موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
امام علی (ع) کا اپنی امامت اور خلافت پر خمس سے استدلال
مندرجات: 499 تاریخ اشاعت: 04 فروردين 2017 - 16:47 مشاہدات: 11318
پروگرام » ولایت نیٹ ورک
امام علی (ع) کا اپنی امامت اور خلافت پر خمس سے استدلال

حبل المتین 2016-08-21

 
 
ڈاؤن لوڈ لنک
 

توجہ فرمائیں: اس پروگرام کی آڈیو فائل بھی موجود ہے۔

 

 بسم اللہ الرحمن الرحیم
 

تاریخ : 2016-08-21

اس کا خلاصہ جو آپ اس پروگرام  میں دیکھیں گے۔۔۔۔

گزشتہ جلسات کے مطالب کا خلاصہ

گزشتہ ہفتوں میں ہم نے محمد بن عبد الوہاب اور اس جیسے دوسرے افراد کی طرف سے ہونے والے شبہات، کہ امام علی ع نے کیوں حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی امامت پر استدلال نہیں کیا، کے بارے میں کچھ مطالب بیان کئے تھے۔

یہ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ اگر امام علی ع امام منصوص من اللہ تھے، تو کیوں ان آیات و روایات کے ذریعہ استدلال نہیں کیا جن سے شیعہ حضرات استدلال کرتے ہیں۔

ہم نے متعدد جلسوں میں اس بات کو پیش کیا اور بیان کیا کہ امیر المومنین علی (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں اس موضوع کو صراحت کے ساتھ بیان کیا تھا:

ان علیا کان یقول فی حیاة رسول الله۔

حیات پیغمبر اکرم ص میں علی ع ہمیشہ کہتے تھے کہ 

والله انی لأخوه و ولیه و ابن عمه و وارثه و من أحق به منی۔

خدا کی قسم میں پیغمبر ص کی طرف سے منصوب کردہ ولی ہوں، ان کے چچا کا بیٹا اور ان کا وارث ہوں، مجھ سے زیادہ پیغمبر ص کی خلافت کا کون حقدار ہے؟ً!

فضائل الصحابة، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبد الله الشیبانی، دار النشر: مؤسسة الرسالة - بیروت - 1403 - 1983، الطبعة: الأولی، تحقیق: د. وصی الله محمد عباس، ج 2، ص 652، ح 1110۔

یہاں ہر کلمہ (ولیہ) آیا ہے۔ صحیح مسلم جلد 3 صفحہ 1378 پر حدیث نمبر 1757 کو آپ ملاحظہ کریں کہ خلیفہ دوم کہتے ہیں:

فلما تُوُفِّی رسول اللَّهِ قال أبو بَکرٍ أنا وَلِی رسول اللَّهِ ثُمَّ تُوُفِّی أبو بَکرٍ وأنا وَلِی رسول اللَّهِ وَوَلِی أبی بَکرٍ۔

وہاں پر کلمہ ولی کس معنی میں ہے؟! اگر وہاں پر دوست کے معنی میں ہے، تو یہاں بھی دوست کے معنی میں ہے۔ اگر وہاں پر ناصر کے معنی میں ہے، تو یہاں بھی ناصر کے معنی میں ہے۔ اگر وہاں پر خلیفہ و جانشین کے معنی میں ہے تو یہاں بھی خلیفہ و جانشین کے معنی ہے!

اسی طرح امام علی (ع) خلیفہ اول کے زمانے میں پیغمبر اکرم (ص) کے جسم مطھر کو غسل دینے میں مشغول تھے،

سلمان نقل کرتے ہیں:

فَأَتَیتُ عَلِیاً وهُوَ یغَسِّلُ رَسُولَ اللَّه۔

میں علی ع کے نزدیک گیا در حالیکہ وہ پیغمبر اکرم (ص) کو غسل دینے میں مشغول تھے۔ میں نے کہا: کہ یہ لوگ خلافت کے انتخاب کے لئے سقیفہ میں جمع ہوئے ہیں۔ امام علی علیہ السلام نے اس جگہ فرمایا:

 شَهِدُوا نَصْبَ رَسُولِ اللَّه إِیای لِلنَّاسِ بِغَدِیرِ خُمٍّ بِأَمْرِ اللَّه عَزَّ وجَلَّ۔

وہ لوگ اس بات کے شاہد ہیں کہ پیغمبر اکرم ص نے غدیر خم میں حکم خدا سے مجھے خلافت کے لئے نصب کیا تھا،

 فَأَخْبَرَهُمْ أَنِّی أَوْلَی بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ۔

اور ان لوگوں کو باخبر کیا تھا کہ میں ان کے مقابل خلافت کا زیادہ حقدار ہوں۔

کافی (ط- الإسلامیه)، ناشر: دار الکتب الإسلامیه، تهران، سال چاپ: 1407ق، ، ج 8، ص 344

اگر امیر المومنین (ع) اپنی امامت پر استدلال کرنا چاہیں تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ پیغمبر (ص) کا زمانہ ہو، تینوں خلفا کا زمانہ ہو یا خود علی ع کی خلافت کا زمانہ ہو۔

اسی طرح امیر الومنین (ع) نے پیغمبر اکرم ص کی رحلت کے سات دن بعد ایک خطبہ ارشاد فرمایا کہ: پیغمبر اکرم ص حجۃ الوداع میں کھڑے ہوئے اور اعلان کیا کہ جس کا بھی میں مولا ہوں، علی ع بھی اس کے مولا ہیں۔

 فَکانَتْ عَلَی وَلَایتِی وَلَایةُ اللهِ وَ عَلَی عَدَاوَتِی عَدَاوَةُ اللهِ۔

میری ولایت خدا کی ولایت ہے اور میری عداوت خدا کی عداوت ہے۔

فَکانَتْ وَلَایتِی کمَالَ الدِّینِ وَ رِضَا الرَّبِّ۔

پس میری ولایت کمال دین اور رضائے خدا ہے۔

الکافی؛کلینی، محمد بن یعقوب، ج 8، ص 27، ح 4

یہ مطالب ماہیت و سند کے اعتبار سے کوئی مشکل نہیں رکھتے۔

حدیث نمبر 3998، صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے  جس کو خود وہ لوگ اپنے شیطانی چینل پر پڑھنے سے وحشت کھاتے ہیں کہ:

حضرت علی علیہ السلام نے ابو بکر سے فرمایا: تنہا جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس آ اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لانا،

کرَاهِیةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ۔

جناب زہرا سلام اللہ علیہا اس بات کو نا پسند کرتی تھیں کہ عمر ان کے سامنے آئے۔ جب ابوبکر آئے، امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

وَ لَکنَّک اسْتَبْدَدْتَ عَلَینَا بِالْأَمْرِ۔

لیکن تم نے امر خلافت کے سلسلہ میں پم پر زیادتی کی۔

الجامع الصحیح المختصر، اسم المؤلف: محمد بن إسماعیل أبو عبدالله البخاری الجعفی، دار النشر: دار ابن کثیر, الیمامة - بیروت - 1407 - 1987، الطبعة: الثالثة، تحقیق: د. مصطفی دیب البغا، ج 4، ص 1549، ح 3998

امیر الومنین ع نے مسجد میں 200 افراد کے درمیان اپنی امامت پر اور حدیث غدیر سے استدلال پیش کیا۔ ان میں سے ایک بحث جو سب سے زیادہ اہم ہے اور یہاں پر ہم نے اس کی بحث کی ہے، وہ خلیفہ دوم کی 6 نفرہ شورا کے درمیان علی ع کا حدیث غدیر سے استدلال کرنا تھا۔ علی علیہ السلام نے اس جگہ پر فرمایا:

أما والله لأحاجنّهم بخصال لا تستطیع عُربهم ولا عجمهم، المعاهد منهم والمشرک أن ینکر منها خصلة واحدة۔

خدا کی قسم میں ایسا استدلال پیش کروں گا اور  اپنی حقانیت پر ایسی دلیل بیان کروں گا جسے نہ کوئی عربی نہ عجمی نہ ہم پیمان اور نہ ہی کوئی مشرک مسترد کر پائے گا۔

مناقب علی بن أبی طالب (ع) وما نزل من القرآن فی علی (ع)؛ أحمد بن موسی ابن مردویه الأصفهانی، تحقیق: عبد الرزاق محمد حسین حرز الدین، چاپ: الثانیة، سال چاپ: 1424 - دار الحدیث، - قم - ص 130، ح 162

سب سے پہلی خصوصیت امیر المومنین علیہ السلام کی پیغمبر اکرم ص کے لئے امانتداری ہے۔ جب پیغمبر اکرم ص مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا چاہتے تھے تو اکیلا وہ شخص جس کو پیغمبر اکرم ص امین جانتے تھے اور تمام امانتیں جس کے حوالہ کیں وہ علی علیہ السلام کی ذات ہے۔ جبکہ اس زمانہ میں پیغمبر اکرم ص کے اطراف میں بہت سے صحابہ موجود تھے، آخر کیوں پیغمبر اکرم ص نے اس ذمہ داری کو کسی اور کے حوالے نہیں کیا اور اس سے نہیں فرمایا کہ تم میرے بعد ان امانتوں کو لوگوں تک پہنچا دینا؟!

وأقام علی بن أبی طالب بمکة ثلاث لیال وأیامها۔

اور علی ابن ابی طالب علیہما السلام تین روزو شب مکہ میں مقیم رہے۔

حتی أدی عن رسول الله الودائع التی کانت عنده۔

یہاں تک کہ رسول اسلام ص سے ملنے والی امانتوں کو ان کے مالکوں تک پہنچا دیا۔

ثم لحق برسول الله۔

اس کے بعد پیغمبر اکرم ص سے جا ملے۔

 البدایة والنهایة، اسم المؤلف: إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی أبو الفداء، دار النشر: مکتبة المعارف – بیروت، ج 3، ص 197

حضرت علی علیہ السلام نے ان مطالب کو عثمان، طلحہ، زبیر،سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمان بن عوف، جو کہ بزرگ اصحاب میں سے تھے، مخاطب کرکے فرمایا؛ ان میں سے کوئی بھی امیر المومنین علیہ السلام کی باتوں کا انکار نہیں کرسکا اور صرف اتنا کہتے رہے:

اللّهمّ لا۔

خدا کی قسم آپ صحیح فرمارہے ہیں اور ہمارے اندر ایسی کوئی بھی خصوصیت نہیں ہے۔

ابن اثیر جزری کی کتاب (اسد الغابۃ) میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم ص کے غار ثور کی طرف ہجرت کے وقت امام علی علیہ السلام پیغمبر ص کے بستر پر سوئے تھے:

فبات علی فراشه، یفدیه بنفسه۔

حضرت علی علیہ السلام پیغمبر ص کے بستر پر سوئے اور اپنی جان ان پر قربان کردی۔

فکان جبریل عند رأْس عَلِی، ومیکائیل عند رجلیه، وجبریل ینادی۔

اس وقت جبرئیل و میکائیل آسمان سے نازل ہوئے، جبرئیل امام علی ع کے سرہانے اور میکائیل علی ع کے پائینتی کھڑے ہوئے اور جبرئیل نے آواز دی:

«بَخٍ بَخٍ من مثلک یا ابن أَبی طالب یباهی الله عز وجل به الملائکة»

مبارک ہو مبارک ہو اے ابن ابی طالب ع آپ کے جیسا کون ہے آپ کے اس ایثار کے سبب خداوند عالم ملائکہ پر فخر و مباہات کرتا ہے۔

أسد الغابة فی معرفة الصحابة، اسم المؤلف: عز الدین بن الأثیر أبی الحسن علی بن محمد الجزری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت / لبنان - 1417 هـ - 1996 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: عادل أحمد الرفاعی، ج 4، ص 113

اسی وقت خداوند عالم نے یہ آیہ شریفہ نازل کی:

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّه۔

لوگوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی رضا کے لئے اپنے نفس کو بیچ دیتے ہیں۔

سوره بقره (2): آیه 207

خمس کے بارے میں امیر المومنین ع کا استناد اپنی حقانیت کے لئے:

«أفیکم أحد کان یأخذ الخمس غیری وغیر زوجتی فاطمة؟»

کیا تم میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو اللہ اور رسول کے حق خمس کو میرے اور میری زوجہ فاطمہ کے علاوہ لے سکے؟!

«قالوا: لا»

سب نے کہا: نہیں۔

مناقب علی بن أبی طالب (ع) وما نزل من القرآن فی علی (ع)؛ أحمد بن موسی ابن مردویه الأصفهانی، تحقیق: عبد الرزاق محمد حسین حرز الدین، چاپ: الثانیة، سال چاپ: 1424 - دار الحدیث، - قم -– ص 128، ح 162

سیوطی اپنی کتاب (جامع الاحادیث) میں تحریر کرتے ہیں:

«عَنْ زَافِر عَنْ رَجُلٍ عَنْ الْحارِثِ بنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِی الطُّفَیلِ عَامِرِ بنِ وَاثِلَةَ قَالَ أَفِیکمْ أَحَدٌ کانَ یأْخُذُ الْخُمُسَ غَیرِی وَغَیرُ فَاطِمَةَ؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ لاَ»

زافر نے ایک شخص سے اور اس نے حارث بن محمد سے اور اس نے ابی طفیل عامر بن وائلہ سے نقل کیا کہ امام علی ع نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی بھی ایسا ہے، میرے اور میری زوجہ فاطمہ کے علاوہ، جس نے خمس لیا ہو؟ سب نے جواب دیا: خدا کی قسم ہر گز نہیں!

جامع الاحادیث (الجامع الصغیر وزوائده والجامع الکبیر)، اسم المؤلف: الحافظ جلال الدین عبد الرحمن السیوطی، ج 12، ص 55، ح 30

یہی عبارت (تاریخ ابن عساکر) میں بھی مرقوم ہے:

«أفیکم أحد کان یأخذ الخمس غیری وغیر فاطمة؟ قالوا: اللهم لا»

تاریخ دمشق، المؤلف: ابن عساکر، ج 42، ص 435، ح ا4933

اسی مضمون کی روایت صحیح مسلم میں بھی موجود ہے:

«یسْأَلُهُ عن خَمْسِ خِلَالٍ فقال بن عَبَّاسٍ لَوْلَا أَنْ أَکتُمَ وَعَنْ الْخُمْسِ لِمَنْ هو»

خمس کس سے تعلق رکھتاہے؟!

«هو لنا فَأَبَی عَلَینَا قَوْمُنَا ذَاک»

خمس ہمارا حق ہے لیکن قریش نے ہمارا حق دینے سے انکار کردیا۔

«وَکتَبْتَ تَسْأَلُنِی عن الْخُمْسِ لِمَنْ هو»

اور وہ لوگ کہتے ہیں: تم نے لکھا کہ یہ خمس کس سے تعلق رکھتا ہے!

«وَإِنَّا کنا نَقُولُ»

در حالیکہ ہم اہل بیت ع اس بات کو ہمیشہ کہتے رہتے ہیں۔

صحیح مسلم، اسم المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسین القشیری النیسابوری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، ج 3، ص 1444، ح 1812

جناب ابو دائود اپنی کتاب (سنن) میں اور ناصر الدین البانی ( صحیح سنن ابی دائود) کی تیسری جلد میں مفصل بیان کرتے ہیں:

«فِیمَا قَسَمَ من الْخُمُسِ بین بَنِی هَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ فقلت یا رَسُولَ اللَّهِ قَسَمْتَ لِإِخْوَانِنَا بَنِی الْمُطَّلِبِ ولم تُعْطِنَا شیئا وَقَرَابَتُنَا وَقَرَابَتُهُمْ مِنْک وَاحِدَةٌ»

 جب خمس بنی ہاشم اور بنی مطلب کے درمیان تقسیم ہوا، تو عثمان نے کہا: یا رسول اللہ ہم بھی تو آپ کے خاندان سے ہیں کیونکہ بنی امیہ اور بن ہاشم ایک جگہ پر جاکے مل جاتے ہیں، لہذا کیوں صرف بنی ہاشم کو خمس دیا اور ہمیں نہیں؟!

«فقال النبی إنما بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَیءٌ وَاحِدٌ»

پیغمبر اکرم ص نے جواب میں فرمایا: کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب ایک ہی قبیلہ سے ہیں۔

سنن أبی داود، اسم المؤلف: سلیمان بن الأشعث أبو داود السجستانی الأزدی، دار النشر: دار الفکر --، تحقیق: محمد محیی الدین عبد الحمید، ج 3، ص 145، بَاب فی بَیانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِی الْقُرْبَی، ح 2978

اب اسی طرح ملک میں موجود بزرگ علمائے اہل سنت کی روایات کو ملاحظہ فرمائیں: علامہ مفتی خدا نظر کی کتاب (محمود الفتاوی، فتاوی دار العلوم) زیر نظر شیخ الاسلام مولانا عبد الحمید، کی دوسری اور تیسری جلد میں اس طرح کے مطالب بیان ہوئے ہیں۔

جناب (عبد الحمید) نے اس کتاب کے سلسلہ میں ایک مفصل مقدمہ لکھا ہے اور یہ بات کہی ہے کہ تمام حوزات علمیہ میں اس کتاب سے استفادہ کیا جانا چاہئیے کیونکہ یہ دار العلوم زاھدان کے بیش قیمت آثار میں سے ہے۔ اس کتاب میں بیان ہوا ہے کہ سادات کو زکات دینا جائز نہیں ہے؛ لیکن خمس میں کوئی حرج نہیں اور یہ علت ہر زمانے میں متحقق ہے۔

سادات کو زکات دینا حرام ہے؛ لیکن خمس سادات سے مخصوص ہے۔

جناب زہرا سلام اللہ علیہا کافدک کا مطالبہ کرنا امیر المومنین علیہ السلام کی حقانیت پر ایک سند اور دلیل ہے:

(نہج البلاغہ)میں امیر المومنین علیہ السلام ایک خط (عثمان بن حنیف انصاری) کے نام تحریر فرماتے ہیں اور اس میں لکھتے ہیں کہ:

«بَلَی کانَتْ فِی أَیدِینَا فَدَک مِنْ کلِّ مَا أَظَلَّتْهُ السَّمَاءُ فَشَحَّتْ عَلَیهَا نُفُوسُ قَوْمٍ وَ سَخَتْ عَنْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ آخَرِین»

ہاں زیر آسمان ہمارا کل سرمایہ صرف یہی فدک تھا جس کو بعض افراد نے غصب کرلیا اور بعض دوسرے افراد سخاوتمندانہ طریقہ سے وہاں سے گزر گئے۔

نهج البلاغة، شریف الرضی، محمد بن حسین، محقق / مصحح: صالح، صبحی، ص 417

سعودی عرب سے چھپی ہوئی صحیح بخاری میں ایک روایت جناب عائشہ سے بیان ہوئی ہے جس میں آپ فرماتی ہیں:

«أَنَّ فَاطِمَةَ علیها السَّلَام أَرْسَلَتْ إلی أبی بَکرٍ»

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ایک شخص کو ابوبکر کے پاس بھیجا،

«تَسْأَلُهُ میراثها من النبی»

اور ان سے پیغمبر اکرم ص کی بچی ہوئی میراث کے بارے میں سوال کیا۔

کیا دختر پیغمبر ص جناب زہرا سلام اللہ علیہا اور دوسرے اصحاب رسول ص کی اس روایت سے باخبر نہیں تھے؟!:

«إِنَّا مَعَاشِرَ الْأَنْبِیاءِ لَا نُورَثُ»

جب ان لوگوں نے اس حدیث کو پڑھا تو جناب زہرا سلام اللہ علیہا غصہ ہوگئیں اور آخر عمر تک ان سے بات نہیں کی اور وصیت کی کہ یہ افراد میری تشییع جنازہ اور نماز جنازہ میں شریک نہ ہوں۔

اور اسی طرح:

«مما أَفَاءَ الله علی رَسُولِهِ تَطْلُبُ صَدَقَةَ النبی آلتی بِالْمَدِینَةِ وَفَدَک وما بَقِی من خُمُسِ خَیبَرَ»

مدینہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے صدقات کا مطالبہ کیا، فدک کا مطالبہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ جنگ خیبر کے بچے ہوئے خمس کا بھی مطالبہ کیا۔

الجامع الصحیح المختصر، اسم المؤلف: محمد بن إسماعیل أبو عبدالله البخاری الجعفی، دار النشر: دار ابن کثیر, الیمامة - بیروت - 1407 - 1987، الطبعة: الثالثة، تحقیق: د. مصطفی دیب البغا، ج 3، ص 1360، ح 3508

(ابن شبہ نمیری) کی کتاب (تاریخ مدینہ منورہ) میں موجود ہے کہ:

«أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَتَتْ أَبَا بَكْرٍ»

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ابوبکر کے پاس آئیں،

«فَقَالَتْ: قَدْ عَلِمْتُ الَّذِي طُلِّقْنَا عَنْهُ مِنَ الصَّدَقَاتِ أَهْلَ الْبَيْتِ»

اور فرمایا: تم اہل بیت ع کے ان صدقات کے بارے میں جانتے ہو یعنی جسے پیغمبر اکرم ص نے ہمارے لئے وقف کیا ہے،

«وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنَ الْغَنَائِمِ»

اور اسی طرح وہ جنگی مال غنیمت جسے اللہ نے ہمارے لئے قرار دیا ہے،

«ثُمَّ فِي الْقُرْآنِ مِنْ حَقِّ ذِي الْقُرْبَى»

جس کو قرآن نے ذی القربیٰ سے تعبیر کیا ہے۔

«فَانْصَرَفَتْ إِلَى عُمَرَ»

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ابو بکر سے نا امید ہوگئیں تو عمر کے پاس گئیں۔

«فَذَكَرَتْ لَهُ مِثْلَ الَّذِي ذَكَرَتْ لِأَبِي بَكْرٍ بِقِصَّتِهِ وَحُدُودِهِ»

اور وہ تمام باتیں جو آپ س نے اپنے حق کے سلسلہ میں ابو بکر سے فرمائی تھیں (یعنی میراث وخمس وصدقات کے بارے میں) عمر سے بیان کیں۔

«فَقَالَ لَهَا مِثْلَ الَّذِي كَانَ رَاجَعَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ»

پس عمر نے بھی جواب میں وہی تمام باتیں کہیں جو ابو بکر نے کہی تھیں۔

«فَعَجِبَتْ فَاطِمَةُ »

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے تعجب کیا،

«وَظَنَّتْ أَنَّهُمَا قَدْ تَذَاكَرَا ذَلِكَ وَاجْتَمَعَا عَلَيْهِ»

اور گمان کیا کہ ان دونوں نے آپس میں طے کررکھا ہے کہ دونوں ایک ہی بات کہیں گے۔

تاريخ المدينة لابن شبة؛ المؤلف: عمر بن شبة (واسمه زيد) بن عبيدة بن ريطة النميري (المتوفى: 262هـ)، حققه: فهيم محمد شلتوت، طبع على نفقة: السيد حبيب محمود أحمد – جدة، عام النشر: 1399 هـ، ج 1، ص 209

براداران اہل سنت سے ایک اہم تقاضہ!

وہابی ماہرین معمولی بہانے بناکر شور مچاتے ہیں اور مختلف چینلوں پر بطور مرتب خاص پروگرام پیش کرتے ہیں؛ ہمارے اہل سنت حضرات ان کے دھوکے میں آجاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ (وہابی) صحابہ کے سلسلہ میں اتنے غیرت مند ہیں، تو ہم ان کی تعریف کرتے ہیں؛ لیکن سوال یہ ہے کہ امام علی علیہ السلام پیغمبر ص کے اصحاب میں سے تھے یا نہیں؟! جب ۷۰ ہزار منبروں سے حضرت علی علیہ السلام پر سب و شتم اور ان کو برا بھلا کہا جارہا تھا، اس وقت ان افراد کی غیرت کہاں تھی؟!

اے برادران اہل سنت، خدا کی قسم یہ وہابی چینل آپ کے خیر خواہ نہیں ہیں، ان کے جال میں نہ پھنسئے گا! جمہوری اسلامی میں پرسکون اور امنیت کی زندگی کو غنیمت جانیں۔

جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی قسم اگر ایران کے اندر نا امنیت پیدا ہوگئی، تو یقین جانیں آپ کو شیعوں سے زیادہ نقصان ہوگا۔ اگر کل داعش اس ملک میں داخل ہوجائیں، تو وہ شیعوں سے پہلے آپ کو اپنا نشانہ بنائیں گے۔ کچھ روز پہلے اہل سنت کے تقریبا ۳۰ علما (شبکہ جہانی ولایت) میں شامل ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ  ہم نے پروگرام کیا؛ یہاں تک کہ ہم نے جناب عبد الحمید اور عبد المجید سے ہونے والے مصاحبہ کو اس چینل پر دکھایا۔ وہابی حضرات کھلم کھلا ان لوگوں کو برابھلا کہتے ہیں اور ان کو فحش الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں جو (شبکہ جہانی ولایت) میں شامل ہوتے ہیں اور پروگرام پیش کرتے ہیں۔ اب اس صورت میں آپ یہ سوچتے ہیں کہ یہ افراد آپ کے خیر خواہ ہیں؟!

خدا کی قسم اگر کل ایران میں نا امنیت پیدا ہوجائے۔ تو یہی وہابی اور جنگجو سب سے پہلے علمائے اہل سنت کے مارنے کا حکم دیں گے۔ آپ یقین جانیں اگر نا امنیت وجود میں آئی تو داعشی حضرات اور شیطانی چینل ہی آپ کو اپنا ہدف قرار دیں گے۔

اے برادران اہل سنت، علمائے بزرگوار، محققین اور طلاب عزیز ہم دور سے آپ سے ہاتھ ملاتے ہیں اور آپ کی پیشانی کا بوسہ لیتے ہیں۔ اگر کوئی نا اتفاقی ہے تو ہم کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہئیے۔ آپ کے نمائندے، آپ کے علما اور آپ کے بزرگ افراد ایک جگہ بیٹھیں اور ان مشلات کا حل نکالیں۔ ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ ان یہودی شیطانی چینلوں کو نہ دیکھیں تاکہ یہ لوگ اختلافات ایجاد کرکے تم کو شیعوں کے مقابل اور شیعوں کو تمہارے مقابل بد گمان نہ کرسکیں؛اس لئے کہ خدا کی قسم اس کا نتیجہ بہت برا ہے۔

ہمارے پاس تقریبا ۳۰ کلپ ان افراد کی ہے جو کہتے ہیں کہ: (کلمہ چینل) کا پروگرام جمہوری اسلامی پر ایک ضرب ہے۔ یہ افراد علما، مراجع، امام اور رہبری کی توہین کرتے ہیں۔

ہماری بنیادی مشکل یہاں پر ہے!

ہماری بنیادی مشکل یہاں پر ہے کہ اہل سنت حضرات ہماری ان باتوں کو نہیں مانتے۔ سعودی عرب سے چھپی صحیح بخاری میں عمر خلیفہ دوم (ابن ابی بلتعۃ) کے بارے میں کہتے ہیں:

«دَعْنِی أَضْرِبْ عُنُقَ هذا الْمُنَافِقِ»

اے پیغمبر خدا ص ہمیں اجازت دیں کہ اس منافق کی گردن اڑادوں۔

یہ شخص اصحاب میں سے تھا جسے عمر نے منافق سے تعبیر کیا ہے۔ اگر کوئی شیعہ آکر کسی صحابی کے بارے میں کہے کہ: فلاں صحابی منافق تھا۔ تب یہ لوگ کیا کریں گے؟! شیطانی چینلوں میں یہ لوگ آسمان کو زمین پر گرا دیں گے یا نہیں؟!

یہ کیسے ہوا کہ جب خلیفہ دوم نے ایک صحابی کو منافق کہہ کر خطاب کیا اور اس کے ذریعہ ایک صحابی کی توہین کی تو کیوں کوئی رد عمل وجود میں نہیں آیا۔ جب کہ امیر المومنین علیہ السلام پر سب و شتم ہوتا ہے تب اس طرح کی کوئی مشکل پیش نہیں آتی!!

کیوں یہاں پر ان حضرات کی غیرت جوش میں نہیں آتی!؟

امام حافظ امیر المومنین فی الحدیث ابی عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری، اپنی کتاب (تاریخ صغیر) میں نقل کرتے ہیں:

«ولی أبو بکر سنتین وستة أشهر»

ابو بکر دو سال چھ  مہینہ حاکم رہا۔

«وولی عمر عشر سنین وستة أشهر وثمانیة عشر یوما»

عمر دس سال چھ ماہ اور ۱۸ روز حاکم رہا۔

«وولی عثمان ثنتی عشرة سنة غیر اثنتی عشر یوما»

اور عثمان ۱۲ دن کم بارہ سال حاکم رہا۔

«وکانت الفتنة خمس سنین»

پانچ سال فتنہ برپا رہا۔

 «وولی معاویة عشرین سنة»

اور معاویہ بیس سال حاکم رہا۔

«وولی یزید بن معاوة ثلاث سنین»

اور یزید بن معاویہ تین سال حاکم رہا۔

 التاریخ الصغیر، تحقیق محمود ابراهیم زاید؛ دار المعرفة بیروت – لبنان، ج 1، ص 118 و 119

وہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے زمانہ حکومت کو فتنہ سے تعبیر کرتا ہے!! مجھے نہیں پتہ کہ اب ان بے غیرتوں کی غیرت کہاں چلی گئی جو شیطانی چینلوں پر آتے ہیں؟!

اس پروگرام کے مطالب کی تفصیل:

مجری:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللھم صل علی محمد و آل محمد

آپ حضرات کی خدمت میں عرض سلام و ادب، ناظرین کرام (ولایت  عالمی چینل) آپ حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ آپ اس وقت بیٹھ کر (حبل المتین) پروگرام دیکھ رہے ہیں۔

انشاء اللہ آپ جہاں کہیں بھی ہوں حضرت ولی عصر عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کی توجہات کے زیر سایہ زندگی بسر کریں کہ جو رضائے خدا کا سبب بنے۔

معمول کے مطابق آج شب ہم پھر گزشتہ پروگراموں پر فخر کرتے ہوئے استاد ارجمند آیت اللہ دکتر سید محمد حسین قزوینی کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ آپ تمام حضرات کی طرف سے میں استاد کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں۔ سلام علیکم ورحمۃ اللہ:

آیت اللہ دکتر حسینی قزوینی:

سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں بھی آپ تمام ناظرین گرامی قدر اور جہاں کہیں بھی لوگ اس پروگرام کو دیکھ رہے ہیں، ان سب کی خدمت میں کامیابی و کامرانی کی امید کے ساتھ اپنا سلام پیش کرتا ہوں۔

میں خدا کو محمد و آل محمد علیہم السلام کی عزت کا واسطہ دیتا ہوں کہ وہ امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ہم سب کو ان کے اصحاب و انصار میں قرار دے۔ ہم پر دنیا و آخرت کی خوبیاں نازل کرے اور دنیا و آخرت کے شر کو ہم سے دور فرمائے، ہماری دعائوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ ان‌شاءالله۔

مجری:

میں استاد محترم اور ان ناظرین گرامی قدر کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جو گزشتہ ہفتہ ہمارے  پروگرام (حبل المتین) کو دیکھ رہے تھے وہ جانتے ہیں کہ ہمارا پروگرام کس کیفیت اور کس انداز کا ہے۔

ہفتوں ہوگئے کہ چینلوں، سائٹوں، یہودیوں، وہابیوں اور داعشیوں نے یہ دعوی کیا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنی خلافت پر کوئی استناد نہیں کیا۔ وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ جو استدلال ہم امیر المومنین علی علیہ السلام کے سلسلہ میں پیش کرتے ہیں وہ استدلال خود امیر المومنین علی ع نے نہیں کیا۔

امام علی علیہ السلام کا اپنی امامت کے بارے میں حدیث غدیر سے استدلال کا خلاصہ

استاد محترم نے گزشتہ جلسوں میں حدیث غدیر سے امام علی ع کے استدلال کے بارے میں کچھ باتیں فرمائی تھیں۔ میں چاہتا ہوں کہ پہلے آپ اپنے گزشتہ بیان کا ایک خلاصہ بیان فرمادیں تاکہ پھر نئے سوالات پیش کئے جائیں۔

آیت اللہ دکتر حسینی قزوینی:

اعوذ بالله من الشیطان الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم و به نستعین و هو خیر ناصر و معین الحمد الله و الصلوة علی رسول الله و علی آله آل الله لا سیما علی مولانا بقیة‌الله و اللعن الدائم علی اعدائهم اعداء الله الی یوم لقاء الله افوض امری الی الله ان الله بصیر بالعباد حسبنا الله و نعم الوکیل نعم المولی و نعم النصیر.

ہم نے گزشتہ ہفتہ محمد بن عبد الوہاب اور دوسرے افراد کی طرف سے کئے جانے والے شبہات کے بارے میں کچھ باتیں بیان کیں جن کا اعتراض یہ تھا کہ امام علی علیہ السلام نے حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی امامت پر استدلال پیش نہیں کیا۔

ان حضرات کا دعوا ہے کہ اگر امام علی علیہ السلام امام منصوص تھے تو انہوں نے ان آیات و روایات سے استدلال کیوں نہیں کیا جن سے شیعہ حضرات کرتے ہیں۔

اور دوسری طرف جناب (کالکراب زادہ) نے فرمایا کہ میں ایک سوال سے زیادہ نہیں پوچھوں گا اور اس کا جواب آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ جعفر سبحانی جیسے لوگ دیں: اگر علی علیہ السلام خلافت کے لئے منصوص تھے تو کیوں اپنی امامت کا دعوا نہیں کیا؟! آپ نے کیوں نہیں کہا کہ میں ولی امر مسلمین ہوں اور حدیث غدیر میرے بارے میں نازل ہوئی ہے؟!

اسی طرح کی بات داعش اور یہودیوں کے کارندوں نے بھی کی اور ہم نے ان کی ویڈیو کلپ کو چند بار دکھایا بھی جس میں یہ کہا گیا کہ ( اگر حدیث غدیر امام علی علیہ السلام کی امامت پع دلالت کرتی ہے تو کیوں امام علی ع اس سے بے خبر رہے؟! آپ ایک روایت ہی اس دعوے کے جھوٹے ہونے میں بیان فرمائیں!!

ہم نے مختلف جلسوں میں اس بات کو پیش کیا اور بیان کیا کہ جناب امیر المومنین علی علیہ السلام  نے زمانہ پیغمبر ص میں اس موضوع کو وضاحت کو ساتھ بیان فرمایا ہے۔

احمد بن حنبل کی کتاب ( فضائل الصحابۃ) کی جلد 3، صفحہ 652 پر صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ:

«ان علیا کان یقول فی حیاة رسول الله»

امام علی علیہ السلام حیات پیغمبر ص میں ہمیشہ کہتے تھے۔

«والله انی لأخوه وولیه وابن عمه ووارثه ومن أحق به منی»

خدا کی قسم میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے معین کردہ ولی ہوں ان کا چچا زاد بھائی اور ان کا وارث ہوں، مجھ سے زیادہ پیغمبر ص کی خلافت کا حقدار کون شخص ہے؟!

فضائل الصحابة، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبد الله الشیبانی، دار النشر: مؤسسة الرسالة - بیروت - 1403 - 1983، الطبعة: الأولی، تحقیق: د. وصی الله محمد عباس، ج 2، ص 652، ح 1110

یہاں پر کلمہ (ولیہ) آیا ہے۔ آپ صحیح مسلم کی جلد 3 صفحہ 1378 کی حدیث نمبر 1757 میں مشاہدہ کریں گے کہ خلیفہ دوم فرماتے ہیں:

«فلما تُوُفِّی رسول اللَّهِ قال أبو بَکرٍ أنا وَلِی رسول اللَّهِ»

جب پیغمبر اکرم ص کی وفات ہوئی تو ابو بکر نے فرمایا کہ میں پیغمبر ص کا جانشین اور خلیفہ ہوں۔

اس کے بعد لکھتے ہیں:

«ثُمَّ تُوُفِّی أبو بَکرٍ وأنا وَلِی رسول اللَّهِ وَوَلِی أبی بَکرٍ»

پھر جب ابو بکر کی وفات ہوئی تو میں ابو بکر اور رسول کا جانشین ہوا۔

صحیح مسلم، اسم المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسین القشیری النیسابوری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، ج 3، ص 1378، ح 1757

یہاں پر کلمہ (ولی) کس معنی میں ہے؟! اگر وہاں پر دوست کے معنی میں ہے تو یہاں بھی دوست کے معنی میں ہے۔ اگر وہاں پر ناصر کے معنی میں ہے تو یہاں بھی ناصر کے معنی میں ہے۔ اگر وہاں پر خلیفہ اور جانشین کے معنی میں ہے تو یہاں پر بھی خلیفہ اور جانشین کے معنی میں ہے!

ایک ہی چھت پر دو ہوا کیوں؟! یہاں پر بھی ولی اسی معنی میں ہے۔ ابو بکر جب خلیفہ بنتا ہے تو کہتا ہے:

«ولیت علیکم ولست بخیرکم»

میں تمہارا ولی ہوگیا در حالیکہ میں تم لوگوں سے بہتر نہیں ہوں۔

پھر کہتاہے:

«وهذا إسناد صحیح»

یہ سند صحیح ہے۔

البدایة والنهایة، اسم المؤلف: إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی أبو الفداء، دار النشر: مکتبة المعارف – بیروت، ج 5، ص 248، باب قصة سقیفة بنی ساعدة

یہاں پر کلمہ (ولی) کس معنی میں ہے؟! خلیفہ دوم فرماتے ہیں:

«ولو أدرکت خالد بن الولید لولیته»

اگر میں خالد بن ولید کو درک کرتا تو یقینا اس کو خلیفہ بناتا۔

الإمامة والسیاسة، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتیبة الدینوری، سنة الولادة / سنة الوفاة 276 هـ.، تحقیق خلیل المنصور، الناشر دار الکتب العلمیة، سنة النشر 1418 هـ - 1997 م.، مکان النشر بیروت، ج 1، ص 25

یہاں پر کلمہ ( ولی) کس معنی میں ہے؟! کیا اس معنی میں ہے کہ میں ان کو دوست اور ناصر بناتا، یا اس معنی میں کہ اس کو تمہارا خلیفہ قرار دیتا؟! میں نے اس طرح کے موارد مفصل طور پر مخلتف کتابوں سے بیان کئے ہیں۔

اسی طرح امیر المومنین علی علیہ السلام خلیفہ اول  کے زمانے میں رسول اسلام ص کے جسم مطہر کو غسل دینے میں مشغول تھے، سلمان نقل کرتے ہیں:

 «فَأَتَیتُ عَلِیاً وهُوَ یغَسِّلُ رَسُولَ اللَّه»

میں علی ع کے پاس آیا در حالیکہ وہ پیغمبر ص کو غسل دینے میں مشغول تھے۔

میں نے عرض کیا: یہ لوگ سقیفہ میں خلافت کے انتخاب کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ امام علی ع نے وہیں پر فرمایا:

«شَهِدُوا نَصْبَ رَسُولِ اللَّه إِیای لِلنَّاسِ بِغَدِیرِ خُمٍّ بِأَمْرِ اللَّه عَزَّ وجَلَّ»

وہ سب اس بات کے شاہد تھے کہ پیغمبر اکرم ص نے غدیر خم میں حکم خدا سے ہم کو خلیفہ بنایا تھا،

«فَأَخْبَرَهُمْ أَنِّی أَوْلَی بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ»

اور انہیں باخبر کیا تھا کہ میں ہی ولایت کا زیادہ حقدار ہوں۔

خداوند عالم نے غدیر خم میں ان لوگوں کو باخبر کیا تھا قرآن کریم کی اس آیت کے ذریعہ:

النَّبِی أَوْلی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِهِم۔

پیغمبر اسلام ص خود مومنین پر ان سے زیادہ اختیار رکھتے ہیں۔

سوره احزاب (33): آیه 6

امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جس طرح سے پیغمبر ص کی ولایت مومنین کی بنسبت قوی تر ہے اسی طرح ہماری ولایت بھی ہے۔

آپ ع اس کے بعد فرماتے ہیں کہ:

«قَدْ أُعْلِمُوا إِمَامَهُمْ»

پیغمبر اکرم ص نے ان لوگوں کے سامنے ان کے امام کو دکھایا بھی تھا۔

کافی (ط- الإسلامیه)، ناشر: دار الکتب الإسلامیه، تهران، سال چاپ: 1407ق، ، ج 8، ص 344

آخر میں امام ع فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے امر خدا کو چھوڑ دیا اور حکم خدا کی نافرمانی کی۔ ہم نے تمام راویوں کی اس روایت کے سند کی تحقیق کی اور یہ بات مشخص کردی کہ یہ روایت صحیح ہے۔

یہ لوگ کہتے ہیں کہ: ایک ایسی روایت لے کر آئیں جس میں علی ابن ابی طالب علیہما السلام نے ابو بکر و عمر کے زمانے میں حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی امامت پر استدلال کیا ہو!!

یہ لوگ ابتدا میں کہتے تھے کہ: اس طرح کی روایت ہے ہی نہیں؛ لیکن جیسے ہی ہم نے (حدیث رھبہ) کو پیش کیا یہ لوگ رسوا ہوگئے اور کہنے لگے کہ: اپنے زمانے میں استدلال پیش کرنا ملاک و معیار نہیں ہے؛ بلکہ ایسی روایت لے کر آئیں جس میں امام  ع نے ابو بکر و عمر و عثمان کے زمانے میں اپنی امامت پر استدلال کیا ہو!!

اگر طے یہ ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام اپنی امامت پر استدلال کریں، تو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ زمانہ پیغمبر ص میں ہو، خلفا کے زمانہ میں ہو یا خود اپنی خلافت کے زمانے میں ہو۔

وہابیوں کی یہ باتیں ان کی دشمنی اور ہٹ دھرمی کو ظاہر کرتی ہیں، ہم نے ایسے افراد کے دعووں کے جواب میں امیر المومنین علی ع کے ان الفاظ کو بیان کردیا ہے جو آپ ع نے پیغمبر ص کو غسل دیتے وقت فرمائے تھے۔

اسی طرح پیغمبر اکرم ص کی رحلت کے سات روز بعد امام علی ع کا خطبہ اس دعوے پر ایک اور شاہد ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اس خطبہ میں ان مطالب کو بطور مفصل بیان کیا ہے۔

آپ ع نے پیغمبر اکرم ص کی رحلت کے سات روز بعد ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا: پیغمبر اکرم ص حجۃ الوداع میں کھڑے ہوئے اور اعلان کیا کہ جس کا بھی میں مولا ہوں، علی ع اس کے مولا ہیں۔

«فَکانَتْ عَلَی وَلَایتِی وَلَایةُ اللَّهِ وَ عَلَی عَدَاوَتِی عَدَاوَةُ اللَّه»

میری ولایت خدا کی ولایت ہے، اور میری دشمنی خدا کی دشمنی ہے۔

اس کے بعد اس آیت سے استدلال کیا:

الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دِینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دِیناً۔

آج میں نے تمہارے دین کو کامل کیا، اور اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کیا، اور آج میں تمہارے دین سے راضی ہوگیا۔

سوره مائده (5): آیه 3

«فَکانَتْ وَلَایتِی کمَالَ الدِّینِ وَ رِضَا الرَّبِّ»

پس رضائے خدا اور کامل دین میری ولایت میں ہے۔

الکافی؛کلینی، محمد بن یعقوب، ج 8، ص 27، ح 4

ان مطالب کے اندر ماہیت اور سند کے اعتبار سے کوئی مشکل نہیں ہے۔ یہی مطالب مرحوم طبرسی کی کتاب (احتجاج) میں وارد ہوئے ہیں اور کتاب (کوچہ ھای مدینہ) میں بھی اسی ترتیب سے بیان ہوا ہے۔اور اسی طرح اہل سنت کی کتابیں (صحیح بخاری) اور (صحیح مسلم) میں بھی بیان ہوا ہے۔

ہم نے بارہا اس بات کی تکرار کی ہے کہ (صحیح بخاری) کی حدیث نمبر 3998 ایسی حدیث ہے جسے یہ لوگ شیطانی چینل پر پڑھنے سے گھبراتے ہیں؛ کیونکہ یہ حدیث جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت اور خلیفہ اول پر شہزادی سلام اللہ علیہا کے غضبناک ہونے کے سلسلہ میں ہے۔

بخاری اس بارے میں لکھتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام نے ابو بکر سے فرمایا کہ: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس تنہا آنا اور کسی کو ساتھ نہ لانا۔

«کرَاهِیةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ»

جناب زہرا سلام اللہ علیہا اس بات کو ناپنسد کرتی تھیں کہ عمر ان کے سامنے آئے۔

جب ابو بکر آئے، امیر المومنین علی علیہ السلام نے ان سے فرمایا:

«وَلَکنَّک اسْتَبْدَدْتَ عَلَینَا بِالْأَمْرِ»

تم نے خلافت کے سلسلہ میں مجھ پر ظلم کیا۔

مجھے نہیں پتہ کہ وہابی چینلوں پر (استبددت علینا بالامر) کے کیا معنی ہیں؟! میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنے ناظرین کے لئے اس کی توضیح پیش کریں۔ اس میں امر سے مراد کیا ہے؟!

این قضیہ کو ہمارے لئے واضح کریں۔ یہ بات تو مشخص ہے کہ یہ روایت بحث امامت سے مربوط ہے، لہذا فرماتے ہیں:

«وَکنَّا نَرَی لِقَرَابَتِنَا من رسول اللَّهِ نَصِیبًا حتی فَاضَتْ عیناً أبی بَکرٍ»

ہم پیغمبر ص کے رشتہ دار ہونے کی وجہ سے خلافت میں حصہ دار تھے یہاں تک کہ ابو بکر ہم پر مسلط ہو گیا۔

الجامع الصحیح المختصر، اسم المؤلف: محمد بن إسماعیل أبو عبدالله البخاری الجعفی، دار النشر: دار ابن کثیر, الیمامة - بیروت - 1407 - 1987، الطبعة: الثالثة، تحقیق: د. مصطفی دیب البغا، ج 4، ص 1549، ح 3998

 اسی طرح ہم مختلف روایات اہل سنت کی کتابوں سے لے کر آئے اور ان مطالب پر مفصل بحث کی، یہاں تک کہ ہماری بحث خلافت عثمان کے زمانے میں امیر المومنین علی علیہ السلام کے حدیث غدیر کے ذریعہ کئے جانے والے استدلال تک پہنچی۔

امیر المومنین علیہ السلام نے مسجد میں 200 افراد کے درمیان حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی امامت پر بحث کی اور استدلال پیش کیا۔

ان میں سے ایک بحث جو سب سے زیادہ اہم ہے اور اس کے بارے میں ہم نے یہاں پر بحث بھی کی، وہ خلیفہ دوم کی چھ نفرہ کمیٹی کے درمیان علی علیہ السلام کا حدیث غدیر کے ذریعہ استدلال کرنا ہے۔

امیر المومنین علی علیہ السلام نے وہاں فرمایا:

«أما والله لأحاجنّهم بخصال لا تستطیع عُربهم ولا عجمهم، المعاهد منهم والمشرک أن ینکر منها خصلة واحدة»

خدا کی قسم میں ایسا استدلال پیش کروں گا اور اپنی حقیانیت پر ایسی دلیل لے کر آئوں گا اور اپنی خصوصیات کو بیان کروں گا کہ عربی، عجمی، ہم پیمان و مشرکین میں سے کوئی بھی اس کو کاٹ نہیں پائے گا۔

مناقب علی بن أبی طالب (ع) وما نزل من القرآن فی علی (ع)؛ أحمد بن موسی ابن مردویه الأصفهانی، تحقیق: عبد الرزاق محمد حسین حرز الدین، چاپ: الثانیة، سال چاپ: 1424 - دار الحدیث، - قم - ص 130، ح 162

ان روایات کو ہم نے شیعی کتابوں سے نقل نہیں کیا بلکہ اہل سنت کی کتابوں سے بیان کیا ہے۔ جناب (ابن مردویہ) جو کہ اہل سنت کی برجستہ شخصیتوں میں سے ہیں اور ذہبی نے اپنی کتاب (تذکرۃ الفاظ) کی جلد 3 صفحہ 1050 پر ان کو ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے وہ کہتے ہیں:

«بن مردویه الحافظ الثبت العلامة أبو بکر أحمد بن موسی بن مردویه الأصبهانی صاحب التفسیر والتاریخ»

اس کے بعد کہتے ہیں:

«وکان قیما بمعرفة هذا الشان»

علم حدیث میں بہت آگاہی رکھتے تھے۔

«بصیرا بالرجال»

علم رجال میں صاحب بصیرت تھے۔

«طویل الباع ملیح التصانیف»

تذکرة الحفاظ، اسم المؤلف: أبو عبد الله شمس الدین محمد الذهبی، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت، الطبعة: الأولی، 3، ص 1050 و 1051، ح 965

اس شخص نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔ ہم نے اس کی سند کو اہل سنت کے نظریہ سے تحقیق کیا اور مشخص ہوگیا کہ یہ روایت سند کے اعتبار سے کوئی مشکل نہیں رکھتی۔ ہم نے یہاں پر یہ بھی بیان کیا کہ علی علیہ السلام نے کچھ خصوصیات کو بیان فرمایا۔

سب سے پہلی خصوصیت امیر المومنین علی علیہ السلام کی پیغمبر اکرم کی بنسبت امانتداری ہے۔ جب پیغمبر اکرم ص مکہ سے مدینہ ہجرت کرنا چاہ رہے تھے، تو تنہا جس شخص کو پیغمبر اکرم ص امین جانتے تھے اور جس کو تمام امانتوں اور قرضوں کے پلٹانے کا ذمہ دار بنایا وہ علی علیہ السلام تھے۔

اس زمانہ میں بہت سے اصحاب پیغمبر ص کے اطراف میں تھے، پھر کیوں پیغمبر اکرم ص نے اس کام کو کسی اور کے حوالے نہیں کیا اور کسی سے نہیں کہا کہ تم میرے بعد میری امانتوں کو لوگوں تک پہنچا دینا؟!

پیغمبر اکرم ص کے لئے ضروری تھا کہ ایسے شخص کا انتخاب کریں جو سو فیصد امین ہو اور کسی بھی قسم کی لالچ نہ رکھتا ہو، لوگوں کے اموال میں زیادتی نہ کرے اور لوگوں کے حقوق کو جیسے ہیں ویسے ہی ادا کرے۔ ہم نے اس روایت کو اہل سنت کی مختلف کتابوں سے نقل کیا ہے۔

ابن اثیر کی کتاب (البدایۃ والنھایۃ) میں یہ بات صراحت کے ساتھ موجود ہے:

«وأقام علی بن أبی طالب بمکة ثلاث لیال وأیامها»

امیر المومنین علی علیہ السلام 3 روز مستقل مکہ میں رہے

«حتی أدی عن رسول الله الودائع التی کانت عنده»

تاکہ رسول کی دی ہوئی امانتوں کو لوگوں تک پلٹادئں،

«ثم لحق برسول الله»

اس کے بعد پیغمبر اکرم ص سے جاکر مل گئے۔

البدایة والنهایة، اسم المؤلف: إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی أبو الفداء، دار النشر: مکتبة المعارف – بیروت، ج 3، ص 197

مجمع کے درمیان امیر المومنین علی علیہ السلام جن بہترین مطالب کو بیان فرماتے ہیں وہ یہ ہیں، آپ ع نے فرمایا: میں سے سب پہلا مسلمان اور سب سے پہلا موحد ہوں۔ جب پیغمبر اکرم ص مبعوث بہ رسالت ہوئے تو جو شخص سب سے پہلے ان پر ایمان لایا، میں تھا اور خدا کی وحدانیت کا اعتراف سب سے پہلے میں نے کیا۔

اہل شیعہ اور اہل سنت حضرات اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے پلک جھپکنے کے برابر بھی کسی بت کی پرستش نہیں کی۔ اسی بنا پر یہ حضرات امیر المومنین علی علیہ السلام کے نام کے ساتھ (کرم اللہ وجھہ) اور بقیہ افراد کے نام کے ساتھ ( رضی اللہ عنہ) کا جملہ استعمال کرتے ہیں۔

امیر المومنین علی علیہ السلام پوچھتے ہیں کہ یہ خصوصیت تم میں سے کس کے اندر پائی جاتی ہے؟! اس کے بعد امام ع فرماتے ہیں: میں نے سات سال پیغمبر اکرم کے ساتھ اس وقت نماز پڑھی جب کوئی بھی صحابی ایمان نہیں لایا تھا، میرے اور خدیجہ س کے علاوہ کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو پیغمبر اکرم ص کے ساتھ نماز پڑھتا۔

پھر آپ ایک دوسرے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم ص کے جسم مطہر کا غسل میرے ذمہ تھا۔ یہ آیت:

قُلْ لا أَسْئَلُکمْ عَلَیهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی.

آپ کہہ دیں کی کہ ہم اپنی رسالت کے عوض  تم سے کچھ نہیں چاہتے مگر یہ کہ تم میرے اہل بیت سے مودت اختیار کرو۔

سوره شوری (42): آیه 23

میری شان میں نازل ہوئی، پیغمبر اکرم ص نے حکم دیا کہ تمام صحا بہ کے ان دروازوں کو بند کردو جو مسجد میں کھلتے ہیں سوائے میرے دروازے کے۔

میں وہ ہوں جس کے زانو پر پیغمبر اکرم ص کا سر مبارک تھا اور میری نماز قضا ہوگئی، رسول اسلام ص نےدعا کی اور سورج پلٹ آیا اور میں نے اہنی نماز ادا کی؛ میرے علاوہ کون اس طرح کے فضائل رکھتاہے؟!

اس کے بعد امام ع نے حدیث طیر کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: جب بھنا ہوا مرغ پیغمبر اکرم ص کے سامنے لایا گیا، تو آنحضرت ص نے خدا سے درخواست کی کہ وہ اپنے محبوب ترین بندہ کو ان کے پاس بھیج دے تاکہ وہ پیغمبر ص کے ساتھ اس مرغ کو کھا سکے؛ کیا اس وقت میرے علاوہ کوئی اور آیا تھا؟!

امیر المومنین علی علیہ السلام نے ان مطالب کو (عثمان، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمن بن عوف) جیسے افراد کو مخاطب کرکے فرمایا؛ اور کوئی بھی ان میں سے آپ ع کی بات کا انکار نہیں کرسکا اور سب نے صرف اتنا کہا:

«اللّهمّ لا»

خدا کی قسم آپ صحیح فرمارہے ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی اس خصوصیت کا حامل نہیں ہے۔

در حقیقت یہ مطالب گزشتہ جلسوں کا ایک نمونہ تھا۔ امیر المومنین علی علیہ السلام آگے اپنی شجاعت کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور سب سے سوال کرتے ہیں: تم میں سے کون میری طرح جنگوں میں تلوار چلاتا تھا؟!

خلیفہ دوم کے الفاظ ہیں

«والله لولا سیفه لما قام عمود الإسلام»

خدا کی قسم اگر علی کی تلوار نہ ہوتی تو اسلام کا پرچم لہراتا نہیں۔

شرح نهج البلاغة؛ محمد بن أبی الحدید المدائنی، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت / لبنان - 1418 هـ - 1998 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: محمد عبد الکریم النمری، ج 12، ص 51

جنگ احد میں تمام اصحاب فرار کر گئے سوائے علی علیہ السلام اور چند دوسرے افراد کے کوئی باقی نہ رہا۔ بالفرض اگر علی علیہ السلام بھی فرار کر جاتے تو اسلام اور رسول اسلام ص کا مقدر کیا ہوتا؟!

اہل سنت حضرات باقاعدہ منبروں اور نماز جمعہ کے خطبوں میں غار کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کیا آیہ غار کہنے اور سننے کے قابل ہے؛ لیکن حدیث لیلۃ المبیت کہنے اور سننے کے قابل نہیں ہے؟! بہت افسوس کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ اہل سنت حضرات اس واقعہ کے ساتھ کم لطفی سے کام لیتے ہیں۔

ابن اثیر جزری کی کتاب (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ) میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام ص کی غار ثور کی طرف ہجرت کے وقت امام علی علیہ السلام آپ ص کے بستر پر سوئے تھے:

فبات علی فراشه، یفدیه بنفسه۔

علی علیہ السلام آنحضرت ص کے بستر پر سوئے اور ان پر اپنی جان فدا کردی۔

ایک عراقی نمائندہ کے بقول: صدر اسلام سے اب تک سعودی عرب کی تاریخ میں صرف ایک بار الیکشن ہوا ہے اور وہ بھی اس وقت جب یہ معلوم کیا جارہا تھا کہ کون پیغمبر ص کو قتل کرے گا؛ اسی بات کو جاننے کے لئے الیکشن اور ریفرینڈم منعقد کیا گیا۔

پیغمبر اسلام ص شب لیلۃ المبیت امام علی علیہ السلام سے اشارہ کرتے ہیں کہ وہ ان کے بستر پر سو جائیں۔ امیر المومنین علی علیہ السلام عرض کرتے ہیں: یا رسول اللہ ص اگر میں سو جائوں تو کیا آپ کی جان بچ جائے گی؟! پیغمبر اکرم ص نے جواب میں فرمایا: ہاں۔

«فکان جبریل عند رأْس عَلِی، ومیکائیل عند رجلیه، وجبریل ینادی

اس وقت جنرئیل و میکائیل آسمان سے نازل ہوتے ہیں، جبرئیل علی ع کے سرہانے اور میکائیل علی ع کے پائتیں کھڑے ہوتے ہیں اور جبرئیل آواز دیتے ہیں:

«بَخٍ بَخٍ من مثلک یا ابن أَبی طالب یباهی الله عز وجل به الملائکة»

مبارک ہو مبارک ہو اے علی ابن ابی طالب علیہما السلام آپ کے جیسا کون ہے خداوند عالم آپ کے اس ایثار کے سب ملائکہ پر فخرو مباہات کرتا ہے

أسد الغابة فی معرفة الصحابة، اسم المؤلف: عز الدین بن الأثیر أبی الحسن علی بن محمد الجزری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت / لبنان - 1417 هـ - 1996 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: عادل أحمد الرفاعی، ج 4، ص 113

اسی وقت خداوند عالم نے اس آیت کو نازل فرمایا:

(وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّه)

کچھ لوگ ایسے ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی مرضی کو بیچ دیتے ہیں۔

سوره بقره (2): آیه 207

ہم حدیث غار کے سلسلہ میں کوئی اشکال نہیں کرنا چاہتے اور فرض کرتے ہیں کہ تمام باتیں صحیح ہیں؛ لیکن آپ حضرات اس روایت کو ان روایات کے ساتھ رکھیں جو اہل سنت کی کتابوں میں بکثرت پائی جاتی ہیں تقریبا 30 یا 40 مقامات اہل سنت کی کتابوں میں ایسے پائے جاتے ہیں جس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

خداوند عالم ملائکہ پر مباہات کرتا ہے اور فرماتاہے: میں علی ابن ابی طالب علیہما السلام پر فخر کرتا ہوں اس وجہ سے کہ وہ پیغمبر اکرم ص کے بستر پر سوئے ہیں۔

ہمیں ان شیطانی چینلوں سے کوئی توقع نہیں ہے کیونکہ ان چینلوں کی بنیاد ہی امام علی ع سے مقابلہ کرنے اور ان کے فضائل سے انکار کرنے پر ہے۔

یہ افراد بنی امیہ کی نسل اور مکتب (ابن تیمیہ) کے پروردہ ہیں؛ ہم ان لوگوں سے کوئی امید نہیں رکھتے۔ اگر یہ لوگ اس طرح کی باتیں امام علی علیہ السلام کے بارے میں نہ کہیں، ممکن نہیں ہے۔

یہ مباحث ان گزشتہ مباحث کا ایک نمونہ ہے جو گزشتہ دو مہینوں میں ہم نے بیان کیا تھا اس کے بعد کچھ فرعی بحثیں آگئیں اور ہماری بحث کے درمیان فاصلہ پیدا ہوگیا اور ہم مجبور ہوگئےکہ اس موضوع کو سرسری طور پر بیان کریں۔

مجری:

ہم استاد محترم کے شکر گزار ہیں۔ ناظرین کرام نے (حبل المتین) پروگرام میں استاد محترم کے ذریعہ بیان کردہ مطالب کو ملاحظہ فرمایا۔

اگر آپ ان مطالب کو بطور کامل دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں اور ان استدلالات اور مطالب، جن کو امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنی امامت و خلافت کے بارے میں پیش کیا ہے، کو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ (ولایت عالمی چینل) پر مراجعہ کریں۔

آپ (ولایت عالمی چینل) کی سائٹ میں (آرشیوہ) کے بخش میں جاکر (حبل المتین) کی آڈیو، تصویری اور متنی فائل کو ڈائونلوڈ کرسکتے ہیں۔ اور ان‌شاءالله ان مباحث سے استفادہ کریں۔

جن مقامات پر علی علیہ السلام نے خاص طور سے اپنی افضلیت پر استدلال کیا ہے ا ن میں سے ایک خمس کا مسئلہ ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ خمس حق اللہ اور حق الرسول ہے۔

میرا سوال استاد محترم سے یہ ہے کہ کیا اہل سنت کی کتابوں میں کوئی ایسی عبارت پائی جاتی ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ خمس بنی ہاشم اور اہل بیت علیہم السلام کا مسلم حق رہا ہے یا نہیں؟!

اپنی حقانیت کے اثبات میں امیر المومنین علی علیہ السلام کا مسئلہ خمس سے استدلال!

آیت اللہ دکتر حسینی قزوینی:

ہم ابتدا میں امیر المو منین علی علیہ السلام کی تعبیر اس سلسلہ میں بیان کریں گے تاکہ ناظرین دیکھیں کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کی تعبیر ہے کیا؛

اس کے بعد اس سلسلہ میں دوسرے افراد کی تعبیر پیش کریں گے۔

امیر المومنین علی علیہ السلام واقعہ (لیلۃ المبیت) بیان کرنے کے بعد ان پانچ افراد کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:

کیا میرے علاوہ تم میں سے کوئی ایسا ہے جو پیغمبر ص کےبستر پر سویا ہو اور اپنی جان پیغمبر ص پر نثار کی ہو؟! لوگوں نے کہا: نہیں،

اس کے بعد امام ع نے فرمایا:

«أفیکم أحد کان یأخذ الخمس غیری وغیر زوجتی فاطمة؟»

کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے اللہ اور اس کے رسول والے حصہ خمس کو میرے اور میری زوجہ فاطمہ کے علاوہ کسی اور نے لیا ہو؟!

«قالوا: لا»

سب نے کہاؒ نہیں۔

مناقب علی بن أبی طالب (ع) وما نزل من القرآن فی علی (ع)؛ أحمد بن موسی ابن مردویه الأصفهانی، تحقیق: عبد الرزاق محمد حسین حرز الدین، چاپ: الثانیة، سال چاپ: 1424 - دار الحدیث، - قم -– ص 128، ح 162

خداوند عالم سورہ انفال کی آیت نمبر 41 میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَی‌ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِی الْقُرْبی وَ الْیتامی وَ الْمَساکینِ وَ ابْنِ السَّبِیل۔

اور جان لو جو کچھ بھی تم فائدہ حاصل کرتے ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول، ذی القربیٰ، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا ہے۔

سوره انفال (8): آیه 41

ان‌شاءالله آئندہ جلسوں میں ہم ان مباحث کو بیان کریں گے۔ اہل سنت حضرات اور شیطانی چینلوں کے ماہرین کہتے ہیں کہ: اس آٰیت میں غنیمت سے مراد جنگ سے ملنے والا مال غنیمت ہے۔

ہم آئندہ جلسوں میں بطور مفصل اس بات کو بیان کریں گے اور اس کی اصل اور بنیاد پر بھی روشنی ڈالیں گے کہ (غنیمت) (غَنِم) اور (غُنم) سے مراد تمام طرح کے فائدے ہیں یا صرف جنگی مال غنیمت!! کیا اس آیہ شریفہ

فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ کثِیرَة

سوره نساء (4): آیه 94

خدا کے پاس بہت سے غنائم ہیں۔

 سے یہ مراد ہے کہ خداوند عالم سے جنگ کرو اور مال غنیمت حاصل کرو؟!

یا ( فی اللؤلؤ خمس) سے مراد یہ ہے کہ انسان دریا میں جاکر مچھلیوں سے جہاد کرے اور مال غنیمت حاصل کرے؟! یا ( و فی الرکاز خمس) سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی کان یا خزانہ کھودنا چاہے، تو زمین و خاک اور ذرات سے جہاد کرے اور پھر مال حاصل کرے؟!

بات بالکل واضح اور روشن ہے۔ اگر کوئی ہٹ دھرمی کرنا چاہتا ہے تو ہم اسے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ ( ھنیئا لہ عذاب النار)؛ لیکن اگر کوئی معقول طریقہ سے مستند اور علمی بحث کرنا چاہتا ہے تو ہم ان لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ یہیں پر ہم سے فون پر رابطہ قائم کریں۔

شیطانی چینلوں کے ماہرین فون پر آنے کی ہمت نہیں کریں گے۔ ہم نے یہ بات بارہا کہی ہے کہ یہ لوگ مناظرہ کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اور یہ نہیں کہ تنہا ہم سے ڈرتے ہیں بلکہ ہمارے شاگردوں اور پروگرام دیکھنے والوں حتی ہمارےمولائی بچوں سے بھی وحشت کھاتے ہیں۔

ابھی کچھ شب پہلے ہمارے ایک بچہ نے وہابیوں کے چینل پر فون کیا تھا اور اس نے ان لوگوں کی بساط کو الٹ کر رکھ دیا اور انہوں نے جلدی سے اس کا فون کاٹ دیا۔

یہ لوگ اتنے جاہل ہیں کہ ایک 8 یا 10 سال کا بچہ (ولایت عالمی چینل) سے ملنے والی معلومات کے ذریعہ شیطانی چینلوں پر فون کرکے ان لوگوں کو لاجواب کردیتا ہے۔

اور وہابی چینلوں کے ماہرین اس شیعہ بچہ کے جواب میں کچھ نہیں کرپاتے سوائے گالی دینے اور توہین و برا بھلا کہنے کے۔ وہابی چینلوں کے ماہرین کچھ لوگوں کو کرائے پر لاتے ہیں تاکہ وہ لوگ ان کو ایک کمرے سے فون کریں اور کہیں: ( جناب ہاشمی ہم نے اچھا بیان کیا؟!) ( جناب ہاشمی اچھا تھا؟!)

ہر جگہ ان کو رسوائی نے گھیر رکھا ہے۔ خمس کے بارے میں ہم اہل سنت کے نظریہ سے ویسے ہی بحث کریں گے جیسی بحث آج تک ( ولایت عالمی چینل) پر نہیں کی گئی۔ ہم نے ڈیڑھ سال یا دو سال فقہ مقارن کے موضوع کو خمس سے مخصوص کررکھا تھا۔

ان‌شاءالله اگر توفیق شامل حال رہی تو (حبل المتین)  پروگرام کے ایک جلسہ میں خمس اور غنیمت کے بارے میں تفصیل سے بیان کریں گے اور (صحیح بخاری و صحیح مسلم) سے کچھ روایات اس سلسلہ میں پیش کریں گے۔

اہل سنت کی کتابوں میں خمس کے سلسلہ سے پایا جاتا ہے کہ کچھ قبیلے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی خدمت میں آکر عرض کرتے ہیں: یا رسول اللہ! ہم ایسی جگہ پر ہیں جہاں سے آپ تک رسائی ممکن نہیں ہے اور ہمارے چاروں طرف کفار ہیں، اب ہم کیا کریں؟ً!

پیغمبر اکرم ص کے جواب میں ان لوگوں کو نصیحت کی اور فرمایا: نماز پڑھو، زکات ادا کرو اور اپنے مال کا خمس بھی نکالو۔

یہاں پر پیغمبر اکرم ص نے ان لوگوں کو خمس نکالنے کا حکم دیا ہے جو کفار کے ڈر سے پیغمبر ص تک رسائی نہیں پیدا کر پاتے تھے۔ ایک دوسری روایت میں پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں: کھیتی کرو، بلندی اور دروں میں کھیتی کرو اور اس جگہ سے استفادہ کرو اور اہنے مال کا خمس بھی ادا کرو۔

جس خمس کے ہم معتقد ہیں کہ وہ تجارتی فائدہ میں واجب ہے، اہل سنت کی کتابوں میں بھی موجود ہے؛ ہم ان‌شاءالله ان مطالب کو بطور مفصل بیان کریں گے۔

پیغمبر اکرم ص نے کچھ افراد کو اس بات پر مامور کیا تھا کہ وہ لوگوں کے خمس کو جمع کریں۔ جب جنگ ہوتی اورمسلمانوں کو مال غنیمت نصیب ہوتا تھا، تو پیغمبر اکرم ص مسلمانوں کے درمیان مال غنیمت تقسیم کرتے تھے۔

اس روایت کے ذریعہ ہم متوجہ ہوجاتے ہیں کہ خمس غنائم جنگی سے الگ ایک چیز ہے؛ اس لئے کہ پیغمبراکرم ص جنگی مال غنیمت کو خود تقسیم کرتے تھے، جبکہ آپ ص نے کچھ افراد کو لوگوں کے خٰمس اور تجارتی فائدہ کو جمع کرنے کے لئے معین کررکھا تھا۔

 میں اپنے ناظرین سے وعدہ کرتا ہوں کہ ان‌شاءالله اہل سنت کے نظریہ سے ہم خمس کے بارے میں بطور مفصل گفتگو پیش کروں گا۔ ہم اس سلسلہ میں یہاں پر ایک سوال پیش کریں گے تاکہ دیکھیں کہ وہابی چینلوں کے اندر کتنی مردانگی پائی جاتی ہے کہ وہ ہمارے سوال کا جواب دے سکیں!!

قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے:

وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَی‌ءٍ

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ غنائم سے مراد ہر طرح کا فائدہ ہے؛ چاہے یہ فائدہ جنگ سے حاصل ہو، تجارت کے ذریعہ حاصل ہو یا زراعت اور کھیتی کے ذریعہ حاصل ہو:

فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ

خمس کی اہمیت یہاں پر ہے؛ کہ خداوند عالم سب سے پہلے اپنا حصہ معین کرتا ہے۔ اب خمس کا شرف یہ ہے کہ اللہ نے خمس کے سب سے پہلے حصہ کو اپنے سے مخصوص کیا ہے۔

وَ لِلرَّسُولِ

خمس کا دوسرا حصہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متعلق ہے

وَ لِذِی الْقُرْبی

خمس کا تیسرا حصہ (ذی القربی) سے متعلق ہے۔

ہم نے اس سے پہلے دسیوں روایات اہل سنت کے حوالے سے اس بات پر عرض کی ہیں کہ اہل سنت کے نزدیک اس آیت میں:

قُلْ لا أَسْئَلُکمْ عَلَیهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی

اے پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ ہم اپنی رسالت کے عوض کچھ نہیں چاہتے سوائے اس کے کہ تم میرے قرابتداروں سے مودت اختیار کرو۔

(القربی) سے مراد امیر المومنین علی علیہ السلام، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کے دونوں فرزند ہیں۔

یہ مطلب ابن مردویہ کی کتاب (مناقب) میں موجود ہے، اور سیوطی کی کتاب (جامع الاحادیث) میں بھی یہی مطلب موجود ہے۔ سیوطی اس کتاب میں لکھتے ہیں:

«عَنْ زَافِر عَنْ رَجُلٍ عَنْ الْحَارِثِ بنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِی الطُّفَیلِ عَامِرِ بنِ وَاثِلَةَ قَالَ

پھر تحریر کرتے ہیں:

«أَفِیکمْ أَحَدٌ کانَ یأْخُذُ الْخُمُسَ غَیرِی وَغَیرُ فَاطِمَةَ؟ قَالُوا: اللَّهُمَّ لاَ»

عامر بن وائلہ کے حوالہ سے کہ امام ع نے فرمایا: کیا میرے اور فاطمہ کے علاوہ تم میں سے کوئی ایسا ہے جس نے خمس لیا ہو؟ سب نے کہا: خدا کی قسم نہیں!

جامع الاحادیث (الجامع الصغیر وزوائده والجامع الکبیر)، اسم المؤلف: الحافظ جلال الدین عبد الرحمن السیوطی، ج 12، ص 55، ح 30

اسی طرح کتاب (تاریخ ابن عساکر) کی جلد 42 صفحہ 435 پر یہ روایت بیان ہوئی ہے، جہاں پر وہ لکھتے ہیں:

«أفیکم أحد کان یأخذ الخمس غیری وغیر فاطمة؟ قالوا: اللهم لا»

تاریخ دمشق، المؤلف: ابن عساکر، ج 42، ص 435، ح 4933

اس بنیاد پر یہ روایت ابن مردویہ کی کتاب (مناقب) کے علاوہ ان دونوں کتابوں میں بھی ذکر ہوئی ہے۔

اسی طرح (صحیح مسلم) میں بھی کچھ ایسے مطالب پائے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ خمس اہل بیت اور بنی ہاشم سے تعلق رکھتا ہے؛ ہمیں اس روایت کے صحیح یا غیر صحیح ہونے سے کوئی مطلب نہیں ہے۔

یسْأَلُهُ عن خَمْسِ خِلَالٍ فقال بن عَبَّاسٍ لَوْلَا أَنْ أَکتُمَ.

اس کے بعد لکھتے ہیں:

وَعَنْ الْخُمْسِ لِمَنْ هو

خمس کس سے متعلق ہے؟!

( ابن عباس) اس سوال کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے آخر میں فرماتے ہیں

هو لنا فَأَبَی عَلَینَا قَوْمُنَا ذَاک۔

خمس ہمارا حق ہے لیکن قریش نے ہمارا حق دینے سے انکار کردیا۔

یہ ضعیف روایت نہیں ہے جس کا لوگ انکار کردیں! آئیں اس روایت کا معنی کریں شائد ہم اس روایت کے معنی کی طرف متوجہ نہیں ہو پارہے ہیں۔

وَکتَبْتَ تَسْأَلُنِی عن الْخُمْسِ لِمَنْ هو

کہتے ہیں: تم نے لکھ کر پوچھا ہے کہ خمس کس سے متعلق ہے!

وَإِنَّا کنا نَقُولُ

ہم بنی ہاشم ہمیشہ اس بات کو کہتے ہیں

صحیح مسلم، اسم المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسین القشیری النیسابوری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، ج 3، ص 1444، ح 1812

کلمہ (انا) تاکید ہے، اسی طرح کلمہ (کنا) بھی تاکید ہے اور (کان) کے ساتھ استعمال ہوا ہے، کلمہ (نقول) مضارع ہے جو استمرار پر دلالت کرتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ کہا: (ھو لنا) خمس ہم سے تعلق رکھتا ہے؛ لیکن ( فابی علینا قومنا ذاک) ہماری قوم والوں نے ہمیں خمس دینے سے منع کردیا۔

آپ ہمارے لئے معنی کریں؛ کہ (صحیح مسلم) میں ابن عباس کی روایت میں استعمال ہونے والے خمس سے کیا مراد ہے؟! ( فابی) سے کیا مراد ہے؟! ( قومنا) سے کیا مراد ہے؟! بات کو اس سے زیادہ واضح کرکے بیان کروں؟!

اسی طرح احمد بن حنبل کی (مسند)، جو ایک بزرگ وہابی (شعیب الانئووط) کی تحقیق کردہ ہے،

کی جلد چہارم میں آیا ہے:

فَکتَبَ إلیه انک سألتنی عن سَهْمِ ذَوِی الْقُرْبَی۔

یہاں پر (ذوی القربی) سے کون لوگ مراد ہیں؟! ہم نے واضح کیا کہ (ذوی القربی) سے مراد بنی ہاشم ہیں۔

اس کے بعد کہتے ہیں:

«وأنا کنا نَرَی قَرَابَةَ رسول اللَّهِ هُمْ فأبی ذلک عَلَینَا قَوْمُنَا»

خمس رسول اسلام ص اور ان کے نزدیکیوں سے تعلق رکھتا ہے لیکن ہماری قوم نے اسے دینے سے انکار کردیا

مسند الإمام أحمد بن حنبل، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشیبانی، دار النشر: مؤسسة قرطبة – مصر، ج 1، ص 248، ح 2235

اسی طرح شافعی کی کتاب (احکام القرآن) میں آیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:

«قال الشافعی رحمه الله ویقسم سهم ذی القربی علی بنی هاشم وبنی المطلب»

شافعی کہتا ہے: ذی القربی کا حصہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کے درمیان تقسیم ہونا چاہئیے۔

أحکام القرآن، اسم المؤلف: محمد بن إدریس الشافعی أبو عبد الله، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - 1400، تحقیق: عبد الغنی عبد الخالق، ج 1، ص 158، باب ما یؤثر عنه فی قسم الفیء والغنیمة والصدقات

اسی طرح حنفیوں کے بزرگ عالم دین جناب ابو بکر کاشانی حنفی اپنی کتاب ( بدائع الصنائع) کی جلد 7 صفحہ 125 پر فرماتے ہیں:

«قال الشَّافِعِی رَحِمَهُ اللَّهُ إنَّهُ بَاقٍ وَیصْرَفُ إلَی أَوْلَادِ بَنِی هَاشِمٍ من أَوْلَادِ سَیدَتِنَا فَاطِمَةَ رضی اللَّهُ تَعَالَی عنها»

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، اسم المؤلف: علاء الدین الکاسانی، دار النشر: دار الکتاب العربی - بیروت - 1982، الطبعة: الثانیة، ج 7، ص 125، باب أَمَّا الْخُمْسُ فَالْکلَامُ فیه فی بَیانِ کیفِیةِ قِسْمَةِ الْخُمْسِ

کیا اس سے زیادہ واضح اور روشن مطالب بیان کروں؟! ہم کس چیز کی تلاش میں ہیں؟! اسی طرح جناب غزالی اپنی کتاب (المستصفی فی علم الاصول) میں فرماتے ہیں:

«الأنفال 41 الآیة»:

وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَی‌ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِی الْقُرْبی وَ الْیتامی وَ الْمَساکینِ وَ ابْنِ السَّبِیل)

اور جان لو جو بھی فائدہ تم حاصل کرتے ہو اس کا پانچواں حصہ خدا، اس کے رسول، ان کے قرابتدار، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے۔

«وإنما أراد بذی القربی بنی هاشم وبنی المطلب دون بنی أمیة وکل من عدا بنی هاشم فلما منع بنی أمیة وبنی نوفل وسئل عن ذلک قال أنا وبنو المطلب لم نفترق فی جاهلیة ولا إسلام»

اور ذی القربی سے مراد بنی ہاشم اور بنی مطلب ہیں نہ کہ بنی امیہ اور بنی ہاشم کے علاوہ کوئی اور شخص پس کیوں بنی امیہ اور بنی نوفل نے اس کو روک دیا اور جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا: کہ ہم اور اولاد مطلب ایک نہیں ہیں چاہے دور جاہلیت میں ہو یا اسلام میں۔

المستصفی فی علم الأصول، اسم المؤلف: محمد بن محمد الغزالی أبو حامد، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - 1413، الطبعة: الأولی، تحقیق: محمد عبد السلام عبد الشافی، ج 1، ص 193، باب مسألة (فی تأخیر البیان)

جناب ابو داود اپنی (سنن) میں اور ناصر الدین البانی ( صحیح سنن ابی داود) کی جلد سوم میں مفصل بیان کرتے ہیں:

«فِیمَا قَسَمَ من الْخُمُسِ بین بَنِی هَاشِمٍ وَبَنِی الْمُطَّلِبِ فقلت یا رَسُولَ اللَّهِ قَسَمْتَ لِإِخْوَانِنَا بَنِی الْمُطَّلِبِ ولم تُعْطِنَا شیئا وَقَرَابَتُنَا وَقَرَابَتُهُمْ مِنْک وَاحِدَةٌ»

جب خمس بنی ہاشم و بنی مطلب کے درمیان تقسیم ہوگیا تو عثمان کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ آپ نے ہمارے بھائی بنی مطلب کو تو خمس دیدیا لیکن ہمیں نہیں دیا جبکہ ہماری اور ان کی قرابت ایک ہے یعنی ہم دونوں ایک جگہ جاکے مل جاتے ہیں۔

«فقال النبی إنما بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَیءٌ وَاحِدٌ»

رسول اسلام ص نے جواب میں فرمایا: بنی ہاشم اور بنی مطلب ایک ہی قبیلہ سے ہیں۔

سنن أبی داود، اسم المؤلف: سلیمان بن الأشعث أبو داود السجستانی الأزدی، دار النشر: دار الفکر --، تحقیق: محمد محیی الدین عبد الحمید، ج 3، ص 145، بَاب فی بَیانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِی الْقُرْبَی، ح 2978

بنی امیہ ایک دوسرا قییلہ ہے جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں۔ اس کی بنیاد اور اصل سر راہ کھڑے ایک بچہ پر ختم ہوجاتی ہے!! اسی طرح ملک میں موجود بزرگ علمائے اہل سنت کی روایات ملاحظہ فرمائیں:

علامہ (مفتی خدا نظر) کی کتاب ( محمود الفتاوی، فتاوی دار العلوم زاھدان) زیر نظر ( شیخ الاسلام مولانا عبد الحمید) کی جلد اول و دوم میں اس سلسلہ سے کچھ باتیں بیان ہوئی ہیں۔

جناب عبد الحمید نے اس کتاب پر بہت ہی مفصل مقدمہ لکھا ہے اور اس میں بیان کیا ہے کہ اس کتاب کو تمام حوزات علمیہ میں ہونا چاہئیے کیونکہ یہ دار العلوم زاھدان کے لئے ایک بیش قیمتی سرمایہ ہے۔

اس کتاب میں بیان ہوا ہے کہ سادات کو زکات دینا جائز نہیں ہے؛ یہاں تک کہ وہ لکھتے ہیں: کہ خمس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور یہ سبب ہر زمانے میں ثابت ہے۔ سادات کو زکات دینا حرام ہے؛ لیکن سادات کو خمس دینا معین ہے۔

یہ بات اہل سنت کے موجودہ علما کے فتووں کا ایک نمونہ ہے۔ یہ مطالب کاملا واضح و روشن ہیں؛ لیکن اگر کوئی ہٹ دھرمی کرنا چاہتا ہے تو ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں؛ لیکن اگر کوئی علمی بحث اور اس مسئلہ کی حقیقت تک پہنچنا چاہتاہے تو وہ ان مطالب پر غور کرے۔

زکات ایک واجب فریضۃ ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے؛ یہاں تک کہ ہمارے بعض علما بھی اس بات کے قائل ہیں کہ نقدین یعنی سونا چاندی اور وہ پیسے جو بینک میں محفوظ ہیں ان پر زکات واجب ہے اور ہمیں اس عقیدے سے کوئی مطلب نہیں۔

وہابیوں نے خمس کے بارے میں بہت شور مچایا ہے۔ یہاں تک کہ دو سال پہلے انہوں نے چند ہفتے اس موضوع پر پروگرام بھی پیش کیا اور لوگوں سے وصیت کی کہ علما کو خمس نہ دیں کیونکہ علما ان پیسوں کو اپنے اوپر خرچ کر لیتے ہیں۔

آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی نے فرمایا: جس دن سے وہابیوں نے خمس کے بارے میں یہ پروگرام پیش کیا اس دن سے ہم کو رقوم شرعیہ دینے والے دوگنے ہوگئے ہیں۔ اگر خدا چاہے تو دشمن بھی سبب خیر ہوجاتا ہے۔

جناب حسینی میں آپ کی خدمت میں ہوں۔

مجری:

استاد میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ جناب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی زندگی کا ایک رخ جو ان کی پوری حیات طیبہ میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ (س) نے اپنی پوری زندگی امام علی علیہ السلام کی امامت، حقانیت، مظلومیت اور خلافت کے دفاع کے لئے وقف کردی تھی۔

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا فدک مانگنا امیر المومنین علیہ السلام کی حقانیت پر ایک دلیل ہے۔

استاد محترم کیا اہل سنت کی کتابوں میں جناب زہرا سلام اللہ علیہا سے ایسی روایات پائی جاتی ہیں جو اس بات کو بتاتی ہوں کہ آپ (س) خمس کو اپنا مسلم حق جانتی تھیں یا نہیں؟!

آیت اللہ دکتر حسینی قزوینی:

سوال بہت عمدہ ہے؛ وہابی حضرات کہتے ہیں: فدک کی کوئی ارزش نہیں، کیونکہ وہ چند بالشت زمین اور چند درخت سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ ہم نے بحمد اللہ واقعہ فدک کے سلسلہ میں ایک سنگ میل قرار دیا ہے اور میرا گمان ہے کہ 20 جلسوں سے زیادہ ہم نے اس واقعہ کے بارےمیں اہل سنت کی کتابوں سے بحث کی ہے۔

فدک پیغمبر ص کی شخصی ملکیت تھی اور بیت المال اس سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہم نے اہل سنت کی کتابوں سے ثابت کیا کہ پیغمبر اکرم ص نے فدک جناب زہرا سلام اللہ علیہا کو بخش دیا تھا؛ لیکن خلفا نے آپ کی ملکیت کو غصب کرلیا تھا۔

جناب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ خود فدک کے مطالبہ کے لئے تشریف لائی تھیں اور امیر المومنین ع کو بھی بھیجا تھا۔ امیر المومنین علی ع پیغمبر ص کے چچا ابن عباس کے ساتھ فدک کے مطالبہ کے لئے گئے تھے۔

ان لوگوں نے جناب زہرا سلام اللہ علیہا سے گواہ طلب کئے۔ امیر المومنین علی ع اور امام حسن و حسین علیہم السلام نے گواہی دی، (ام ایمن) اور اسی طرح پیغمبر اکرم ص کے غلام نے بھی گواہی دی؛ لیکن ان حضرات نے اس گواہی کو کئی اہمیت نہیں دی۔

ہم نے ان مطالب کو تفصیل کے ساتھ 20 سے زیادہ جلسوں میں بیان کیا ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ایک خط (عثمان بن حنیف انصاری) کو مخاطب کرکے تحریر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:

«بَلَی کانَتْ فِی أَیدِینَا فَدَک مِنْ کلِّ مَا أَظَلَّتْهُ السَّمَاءُ فَشَحَّتْ عَلَیهَا نُفُوسُ قَوْمٍ وَ سَخَتْ عَنْهَا نُفُوسُ قَوْمٍ آخَرِین»

زیر آسمان ہمارا کل سرمایہ ایک فدک ہی تو تھا جسے کچھ لوگوں نے غصب کرلیا اور بعض دوسرے افراد سخاوت مندانہ انداز میں وہاں سے گزر گئے۔

نهج البلاغة، شریف الرضی، محمد بن حسین، محقق / مصحح: صالح، صبحی، ص 417

خمس کے سلسلہ سے ہم کچھ باتیں (صحیح بخاری) سے پیش کریں گے۔ جو اہل سنت حضرات ہمارا یہ پروگرام دیکھ رہے ہیں میں ان سے کہتا ہوں: اگر وہ ہمارے آج رات کے اس پروگرام سے کچھ بھی استفادہ نہ کریں اور صرف اسی ایک چیز کے بارے میں تحقیق کریں، یہی ان کے لئے کافی ہے۔

سعودی عرب کی چھپی ہوئی (صحیح بخاری) میں ایک روایت جناب عائشہ سے بیان ہوئی ہے جس میں آپ فرماتی ہیں:

«أَنَّ فَاطِمَةَ علیها السَّلَام أَرْسَلَتْ إلی أبی بَکرٍ»

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ایک کو شخص ابو بکر کے پاس بھیجا،

«تَسْأَلُهُ میراثها من النبی»

اور پیغمبر اکرم ص کی چھوڑی ہوئی میراث کے بارے میں سوال کیا۔

کیا جناب زہرا سلام اللہ علیہا اور دیگر اصحاب اس حدیث  «إِنَّا مَعَاشِرَ الْأَنْبِیاءِ لَا نُورَثُ» سے باخبر نہیں تھے؟! جب ان لوگوں نے اس حدیث کو پڑھا تو جناب زہرا سلام اللہ علیہا غضبناک ہوگئیں اور تا آخر عمر ان سے بات نہیں کی اور وصیت کرتی ہیں کہ یہ افراد ان کی تشییع جنازہ اور نماز جنازہ میں شریک نہ ہوں ۔

آپ کہتے ہیں:

«الصحابة کلهم عدول»

تمام صحابہ عادل ہیں۔

فتح الباری شرح صحیح البخاری، المؤلف: أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی، الناشر: دار المعرفة - بیروت، 1379، تحقیق: أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی، ج 2، ص 181

یا تو آپ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کو جزو صحابہ اور جزو ( سیدۃ نسا اھل الجنۃ) نہیں جانتے ہیں یا اگر جانتے ہیں تو ان سوالوں کے جواب دیں۔

اس بنا پر جناب زہرا سلام اللہ علیہا نے ایک شخص کو ابو بکر کے پاس بھیجا اور اپنی میراث کے بارے میں سوال کیا اور اسی طرح:

«مما أَفَاءَ الله علی رَسُولِهِ تَطْلُبُ صَدَقَةَ النبی آلتی بِالْمَدِینَةِ وَفَدَک وما بَقِی من خُمُسِ خَیبَرَ»

مدینہ میں پیغمبر اکرم ص کے صدقات کا مطالبہ کیا، فدک کا مطالبہ کیا اور اسی طرح جنگ خیبر کے بقیہ خمس کا بھی مطالبہ کیا۔

الجامع الصحیح المختصر، اسم المؤلف: محمد بن إسماعیل أبو عبدالله البخاری الجعفی، دار النشر: دار ابن کثیر, الیمامة - بیروت - 1407 - 1987، الطبعة: الثالثة، تحقیق: د. مصطفی دیب البغا، ج 3، ص 1360، ح 3508

کیا جناب زہرا سلام اللہ علیہا یہ بات جانتی تھیں کہ یہ ان کا مال ہے یا نہیں جانتی تھیں؟! اگر وہ جانتی تھی کہ یقینا جانتی تھیں کہ یہ حق ان سے متعلق ہے تو ابو بکر نے ان کا حق کیوں واپس نہیں کیا؟!

جناب زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر ص کی بیٹی اور ان کی پارہ جگر ہیں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

«إِنَّ اللَّهَ تَعَالَی یغْضَبُ لِغَضَبِک، وَ یرْضَی لِرِضَاک»

بے شک خداوند عالم فاطمہ کے ناراض ہونے سے ناراض ہوتا ہے اور ان کے خوش ہونے سے خوش ہوتا ہے۔

ہمیں (صحیح بخاری) کی روایت سے کوئی مطلب نہیں۔ اسی طرح ہم (صحیح مسلم) جلد 7 صفحہ 141 کی حدیث نمبر 6202 کو بھی بیان کرنا نہیں چاہتے؛ جس روایت کو حاکم نیشاپوری نے جلد سوم صفحہ 143 پر لکھا ہے اس میں پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں: اے فاطمہ! تمہاری مرضی خدا کی مرضی ہے اور تمہارا غضب خدا کا غضب ہے۔

یہاں پر انہوں نے کچھ بھی بیان نہیں کیا ہے؛ مثلا یہ نہیں کہا: مگر یہ کہ قرآن کے خلاف ہو، مگر یہ کہ سنت کے خلاف ہو بلکہ مطلقا بیان کیا ہے!! یہ باتیں جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی فوق العادۃ عصمت کو ثابت کرتی ہیں۔

ایک وہابی ماہر کہہ رہا تھا: کہ آپ کیوں ان باتوں کو (تاریخ طبری) اور ( تاریخ ابن اثیر) سے نقل کرتے ہیں؟! بلکہ آپ (تاریخ مدینہ منورہ) سے ان مطالب کو نقل کریں کیونکہ وہ معتبر ہے۔

ابن شبہ نمیری کی کتاب (تاریخ مدینہ منورہ)، (فہیم محمد شلتوت کی تحقیق کے ساتھ)، کی جلد اول صفحہ 209 پر آیا ہے:

«أَنَّ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَتَتْ أَبَا بَكْرٍ»

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ابو بکر کے پاس آئیں،

«فَقَالَتْ: قَدْ عَلِمْتُ الَّذِي طُلِّقْنَا عَنْهُ مِنَ الصَّدَقَاتِ أَهْلَ الْبَيْتِ»

اور فرمایا: تم اہل بیت کے ان صدقات کو جانتے ہو جس کو پیغمبر اکرم ص نے ہمارے لئے وقف کیا ہے،

«وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنَ الْغَنَائِمِ»

اور اسی طرح وہ غنائم جنگی جسے خداوند عالم نے ہم سے منسوب کیا ہے،

«ثُمَّ فِي الْقُرْآنِ مِنْ حَقِّ ذِي الْقُرْبَى»

اور اسی طرح جسے قرآن میں ذی القربی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

میں نے عرض کیا کہ اس روایت کے ذیل میں بہت سے ایسے مطالب پائے جاتے ہیں جو اس واقعہ کی نوعیت کو معین کردیتے ہیں۔

«فَانْصَرَفَتْ إِلَى عُمَرَ»

جب جناب زہرا سلام للہ علیہا ابو بکر سے نا امید ہوگئیں تو عمر سے مخاطب ہوئیں:

«فَقَالَ لَهَا مِثْلَ الَّذِي كَانَ رَاجَعَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ»

اور وہ تمام باتیں جو ابو بکر سے کہی تھیں عمر سے بیان کیں۔

«فَعَجِبَتْ فَاطِمَةُ »

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو تعجب ہوا،

«وَظَنَّتْ أَنَّهُمَا قَدْ تَذَاكَرَا ذَلِكَ وَاجْتَمَعَا عَلَيْهِ»

اور یہ گمان کیا کہ ان دونوں نے آپس میں طے کرلیا ہے کہ دونون ایک ہی بات کہیں گے۔

تاريخ المدينة لابن شبة؛ المؤلف: عمر بن شبة (واسمه زيد) بن عبيدة بن ريطة النميري (المتوفى: 262هـ)، حققه: فهيم محمد شلتوت، طبع على نفقة: السيد حبيب محمود أحمد – جدة، عام النشر: 1399 هـ، ج 1، ص 209

 ابو بکر و عمر جانتے تھے کہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا ان مطالب کو بیان کرنا چاہتی ہیں، اسی وجہ سے دونوں ہم قول ہوگئے۔ یہ بات شیعوں کی کتاب حتی ابن اثیر کی (طبری) سے بھی بیان نہیں ہوئی ہے؛ بلکہ ابن شبہ نمیری کے بیان کردہ مطالب ہیں۔

دوسری طرف جناب ذہبی، جو ابن شبہ نمیری سے بھی بالا تر ہیں، اس کتاب کی جلد اول میں تحریرکرتے ہیں:

«أن فاطمة أتت أبا بکر فقالت: قد علمت الذی خلفنا عنه من الصدقات أهل البیت ثم قرأت علیه " واعلموا أنما غنمتم من شیء فإن لله خمسه وللرسول " إلی آخر الآیة»

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ابو بکر کے پاس آئیں اور فرمایا: پیغمبر اسلام ص نے جو صدقہ ہم اہل بیت کے لئے چھوڑا ہے تم اس کو جانتے ہو، پھر اس کے بعد آیہ خمس کی تلاوت فرمائی۔

البتہ جناب ذہبی پورے واقعہ کو بیان کرتے ہیں اور آخر میں روایت بھی بیان کرتے ہیں:

«فعجبت وظنت أنهما قد تذاکرا ذلک واجتمعا علیه»

پس جناب فاطمہ س نے تعجب کیا اور گمان کیا کہ ان دونون نے آپس میں طے کر رکھا ہے کہ دونوں ایک ہی بات بولیں گے۔

تاریخ الإسلام، المؤلف: الذهبی، ج 1، ص 367، باب أبی بکر وفاطمة رضی الله عنهما

اس عبارت کو ذہبی نے بیان کیا ہے۔ ہمارا مقصد یہاں پر خدا نخواستہ مقدسات اہل سنت کی توہین کرنا نہیں ہے۔ ہم ہر صورت میں مقدسات اہل سنت کی توہین کو خلاف شرع اور حرام جانتے ہیں چاہے وہ کسی بھی شخص کے ذریعہ اور کسی بھی حالات میں ہو۔

جناب ابو القاسمی نے جناب مدیری کے بیانات کو مفصل بیان کیا اور فرمایا: کہ اس نے اس بات کو طنزیہ بیان کیا ہے اور وہ بھی خشک اور مقدس لوگوں کے بارے میں کہا ہے۔

در حقیقت جناب مدیری کی تعریف ہونا چاہئیے؛ اس لئے کہ انہوں نے توہین کرنے والے خشک اور مقدس افراد کا مذاق اڑایا ہے۔ انہوں نے ان افراد کا مذاق اڑایا ہے جو طلحہ اور زبیر کی توہین کرتے ہیں۔

ایرانی برادران اہل سنت سے ایک اہم تقاضا

وہابی ماہرین کوئی بھی چھوٹا بہانہ بناکر شور شرابا کرتے ہیں اور مختلف چینلوں پر مسلسل خصوصی پروگرام منعقد کرتے ہیں؛ اہل سنت حضرات بھی ان سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ اگر ضروری ہوا تو میں اس پر مفصل گفتگو کروں گا؛ کیا یہ افراد صحابہ کی بنسبت اتنے غیرت مند ہیں؟!

اگر یہ لوگ صحابہ کی بنسبت اتنے غیرت مند ہیں، تو ہم ان کی تعریف کرتے ہیں؛ لیکن کیا علی علیہ السلام صحابی پیغمبر تھے یا نہیں؟! جب 70 ہزار منبروں سے علی علیہ السلام کو گالیاں دی جارہی تھیں، تب یہ غیرت مند افراد کہاں تھے؟!

اگر فون پر اس بارے میں کوئی سوال ہو گا تو میں ان‌شاءالله اس کا جواب دوں گا۔ برادران اہل سنت، خدا کی قسم یہ وہابی چینل آپ کے خیر خواہ نہیں ہیں، ان کے جال میں نہ پھنسئے گا! جمہوری اسلامی ایران  میں موجود امن و سکون کی زندگی کی اہمیت کو سمجھیں۔

جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی قسم اگر ایران کے اندر نا امنی پیدا ہوگئی، تو یقین جانیں آپ کو شیعوں سے زیادہ نقصان ہوگا۔ اگر کل داعش اس ملک میں داخل ہوجائیں، تو وہ شیعوں سے پہلے آپ کو اپنا نشانہ بنائیں گے۔

کچھ روز پہلے تقریبا 30 اہل سنت کے علما ( ولایت عالمی چینل) میں شامل ہوئے اور ہم نے ان کے ساتھ پروگرام رکھے؛ یہاں تک کہ وہ گفتگو جو جنا ب (عبد الحمید)اور (عبد المجید) کے ساتھ ہوئی اس کو بھی اس چینل پر دکھایا۔

وہابی حضرات کھلم کھلا، ان علمائے اہل سنت کو برا بھلا کہتے ہیں جو ( ولایت عالمی چینل) میں داخل ہوئے اور پروگرام پیش کیا، برا بھلا کہتے ہیں اور ان کے لئے بہت ہی گندی تعبیر استعال کرتے ہیں۔ اب یہاں پر آپ سوچتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کے خیر خواہ ہیں؟!

خدا کی قسم اگر کل ایران میں بد امنی پیدا ہوجائے، تو یہی وہابی حکم دیں گے کہ سب سے پہلے جنگجو علمائے اہل سنت کو قتل کریں۔ آپ یقین رکھئے اگر بد امنی پیدا ہوگئی تو داعشی اور شیطانی چینل سب سے پہلے آپ کو اپنا نشانہ بنائیں گے۔

چاہنے والوں کو جمع کریں اور ان لوگوں سے دھوکہ نہ کھائیں۔ ہم ان مسائل میں پڑنا نہیں چاہتے؛ کیونکہ اس سے شیعوں کے بھی حقوق پامال ہوں گے اور اہل سنت کے بھی۔

جب شیعوں کے حقوق پامال ہوئے اور کچھ شیعوں کو پھانسی دی گئی، تو شیعوں نے قیام کرنا چاہا، جلوس نکالنے چاہے اور ہلڑ ہنگامہ برپا کرنا چاہا۔ امریکا، یوروپ اور دوسرے ممالک کی طرح ہر ملک میں ایک قانون ہوتا ہے۔

سعودی عرب دوسرا یا تیسرا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ پھانسی دی گئی ہے۔ اس نے شیعوں کو پھانسی دی، سنیوں کو پھانسی دی، وہابیوں کو پھانسی دی؛ تو کیا لوگ اس کے مقابل کھڑے ہوجاتے اور ہلڑ ہنگامہ کرکے کہتے کہ کیوں ان کو پھانسی دی؟!

ہر ملک میں کچھ  قانون ہوتے ہیں۔ یہ کہ کسی شخص کو اس جرم میں پھانسی دیں کہ وہ سنی ہے۔ تمام مقدسات کی قسم یہ بات بالکل جھوٹ ہے اور کسی کے ذہن میں بھی ایسی بات نہیں ہے۔

اگر یہ طے ہو کہ سنی کو سنی ہونے کی وجہ سے پھانسی دی جائے، تو تقریبا 400 یا 500 حوزہ علمیہ اس ملک میں موجود ہیں؛ سب سے پہلے تو ان سب پر تالا پڑنا چاہئیے۔ اگر آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو جو مساجد اس وقت اہل سنت کے ہاتھ میں ہے ان کی تعداد شیعوں کی مساجد سے کئی گنا زیادہ ہیں۔

اہل سنت کے نمائندہ بھی پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔ اہل سنت کے نمائندے رہبر کی مجلس خبرگان میں بھی ہیں۔ بنیاد یہ نہیں ہے کہ کسی شخص کو اس کے عقیدتی مسائل کی بنا پر محاکمہ کریں۔

برادران اہل ست، علمائے بزرگ، اسٹوڈینٹس، طلاب عزیز ہم دور سے آپ سے ہاتھ ملاتے ہیں اور آپ کی پیشانی کو چومتے ہیں۔ اگر کوئی نا اتفاقی ہے تو آئیں اور آپس میں بیٹھ کر اس مشکل کو حل کریں۔

آپ کے نمائندے، آپ کے علما، آپ کے بزرگان ایک جگہ بیٹھیں اور مشکلات کو حل کریں۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ان یہودی شیطانی چینلوں کو وقت نہ دیں تاکہ وہ شیعوں کو سنیوں کے خلاف اور سنیوں کو شیعوں کے خلاف بد گمان کرسکیں؛ کیونکہ خدا کی قسم اس کا نتیجہ بہت برا ہے۔

وہابی علما علمی بحثیں کم پیش کرتے ہیں بلکہ علمی بحث کرتے ہی نہیں ہیں۔ یہ لوگ سیاسی مسائل کو چھیڑتے ہیں اور اعلانیہ طور پر کہتے ہیں: کہ ہمارا پروگرام بہت محکم پروگرام ہے۔

ایسے لوگوں کی تقریبا 30 سے زیادہ کلپ ہمارے پاس موجود ہے جس میں وہ کہتے ہیں: (شبکہ چینل) کا پروگرام جمہوری اسلامی کا بہت محکم پروگرام ہے۔ یہ لوگ علما، مراجع، امام اور رہبر کی توہین کرتے ہیں۔

پچھلے سال جب جناب (عبد الحمید) یہاں موجود تھے، میں نے ان کی طرف سے علمائے شیعہ، مراجع کرام، شیعوں کی ناموس اور علمائے اہل سنت کی توہین کئے جانے کے سلسلہ میں تقریبا 12 صفحہ ان کے حوالے کئے تھے اور کہا تھا کہ:

آپ ان مطالب کو ان کی تاریخ کے پیش نظر ملاحظہ فرمائیں۔ میں نے ان سے کہا: آپ جس بات کی کلپ چاہیں گے ہم آپ کو دیں گے۔

میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔

مجری:

استاد ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔ اگر آپ اجازت دیں تو ایک پروگرام دیکھنے کے بعد امیر الوممنین علی ابن ابی طالب، صدیق اکبر اور فاروق اعظم علیہ السلام کی مدح کے موضوع پر لوگوں کے فون موصول کریں اور ناظرین کی باتوں کو سنیں۔ آپ ہمارے ساتھ رہیں۔

پروگرام دیکھنے والوں کے فون:

یا علی مدد کے ساتھ؛ ہم ناظرین کرام کے فون کی طرف چلتے ہیں۔ جناب بہادری کرج سے، سلام علیکم ورحمۃ اللہ:

ناظرین ( جناب بہادری کرج سے۔ شیعہ)

حضرت آیت اللہ قزوینی محترم اور جناب حسینی صاحب۔ قرآن میں سورہ بقر ہ کی آیت نمبر 159 میں خداوند عالم فرماتا ہے: اگر تم نے ان حقائق کو بیان نہیں کیا جس کی لوگوں کو ضرورت ہے تو تم لعنت کے مستحق ہوگے۔

برادران اہل سنت توجہ فرمائیں (صحیح مسلم) کی جلد 4 طباعت دار الحدیث قاہرہ کے صفحہ نمبر 1871 پر اور اسی طرح (فضائل الصحابۃ) کی حدیث نمبر 23 میں آیا ہے: سب سے پہلے جس نے خلفا پر لعنت شروع کی وہ معاویہ بن ابو سفیان تھا۔

معاویہ نے حکم دیا کہ 70 ہزار منبروں سے چوتھے خلیفہ حضرت علی علیہ السلام پر لعنت کرو۔ معاویہ نے ہی علی علیہ السلام کو گالی دی۔ آپ اہل سنت حضرات خود کہتےہیں:

«أصحابی کالنجوم فبأیهم اقتدیتم اهتدیتم»

میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت پا جائو گے۔

اگر معاویہ نے صحابہ پر لعنت شروع کی ہے، تو ہمیں کہنا چاہئیے: آپ کے بقول چونکہ صحابہ کی عدالت شرعی نہیں ہے، لہذا آپ کہیں کہ معاویہ نے غلط کیا اور پیغمبر ص کے خلیفہ و صحابی کو گالی دی اور برا بھلا کہا ہے۔

اس بنا پر ہم کہیں گے کہ اگر لعنت جائز ہے، تو معاویہ نے اسے شروع کیا ہےاور اگر بری ہے تب بھی معاویہ نے ہی اسے شروع کیا ہے۔

دوسری بات جو ہم کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ابتدا میں جناب دکتر قزوینی نے بلاذری کی کتاب ( انساب الاشراف) کی جلد 3 صفحہ نمبر 166 و 167 کے حوالے سے یہ بات بیان کی تھی کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے (محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ) کے بارے ارشاد فرمایا:

« محمد ابنی من صلب أبی بکر»

محمد میرا بیٹا ہے مگر ابو بکر کے صلب سے۔

بحار الأنوار؛ مجلسی، محمد باقر، ج 42، ص 162، ح 33

آپ ( محمد بن ابی بکر) معاویہ بن ابی سفیان کے نام ایک خط لکھتے ہیں اور اس میں علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: اے معایہ! کیوں امیر المومنین علیہ السلام سے برسر پیکار ہو باوجودیکہ امیر المومنین علی علیہ السلام ان خصلتوں کے مالک ہیں۔

جواب میں معاویہ لکھتا ہے: اے محمد بن ابی بکر! زمانہ پیغمبر ص میں، میں اور تمہارے والد ابو بکر، اس حق کو اپنے اوپر لازم جانتے تھے اور امیر المومنین علی علیہ السلام کی فضیلت کو تسلیم کرتے تھے۔ اے دنیا! پیغمبر اکرم ص نے اپنے لئے جانشین منتخب کیا تھا؛ اس بات کا معاویہ نے اعتراف کیا ہے۔

پیغمبر ص کی رحلت کے بعد ابو بکر و عمر وہ سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے علی علیہ السلام کی شان و منزلت کو پامال کیا۔اگر میں آج امیر المومنین علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ کررہا ہوں تو اس جنگ کی بنیاد ڈالنے والے تمہارے باپ ابوبکر اور عمر تھے۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ ان لوگوں نےخلافت کو اپنے لئے چاہا اور اپنے لئے لوگوں سے بیعت لی اور امیر المومنین علی علیہ السلام کو امور خلافت میں شریک نہیں بنایا جب ابو بکر و عمر دنیا سے چلے گئے اور عثمان بر سر خلافت آیا، عثمان نے ان دو خلیفوں کی سیرت اپنائی ان دونوں کی وجہ سے عثمان کی بھی ہدایت ہونی چاہئیے۔

آخر میں محمد بن ابی بکر کو مخاطب کرکے لکھتا ہے: آخر کار تمہارے باپ نے یہ حالات فراہم کئے جس کی وجہ سے ہم بہترین راہ پر گامزن ہیں اور خلیفہ ہوں گے؛ اس کام کی جڑ تمہار باپ تھا۔

اگر ہمارا کام غلط ہے تو اس کام کی بنیاد تمہارے باپ اور عمر نے رکھی ہے جائو اپنے باپ کی سرزنش کرو!!

میں چاہتا ہوں کہ آپ حضرات اس روایت پر غور کریں اور میں استاد سے بھی سفارش کرتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو اس واقعہ کے بارے میں توضیح پیش کریں۔ میں ان کا شکر گزار ہوںگا۔

مجری:

جناب بہادری صاحب آپ کامیاب وکامران رہیں، آپ کا شکریہ، ان‌شاءالله خدا کی پناہ میں رہیں۔ دوسرا فون جناب بابائی کا تہران سے ہے۔ سلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ جناب بابائی کی خدمت میں ہیں:

ناظرین ( جناب بابائی تہران سے ۔شیعہ):

میں جناب دکتر حسینی قزوینی کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں جن کا کامل علم شیعوں کے لئے باعث فخر ہے۔ آپ کی خدمت میں بھی سلام عرض کرتا ہوں۔

میں جناب سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ کیا وہ لوگ ایران میں کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوتے؟! ہم اگر آج اسلام کو پہچانتے ہیں تو وہ ائمہ علیہم السلام کی وجہ سے۔ مجھے تعجب ہے کہ کیوں سنی حضرات عمر کا دفاع کرتے ہیں؟!

میرے اعصاب اس وقت خراب ہوجاتے ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جوانوں کو اس بات پر ابھارتے ہیں کہ ( امہات المومنین) کی توہین ہوئی ہے۔ پھر عائشہ کون تھی؟! انہوں نے اسلام کے لئے کیا کیا ہے؟!

آیت اللہ دکتر حسینی قزوینی:

جناب بابائی جس طرح ہم ائمہ طاہرین علیہم السلام کے احترام کے قائل ہیں، اسی طرح اہل سنت حضرات بھی اپنے بزرگوں کے بارے میں یہی نظریہ رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنی نظر سے ان کے لئے کوئی نسخۃ تجویز نہیں کرنا چاہئیے۔

جس طرح ہم اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ وہ لوگ میرے بزرگوں اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کا احترام کریں،تو ہمیں بھی چاہئیے کہ ان کا احترام کریں اور کسی بھی طرح کی توہین کرنے سے پرہیز کریں۔

ہم اہل سنت کی کتابوں سے کچھ تاریخی حقائق بیان کریں گے اور بتائیں گے کہ ان لوگوں کے ساتھ تاریخ میں کیا ہوا ہے۔ جو موضوع ان لوگوں نے عدالت صحابہ یا فوق عدالت صحابہ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔

ہمارا عقید ہے کہ ہمارے تمام ائمہ طاہرین ع معصوم ہیں اور گناہ نہیں کرتے۔ جبکہ یہ لوگ معتقد ہیں کہ صحابہ گناہ کرتے ہیں، لیکن خداوند عالم ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور ان کو ثواب بھی دیتا ہے۔ ان کے عقیدہ کے اعتبار سے، یہ افراد پیغمبر سے بالاتر ہیں۔

قرآن کریم میں پیغمبر ص سے خطاب ہوتا ہے کہ:

قُلْ إِنِّی أَخافُ إِنْ عَصَیتُ رَبِّی عَذابَ یوْمٍ عَظِیم

آپ کہہ دیں کہ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے اپنے رب کی معصیت کی تو عظیم عذاب میں مبتلا نہ ہو جائوں۔

سوره انعام (6): آیه 15

ہماری بنیادی مشکل یہاں ہر ہے!

ہماری بنیادی مشکل یہاں پر ہے کہ اہل سنت حضرات اس بات کو قبول نہیں کرتے۔ سعودی عرب کی چھپی (صحیح بخاری) میں خلیفہ دوم ابن ابی بلتعۃ کے بارے میں کہتے ہیں:

«دَعْنِی أَضْرِبْ عُنُقَ هذا الْمُنَافِقِ»

پیغمبر مجھے اجازت دیں میں اس منافق کی گردن اڑادوں۔

یہ شخص صحابی پیغمبر تھا جس کو عمر نے منافق سے تعبیر کیا۔ اگر کوئی شیعہ کسی صحابی کو کہے: ( فلاں صحابی منافق تھا) تب یہ لوگ کیا کریں گے؟! شیطانی چینل آسمان کو زمین پر لا گرائیں گے یا نہیں؟!

خلیفہ دوم اس صحابی کو منافق کہہ کر خطاب کرتے ہیں جس کے بارے میں رسول ص نے فرمایا تھا:

«شَهِدَ بَدْرًا»

اس نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی۔

«وما یدْرِیک لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ یکونَ قد اطَّلَعَ علی أَهْلِ بَدْرٍ فقال اعْمَلُوا ما شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکمْ»

اس نے کہا: خداوند عالم بدر والوں کو دیکھا اور فرمایا جو دل چاہے انجام دو، ہم نے تمہارے گناہوں کو بخش دیا۔

الجامع الصحیح المختصر، اسم المؤلف: محمد بن إسماعیل أبو عبدالله البخاری الجعفی، دار النشر: دار ابن کثیر, الیمامة - بیروت - 1407 - 1987، الطبعة: الثالثة، تحقیق: د. مصطفی دیب البغا، ج 3، ص 1095، ح 2845

اگر کوئی شخص فتنہ گروں کو ( طلحہ و زبیر) سے تعبیر کردے، تو یہ افراد کتنا شور شرابا مچائیں گے اور ابنے چینلوں پر اس بات کو کس طرح پیش کریں گے۔

 یہ کیونکر ہوا کہ جب خلیفہ دوم نے ایک صحابی کو منافق کہا اور ایک صحابی کی اس طرح توہین کی تو کیوں کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔

جب امام علی ع پر سب و شتم ہوا تو کیوں کوئی مشکل پیدا نہیں ہوئی!!

اہل سنت حضرات ان لوگوں کو جو 1388 کے فتنہ میں ملوث تھے (طلحہ و زبیر ) سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس سلسلہ میں کتابیں بھی لکھی ہیں۔ اگر اشتباہ نہ کروں تو سیف بن عمر کی ایک کتاب ہے بنام (الفتنۃ و حرب الحمل) اس میں طلحہ و زبیر کے واقعہ کو فتنہ سے تعبیر کیا ہے۔

کیوں یہاں پر ان حضرات کی غیرت کو جوش نہیں آتا؟!

میں ان غیرت مند حضرات سے ایک سوال پوچھتا ہوں تاکہ دیکھوں کہ ان کی غیرت جوش میں آتی ہے یا نہیں؟! میں پہلی بار اس مطلب کو بیان کررہا ہوں۔

اے غیرت مند افراد کہ جو وہابی چینلوں پر شبہات رونما کرتے ہیں اس بات پر غور کریں اور اس سوال کا جواب دیں۔ امام، امیر المومنین و حافظ فی الحدیث جناب (ابی عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری) اپنی کتاب (تاریخ صغیر) کی جلد اول کے صفحہ نمبر 118 پر قتادہ سے نقل کرتے ہیں:

«ولی أبو بکر سنتین وستة أشهر»

ابو بکر دو سال اور چھے ماہ حاکم رہا۔

«وولی عمر عشر سنین وستة أشهر وثمانیة عشر یوما»

عمر دس سال چھ مہینے اور 18 دن حاکم رہا۔

«وولی عثمان ثنتی عشرة سنة غیر اثنتی عشر یوما»

عثمان بارہ سال میں سے بارہ دن کم حاکم رہا۔

اس کے بعد کہتے ہیں:

«وکانت الفتنة خمس سنین»

اور پانچ سال فتنہ برپا رہا۔

«وولی معاویة عشرین سنة»

اور معاویہ بیس سال حاکم رہا۔

«وولی یزید بن معاوة ثلاث سنین»

اور یزید بن معاویہ تین سال حاکم رہا۔

الکتاب: التاریخ الصغیر، تحقیق محمود ابراهیم زاید؛ دار المعرفة بیروت – لبنان، ج 1، ص 118 و 119

وہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے دور حکومت کو فتنہ سے تعبیر کرتا ہے!! مجھے نہیں پتہ اب شیطانی چینلوں کے غیرت مندوں کی غیرت کہاں چلی گئی؟! اب تک ان لوگوں نے یہ بات نہیں سنی ہوگی، لیکن اب تو سن لیا!!

وہ اس جگہ حتی امام علی علیہ السلام کے دور حکومت کو (ولی) سے تعبیر نہیں کرتا اور ان کے لئے لفظ خلافت استعمال نہیں کرتا۔ غیرت مند حضرات! آپ نے طلحہ و زبیر کے لئے اتنا شور مچایا تو اس مطلب پر بھی غور کریں۔

ہم اس بات کے معتقد ہیں کہ جناب مدیری کو ایسا کام نہیں کرنا چاہئیے اور یہ کام کلا اشتباہ ہے اور ہم اہل سنت کےمقدسات کی توہین کو ہر حال میں حرام اور خلاف شرع جانتے ہیں اور ایک ناقابل معافی گناہ ہے اور ہم نے اس بات کو بارہا بیان کیا ہے۔

یہ افراد غیرت نہیں رکھتے کہ وہ میرے جملے کو دکھائیں یہاں تک کہ ایک بار بھی ٹی وی پر دکھانے کی جرات نہیں رکھتے؛ کیونکہ اس کے نتیجہ میں عربستان سے ان کو ملنے والےتمام حقوق روک دئے جائیں گے۔

اگر واقعا یہ لوگ صحابہ کی بنسبت غیرت مند ہیں تو اس بات کا جواب دیں۔ وہ افراد جن کو جناب مدیری نے گالیاں دیں اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے لئے غلط باتیں کہیں اور اسی طرح امام زمانہ عج اللہ تعالی شریف کی مادر گرامی کو برا بھلا کہا وہ اس بات پر غور کریں۔

یہ لوگ بے غیرت اور ذلیل ہیں اور اہل سنت حضرات اس بے غیرتی سے مبرا ہیں۔ ہم ایرانی اہل سنت کو غیرت مند جانتے ہیں؛ لیکن شیطانی چینل ملک سے باہر بعض افراد کو اس بات پر ابھارتے ہیں کہ وہ ان کو گالیاں دیں۔

ہمیں جواب دیں کہ کیوں جناب بخاری قتادہ سے نقل کرتے ہیں اور وہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے دور خلافت کو فتنہ سے تعبیر کرتے ہیں؟! یزید خلیفہ تھا، معاویہ خلیفہ تھا؛ لیکن امیرالمومنین علی علیہ السلام کا دور فتنہ کا دور تھا؟!ً

مجری:

یہ روایت کتاب بخاری میں بھی ہے کہ جو غیر معروف شخص نہیں ہیں۔

آیت اللہ دکتر حسینی قزوینی:

صحیح، پمیں جواب دیں۔ جناب بخاری کی کتاب تاریخ، دو نام سے ( تاریخ الصغیر) یا (تاریخ الاوسط) شائع ہوئی ہے۔ اگر یہ لوگ سچ بولتے ہیں تو ان مطالب کا جواب دیں۔

اگر یہ لوگ سچے ہیں تو ان کو چاہئیے کہ کل اس بات کو واضح کریں اور بخاری پر اعتراض کریں جس نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے دور خلافت کو فتنہ سے تعبیر کیا ہے۔

1383 یا 1384 کا سال میں بھلا نہیں سکتا جب میں ایک دن مسجد الحرام میں بیٹھا ہوا تھا اور میرے برابر میں ایک شخص تھا جو بہترین فارسی میں بات کر رہا تھا، اس نے کہا: کیا آپ آمادہ ہیں کہ میرے ساتھ مناظرہ کریں؟

میں نے کہا: نہیں۔ اس نے کہا: کیوں؟! میں نے کہا: یہ مناظرہ کی جگہ نہیں ہے؛اگر دوستانہ بات کرنا چاہتے ہو تو میں حاضر ہوں۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اس نے اشارہ کیا اور تقریبا 15 اسٹوڈنٹس نے جو عمرہ کے لئے آئے تھے مجھے چاروں سے طرف سے گھیر لیا۔

پہلے تو میں تھوڑا ناراض ہوا کیونکہ مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ لوگ کیوں آئے ہیں۔ ان طلاب میں سے ایک تہران یونیورسٹی کا طالب علم تھا اس نے کہا: جناب عالی یہ شخص ہمیں ہر روز بیت اللہ الحرام کی چھپ پر لے جاتا ہے اور شیعوں کے خلاف زبان کھولتا ہے اور کہتا ہے: شیعہ پست و ذلیل ہیں، شیعہ کافر ہیں، شیعہ مشرک ہیں اور کمی تمہاری نہیں ہے، بلکہ تمہارے علما جاہل اور گمراہ ہیں اور تمکو گمراہ کرتے ہیں۔

اس شخص نے اس جوان اسٹؤڈنٹس سے کہا تھا: کل ہم تمہارے کسی عالم کے پاس جا کر بحث کریں گے تا کہ ثابت کر سکوں کہ یہ لوگ بے فائدہ اور گمراہ ہیں۔ اس نے آج آپ کا انتخاب کیا ہے! میں نے کہا: یہ صحیح جگہ آیا ہے، تم پریشان نہ ہو۔

اس نے تحریف قرآن کے سلسلہ میں بحث شروع کی میں نے کچھ روایات اسی کی کتابوں سے پیش کی اور اس سے کہا: ان روایات کا جواب دو۔ وہ جواب نہ دے سکا؛ آخر میں اس نے کہا: کہ یقینا آپ صحابہ سے دشمنی رکھتے ہیں!

میں نے کہا: کیسے؟ً! اس نے کہا: آپ کبھی بھی (صحیح بخاری) سے حدیث نقل نہیں کرتے۔ میں نے کہا: برادر عزیز میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں۔ جناب بخاری اپنی کتاب (تاریخ الصغیر) کے صفحہ نمبر 118 پر خلفا کے نام پیش کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں: کہ ابو بکر نے کتنی خلافت کی، عمر نے کتنی خلافت کی، عثمان نے کتنی خلافت کی اور امیر المومنین علی علیہ السلام کو بالکل غائب کر دیتا ہے اور علی علیہ السلام کی خلافت کا قائل نہیں ہے۔

البتہ میں نے تم سے اسی کتاب کے صفحۃ نمبر 58 کے بارے میں نہیں بتایا، ملاحظہ کرو:

«کان النبی صلی الله علیه وسلم بالمدینة عشر سنین ثم توفی فکان أبو بکر سنتین وسبعة أشهر وکان عمر عشر سنین وخمسة أشهر وکان عثمان ثنتی عشرة سنة وکانت فتنة معاویة بینه وبین علی أربع سنین»

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ میں دس سال رہے پھر آپ کی وفات ہوگئی پس اس کے بعد ابوبکر دوسال اور سات مہینہ اور عمر دس سال پانچ مہینہ اور عثمان بارہ سال اور علی و معاویہ کے درمیان چار سال فتنہ رہا۔

الکتاب: التاریخ الصغیر، تحقیق محمود ابراهیم زاید فهرس أحادیثه یوسف المرعشی المجلد الأول دار المعرفة بیروت – لبنان، [ترقیم الکتاب موافق للمطبوع]، ج 1، ص 58، الجزء 1

آپ غور فرمائیں کہ یہاں پر اصلا امیر المومنین علی علیہ السلام کا نام ہی نہیں لایا حتی ان کو خلیفہ چہارم ہھی تسلیم نہیں کرتا؛ اسی طرح صفحہ 119 پر علی ع کے زمانہ خلافت کو فتنہ سے تعبیر کرتا ہے۔

میں نے کہا: یہ (بخاری) امیر المومنین علی علیہ السلام کو بعنوان خلیفہ قبول نہیں کرتا، کیا آپ کا ضمیر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ میں ایسے شخص کی کتاب سے جا کر استفادہ کروں جو امام علی ع کو خلیفہ چہارم بھی نہیں مانتا ہے؟!

اس نے اپنا سر جھکا لیا اور جواسٹوڈنٹس اس بات کے منتظر تھے کہ کسی بہانے سے اس کا مذاق اڑائیں انہوں نے اس جلسہ کو طول دے دیا۔

لہذا شیطانی چینل صرف شبہات پیدا کرتے ہیں؛ لیکن ہمارے اہل سنت حضرات بیدار، عقلمند ہیں اور ان سازشوں سےباخبر ہیں اور ہمیشہ متوجہ رہتے ہیں۔ یہ لوگ مستقل ٹی وی پر آتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ چینل اہل سنت سے مربوط نہیں ہے۔

مجھے یقین ہے کہ جن لوگوں نے بھی جناب مدیدی کے پروگرام میں بیہودہ باتیں کی ہیں وہ اہل سنت نہیں تھے۔

مجری:

ان حضرات نے حتی وہابی چینلوں پر لوگوں سے کہا ہے کہ وہ جائیں اور ان کی اینستاگرام سائٹ پر فحاشی کریں۔

آیت اللہ دکتر حسینی قزوینی:

میں یقینی طور پر جانتا ہوں کہ ایک بھی سنی  اپنے کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ بالفرض اگر ان لوگوں نے اشتباہ بھی کیا ہے؛ تو کیا اس اشتباہ کا جبران جناب زہرا سلام اللہ علیہا اور ائمہ طاہرین ع کی ناموس کی فحاشی کے ذریعہ کریں گے؟!

کوئی بھی سنی اہل بیت ع کی توہین نہیں کرسکتا۔ ان‌شاءالله جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے حق کی قسم نسل وہابیت اور نسل بنی امیہ ہمیشہ کے لئے اس زمین سے نابود ہوجائیں گی اور یہی لوگ اس طرح کے ا قدامات کرتے ہیں۔

میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔

مجری:

جناب بابائی میں آپ کا شکر گزار ہوں۔

میں قزوین سے جناب آقای اور ان دیگر افراد سے جنہوں نے فون کیا یا فون پر ہیں معذرت چاہتا ہوں۔ پروگرام ختم ہونے تک استاد کے پاس چند منٹ سے زیادہ وقت نہیں ہے۔

جناب بہادری نے فرمایا: اگر کچھ لوگ ہیں جن پر لعنت کرنا جائز ہو، یا جس نے علی علیہ السلام پر لعنت کی بات کی ہے، سب سے پہلے اس کا محاکمہ ہونا چاہئیے؛ کیونکہ اس نے خلفا پر لعنت کا دروازہ کھول دیا۔

آیت اللہ دکتر حسینی قزوینی:

صحیح؛ (صحیح مسلم اور صحیح بخاری) وہ کتابیں ہیں جس میں لعنت اور سب و شتم کو بیان کیا گیا ہے جبکہ ہمارے یہاں اس طرح کا کوئی بیان نہیں ہے۔

یہ لوگ (صحیح مسلم) میں ابن تیمیہ اور دیگر افراد سے کچھ باتیں لے کر آئے ہیں جو اس بات پر مشتمل ہیں کہ معاویہ ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے صحابہ اور علی علیہ السلام پر سب و شتم کی بنیاد ڈالی۔

اگر یہ لوگ واقعا صحابہ کا دفاع کرتے ہیں اور واقعا صحابہ کے سلسلہ میں غیرت مند ہیں تو ہمارا جواب دیں؛ اس لئے کہ اہل سنت حضرات علی علیہ السلام کو یقینا (طلحہ و زبیر ) سے بلند جانتے ہیں۔

اہل سنت اپنے عقیدہ کے مطابق علی علیہ السلام کو طلحہ و زبیر سے افضل جانتے ہیں؛ وہ بتائیں اور ہمارا جواب دیں۔ اگر وہ کہتے ہیں: معاویہ نےاجتہاد کیا ہے؛ تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نے 80 سال 70 ہزار منبروں سے امیر المومنین علی علیہ السلام کو برا بھلا کہا ہے۔

فلاں سنی عالم نے بھی اجتہاد کیا اور خطا کی اور ثواب بھی لیا؛ جس طرح معاویہ نے ثواب حاصل کیاہے۔ وہاں پر کیسے کہتے ہیں کہ: معاویہ نے اجتہاد کیا؛ لیکن دوسرے مراجع اور بزرگوں کے بارے میں اجتہاد کی بحث کیوں پیش نہیں کرتے؟!

مجری:

محمد بن ابی بکر کے نام معاویہ کے خط کے سلسلہ میں کچھ مطالب پیش کئے۔

آیت اللہ دکتر حسینی قزوینی:

ہم نے ان مطالب پیش کیا؛ البتہ ہمیں اس روایت کی کوئی بہت محکم سند نہیں ملی۔ یہ حضرات معتقد ہیں کہ غیر حلال و حرام کی بحثوں میں ضعیف روایت بھی حجت اور معتبر ہے۔

جو بحث چل رہی ہے وہ یہ کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد کچھ امام آئیں گے کہ:

«أَخْبَارُهُمْ خَنَاءٌ جُثَّتُهُمْ جُثَّةُ الْآدَمِیینَ وَ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّیاطِین»

بحار الأنوار؛  مجلسی، محمد باقر، ج 6، ص 307، ح 6

اس واقعہ کے راوی (حذیفہ) ہیں جنہوں نےابو بکر و عمر و عثمان کی خلافت کو درک کیا ہے اور امیر المومنین علی علیہ السلام کی خلافت کی ابتدا میں دنیا سے چلے گئے ہیں۔ وہ پیغمبر اکرم ص سے سوال کرتے ہیں:

یا رسول اللہ! اگر میں اس زمانہ کو پالوں تو کیا کروں؟! پیغمبر اکرم ص نے جواب میں فرمایا: اگر اس زمانہ کو پانا تو ان کی اتباع کرنا۔ اگر تم کو مارا جائے تب بھی اطاعت کرنا۔ اگر تمہارا مال لوٹا جائے، تب بھی اطاعت کرنا۔ اگرتمہارا حق پامال کیا جائے تب بھی اطاعت کرنا۔

یہ روایت (صحیح بخاری) میں موجود ہے

مجری:

استاد ہمیں یاد ہے کہ آپ نے بارہا ابن تیمیہ کی وہ عبارت پڑھی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ: اگر کوئی شخص واقعہ (تربیع) کو قبول نہیں رکھتا تو وہ گھر کے گدھے سے بھی بد تر ہے۔

آیت اللہ دکتر حسینی قزوینی:

یہ عبارت ابن تیمیہ کی نہیں ہے، بلکہ (احمد بن حنبل) کی ہے۔ ابن تیمیہ احمد بن حنبل سے نقل کرتا ہے:

قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ: مَنْ لَمْ یرَبِّعْ بِعَلِی فِی الْخِلَافَةِ فَهُوَ أَضَلُّ مِنْ حِمَارِ أَهْلِهِ۔

احمد بن حنبل کہتے ہیں: اگر کوئی علی کو خلیفہ چہارم نہیں مانتا ہے، تو وہ اپنے گدھے سے بھی کمتر ہے۔

مجموع الفتاوی، المؤلف: تقی الدین أبو العباس أحمد بن عبد الحلیم بن تیمیة الحرانی (المتوفی: 728 هـ)، المحقق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم، الناشر: مجمع الملک فهد لطباعة المصحف الشریف، المدینة النبویة، عام النشر: 1416 هـ/1995 م، ج 4، ص 479

مجری:

اب لوگ جواب دیں۔ جناب احمد بن حنبل نے یہ بات کہی ہے۔

آیت اللہ دکتر حسینی قزوینی:

صحیح۔ جناب ابن تیمیہ اس مضمون کو احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں؛ جبکہ اصل عبارت احمد بن حنبل سے نقل ہوئی ہے۔

مجری:

استاد محترم دعا فرمائیں۔

آیت اللہ دکتر حسینی قزوینی:

خدایا! تجھے محمد و آل محمد کی عزت کی قسم دیتا ہوں ہمارے امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل فرما، اور ہمیں ان کے اعوان و انصار میں شمار فرما۔

خدایا! تمام لوگوں کی مشکلات کو حل فرما، خدایا! تجھے امیر المومنین علی علیہ السلام کی عزت کی قسم ہمارے وہ دوست و احباب جو عراق، سوریہ، بحرین، یمن، میانمار، پاکستان، افغانستان، تاجکستان، ترکی اور دوسری جگہوں پر گرفتار ہیں ان کو رہائی عطا فرما۔

خدایا! ہمیں شیاطین بالخصوص وہابیوں اور داعشوں کے شر سے حفاظت فرما جنہوں نے دنیا میں فساد پھیلا رکھا ہے اور اسلام کی عزت کو پامال کیا ہے، خدایا تجھے واسطہ محمد و آل محمد کا ایسے افراد کو صفحہ ہستی سے نابود فرما۔

خدایا تجھے واسطہ امیر المومنین علی علیہ السلام کا عراق، سوریہ اور یمن وغیرہ میں لڑنے والے مجاہدین کی مدد فرما۔

خدایا امیر المومنین علی علیہ السلام کے حق کی قسم ہماری تمام حاجات اور ولایت چینل کو دیکھنے والوں کی حاجات پوری فرما۔ ہماری دعائوں کو قبول فرما۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مجری:

استاد محترم ہم اور ناظرین کرام کے شکر گزار ہیں۔

آپ تمام حضرات سے التماس دعا۔ یا علی مدد۔ خدا حافظ

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: