موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
کیا وہابی منجی کو مانتے ہیں؟
مندرجات: 2298 تاریخ اشاعت: 19 شهريور 2024 - 12:29 مشاہدات: 60
سوال و جواب » متفرق
جدید
کیا وہابی منجی کو مانتے ہیں؟

 

کیا وہابی منجی کو مانتے ہیں؟

سائل: محمد رضا بنان خورشید

جواب:

وہابیوں کے نقطہ نظرمهدويت کے سلسلے میں، میں آپ کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ۹۹% وہابی اور سنی مهدويت  کے سلسلے میں متفق ہیں اور ۵۰-۶۰% شیعہوں کے ہم عقيده ہیں۔ یعنی ان کا عقیدہ ہے کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مہدی علیہ السلام کے وجود کی بشارت دی ہے کہ وہ تشریف لا کر دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے؛ جب ظلم و جورسے بھری  ہوگی۔

اس سلسلے میں ہمارا سنیوں سے اتنا اختلاف نہیں ہے حتیٰ کہ وہابیوں سے بھی۔ البتہ اگر موقع ملا تو ہم مہدویت کی خصوصیات پر بحث کریں گے۔

ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ جو کہ ایک عظیم وہابی نظریہ دان ہے، جب صحیح سند حتیٰ کہ صحیح بخاری و مسلم میں بھی حضرت مہدی کے بارے میں متعدد روایات کا سامنا کرتے ہیں تو صاف صاف کہتے ہیں:

إن الأحاديث التي يحتج بها علي خروج المهدي أحاديث صحيحة، رواها أبو داود والترمذي وأحمد وغيرهم من حديث ابن مسعود وغيره .

جن احادیث کے بارے میں ہم احتجاج کر سکتے ہیں، وہ احادیث جو حضرت مہدی کے ظہور کے بارے میں ہیں، یہ احادیث صحیح ہیں۔ ابوداؤد، ترمذی اور احمد نے ان روایات کو نقل کیا ہے۔ منهاج السنة النبوية ، ج ۴ ، ص ۲۱۱

خود جناب ابن قیم جو ابن تیمیہ کے شاگرد اور ان کے افکار کے ناشرہیں اس مسئلہ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ حضرت مہدی سے متعلق احادیث حسن اور صحیح ہیں۔ اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم جناب بن باز کا ایک نہایت خوبصورت جملہ ہے:

أمر المهدي معلوم ، والأحاديث فيه مستفيضة، بل متواترة وقد حكي غير واحد من أهل العلم تواترها .

 وهي متواترة تواترا معنويا ، لكثرة طرقها ، واختلاف مخارجها ، وصحابتها ، ورواتها ، وألفاظها ، فهي - بحق - تدل علي أن هذا الشخص الموعود به أمره ثابت وخروجه حق .

وقد رأينا أهل العلم أثبتوا أشياء كثيرة بأقل من ذلك . والحق أن جمهور أهل العلم ، بل هو الاتفاق :

علي ثبوت أمر المهدي، وأنه حق ، وأنه سيخرج في آخر الزمان . وأما من شذّ من أهل العلم - في هذا الباب - فلا يلتفت إلي كلامه في ذلك .

حضرت مہدی علیہ السلام کا مسئلہ واضح ہے اور اس کے متعلق احادیث بکثرت ہیں۔ بلکہ متواتر ہے اور علماء کی کثیر تعداد نے حضرت مہدی علیہ السلام کی احادیث کو متواتر قرار دیا ہے۔

اور اس کے تواتر تواتر معنوي ہے متعدد طریقوں کی وجہ سے، اور لفظ احادیث اور راویوں اور الفاظ کے اختلاف بجا طور پر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس موعود کا ایک معین معاملہ ہے اور اس کا خروج کرنا درست ہے۔

اور ہم نے دیکھا ہے کہ علماء نے بہت سے مسائل کو اس سے کم روایات سے ثابت کیا ہے۔ اورقول حق علماء کی طرف سے ہے لیکن علماء کا اجماع مسئلہ مہدویت کو ثابت کرنا ہے اور یہی حق ہے اور حق پر ہے کہ وہ آخری زمانے میں ظہور کریں گے۔ لیکن چند اہل علم  حضرات نے اس سلسلے میں گفتگو کرنے سے گریز کیا ہے۔

جامعہ اسلامیہ المدینہ المنورۃ کا جریدہ، شمارہ ۳، سال ۱۳۸۸، عبدالمحسن العباد کے لیکچر کے تحت۔

نیز جناب نصیر الدین البانی، جنہیں بخاری دوراں کہا جاتا ہے، کا بھی ایسا ہی جملہ ہے۔

التمدن الاسلامی الدمشقیہ میگزین، نمبر ۲۷ اور ۲۸، سال ۲۲، ص ۶۴۲۔

 

رابطة العالم اسلامي، جو دراصل وہابیت کا ثقافتی مرکز ہے، نے مئی ۱۹۷۶ میں باضابطہ طور پر اعلان کیا:

فإنّ الاعتقاد بظهور المهدي يعتبر واجباً علي كل مسلم وهو جز من عقائد أهل السنة والجماعة ولا ينكر ذلك إلاّ كلّ جاهل أو مبتدع .

حضرت مہدی کے ظہور پر ایمان لانا تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ یہ عقیدہ اہل السنت والجماعت کے عقائد کا حصہ ہے اور اس عقیدہ کا انکار سوائے جاہلیت اور بدعت کے کچھ نہیں ہو سکتا۔

وہابیوں کے ساتھ ہمارا مسئلہ حضرت ولی عصر (ارواحنا لا الفداء) کے وجود ان کی ولادت، اور کیا حضرت مہدی علیہ السلام امام عسکری علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور آیا وہ ۲۵۵ ہجری میں پیدا ہوئے یا نہیں، اس سلسلے میں وہابیوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ لوگ شیعوں کے اس عقیدے کے خلاف  ہیں۔

 بہت سے سنی علماء نے اپنی کتابوں میں صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی ولادت ۲۵۵ یا سن ۵۸ میں نرجس خاتون اور امام عسکری کے یہاں ہوئی۔

۱۲۰ سنی علماء کے اعداد و شمار جمع کیے گئے ہیں، جن میں سے سبھی لوگوں نے حضرت ولی عصر (ارواحنا لہ الفدا) کی ولادت پر متفق ہیں۔

سنہ ۲۵۵ ہجری میں حضرت مہدی کی ولادت کے بارے میں عظیم اہل سنت علماء کی آراء

ان سنی شخصیات کے بارے میں جنہوں نے حضرت مہدی کی پیدائش کے بارے میں بات کی، میں صرف علماي انساب کی چند مثالیں پیش کروں گا جو سب سے پہلے بات کرنے والے ہیں اور پھر کچھ دوسرے ممتاز شخصیات کی بات کریں گے۔

جناب ابو نصر سہل بن عبداللہ نے کتاب السلسلۃ العلویہ میں چوتھی صدی کے اعلان سے واضح کیا ہے کہ حضرت مہدی کی ولادت امام عسکری کے بیٹے کے طور پر ہوئی تھی اور وہ قائم اور حجت مانے جاتے ہیں۔ سر السلسلة العلويه ص ۳۹

پھر فرماتے ہیں: ان کے نسب کے بارے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ لیکن بعض سیاسی مسائل کی وجہ سے ان کے بھائی جعفر نے آکر امام عسکری کی وراثت کا دعویٰ کیا تھا۔

جناب فخر رازی، اہل سنت کی ممتاز شخصیات میں سے ایک، تفسیر کبیر کے مصنف، متوفا ۶۰۶ ہجری ، فرماتے ہیں:

فله ابنان وبنتان . اما الإبنان فأحدهما صاحب الزمان والثاني موسي درجه في حيات أبيه .

امام عسکری علیہ السلام کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔

 ان کے بچوں میں سے ایک صاحب الزمان تھے اور دوسرے موسیٰ تھے جو اپنے والد کی زندگی میں انتقال کر گئے تھے۔ الشجرة المباركة في انساب الطالبية ، ص۷۸

جناب محمد امین، جو عربی نسب اور قبائل کے علم میں سنیوں کی ممتاز شخصیات میں سے ایک ہیں، فرماتے ہیں:

محمد المهدي وكان عمره عند وفات أبيه ، خمس سنين .

حضرت مہدی کی عمر پانچ سال تھی جب ان کے والد کا انتقال ہوا۔  في معرفة قبائل العرب ، ص۳۶۴

جناب عمری نے کتاب المجزی فی انساب الطالبین ص ۱۳۰ اور ابن عنبہ، عمدة الطالب في أنساب آل أبي طالب، ص ۱۹۹ میں یہ  تعبير بیان کی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جناب ابن اثیر جزری صاحب الکامل فی التاریخ جلد ۷ صفحہ ۲۷۴ میں  واضح طور پر بیان کیا ہے کہ امام زمانہ کی ولادت ۲۵۵ ہجری میں ہوئی اور امام عسکری کی  وفات کے وقت وہ زندہ تھے۔

جناب ابن خلکان کہتے ہیں:

كانت ولادته يوم الجمعة منتصف شعبان سنة خمس وخمسين ومأتين .

حضرت مہدی کی ولادت جمعہ کے دن نيمه شعبان سنہ ۲۵۵ ہجری میں ہوئی۔  وفيات الأعيان، ج4، ص۱۷۶

جناب ذہبی نے اپنی متعدد کتابوں میں اس بارے میں بات کی ہے۔

 تاریخ اسلام میں فرماتے ہیں:

وأما ابنه محمد بن الحسن الذي يدعوه الرافضة القائم الخلف الحجة ، فولد سنة ثمان وخمسين وقيل سنة ستة وخمسين . تاريخ اسلام ، در وفيات ۲۵۱ تا ۲۶۰

سير اعلام النبلاء، جلد ۱۳، ص ۱۱۹ ۔ شبيه اين عبارت در كتاب العبر في خبر من غبر ، ج۵، ص۳۷ میں بھی اس کی یہی تشریح ہے.

امام عسکری کے بیٹے حضرت مہدی ۲۵۸ یا ۲۵۶ میں پیدا ہوئے۔

جناب زرکلی وہابی، جنھوں نے درحقیقت اپنی کتاب "الأعلامش" میں وہابی روایت کو زندہ کیا، جو ہمارے عصری وہابیوں میں سے بھی ہیں، کہتے ہیں:

ولد في سامرا ومات ابوه وله من العمر خمس سنين . و قيل في تاريخ مولده ليلة نصف شعبان سنة خمس و خمسين و مأتين

حضرت مہدی سامرہ میں پیدا ہوئے۔ جب ان کی عمر پانچ سال سے زیادہ نہیں تھی تو انہوں نے اپنے والد سے محروم ہو گءے۔ کہتے ہیں کہ آپ کی ولادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ ہجری میں ہوئی۔ الأعلام - خير الدين الزركلي - ج ۶ ص ۸۰

مزید معلومات کے لیے حضرت ولی عصر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ ملاحظہ کریں، سلام ٹی وی نیٹ ورک بخش مہدویت  ۱، ۲، ۳ پر بحث کی گئی ہے۔

 

شک و شبھات کا جواب دینے والا گروپ

 

حضرت ولی عصر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: