں ایک شخص کی روایت پر عمل کرنا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس اہم مسئلہ پر دلالت کرنے والی دلیل کو متواتر ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے بعض اہل سنت کے علماء نے حدیث غدیر کو غیر متواتر سمجھتے ہوئے، اسے استدلال کے قابل نہیں سمجھا۔ جیسے قاضی عضد الدین ایجی مواقف میں کہتا ہے کہ:

ہم اس روایت کی صحت کا انکار کرتے ہیں اور اس کے متواتر ہونے کا دعوی، بے دلیل ہے۔ کیسے یہ روایت متواتر ہے جبکہ اکثر اصحاب نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔[7]

ابن حجر ہیثمی کا کہنا ہے کہ: شیعہ فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ جس چیز کو امامت پر دلیل کے عنوان سے پیش ہونا چاہیے، اسے متواتر ہونا چاہیے۔ حالانکہ اس حدیث کا متواتر نہ ہونا، معلوم ہے۔ جیسا کہ اس حدیث کی صحت کے بارے میں اختلاف پہلے گزر چکا ہے، بلکہ وہ جنہوں نے اس حدیث کی صحت میں اشکال کیا ہے علماء حدیث میں سے ابو داود سجستانی، ابو حاتم رازی اور دوسرے لوگ ہیں پس یہ " خبر واحد " ہے جس کی صحت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[8]

ابن حزم اور تفتازانی نے بھی یہی بات کہی ہے۔[9]

جواب:

یہ اشکال ہر اس شخص کی نظر میں جو تھوڑی بہت تاریخ اسلام اور احادیث سے آشنائی رکھتا ہے، واضح ہے کہ تعصب اور بغض کی وجہ سے ہے۔ ورنہ حدیث غدیر کا انکار کرنا ان سوفسطائیوں کی طرح ہے جنہوں نے واقعیت کے موجود ہونے کا انکار کیا ہے، یا ان لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے جنگ بدر اور احد کا انکار کیا ہے۔ جو اسلام کے مسلّمات میں سے ہیں۔

ہم مختصرا یہاں پر اس روایت کے مصادر اور اس کی صحت کے اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کی تفصیل کو جاننے کے لیے تین تحقیقی کتابوں " الغدیر " علامہ امینی، " عبقات الانوار، علامہ میر حامد حسین اور " احقاق الحق و ملحقاتہ " شہید قاضی نور اللہ شوشتری کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

کتاب احقاق الحق میں علماء اہل سنت کے چودہ افراد پر مشتمل ایک فہرست نقل ہوئی ہے جن میں علامہ سیوطی، جزری، جلال الدین نیشاپوری، ترکمانی ذہبی شامل ہیں کہ ان سب نے حدیث غدیر کے تواتر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔[10]

ابن حزم نے بھی منہاج السنہ میں یہی کہا ہے۔[11]

علامہ امینی " الغدیر" میں اہل سنت کے 43 بڑے اور بزرگ علماء ( منجملہ: ثعلبی، واحدی، فخر رازی، سیوطی، قاضی شوکانی) کی عبارتوں کو نقل کرتے ہیں کہ جو حدیث غدیر کے صحیح السند ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ [12]

نیز اہل سنت کے 30 بڑے مفسرین ( منجملہ: ترمذی، طحاوی، حاکم نیشاپوری، قرطبی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر، ترکمانی) کی عبارتوں کو ان کے ناموں کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ ان سب نے اس آیت " یا ایھا الرسول بلّغ ما انزل الیک و ان لم تفعل۔۔۔" کے ذیل میں حدیث غدیر کو ذکر کرتے ہوئے اس آیت کو اس حدیث سے مربوط قرار دیا ہے۔ [13]

کتاب " احقاق الحق" میں حدیث غدیر کو اہلسنت کے 50 معتبر مصادر اور منابع سے نقل کیا ہے۔جیسے سسن المصطفی، مسند احمد، خصائص نسائی، عقد الفرید، حلیۃ الاولیاء وغیرہ۔[14]

یہاں پر ہم حدیث غدیر کے بارے میں اہل سنت کے بعض بزرگان کے اقوال کو کتاب الغدیر سے نقل کرتے ہیں:

ضیاء الدین مقبلی کا کہنا ہے کہ: اگر حدیث غدیر قطعی اور یقینی نہیں ہے تو کچھ بھی دین اسلام میں قطعی اور یقینی نہیں ہے۔

غزالی نے لکھا ہے کہ: حدیث غدیر کے متن پر اکثر مسلمین کا اجماع ہے۔

بدخشی نے کہا ہے کہ: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے، کوئی اس کی صحت پر شک نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کے اندر تعصب کی آگ بھڑک رہی ہو کہ ایسے شخص کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

آلوسی کا کہنا ہے کہ: حدیث غدیر، صحیح حدیث ہے جس کی سند میں کوئی مشکل نہیں ہے اور ہمارے نزدیک اس کی صحت ثابت ہے۔ رسول خدا (ص) سے بھی اور حضرت علی (ع) سے بھی تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔

حافظ اصفہانی کہتے ہیں کہ: حدیث غدیر صحیح حدیث ہے کہ صحابہ میں سے 100 افراد نے اسے نقل کیا ہے اور " عشرہ مبشرہ " بھی انہی سو آدمیوں میں سے ہیں۔ [15]

حافظ سجستانی کا کہنا ہے کہ: حدیث غدیر 120 صحابیوں کے ذریعے نقل ہوئی ہے اور حافظ ابو العلاء ہمدانی نے ایک 150 افراد کو بیان کیا ہے۔[16]

حافظ ابن حجر عسقلانی " تہذیب التہذیب " میں حدیث غدیر کے بعض راویوں کو بیان کرنے کے ضمن میں اس کے طرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ابن جریر طبری نے حدیث غدیر کی اسناد کو ایک کتاب کے اندر جمع کیا ہے اور اسے صحیح السند حدیث شمار کیا ہے اور ابو العباس ابن عقدہ نے بھی اسے صحابہ میں سے 70 افراد کے ذریعے سے نقل کیا ہے۔ [17]

نیز کتاب " فتح الباری بشرح صحیح البخاری " میں آیا ہے کہ:

حدیث " من کنت مولاہ فعلی مولاہ " کو ترمذی اور نسائی نے نقل کیا ہے اور اس کے نقل کے راستے (راویوں کے واسطے) اور سندیں بہت زیادہ ہیں کہ ان سب کو ابن عقدہ نے ایک مستقل کتاب میں ذکر کیا ہے اور اس کی بہت ساری سندیں صحیح اور حسن ہیں اور ہمارے لیے امام احمد حنبل سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

جو کچھ علی (ع) کے فضائل کے سلسلے میں مجھ تک پہنچا ہے صحابہ میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی نہیں ملتا۔ [18]

قندوزی حنفی حدیث غدیر کو مختلف اسناد سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

محمد بن جریر الطبری نے حدیث غدیر کو 75 طریقوں سے نقل کیا ہے اور ایک مستقل کتاب بنام " الولایۃ " اس کے بارے میں تالیف کی ہے۔ نیز ابو العباس احمد بن محمد بن سعید بن عقدہ نے ایک کتاب تالیف کی جس میں 150 طریقوں سے حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔ [19]

حافظ محمد بن محمد الجزری الدمشقی نے امیر المؤمنین (ع) کے حدیث غدیر سے احتجاج کرنے کو نقل کرتے ہوئے یوں لکھا ہے کہ:

یہ حدیث حسن ہے اور یہ روایت تواتر کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے جیسا کہ رسول اسلام سے بھی تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ بہت سارے راویوں کے گروہ نے بہت سارے دوسرے راویوں کے گروہوں سے اس حدیث کو نقل کیا ہے، پس جو لوگ اس حدیث کی سند کو ضعیف کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی باتوں کی طرف توجہ دینا فضول ہے۔ اس لیے کہ وہ علم حدیث سے بے خبر ہیں۔ [20]

حدیث غدیر کو بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی کتاب صحیح میں نقل نہیں کیا، لیکن یہ چیز یعنی ان کا اپنی کتابوں میں نقل نہ کرنا ہرگز حدیث غدیر کی سند کے ضعیف ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ اس لیے کہ بہت ساری روایتیں جو خود بخاری اور مسلم کی نظر میں صحیح ہیں اور ان کی سندوں میں کوئی مشکل نہیں ہے، انہوں نے اپنی صحیحوں میں نقل نہیں کیا۔ اسی وجہ سے ان کی کتابوں کے بعد کئی مستدرک لکھی گئیں۔ اگر تمام صحیح روایات صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں نقل ہو جاتی تو صحاح ستہ کی ضرورت نہ تھی۔ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ کوئی عالم اور دانشمند اپنے پاس صحیح بخاری اور صحیح مسلم رکھنے کے بعد دوسری صحاح سے بے نیاز نہیں ہو جاتا۔

دوسری طرف سے خود بخاری اور مسلم نے بیان کیا ہے کہ جو کچھ ہم ان کتابوں میں لائے ہیں وہ صحیح ہے، نہ یہ کہ جو کچھ صحیح تھا ہم نے ذکر کر دیا۔ بلکہ بہت ساری صحیح احادیث کو دوسری وجوہات کی بنا پر ذکر نہیں کیا۔ [21]

 

مذکورہ مطالب کے علاوہ، علامہ امینی حدیث غدیر کو بخاری اور مسلم کے اساتید اور بزرگان میں سے 29 افراد سے نقل کرتے ہیں۔ [22]

 1- پہلا اشکال :

ابن حجر نے لکھا ہے کہ:

حدیث غدیر، صحیح حدیث ہے کہ جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی اور اسے ترمذی، نسائی اور احمد حنبل جیسوں نے نقل کیا ہے اور بہت سارے طریقوں سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے۔ منجملہ اصحاب میں سے 16 افراد نے اسے نقل کیا ہے اور احمد بن حنبل کی روایت میں آیا ہے کہ اسے 30 صحابہ نے رسول اسلام (ص) سے سنا اور جب امیر المؤمنین کی خلافت پر جھگڑا ہوا تو انہوں نے گواہی دی۔ [23]

پھر دوسری جگہ تکرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

حدیث غدیر کو 30 صحابہ نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے اور بہت سارے اس کے نقل کے طریقے صحیح یا حسن ہیں۔ [24]

پس خود اشکال کرنے والوں کی نظر میں جیسے ابن حجر وغیرہ کہ جنہوں نے اس حدیث کی صحت پر اشکال کیا ہے توجہ نہیں کرنا چاہیے، اس لیے کہ ابن حجر خود دوسری جگہ کہتے ہیں:

ولا التفات لمن قدح فی صحتہ۔

اس شخص کی بات پر کوئی توجہ نہیں کی جائے گی جو حدیث غدیر کے صحت پر شک کرے۔ [25]

استاد محمد رضا حکیمی اپنی کتاب " حماسہ غدیر " میں اہل سنت کے 15 معاصر علماء کے نام بیان کرتے ہیں کہ جنہوں نے حدیث غدیر کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:

احمد زینی دحلان، محمد عبدہ مصری، عبد الحمید آلوسی، احمد فرید رفاعی، عمر فروخ۔ [26]

قابل توجہ ہے کہ شیعہ امامت سے مربوط روایات میں تواتر اور یقینی ہونے کو شرط سمجھتے ہیں اور حدیث غدیر شیعہ کتب روائی میں متواتر اور قطعی ہے۔ جیسا کہ بہت سارے سنی مصادر میں بھی اس کا قطعی الصدور ہونا ثابت ہے اور سنی علماء کے عقیدہ کے مطابق کسی حدیث سے امامت کو ثابت کرنے کے لیے دوسرے فروع دین کی طرح اس کا صحیح السند ہونا کافی ہے، اس کے تواتر کو ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لہذا یہ اشکال خود بخود دفع ہو جاتا ہے۔

2- دوسرا اشکال :

جو قاضی عضد الدین ایجی نے اپنی کتاب " مواقف " میں بیان کیا ہے یہ ہے کہ:

حضرت علی علیہ السلام غدیر کے دن پیغمبر کے ساتھ نہیں تھے، لکھتے ہیں کہ:

علی (ع) حجۃ الوداع میں غدیر کے دن پیغمبر اسلام کے ہمراہ نہیں تھے، بلکہ وہ یمن میں تھے۔ [27]

بہتر ہے اس اشکال کو بیان کرنے سے پہلے " مواقف " کی شرح لکھنے والے کی بات کو بیان کریں۔ سید شریف جرجانی نے مواقف پر شرح لکھتے ہوئے اس مقام پر بیان کیا ہے کہ:

یہ اشکال مردود ہے اس لیے کہ حضرت علی (ع) کا غائب ہونا حدیث کے صحیح ہونے کے ساتھ منافات نہیں رکھتا۔ مگر یہ کہ روایت میں یہ آیا ہو کہ پیغمبر اسلام نے علی کو اپنے پاس بلایا یا ان کا ہاتھ پکڑا۔ بہت ساری روایات میں یہ جملہ نقل نہیں ہوا ہے۔ [28]

ابن حجر ہیثمی نے اس شبہ کے جواب میں لکھا ہے کہ:

وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ حدیث غدیر صحیح نہیں ہے یا یہ اشکال کرتا ہے کہ حضرت علی یمن میں تھے، اس کی بات غلط ہے اس لیے کہ حضرت علی یمن سے واپس آ چکے تھے اور حج کو انہوں نے پیغمبر اسلام کے ساتھ بجا لایا تھا۔ [29]

اگرچہ تاریخی اعتبار سے امیر المؤمنین کا یمن سے واپس لوٹنا اور پیغمبر اسلام کے ہمراہ حج کے ارکان کا بجا لانا مسلم ہے، لیکن پھر بھی نمونہ کے طور پر چند ایک نکات کو ان لوگوں کے حوالے سے جنہوں نے اس مسئلہ کو چھیڑا ہے بیان کرتے ہیں:

طبری ( تاریخ طبری، ج 2، ص 205) ابن کثیر ( البدایہ و النھایۃ ، ج2 ص 184 اور نیز اسی جلد کے صفحہ 132 پر مفصل طور پر امیر المؤمنین کے یمن سے واپس پلٹنے کی بحث کو بیان کرتے ہیں اور آپ کی واپسی کو ثابت کرتے ہیں۔

ابن اثیر ( الکامل ، ج 2 ص 302)

3- تیسرا اشکال :

جو زیادہ اہم اور مضبوط ہے وہ ہے کلمہ " مولا " کے بارے میں کہ یہ کلمہ مختلف معنی پر دلالت کرتا ہے جیسے چچا کا بیٹا، " غلام کو آزاد کرنے والا "، " پڑوسی" " دوست " ، " اولی بالتصرف " " ولی اور سرپرست " وغیرہ۔ شیعہ حدیث غدیر کے شواہد و قرائن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس حدیث میں لفظ مولا ولی، سرپرست اور اولی بالتصرف کے معنی میں ہے، لیکن بعض سنی علماء کلمہ مولا میں شبہہ ایجاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں پر مولا دوست وغیرہ کے معنی میں ہے۔ بظاہر یہ شبہہ فخر الدین رازی نے کتاب " نھایۃ العقول " میں ایجاد کیا اور دوسروں جیسے قاضی عضد الدین ایجی، [30]

ابن حجر[31]

اور فضل بن روزبھان[32]

نے فخر رازی سے اسے نقل کیا ہے۔

قاضی عضد الدین ایجی کتاب مواقف میں لکھتے ہیں کہ:

کلمہ " مولا " سے مراد " ناصر " ہے اس لیے کہ حدیث کے بعد پیغمبر اسلام کے دعائیہ جملہ سے یہی معنی سمجھ میں آتا ہے اور مولا سے مراد " اولی" نہیں ہے، اس لیے کہ کبھی بھی مفعل کا وزن افعل کے معنی میں نہیں آتا ہے۔ [33]

ابن حجر ہیثمی نیز کہتے ہیں کہ:

ہم اس چیز کو قبول نہیں کرتے کہ " مولا " کے معنی وہی ہوں، جو شیعہ کہتے ہیں بلکہ اس کے معنی " ناصر " کے ہیں اس لیے کہ مولا کے معنی متعدد ہیں جیسے " آزاد کرنے والا "، " امور میں تصرف کرنے والا "، " ناصر" " محبوب " ۔ ہم اور شیعہ دونوں اعتراف کرتے ہیں کہ اگر اس روایت میں مراد " محبوب " ہو اس کے معنی صحیح نکلیں گے، اس لیے کہ علی (ع) ہمارے اور ان کے محبوب ہیں ، لیکن یہ کہ مولا کے معنی " امام " ہوں، نہ شریعت میں یہ معنی ہیں اور نہ ہی لغت میں۔ شریعت میں یہ معنی بیان نہیں ہوئے، اس کے بارے میں بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ واضح ہے، لیکن لغت میں بھی یہ معنی نہیں آئے ہیں یہ بھی لغت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی عرب لغت دان نے "مفعل" کے معنی افعل" بیان نہیں کیے ہیں۔ [34]

اشکال کا جواب:

اس اشکال کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ:

شیعہ معتقد ہیں کہ اگر فرض کریں یہ قبول کر لیتے ہیں کہ کلمہ "مولا" چند معنی میں مشترک ہے اور عربی لغت دانوں نے بعد والے زمانے میں مولا کے معنی اولی نہیں کئے لیکن رسول اسلام کے زمانے میں اور اس حدیث کو بیان کرتے وقت مخاطبین نے ان معنی کو اس کلمہ سے سمجھا ہے۔ اس مدعی پر ہمارے پاس کئی دلیلیں ہیں:

1- حسان بن ثابت کہ جو صدور حدیث کے وقت موجود تھے کہ جن کے ادبی مقام کا انکار کرنے والا کوئی نہیں ملتا، [35]

انہوں نے رسول خدا (ص) سے اجازت چاہی تا کہ اس واقعہ کو اپنے منظوم کلام میں بند کرے، ان کے منجملہ اشعار میں سے ایک شعر یہ ہے:

فقال لہ قم یا علی فاننی

رضیتک من بعدی اماما و ھادیا

رسول خدا نے علی سے فرمایا کہ اے علی کھڑے ہو جائیں کہ میں اپنے بعد آپکو امام اور اس امت کا ہادی بنانے پر راضی ہو گیا ہوں۔۔۔۔۔

علامہ امینی نے ان اشعار کو اہل سنت کے 12 مآخذ و کتب اور اہل تشیع کے 26 مآخذ سے نقل کیا ہے۔ [36]

قیس بن سعد بن عبادہ نے بھی اپنے اشعار میں یوں کہا ہے کہ:

و علی امامنا و امام

لسوانا اتی بہ التنزیل

یوم قال النبی من کنت مولاہ

فھذا مولاہ خطب جلیل

علامہ امینی نے ان اشعار کو 12 مآخذ و کتب سے نقل کیا ہے۔[37]

عمرو ابن عاص نے بھی اپنے اشعار میں کہا ہے کہ:

و فی یوم خم رقی منیرا

یبلغ و الرکب لم یرحل

الست بکم منکم فی النفوس

باولی؟ فقالوا: بلی فافعل

فانحلہ امرۃ المومنین

من اللہ مستخلف المنحل

و قال فمن کنت مولا لہ

فھذا لہ الیوم نعم الولی

ان اشعار کو بھی علامہ امینی نے شیعہ سنی 8 مصادر سے نقل کیا ہے۔ [38]

اس کے علاوہ علامہ امینی الغدیر میں بہت سارے شعراء اور عرب ادبا کے کلمات کو بیان کرتے ہیں کہ جو کلمہ مولا سے امامت اور ولایت کے معنی کو سمجھے ہیں۔ [39]

خود مولا علی (ع) نے ایک شعر میں جو معاویہ کو لکھا ہے، اس بات کی تائید کے طور پر لکھا ہے:

و اوجب لی ولایتہ علیکم

رسول اللہ یوم غدیر خم

علامہ امینی نے اسے شیعوں کے 11 منابع اور اہل سنت کے 26 منابع سے نقل کیا ہے۔ [40]

نیز اس حدیث سے ولی کے معنی سمجھنے پر بہترین دلیل، ابوبکر اور عمر کا مبارک باد دینا ہے کہ جو رسول خدا (ص) کے خطبہ کے تمام ہونے کے بعد انہوں نے علی علیہ السلام کو مخاطب کر کے مبارک باد دی:

بخ بخ لک یا بن ابی طالب اصبحت مولای و مولی کل مؤمن و مؤمنۃ۔

علامہ امینی نے ابوبکر و عمر کی تبریک کو 60 سنی مصادر سے نقل کیا ہے، منجملہ: مسند احمد، تاریخ الامم و الملوک، تاریخ بغداد، مصنف ابن ابی شیبہ ہیں۔ [41]

انصاف سے سوچ کر بتائیں کہ اگر پیغمبر اسلام (ص) کی مولا سے مراد ناصر اور محبوب ہوتی تو علی علیہ السلام کو مبارک باد دینے کی کون سی جگہ تھی ؟

اس کے علاوہ بعض لوگوں کا غدیر خم کے مقام پر شدید اعتراض کرنا جیسے حارث بن نعمان فہری اور خدا سے عذاب کی درخواست کرنا اور اللہ کی طرف سے اس پر عذاب کا نازل ہونا، یہ سب کس لیے تھا ؟ صرف اس لیے کہ علی پیغمبر اسلام کے ناصر اور محبوب ہو گئے ؟ وہ تو پہلے بھی تھے، بغیر کہے انہوں نے اپنی زندگی نصرت اسلام اور رسالت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔

علامہ امینی نے اس واقعہ کو اہل سنت کے 30 منابع سے نقل کیا ہے کہ جن میں الکشف و البیان، دعاۃ الھداۃ اور احکام القرآن شامل ہیں۔ [42]

انصاف سے بتائیں کہ کیا اگر حدیث غدیر میں مولا کے معنی ناصر اور محبوب کے ہوتے تو کیا یہ اتنے غضب اور انکار کی جگہ تھی حارث بن نعمان فھری جیسوں کو آتش غضب میں جلایا جاتا ؟

اس حدیث کے علاوہ بہت ساری دوسری احادیث حتی قرآن کی آیات موجود ہیں کہ جو صریحا امیر المؤمنین کی محبت اور نصرت پر دلالت کرتی ہیں، کیوںکہ جب وہ صادر ہوئیں تو کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا ؟

یہ چیز بھی ہمارے دعوے پر دلیل ہے کہ پیغمبر اسلام حدیث غدیر کو بیان کرنے سے خوف کھا رہے تھے اور اس مسئلہ کو تاخیر میں ڈال رہے تھے، یہاں تک کہ آیہ کریمہ نازل ہوئی اور کھلے الفاظ میں پیغمبر اسلام کی حفاظت کا وعدہ دیا " واللہ یعصمک من الناس " خدا آپ کو لوگوں کے شر سے بچائے گا۔ آپ کو جو حکم دیا گیا ہے، اسے بے فکر ہو کر انجام دیں۔

تو کیا یہ علی علیہ السلام کی محبوبیت اور ناصریت کا اعلان تھا کہ جو منافقین کے مزاج سے سازگار نہیں تھا اور پیغمبر اسلام جن سے خوف کھا رہے تھے۔ واضح اور آشکار ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی محبوب یا ناصر ہونے کے اعلان سے منافقین کی صحت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں تھا، اس لیے کہ روز اول سے وہ اس اعلان سے واقف تھے اور جگہ جگہ آپ کی مدد اور نصرت کے کرشمے ملاحظہ کر چکے تھے۔ لہذا اگر دسیوں بار پیغمبر (ص) علی (ع) کے ناصر ہونے کا اعلان کر دیں تو ان کی پیشانی پر کوئی بل نہ نہیں آئے گا۔ لہذا اتنے سارے شواہد و قرائن ملاحظہ کرنے کے بعد یہ کہنا کہ مولا سے مراد ناصر اور محبوب ہے، تو بات انصاف سے بہت دور اور تعصب کے بہت ہی نزدیک ہے۔

غدیر خم میں رسول اسلام (ص) کا عظیم انتظام یہ بتا رہا ہے کہ مسئلہ بہت حساس موڑ پر ہے اور جو بات وہ کہنے جا رہے ہیں، وہ معمولی سی بات نہیں ہے وہ اسلام کے مستقبل کی تقدیر ہے۔ لہذا حدیث غدیر میں مولا سے مراد صرف اور صرف اولی بالتصرف ، ولی و سرپرست ہے۔

یہاں پر اس نکتہ کی طرف متوجہ کرنا بہت ضروری ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کو اپنی جان کا خطرہ اور خوف نہیں تھا، کہ منافق ان کی جان لے لیں گے، بلکہ آپ (ص) دین میں اختلاف اور امت میں پراکندگی سے خوف کھا رہے تھے، لیکن پرورگار عالم نے انہیں اطمینان دلایا کہ اعلان ولایت اختلاف سے بڑھ کر ہے، اگر سلسلہ ولایت کا اعلان نہیں ہو گا تو دین خطرے میں پڑ جائے گا اس لیے کہ اس کا محافظ نہیں رہے گا۔ اور ایسا خوف کھانا کوئی عیب بھی نہیں ہے، حضرت موسی کے بارے میں بھی خدا فرماتا ہے:

فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی۔[43]

اور مزید یہ کہ علامہ میر حامد حسین نے حدیث غدیر کو مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے کہ:

بعض جگہوں میں بجائے " من کنت مولاہ " کے حدیث " من کنت اولی بہ من نفسہ فعلی ولیہ " کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔[44]

ان الفاظ کے بعد یہ بحث کہ مولا کے معنی کیا ہیں، خود بخود ختم ہو جاتی ہے، اس لیے کہ حدیث نے خود واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ جس طریقے سے رسول اسلام (ع) مسلمانوں کے نفوس پر اولویت اور حاکمیت رکھتے ہیں، علی بھی ویسے ہی تصرف اور حاکمیت کا حق رکھتے ہیں۔

حموینی نے بھی اپنی کتاب " فرائد السمطین " میں انہیں کلمات کے ساتھ حدیث غدیر کو نقل کیا ہے:

من کنت اولی بہ من نفسہ فعلی اولی بہ من نفسہ۔ فانزل اللہ تعالی ذکرہ: الیوم اکملت لکم دینکم۔ [45]

اس بات پر بھی ایک نگاہ کرنا ضروری ہے کہ آیا لغت میں کلمہ مولا اولی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یا نہیں ؟ چلبی مواقف پر حاشیہ کے دوران قاضی عضد الدین سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

اس اشکال کا جواب دیا جا چکا ہے کہ مولا کا " متولی "، " صاحب امر "، " اولی بالتصرف کے معنی میں استعمال کرنا عربی لغت میں بہت زیادہ رائج ہے اور عربی لغت دانوں کے ذریعے یہ استعمال نقل ہوا ہے۔ ابو عبیدہ کا کہنا ہےکہ:

ھی مولاکم ای اولی بکم " اور پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے:

ایما امراۃ نکحت بغیر اذن مولاھا، یعنی اس شخص کی اجازت کے بغیر جو اس پر اولی بالتصرف ہے۔ پس یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ مولا کے معنی اولی کے نہیں ہو سکتے، اس لیے کہ مولا بر وزن مفعل ہے اور ولی فعیل کے وزن پر ہے۔ مولا اسم ہے جو اولی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، نہ اولی کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ [46]

علامہ میر حامد حسین نے ایک مکمل جلد کو اس بات سے مخصوص کیا ہے کہ مولا اولی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یا نہیں، وہ لوگ جنہوں نے یہ دعوی کیا ہے مولا " اولی " کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا، ان کے بارے میں تفصیل سے انہوں نے اس کتاب کے اندر بیان کیا ہے۔ [47]

مزید مطالعے و تحقیق کے لیے ان کی کتاب عبقات الانوار کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

 حوالہ جات

[1] امدي، علي‌ بن محمد؛ الاحكام؛ بيروت: مؤسسه النور، 1387ق.

[2] ابن ابي‌ الحديد؛ شرح نهج‌البلاغه؛ بيروت: داراحياء الكتب العربيه،

[3] ابن ابي‌ شيبه كوفي؛ لامصنف؛ بيروت: دارالفكر،

[4] ابن‌ اثير، علي؛ اسدالغابه؛ تهران: اسماعيليان،

[5] ابن‌ الجارود نيشابوري؛ المنتقي؛ بيروت: مؤسسه الكتب الثقافيه،

[6] ابن الدمياطي، المستفاد؛ بيروت: دارالكتب العلميه،

[7] ابن حبان، عبدالله؛ البداية و النهاية؛بيروت: دارالحياء التراث العربي،

[8] ، تقريب التهذيب؛ بيروت، دارالمكتبة العلميه، 1995م.

[9] ، تهذيب التهذيب؛ بيروت: دارالفكر، 1984م.

[10] ، طبقات المحدثين؛ بيروت: مؤسسه الرساله، 1992م.

[11] ، غريب الحديث؛ بيروت: دارالكتب العلميه،

[12] ابن‌ حبان، علي‌ بن بلياني؛ صحيح‌ ابن حبان؛ الطبعة الثانيه، 1993م.

[13] ابن ‌حجر عسقلاني، شهاب‌الدين؛ فتح‌ الباري؛ بيروت: دارالمعرفة،

[14] ابن‌ حزم، ابومحمد علي؛ الفصل في ‌الملل والاهواء؛ بيروت:

[15] ابن‌خلدون؛ تاريخ ابن ‌خلدون؛ بيروت: مؤسسه الاعلمي،

[16] ابن خلكان، احمد بن محمد؛ وفيات الاعيان؛ بيروت: داراحياء التراث العربي، 1397م.

[17] ابن‌ سعد، محمد؛ الطبقات الكبري؛ بيروت: دار صادر،

[18] ابن عساكر، ابوالقاسم؛ تاريخ مدينه دمشق؛ بيروت: دارالفكر، 1995م.

[19] ابن قتيبه دينوري؛ الامامة والسياسة؛ قم: شريف رضي،

 [20] ابن‌ كثير، اسماعيل؛ تفسير القرآن ‌الكبير؛ بيروت: دارالمعرفة، 1992م

[21] ابن ‌ماجه، محمد بن يزيد قزويني؛ سنن ابن ماجه؛ بيروت: دارالفكر،

[22] ابن‌ نجار، محمد؛ ذيل تاريخ بغداد؛ بيروت: دارالكتب العلميه،

[23] ابن‌ هشام، محمد؛ سيرة النبي؛ مصر: مكتبة محمد،

[24] ابن مزاحم منقري، نصر؛ واقعة الصفين؛ قاهر: مدني،

[25] ابي‌ داوود، ابن ‌اشعث؛ سنن ابي ‌داوود؛ بيروت: دارالفكر،

[26] احمد بن حنبل؛ فضائل‌ الصحابه؛ بيروت: دارالكتب العلميه

[27] ، مسند احمد؛ بيروت: دار صادر

[28] اسكافي، ابوجعفر؛ المعيار والموازنه؛ قم: تحقيق محمدباقر محمودي،

[29] اصفهاني، ابي‌نعيم؛ ذكر اخبار اصبهان؛ ليدن: بريل، 1934م.

[30] الباني، محمدناصر؛ ارواء الغليل؛ بيروت: مكتب‌الاسلامي

[31] اميني، عبدالحسين(علامه)؛ الغدير؛ بيروت: دارالكتاب العربي، 1379ق.

[32] بخاري، محمد بن اسماعيل؛ تاريخ ‌الكبير؛ دياربكر: مكتبةالاسلاميه

[33] بلاذري، احمد؛انساب الاشراف؛ بيروت: مؤسسه الاعلمي،

[34] ، فتوح‌ البلدان؛ مصر: لجنة البيان ‌العربي،

[35] بيهقي، ابوبكر؛ سنن ‌الكبري؛ بيروت: دارالفكر،

[36] ترمذي، محمد بي ‌عيسي؛ سنن ترمذي؛ بيروت: دارالفكر،

[37] حاجي خليفه؛ كشف‌ الظنون؛ بيروت: دار احياءالتراث العربي،

[38] حاكم حسكاني، عبيدالله ‌بن احمد؛ شواهد التنزيل؛ ايران: مجمع احياء الثقافة الاسلاميه، 1411ق.

[39] حاكم نيشابوري، محمد بن عبدالله؛ المستدرك؛ بيروت: دارالمعرفه،

[40] ، معرفة علوم ‌الحديث؛ بيروت: دار الافاق‌ الجديد،

[41] حموي، ياقوت؛ معجم ‌البلدان؛ بيروت: داراحياء التراث‌ العربي، 1979م.

[42] خطيب بغدادي، احمد بن علي؛ تاريخ بغداد؛ بيروت: دارالكتب العلميه،

[43] سورہ طہ آیت 67

[44] دينوري، ابن قتيبه؛ تأويل مختلف الحديث؛ بيروت: دارالكتب العلميه،

[45] ذهبي، ابوعبدالله؛ تذكرة الحفاظ؛ بيروت: داراحياء التراث العربي،

[46] ، سير اعلام النبلاء؛ بيروت: مؤسسه الرساله،

[47] رازي، محمد بن عمر؛ المحصول؛مؤسسه الرساله،

واقعہ غدیر سے احتجاج و استدلال:

حقیقت یہ ہے کہ سب شواہد و قرائن اصحاب رسول سے لیکر تابعین تک، مفسرین قرآن سے لے کر مؤرخین تک اور مؤلفین غدیر سے لے کر ادباء و شعراء تک سب کے سب۔۔۔۔۔ اس امر کی فیصلہ کن، قطعی اور ناقابل انکار تصدیق کرتے ہیں کہ غدیر کا واقعہ اسلام کے تاریخی، کلامی اور تفسیری مسلمّات کا ایک حصہ ہے۔ اور اس سلسلے میں کسی قسم کے انکار اور شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اس کے باوجود مرحوم علامہ امینی نے بیشتر ثبوت فراہم کرنے اور اس مسئلہ کو دو چندان محکم کرنے کے لیے اپنی انمول کتاب " الغدیر " میں واقعہ " غدیر پر احتجاج و استدلال " کے عنوان سے ایک اور باب کا اضافہ کیا ہے۔ اس کا آغاز انھوں نے خود امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے احتجاج سے کیا ہے، اس کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی پوری تاریخ کے دوران اس سے استدلال کیا ہے۔ حقیقت میں اگر اس استدلال کے علاوہ غدیر خم کے بارے میں کوئی اور دلیل نہ ہوتی تو تب بھی واقعہ غدیر کے اثبات کے لیے یھی ایک باب کافی تھا۔

احتجاجات و استدلات:

1- پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا استدلال کرنا:

سلیم ابن قیس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ: سب سے پہلا استدلال و احتجاج جو حدیث غدیر کے بارے میں انجام پایا، حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ سے تھا کہ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد مسجد رسول میں انجام پایا۔

23 ہجری کو شورا کے دن استدلال:

خوارزمی حنفی کتاب " مناقب " کے صفحہ 217 میں ابو فضل کی سند سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس نے کہا ہے کہ:

میں شورا کے دن دربان تھا۔ میں نے سنا کہ علی علیہ السلام گھر کے اندر ان لوگوں سے کہہ رہے تھے: میں تمہارے سامنے ایک ایسی چیز سے استدلال کرتا ہوں کہ عرب و عجم اس سے انکار نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد اپنے کلام کو آگے بڑہاتے ہوئے فرمایا: میں تمہیں قسم دیکر کہتا ہوں کہ:

کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو مجھ سے پہلے خدا کی وحدانیت پر ایمان لایا ہو ؟ ان لوگوں نے کہا: نہیں۔ اس کے بعد پوچھا:

کیا تم میں سے کسی کا جعفر جیسا بھائی ہے جو بہشت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہا ہو ؟ انھوں نے جواب میں کہا: نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا:

کیا تم میں سے کسی کا چچا میرے چچا حمزہ سید الشہداء کے مانند ہے کہ جو خدا اور اس کے رسول (ص) کی شمشیر تھے ؟ ان لوگوں نے کہا: نہیں ! پھر آپ نے پوچھا:

کیا تم میں سے کسی کی زوجہ میری زوجہ حضرت زہرا سیدة النساء العالمین جیسی ہے ؟

انھوں نے کہا: نہیں۔ اس کے بعد آپ نے پوچھا:

کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو نواسے اور میرے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) کے مانند کسی کے بیٹے ہیں ؟

کہا: نہیں، آخر میں فرمایا: میں تم لوگوں سے قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ:

کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے کہ جس کے بارے میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہو: من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ…

اس استدلال و استشھاد کو امام حموینی نے " فراید السمطین " میں اور ابن حاتم شامی نے " در النظیم " میں اور ابن عقدہ، عقیلی اور ابن ابی الحدید وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے۔

خلافت عثمان کے دوران مسجد نبی میں احتجاج:

اسی طرح ابو اسحاق نے " فراید السمطین " میں حضرت علی علیہ السلام کا ایک اور احتجاج و استدلال نقل کیا ہے، جو مسجد نبی (ص) میں واقع ہوا ہے۔

کچھ لوگ منجملہ سعد بن ابی وقاص، عبد الرحمٰن بن عوف، طلحہ، زبیر، مقداد، ہاشم، حسن و حسین، ابن عباس، محمد بن ابی بکر، عبد اللہ ابن جعفر، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابو ایوب انصاری، قیس بن سعد، محمد بن سلمۃ، انس بن مالک، جابر بن عبد اللہ، زید بن ارقم، اور دسیوں دیگر لوگ وہاں پر موجود تھے، اور مختلف موضوعات پر گفتگو ہو رہی تھی۔ کچھ لوگ اپنے خاندان کے بارے میں اور بعض لوگ اپنے ماضی کے کارناموں کی تعریف…… کر رہے تھے۔

اس کے بعد لوگوں نے علی علیہ السلام کی طرف رخ کر کے سوال کیا: آپ کچھ کیوں نہیں بول رہے ہیں ؟ حضرت نے بولنا شروع کیا… اور یہاں تک پہنچے:

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن مجھے امامت پر منصوب فرمایا… اور لوگوں سے اقرار لے لیا کہ کیا میں تم لوگوں سے اولیٰ نہیں ہوں ؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اس کے بعد میری طرف رخ کر کے فرمایا: اے علی علیہ السلام ! کھڑے ہو جاؤ ! میں اٹھ کھڑا ہوا۔ تو آپ (ص) نے فرمایا: من کنت مولاہ فعلی مولاہ…

35 ہجری میں رحبہ، کوفہ میں استدلال:

نیز اہل سنت کے منابع اور مصادر میں نقل ہوا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کی مخالفت شروع ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں نے بیعت شکنی بھی کی۔ ظاہر ہے کہ معاویہ کے مخفی ماموروں اور دوسروں نے حضرت کی خلافت کے بارے میں شک و شبہات پھیلانے شروع کر دئیے، یہاں تک کہ لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر مقرر کیے جانے پر بھی شک کرنے لگے تھے۔ اس لیے امام علی علیہ السلام لوگوں کے ایک اجتماع میں جو، کوفہ کے ایک وسیع میدان میں جمع تھے، تشریف لے گئے اور اس مجمع میں حدیث غدیر سے استدلال پیش کیا، یہ احتجاج جہاں تک ہمارے ہاتھ آ سکا ہے، جسکو چار صحابیوں اور چودہ تابعین نے نقل کیا ہے۔

جنگ جمل میں استدلال:

حاکم نیشاپوری نے المستدرک ج 3، ص 371 ہجری میں رفاعہ سے نقل کیا ہے کہ میرے جدّ نے کہا ہے کہ:

ہم جمل میں علی علیہ السلام کے ساتھ تھے۔ حضرت علی (ع) نے طلحہ بن عبید اللہ کو طلب کیا۔ طلحہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس آیا۔ حضرت (ع) نے اس سے کہا: میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ بتاؤ کیا تم نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں سنا:

من کنت مولاہ فعلی مولاہ…؟ طلحہ نے کہا: جی ہاں میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا ہے۔ اس پر علی علیہ السلام نے طلحہ کی طرف رخ کر کے سوال کیا: پھر میرے ساتھ کیوں جنگ کر رہے ہو ؟ طلحہ نے کہا: میں متوجہ نہیں تھا، اس کے بعد طلحہ پلٹ کر چلا گیا۔

یہ استدلال دیگر مصادر و منابع جیسے مناقب خوارزمی، تاریخ ابن عساکر، مجمع الزواید ہیثمی، تہذیب التہذیب ابن حجر اور جمع الجوامع سیوطی وغیرہ میں بھی نقل ہوا ہے۔

حدیث رکبان (سواروں) کوفہ 36 ہجری یا 37 ہجری:

حنبلیوں کے امام احمد ابن حنبل نے روایت کی ہے کہ:

کچھ سوار کوفہ کے باہر سے رحبہ نام کے ایک میدان میں داخل ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام سے کہا:

السلام علیک یا مولانا، علی (ع) نے جواب میں کہا: میں کیسے تم لوگوں کا مولا ہوں جب کہ تم عرب ہو ؟ انھوں نے جواب میں کہا: غدیر کے دن ہم نے سنا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:

من کنت مولاہ فعلی مولاہ ،      

ریاح جو اس حدیث کا راوی ہے کہتا ہے کہ:

جب یہ لوگ وہاں سے چلے گئے تو میں بھی ان کے پیچھے گیا تا کہ دیکھوں کہ یہ لوگ کون ہیں۔ لہذا جب میں نے ان لوگوں سے پوچھا، انھوں نے جواب میں کہا: یہ انصار کا ایک گروہ ہے، جن میں ابو ایوب انصاری بھی تھے۔

اس واقعہ کو ابراہیم بن حسین نے کتاب صفین اور کشف الغمہ میں ابن اثیر نے اسد الغابہ، میں ابن حجر نے الاصابة میں ابن عقدة کی موالاة سے اور محبّ الدین طبری نے : الریاض النضرة میں ہیثمی نے مجمع الزوائد میں، شیرازی نے الاربعین میں اور ابو عمرو کشی نے کتاب فہرست میں مختصر اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔

ان کتب میں سے بعض میں اس طرح آیا ہے کہ:

جب انھوں نے مولا کو سلام کیا تو انہیں جواب ملا اس کے بعد حضرت علی (ع) نے ان سے سوال کیا: کیا تم میں اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے بھی کوئی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں، اور بارہ آدمی کھڑے ہو گئے، جن میں خالد بن زید، ابو ایوب انصاری، خزیمہ بن ثابت، قیس بن ثابت،… اور ان سب لوگوں نے گواہی دی کہ ہم نے غدیر خم میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا: من کنت مولاہ فعلی مولاہ…

ان میں سے انس بن مالک اور براء ابن عازب نے گواہی نہیں دی حضرت نے ان سے سوال کیا کہ تم لوگوں نے دیگر لوگوں کی طرح کیوں گواہی نہیں دی، حالانکہ تم لوگوں نے بھی ان کی طرف رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے سنا ہے ؟ پھر حضرت نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی کہ: خداوندا اگر انھوں نے عناد کی وجہ سے گواہی چھپائی ہو تو ان پر بلا نازل فرما ! روایت کے آخر میں آیا ہے کہ یہ دونوں آدمی بلا میں گرفتار ہوئے، براء اندھا ہو گیا اور ایسی حالت سے دوچار ہوا کہ اپنے گھر کا راستہ لوگوں سے پوچھتا تھا اور کہتا تھا: جو نفرین کیا گیا ہو وہ کس طرح اپنا راستہ پا سکتا ہے؟! اور انس کے پیر برص کی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔

ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کے صفحہ 361 پر لکھا ہے کہ ہمارے چند بغدادی اساتید نے کہا ہے کہ:

بعض اصحاب، تابعین اور محدثین حضرت علی علیہ السلام کے مخالف تھے اور دنیوی منفعت کی وجہ سے آپ (ع) کے فضائل کو چھپاتے تھے اور بلکہ آپ کے بارے میں برا بھلا کہتے تھے۔ ان میں سے ایک انس بن مالک تھا۔ ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے رحبہ قصر یا مسجد جامع میں فرمایا:

تم لوگوں میں سے کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ: من کنت مولاہ فعلی مولاہ ؟ بارہ آدمی کھڑے ہوئے اور انھوں نے شہادت دی۔ لیکن انس بن مالک کھڑا نہیں ہوا، علی علیہ السلام نے اس سے فرمایا: اے انس ! تم کیوں نہ کھڑے ہوئے کہ شہادت دیتے، تم  تو وہاں پر موجود تھے ؟! اس نے جواب دیا: میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور بھول گیا ہوں۔ علی علیہ السلام نے فرمایا: خداوندا ! اگر یہ جھوٹ بولتا ہے تو اسے سفیدی (برص) میں مبتلا کر دے تا کہ اس کا عمامہ بھی نہ چھپا سکے۔ طلحہ بن عمیر کہتا ہے: خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ وہ ایسا ہی ہو گیا تھا۔

سید حمیری نے اپنے اشعار میں اس واقعہ کی طرف یوں اشارہ کیا ہے: فصّدہ ذو العرش عن رشدہ وشانہ بالبرص الأنکل ،

2- حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی گواہی اور استدلال:

شمس الدین جزری مقری نے کتاب اسنی المطالب میں اپنے اسناد سے حلوانی سے علی ابن محمد اہوازی رشید کے غلام سے، اس نے ابوبکر بن احمد قصری سے نقل کیا ہے کہ:

حضرت موسی بن جعفر (ع) کی بیٹیوں: فاطمہ، زینب اور ام کلثوم نے ہم سے حدیث نقل کی اور انھوں نے فاطمہ بنت جعفر (ع) بن محمد سے انھوں نے فاطمہ بنت محمد (ع) ابن علی (ع) سے اور انھوں نے فاطمہ بنت علی (ع) بن حسین (ع) سے اور انھوں نے فاطمہ (ع) و سکینہ (ع) دختران حسین (ع) بن علی (ع) سے اور انھوں نے ام کلثوم بنت فاطمہ زہرا (ع) بنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا:

کیا تم لوگ غدیر خم کے دن رسول خدا کے فرمائے گئے اس قول کو بھول گئے ہو:

 من کنت مولاہ فعلی مولاہ ، نیز وانت منّی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ ،

3-  سبط پیغمبر حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا استدلال:

ابو العباس ابن عقدہ لکھتے ہیں کہ:

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد لوگوں کے درمیان ایک خطبہ پڑھا۔ اس خطبہ میں خدا کی حمد و ستائش اور اپنے جد بزرگوار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت و نبوت کی گواہی دینے کے بعد فرمایا:

 

ہم اہل بیت (ع) ہیں کہ خداوند نے ہمیں اسلام کے ساتھ کرامت بخشی، ہمیں عظمت بخشی اور ہم سے ہر قسم کی پلیدی کو دور فرمایا اور ہمیں بہترین خلقت قرار دیا اور جب میرے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعنوان نبی و رسول مبعوث فرمایا تو قرآن مجید کو ان پر نازل فرمایا اور سب سے پہلے جس نے خدا و رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی وہ میرے والد حضرت علی علیہ السلام تھے کہ جنہوں نے خدا اور رسول خدا پر ایمان لا کر شہادت و گواہی دی…

اس امت نے میرے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا کہ:

اگر کوئی امت، اعلم اور لائق تر کو چھوڑ کر اس سے پست شخص کی ولایت کے تابع ہو جائے، تو اس کے امور پست و باطل ہو جائیں گے، مگر یہ کہ اعلم و صالح کی قیادت کا انتخاب کریں اور اس کی اطاعت کریں۔

نیز آنحضرت (ص) سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

اے علی علیہ السلام ! تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون، لیکن میرے بعد پیغمبری نہیں ہے۔

اس کے علاوہ اس امت نے میرے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے۔ جب آپ (ع) نے میرے بابا حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کو غدیر خم میں پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا: من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔

قندوزی نے اس خطبہ کے ایک حصہ کو ینابیع المودة کے صفحہ 482 پر بیان کیا ہے۔

4- سبط پیغمبر، حضرت امام حسین علیہ السلام کا استدلال:

معاویہ کے مرنے سے دو سال قبل، حضرت امام حسین علیہ السلام، عبد اللہ ابن عباس، عبد اللہ ابن جعفر اور چند دیگر لوگوں کے ہمراہ حج پر چلے گئے۔ منیٰ میں تقریباً دو سو اصحاب اور پانچ سو تابعین مجموعی طور پر سات سو انصار بنی ہاشم کے اہل عبادت و شائستہ شخصیتیں جمع تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے اس اجتماع میں ایک خطبہ دیا اور اس طرح فرمایا:

اما بعد، تم لوگوں نے اس طاغوت اور ظالم کو دیکھا کہ ہمارے، شیعوں اور ہمارے پیروؤں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے ؟! تم لوگ ہر خبر سے مطلع ہو چکے ہو۔

میں اس وقت تم لوگوں سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ ان مطالب کو سنو اور حفظ کرو۔ جب واپس اپنے شہروں میں پہنچو تو یہ مطالب اپنے مورد اطمینان و اعتماد افراد سے بیان کرو اور انہیں ہمارے حق کی طرف دعوت دو۔ مجھے اس بات کا خوف ہے کہ دین حق نابود و مغلوب ہو جائے۔ البتہ خداوند اپنے وعدے پر عمل کرے گا اور اپنے نور کو روشن رکھے گا اگرچہ کافر اس سے خوش نہ ہوں۔

اس وقت آپ قرآن و رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل بیت علیہم السلام اور علی علیہ السلام اور اپنی والدہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور اپنے بارے میں جو کچھ بیان فرماتے تھے، حاضرین اس کا اقرار کرتے جاتے تھے اور کہتے تھے، جی ہاں ! ہم نے سنا ہے اور گواہی دیتے ہیں……

اس کے بعد آپ (ع) نے فرمایا: تمہیں، خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن میرے بابا علی علیہ السلام کو امامت و ولایت پر منصوب کر کے فرمایا: حاضرین یہ خبر غائب لوگوں تک پہنچا دیں ؟! سب نے جواب میں اقرار کرتے ہوئے کہا: ہاں…

5- عبد اللہ ابن جعفر کا استدلال:

عبد اللہ ابن جعفر کہتے ہیں کہ میں، حسن (ع) و حسین علیہ السلام معاویہ کے پاس تھے۔ عبد اللہ ابن عباس اور فضل بن عباس بھی وہاں موجود تھے۔ معاویہ نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا: اے عبد اللہ ! حسن (ع) و حسین (ع) کا اس قدر احترام کیوں کرتے ہو ؟جب کہ وہ تم سے بہتر نہیں ہیں اور ان کے باپ بھی تمہارے باپ سے بہتر نہ تھے۔ اور اگر فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی نہ ہوتیں تو میں کہتا کہ تیری والدہ اسماء بنت عمیس بھی ان کی والدہ سے کمتر نہ تھیں۔

عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ کو جواب دیا:

خدا کی قسم حسن (ع) و حسین (ع) اور ان کے ماں باپ کے بارے میں تیرا ادراک پست ہے۔ خدا کی قسم وہ مجھ سے، ان کے والد میرے والد اور اُن کی والدہ میری والدہ سے  بہتر ہیں۔ اے معاویہ ! تم اس چیز سے، جو کچھ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن کے اور ان کے ماں باپ کے بارے میں سنا ہے، مجھے یاد ہے اور اس کی روایت بھی کر چکا ہوں، غافل و بے خبر ہو۔

معاویہ نے کہا: اے جعفر کے بیٹے: مجھ سے بیان کرو، خدا کی قسم تم جھوٹے نہیں ہو۔ عبد اللہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کہا:

جو کچھ تم خیال کرتے ہو اور تمہارے ذہن میں ہے، حقیقت اس سے کہیں بلند و بالاتر ہے۔

معاویہ نے کہا: کہو، اگرچہ کوہ احد و حِرا سے بھی بلند ہو، کیونکہ تمہارے آقا (علی(ع)) کو خدا نے قتل کیا ہے اور تمہارے گروہ کو متفرق کر دیا ہے اور خلافت اس کے حقدار کو مل گئی ہے۔ اس لیے مجھے اس حدیث کی کوئی پروا نہیں ہے کیونکہ مجھے اس سے کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔

عبد اللہ نے کہا: پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آیہ شریفہ

 (وما جعلنا الرؤیا الّتی أریناک الّا فتنۃ للناس و الشجرة الملعونۃ فی القرآن) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (ص) نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ گمراہی کے بارہ پیشوا میرے منبر پر اوپر نیچے جا رہے ہیں اور میری امت کو پستی کی طرف لے جا رہے ہیں… اس کے بعد فرمایا:

بلا شبہ جب ابی العباس کی اولاد کی تعداد پندرہ تک پہنچ جائے گی، تو وہ کتاب خدا کی بے حرمتی اور تحریف کریں گے اور خدا کے بندوں کو غلام بنائیں گے اور بیت المال کو ذاتی ثروت میں تبدیل کر دیں گے۔

اے معاویہ ! جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تھے، میں، عمر ابن ابی سلمہ، اسامہ بن زید، سعد بن ابی وقاص، سلمان فارسی، ابوذر، مقداد اور زبیر بن عوام آپ (ص) کے روبرو بیٹھے تھے۔ آپ (ص) نے فرمایا:

الست اولی بکم من انفسکم ؟

ہم نے کہا: جی ہاں، یا رسول اللہ……

تو آپ (ص) نے فرمایا: من کنت مولاہ فعلی مولاہ……

عبد اللہ ابن جعفر نے اپنے کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے، حضرت علی علیہ السلام کو، جو سب سے افضل و بہتر تھے، غدیر خم کے دن لوگوں کا امام مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ ان کی اطاعت کریں…

معاویہ نے عبد اللہ بن جعفر کے ضمن میں کہا: تم نے ایک بڑی چیز بیان کی۔ اگر جو کچھ کہا حق ہو تو اہل بیت علیہم السلام اور ان کے دوستوں کے علاوہ تمام کے تمام مہاجر و انصار ہلاک ہو گئے۔ میں نے معاویہ سے کہا: خدا کی قسم، جو کچھ میں نے بیان کیا وہ حقیقت ہے اور یہ سب میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔

معاویہ نے حسن (ع) و حسین (ع) اور ابن عباس کی طرف مخاطب ہو کر کہا: ابن جعفر کیا کہہ رہے ہیں ؟ ابن عباس نے جواب میں کہا: اگر نہیں مانتے ہو تو ان افراد کو بلا لو جو وہاں پر موجود تھے اور جنہوں نے عبد اللہ کی طرح اس خبر کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے۔ معاویہ نے عمر ابن ابی اسلمہ اور اسامہ بن زید کو بلا بھیجا اور ان سے بھی سوال کیا۔ انھوں نے عبد اللہ بن جعفر کے بیان کی تائید کرتے ہوئے شہادت دی اور تصدیق کی۔

6- برد کا عمر و عاص پر استدلال:

ابن قتیبہ دینوری نے کتاب الامامۃ و السیاسۃ کے صفحہ 93 پر لکھا ہے کہ:

تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ:

طائفہ ہمدان سے ایک شخص بنام برد، معاویہ کے پاس آیا، اس نے دیکھا کہ عمرو عاص حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ناشائستہ باتیں کہہ رہا ہے۔

برد نے اس سے کہا کہ ہمارے مشائخ اور بزرگوں نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا:

من کنت مولاہ فعلی مولاہ، کیا یہ نقل صحیح ہے ؟

عمرو عاص نے کہا: حق اور صحیح ہے۔ میں اس سے زیادہ کہوں گا جو تم نے کہا ہے: اصحاب پیغمبر (ص) سے کوئی ایک علی علیہ السلام کے فضائل کو نہیں پہچانتا۔ برد نے کہا: میں لرز اٹھا۔

عمرو عاص نے کہا: لیکن علی علیہ السلام نے ان تمام فضائل کو عثمان کے ساتھ  بدسلوکی کر کے خراب کر دیا ہے۔

برد کہتا ہے: کیا علی علیہ السلام نے عثمان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا یا خود عثمان کو قتل کیا تھا ؟

عمر عاص نے کہا: نہیں، بلکہ اس کے قاتل کو پناہ دی تھی۔

برد نے کہا: کیا اس کے باوجود بھی مسلمانوں نے ان کی بیعت کر لی ؟

عمرو عاص نے کہا: ہاں، لوگوں نے ان کی بیعت کی۔

برد نے سوال کیا: پھر کس چیز نے تم کو علی علیہ السلام کی بیعت کرنے سے روکا تھا ؟

عمرو عاص نے کہا: اس لیے کہ میں اسے قتل عثمان میں متہم جانتا ہوں۔

برد نے کہا: تم خود قتل عثمان میں متہم ہو !!

عمرو عاص نے کہا: صحیح کہتے ہو اسی لیے میں فلسطین چلا گیا تھا۔

برد نے کہا : جب میں اپنے قبیلہ میں واپس پہنچا تو میں نے ان سے کہا کہ: ہم ایک شخص کے پاس گئے تھے کہ اس کے کلام سے ہی ہم نے اس کے خلاف برہان و استدلال کیا جان لو کہ علی علیہ السلام حق پر ہیں۔ ان کی پیروی کرو۔

7- عمرو عاص کا معاویہ پر استدلال:

خوارزمی نے کتاب مناقب کے صفحہ 124 پر ایک خط کا ذکر کیا ہے کہ جو معاویہ نے جنگ صفین میں مدد کی غرض سے عمرو عاص کو لکھا اور عمرو عاص کے جواب کا بھی ذکر کیا ہے جو مطالب عمرو عاص نے اپنے خط میں معاویہ کو لکھے ہیں ان میں یہ بھی تھا:

جو کچھ تم نے ابو الحسن، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھائی اور ان کے وصی پر ظلم کیا اور ان پر عثمان سے حسد کی تہمت لگائی ہے اور یہ کہ انھوں نے لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسایا، یہ جھوٹ اور گمراہی ہے۔ افسوس ہو تم پر اے معاویہ ! کیا تم نہیں جانتے کہ ابو الحسن (علی(ع)) نے اپنے آپ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر قربان کیا اور لیلۃ المبیت کو آپ (ص) کے بستر پر سوئے اور وہ (علی علیہ السلام) اسلام اور ہجرت میں سب سے مقدم ہیں۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:

ھو منی و انا منہ و ھو منی بمنزلۃ ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی"

اور اس کے علاوہ غدیر خم کے دن علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

الا من کنت مولاہ فعلی مولاہ……

8-  عمار بن یاسر کا عمرو عاص کے سامنے استدلال:

نصر بن مزاحم کوفی نے کتاب صفین کے صفحہ 174 پر عمار بن یاسر سے روایت کی ہے کہ انھوں (عمار) نے جنگ صفین میں عمرو عاص سے مخاطب ہو کر یوں کہا:

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ناکثین سے جنگ کریں اور ہم نے جنگ کی۔ آپ (ص) نے حکم دیا کہ قاسطین سے جنگ کریں کہ تم قاسطین ہو۔ اب معلوم نہیں کہ مارقین کو بھی درک کر سکوں یا نہیں ؟ اے ابتر ! کیا تو نہیں جانتا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے علی علیہ السلام کے بارے میں کہا ہے: من کنت مولاہ فعلی مولاہ ،

9-  اصبغ بن نباتہ کا استدلال:

امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے جنگ صفین میں اصبغ ابن نباتہ کے ذریعہ معاویہ کو ایک خط بھیجا اصبغ کہتے ہیں کہ:

میں معاویہ کے پاس پہنچا وہ چمڑے کے فرش پر دو سبز تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اس کے دائیں طرف عمرو عاص، اور بائیں طرف اس کا بھائی عتبہ، ابن عامر، ولید، عبد الرحمٰن بن خالد و شرحبیل اور سامنے ابوہریرہ ابو درداء، نعمان و ابو امامۃ باہلی بیٹھے ہوئے تھے۔

اس نے حضرت علی علیہ السلام کا خط پڑھ کر کہا: علی علیہ السلام عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے نہیں کرتے۔ اصبغ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ سے کہا: اے معاویہ بہانہ اور حیلہ سے کام نہ لو، کیونکہ تم حکومت اور سلطنت چاہتے ہو۔ اگر تم حقیقتاً عثمان کی مدد کرنا چاہتے ہو تو، جب وہ زندہ تھا اس کی مدد کرتے لیکن تم نے ایسا نہیں کیا بلکہ منتظر تھے تا کہ وہ قتل ہو جائے، تب تم اس کے قتل کو اپنے مقاصد کے لیے سند کے طور پر استعمال کرو۔

معاویہ میری باتوں سے آگ بگولا ہو گیا، میں چاہتا تھا اس کے غصہ کو اور مشتعل کروں اس لیے میں نے ابوہریرہ سے مخاطب ہو کر کہا: اے صحابی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! تجھے لا شریک اور غیب و شہود کے عالم خدا کی قسم، اور تجھے خدا کے حبیب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم دیتا ہوں، مجھے بتا دے کہ کیا تم غدیر خم کے دن حاضر و شاہد تھے ؟

ابو ہریرہ نے کہا: ہاں۔

میں نے اس سے کہا: تو نے علی علیہ السلام کے بارے میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا سنا ہے ؟

ابو ہریرہ نے کہا: میں نے سنا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من کنت مولاہ فعلی مولاہ، اللھم و آل من والاہ و عاد من عاداہ……

میں نے کہا: اے ابو ہریرہ ! اس کے باوجود تم اس کے دشمن کے ساتھ دوست بن گئے ہو (یعنی معاویہ کے دوست ہو) اور ان (علی علیہ السلام) کے دوستوں کے دشمن بن گئے ہو ؟!

یہ سن کر ابو ہریرہ نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا:

( انّا للہ و انا الیہ راجعون )

حنفی نے کتاب مناقب کے صفحہ 130 پر اور ابن جوزی نے کتاب تذکرہ کے صفحہ 48 پر اس حدیث کو نقل کیا ہے۔

10- ایک جوان کا ابو ہریرہ کے لیے استدلال:

ابو یعلی موصلی نے روایت کی ہے کہ ابو ہریرہ مسجد کوفہ میں داخل ہوا۔ کچھ لوگوں نے من جملہ ایک جوان نے اس کو گھیر لیا۔

اس جوان نے پوچھا: تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں بتاؤ کیا تم نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:

من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ ؟

ابو ہریرہ نے کہا: ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے۔

تتمۂ حدیث کو ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کی ج 1 ص 360 پر یوں نقل کیا ہے:

اس جوان نے کہا: اب جب کہ تم نے اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے تو میں شہادت دیتا ہوں کہ تم نے اس کے دشمن کے ساتھ دوستی کی ہے۔ (معاویہ کے ساتھ دوستی کی ہے) یہ کہہ کر وہ جوان چلا گیا۔

11- غدیر کے سلسلے میں ایک آدمی کا زید بن ارقم سے استدلال:

راوی کہتا ہے: میں زید بن ارقم کے پاس بیٹھا تھا۔ میں نے دیکھا ایک شخص آیا اور اس نے سوال کیا: تم میں سے کون زید بن ارقم ہے ؟ اس سے کہا گیا: زید یہ ہے۔

اس پر اس شخص نے کہا: تمہیں خدائے وحدۂ لاشریک کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے من کنت مولاہ فعلی مولاہ……؟

زید نے کہا: ہاں سنا ہے۔

12- معاویہ کے سامنے قیس بن سعد کا استدلال:

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ مراسم حج انجام دینے کے بعد مدینہ منورہ میں داخل ہوا۔ اہل مدینہ نے معاویہ کا استقبال کیا۔ معاویہ اور قیس بن سعد کے درمیان ایک بحث ہوئی۔ قیس نے معاویہ سے کہا: اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ علی علیہ السلام یا ان کی اولاد (علی (ع) کے بعد) کے ہوتے ہوئے قریش و انصار اور عرب و عجم میں سے کسی کو خلافت پر حق نہیں ہے۔

معاویہ نے طیش میں آ کر کہا: اے قیس اس بات کو تم نے کس سے نقل کیا ہے ؟ کیا تمہارے باپ نے تمہیں یہ خبر دی ہے ؟

قیس نے کہا: اسے میں نے ایسے شخص سے سنا ہے کہ اس کا حق مجھ پر اپنے باپ سے زیادہ ہے۔

معاویہ نے پوچھا: وہ شخص کون ہے ؟

قیس نے کہا: علی بن ابی طالب، اس امت کے عالم و صدیق نے جن کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے آیۂ شریفہ

(قل کفی باللہ شھیداً بینی و بینکم و من عندہ علم الکتاب) نازل فرمائی ہے۔

معاویہ نے کہا: امت کے صدیق ابوبکر اور فاروق، عمر ہے اور (الذی عندہ علم الکتاب) کا مقصد ابن سلام ہے۔

قیس نے کہا: ان اوصاف کے لیے سزاوار ترین فرد وہ ہے، جس کے بارے میں خداوند نے فرمایا ہے کہ:

( افمن کان علی بینۃ من ربہ و یتلوہ شاھد منہ )

اور جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن امت کی امامت پر منصوب کر کے فرمایا تھا:

من کنت مولاہ فعلی اولی بہ من نفسہ ،

اور غزوہ تبوک میں ان کے بارے میں فرمایا:

انت منی بمنزلۃ ھارون من موسی الاّ انہ لا نبی بعدی ،

13- عمرو اودی کا حدیث غدیر پر استدلال:

مفتی کوفہ شیخ بن عبد اللہ نخعی نے عمرو اودی سے نقل کیا ہے کہ:

اس کے سامنے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ذکر ہوا۔ اس نے کہا: بعض لوگ علی علیہ السلام کی توہین کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ناشائستہ باتیں کرتے ہیں، یہ سب جہنم کے ایندھن ہیں، کیونکہ میں نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جماعت سے کہ من جملہ حزیفہ بن یمان و کعب بن عجزہ سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ:

علی علیہ السلام کو ایک ایسی چیز عطا کی گئی ہے کہ کسی ایک کو بھی وہ چیز نہیں ملی ہے۔ وہ دنیا میں اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے شوہر ہیں۔ کیا کسی بشر کو ان جیسی زوجہ ملی ہے ؟ انہیں حسن و حسین علیہ السلام دو سرداران جوانان جنت عطا کیے گئے اور کس کو حسن و حسین علیہ السلام جیسی اولاد عطا کی گئی ہے ؟

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زوجہ کے باپ اور وہ خود اہل بیت علیہم السلام میں سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی ہیں، تمام دروازے جو مسجد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کھلتے تھے، بند کیے گئے صرف علی علیہ السلام کا دروازہ کھلا رہا۔ وہ جنگ خیبر کے علمدار ہیں… وہ صاحب روز غدیر ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ:

ایھا الناس من اولی بکم من انفسکم؟ قالوا اللہ و رسولہ اعلم، قال من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ،

14- دارمیّہ حجونیہ کا استدلال:

زمخشری نے کتاب ربیع الابرار میں لکھا ہے کہ:

معاویہ حج کو گیا تھا، اس نے مکہ میں دارمیہ حجونیہ نام کی ایک خاتون کو بلوا بھیجا کہ جو شیعیان علی علیہ السلام میں سے تھی۔ یہ ایک سیاہ رنگ اور تنو مند خاتون تھی۔ جب وہ معاویہ کے پاس پہنچی تو معاویہ نے اس سے کہا: کیسی ہو اے حام کی بیٹی ؟

درامیہ نے کہا: میں خیریت سے ہوں لیکن حام سے نہیں ہوں بلکہ بنی کنانہ سے ہوں۔

معاویہ نے کہا: ٹھیک ہے، جانتی ہو کہ میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے ؟

دارمیہ نے کہا: سبحان اللہ ! کیا میں علم غیب رکھتی ہوں !

معاویہ نے کہا تم کیوں علی علیہ السلام کو دوست رکھتی ہو اور مجھ سے دشمنی کرتی ہو ؟

دارمیہ نے کہا: مجھے چھوڑ دو۔

معاویہ نے کہا: کہنا نہیں چاہتی ہو… ؟

دارمیہ نے کہا: میں جو علی علیہ السلام کو دوست رکھتی ہوں، تو یہ اس لیے ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان عدالت کی رعایت کرتے ہیں اور بیت المال کو مساوی تقسیم کرتے ہیں اور جو تم سے متنفر ہوں، اس لیے ہے کہ تم ایک ایسے شخص سے نبرد آزما ہو کہ جو خلافت کے لیے تم سے زیادہ سزاوار ہے، اور جس چیز کا مطالبہ کرتے ہو اس کے حقدار نہیں ہو، اور علی علیہ السلام کو اس لیے دوست رکھتی ہوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں ان کی ولایت کا اعلان کیا اور تم بھی وہاں حاضر تھے۔ وہ مفلس و ناداروں اور دیانتداروں کو دوست رکھتے ہیں، لیکن تم معاویہ ! خونریزی کرتے ہو اور تفرقہ پھیلاتے ہو۔ فیصلہ سنانے میں ظلم کرتے ہو اور ہوا و ہوس کی بنیادوں پر فیصلہ کرتے ہو !!!

15- اموی خلیفہ عمر ابن عبد العزیز کا استدلال:

ابو نعیم اصفہانی نے کتاب حلیۃ الاولیاء ج 5 صفحہ 364 پر راوی سے نقل کیا ہے کہ:

جس وقت خلیفہ بخشش و عطا کر رہا تھا، میں شام میں تھا۔ آگے بڑھا۔ عمر بن عبد العزیز نے مجھ سے پوچھا: تم کون ہو ؟

میں نے کہا: قریش سے ہوں۔

اس نے کہا: کس خاندان سے ہو ؟

میں نے کہا: بنی ہاشم سے ہوں۔

تھوڑا سوچنے کے بعد اس نے پوچھا: بنی ہاشم کے کن افراد میں سے ہو ؟

میں نے کہا، دوستان و غلامان علی علیہ السلام سے ہوں۔

سوال کیا: کون علی علیہ السلام ؟ تھوڑا خاموش رہنے کے بعد اس نے ہاتھ کو اپنے سینے پر مار کر کہا: خدا کی قسم میں بھی علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کا غلام ہوں۔ اس کے بعد کہا، بعض لوگوں نے میرے پاس یہ حدیث نقل کی ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے:

من کنت مولاہ فعلی مولاہ ،

اس کے بعد اپنے غلام مزاحم کی طرف مخاطب ہو کر پوچھا، ان جیسے افراد کو کتنی بخشش دیتے ہو ؟ اس نے جواب دیا: ایک سو یا دو سو درہم۔

خلیفہ نے کہا: اسے پچاس دینار دے دو۔

ابن داؤد کہتا ہے: خلیفہ نے حکم دیا کہ علی علیہ السلام کی دوستی کی وجہ سے اسے ساٹھ دینار عطا کیے جائیں۔

نتیجہ:

تاریخ کی ورق گردانی سے ایسے دلائل و شواہد اس سے کہیں زیادہ ملتے ہیں کہ جو ہم نے ابھی ذکر کیے ہیں۔ ان واقعات سے اس طرح استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ:

غدیر خم کا واقعہ مسلمانوں کی تاریخ و زندگی سے مربوط ایک اہم اور معروف واقعہ ہے۔ جو لوگ اس واقعہ سے باخبر تھے اسے آنے والی نسلوں کے لیے دست بہ دست اور سینہ بہ سینہ منتقل کرتے تھے اور جب کبھی مناسب موقع ملتا یا حالات مناسب ہوتے، تو اس کا ذکر کرتے تھے اور استدلال و احتجاج کرتے تھے۔

ان نمونوں کے ذکر کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غدیر کے واقعہ کی شہرت کسی خاص گروہ یا کسی خاص علاقے تک محدود نہ تھی، بلکہ مختلف اقوام اور مختلف علاقوں کے مسلمان اس سے آگاہ تھے اور تمام لوگوں کے ہاں یہ واقعہ مشہور اور معروف تھا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ معاویہ کے دربار شام میں، کوفہ کے رحبہ میں، اموی خلیفہ کے پاس، حج میں بنی کنانہ کی ایک خاتون، کوفہ کا ایک جوان، مسافروں میں سے کئی سوار، مہاجرین و انصار وغیرہ کے ذریعہ اس واقعہ کا بیان اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ واقعہ غدیر ایک وسیع اور شہرہ آفاق واقعہ ہے کہ جو اس وقت کے مسلمانوں کی زندگی میں رچ بس چکا تھا۔

التماس دعا۔۔۔۔۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: