موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
معاویہ کا اعتراف جرم وہ خود کو ہی باغی سمجھتا تھا۔۔
مندرجات: 2279 تاریخ اشاعت: 10 فروردين 2023 - 19:40 مشاہدات: 2150
وھابی فتنہ » پبلک
معاویہ سے بغاوت نہ کرئے وہ خود کو ہی باغی سمجھتا تھا۔۔۔ معاویہ سے باغی بغاوت نہ کرئے وہ خود کو ہی باغی سمجھتا تھا
معاویہ کا اعتراف جرم وہ خود کو ہی باغی سمجھتا تھا۔۔

 

معاویہ  سے  باغی  بغاوت نہ کرئے  وہ خود کو ہی باغی سمجھتا تھا۔۔۔

معاویہ خود کو ہی باغی سمجھتا تھا ۔۔ معاویہ کسی خارجی  ۔۔۔۔ کو جناب عمار یاسر کا قاتل نہیں سمجھتا۔ معاویہ بن ابی سفیان  خود ہی اپنے آپ کو اور اپنے لشکر کو جناب عمار کا قاتل کہتا ہے ۔لہذا معاویہ سے زیادہ  آگے قدم نہ اٹھانا  اور معاویہ سے بغاوت نہ کرنا۔

شاید آپ کہے وہ کیسے ؟

جواب : دیکھیں اہل سنت کی حدیثی اور تاریخی کتابوں میں ہے : جب جناب عمار شہید ہوئے تو معاویہ کے لشکر میں شور ہوا اور بعض کو اپنے جہنمی ہونے کا یقین ہونے لگا کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے مطابق جناب عمار یاسر کا قاتل باغی گروہ اور باغی لوگ ہوں گے ۔لہذا اس وقت معاویہ نے ٹوک کر کہا : { أَوَنَحْنُ قَتَلْنَاهُ؟ إِنَّمَا قَتَلَهُ عَلِىٌّ وَأَصْحَابُهُ، جَاءُوا بِهِ حَتَّى أَلْقَوْهُ بَيْنَ رِمَاحِنَا، أَوْ قَالَ: بَيْنَ سُيُوفِنَا۔۔۔( ۱)

بعض روایتوں میں ہےأنحن قتلناه إنما قتله الذين جاؤوا  به ۔۔۔ إنما قتَلَهُ من جاءَ به۔۔۔۔۔۔(۲)

یعنی عمار کا قاتل علی اور ان کے اصحاب ہیں کیونکہ انہوں نے جناب عمار کو میدان میں لایا اور ہماری تلواروں اور نیزوں کے آگے ڈال دیا۔ اور ہماری تلواروں اور نیزوں سے وہ شہید ہوئے ۔

ایک شبھہ  : جناب یہ تو الٹا  ہوا؛ یہاں تو معاویہ اپنے کو قاتل نہیں کہہ رہا بلکہ امیر المومنین علی علیہ السلام اور ان کے اصحاب کو قاتل کہہ رہا ہے ۔

معاویہ کی دلیل  :

 کیونکہ جناب عمار یاسرکو جنگ میں لے آنے والے ہی ان کے قاتل ہیں۔ انہوں نے ان کو ہماری تلوارں اور نیزوں کے سامنے لایا اور اگر ان کو میدان میں نہ لاتے اور ہماری تلواروں اور نیزوں کے آگے نہ ڈالتے تو ہماری فوج،تلواروں اور نیزوں سے  انہیں شہید نہ کرتی ۔

جواب :۔  عقلمند کے لئے اسی میں غور کرنے سے جواب مل جائے گا ۔۔۔  وضاحت  

  معاویہ  نے یہ تو اقرار کر دیا کہ ان کو ہماری فوج نے  ہماری تلواروں اور نیزوں سے  شہید کردیا ۔۔۔ ہماری تلوار ہمارے نیزے کہنے کا مطلب یہی ہے ۔کیونکہ ان کی تلواروں اور نیزوں سے انکے ہی گروہ اور لشکر والے  ہی مسلح تھے ۔

لہذا یہ تو ہوگیا اقرار ۔۔۔

لیکن  دلیل باطل  :  یعنی ان کو لے کر آنے والوں کا ان کاقاتل ہونا۔۔اب یہ ایسی دلیل ہے جس کو کوئی بھی قبول نہیں کرتا یہاں تک کہ  ایک جاہل اور متعصب انسان بھی اس دلیل کو اور معاویہ کے اجتھاد کو صحیح نہیں سمجھتا ۔۔

اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ جب معاویہ نے یہ دلیل پیش کی تو اس وقت مولا علی علیہ السلام اور ابن عباس نے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے فرمایا  : اس دلیل کے مطابق  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  جناب حمزہ ( اور شہداء  بدر اور احد )کے قاتل ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہیں میدان میں لے کر گئے تھے ۔۔۔(۳)

اور آگر آپ پھر بھی یہ کہے : نہیں معاویہ کی بات صحیح ہے۔ تو پھر آپ کو معاویہ کی اتباع میں  یہ بھی ماننا ہوگا کہ باغی گروہ سے مراد مولا علی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اصحاب ہیں جیسے ابن عباس ، امام حسن و امام حسین  علیہم السلام  اور دوسرے بڑے بڑے اصحاب اور تابعین جو اس جنگ میں  امیر المومنین علیہ السلام کی حمایت میں معاویہ  کو باغی کہہ کر معاویہ کے خلاف تلوار نیام سے نکالے کھڑے تھے ۔۔۔

نیم ناصبی حضرات کا  خاک آلود خیال باطل  :

یہاں سے ایک اور نکتہ بھی واضح ہوا کہ بعض لوگ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ جناب عمار کا قاتل معاویہ کے لشکر والے نہ تھے بلکہ خارجی یا سبائی  و و و  ان کے قاتل تھے ۔۔

کیونکہ ایک تو یہ باتیں معاویہ کے اقرار کے خلاف ہے ۔ اور یہ اہل سنت کی کتابوں اور اہل سنت کے علماء کی تصریحات کے خلاف بھی ہے کیونکہ بہت سے منابع اور کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ جس بندے نے جناب عمار پر حملہ کیا وہ معاویہ کے لشکر  میں شامل ایک صحابی تھا ۔(۴)۔ اب معاملہ زیادہ خراب۔۔۔

ایک  عینی شاہد کی ایک اور گواہی :

معاویہ کے لشکر میں ہی موجود  ایک اور صحابی( عمرو بن العاص )  اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہا ہے کہ ہم نے ہی  عمار یاسر کو قتل کیا ہے (۵)

جیساکہ اہل سنت کے ہی بزر گ علماء کا نظریہ بھی یہی ہے (۶)

لہذا  آپ کی مرضی ۔۔۔ ہم تو موالا علی  علیہ السلام  اور ان کے حامی اصحاب کو ہی حق پر سمجھتے ہیں اور معاویہ کو باغی اور جناب عمار یاسر کا قاتل سمجھتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان کے آگے سرتسلیم خم  ہیں۔۔۔( کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا: عمار تمہیں باغی گروہ قتل کرئے گا تم انہیں جنت کی طرف دعوت دے رہے ہوں گے اور وہ تمہیں جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے ۔)

سب کو معلوم ہے جناب عمار یاسر خود ہی میدان کارازار میں  اترے تھے اور معاویہ کے لشکر کو دعوت حق دے رہے تھے وہ معاویہ سے جنگ کو اپنا وظیفہ سمجھتے تھے اور اس کو ایسی ذمہ داری سمجھتے تھے جو خود نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی گردن پر ڈالی ہے۔۔۔

دیکھیں :   اصحاب کہتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں معاویہ وغیرہ سے جنگ کا حکم دیا  دتھاwww.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php

جنگ صفین میں شہید ہونے والے اصحاب کے نام www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php

آپ بھی ایسا  وکیل تو نہ بنے کہ جو اپنے  موکل کے بیان کے خلاف  کوئی اور بات کردئے ۔۔لہذا وکیل بننا ہے تو منصف وکیل بنے ۔ اصحاب کا نام لینا اور صحابہ کادفاع کرنا ہے تو حق کو نہ  چھپائے   اور اصحاب کو  بیوقف نہ کہے ۔۔۔

 

منابع اور اسناد :

(۱أَنَحْنُ قَتَلْنَاهُ؟! وَإِنَّمَا قَتَلَهُ عَلِيٌّ وَأَصْحَابُهُ، جَاؤُوا بِهِ حَتَّى أَلْقَوْهُ بَيْنَ رِمَاحِنَا -أَوْ قَالَ: بَيْنَ سُيُوْفِنَا-

مسند أحمد (36/ 179): السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي (8/ 189 دلائل النبوة للبيهقي محققا (2/ 551     ): المعجم الكبير للطبراني جـ 13، 14 (ص: 464  

«صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِهَذِهِ السِّيَاقَةِ»

[التعليق - من تلخيص الذهبي]…. على شرط البخاري ومسلم …..المستدرك على الصحيحين للحاكم (3/ 436

قال حسين سليم أسد : إسناده صحيح …  مسند أبي يعلى (13/ 94):

 رواه أحمد وأبو يعلى والطبراني ورجال أحمد رجال الصحيح غير محمد بن عمرو وهو ثقة

غاية المقصد فى زوائد المسند (2/ 2275):

سير أعلام النبلاء ] (1/ 371): مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (7/ تاريخ مدينة دمشق (43/ 431): و اللہ قتلناہ

{۲} أنحن قتلناه إنما قتله الذين جاؤوا به ..

المعجم الكبير (19/ 330):    تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح…. مسند أحمد بن حنبل (2/ 161):

غاية المقصد فى زوائد المسند (2/ 2276):  المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية (4/ 424):

{۳} ابن قيم الجوزية ۔۔۔۔۔لفئة الباغية" فقالوا نحن لم نقتله إنما قتله من جاء به حتى أوقعه بين رماحنا فهذا هو التأويل الباطل المخالف لحقيقة اللفظ وظاهره فإن الذي قتله هو الذي باشر قتله لا من استنصر به ولهذا رد عليهم من هو أولى بالحق والحقيقة منهم فقالوا فيكون رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه هم الذين قتلوا حمزة والشهداء معه لأنهم أتوا بهم حتى أوقعوهم تحت سيوف المشركين.۔

ابن قيم الجوزية (المتوفى: 751هـ) : الصواعق المرسلة في الرد على الجهمية والمعطلة ص 185):۔ المحقق: علي بن محمد الدخيل الله۔۔الناشر: دار العاصمة، الرياض، المملكة العربية السعودية ۔الطبعة: الأولى، 1408هـ

(۴)   أبو الغاديه  (السابقون الأولون): اسلامی تاریخی میں شروع کے مسلمانوں میں سے  بعض ایسے چہرے  بھی ہیں کہ جن کا شمار  (السابقون الأولون) میں سےہوتا ہے لیکن اہل تشیع اور اہل سنت کا اس بات پر اتفاق نظر ہے، کہ ان میں سے بعض اللہ کے غیض و غضب کا مستحق ہیں اور ان  کا ٹھکانہ جہنم ہے ،انہیں میں سے ایک جناب عمار یاسر کا قاتل  ابوالغاديه ہے.ابن تيميه حراني اس سلسلے میں لکھتا ہے:

كان مع معاوية بعض السابقين الأولين وإن قاتل عمار بن ياسر هو أبو الغادية وكان ممن بايع تحت الشجرة وهم السابقون الأولون ذكر ذلك ابن حزم وغيره.

معاویہ کے ساتھ بعض ایسے لوگ بھی تھے جن کا شمار" السابقون الأولون" (شروع کے مہاجرین)  میں ہوتے تھے۔انہیں میں سے ایک جناب عمار یاسر کا ابوالغاديه ہے۔ وہ ان افراد میں سے ایک ہے جنہوں نے درخت کے نیچے پیغمبر کی بیعت کی ۔جیساکہ اسی مطلب کو ابن حزم وغیرہ نے بیان کیا ہے.

الحراني، أحمد بن عبد الحليم بن تيمية أبو العباس (متوفاي728هـ)، منهاج السنة النبوية، ج6، ص333، تحقيق د. محمد رشاد سالم، ناشر: مؤسسة قرطبة، الطبعة: الأولي، 1406هـ.

 عجیب بات یہ ہے جناب عمار یاسر کا قاتل ، ابوالغاديه نے ہی نقل کیا ہے کہ جناب عمار کا قاتل جنہم میں ہوگا۔

ذهبي نے ميزان الإعتدال میں لکھا ہے :

عن أبي الغادية سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول: قاتل عمار في النار وهذا شيء عجيب فإن عمارا قتله أبو الغادية.

  ابوغاديه سے نقل ہوا ہے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ فرماتے سنا ہے: عمار کا قاتل جہنم کی آگ میں ہوگا ۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ خود اس نے جناب عمار کو قاتل بھی کیا ہے۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج 2، ص 236، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1995م.

 

۵}۔1606 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قثنا أَبِي، قثنا أَزْهَرُ قَالَ: أنا ابْنُ عَوْنٍ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، «مَا كُنَّا نَرَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاتَ وَهُوَ يُحِبُّ رَجُلًا فَيُدْخِلُهُ اللَّهُ النَّارَ» ، فَقِيلَ لَهُ: قَدْ كَانَ يَسْتَعْمِلُكَ، فَقَالَ: «اللَّهُ أَعْلَمُ أَحُبِّي أَمْ تَأَلُّفِي وَلَكِنَّهُ كَانَ يُحِبُّ رَجُلًا» ، فَقَالُوا: مَنْ هُوَ؟ قَالَ: «عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ» ، قِيلَ لَهُ: ذَاكَ قَتِيلُكُمْ يَوْمَ صِفِّينَ، قَالَ: «قَدْ وَاللَّهِ قَتَلْنَاهُ» .

فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل (2/ 861):السنن الكبرى للنسائي (7/ 358):

أخرجه ابن سعد 3 / 1 / 188، والحاكم 3 / 392، وصححه وتعقبه الذهبي فقال: مرسل واخرجه احمد 4 / 199 من طريق عفان، عن الاسود بن شيبان، عن أبي نوفل بن أبي عقرب، عن عمرو بن العاص بنحوه، وذكره الهيثمي في " المجمع " 9 / 294، وقال: رجال أحمد رجال الصحيح. ۔۔۔

سير أعلام النبلاء (1/ 414):

اس صحابی کے بارے میں بھی کچھ معلومات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔):

عمرو بن العاص بن وائل السهمي القرشي، أبو عبد الله: فاتح مصر، وأحد عظماء العرب ودهاتهم وأولي الرأي والحزم والمكيدة فيهم. كان في الجاهلية من الأشداء على الإسلام، وأسلم في هدنة الحديبيّة. وولاه النبي صلى الله عليه وسلم إمرة جيش " ذات السلاسل " وأمده ب أبي بكر وعمر. ثم استعمله على عُمان. ثم كان من أمراء الجيوش في الجهاد بالشام في زمن عمر.

وهو الّذي افتتح قنسرين، وصالح أهل حلب ومنبج وأنطاكية. وولاه عمر فلسطين، ثم مصر فافتتحها. وعزله عثمان. ولما كانت الفتنة بين علي ومعاوية كان عمرو مع معاوية، فولاه معاوية على مصر سنة 38 هـ وأطلق له خراجها ست سنين فجمع أموالا طائلة. وتوفي بالقاهرة.

الأعلام للزركلي (5/ 79۔۔۔

(۶)  جیساکہ اہل سنت کے بڑے بڑے علماء نے اسی حدیث کی وجہ سے معاویہ اور اس کے گروہ کو باغی قرار دیا ہے ۔۔۔ اس سلسلے میں آگاہی کے لئے رجوع کریں  www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php

 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: