امیر المومنین علیہ السلام کی خلافت اور مباھلہ کا واقعہ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مسیحیوں کے ساتھ مباھلہ کی مختصر وضاحت
سوره ی آل عمران کی آیت 61 کے مطابق مباھلہ کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف مکاتب فکر اور ادیان والوں سے بحث و مناطرہ کیا اور ان کے سامنے اپنے موقف اور اس کی دلیل پیش کی ۔ اب ان میں سے بعض آپ نے پر ایمان لایا اور بعض نے ہٹ دہرمی اور کٹ حجتی سے کام لیا اور آپ پر ایمان نہیں لایا ۔ انہیں گروہوں میں سے ایک نجران کے نصاری تھے انہوں نے آپ کی دعوت کے سامنے کٹ ہجتی سے کام لیا ۔ گزشتہ ادیان میں یہ رسم تھی کہ اگر دو شخصوں میں کسی عقیدتی مسئلہ میں بنیادی اختلاف ہو تو ایک دوسرے سے "مباھلہ" یا " ملاعنہ " کرتے تھے ۔ مباھلہ کا معنی ایک دوسرے پر لعنت کرنا اور جو باطل پر ہو اس پر عذاب کے ڈالنے کے لئے اللہ سے دعا کرنا ہے ۔
مباھلہ اسلامی معجزات میں سے ایک ہے اور ائمه (علیهم السلام) نے بھی اعتقادی اور مذھبی مسائل میں مخالفین سے مباھلہ کرنے کی سفارش کی ہے ۔
مباھلہ کی کچھ شرائط اور آداب بھی ذکر ہوئے ہیں جیسے روزہ رکھنا اور بعض دعائیں۔
اہل سنت کی کتابوں میں مباھلہ کا واقعہ
مباھلہ کے بارے میں بہت سی باتیں ہوسکتی ہیں لیکن ہم یہاں اہل سنت کی کتابوں سے اس واقعے کے بارے میں بعض مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور پھر بعد میں بعض اہم نکات کی طرف اشارہ کریں گے مثلا یہ نکتہ کی مباھلہ امیرالمومنین(سلام الله علیه) کی امامت اور جانشینی پر بہت ہی قوی دلیل ہے .
(فَمَنْ حَاجَّكَ فيهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكاذِبين) {سورہ آل عمران کی آیت 61}
چنانچہ اب آپ کو علم ( اور وحی ) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس ( حضرت عیسی ) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو، بلا لیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔
جیساکہ سعد بن ابی وقاص نے معاویہ کی طرف سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو برا بلا کہنے کے حکم کو ماننے سے انکار کیا اور اس کی جو دلائل پیش کی ان میں سے ایک یہی آل عمران کی آیت کا ان کے حق میں نازل ہونے کو بیان کیا ،
مسلم نیشابوری نے صحیح مسلم میں نقل کیا ہے :
عامر ابن سعد ابن ابی وقاص سعد ابن ابی وقاص سے نقل کرتا ہے کہ: معاویہ نے سعد سے کہا: تم علی پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ہو ؟
سعد نے کہا:جب تک مجھے تین چیزیں یاد ہونگی کبھی بھی ان پر سبّ و شتم نہیں کروں گا اور اگر ان تین باتوں میں سے ایک کا تعلق مجھ سے ہوتا تو میں اس کو سرخ بالوں والے اونٹوں سے زیادہ دوست رکھتا، بعد ازاں سعد ان تین باتوں کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ: اور تیسری بات یہ تھی
«وَلَمَّا نَزَلَتْ هذه الْآيَةُ ﴿ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ﴾ دَعَا رسول اللهِ صلى الله عليه وسلم عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فقال اللهم هَؤُلَاءِ أَهْلِي»
کہ جب آیت نازل ہوئی، تو رسول خدا (ص) نے علی، فاطمہ اور حسن و حسین (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا:
اللهم هؤلاء اهل بيتي، یعنی خداوندا ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔
صحيح مسلم، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري، (متوفای 261)، دار النشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ج4، ص1871، ح 2404
اهل سنت کے بزرگ لوگ دقت کریں یہ «صحیح مسلم» ہے اس میں نقل ہوا ہے «دعا رسول الله علیا» علی کو بلایا ۔یہاں یہ نہیں کہ «دعا عمرا و ابابکرا و...». عمر اور ابوبکر ۔۔۔۔کو بلایا «و فاطمه» کو بلایا ، یہ نہیں کہا ہے "حفصه اور عایشه کو بلایا ! «و حسنا و حسیناً» ،یعنی حسن اور حسین علیہما السلام کو بلایا ، یہ نہیں کہا ہے: سعد بن وقاص و عبدالله زبیر اور۔۔۔۔۔ کو بلایا !
یہاں آپ نے صرف ان ہستیوں کو میدان میں لا کر فرمایا : یہی میرے اہل بیت ہیں ۔ایسا جناب عائشہ اور حفصہ کے بارے میں نہیں فرمایا ۔
«ابن کثیر دمشقی سلفی » نے اس کو اس طرح نقل کیا ہے :
«فأخذ بيد علي و فاطمة والحسن الحسين.»
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مباهله کے لئے حضرت علی، فاطمه، حسن اور حسین علیہم السلام کے ہاتھوں کو پکڑا ۔
تفسير القرآن العظيم، إسماعيل بن عمر بن كثير الدمشقي أبو الفداء، (متوفای 774)، دار النشر: دار الفكر، بيروت، 1401، ج1، ص371
دیکھیں یہاں بھی جناب عمر ، ابوبکر ، حفصه اور عایشه کے ہاتھ پکڑنے اور انہیں بھی دعوت دینے کی باتیں ذکر نہیں ہے۔
ابن کثیر آگے لکھتا ہے :
«قال جابر﴿أنفسنا وأنفسكم﴾ رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلي بن أبي طالب.»
«انفسنا» سے مراد امیرالمومنین(سلام الله علیه) ہیں کہ جو آنحضرت کی جان کی مانند ہے. «ابناءنا» سے مراد امام حسن و امام حسین ہیں اور «نساءنا» سے مراد جناب فاطمه زهرا سلام اللہ علیہا ہیں ۔ اسی طرح ابن کثیر کہتا ہے : مستدرک میں یہی روایت نقل ہوئی ہے اور وہ صحیح مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ۔
«حاکم نیشابوری» نے اس روایت کو«معرفة علوم الحدیث» میں یوں نقل کیا ہے :
« وقد تواترت الأخبار في التفاسير عن عبد الله بن عباس وغيره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذ يوم المباهلة بيد علي وحسن وحسين وجعلوا فاطمة وراءهم ثم قال هؤلاء أبناءنا وأنفسنا ونساؤنا فهلموا أنفسكم وأبناءكم ونساءكم ثم نبتهل فنجعل لعنة الله على الكاذبين.»
متواتر روایتیں ابن عباس اور دوسروں سے نقل ہوئی ہیں کہ مباھلہ کے دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کے ہاتھوں کو پکڑا اور فرمایا : اے اللہ ! یہ بیٹے ،بیٹیاں اور ہماری جانیں ہیں پس تم لوگ بھی اپنے بیٹوں ،بیٹیوں اور نفسوں کو لے کر آو اور پھر ہم ایک دوسرے سے مباھلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں ۔
معرفة علوم الحديث، أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحاكم النيسابوري، (متوفای 405)، دار النشر: دار الكتب العلمية، بيروت،1397هـ - 1977م، الطبعة : الثانية ، تحقيق: السيد معظم حسين، ج1، ص50
«ابراهیم بن محمد بیهقی» نے اس واقعے کو یوں نقل کیا ہے :
«من أفضل أصحاب رسول الله، صلى الله عليه وسلم؟ فقال: أبو بكر وعمر وعثمان وطلحة والزبير وسعد وسعيد وعبد الرحمن بن عوف وأبو عبيدة بن الجراح. فقال له: فأين علي بن أبي طالب، رضي الله عنه ؟ قال: يا هذا تستفتي عن أصحابه أم عن نفسه؟ قال: بل عن أصحابه. قال: إن الله تبارك وتعالى يقول: (قل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم)، فكيف يكون أصحابه مثل نفسه؟ »
رسول الله کے اصحاب میں سے افضل کون ہیں ؟ کہا : ابوبکر ، عمر ، عثمان اور ... راوی نے کہا . پیغمبر کے اصحاب کو تو گن کر بتایا لیکن علی ابن بی طالب علیہ السلام کا ذکر نہیں کیا ۔ جواب دیا : اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا یا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کے بارے میں ؟ جواب دیا : پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا ۔ تو یہ جو میں نے بتایا یہ سب اصحاب پیغمبر تھے ۔ اس کے بعد مباھلہ والی آیت کی تلاوت کی اور کہا : کیسے ہوسکتا ہے کہ اصحاب، جان پیغمبر کی طرح ہو ۔
المحاسن والمساوئ، إبراهيم بن محمد البيهقي، (متوفای320)، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت/ لبنان- 1420هـ - 1999م ، الطبعة: الأولى، تحقيق: عدنان علي، ج1، ص38 .
عجیب : کسی نے بھی اس عقیدے کا اظہار کی وجہ سے البيهقي کو شیعہ نہیں کہا ہے .
«ابوسعید الخادمی، نے "بريقة محمودية" میں نقل کیا ہے :
«آيَةُ الْمُبَاهَلَةِ ﴿نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ﴾ لِأَنَّ الْمُرَادَ بِالْأَنْفُسِ عَلِيٌّ لِأَنَّ الْأَخْبَارَ الصَّحِيحَةَ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلِيًّا إلَى هَذَا الْمَقَامِ .»
آیه مباهله میں جان پیغمبر سے مراد علی بن ابی طالب ہیں ،کیونکہ بہت سی صحیح روایتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیہ مباھلہ کے دن حضرت علی علیہ السلام کو ہی بلایا ۔
بريقة محمودية، أبو سعيد محمد بن محمد الخادمي (متوفاى : 1156)، ج2، ص7 بر اساس نرم افزار الجامع الکبیر،
«زمخشری نے نقل کیا ہے »:
زمخشری اہل سنت کے معروف مفسر ہیں سبھی انہیں جانتے ہیں ، انہوں نے بھی اسی آیت میں ﴿أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ﴾ کے بارے میں بحث کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب حسنین ، جناب فاطمہ اور حضرت علی علیہم السلام کا ہاتھ پکڑ کر میدان مباھلہ میں آیا اور پھر :
«فقال أسقف نجران يا معشر النصارى إني لأرى وجوها لو شاء الله ان يزيل جبلا من مكانه لأزاله بها فلا تباهلوا فتهلكوا ولا يبقى على وجه الأرض نصراني إلى يوم القيامة فقالوا يا أبا القاسم رأينا ان لا نباهلك وان نقرك على دينك ونثبت على ديننا قال ( فإذا أبيتم المباهلة فأسلموا يكن لكم ما للمسلمين وعليكم ما عليهم ) فأبوا قال ( فإني أناجزكم»
نجران کے پادری نے کہا : اے اہل نصارا !میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ شخص (محمدؐ) ان کو وسیلہ بنا کر خداسے دعا کرے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ضرور ہٹ جائے گا۔ خبردار ان کے ساتھ ہرگز مباہلہ نہ کرنا، ورنہ روئے زمین پر قیامت تک کوئی نصرانی نہیں رہے گا۔
پھر انہوں نے کہا اے ابا القاسم ! ہم مباھلے نہیں کرتے ہیں ، ہم آپ کے دین کو نہیں مانتے اور ہم اپنے ہی دین پر ثابت قدم رہیں گے ۔ اس پر آپ نے فرمایا : اگر مباھلہ نہیں کرتے ہیں تو پھر اسلام قبول کرو ،ایسا کرنے کی صورت میں مسلمانوں کے برابر تم لوگوں کو حق بھی ہوگا ۔لیکن ان لوگوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور جزیہ دینے پر راضی ہوئے ۔
رسول اللہ (ص) نے بعد ازاں فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کہ ہلاکت اور تباہی نجران والوں کے قریب پہنچ چکی تھی۔ اگر وہ میرے ساتھ مباہلہ کرتے تو بے شک سب بندروں اور خنزیروں میں بدل کر مسخ ہو جاتے اور بے شک یہ پوری وادی ان کے لیے آگ کے شعلوں میں بدل جاتی اور حتی کہ ان کے درختوں کے اوپر کوئی پرندہ باقی نہ رہتا اور تمام عیسائی ہلاک ہو جاتے۔
الكشاف عن حقائق التنزيل وعيون الأقاويل في وجوه التأويل، أبو القاسم محمود بن عمر الزمخشري الخوارزمي (متوفای 538)، دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق: عبد الرزاق المهدي، ج1، ص396
زمخشری آگے لکھتا ہے : جناب عایشه کہتی ہے کہ آیت تطهیر { 33 سورہ احزاب} کے نزول کے وقت بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسن، امام حسین، حضرت زهرا اور حضرت علی علیہم السلام کو چادر کے نیچے قرار دئے کر فرمایا: ﴿انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت﴾
زمخشری ان دو آیات کو ایک ساتھ نقل کر کے اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ اھل بیت سے یہی ہستیاں مراد ہیں،نہ جناب عائشہ اس میں داخل ہے نہ حفصہ ،یہاں تک کہ جناب خدیجہ بھی اس میں داخل نہیں ہے ۔
زمحشری ایک خوبصورت بات کرتے ہیں :
«وخص الأبناء والنساء لأنهم أعز الأهل وألصقهم بالقلوب وربما فداهم الرجل بنفسه وحارب دونهم حتى يقتل»
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے { الأبناء والنساء } بیٹے اور نساء مفھوم کے اعتبار سے عام ہونے کے باوجو مصداق کے اعتبار سے ابناء کو حسنین میں اور نساء کو جناب فاطمہ کے ساتھ خاص کر دیا اور انہیں لوگوں کو صرف میدان میں لایا۔ کیونکہ یہی {بیٹے اور بیٹیاں } انسان کے سب سے عزیز لوگ ہوتے ہیں اور یہی دل کے زیادہ نذدیک ہوتے ہیں ،بسا اوقات انسان انہیں پر اپنی جان نثار کرتا ہے ۔
الكشاف عن حقائق التنزيل وعيون الأقاويل في وجوه التأويل، أبو القاسم محمود بن عمر الزمخشري الخوارزمي (متوفای 538)، دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق: عبد الرزاق المهدي، ج1، ص396
لہذا زمحشری یہ پیغام دینا چاہتے ہیں انہیں لوگوں کو لے کر میدان مباہلہ میں گئے ، کیونکہ یہی ہستیاں آپ کے نذدیک سب سے عزیز تھیں یہی سب سے زیادہ آپ کے نذدیک عزیز شخصیتیں تھیں ۔
«وفيه دليل لا شيء أقوى منه على فضل أصحاب الكساء عليهم السلام، وفيه برهان واضح على صحة نبوة النبي»
زمحشری کہتے ہیں : یہ آیت مباھلہ اصحاب کساء کی فضیلت پر سب سے قوی دلیل ہیں ،اس سے قوی دلیل ان کی فضیلت پر موجود نہیں ہے اور اسی میں نبی کی نبوت کی حقانیت کی روشن دلیل بھی ہے .
یعنی ہمارے پیارے نبی اپنی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے دلیل پیش کرنا اور اپنی صداقت پر گواہ لانا چاہتے ہیں ، اب یہاں دیکھیں آپ کن کو لے کر آئے ہیں ؟ یہاں امیر المومنین علیہ السلام کو لے کر گئے کہ جو آپ کے بعد آپ کا جانشین ہیں ۔
سوال : کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کے گواہ ہوں ،اب اگر آپ نے اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین نہیں بنایا ہو اور جانشین بنانے کے کام کو لوگوں پر چھوڑا ہو۔ تو ان دو آیات کو سامنے رکھے تو کیا یہ اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام اصحاب سے افضل اور رسول اللہ ص کے نذدیک سب سے محبوب ہستی نہیں ہے ۔؟
"لہذا مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں صحیح تفسیر یہ ہے کہ امیر المومنین کو نفس رسول اللہ {ص} کہنے کا مطلب آپ دونوں کا خصوصیات اور صفات میں ایک جیسے ہونے ، ایک کا دوسرے میں حلول کرنا اور دونوں کا جسمی طور پر بھی ایک ہونا مراد نہیں ہے۔
اور جب یہ بات ثابت ہوئی کہ یہاں فضیلتوں میں ایک جیسا ہونا مراد ہے تو یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ جناب امیر المومنین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد آپ کا حقیقی جانشن ہیں کوئی آپ جیسا امت میں نہیں ہے آپ کے ہوتے ہوئے کسی اور کو جانشین کہنا اور ماننا صحیح نہیں ہے ۔" {مترجم}
آیه مباهله میں امیرالمومنین (علیه السلام) کی فضیلت کا انکار :
ایک شبھہ :
«اگر یہ کہا جائے کہ حضرت علی نفس پیامبر اکرم ہیں تو نعوذ بالله یہ ایک توھین ہے گویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضرت فاطمه زهرا کا شوہر ان کے والد ،رسول الله (صلی الله علیه و آله وسلم) تھے »
«لہذا یہ تفسیر ہی غلط ہے کہ اللہ نے حضرت علی کو نفس پیغمبر قرار دیا ہو» کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اگر حضرت علی نفس پیغمبر ہیں تو پیغمبر کی بیٹی ان کی بیٹی بھی ہے ۔جب ایسا ہے تو لازم آتا ہے کہ آپ نے نعوذ بااللہ اپنی بیٹی سے شادی کی ہو ۔
بنابریں یہ تفسیر جسمی طور پر بھی ،علمی اور ظاہری طور پر بھی اور فضیلت کے اعتبار سے بھی قابل تطبیق نہیں ہے ۔
جواب : ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کو احمق لوگ قرار دیا ہے ۔
اب دیکھے کہ یہ «إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ» تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب لوگوں نے اپنی بہنوں کے ساتھ شادی کی ہیں؟ کیونکہ آیت کے مطابق تو سارے مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ یہاں«مثل اخوه» نہیں کہا ہے بلکہ « انما المومنین اخوه.» کہا ہے ۔
اب ہم ان لوگوں سے کہتے ہیں : یہ جو تم لوگوں نے اپنی بیویوں سے شادی کی ہے یہ مومن ہیں یا نہیں ؟ قرآن میں جہاں بھی «یا ایها الذین آمنوا» آیا ہے ، مراد مرد اور عورت دونوں ہے مثلا :
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ)
اے ایمان والوں تم پر روزے کو فرض کیا ہے جس طرح تم سے پہلے والے لوگوں پر روزہ فرض تھا تاکہ تم لوگ متقی اور پرہیزگار بنے ۔
سوره بقره(2): آیه 183
اب یہاں حکم مرد کے ساتھ خاص نہیں ہے ۔
دیکھیں «یزید» کے بارے میں «عبدالله بن حنظله» نے کہا :
«ينكح الأمهات والبنات والأخوات.»
ہم ایسے آدمی کے پاس سے آرہے ہیں کہ جو اپنی ماوں ، بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ نکاح کرتا ہے .
تاريخ مدينة دمشق، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعي (متوفای 571)، دار النشر: دار الفكر - بيروت - 1995 ، تحقيق : محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ج27، ص429
اب ﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ﴾ کا کیا معنی ہے ؟ کیا تم لوگ اپنی بہنوں کے ساتھ شادی کر رہے ہو ؟
اسی طرح «صحیح مسلم» کے حدیث 2383 کے بارے میں کہ جو صحیح مسلم تین چار دفعہ تکرار ہوئی ہے :
«قال سمعت عَبْدَ اللَّهِ بن مَسْعُودٍ يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قال لو كنت مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا وَلَكِنَّهُ أَخِي»
عبدالله بن مسعود سے سنا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :اگر یہ طے ہوتا کہ میں کسی کو اپنا دوست انتخاب کرتا تو میں ابوبکر کو انتخاب کرتا لیکن وہ میرا بھائی ہے .
صحيح مسلم، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري (متوفای261)، دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق : محمد فؤاد عبد الباقي، ج4، ص1855، ح 2383
لہذا جب ابوبکر رسول اللہ ص کے بھائی بنا تو «عایشه» پیغمبر ص کے بھائی کی بیٹی ہوئی !! اب کیا پیغمبر ص نے اپنے بھائی کی محرم بیٹی سے شادی کی ہے ؟
ایک سوال : اگر ایسی کوئی روایت ہوتی تو کیوں سقیفہ کے دن اس روایت سے کیوں استفادہ نہیں کیا اور اس حدیث کے ذریعے مخالفین پر حجت تمام کیوں نہیں کیا ؟
اس کو حضور پاک ص نے صرف عبدالله مسعود کے کان میں نہیں کہا تھا اگر ایسی روایت ہوتی تو جناب عائشہ اس کو پہلے سناتی یا خود ابوبکر سناتے ۔
« قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ادع لي أخي قلنا: أبو بكر قلنا: عمر قال: ادع لي أخي قلنا: عثمان: قال نعم فخلا به النبي صلى الله عليه وسلم فقال له: إن الله مقمصك قميصافإن أراد المنافقون خلعه فلا تخلعه حتى تلقاني»
پیغمبر {ص} نے فرمایا : میرے بھائی کو بلا لائے ، ہم نے کہا : ابوبکر کو ؟ فرمایا نہیں ؟ فرمایا : میرے بھائی کو لے کر آئے ۔ ہم نے کہا : عمر کو ؟ فرمایا : نہیں ۔ پھر فرمایا : میرے بھائی کو بلا لائے ۔ ہم نے کہا عثمان کو ؟ آپ نے فرمایا : ہاں عثمان میرا بھائی ہے۔ آپ نے عثمان کو بلایا اور عثمان کے ساتھ گفتگو کی اور فرمایا : اللہ نے خلافت کا کی قمیص تمہیں پہنائی اور اگر منافقین اس کو اتارنا چاہئے تو تم اس کو نہیں اتارنا ،یہاں تک کہ تم مجھ سے ملاقات کرو۔
فضائل الخلفاء الراشدين، أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد الاصبهاني (متوفای 430)، ج1، ص64
اب دیکھیں مسلم کی روایت میں ابوبکر کو اپنا بھائی کہا لیکن یہاں عثمان کو اپنا بھائی قرار دئے رہے ہیں۔
«وقال رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِنَّ أَمَنَّ الناس عَلَيَّ في مَالِهِ وَصُحْبَتِهِ أبو بَكْرٍ وَلَوْ كنت مُتَّخِذًا خَلِيلًا لإتخذت أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا وَلَكِنْ إخوة الْإِسْلَامِ»
صحيح مسلم، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري (متوفای261)، دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق : محمد فؤاد عبد الباقي، ج4، ص1854، ح 2382
اب کیا کوئی عاقل کہہ سکتا ہے کہ یہ یہاں بھائی کہنا عقلی طور پر صحیح نہیں ہے؟ یہاں اسلامی بھائی اور اخوت اسلامی مراد ہے نہ جسمی طور پر بھائی ہونا ۔
لہذا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ فرماتے ہیں علی میری جان ہیں تو یہاں کیا یہاں فزیکی طور پر ان دونوں کا ایک ہونا لازم آئے گا ؟ اب یہاں ایک بچہ بھی جب سنتا ہے کہ فلان میری جان ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ یہاں فیزکی اور جسمی طور پر ایک ہونا مراد نہیں ہے ۔
من کیستم لیلی، و لیلی کیست من، ما یکی روحیم اندر دو بدن.
میں کون ہوں؟ میں لیلی ہوں۔ لیلی کون ہے؟ لیلی میں ہوں ہم دو بدن میں ایک روح ہیں ۔
لہذا یہاں حقیقت میں دو کا ایک ہونا مراد تو نہیں ہے یہ اعتباری اور فرضی چیزیں ہیں ، جب یہ کہا جائے علی علیہ السلام ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان ہیں تو یہاں مقصد یہ ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان اللہ کے نذدیک عزیز ہے ،علی علیہ السلام کی جان بھی عزیز ہے ۔ یعنی حقیقت میں یہاں فضیلت میں ایک قسم کی برابری مراد ہے ۔ «الا ما خرج بدلیل.» مگر یہ کہ کسی خاص دلیل کی وجہ سے کسی صفت میں شریک نہ ہو ۔ جیساکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی نازل ہوتی ہے اور آپ صاحب شریعت ہیں لیکن حضرت علی علیہ السلام ایسا نہیں ہے ، اب اس قسم کے موارد کے علاوہ بہت سی فضیلتوں میں آپ دونوں مساوی ہیں ۔
لہذا یہاں صفات اور خصوصیات میں ایک جیسا ہونا مراد ہے مثلا جب کہا جاتا ہے فلان ڈاکٹر کے پاس جائے یا اس دوسرے کے پاس جائے دونوں ایک جیسے ہیں دونوں ماہر اور تجربہ کار ،رحم دل اور ذمہ داری سے اپنے وظیفے کو انجام دینے والے ہیں۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے فضائل سے سے جنگ۔
جیساکہ بیان ہوا کہ یہ آیت اہل بیت میں سے خاص کر جناب امیر المومنین علیہ السلام کے اہم ترین فضائل میں سے ہے لہذا بعض لوگوں نے اس میں سے جناب امیر المومنین علیہ السلام کے نام کو ہٹانے کی بھی کوششیں کی ہے ۔
دیکھیں حاکم نیشاپوری کی کتاب کی ایک روایت میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور امیر المومنین علیہ السلام کے ناموں کا ذکر نہیں کیا ہے ؛
«فجاء النبي صلى الله عليه وسلم و جمع ولده و الحسن و الحسين»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی اولاد کو جمع کیا اور حسن و حسین علیہما السلام کو جمع کیا .
المستدرك على الصحيحين، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم النيسابوري (متوفای 405)، دار النشر: دار الكتب العلمية- بيروت - 1411هـ - 1990م ، الطبعة : الأولى، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، ج2، ص649
«مصنف ابن ابی شیبه» میں نقل ہوا ہے :
«ولما غدا إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذ بيد حسن وحسين وكانت فاطمة تمشي خلفه»
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کی طرف حرکت کی تو حسن و حسین علیہما السلام کے ہاتھ پکڑا اور جناب فاطمه سلام اللہ علیہا بھی آپ کے پیچھے چلنے لگیں .
الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة الكوفي (متوفای 235)، دار النشر: مكتبة الرشد – الرياض – 1409، الطبعة: الأولى، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ج7، ص426، حدیث37014
ابن قیم جوزیه نے جلاء الافهام میں حضرت علی علیہ السلام کے نام کو ہٹا کر یوں نقل کیا ہے :
لما انزل الله سبحانه : آية المباهلة : فمن حاجك فيه من بعد ما جاءك من العلم فقل تعالوا تدع ابناءنا وابناءكم ونساءنا ونساءكم وانفسنا وانفسكم ثم نبتهل فنجعل لعنت الله علي الكاذبين . آل عمران / 61
دعا النبی (صلی الله عليه وآله﴾ فاطمة وحسنا وحسينا وخرج للمباهلة .
ابن قيم ، جلاء الافهام ، چاپ دار عالم الفوائد ، ج۱، ص264.
اب اس قسم کی اور بھی نمونے موجود ہیں .
بنی امیه کی نسل نے جو روایتیں بھی امیرالمومنین اور خمسہ طیبہ کے فضایل پر مشتمل تھیں ایک ایک کر کے بدلنے اور ان کے مقابلے میں دوسروں کے لئے روایتیں بنانے کی کوشش کی ۔مثلا «حسن اور حسین بہشت کے جوانوں کے سردار ہیں .» اس کے مقابلے میں "ابوبکر اور عمر جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں" والی جعلی روایت بنائی ۔ رسول اللہ ص نے فرمایا : «میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ »؛ بنی امیہ والوں نے " ابوبکر اس شہر کا چھت ،عمر اس کی دیوار اور عثمان اس کا صحن اور معاویہ ۔۔۔ " والی جعلی روایت بنائی ۔ اسی طرح مباھلہ والی روایت کا مقابلہ کرنے کے لئے جعلی حدیث کا سہارا :
«تاریخ مدینة دمشق» میں چار کذاب سے نقل ہوا ہے ۔
«أخبرنا أبو عبدالله محمد بن إبراهيم أنبأ أبو الفضل بن الكريدي أنبأنا أبو الحسن العتيقي أنا أبو الحسن الدارقطني أنا أبو الحسين أحمد بن قاج أنا محمد بن جرير الطبري إملاء أنا سعيد بن عنبسة الرازي أنا الهيثم بن عدي قال سمعت جعفر بن محمد عن أبيه في هذه الآية ﴿ تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم ﴾ قال فجاء بأبي بكر وولده وبعمر وولده وبعثمان وولده وبعلي وولده »
جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابوبکر اپنے بچوں کے ساتھ چلا اور عمر اپنے بچوں کے ساتھ اور عثمان اور علی اپنے بچوں کے ساتھ چلا۔
تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعي ( متوفای571)، دار النشر: دار الفكر - بيروت - 1995، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ج39، ص177
اب دیکھے یہاں ﴿ و نساءنا ﴾ غائب ہے ؟! جعل کرنے والے کو یہ یاد نہیں رہا کہ یہاں یہ کہہ دیتا کہ ابوبکر بیوی بچوں کے ساتھ آیا ،عمر بیوی بچوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔لہذا لفظ نساء کو اس جعلی روایت کا حصہ بنانا ہی بول گئے ۔
لفظ «ولد» کو لایا لیکن ﴿ و نساءنا و نساءکم ﴾ کا ذکر نہیں کیا .
«آلوسی» نے تفسیر «روح المعانی» میں اسی جعلی روایت کو لایا ہے اور پھر بعد میں اس کو رد کیا ہے ۔
«وأخرج ابن عساكر عن جعفر بن محمد عن أبيه رضي الله تعالى عنهم أنه لما نرلت هذه الآية جاء بأبي بكر وولده وبعمر وولده وبعمر وولده وبعثمان وولده وبعلي وولده وهذا خلاف ما رواه الجمهور»
ابن عساکر نے اس کو نقل کیا ہے لیکن یہ معروف نقل کے خلاف ہے ۔
روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود الألوسي البغدادي ( متوفای1270هـ)، دار النشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت، ج3، ص190
آلوسی سلفی ہے پھر بھی انصاف پسندی سے کام لیا ۔
اب اس روایت کے جعلی ہونے کے سلسلے میں صرف ایک راوی کا حال دیکھے «المغنی فی الضعفا» میں «ذهبی» نے «سعيد بن عنبسة الرازي» کے بارے میں لکھا ہے ۔
«سعيد بن عنبسة الرازي عن عباد بن العوام، كذبه ابن معين وغيره.»
ابن معین اور دوسروں نے کہا ہے کہ یہ جھوٹا آدمی ہے.
المغني في الضعفاء، الإمام شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي ( متوفای 748هـ)، تحقيق: الدكتور نور الدين عتر، ج1، ص264
اب اس کے باقی راویوں کی بھی یہی حالت ہے بنی امیہ کی نسل نے ایسا ماحول بنایا تھا کہ بیوقف سے بیوقف لوگوں نے بھی جعلی روایات بنائی۔
ہم نے اہل سنت کی اہم ترین کتاب صحیح مسلم سے اس کو نقل کیا اور حاکم نیشاپوری کے ادعا کے مطابق یہ متواتر روایت ہے ۔