موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
مولا علی (ع) ہی مولود کعبہ ہیں اے بغضِ علی تُو کہاں کہاں نکلا (اہل سنت کے ایک عالم کی علمی تحریر۔۔)
مندرجات: 2216 تاریخ اشاعت: 02 ارديبهشت 2023 - 09:20 مشاہدات: 2267
مضامین و مقالات » پبلک
مولا علی (ع) ہی مولود کعبہ ہیں اے بغضِ علی تُو کہاں کہاں نکلا (اہل سنت کے ایک عالم کی علمی تحریر۔۔)

مولا علی (ع) ہی مولود کعبہ ہیں

اے بغضِ علی تُو کہاں کہاں نکلا

 (حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی کعبہ میں ولادت سے متعلقہ روایات کی حقیقت)

 

جہاں پر مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا مولودِ کعبہ ہونے کا انکار اس بنا پر کیا جاتا ہے کہ کوئی روایت ثابت نہیں، اور یہ بھی کہ کعبہ میں پیدائش کوئی فضیلت نہیں۔۔۔ اور پھر صحیح اور حسن روایت دلیل کے طور پر طلب کی جاتی ہے۔۔ اسی گھر میں کچھ ایسی کہانیاں بھی چلتی ہیں کہ کعبہ میں ولادت فقط حکیم بن حزام کی ثابت ہے۔۔۔

 

فقیر کہتا ہے: حکیم سے متعلقہ تمام مرویات میں یا متروک راوی ہیں، یا روایت منقطع ہے (یعنی ایک قول سے زیادہ کچھ بھی نہیں)۔

 

مرویات کا بیان:

 

پہلی روایت:

اس کو ارزقی (ت ٢٥٠هـ) ((أخبار مكة 1 / 174)) میں نقل کرتے ہیں:

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ فَاخِتَةَ ابْنَةَ زُهَيْرِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، - وَهِيَ أُمُّ ‌حَكِيمِ ‌بْنِ ‌حِزَامٍ - دَخَلَتِ ‌الْكَعْبَةَ وَهِيَ حَامِلٌ، فَأَدْرَكَهَا الْمَخَاضُ فِيهَا، فَوَلَدَتْ حَكِيمًا فِي ‌الْكَعْبَةِ۔۔۔

 

اور ارزقی کی سند سے ہی خطابی غریب الحدیث (2/ 557) میں نقل کرتے ہیں:

حَدَّثَنِيهُ مُحَمَّدُ بْنُ نافع أخبرنا إسحاق بن أحمد الخزاعي أخبرنا الأَزْرُقِيُّ به.

 

سند کا حال:

 

اگر بات کو شروع کرنا چاہیں تو ارزقی سے ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کی روایت کے رواۃ پر کلام کرتے ہیں:

پہلا راوی: مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: یہ محمد بن یحیی ابو غسان ہیں۔ بخاری نے ان سے حدیث لی۔ سلیمانی نے ان کی تضعیف کی، لیکن یہ تضعیف مردود ہے۔

دوسرا راوی: عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ یہ عبد العزیز بن عمران الزھری ہے۔

حافظ تھذیب میں لکھتے ہیں:

كان صاحب نسب ولم يكن من أصحاب الحديث

وقال عثمان الدارمي عن يحيى ليس بثقة إنما كان صاحب شعر  وقال الحسين بن حبان عن يحيى قد رأيته ببغداد كان يشتم الناس ويطعن في احسابهم ليس حديثه بشيء

وقال محمد بن يحيى الذهلي علي بدنة أن حدثت عنه حديثا وضعفه جدا

وقال البخاري منكر الحديث لا يكتب حديثه

وقال النسائي متروك الحديث وقال مرة لا يكتب حديثه

وقال ابن حبان يروي المناكير عن المشاهير

وقال أبو حاتم ضعيف الحديث منكر الحديث جدا قيل له يكتب حديثه قال على الاعتبار

وقال ابن أبي حاتم أمتنع أبو زرعة من قراءة حديثه وترك الرواية عنه

وقال الترمذي والدارقطني ضعيف

وقال عمر بن شبة في أخبار المدينة كان كثير الغلط في حديثه لأنه احترقت كتبه فكان يحدث من حفظه۔ ا ھ۔

ابنِ حجر نے تقریب میں ان کو متروک کہا: متروك احترقت كتبه فحدث من حفظه فاشتد غلطه ، و كان عارفا بالأنساب۔

تیسرا راوی: عبد اللہ بن ابی سلیمان صدوق ہے، لیکن اس کا والد کون ہے جس سے یہ روایت بیان کر رہا ہے؟

 

یہ تو ہے پہلی روایت کا حال۔ جو سندًا متروک واہ ہے!

 

دوسری روایت (قول):

اس کو زبیر بن بکار(ت ٢٥٦هـ) نے ((جمهرة نسب قريش وأخبارها ص353)) میں نقل کیا ہے:

وحدثني مصعب بن عثمان قال: دخلت أم ‌حكيم ‌ابن ‌حزام ‌الكعبة مع نسوة من قريش، وهي حامل بحكيم بن حزام، فضربها المخاض في ‌الكعبة، فأتيت بنطح حيث أعجلها الولاد، فولدت ‌حكيم ‌بن ‌حزام في ‌الكعبة على النطح...

اور زبیر کی کتاب سے ابنِ عساکر نے ((تاريخ دمشق 15/ 99)) میں یہ قول نقل کیا ہے:

أخبرنا أبو غالب أحمد بن الحسن وأخوه أبو عبد الله يحيى قالا أنبأنا أبو جعفر بن المسلمة أنا أبو طاهر المخلص أنبأنا أحمد بن سليمان الطوسي أنبأنا الزبير بن بكار حدثني مصعب بن عثمان قال دخلت أم ‌حكيم ‌بن ‌حزام ‌الكعبة۔۔۔ الخ

 

فقیر کہتا ہے کہ زبیر بن بکار 256 ھ میں فوت ہوئے، اور وہ مصعب بن عثمان سے نقل کر رہے ہیں، اس اعتبار سے مصعب کی پیدائش بھی پہلی صدی ہجری میں نظر نہیں آتی! اس کا زمانہ امام بخاری کے شیوخ کا زمانہ بنتا ہے۔!

لہذا یہ ایک قول سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔

 

تیسری روایت (قول):

«المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية» (3/ 550):

أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَرْبِيُّ، ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَذَكَرَ نَسَبَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَزَادَ فِيهِ، «وَأُمُّهُ فَاخِتَةُ بِنْتُ زُهَيْرِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، وَكَانَتْ وَلَدَتْ حَكِيمًا فِي الْكَعْبَةِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، وَهِيَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، فَوَلَدَتْ فِيهَا فَحُمِلَتْ فِي نِطَعٍ، وَغُسِلَ مَا كَانَ تَحْتَهَا مِنَ الثِّيَابِ عِنْدَ حَوْضِ زَمْزَمَ، وَلَمْ يُولَدْ قَبْلَهُ، وَلَا بَعْدَهُ فِي الْكَعْبَةِ أَحَدٌ» قَالَ الْحَاكِمُ: «وَهَمُّ مُصْعَبٍ فِي الْحَرْفِ الْأَخِيرِ، فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ»

فقیر کہتا ہے کہ مصعب بن عبد الله صدوق ہے۔ ان کا وصال 236 ھ میں ہوا۔

لہذا یہ بھی فقط ایک قول ہی ہے، منقطع ہے!

 

چھوتھی روایت (قول):

اس کو حاکم ((المستدرک ط العلمية 3/ 549)) میں نقل کرتے ہیں:

سَمِعْتُ أَبَا الْفَضْلِ الْحَسَنَ بْنَ يَعْقُوبَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا أَحْمَدَ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الْوَهَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ غَنَّامٍ الْعَامِرِيَّ، يَقُولُ: «وُلِدَ ‌حَكِيمُ ‌بْنُ ‌حِزَامٍ فِي جَوْفِ ‌الْكَعْبَةِ، دَخَلَتْ أُمُّهُ ‌الْكَعْبَةَ فَمَخَضَتْ فِيهَا فَوَلَدَتْ فِي الْبَيْتِ»

 

اس کو ابو نعیم بھی ((معرفة الصحابة (2/ 702)) میں نقل کرتے ہیں: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الْوَهَّابِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ عَثَّامٍ به.

فقیر کہتا ہے کہ حاکم کے نسخے میں (یا طباعت) میں نام کی تحریف ہوئی ہے۔ نام علی بن غنام نہیں، بلکہ علی بن عثام ہے، جیسا کہ ابو نعیم نے ذکر کیا ہے۔

یہ علی بن عثام ثقہ ہیں۔ 228 ھجری میں انکا وصال ہوا۔

لہذا یہ بھی فقط ایک قول ہی ہے، منقطع ہے!

 

پانچویں روایت (قول):

امام مسلم اپنی صحیح میں فرماتے ہیں: قَالَ مُسْلِم بْن الْحَجَّاج وُلِدَ حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ وَعَاشَ مِائَةً وَعِشْرِينَ سَنَةً

 یہ بھی ایک قول ہے۔ 

پھر اسی طرح کی بات ابنِ مندہ نے بھی ((من عاش مائة وعشرين سنة من الصحابة)) میں کی ہے۔

‌حَكِيمُ ‌بْنُ ‌حِزَام۔۔ وُلِدَ فِي جَوْفِ ‌الْكَعْبَةِ

اور ابنِ مندہ کی کتاب سے ابنِ عساکر نے ((تاریخ دمشق 15 / 98)) میں نقل کی ہے ۔

أخبرنا أبو الفتح يوسف بن عبد الواحد أنا شجاع بن علي أنا أبو عبد الله بن مندة به.

لہذا جو کچھ بھی حکیم سے متعلق ہے، اس میں متروک رواۃ ہیں یا پھر وہ روایت ایک قول سے اوپر کچھ نہیں جو کہ منقطع ہے۔

اور فقط سند کا ہونا کافی نہیں ہوتا، کہ کسی کتاب میں سند آگئی تو بس اب وہ بات با سند بھی ہوگئی اور قابلِ حجت بھی ہوگئی۔

 

اگر ایسا ہے تو فقیر اپنی سند سے روایت کرتا ہے:

أخْبَرَنَا الشيخُ محمدُ مطيعُ الحافظُ بنُ محمد واصل عَنْ مُحَمَّدِ أبي الخيرِ الميداني، عَنْ الشيخِ سليم المسوتي، عنْ أحمدَ مُسْلمٍ الكُزبري، عنْ أحمدَ بْنِ عبدِ العَطَّارِ، عنِ الشيخِ إسماعيلَ العَجْلُونِيِّ، عنِ العارفِ باللهِ الشيخِ عبدِ الغنيِّ النابلسي، عنِ النَّجْمِ محمدِ الغَزِّي، عن والدِهِ البَدْرِ محمدِ الغَزِّي، عن شيخِ الإسلامِ القاضي زكريا الأنصاريِّ، عنِ العزِّ عّبْدِ الرحيمِ بْنِ الفراتِ، عن مَحمودٍ المَنْبِجِيِّ، عن الشَّرَفِ الدِّمْياطِيِّ، عن ابنِ المُقَيَّرِ، عن أبي الفضل أحمدَ بنِ طاهرٍ المِيْهَنِيِّ، عن أبي بكر الشِّيرَازِيِّ، عَنِ الحافظِ أبي عبدِ اللهِ الحاكمِ النَّيْسابُورِيِّ قال: فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ۔

لہذا اب یہ قول بھی ہم تک با سند ہو گیا!!! کیا کہتے ہیں؟ جو اس کا جواب ہے، وہی آپ کے بیان کردہ اقوال کا جواب ہے۔

اور پھر بعض یہ بھی کہتے دکھائی دیتے ہیں، کہ اس میں کون سے منقبت ہے کہ حضرت علی کی پیدائش کعبہ میں ہوئی؟ اس وقت تو وہاں پر بت پڑے ہوئے تھے۔

اس کا جواب متعدد وجوہ سے ہے:

اول: جو حضرات اس کو فضیلت نہیں مانتے، وہ پھر یہی بات حکیم بن حزام کے مناقب میں بیان کرتے دکھائی بھی دیتے ہیں۔

شرح النووي على مسلم» (2/ 142): حَكِيمُ ‌بْنُ ‌حِزَامٍ الصَّحَابِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَمِنْ مَنَاقِبِهِ أَنَّهُ وُلِدَ فِي ‌الْكَعْبَةِ قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ وَلَا يُعْرَفُ أَحَدٌ شَارَكَهُ فِي هَذَا۔

 

اور ذہبی  «تاريخ الإسلام - ط التوفيقية» (4/ 101) میں حکیم سے متعلق کہتے ہیں: وله منقبة وَهُوَ أَنَّهُ وُلد في جوف ‌الكعبة۔

ہاں مگر یہ بات علی علیہ السلام کے لیے فضیلت کا باعث نہ ہوگی!!!

دوم: رہ گئی یہ بات کہ کعبے میں بت تھے۔۔۔ تو ایک سادہ سا سوال ہے کہ خانہ کعبہ کی طرف قبلہ کس سن ھجری میں مقرر ہوا، اور اس میں سے بت کب نکالے گئے۔ اس کے جواب میں سب کچھ ہے۔

سوم: اور یہ بات کہ حضرت علی علیہ السلام سے متعلق قول کی سند نہیں ہے،

تو اس پر ہمارا جواب امام ماتریدی سے پیش ہے:

آپ اپنی تفسیر تأويلات أهل السنة (2/ 18) میں لا وصية لوارث حدیث سے متعلق فرماتے ہیں:

فأما من قال: بأنه من أخبار الآحاد، فإن الأصل في هذا أن يقال: إنه من حيث الرواية من الآحاد، ومن حيث علم العمل به متواتر. ومن أصلنا: أن ‌المتواتر بالعمل هو أرفع خبر يعمل، إذ ‌المتواتر المتعارف قرنًا بقرنٍ مما عمل الناس به لم يعملوا به، إلا لظهوره، وظهوره يغني الناس عن روايته، لما علموا خلوه عن الخقاء

 

اب جو قول اختیار کرنا ہے کر لیں۔

 

واللہ ورسولہ اعلم

وجاہت حسین الحنفی۔۔۔

 

 

امام حاکم نیشاپورر۔۔۔۔۔

الحافظِ أبي عبدِ اللهِ الحاكمِ النَّيْسابُورِيِّ قال: فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ۔

علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی کعبہ میں ولادت کی خبر  متواتر ہے ۔۔

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: