توجہ فرمائیں: اس پروگرام کی آڈیو فائل بھی موجود ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تاریخ : 2016-07-21
اس پروگرام کا خلاصہ:
قبروں کو مسمار کرنے کے لئے وہابیت کی اہم دلیل:
قبروں کو مسمار کرنے کے لئے وہابیوں کی ایک اہم دلیل وہ روایت ہے جس میں رسول اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت علی عَلَیہ السَّلَام کو مدینہ کی قبروں کو مسمار کرنے کی ذمہ داری سونپا تھا ۔
«عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ فَقَالَ: " أَيُّكُمْ يَنْطَلِقُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلا يَدَعُ بِهَا وَثَنًا إِلا كَسَرَهُ، وَلا قَبْرًا إِلا سَوَّاهُ، وَلا صُورَةً إِلا لَطَّخَهَا؟»
علی (علیہ السلام) سے روایت ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کسی جنازہ کی تشییع میں شریک تھے کہ فرمایا : تم میں سے کون ہے جو مدینہ جا کے تمام بتوں کو توڑ سکتا ہے ، تمام قبروں کو ہموار ، اور تمام تصویروں کو مٹا سکتا ہے؟
مسند الإمام أحمد بن حنبل، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني، دار النشر: مؤسسة قرطبة – مصر؛ ج 1، ص 87، ح 657
اس روایت کی سند سے قطع نظر، اس کے الفاظ کو بھی اگر ملحوظ نظر رکھا جائے تو بھی وہابیوں کا دعوا ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ روایت کے الفاظ ہیں : «ولا قبرا إلا سواه» یہ نہیں کہا : «ولا قبرا إلا خربته» یا «ولا قبرا إلا هدمته» لہذا روایت میں خراب کرنے یا مسمار کرنے کا حکم نہیں ،بلکہ حکم «تسویة القبر» ہے؛ یعنی قبروں کو ہموار کرنے کا حکم ہے کیونکہ جاہلیت کے دور میں قبروں کو اونٹ کے کوبڑ کی طرح بنایا کرتے تھے لہذا رسول اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے جاہلیت کے آثار کو مٹانے کے لئے یہ حکم دیا تھا۔ اس کے باجود وہابیوں کے مطابق اس روایت کی رو سے جو بھی قبروں کو اونچا بنائے منجملہ «ابوحنیفہ» کی قبر اور اس کے لئے گنبد و بارگاہ بنائے وہ کافر ہوگا ۔ وہابی لوگ اس روایت سے بہت استدلال کرتے جب کہ مزہ کی بات یہ ہے کہ ان کا معروف اور معتبر عالم «شعیب أرنؤوط» اس روایت کے ذیل میں لکھتا ہے: «إسناده ضعیف» اس کی سند ضعیف ہے۔
روایت کی سند کے بارے میں بحث :
«شعیب أرنؤوط» کے ساتھ ، نہایت معتبر وہابی عالم «ألبانی» جس کے اعتبار کی حیثیت یہ ہے کہ وہابیوں میں اسے بخاری ثانی کہا جاتا ہے، وہ بھی کتاب «ارواء الغلیل» جلد سوم صفحہ 206 میں یہی بحث پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :«ورجاله ثقات رجال الشیخین غیر أبی المودع أو أبی محمد, فهو مجهول کما قال فی " التقریب " وغیره» حالانکہ اس کے رجال، شیخین کی نظر میں ثقہ ہیں لیکن أبی المودع یا أبی محمد تو بالکل مجہول ہیں جیسا کہ کتاب " التقریب " میں یا دوسری کتابوں میں مذکور ہے.
إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل، المؤلف: محمد ناصر الدین الألبانی، الناشر: المکتب الإسلامی – بیروت، الطبعة: الثانیة - 1405، ج 3، ص 210، ح 759
ظاہر سی بات ہے مجہول کی روایت، ضعیف ہوا کرتی ہے ۔
تیسرا نکتہ یہ کہ کتاب «صحیح مسلم» میں روایت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے آخری سفر میں مکہ و مدینہ کے درمیان اپنی والدہ بزرگوار کے مرقد پہ حاضر ہوئے، خود بھی گریہ فرمایا اور آپ کے گرد سب لوگوں نے بھی گریہ کیا : «زَارَ النبی قَبْرَ أُمِّهِ فَبَکی وَأَبْکی من حَوْلَهُ» سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام قبروں کو مسمار کرنے کا حکم دیدیا تھا تو آپ کی والدہ کی قبر کی پہچان کیسے ہوئی ؟!
انبیاء و اولیا کے قبور کی تعمیر، قرآن کی نظر میں :
پہلی آیہ: آیہ 36 سورہ مبارکہ نور:
«ثعلبی» نقل کرتا ہے : پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم ایک مرتبہ اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے کہ ایک شخص اٹھ کے پوچھتا ہے : یا رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم! یہ کون سا گھر مراد ہے ؟ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا : انبیاء کا گھر مراد ہے ۔ پھر ابوبکر نے اٹھ کے پوچھا : یا رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم! علی و زہرا کا گھر بھی انبیاء کے گھر کے برابر ہے ؟! حضرت نے فرمایا: ہاں بلکہ انبیاء کے گھر سے افضل ہے .
الکشف والبیان؛ المؤلف: أبو إسحاق أحمد بن محمد بن إبراهیم الثعلبی النیسابوری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت - لبنان - 1422 هـ - 2002 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: الإمام أبی محمد بن عاشور، ج 7، ص 107
اسی طرح «جلال الدین سیوطی» کی کتاب «تفسیر در المنثور» میں، نیز «ألوسی» کی کتاب « تفسیر روح المعانی» میں بھی یہ روایت نقل ہوئی ہے ۔
ملاحظہ کیجئے رفعت سے مراد کیا ؟! خداوند عالم سورہ بقرہ آیہ 127 میں ارشاد فرماتا ہے :
(وَ إِذْ یرْفَعُ إِبْراهِیمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَیتِ وَ إِسْماعِیلُ رَبَّنا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّک أَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیم) اس آیہ شریفہ میں (یرْفَعُ) کس معنی میں ہے؟! ظاہر سی بات ہے عمارت کو اٹھانے ، بلند کرنے اور اونچا کرنے کے معنی میں ہے؛ اسی سے حرم، گنبد، ضریح اور بارگاہ بنانے کا اشارہ بھی ملتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم نے خانہ خدا کی عمارت کو اونچا کیا.
«ابن جوزی» کہتا ہے:
«والثانی أن تبنی قاله مجاهد وقتادة» دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قبور پر عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے جیسا کہ مجاہد اور قتادہ قائل ہیں ۔
زاد المسیر فی علم التفسیر، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی، دار النشر: المکتب الإسلامی - بیروت - 1404، الطبعة: الثالثة، ج 6، ص 46، النور: (36)
اسی طرح کتاب «تفسیر بحر المحیط» میں «ابو حیان أندلسی» بھی یہی روایت نقل کرتے ہیں : «وإذنه تعالی وأمره بأن (تُرْفَعَ) أی یعظم قدرها قاله الحسن والضحاک» خداوند عالم نے اذن اور حکم دیا ہے کہ ان کی تکریم و تعظیم ہو اور اسے حسن بصری اور ضحاک نے کہا ہے «وقال ابن عباس ومجاهد: تبنی وتعلی» او ر ابن عباس و مجاہد کا کہنا ہے کہ : ان کے قبور پر عمارت تعمیر ہو اور وہ دوسرے گھروں سے اونچی ہو ۔
تفسیر البحر المحیط، اسم المؤلف: محمد بن یوسف الشهیر بأبی حیان الأندلسی، دار النشر: دار الکتب العلمیة - لبنان/ بیروت - 1422 هـ -2001 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: الشیخ عادل أحمد عبد الموجود - الشیخ علی محمد معوض، ج 6، ص 421، باب النور: (36)
دوسری آیت: آیہ 23 سورہ مبارکہ کہف: (فَقالُوا ابْنُوا عَلَیهِمْ بُنْیاناً رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قالَ الَّذِینَ غَلَبُوا عَلی أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیهِمْ مَسْجِداً إِذْ یتَنازَعُونَ بَینَهُمْ أَمْرَهُم)
اگر قبروں پہ مسجد بنانا کفر اور بدعت کا مصداق ہوتا تو خداوند عالم اس سورہ میں اس جگہ ضرور مذمت کرتا جبکہ خداوند عالم نہ صرف مذمت نہیں کر رہا ہے بلکہ تائید کر رہا ہے!
«زمخشری» کتاب «الکشاف» میں کہتا ہے : «{ لَنَتَّخِذَنَّ } علی باب الکهف {مَّسْجِدًا} یصلی فیه المسلمون ویتبرکون بمکانهم» مراد یہ ہے کہ ہم اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنائیں گے تا کہ مومنین یہاں نماز پڑھیں ، اور اصحاب کہف کے اس مقدس مقام سے برکتیں حاصل کریں ۔
الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الأقاویل فی وجوه التأویل، أبو القاسم محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی، تحقیق عبد الرزاق المهدی، الناشر دار إحیاء التراث العربی، عدد الأجزاء 4، ج 2، ص 665
«طبری» کتاب «تفسیر طبری» جلد 15 میں لکھتے ہیں: «وقال المسلمون نحن أحق بهم هم منا نبنی علیهم مسجدا نصلی فیه ونعبد الله فیه» مومنوں نے کہا کہ ہم دوسروں سے زیادہ حق رکھتے ہیں ، ہم اصحاب کہف کی قبر پہ مسجد بنائیں گے، اور وہاں نماز پڑھیں گے اور خدا کی عبادت کریں گے ۔
«ابن جوزی» متوفای 597 کتاب «زاد المسیر» میں کہتے ہیں : «فقال المسلمون نبنی علیهم مسجدا لأنهم علی دیننا» مومنین نے کہا کہ ہم اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنائیں گے کیونکہ وہ لوگ ہمارے دین پر تھے ۔
قبور پر تعمیر سیرت صحابه :
اہل سنت کی برجستہ شخصیت اور بزرگ عالم دین «سمہودی» اپنی کتاب «وفاء الوفا» کی دوسری جلد صفحہ 109 میں رقم طراز ہیں : «وکان بیت عائشة رضی الله عنها أحد الأربعة المذکورة. لکن سیأتی من روایة ابن سعد أنه لم یکن علیه حائط زمن النبی صلّی الله علیه وسلّم، وأن أول من بنی علیه جدارا عمر بن الخطاب» رسول اسلام صلّی الله علیه و آلہ و سلّم کے زمانے میں عائشہ کے حجرہ اور مسجد میں دیوار نہیں تھی، اس پر سب سے پہلے عمر نے دیوار بنائی ۔
یعنی قبر رسول صلی الله علیه و آله وسلم اور عائشہ کے حجرہ کے درمیان عمر نے دیوار بنائی ۔ اب اگر قبر پر کسی طرح کی تعمیر حرام ہوتی تو قبر کو تو مسمار کر دینا چاہئے تھا ، اس پر دیوار بنانے کا کیا مطلب ؟ اور دیوار کو بھی کسی اور نے نہیں خلیفہ دوم نے بنوایا!
کتاب «البدایة و النهایة» میں بیان ہوا ہے . «فأدخل فیه الحجرة النبویة حجرة عائشة فدخل القبر فی المسجد» پھر نبی کا حجرہ، عائشہ کا حجرہ، نبی کی قبر، مسجد میں داخل کر لی گئی ۔
البداية والنهاية ، اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء ، دار النشر : مكتبة المعارف – بيروت؛ ج9، ص 75
دوسری روایت اسی کتاب «وفاء الوفاء» میں یہی «سمہودی» جناب «فاطمہ بنت اسد» کے بارہ میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں : «فلما توفیت خرج رسول الله صلی الله علیه وسلم، فأمر بقبرها فحفر فی موضع المسجد الذی یقال له الیوم قبر فاطمة» جب فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا اس مکان میں جہاں مسجد تھی کھود کر ان کے لئے قبر تیار کی جائے ۔
پروگرام کی تفصیل :
میزبان:
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة مولانا امیرالمؤمنین و الأئمة المعصومین (علیهم السلام).
اللهم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجهم
ہم نے ۸ شوال انہدام جنت البقیع کی مناسبت سے پروگرام «حبل المتین» میں ائمہ انبیاء اور اولیاء کے قبور کے انہدام کے بارہ میں ایک بحث پیش کی تھی ، آج بھی اسی موضوع کو مزید آگے بڑھانا چاہتے ہیں ؛ اور اس کے لئے ہم نے دعوت دی ہے استاد محترم آیۃ اللہ ڈاکٹر حسینی قزوینی صاحب کو ۔ استاد سے گزارش ہے کہ اس روایت پر روشنی ڈالیں جسے وہابی لوگ ائمہ کے قبور کی بے حرمتی اور انہدام کے لئے دستاویز بناتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ تمام قبروں کو مسمار کر دیں ۔
آیت الله ڈاکٹر حسینی قزوینی:
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم و به نستعین و هو خیر ناصر و معین الحمد الله و الصلوة علی رسول الله و علی آله آل الله لا سیما علی مولانا بقیة الله و اللعن الدائم علی اعدائهم اعداء الله الی یوم لقاء الله افوض امری الی الله ان الله بصیر بالعباد حسبنا الله و نعم الوکیل نعم المولی و نعم النصیر.
وہ روایت جس سے وہابی لوگ استدلال کرتے ہیں خود ان کے نقطہ نظر سے ضعیف ہے ؛ بے شک وہ تمام روایتیں گڑھی ہوئی ہیں ؛ اور یہ جانتے ہوئے اس طرح کی روایت سے استدلال کرنا ان کے منافقت کی دلیل ہے ؛ خاص طور سے کہ ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے قبور اور اہل سنت کے ائمہ اور دیگر صحابہ کے قبور کے ساتھ ان کا دہرا رویہ بھی ان کی اس منافقت کو مزید نمایاں کرتا ہے ۔
قبور کو مسمار کرنے کے سلسلہ میں وہابی لوگ جن گڑھی ہوئی روایات کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ان میں سےایک ورایت یہی ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو یہ ذمہ داری سونپی تھی کہ تمام قبروں کو مسمار کر دیں ۔
کتاب «مسند احمد بن حنبل» محققہ «شعیب الأرنؤوط» جو کہ وہابیوں کا بہت بڑا اور نہایت معتبر عالم سمجھا جاتا ہے ، اس کی پہلی جلد صفحہ 87 میں امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) سے روایت نقل ہے :
«عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ فَقَالَ: " أَيُّكُمْ يَنْطَلِقُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلا يَدَعُ بِهَا وَثَنًا إِلا كَسَرَهُ، وَلا قَبْرًا إِلا سَوَّاهُ، وَلا صُورَةً إِلا لَطَّخَهَا؟»
علی (علیہ السلام) سے روایت ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کسی جنازہ کی تشییع میں شریک تھے کہ فرمایا : تم میں سے کون ہے جو مدینہ جا کے تمام بتوں کو توڑ سکتا ہے ، تمام قبروں کو ہموار ، اور تمام تصویروں کو مٹا سکتا ہے؟
مسند الإمام أحمد بن حنبل، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني، دار النشر: مؤسسة قرطبة – مصر؛ ج 1، ص 87، ح 657
اس روایت کی سند سے قطع نظر، اس کے الفاظ کو بھی اگر ملحوظ نظر رکھا جائے تو بھی وہابیوں کا دعوا ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ روایت کے الفاظ ہیں : «ولا قبرا إلا سواه» یہ نہیں کہا : «ولا قبرا إلا خربته» یا «ولا قبرا إلا هدمته» لہذا روایت میں خراب کرنے یا مسمار کرنے کا حکم نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ حکم «تسویة القبر» ہے یعنی قبروں کو ہموار کرنے کا حکم ہے کیونکہ جاہلیت کے دور میں قبروں کو اونٹ کے کوبڑ کی طرح بنایا کرتے تھے لہذا رسول اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے جاہلیت کے آثار کو مٹانے کے لئے یہ حکم دیا تھا کہ قبروں کو زمین سے ایک بالش اونچا کر کے اسے ہموار کر دیں؛ لیکن وہابیوں نے ہموار کرنے کے بجائے اسے مسمار کرنا شروع کردیا؛ بہرحال روایت کا اگلا حصہ ہے : « فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ. فَانْطَلَقَ، فَهَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ، فَرَجَعَ» ایک شخص نے کہا : میں یا رسول اللہ ، پھر وہ گیا ، لیکن مدینہ والے اس کی ہیبت سے ڈر گئے ، تو وہ لوٹ آیا ۔ « فَقَالَ عَلِيٌّ: أَنَا أَنْطَلِقُ يَا رَسُولَ اللهِ» پھر علی نے کہا : میں جاتا ہوں یا رسول اللہ ۔ « قَالَ: " فَانْطَلِقْ» تو رسول اللہ نے کہا : جاو « فَانْطَلَقَ ثُمَّ رَجَعَ» تو علی گئے اور اس کے بعد جب لوٹے « فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَمْ أَدَعْ بِهَا وَثَنًا إِلا كَسَرْتُهُ، وَلا قَبْرًا إِلا سَوَّيْتُهُ، وَلا صُورَةً إِلا لَطَّخْتُهَا» تو علی نے کہا : یا رسول اللہ میں نے تمام بتوں کو توڑ ڈالا ، تمام قبروں کو ہموار کر دیا ، اور تمام تصویروں کو مٹا ڈالا ۔ « ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ عَادَ لِصَنْعَةِ شَيْءٍ مِنْ هَذَا، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» پھر رسول اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے کہا : اب اگر ان میں سے کسی نے کچھ بنایا تو اس نے محمد پر نازل شدہ کتاب اور دین کے سلسلہ میں کفر اختیار کیا ۔
اس روایت کے رو سے وہابی طرز فکر کے مطابق جو بھی فوٹو کھنچوائے اور تصویر بنوائے منجملہ یہی افراد جو چینلز میں کیمرے کے سامنے بیٹھ کے فتوے دیتے ہیں ، یہ سب کے سب کافر ہو چکے ہیں ۔یا جو بھی قبروں کو اونچا بنائے منجملہ «ابوحنیفہ» کی قبر اور اس کے لئے گنبد و بارگاہ بنائے وہ کافر ہوگا ۔ وہابی لوگ اس روایت سے بہت استدلال کرتے جب کہ مزہ کی بات یہ ہے کہ ان کا ہی معروف اور معتبر عالم «شعیب أرنؤوط» اس روایت کے ذیل میں لکھتا ہے: «إسناده ضعیف»
یہ روایت ہماری کتابوں میں بھی ذکر ہوئی ہے ، لیکن ہمارے علماء نے اس کے رجال میں تحقیق کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ ایک گڑھی ہوئی روایت ہے ۔
«شعیب أرنؤوط» کے ساتھ ، نہایت معتبر وہابی عالم «ألبانی» جس کے اعتبار کی حیثیت یہ ہے کہ وہابیوں میں اسے بخاری ثانی کہا جاتا ہے، وہ بھی کتاب «ارواء الغلیل» جلد سوم صفحہ 206 میں یہی بحث پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :
«ورجالہ ثقات رجال الشیخین غیر أبی المودع أو أبی محمد, فهو مجهول کما قال فی " التقریب " وغیره»
حالانکہ اس کے رجال، شیخین کی نظر میں ثقہ ہیں لیکن أبی المودع یا أبی محمد تو بالکل مجہول ہیں جیسا کہ کتاب " التقریب " میں یا دوسری کتابوں میں مذکور ہے.
إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل، المؤلف: محمد ناصر الدین الألبانی، الناشر: المکتب الإسلامی – بیروت، الطبعة: الثانیة - 1405، ج 3، ص 210، ح 759
ظاہر سی بات ہے مجہول کی روایت، ضعیف ہوا کرتی ہے ۔
تیسرا نکتہ یہ کہ کتاب «صحیح مسلم» میں روایت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے آخری سفر میں مکہ و مدینہ کے درمیان اپنی والدہ بزرگوار کے مرقد پہ حاضر ہوئے خود بھی گریہ فرمایا اور آپ کے گرد سب لوگوں نے بھی گریہ کیا :
«زَارَ النبی قَبْرَ أُمِّهِ فَبَکی وَأَبْکی من حَوْلَهُ»
بنی نے اپنی والدہ کے قبر کی زیارت کی اور گریہ فرمایا اور ان کے اطراف میں موجود افراد کو بھی رونا آ گیا ۔
سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام قبروں کو مسمار کرنے کا حکم دیدیا تھا تو آپ کی والدہ کی قبر کی پہچان کیسے ہوئی ؟!
میزبان:
یہ روایت تو زیارت قبور کے جواز کی بہترین دلیل ہے
آیت الله ڈاکٹر حسینی قزوینی:
جی ہاں ، خاص طور سے روایت کے اگلے فقرہ میں تو زیارت کا حکم ہے :
«فَزُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَکرُ الْمَوْتَ»
قبروں کی زیارت کرو کیونکہ اس سے موت یاد دلاتی ہے
ان وہابیوں کے باپ دادا کافر تھے ،اسی لئے کوشش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم کے شجرہ طیبہ کو بھی نعوذ باللہ کافر ثابت کریں ؛ اسی لئے اس گڑھی ہوئی روایت میں یہ حصہ بھی ملا دیا :
«فقال اسْتَأْذَنْتُ رَبِّی فی أَنْ أَسْتَغْفِرَ لها فلم یؤْذَنْ لی وَاسْتَأْذَنْتُهُ فی أَنْ أَزُورَ قَبْرَهَا فَأُذِنَ لی»
میں نےخدا سے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی خدا نے اجازت دے دی لیکن جب میں نے ان کے لئے استغفار اور طلب مغفرت کے لئے اجازت مانگی تو خدا نے اجازت نہیں دی ۔
صحیح مسلم، اسم المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسین القشیری النیسابوری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقی، ج 2، ص 671، ح 976
اسی طرح کتاب «مستدرک علی الصحیحین» جلد دو صفحہ 336 میں اسی مضمون کی ایک اور حدیث موجود ہے :
«خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ يَنْظُرُ فِي الْمَقَابِرِ، وَخَرَجْنَا مَعَهُ، فَأَمَرَنَا فَجَلَسْنَا»
رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم قبرستان میں آئے قبروں کا معاینہ کرنے لگے ، ہم بھی ان کے ساتھ تھے ، پھر ہمیں حکم دیا کہ بیٹھ جائیں
«ثُمَّ تَخَطَّا الْقُبُورَ »
پھر ایک ایک قبر کو عبور کیا
یہاں حدیث کے اس فقرہ پر غور کیجئے «ثم تخطا القبور» جب قبروں کے نشان مٹ چکے تھے تو «ثم تخطا القبور» کا کوئی مفہوم نہیں بنتا ۔
اس کے بعد حدیث کا اگلا فقرہ بھی ملاحظہ ہو:
« حَتَّى انْتَهَى إِلَى قَبْرٍ مِنْهَا فَنَاجَاهُ طَوِيلًا »
یہاں تک نبی ایک قبر پہ پہنچے اور دیر تک اس سے درد دل بیان کرتے رہے ۔
« ثُمَّ ارْتَفَعَ نَحِيبُ رَسُولِ اللَّهِ بَاكِيًا فَبَكَيْنَا لِبُكَائِهِ »
اس کے بعد رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم کے شدید گریہ کی آواز بلند ہوئی تو ہمیں بھی ان کے رونے پر رونا آگیا
« ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَيْنَا فَتَلَقَّاهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الَّذِي أَبْكَاكَ فَقَدْ أَبْكَانَا، وَأَفْزَعَنَا »
پھر رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم ہماری سمت آئے ، عمر ابن خطاب نے سامنے آگے پوچھا : یا رسول اللہ آپ نے کیوں گریہ کیا ، جس نے ہمیں بھی رلا دیا اور بے تاب کردیا
« فَجَاءَ فَجَلَسَ إِلَيْنَا فَقَالَ: «أَفْزَعَكُمْ بُكَائِي؟ »
پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم آئے اور ہمارے پاس بیٹھے اور فرمایا : کیا تم میرے گریہ سے بے تاب ہوگئے
« فَقُلْنَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ »
ہم نے کہا: ہاں یا رسول اللہ!
« فَقَالَ: " إِنَّ الْقَبْرَ الَّذِي رَأَيْتُمُونِي أُنَاجِي فِيهِ، قَبْرُ أُمِّي آمِنَةَ بِنْتِ وَهْبٍ »
پھر رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا : وہ جہاں مجھے درد دل کرتے ہوئے تم نے دیکھا میری والدہ آمنہ بنت وہب کی قبر ہے۔
المستدرک علی الصحیحین، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاکم النیسابوری، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - 1411 هـ - 1990 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، ج 2، ص 366، ح 3292
اگر وہابی علماء کے پاس عقل ہوتی تو ان کے لئے «فناجاه طویلا» کا فقرہ کافی تھا کہ اگر مردہ واقعی میں نہیں سنتا اور اس دنیا سے اس کا کوئی ارتباط نہیں ہے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کس سے درد دل کر رہے ہیں ؟! کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معاذ اللہ خاک سے درد دل کر رہے تھے ؟! اور اگر یہ فرض مان لیا جائے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں توہین ہوگی ۔
آپ جانتے ہیں کہ جناب آمنہ کی رحلت اس وقت ہوئی ہے جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کل ۶ سال کے تھے، آپ ۴۰ سال میں مبعوث بہ رسالت ہوئی یعنی آپ کی والدہ کو گذرے ہوئے ۳۴ سال ہو چکے تھے ۔ آپ بعثت کے بعد ۱۳ سال تک مکہ میں رہے ، آپ نے ہجرت کے بعد مدینہ میں اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اس وقت انہیں گذرے ہوئے ۴۶ سال گذر چکے تھے اور ابھی تک ان کی قبر موجود تھی ۔ اور صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی والدہ ہی نہیں بلکہ ان کے آس پاس دیگر قبریں بھی موجود تھیں جن سے گذرتے ہوئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی والدہ کی قبر تک پہنچے تھے ۔ یہ وہابی لوگ اس کا جواب دیں کہ جب قبریں مسمار ہو چکی تھیں تو اتنی سب قبریں کہاں سے آئیں؟!
جنہوں نے اس روایت کو گڑھا ہے ظاہرا تاریخ اسلام سے ناواقف تھے ، یا بھول گئے تھے کیونکہ جھوٹا یوں بھی بھلکّڑ ہوتا ہے!
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابھی مکہ میں ہیں ، ابھی مدینہ کے کچھ ہی لوگ اسلام لائے ہیں اور منی میں عقبہ کے پاس رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ پر مدینہ کے کچھ لوگوں نے بیعت کی ہے ، ابھی مدینہ کی اکثریت اسلام سے نا آشنا ہے ایسے میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک شخص کو حکم دیں کہ مدینہ میں تمام بتوں کو توڑ دے ، تمام قبروں کو یکساں کردے ، گھروں میں موجود تمام تصویروں کو مٹا دے ، کیا یہ سب مضحکہ خیز نہیں ؟ یا اس طرح کی حدیث گڑھنے والوں کی تاریخ اسلام کے سلسلہ میں جہل و نادانی کی بلکہ ان کی حماقت کی دلیل نہیں۔
اس روایت میں اسے گڑھنے والوں کی مزید حماقت دیکھئے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی کی تشییع جنازہ میں شریک ہیں ایک شخص مدینہ آتا ہے اور لوٹتا ہے اور پیغمبر صلی الله علیه و آله وسلم ابھی بھی وہیں موجود ہیں ، اس کے بعد امیرالمؤمنین علی علیہ السلام بھی مدینہ آتے ہیں سارے بتوں کو توڑ کر، تمام قبروں کو ہموار کر کے ، تمام تصویروں کو مٹانے کے بعد جب مدینہ سے لوٹتے ہیں تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابھی بھی اسی تشییع جنازہ میں موجود ہیں ۔ آخر یہ کون سا تشییع جنازہ تھا ؟! کتنے دن بلکہ کتنے ہفتے لگ گئے ایک تشییع جنازہ میں ؟! جب کہ مکہ کا ماحول اتنا سازگار بھی نہیں تھا کہ جب کسی مسلمان کا انتقال ہو جائے تو با قاعدہ اس کی تشییع جنازہ ہو ۔
بہر حال یہ ایسا جھوٹ ہے جس کے گڑھنے والے کو جھوٹ بولنا بھی نہیں آیا ، گڑھنے والا بھی جاہل اور بے وقوف اور اس کے اس جھوٹ کو ماننے والے بھی اس سے زیادہ بے وقوف ۔
میزبان:
بہت بہت شکریہ استاد ؛ آج کل کیا ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی بحث ہوتی ہے اور ہم اس کا مستدل جواب دیتے ہیں اور جب وہابیت لاجواب ہو جاتی ہے تو بحث سے فرار کرنے کے لئے فورا کہتے ہیں : قرآن سے جواب دیجئے ، تو استاد آپ سے گذارش ہے کہ اس مسئلہ کو ذرا قرآن کی روشنی میں بھی واضح کیجئے ۔
انبیاء و اولیا کے قبور کی تعمیر، قرآن کی روشنی میں :
آیت الله ڈاکٹر حسینی قزوینی:
اچھی طرح یاد ہے کہ کچھ دن پہلے ایک صاحب نے فون کیا تھا کہہ رہے تھے کہ آپ کے کام آیات قرآن کے خلاف ہے ، ہم نے پوچھا کہ کون سی آیت کے خلاف ہے کہنے لگے : وہ مجھے یاد نہیں ، بھول گیا ہوں ، ہم نے کہا کوئی بات نہیں آج رات قرآن اچھی طرح پڑھ کے ہمیں بتادیجئے گا کہ قرآن کی کون سی آیت میں ائمہ طاہرین علیہم السلام کی قبور پر بارگاہ بنانے کی ممانعت کی گئی ہے ، تا کہ اگر شیعہ ان کی بات نہ مانیں کم سے کم حنفی حضرات تو ان کی بات مان لیں اور ابوحنیفہ کی قبر کو مسمار کردیں یا شافعی حضرات ان کی بات مان کر امام شافعی کی قبر کو ڈھا دیں۔
بہرحال وہ حضرت تو غایب ہوگئے اب تک کوئی دلیل نہ لا سکے لیکن ہم قرآن سے یہاں صرف دو آیت پیش کریں گے اور نہایت سادہ انداز میں اہل سنت کی تفاسیر سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی بات کو ثابت کر دینگے ۔
پہلی آیه اول: آیه 36 سوره مبارکه نور:
(فِی بُیوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ یذْکرَ فیها اسْمُهُ یسَبِّحُ لَهُ فیها بِالْغُدُوِّ وَ الْآصالِ)
ان گھروں میں جنہیں اللہ نے اذن دیا ہے محترم و با عظمت رہیں اور اس میں ہر صبح و شام اللہ کا نام یاد کیا جائے اور اس کی تسبیح کی جائے ۔
سوره نور (24): آیه 36
یہ حضرات آکے بتائیں کہ سب سے پہلے (بُیوتٍ) سے مراد کون سا گھر ہے ؟! قطعاً یہاں تمام مسلمانوں کا گھر مراد نہیں ہے ، کیونکہ ان میں مذکورہ خصوصیات نہیں پائی جاتی.
اور دوسری بات یہ کہ (تُرْفَعَ) سے مراد کس طرح رفعت ، بلندی اور اونچائی ہے ؟! وہ کون سے گھر ہیں جنہیں بلند اور اونچا کرنے کا اذن پروردگار نے دیا ہے ؟!
«ثعلبی» اپنی تفسیر «الکشف و البیان» جلد ہفتم میں «بریدہ اسلمی» سے نقل کرتے ہیں :
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک مرتبہ اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے کہ ایک شخص اٹھ کے پوچھتا ہے : یا رسول اللہ! یہ گھر کون سا مراد ہے ؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : انبیاء کا گھر مراد ہے ۔ پھر ابوبکر نے اٹھ کے پوچھا : یا رسول اللہ! علی و زہرا کا گھر بھی انبیاء کے گھر کے برابر ہے ؟! حضرت نے فرمایا: «نعم من أفاضلها» ہاں بلکہ انبیاء کے گھر سے افضل ہے .
الکشف والبیان؛ المؤلف: أبو إسحاق أحمد بن محمد بن إبراهیم الثعلبی النیسابوری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت - لبنان - 1422 هـ - 2002 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: الإمام أبی محمد بن عاشور، ج 7، ص 107
اسی طرح «جلال الدین سیوطی» کی تفسیر کتاب «در المنثور» محقّقہ ڈاکٹر «ترکی» میں بھی یہ روایت نقل ہوئی ہے :
«فقام الیه أبو بکر فقال: یا رسول الله هذا البیت منها البیت علی وفاطمة»
پھر ابوبکر نے اٹھ کے پوچھا : یا رسول اللہ! علی و زہرا کا گھر بھی انبیاء کے گھر کے برابر ہے ؟!
«قال: نعم من أفاضلها»
آنحضرت نے فرمایا : ہاں بلکہ انبیاء کے گھر سے افضل ہے .
الدر المنثور، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن الکمال جلال الدین السیوطی، دار النشر: دار الفکر - بیروت – 1993، ج 6، ص 203، باب النور: (36)
اس روایت کی ابتدا اس طرح ہوئی ہے : «وأخرج ابن مردویه» اس سے پتہ چلتا ہے کہ سیوطی کی نظر میں یہ روایت صحیح ہے کیونکہ سیوطی کا شیوہ یہ ہے کہ جب ان کی نظر میں کوئی روایت ضعیف ہو تو وہ اس طرح سے نقل کرتے ہیں : «بسند ضعیف»
اسی طرح «ألوسی» نے بھی اپنی تفسیر کتاب «روح المعانی» میں اس روایت کو نقل کیا ہے :
«فقام إلیه أبو بکر رضی الله تعالی عنه فقال: یا رسول الله هذا البیت منها لبیت علی وفاطمة رضی الله تعالی عنهما»
پھر ابوبکر نے اٹھ کے پوچھا : یا رسول الله! علی و زہرا کا گھر بھی انبیاء کے گھر کے برابر ہے ؟!
«قال: نعم من أفاضلها»
آنحضرت نے فرمایا : ہاں بلکہ انبیاء کے گھر سے افضل ہے .
اس کے بعد آلوسی لکھتے ہیں :
«وهذا إن صح لا ینبغی العدول عنه»
اگر یہ روایت صحیح ہو تو پھر اس سے عدول نہیں کیا جاسکتا.
روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، اسم المؤلف: العلامة أبی الفضل شهاب الدین السید محمود الألوسی البغدادی، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی – بیروت، ج 18، ص 174، ح 36
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آلوسی کے پاس بھی اس روایت کو ردّ کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے ، ورنہ یہ تو بہت آسانی سے کہہ دیتے ہیں : اس روایت کو رافضیوں نے گڑھ دیا ہے ۔
اب جب کہ ثابت ہو گیا کہ گھر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا گھر ہے تو آئیے دیکھتے ہیں کہ (تُرْفَعَ) سے کیا مراد ہے ؟! ہم اس بات کو خود قرآن سے ہی ثابت کرنا چاہیں گے.
خداوند عالم سورہ بقرہ آیہ 127 میں فرماتا ہے :
(وَ إِذْ یرْفَعُ إِبْراهِیمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَیتِ وَ إِسْماعِیلُ رَبَّنا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّک أَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیم)
اور جب ابراہیم و اسماعیل نے خانہ کعبہ کی بنیادوں کو بلند کیا کہا پروردگارا ہم سے قبول کرنا بے شک تو سمیع و علیم ہے ۔
سوره بقره (2): آیه 127
اس آیت شریفہ میں (یرْفَعُ) کا معنی کیا ہے ؟! ظاہر سی بات ہے عمارت کو اٹھانے ، بلند کرنے اور اونچا کرنے کے معنی میں ہے؛ اسی سے حرم، گنبد، ضریح اور بارگاہ بنانے کا اشارہ بھی ملتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم نے خانہ خدا کی عمارت کو اونچا کیا.
اسی طرح (فِی بُیوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ یذْکرَ) والی آیت میں بھی (تُرْفَعُ) کا معنی بھی یہی ہے ؛ اور یہ معنی ہم نے خود قرآن سے اخذ کیا ہے .
دوسرا نکتہ یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہاں (تُرْفَعَ وَ یذْکرَ فیها اسْمُهُ) سے مراد تعظیم و تکریم ہے ، جیسا کہ «ابن جوزی» نے کتاب «زاد المسیر» میں سورہ بقرہ آیہ 127 کے ترجمہ و توضیح میں ذکر کیا ہے : «أحدها أن تعظم» اس کا ایک معنی تعظیم و تکریم ہے ۔
میں عرض کرتا ہوں قبول ہے ، یہی معنی سہی ، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ائمہ (علیہم السلام) کے قبور کی تعظیم و تکریم کس معنی میں ہے ؟! کیا ضریح ، بارگاہ، گنبد و حرم تعمیر کرنا تعظیم و تکریم کا مصداق نہیں ؟!
آپ دیکھئیے تاریخ میں اسلام سے پہلے یا اسلام کے بعد بھی جب بھی کوئی قوم نے کسی بزرگ کے مرقد کی تعظیم و تکریم کرنا چاہی تو قبر پہ ضریح بنا کر اس پر بارگاہ و گنبد بنا کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا جیسا کہ «احناف» نے «ابوحنیفہ» کی قبر پر اسی طرح «بخاری» کی قبر پر گنبد و بارگاہ بناکر ان کی تعظیم و تکریم کی ۔
بہرحال یہ بات بہت واضح ہے مگر یہ کہ کوئی بے عقل ہو تو اس کی بات الگ ہے ۔
مزہ کی بات تو یہ ہے کہ «ابن جوزی» اس روایت کے ذیل میں کہتے ہیں :
«والثانی أن تبنی قاله مجاهد وقتادة»
دوسرا نظریہ یہ ہے قبروں پہ اونچی عمارت تعمیر ہو جیسا کہ مجاہد اور قتادۃ قائل ہیں۔
زاد المسیر فی علم التفسیر، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی، دار النشر: المکتب الإسلامی - بیروت - 1404، الطبعة: الثالثة، ج 6، ص 46، النور: (36)
لہذا یہ آیت ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے مرقد پر گنبد و بارگاہ بنانے کی مشروعیت پر بخوبی دلالت کرتی ہے ، جس طرح کتاب «تفسیر بحر المحیط» میں «ابو حیان أندلسی» نے بھی اسی روایت کو نقل کیا ہے :
«وإذنه تعالی وأمره بأن (تُرْفَعَ) أی یعظم قدرها قاله الحسن والضحاک»
خداوند عالم نے اذن اور حکم دیا ہے کہ ان کی تکریم و تعظیم ہو اور اسے حسن بصری اور ضحاک نے کہا ہے ۔
«وقال ابن عباس ومجاهد: تبنی وتعلی»
اور ابن عباس و مجاہد کا کہنا ہے کہ : ان کے قبور پر عمارت تعمیر ہو اور وہ دوسرے گھروں سے اونچی ہو ۔
تفسیر البحر المحیط، اسم المؤلف: محمد بن یوسف الشهیر بأبی حیان الأندلسی، دار النشر: دار الکتب العلمیة - لبنان/ بیروت - 1422 هـ -2001 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: الشیخ عادل أحمد عبد الموجود - الشیخ علی محمد معوض، ج 6، ص 421، باب النور: (36)
اسی طرح «ألوسی» اپنی تفسیر کتاب «تفسیر المعانی» میں کہتے ہیں :
«ومن ذلک أیضا بناؤها رفیعة عالیة لا کسائر البیوت»
اور اسی میں سے یہ بھی ہے کہ ان کے اوپر اونچی عمارت تعمیر کی جائے دوسری عمارتوں کے زیادہ اونچی ۔
«وفسر بعضهم الرفع ببنائها رفیعة»
اور دوسروں نے بھی یہی تفسیر کی ہے کہ ان کی عمارت اونچی بنائی جائے ۔
دلیل کیا ہے ؟!
«وإذ یرفع إبراهیم القواعد من البیت وإسماعیل»
روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، اسم المؤلف: العلامة أبی الفضل شهاب الدین السید محمود الألوسی البغدادی، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی – بیروت، ج 18، ص 176، باب النور )36 – 37(
انہوں نے بھی ایک دم وہی دلیل دی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ۔ میں وہابیوں کو نصیحت کرتا ہوں باتیں بنانے کے بجائے تھوڑا قرآن غور سے سمجھ کے پڑھیں ۔ یہ تمام روایات کو ہم نے بیان کیا سب اہل سنت علماء سے نقل کیا ان میں سے کوئی بھی شیعہ نہیں تھا ۔
دوسری آیت: آیه 23 سوره مبارکه کهف:
اصحاب کہف قریب 300 سال غار میں سونے کے بعد بیدار ہوئے اس کے بعد انہوں نے اللہ سے طلب کیا کہ انہیں اس دنیا سے اٹھا لے ، پھر جب لوگوں نے اصحاب کہف کو مردہ پایا تو ان میں اختلاف ہوگیا :
(فَقالُوا ابْنُوا عَلَیهِمْ بُنْیاناً رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قالَ الَّذِینَ غَلَبُوا عَلی أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیهِمْ مَسْجِداً إِذْ یتَنازَعُونَ بَینَهُمْ أَمْرَهُم)
جب ان میں اس بارہ میں اختلاف ہوا تو ان میں سے کچھ نے کہا کہ اس غار پر ایک بنا تعمیر کر دو ، ان کا پروردگار ہی ان کے بارے میں بہتر جانتا ہے ، لیکن جو غالب تھے انہوں نے کہا ہم اس پر مسجد بنائیں گے ۔
سوره کهف (18): آیه 21
اگر قبروں پہ مسجد بنانا کفر اور بدعت کا مصداق ہوتا تو خداوند عالم اس سورہ میں اس جگہ ضرور مذمت کرتا جبکہ خداوند عالم نہ صرف مذمت نہیں کر رہا ہے بلکہ تائید کر رہا ہے! خداوند عالم اسی سورہ مبارکہ آیہ 13 میں ارشاد فرماتا ہے :
(نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیک نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْیةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْناهُمْ هُدی)
ہم ان کی داستان تمہارے لئے حق کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، وہ ایسے جواں مرد تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں مزید ہدایت دی ۔
سوره کهف (18): آیه 13
خداوند عالم اس آیت میں صراحت کے ساتھ بیان کر رہا ہے کہ اصحاب کہف کی داستان حق ہے ؛ لیکن جب قرآن کریم فرعون کے بارے میں تذکرہ کرتا ہے فورا اس کی مذمت کرتا ہے ، یا جب نمرود کے بارہ میں بیان ہوتا تو فورا اس کی بھی مذمت کرتا ہے!
میں یہاں کتاب «الکشاف» میں سے «زمخشری» کا قول نقل کرنا چاہتا ہوں وہ «زمخشری» جو اہل سنت کے معتبر ترین عالم ہیں اور علم تفسیر میں بنیاد اور سند کی حیثیت رکھتے ہیں ، یقینا «زمخشری» جیسے عظیم مفسر قرآن «ابن تیمیہ» اور «محمد بن عبدالوہاب» کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ اور بہتر قرآن سمجھتے ہیں ۔
مفسر قرآن «زمخشری» متوفای 538 ہجری نے «ابن تیمیہ» سے 200 سال اپنی تفسیر کتاب «الکشاف» میں لکھا ہے :
«{ لَنَتَّخِذَنَّ } علی باب الکهف { مَّسْجِدًا } یصلی فیه المسلمون ویتبرکون بمکانهم»
مراد یہ ہے کہ ہم اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنائیں گے تا کہ مومنین یہاں نماز پڑھیں ، اور اصحاب کہف کے اس مقدس مقام سے برکتیں حاصل کریں ۔
الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الأقاویل فی وجوه التأویل، أبو القاسم محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی، تحقیق عبد الرزاق المهدی، الناشر دار إحیاء التراث العربی، عدد الأجزاء 4، ج 2، ص 665
«طبری» بھی کتاب «تفسیر طبری» جلد 15 میں لکھتے ہیں:
«وقال المسلمون نحن أحق بهم هم منا نبنی علیهم مسجدا نصلی فیه ونعبد الله فیه»
مومنوں نے کہا کہ ہم دوسروں سے زیادہ حق رکھتے ہیں ، ہم اصحاب کہف کی قبر پہ مسجد بنائیں گے، اور وہاں نماز پڑھیں گے اور خدا کی عبادت کریں گے ۔
جامع البیان عن تأویل آی القرآن، اسم المؤلف: محمد بن جریر بن یزید بن خالد الطبری أبو جعفر، دار النشر: دار الفکر - بیروت – 1405، ج 15، ص 222، باب الکهف: (19 - 20) وکذلک بعثناهم لیتساءلوا...
اب جو وہابی ٹولہ یہ کہتا ہے اگر قبر پر مسجد بنا دی جائے تو وہ بتکدہ بن جائے گی لہذا قبر کو ویران کرنا چاہئیے بلکہ نبش قبر کر کے جسد کو بھی وہاں سے دور کر دینا چاہئیے یہ جاہل ٹولہ اس روایت کا جواب دے ، اس روایت کو کسی شیعہ نے بلکہ اہل سنت کے «طبری» نے نقل کیا ہے ۔
اسی طرح «ابن جوزی» متوفای 597 کتاب «زاد المسیر» میں کہتے ہیں:
«فقال المسلمون نبنی علیهم مسجدا لأنهم علی دیننا»
مومنین نے کہا کہ ہم اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنائیں گے کیونکہ وہ لوگ ہمارے دین پر تھے ۔
زاد المسیر فی علم التفسیر، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی، دار النشر: المکتب الإسلامی - بیروت - 1404، الطبعة: الثالثة، ج 5، ص 123، باب الکهف: (21) وکذلک أعثرنا علیهم...
اسی طرح «فخر رازی» اپنی تفسیر جلد 21 صفحہ 90 میں لکھتے ہیں:
«(لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیهِمْ مَّسْجِدًا) نعبد الله فیه ونستبقی آثار أصحاب الکهف بسبب ذلک المسجد»
انہوں نے کہا کہ ہم اس پر مسجد بنائیں گے ، اس میں اللہ کی عبادت کرینگے ، اور اس مسجد کے ذریعہ اصحاب کہف کے آثار کو بھی آیندہ نسلوں کے لئے باقی رکھیں گے ۔
التفسیر الکبیر أو مفاتیح الغیب، اسم المؤلف: فخر الدین محمد بن عمر التمیمی الرازی الشافعی، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - 1421 هـ - 2000 م، الطبعة: الأولی، ج 21، ص 90
اسی طرح «شوکانی» کتاب «فتح القدیر» جلد سوم صفحہ 277 میں لکھتے ہیں:
«أمرهم لنتخذن علیهم مسجدا) ذکر اتخاذ المسجد یشعر بأن هؤلاء الذین غلبوا علی أمرهم هم المسلمون»
یہ جو غار پر مسجد بنانا چاہتے تھے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ جو غالب ہوئے وہ مومن تھے ۔
فتح القدیر الجامع بین فنی الروایة والدرایة من علم التفسیر، اسم المؤلف: محمد بن علی بن محمد الشوکانی، دار النشر: دار الفکر – بیروت، ج 3، ص 277، الکهف: (21) وکذلک أعثرنا علیهم...
اب مجھے نہیں معلوم ان سے کس زبان میں گفتگو کروں کہیں یہ لوگ صُمٌّ بُکمٌ عُمْی فَهُمْ لا یعْقِلُون کا مصداق تو نہیں
(وَ مَثَلُ الَّذِینَ کفَرُوا کمَثَلِ الَّذِی ینْعِقُ بِما لا یسْمَعُ إِلاَّ دُعاءً وَ نِداءً صُمٌّ بُکمٌ عُمْی فَهُمْ لا یعْقِلُون)
سوره بقره (2): آیه 171
میزبان:
استاد محترم بہت شکریہ ، آپ نے آیات و روایات کی روشنی میں اس مسئلہ کے بارہ میں سیر حاصل بحث کی آخر میں ذرا یہ بھی بتا دیجئیے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کی رحلت کے بعد اس مسئلہ میں صحابہ کرام کی سیرت کیا رہی تھی ؟
بنائے قبور میں سیرت صحابہ :
آیت الله ڈاکٹر حسینی قزوینی:
«سمہودی» جو کہ اہل سنت کی اہم ترین برجستہ شخصیتوں میں سے ہیں کتاب «وفاء الوفا» جلد دوم صفحہ 109 میں لکھتے ہیں :
«وکان بیت عائشة رضی الله عنها أحد الأربعة المذکورة. لکن سیأتی من روایة ابن سعد أنه لم یکن علیه حائط زمن النبی صلّی الله علیه وسلّم، وأن أول من بنی علیه جدارا عمر بن الخطاب»
رسول اسلام صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے زمانے میں عائشہ کے حجرہ اور مسجد میں دیوار نہیں تھی، اس پر سب سے پہلے عمر نے دیوار بنائی ۔
وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، المؤلف: علی بن عبد الله، نور الدین أبو الحسن السمهودی (المتوفی: 911 هـ)، الناشر: دار الکتب العلمیة – بیروت، الطبعة: الأولی – 1419، ج 2، ص 109، باب أول من بنی جدارا علی بیت عائشة
اب اگر قبر پر کسی طرح کی تعمیر حلام ہوتی تو قبر کو تو مسمار کر دینا چاہئے تھا ، اس پر دیوار بنانے کا کیا مطلب ؟ اور دیوار کو بھی کسی اور نے نہیں خلیفہ دوم نے بنوایا!
اسی طری اسی کتاب کی دوسری جلد صفحہ 111 میں لکھتا ہے :
«روی ابن زبالة عن عائشة رضی اللہ عنها أنها قالت: ما زلت أضع خماری وأتفضل فی ثیابی «1» حتی دفن عمر؛ فلم أزل متحفظة فی ثیابی حتی بنیت بینی وبین القبور جدارا»
ابن زبالہ ، عایشہ سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے کہا: میں ہمیشہ گھر میں بنا حجاب کے گھر کے لباس میں رہتی تھی یہاں تک کہ میرے گھر میں عمر کو دفن کر دیا گیا اس کے بعد ہمیشہ میں بلند کپڑے پہنتی اور ہمیشہ حجاب میں رہتی ، یہاں تک کہ میرے اور ان کی قبر کے درمیان دیوار اٹھا دی گئی ۔
اگر عمر مرنے کے بعد ختم ہو گئے اور اس دنیا سے ان کا کوئی رابطہ نہیں رہا تو عایشہ کیوں ان کے دفن ہونے کے بعد اپنے گھر میں حجاب کیا کرتی تھی جبکہ پہلے تو ایسا نہیں کرتی تھیں ؛ یقینا یہی وجہ تھی کہ عمر نامحرم ہیں اور وہ انہیں دیکھ رہے ہیں ۔
عایشہ کے عقیدہ کے مطابق مردہ شخص دیکھ سکتا ہے جبکہ «شیخ الشیاطین» کے وہابی پیروکار کہتے ہیں کہ جو اس دنیا سے چلا گیا وہ فانی ہو گیا اس کا زندوں کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ، نہ ہماری آواز سنتا ہے ، نہ ہمیں جواب دے سکتا ہے۔
بہر حال اس روایت کے ذیل میں یہ فقرہ بھی قابل توجہ ہے :
«کانوا یأخذون من تراب القبر»
مومنین پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی قبر کی خاک کو تبرک کے طور پر اٹھاتے تھے ۔
اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مرقد کی خاک کی کوئی حیثیت نہیں تو مومنین اس خاک کو تبرک کے طور پر کیوں اٹھاتے تھے۔
وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، المؤلف: علی بن عبد الله، نور الدین أبو الحسن السمهودی (المتوفی: 911 هـ)، الناشر: دار الکتب العلمیة – بیروت، الطبعة: الأولی – 1419، ج 2، ص 111، الفصل العشرون فیما حدث من عمارة الحجرة بعد ذلک، والحائز الذی أدیر علیها
کتاب «البدایة و النهایة» جلد ۹ صفحه 75 میں ایک لمبی داستان نقل ہوئی ہے کہ : «ولید بن عبدالملک» کے دور خلافت میں «عمر بن عبدالعزیز» کے مطابق مسجد النبی کے اطراف کے تمام مکانوں کو خرید لیا گیا اور سب کو مسجد میں شامل کر لیا گیا: «فأدخل فیه الحجرة النبویة حجرة عائشة فدخل القبر فی المسجد» نبی کا حجرہ اور آپ کی قبر عایشہ کا گھر سب مسجد میں شامل کر دیا گیا.
البداية والنهاية ، اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء ، دار النشر : مكتبة المعارف – بيروت؛ ج9، ص 75
وہابی ٹولہ جواب دے کہ نہ «عمر بن عبدالعزیز» شیعہ تھا نہ «ولید بن عبدالملک» تم جو ان شیدائی ہو جواب دو کہ جب مسجد میں قبر ہونے سے نماز باطل ہو جاتی ہے تو اس واقعہ کو آج 1338 سال گذر رہے ہیں ، کیا تب سے آج تک مسلمانوں کی نماز باطل ہے ؟!
دوسری روایت اسی کتاب «وفاء الوفاء» میں یہی «سمہودی» جناب «فاطمہ بنت اسد» کے بارہ میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :
«فلما توفیت خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأمر بقبرہا فحفر فی موضع المسجد الذی یقال لہ الیوم قبر فاطمة»
جب فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اس مکان میں جہاں مسجد تھی کھود کر ان کے لئے قبر تیار کی جائے ۔
وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، المؤلف: علی بن عبد اللہ، نور الدین أبو الحسن السمہودی (المتوفی: 911 ہـ)، الناشر: دار الکتب العلمیة – بیروت، الطبعة: الأولی – 1419، ج 3، ص 87
اس روایت کی رو سے چاہے جناب «فاطمہ بنت اسد» کی قبر پر بعد میں مسجد تعمیر کی گئی ہو یا مسجد ہی میں قبر تیار کی گئی ہو دونوں صورت میں وہابیوں کے فتوں کی دھجیاں اڑ جاتی ہے
کتاب «خلاصة الوفاء بأخبار المصطفی» میں «سمہودی» لکھتے ہیں :
«مصعب بن عمیر وعبد اللہ بن جحش دفنا تحت المسجد الذی بنی علی قبر حمزة»
مصعب بن عمیر اور عبداللہ بن جحش اس مسجد کے گوشہ میں دفن ہوئے جو سیدالشہدا جناب حمزہ کی قبر پر بنائی گئی تھی.
خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفی، المؤلف: علی بن عبد الله بن أحمد الحسنی السمهودی (المتوفی: 911 هـ)، دراسة وتحقیق: د/ محمد الأمین محمد محمود أحمد الجکینی، ج 3، ص 114، باب سید الشهداء حمزة بن عبد المطلب ومصرعه
اسی طرح اسی کتاب ایک دوسری حدیث میں آیا ہے :
«وعن أبی جعفر أن فاطمة بنت رسول الله صلی الله علیه وسلم کانت تزور قبر حمزة رضی الله تعالی عنه ترمّه وتصلحه، وقد تعلمته بحجر»
حضرت فاطمہ دختر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جناب حمزہ سیدالشہدا کی قبر کی زیارت کیا کرتی تھیں ، اس کی خرابیوں کی مرمت کراتیں ، اور اس پر ایک پتھر بھی نصب کیا تھا ۔
خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفی، المؤلف: علی بن عبد الله بن أحمد الحسنی السمهودی (المتوفی: 911 هـ)، دراسة وتحقیق: د/ محمد الأمین محمد محمود أحمد الجکینی، ج 3، ص 111، باب زیارة النبی صلی الله علیه وسلم وخلفائه قبور الشهداء علی رأس کل حول
یہ صحابہ کی سیرت رہی ہے ، یہ تمام روایات ہماری نہیں بلکہ سب کے سب اہل سنت کی کتابوں سے تھی ۔ اس بنا پر آپ کے بقول «سلف صالح» کی سیرت بھی آپ کے کرتوتوں سے بہت مختلف تھی ۔
میزبان:
استاد محترم ، بہت بہت شکریہ ، واقعا مکمل اور جامع بحث پیش کی گئی ہے ، حق کے خواہاں کے لئے واقعا وافی و کافی ہے ؛ آخر میں ناظرین کے کچھ ٹیلیفون بھی سن لیتے ہیں :
ناظرین کے رابطے :
(جناب مؤمن الطاق خوزستان سے – شیعه):
وہابیت کا جو کہ دعوا ہے کہ قبور پر عمارت بنانا شرک ہے تو سب سے پہلے مشرک « صحابی رسول ابو جندل » ہیں کہ جب « صحابی رسول ابو بصیر » کا انتقال ہوا تو « صحابی ابو جندل » نے انہیں دفن کیا اور ان کی قبر پر مسجد تعمیر کیا ۔
یہ واقعہ اہل سنت کی متعدد کتابوں میں درج ہے منجملہ «الوافی بالوفیات» جلد 10 صفحہ 108 چاپ دارالکتاب العربی ۔ نیز کتاب «عمدة القاری» تالیف «عینی» جلد 14 صفحہ 16:
«فدفنه أبو جندل مکانه، وصلی علیه وجعل عند قبره مسجداً»
تو ابو جندل نے انہیں اس جگہ دفن کیا ، اس پر نماز ادا کی ، اور ان کی قبر پر ایک مسجد تعمیر کی ۔
الوافی بالوفیات، اسم المؤلف: صلاح الدین خلیل بن أیبک الصفدی، دار النشر: دار إحیاء التراث - بیروت - 1420 هـ- 2000 م، تحقیق: أحمد الأرناؤوط وترکی مصطفی، ج 10، ص 108، باب أبو بصیر الصحابی
عمدة القاری شرح صحیح البخاری، اسم المؤلف: بدر الدین محمود بن أحمد العینی، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی – بیروت، ج 14، ص 16، باب 51
اس کے ساتھ ایک دو سوال بھی ہیں جو میں استاد محترم سے پوچھنا چاہتا ہوں پہلا سوال یہ ہے کہ آپ کی رائے «ابن غضائری» کی طرف منسوب کتاب «رجال» کے بارے میں کیا ؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ میں نے سنا ہے کہ «ذہبی» نے کہا ہے کہ اگر کسی کی ایک روایت بھی جرح کی گئی تو اس کی کوئی روایت قابل قبول نہیں ہے ، اگر ہو سکے تو اس کی طرف بھی روشنی ڈالئیے ۔ شکریہ ۔
(جناب نوربخش سیرجان سے – شیعه):
میں استاد سے چاہتا ہوں کہ تھوڑا «ابوہریرہ» کے بارے میں روشنی ڈالیں ۔ شکریہ ۔
رجال میں «ابن غضائری» کے نظریات:
آیت اللہ ڈاکٹر حسینی قزوینی:
رجال کے سلسلہ میں «ابن غضائری» کے نظریات کے بارے میں ہم نے اپنی کتاب «المدخل الی علم الرجال و الدرایة» میں تفصیل سے بحث کی ہے اور اس سلسلہ میں ہماری رائے وہی ہے جو اس سلسلہ میں مرحوم آیت اللہ «خوئی» کی ہے ؛ حق یہی ہے کہ «ابن غضائری» کی طرف اس کتاب کا انتساب ثابت نہیں ہے ۔
جو «ابن غضائری» کے سلسلہ میں قطعا پتہ ہے وہ یہ ہے کہ ان کے بیٹوں نے ان کے انتقال کے بعد ان کے تمام علمی آثار کو برباد کردیا ۔
بعض وقت اولاد اپنے والد کا نام زندہ رکھتے ہیں جیسے «فخر المحققین» جنہوں نے اپنے والد «علامہ حلی» کے نام کو زندہ کیا ؛ لیکن بعض وقت ایسا نہیں ہوتا ۔ بہرحال رجال کی وہ کتاب جو «ابن غضائری» سے منسوب ہے اس دوہرے نظریات پائے جاتے ہیں ۔
میزبان:
ان کا ایک دوسرا بھی سوال تھا "«ذہبی» کے نظریہ کے بارے میں کہ اگر کسی کی ایک روایت بھی جرح کی گئی تو اس کی کوئی روایت قابل قبول نہیں ہے ۔
آیت اللہ ڈاکٹر حسینی قزوینی:
جی یہ کتاب «النکت علی مقدمہ ابن الصلاح» جلد 3 صفحہ 362 میں لکھتے ہیں :
«فلو جرحه واحد وعدله مائة قدم قول الواحد لذلک»
اگر کسی کو سو لوگوں نے توثیق کی ہو اور ایک شخص نے اسے جرح کیا ہو تو اس ایک شخص کی بات مقدم ہے ۔
النکت علی مقدمة ابن الصلاح، الناشر: أضواء السلف – الریاض، الطبعة الأولی، 1419 هـ - 1998 م، تحقیق: د. زین العابدین بن محمد بلا فریج، ج 3، ص 362، شماره 244
بہرحال یہ ان کی نظر ہے ، «ذہبی» کی ایک اور کتاب ہے «الرواة الثقات المتکلم فیهم بما لا یوجب ردهم» نام کی جس میں انہوں نے اس طرح کے راویوں کو معین کیا ہے، مثال کے طور پر اسی کتاب کے صفحہ 53 پر لکھتے ہیں :
«أحمد بن عیسی التستری مصری ثقة حجة احتج به الشیخان وما علمت فیه وهنا فلا یلتفت الی قول یحیی بن معین فیه کذاب وکذا غمزه ابو زرعة»
مسلم و بخاری کی نظر میں تو احمد بن عیسی تستری مصری ثقہ اور حجت ہیں لیکن یحیی بن معین نے انہیں جھوٹا کہا ہے اور ابو زرعہ نے بھی تضعیف کیا ہے .
الرواة الثقات المتکلم فیهم بما لا یوجب ردهم، الإمام الحافظ أبی عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان الذهبی، تحقیق محمد إبراهیم الموصلی، الناشر دار البشائر الإسلامیة، سنة النشر 1412 هـ - 1992 م، مکان النشر بیروت – لبنان، ص 53
اسی کتاب کے صفحہ 55 میں «احمد بن فرات» کے بارے میں لکھتے ہیں:
«من کبار الائمة الاثبات»
پھر «ابن خراش» سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :
«علی قول ابن خراش فیه یکذب عمداً»
ابن خراش کے بقول : یہ شخص عمداً جھوٹ بولتا تھا!
الرواة الثقات المتکلم فیهم بما لا یوجب ردهم، الإمام الحافظ أبی عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان الذهبی، تحقیق محمد إبراهیم الموصلی، الناشر دار البشائر الإسلامیة، سنة النشر 1412 هـ - 1992 م، مکان النشر بیروت – لبنان، ص 55
اس طرح کی مثالیں بہت ہیں مثلا اسی کتاب کے صفحہ 66 میں «اسرائیل بن یونس» کے بارے میں آیا ہے :
«من ثقات الکوفیین»
پھر دوسری جگہ آیا ہے :
«وقال ابن سعد منهم من یستضعفه قلت ولا یلتفت إلی ابن حزم فی رده لحدیث إسرائیل وتضعیفه»
ابن حزم أندلسی اور دوسروں کا کہنا ہے کہ : یہ شخص اسرائیلیات نقل کرتا تھا اور یہ شخص ضعیف ہے.
الرواة الثقات المتکلم فیهم بما لا یوجب ردهم، الإمام الحافظ أبی عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان الذهبی، تحقیق محمد إبراهیم الموصلی، الناشر دار البشائر الإسلامیة، سنة النشر 1412 هـ - 1992 م، مکان النشر بیروت – لبنان، ص 66، شماره 18
میزبان:
بہت خوب ؛ استاد ناظرین میں سے جناب نوربخش صاحب نے «ابوہریرہ» کے بارے میں پوچھا تھا ؛ اس سلسلہ میں بھی مختصر روشنی ڈال دیجئیے
آیت اللہ ڈاکٹر حسینی قزوینی:
«ابوہریرہ» کے سلسلہ میں تو تفصیلی بحث کرنی چاہئیے ، لیکن مختصر میں ابوہریرہ کا ایک واقعہ بیان کر دوں اس سے ان کی شخصیت سمجھ میں آ سکتی ہے وہ جب کوئی روایت نقل کرتے اور اس کا جھوٹ واضح ہو جاتا تھا تو کہہ دیتے تھے :
«لَا هذا من کیسِ أبی هُرَیرَةَ»
نہیں ؛ یہ توابوہریرہ کی تھیلی سے تھا ۔
ایک تفصیلی روایت ہے جو قال النبی سے شروع ہوتی:
«قال النبی أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ ما تَرَک غِنًی وَالْیدُ الْعُلْیا خَیرٌ من الْیدِ السُّفْلَی وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ تَقُولُ الْمَرْأَةُ إِمَّا أَنْ تُطْعِمَنِی وَإِمَّا أَنْ تُطَلِّقَنِی وَیقُولُ الْعَبْدُ أَطْعِمْنِی وَاسْتَعْمِلْنِی وَیقُولُ الِابْنُ أَطْعِمْنِی إلی من تَدَعُنِی فَقَالُوا یا أَبَا هُرَیرَةَ سَمِعْتَ هذا من رسول اللَّهِ»
الجامع الصحیح المختصر، اسم المؤلف: محمد بن إسماعیل أبو عبدالله البخاری الجعفی، دار النشر: دار ابن کثیر, الیمامة - بیروت - 1407 - 1987، الطبعة: الثالثة، تحقیق: د. مصطفی دیب البغا، ج 5، ص 2048، ح 5040
لیکن جب اس کا جھوٹ کھل گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ کیا واقعی تم نے اس روایت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے سنا ہے تو کہنے لگے : «لا هذا من کیسِ أبی هُرَیرَةَ»
اور ان کے پاس ایک گونی نہی تھی خود یہ کہتے ہیں : میرے پاس دو گونیاں یا تھیلیاں ہیں ، ایک گونی یا تھیلی کو میں نے عمر کے دور میں کھولا، لیکن اگر دوسری بھی کھول دیتا تو میری گردن اڑا دی جاتی ۔
میزبان:
ایک چاول سے دیگ کے سارے چاول کا پتہ چل جاتا ہے !
آیت الله ڈاکٹر حسینی قزوینی:
یہ روایت جو میں نے عرض کیا وہ کتاب «صحیح بخاری» سے نقل کیا ہے، جبکہ «مسند أحمد بن حنبل» میں اور دیگر کتابوں میں جو اور بھی عجیب و غریب روایات ہیں ان کا تومیں نے ذکر ہی نہیں کیا ۔ بہرحال روایت کی سند بہت واضح اور روشن ہے اب قضاوت ناظرین کے ہاتھ میں ہے .
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته
اللهم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجهم