غدیر سے متعلق میں اہم سوالات
شیعوں سے سوال
1- اہل سنت کی کتابوں سے حدیث غدیر کے معتبر ہونے کے بارے میں شیعوں دلیلوں میں سے کوئی ایک بیان کریں۔
2- حدیث غدیر حضرت علی علیہ السلام کی امامت و خلافت پر کیسے دلالت کرتی ہے؟
3- کیا علماء اہل السنت حدیث غدیر کا علی علیہ السلام کی خلافت پر دلالت کرنے کو قبول کرتے ہیں؟
4- کیا خود حضرت علی علیہ السلام نے اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لیے حدیث غدیر کا سہارا لیا ہے؟
5- واقعہ غدیر کے لافانی ہونے کی کیا وجہ ہے؟
6- خود یمنی فوج کا ماجرا حضرت علی کی ولايت پر حدیث غدیر کا ایک اور ثبوت کیسے بنتی ہے؟
محترم اہل سنت حضرت سے سوال
-1حضرت علی علیہ السلام کی امامت سے متعلق حدیث غدیر پر شیعہ دلیل سے آپ کا جواب اور اس سے متعلق قرائن بشمول: اپنے ولایت کے بارے میں حضرت کی تقریر اس جملے کے ساتھ کہ (أَلَسْتُ أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟) اور بعض بزرگ اهل سنت علماء کا اعتراف جیسے امامت کے بارے میں غدیر کی حدیث (وهذا نص صريح في إثبات إمامته) اور غدیر کی حدیث پر حضرت علی کی دلیل اور دیگر شواہد پر ابن جوزی کی کیا رای ہے؟
2- کیا غدیر خم میں خلیفہ دوم کی طرف سے علی علیہ السلام کو مبارکباد دینا اور (اَصْبَحْتَ مَولايَ وَمَوليَ كُلِّ مُسْلِمٍ) یا (اَصْبَحْتَ الْيَوْمَ وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِن) کا جملہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت پر دلالت نہیں کرتا؟
3- حدیث غدیر کا حضرت علی علیہ السلام کی امامت پر دلالت کرنا زیادہ قوي ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے خلیفہ اول کا نماز بجا لانا قوي ہے؟
4- قرآنی آیات کے مطابق کیا لفظ مولی حضرت علی علیہ السلام کی ولايت پر دلالت نہیں کرتا، بشمول درج ذیل آیات:
ثُمَّ رُدُّوا إِلَي اللهِ مَوْلاَهُمْ الْحَقِّ أَلاَ لَهُ الْحُكْمُ الانعام: 62
وَاللهُ مَوْلاَكُمْ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ التحريم: 2
مَأْوَاكُمْ النَّارُ هِيَ مَوْلاَكُمْ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ الحديد: 15
5- حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم غدیر خم میں اس جملے کے ساتھ کہ "مَنْ كُنْتَ وَلِيَّهُ ، فَعَلِيٌّ وَلِيُّهُ" مسند احمد، ج5، ص 350۔ لفظ (ولی) کہہ کر کیا انھوں نے حضرت علی علیہ السلام کی ولايت کی طرف اشارہ نہیں کیا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جملے اور خلیفہ ثانی کے قول میں کیا فرق ہے "فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم قَالَ أَبُو بَكْر أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ." صحيح مسلم ج 5 ص 152، ح 4468، كتاب الجهاد باب حكم الفئ.
6- اگر غدیر خم جیسا معاملہ خلیفہ اول کے ساتھ پیش آتا تو آپ اس کے بارے میں کیا کہتے؟
مومن کی محبت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا یہ درست ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعہ غدیر کی سطح پر صرف حضرت علی علیہ السلام کی دوستی کو ثابت کرنے کے لیے بیان کرنے کی کوشش کی؟
اگر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول حضرت علی کی دوستی کا ثبوت تھا تو آپ نے (محبت) کا لفظ کیوں نہیں استعمال کیا اورکیوں نہیں فرمایا: "من كان يُحِبُّني فَلْيُحِبَّ عَلِيّاً" جو مجھ سے محبت کرتا ہے؛ علی سے محبت کرے۔
حدیث غدیر و امامت و خلافت حضرت علی علیہ السلام
کیا سنی علماء نے غدیر کی حدیث کی سند کی گواہی دی ہے؟
1- سنّی علماء میں سے ایک ترمذی کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم میں فرمایا: "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے۔ یہ روایت حسن اور صحیح ہے: "هذا حديث حسن صحيح" صحيح سنن الترمذي للألباني: ج5 ص633
البانی، جو وہابی علماء میں سے ایک ہیں، نے بھی کہا: اس روایت کا سلسلہ صحیح ہے اور اس میں بخاری و مسلم کی صحیح روایات ہیں: "وإسناده صحيح علي شرط الشيخين"۔ سلسلة الأحاديث الصحيحة: ج4 ص331.
2- ابن کثیر کی روایت کے مطابق جناب ذہبی جو سنی علماء میں سے ایک ہیں، نے کہا: یہ روایت صحیح ہے: "هذا حديث صحيح" البداية والنهاية ، ج 5 ص 228.
3- سنی علماء میں سے ایک ضیاء الدین مقبلی نے کہا: اگر حدیث غدیر صحیح نہیں تو دین اسلام میں ہمارے پاس کوئی چیز مستند نہیں ہوگی۔ " إن لم يكن معلوما فما في الدين معلوم." الأبحاث المسدّدة ص122.
4 - ابن كثير دمشقي کی روایت کے مطابق جناب ذہبی نے کہا: "الحديث متواتر، أتيّقن أنّ رسول اللّه قاله"۔
حدیث غدیر متواتر ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ حدیث حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے۔ البداية والنهاية ، ج 5 ص 233.
ابن تیمیہ نے کہا: جو شخص تواتر یا اجماع سے ثابت شدہ حدیث کا انکار کرے وہ کافر ہے: "وأما من أنكر ما ثبت بالتواتر والإجماع فهو كافر." مجموع الفتاوي ج 1 ص 109، نشر : مكتبة ابن تيمية
حدیث غدیر حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور خلافت پر کیسے دلالت کرتی ہے؟
1 - علی علیہ السلام کی حکومت خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لی گئی ہے
احمد ابن حنبل کی روایت کے مطابق علی علیہ السلام کی بیعت کے بعد غدیر میں موجود متعدد صحابہ نے گواہی دی اور پيامبر گرامي نے علی علیہ السلام کی ولايت اور خلافت کی جايگاه بیان کرنے سے پہلے، لوگوں سے پوچھا: أَلَيْسَ الله أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِينَ؟ کیا خدا کو تمام مومنین پر مکمل سرپرستی حاصل نہیں ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں! پھر فرمایا: اَلّلهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلاَهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ اَلّلهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاَهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ؛ خدا گواہ رہنا! میں جس کا مولا ہوں۔ علی اس کا مولا ہے۔ اے اللہ جو علی سے محبت کرے اس سے محبت کر اور جو علی سے دشمنی کرے اس سے دشمنی کر۔ مسند أحمد بن حنبل ج 1 ص 118.
البانی جو کہ وہابی علماء میں سے ہیں، کہتے ہیں: یہ روایت صحیح: "حديث صحيح" السلسلة الصحيحة ، ج 4 ، ص 249
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرمان کے ساتھ اعلان فرمایا: علی علیہ السلام کا ولايت میرے ولايت کی طرح خدا کے ولايت سے ماخوذ ہے۔
2- ولايت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ولايت کے مشابہ ہے
ابن كثير دمشقي سلفي کہتے ہیں: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم میں موجود لوگوں سے خطاب فرمایا: اَلَسْتُمْ تَعْلَمُون اَنّي أولَي بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ ؟ کیا تم نہیں جانتے کہ مومنوں پر میری ولایت خود ان سے زیادہ ہے؟
سب نے جواب دیا: ہاں! پھر فرمایا: جس کا میں مولا ہوں، علی بھی اس کے مولا ہیں۔
ابن کثیر نے کہا: یہ روایت صحیح اور معتبر ہے، اور اس کے راوی ثقہ ہیں: "إسناد جيد رجاله ثقات"۔ البداية والنهاية ج 5 ص 231
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تقریر سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 6 کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ {النَّبِيُّ أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ} يعني: نبی کی ولایت مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ مضبوط ہے۔
دو عظیم سنی علماء زمخشری اور آلوسی نے اس آیت کی تفسیر میں کہا: پیغمبر اکرم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولایت تمام دینی اور دنیاوی معاملات میں مومنوں پر ثابت ہے: ’’النَّبِيُّ أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِينَ فِي كُلِّ شَيْءٍ مِنْ اُمُورِ الدِّينِ وَالدُّنْيَا‘‘ تفسير كشاف ج 3 ص 251، تفسير آلوسي ، ج 21 ص 151.
حدیث غدیر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریر اس آیت کی طرف اشارہ کرتی ہے، یعنی: تمام مومنین کے مقابلے میں خدا نے میرے لیے مکمل ولایت رکھی ہے۔
یہ علی علیہ السلام کے لیے اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ معین ہے اور یہ علی علیہ السلام کی ولايت اور امامت کی دلیل ہے۔ جیسا کہ سنی علماء میں سے سبط ابن جوزی نے کہا: "وهذا نص صريح في إثبات إمامته وقبول طاعته" اور یہ واضح عبارت امامت اور علی علیہ السلام کی اطاعت کو تسلیم کرنے کو ثابت کرتی ہے۔ تذكرة الخواص، ص 38.
3- مختلف عبارتوں میں حدیث غدیر
جس کا میں ولي امر ہوں؛ علی اس کے ولی ہیں {من كنت وليه فعلي وليه} بَزّار، جو ایک عظیم سنی علماء میں سے ہے سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے فرمایا: کیا میری ولایت مومنین پر ان کی ذات سے زیادہ نہیں ہے؟ اور جس کے امور کا میں حافظ ہوں، علی اس کے امور کا حافظ ہے: "أَلَسْتُ أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ من كُنْتُ وَلِيَّهُ فَاِنَّ عَلِيّاً وَلِيُّهُ" مسند البزار ، ج 4 ص41.
ہیثمی نے کہا: اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں: "ورجاله ثقات"۔ مجمع الزوائد ، ج 9 ص107.
جس پر میری مکمل ولایت ہے، علی اس کے ولی ہیں۔
طبرانی نے زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں فرمایا: جس پر میری مکمل ولایت ہے، علی علیہ السلام اس کے ولی ہیں۔ "مَنْ كُنْتُ اَوْلَي بِهِ مِنْ نَفْسِهِ فَعَلِيٌّ وَلِيُّهُ؟" المعجم الکبیر، ج5، ص166۔
جس کا خدا اور اس کا رسول مولا ہے، علی اس کا مولا ہے۔
ابن حجر کی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر میں علی کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: "اَ لَسْتُمْ تَشْهَدُونَ أَنَّ اللَه ـ عز وجل ـ وَرَسُولَهُ اَوْلَي بِكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ" کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ خدا اور اس کے رسول کی ولایت تم پر مقدم ہے؟ سب نے جواب دیا: ہاں! پھر فرمایا: جس پر خدا اور اس کے رسول کی ولایت ہو۔ علی کی بھی ان پر ولایت ہے: ’’فَمَنْ كَانَ اللهُ وَرَسُولُهُ مَوْلاهُ فَاِنَّ هَذا مَوْلاهُ‘‘
پھر فرمایا: میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑی ہیں، اگر تم ان پر قائم رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ اول: کتاب خدا جس کا ایک رخ خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا پہلو تمہارے ہاتھ میں ہے۔ودوسری: وہ میرے اہل بيت ہے۔
آخر میں ابن حجر نے کہا: اس روایت کی سند صحیح ہے: "هذا إسناد صحيح" المطالب العالية، ج16 ص142.
4 - علی علیہ السلام کو خلیفہ دوم کی مبارکباد
خطیب بغدادی نے ایک مستند سند کے ساتھ ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر میں علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: کیا میں مومنین کا ولی نہیں ہوں؟ ان لوگوں نے جواب دیا: ہاں! اپ نے کہا: جس کا میں مولا (ولی) ہوں، علی اس کے مولا اور ولی ہیں، پھر عمر بن خطاب نے کہا:
"بَخٍّ بَخٍّ لَكَ يَا بنَ أبي طالِب، أصْبَحْتَ مَولايَ وَمَوليَ كُلِّ مُسْلِمٍ"
اے ابو طالب کے بیٹے تجھ پر درود و سلام ہو جو آج میرے مولا اور تمام مسلمانوں کے مولا بن گئے! اسی وقت آیت کریمہ {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ} نازل ہوئی یعنی آج میں نے تیرا دین مکمل کر دیا اور تم پر نعمتیں تمام کر دیں اور اسلام پر راضی ہو گیا۔ تاريخ بغداد، ج8 ص284.
احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ عمر بن خطاب نے علی علیہ السلام سے ملاقات کی اور کہا: مبارک ہو اے ابو طالب کے بیٹے جو آج تمام مومنین کا سردار ہو گیے! "هَنِيأً يَا بْنَ أبي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَولَي كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ" مسند احمد بن حنبل، ج4، ص281۔
ابن اثیر جزری نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب نے کہا: اے ابو طالب کے بیٹے آج آپ تمام مومنین کا ولی ہو گئے ہے۔
"اَصْبَحْتَ الْيَوْمَ وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِن" اسد الغابة ج 4 ص 118.
کیا علی علیہ السلام نے غدیر کی حدیث پر استدلال کیا؟
5- حضرت علی علیہ السلام کی حدیث غدیر سے ان کی امامت پر دلیل
حدیث غدیر کے سلسلے میں علی علیہ السلام نے قسم کھائی
احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں کہ علی علیہ السلام نے صحابہ کو رہبہ میں جمع کیا اور ان سے قسم کھائی کہ وہ کھڑے ہوجائیں اور غدیر خم میں جو کچھ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا اس کی گواہی دیں۔ صحابہ کی ایک بڑی تعداد نے کھڑے ہو کر گواہی دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر میں علی کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: "أَتَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ" کیا تم جانتے ہو کہ مومنوں پر میری ولایت ان سے زیادہ ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا: ہاں! پھر فرمایا: "مَنْ كُنْتُ مَوْلاَهُ فَهَذَا مَوْلاَهُ" جس کا میں مولا ہوں، علی اس کے مولا ہیں۔ مسند احمد، ج4، ص 370۔
ہیثمی نے کہا ہے: حدیث کے راوی ثقہ اور قابل اعتماد ہیں: "ورجاله رجال الصحيح"۔ مجمع الزوائد، ج 9، ص 104
البانی وہابی نے بھی کہا: اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کی صحیح بخاری کی شرط ہے: "وإسناده صحيح علي شرط البخاري"۔ سلسلة الأحاديث الصحيحة، ج4 ص331.
جمل میں حدیث غدیر کے سلسلے میں طلحہ سے علی علیہ السلام کا احتجاج
حاکم نیشابوری کی روایت میں ہے کہ علی علیہ السلام نے غزوہ جمال کے دوران طلحہ کو بلایا اور ان سے کہا: خدا کی قسم، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "مَنْ كُنْتُ مَوْلاَهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ" جس کا میں مولا ہوں، علی اس کا مولا ہے؟ طلحہ نے جواب دیا ہاں میں نے سنا! علی علیہ السلام نے فرمایا: فَلِمَ تُقَاتِلُنِي؟ تو مجھ سے لڑنے کیوں آئے؟ اس نے جواب دیا: میں بھول گیا تھا؛ پھر طلحہ جنگ ترک کر کے چلے گئے۔ مستدرک، ج 3، ص 419
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب وہ میدان جنگ سے نکل رہے تھے تو انہیں عائشہ کے لشکر سے مروان نےتیر ماری جس کے نتیجہ میں موت ہو گیا تھا۔ تاريخ اسلام ذهبي، ج 3، ص 486.
کیا سنی علماء نے علی علیہ السلام کی امامت کے بارے میں حدیث غدیر سے استدلال کیا ہے؟
6- اہل سنت علماء نے گواہی دی ہے کہ حدیث غدیر علی علیہ السلام کے امامت پر دلالت کرتی ہے
1- ابو حامد غزالی، وفات 505، خلیفہ دوم کی طرف سے علی علیہ السلام کو مبارکباد دینے کے بعد کہتے ہیں: عمر کا قول درحقیقت علی کی خلافت اور ان کی رضامندی اور قبولیت کے لیے تھا۔لیکن اس کے بعد وہ اپنی خواہشات اور پر غالب آ گیا اور صدارت کی محبت اور خلافت تک پہنچنے کے لیے اس نے اپنے عہد کو چھوڑ دیا اور اسے معمولی قیمت پر بیچ دیا: "فهذا تسليم ورضي وتحكيم، ثم بعد هذا غلب الهوي لحب الرياسة ...فنبذوه وراء ظهورهم، واشتروا به ثمنا قليلا" سرّ العالمين ، ص 21.
غزالی کی شخصيت سنی علماء نظر میں
یافعی نے کہا: امام غزالی کی فضیلتیں شمار سے باہر ہیں اور وہ بڑے فضائل کے حامل شخص تھے۔ وفضائل الإمام أبي حامد الغزالي أكثر من أن تحصر... اشتهرت كرامته العظيمة. مرآة الجنان ج 3 ص 190.
سیوطی نے کہا: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ ضرور ابوحمید غزالی ہوتا۔
لو كان بعد النبي صلي الله عليه وآله وسلم نبي لكان الغزالي التَنْبِئَةُ بِمَنْ يَبْعَثُهُ الله عَلَي رَاْسِ كُلِّ مِاَئة، ص 12.
2- سبط ابن جوزی، وفات 654، کہتے ہیں: یہ حدیث غدیر علی کی امامت کو ثابت کرنے اور ان کی اطاعت کو قبول کرنے میں واضح ثبوت ہے۔ "وهذا نص صريح في إثبات إمامته وقبول طاعته" تذكرة الخواص ص 60 ، نشر ذوي القربي - 1427.
ابن جوزی کی شخصیت سنی علماء کے نظر میں
ذہبی نے ابن جوزی کے حق میں کہا: وہ ایک امام، فقیہ اور مبلغ تھے جو منفرد تھے اور ہر ایک کو قبول تھا: وكان إماماً فقيهاً واعظاً وحيداً ... صاحب قبولٍ تامّ . تاريخ الإسلام ج 48 ص 184.
غدیر کی پائیداری کی وجہ کیا ہے؟
7 - غدیر خیم کے بارے میں دو آیات کا نزول
غدیر سے متعلق دومستقل آیات کے نزول نے واقعہ غدیر کو ابدی بنا دیا ہے:
1 - سورہ مائدہ کی آیت 67: {يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ}
اے نبی! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، اسے بطور كامل پہنچا دیجیے، اور اگر آپ ایسا نہیں کیا گوا آپ نےاپنے مشن پورا نہیں کیا۔ خدا آپ کو لوگوں کے (ممکنہ خطرات) سے محفوظ رکھے گا۔
ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ یہ آیت علی ابن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوئی۔ تفسیر ابن ابی حاتم، ج 4، ص 1172۔
آلوسی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ابن مردویہ نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ ہم اس آیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس طرح پڑھا کرتے تھے۔ (بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ إنَّ عَلِيّاً وَليُّ الْمُؤْمِنِين) جو آپ کے رب کی طرف سے آپ کی طرف وحی کی گئی ہے کہ "علی مومنین کے ولی ہیں" لوگوں تک پہنچا دیجیے، اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا گوا آپ نے رسالت کو انجام نہیں دیا۔ روح المعاني ج6 ص193
اور سیوطی اور شوکانی نے اس روایت کو "إنَّ عَلِيّاً مَولَي الْمُؤْمِنِين" کے جملہ سے نقل کیا ہے۔ در المنثور ج2ص298 و فتح القدير ج 2 ص60 .
2- سورہ مائدہ کی آیت 3: {أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الاِْسْلاَمَ دِيناً}؛ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے; اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی; اور میں نے اسلام کو تمہارے (ابدی) دین کے طور پر قبول کیا۔
خطیب البغدادی نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے: غدیر خم کے دن جب رسول اللہ نے علی بن ابی طالب کا ہاتھ پکڑا،
پھر فرمایا: اَلَسْتُ وَليَّ الْمُؤْمِنين؟ کیا میں مومنوں کا ولی نہیں ہوں؟ ان لوگوں نے کہا: ہاں یا رسول اللہ! فرمایا: "مَنْ كُنْتَ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" جس کا میں مولا ہوں، علی اس کے مولا ہیں۔ پھر عمر بن الخطاب نے علی علیہ السلام سے کہا: مبارک ہو، پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ تاريخ بغداد ج 8 ص 284.
کیا غدیر کی حدیث یمنی فوج کی شکایت سے متاثر تھی؟
8 - یمنی فوج کی شکایت سے علی علیہ السلام کی ولايت ثابت ہوتی ہے
بعض نادان یا جاہل لوگ کہتے ہیں: یمن میں داخل ہونے کے بعد حضرت علی نے مال غنیمت تقسیم کیا اور اپنے لیے ایک خوبصورت عورت لے لی؛ ان کا یہ کام اور بعض دیگر وجوہات یمن کی طرف بھیجے جانے والے سپاہیوں کی شکایات کا سبب بنی اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی سے دوستی کے اعلان کے دوران غدیر خم میں حضرت علی کورکنے کا حکم دیا اور احتجاج کرنے والے سپاہیوں کو دشمنی اور مخالفت سے خبردار کیا۔ رجوع شود به سايت سني نيوز 28/9/1387
اس سوال کا جواب بے بنیاد ہے۔
1- یمنی فوج کی شکایت 8 ہجری میں تھی نہ کہ 10 ویں سال
مکہ مکرمہ کے مفتی زینی دحلان کے مطابق علی علیہ السلام کا یہ سفر آٹھویں ہجری میں ہوا: "وأما بعثه إلي همدان فكان سنة ثمان بعد فتح مكة" السيرة النبوية ، ج2 ص371
2- شکایت مدینہ میں ہوئی تھی، غدیر خم میں نہیں۔
طبرانی کے مطابق یمنی فوج کی شکایت مدینہ میں کی گئی: بُريده جو کہ یمنی فوج کی شکایت کا علمبردار تھا، کہتا ہے: میں مدینہ میں داخل ہوا، مسجد نبوی میں گیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تھے۔ "فقدمت المدينة، ودخلت المسجد ورسول الله (ص) في منـزله" المعجم الأوسط ، ج 6 ص 162.
3- علی علیہ السلام کے خلاف صحابہ کی سازش اور پیغمبر کی ناراضگی؛ انصاف سے ٹکراؤ
کچھ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے انہوں نے مجھ سے کہا: اے بریدہ، یمن سے کیا خبر ہے؟ میں نے کہا کہ فتح مسلمانوں کو ملی اور علی نے مال غنیمت میں سے ایک كنيز لے لی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرنے آیا ہوں۔
صحابہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دو کہ اس سے علی نبی کی نظروں سے گر جائیں گے۔ "قَالُوا فَأَخْبِرْهُ فَإِنَّهُ يَسْقُطُهُ مِنْ عَيْنِ رَسُولِ اللَّهِ يَسْمَعُ " المعجم الأوسط ، ج 6 ص 162.
یہ وہ وقت تھا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کے چہرے پر غصہ معلوم ہوا اور آپ کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں تھے اور فرمایا: بعض لوگ علی علیہ السلام کو برا کیوں کہتے ہیں؟ جس نے علی کو برا کہا اس نے مجھے برا کہا اور جس نے علی سے جدائی کی اس نے مجھ سے علیحدگی کی؛ علی مجھ سے ہے، اور میں علی سے ہوں: "مَنْ تَنَقَّصَ عَلِيّاً فَقَدْ تَنَقَّصَنِي وَ مَنْ فَارَقَ عَلِيّاً فَقَدْ فَارَقَنِي إِنَّ عَلِيّاً مِنِّي وَ أَنَا مِنْه" المعجم الأوسط ، ج 6 ص 162.
4- علی علیہ السلام کی ولايت اور امامت کو ثابت کرنا نہ کہ دوستی اور صلح
حضرت بریدہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: غنیمت میں سے علی کا حصہ كنيز سے بہت زیادہ ہے، علی ولي امر ہے میرے بعد ہے۔ "وَأنَّهُ وَلِّيُكُمْ مِنْ بَعْدِي!" المعجم الاوسط، ج6، ص162۔
احمد ابن حنبل کے مطابق آپ نے فرمایا: جس کے امور کا میں حافظ ہوں، علی بھی اس کے امور کا حافظ ہے۔ "مَنْ كُنْتَ وَلِيَّهُ ، فَعَلِيٌّ وَلِيُّهُ" مسند احمد بن حنبل، ج5، ص 350۔
بخاری کے نظریہ کے مطابق مولی کا مطلب اول ہے۔
کیا لفظ "مولی" کا مطلب ولايت نہیں ہے؟
9 - قرآن میں "مولي" کا لفظ علی علیہ السلام کی امامت پر غدیر کی حدیث کے دلالت کی گواہی ہے۔
بخاری اپنی صحیح میں سورہ حدید کی آیت نمبر 15 میں لکھتے ہیں: "مولی" کا مطلب ہے اولويت اور ولایت: {مَأْوَاكُمْ النارُ هِيَ مَوْلاَكُمْ}: "مَوْلاَكُمْ) أَوْلَي بِكُمْ" صحيح البخاري، ج6 ص57 ح 4881 كتاب التفسير، ب 57، سورة الْحَدِيدُ
زمخشری اور آلوسی سورہ تحریم کی آیت نمبر 2 {وَاللهُ مَوْلَاكُمْ} کی تفسیر میں لکھتے ہیں خدا تمہارا مولا اور تمہارے امور کا حافظ ہے: {وَاللهُ مَوْلَاكُمْ} سيدكم ومتولي أموركم ' ' الكشاف، ج4 ص363، ج4 ص569 ؛ روح المعاني، ج28 ص149.