کیا یمن کی طرف سے آئے لشکر والوں کی شکایت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حدیث غدیر بیان فرمائی ؟ |
حدیث غدیر کا پس منظر کیا ہے ؟ واقعہ غدیر کے کئی صدی بعد بعض تاریخ نگاروں اور ان کی پیروی میں دوسروں نے خاص کر شیعوں کے موقف کو رد کرنے کے لئے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ یمن سے واپسی پر حضرت امیر المومنین کے بارے میں بعض اصحاب کی شکایت اور اس سلسلے میں لوگوں کے ذہنوں میں موجود شبہات کو دور کرنے اور ان سے محبت اور دوستی کی دعوت کی خاطر آپ نے خطبہ دیا اور یہ ارشاد فرمایا ہے لہذا شیعوں کے موقف سے اس کا کوئی ربط نہیں ہے ۔
پہلے ہم یمن کی طرف گئے لشکر اور اس میں پیش آنے والے حادثے کی کچھ وضاحت کرتے ہیں تاکہ حقیقت واضح ہو ۔ ابن کثیر نے کتاب البدایة والنهایة میں لکھا ہے : والمقصود أن عليا لما كثر فيه القيل والقال من ذلك الجيش بسبب منعه إياهم استعمال إبل الصدقة واسترجاعه منهم الحلل التي أطلقها لهم نائبه وعلي معذور فيما فعل لكن اشتهر الكلام فيه في الحجيج فلذلك والله أعلم. البداية والنهاية، ج 5، ص 106 حدیث غدیر بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں نے اميرالمؤمنين کے بارے قیل و قال شروع کیا اور ان کی طرف غلط باتوں کی نسبت دی کیونکہ امیر المومنین ع نے لشکر والوں کو بیت المال کے اونٹ استعمال کرنے اور بیت المال سے متعلق لباسوں کو پہنے کی وجہ سے ڈانٹا اور اس کام سے روکا۔ حضرت امیر کا یہ کام ٹھیک تھا اور آپ کے پاس عذر تھا،لیکن حاجیوں کے درمیان یہ واقعہ مشہور ہوا اور قیل و قال شروع ہوا ۔ آگے ابن کثیر این اس واقعے کو غدیر کے ساتھ ربط دیتا ہے : لما رجع رسول الله من حجته وتفرغ من مناسكه ورجع إلي المدينة فمر بغدير خم قام في الناس خطيبا فبرأ ساحة علي. البداية والنهاية، ج 5، ص 106 پيغمبر حجة الاسلام انجام دینے اور حج کے اعمال انجام دینے کے بعد جب مدینہ کی طرف نکلے اور غدیرخم کے مقام پر پہنچے ،وہاں آپ نے ایک خطبہ دیا اور علی ابن ابی طالب کی نسبت سے اصحاب کے ذھنوں میں موجود بدبینی کو دور کیا. پہلا جواب : امیرالمؤمنین علیه السلام 8 هجری کو یمن گئے تھے اور خطبه غدیر 10 هجری کو دیا ہے . مكه مكرمه کا مفتي زيني دحلان کہتا ہے : لم يكن سنة عشر إنما كان سنة عشر بعثه إلي بني مذحج، و أما بعثه إلي همدان فكان سنة ثمان بعد فتح مكة. السيرة النبويه، زيني دحلان، ج2، ص371 تاریخ میں یہ جو کہا جاتا ہے کہ علي بن أبي طالب 10 ہجری کو يمن فتح کرنے گئے تھے اس کا خطبہ غدیر ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور ایک خیالی بات ہے جس نے بھی کہا ہے وہ توھم کا شکار ہوا ہے ۔ کیونکہ حضرت علي کا يمن فتح کرنے همدان جانے کے واقعے کا 10 ہجری سے کوئی تعلق نہیں ، 10 ہجری کو فتح مکہ کے بعد علي کو قبيله مذحج کی طرف روانہ کیا . دوسرا جواب : جن لوگوں کو امیرالمؤمنین علیه السلام سے کدورت اور شکایت تھی۔ ان لوگوں نے مدینه میں ہی پیمغبر صلی الله علیه و آله کے سامنے اپنی شکایت کی اور آپ نے بھی اسی وقت انہیں جواب بھی دیا . جیساکہ معجم اوسط طبرانی میں بریده کے توسط سے نقل ہوا ہے کہ: خالد بن ولید نے مجھ سے کہا ، مدینہ جائے اور جو علی بن ابی طالب نے انجام دیا اس کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بتائے : فقدمت المدينة ودخلت المسجد ورسول الله صلي الله عليه وسلم في منزله وناس من أصحابه علي بابه فقالوا ما الخبر يا بريدة فقلت خير فتح الله علي المسلمين فقالوا ما أقدمك قال جارية أخذها علي من الخمس فجئت لأخبر النبي صلي الله عليه وسلم قالوا فأخبره فإنه يسقطه من عين رسول الله صلي الله عليه وسلم المعجم الأوسط، ج 6، ص 162 بريده کہتا ہے : میں مدینہ آیا اور مسجد النبي میں داخل ہوا ،کچھ اصحاب بھی مسجد میں تھے ، اصحاب نے پوچھا کیا خبر ہے ؟ میں نے کہا : خوشخبری ہے ، اللہ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا کی ۔ اصحاب نے پوچھا : تو تم اصحاب سے پہلے کیوں جلدی مدینہ آیا؟ کہا : علي بن ابي طالب نے خمس میں ایک کنیز اپنے لئے انتخاب کیا،لہذا انہوں نے بیت المال سے ذاتی اور شخصی فائدہ اٹھایا ۔ میں آیا ہوں تاکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس کی خبر دوں کہ آپ کے اس داماد نے خمس میں ایک کنیز اپنے لئے اٹھایا ہے ۔ اصحاب نے کہا : حا کر آپ کو خبر دو تاکہ علی آپ کی نظروں سے گر جائے ۔ ابی شیبه کی روایت میں ہے : فتعاقد أربعة من أصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم إِذا لقينا رسولَ الله صلي الله عليه وسلم أخبرناه بما صنع عليّ مصنف ابن أبي شيبة، ج 6، ص 372 و اسد الغابة، ج 4، ص 116 چار اصحاب نے آپس میں یہ طے کیا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس علي بن ابي طالب کی شکایت کرئے ۔ ذهبي نے تاريخ الاسلام میں لکھا ہے : فأصاب علي جاريةً فتعاقد أربعة من أصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم لنخبرنه. تاريخ الإسلام، ج 3، ص 630 علي بن ابي طالب نے جاریہ کو اپنے تصرف میں لیا تو اس وقت اصحاب میں سے چار لوگوں نے آپس میں یہ طے کر لیا کہ پیغمبر ص کے پاس ان کی شکایت لگائے۔ اب دیکھیں یہاں چار صحابہ نے ایک دوسرے سے امیرالمؤمنین علیه السلام کو پیامبر صلی الله علیه و آله کے پاس خراب کرنے کا عہد کیا تاکہ علی ابن ابی طالب آپ کی نظروں سے گر جائے ۔ یہاں سے واضح ہوجاتا ہے کہ اصحاب میں سے بعض امیرالمؤمنین علیه السلام کو حسادت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ،جبکہ اہل سنت والے انہیں اصحاب کو ہدایت کے ستارے سمجھتے ہیں ۔ پیامبر صلی الله علیه و آله نے جواب میں فرمایا: ما تريدون من علي علي مني وأنا منه، وهو ولي كل مؤمن بعدي. تاريخ الإسلام، ج 3، ص 631 علی سے کیا چاہتے ہو ؟ علي مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔ آپ میرے بعد تمام مومنین کے ولی ہیں ۔ خود ذھبی نے اس روایت کی سند کے بارے میں لکھا ہے : أخرجه أحمد في المسند والترمذي، وحسنه والنسائي. تاريخ الإسلام، ج 3، ص 631 احمد نے اپنی مسند میں اور ترمذی نے سنن میں اس کو نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ روایت حسن اور معتبر ہے ،نسائی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے ۔ بعض روایات میں نقل ہے کہ اصحاب کی شکایت سے پیغمبر ص سخت ناراض ہوئے : بریده کہتا ہے جب خالد کے خط میں نے پیغمبر {ص} کو دیا تو : فَرَأَيْتُ الْغَضَبَ في وَجْهِ رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم. آپ کے چہرے پر غصہ کے آثار نمودار ہوئے ۔ مسند أحمد بن حنبل، ج 5، ص 356 و سنن النسائي الكبري، ج 5، ص 133 پھر کہتا ہے : فقلت يا رَسُولَ اللَّهِ هذا مَكَانُ الْعَائِذِ بعثتني مع رَجُلٍ وأمرتني ان أُطِيعَهُ فَفَعَلْتُ ما أُرْسِلْتُ بِهِ فقال رسول اللَّهِ صلي الله عليه وسلم لاَ تَقَعْ في علي فإنه مِنِّي وأنا منه وهو وَلِيُّكُمْ بعدي وانه مِنِّي وأنا منه وهو وَلِيُّكُمْ بعدي. مسند أحمد بن حنبل، ج 5، ص 356 و سنن النسائي الكبري، ج 5، ص 133 میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ آپ کے غصے کا باعث بنا ہوں، يا رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم !آپ نے مجھے خالد کے ساتھ روانہ کیا اور اس کی اطاعت کا حکم دیا۔ یہ خط بھی اسی نے لکھا ہے ،آپ نے اس کی اطاعت کا کہا ،میں نے اطاعت کی ، رسول الله ص نے فرمایا: علی کے بارے میں غلط باتیں نہ کرئے کیونکہ وہ میرے بعد تم لوگوں کے ولی ہیں ۔ طبراني نے بریدہ کی روایت کو یوں نقل کیا ہے : فخرج مغضبا وقال ما بال أقوام ينتقصون عليا من ينتقص عليا فقد انتقصني ومن فارق عليا فقد فارقني إن عليا مني وأنا منه. المعجم الأوسط، ج 6، ص 162 آپ اپنے حجرے سے غصے کی حالت میں باہر آئے : جو لوگ علی کی بدگوئی کرتے ہیں ،انہیں کیا ہوگیا ہے ؟ جس نے بھی علی کی بدگوئی کی اس نے میری بدگوئی کی ہے ۔جو بھی علی سے جدا ہو وہ مجھ سے جدا ہوا ۔ لہذا اسی جیش یمن کے واقعے میں آپ نے امیرالمؤمنین علیه السلام کی ولایت کا اعلان فرمایا . تیسرا جواب: بعض تاریخ نگاروں نے نقل کیا ہے کہ آخری مرتبہ حجۃ الوداع سے پہلے امیر المومنین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم سے زکات جمع کرنے یمن تشریف لے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے حج میں شامل ہونے کا پیغام ملنے کے بعد آپؑ یمن سے ایک کاروان کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور بعض تاریخی نقلوں کے مطابق کاروان میں شامل بعض کی طرف سے بیت المال میں بے جا تصرف اور استعمال پر جب آپ نے اعتراض کیا تو یہاں بھی بعض ناراض ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس حضرت کی شکایت لگائی لیکن اس میں اختلاف ہے کہ یہ شکایت مکہ میں لگائی { سيرة ابن هشام، ج4 ص1022. تاريخ الطبري، ج2 ص402.} یا مدینہ میں{ مثلا{ دلائل النبوة للبيهقي ج5 ص398، البداية والنهاية، ج5 ص106} مدینہ میں شکایت کا تذکرہ ہے ۔ }۔ اسی طرح حج کے اعمال انجام دینے سے پہلے یا اعمال انجام دینے کے بعد یہ شکایت لگائی گئی۔ لیکن اس واقعے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے شکایت لگانے والوں کو واضح جواب دیا اور جناب امیرؑ کے مقام اور منزلت انہیں بیان فرمایا ۔جیساکہ نقل ہوا ہے. أيها الناس، لا تشكوا علياً، فو الله إنه لأخشن في ذات الله وفي سبيل الله »{ الكامل في التاريخ، ج2 ص301. مسند أحمد بن حنبل، ج3 ص86 روح المعاني ج 6 ص ۔ 194المستدرك ج 3 ص 13 } اے لوگو علی کی شکایت نہ لگانا ، اللہ کی قسم ان کی خشنونت اللہ کے لئے ہے۔ بعض نقلوں میں مدینہ میں حج کے بعد شکایت کرنے والوں میں عمرو کا نام ذکر ہوا ہےآپ نے عمرو سے خطاب میں فرمایا: يَا عَمْرُو وَاللَّهِ لَقَدْ آذَيْتَنِي قُلْتُ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أُوذِيَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بَلَى مَنْ آذَى عَلِيًّا فَقَدْ آذَانِي {مسند أحمد بن حنبل، ج3 ص483. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "المستدرك على الصحيحين للحاكم (3/ 131) } ۔ ۔ اے عمرو و اللہ تم نے مجھے اذیت دی ہے ۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ میں تمہیں اذیت دینے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ فرمایا ہاں جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ۔ اس نقل کے بارے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اگر اس خطبے کو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں لوگوں کے چہ مگوئیاں ختم کرنے کے لئے بیان فرمایا تھا تو مجمع عام میں اس طرح خطبے دینے کے بعد کسی کو مدینہ میں آکر اس طرح شکایت کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ اسی طرح مکہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان لوگوں کو اسی وقت سخت الفاظ میں جواب دیا ۔آپ کے دو ٹوک جواب کے بعد کسی کو حق نہیں پہنچتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس دستور کی رعایت نہ کرئے۔ اور اس کے بعد بھی لوگوں کے ذہنوں میں شبہات باقی رہیں یہاں تک کہ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بعض کے شبہات کی خاطر سب کو جمع کر کے خطبہ دینے کی ضرورت پڑے ۔ اسی لئے حقیقت یہ ہے کہ یہ شبہہ اس کو نقل کرنے والوں کے ہی ذہنی تخلیق اور اپنے خیالات کا اظہار ہی ہے۔ کیونکہ نہ خطبے کا مضمون اور سیاق اس شبہے کی تائید میں ہے اور نہ خود خطبے میں اور نہ اس سلسلے میں نقل شدہ روایات اور تاریخی نقلوں میں کہیں اس چیز کا اشارہ موجود ہے ۔ اب کیسے ممکن ہے خطبہ تو اس شبہہ کو دور کرنے کے لئے دیا ہو لیکن خطبہ میں آپ نے کہیں پر لوگوں کی شکایات اور شبہات کی طرف اشارہ بھی نہ کیا ہو۔ لہذا اسی وجہ سے خطبہ دینے پر نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلام میں کوئی سند ہے، نہ کسی صحابی نہ ایسا کہا ہے ، نہ کسی تابعی اورتابعی کے تابعی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔اسی لئے یہ کہنا مناسب ہے کہ یہ باتیں صرف بعض شیعہ مخالفین کے خیالات اور گمان ہی ہیں ۔ یہ شیعہ موقف کو رد کرنے اور فرمان رسول اللہ ص کے معنی میں تحریف کے لئے تیار شدہ جعلی باتیں ہیں ۔ جیساکہ ہم بعد میں اشارہ کریں گے کہ یہاں دوسروں کے برعکس شیعہ موقف کی تائید میں بہت سے شواہد موجود ہیں اور اگر خطبہ اس وجہ سے بھی دیا ہو پھر بھی یہ خلافت اور امامت کے مسئلے میں شیعہ موقف کی تائید میں ہی ہے۔ شبھہ کے بے بنیاد ہونے پر ایک عقلی تحلیل : اس شبہہ کو کیونکہ مذہبی تعصب کی وجہ سے بیان کیا ہے لہذا مغالطہ اورزیادہ روی سے کام لیا گیا ہے ۔کیونکہ یمن کے قافلے میں موجود لوگ باقی شہروں سے آنے والے لوگوں کی نسبت سے اتنی تعداد میں نہیں تھے کہ دوسروں کے ذہنوں میں موجود شبہات اور بدگمانی کو دور کرنے کے لئے آپ نے سب حاجیوں کو جمع کیا ہو اور سب کے ذہنوں سے اس بات کو نکالنے کے لئے خطبہ دیا ہو ۔ کیونکہ اعتراض اگر تھا تو یمن سے آنے والے بعض لوگوں کو تھا ، سارے حجاج کو نہیں تھا ۔ اور جیساکہ مولا علی علیہ السلام کا عمل بھی شرعی اعتبار سے بلکل ٹھیک تھا لہذا کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یمن سے آئے کاروان والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے سختی سے منع کرنے کے باوجود ہر جگہ ان کے اس صحیح موقف کو ایک غلط رنگ دے کر پیش کیا ہو اور اس سے سارے حجاج اور اصحاب، حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بارے بدبین ہوئے ہوں ؟ کیا یہ اصحاب اتنے بے دقتی سے کام لینے والے اور افواہوں سے متاثر ہونے والے تھے ؟ کیا یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس سب سے ممتاز شاگرد کے بارے بدگمان ہوگئے تھے؟ کیا ان کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربیت میں شک تھا ؟ عجیب بات ہے کہ اس شبہہ کو بیان کرنے والے اس کو اس طرح بڑا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ گویا سارے حاجی حضرت امیر المومنینّ کی نسبت سے شک و شبہہ اور بدگمانی کا شکار ہوئے ہوں ۔جبکہ یہ ان میں سے بعض کی شکایت اور غلط گمان اور غلط بیانی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی انہیں اسی وقت جواب دیا، اب آپ کی طرف سے سختی سے منع کے باوجود کیسے یہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ کثرت سے حاجی اس شک اور بدگمانی کے مرض میں مبتلا ہوئے ہوں ؟ لہذا اس شبہہ کو بیان کرنے والوں نے بغیر سند اور دلیل کے یہ بات کہی ہے ۔ انہوں نے کسی صحابی یا تابعی سے سند کے ساتھ اس چیز کو نقل نہیں کیا ہے۔ نہ کسی روایت میں اس شبھہ کی طرف اشارہ ہوا ہے نہ حدیث غدیر کا مضمون اور سیاق و سباق اس بات کی تائید کرتا ہے ،نہ ہی یہ عقل کی رو سے کوئی قابل قبول اور قابل دفاع بات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس شبہہ کو بیان کرنے والا ابن کثیر ،اپنی بات پر سند پیش کرنے کے بجائے آخر میں “ والله أعلم” لکھتا ہے، گویا یہاں وہ اپنی اس بات پر دلیل نہ ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ لہذا ابن کثیر کی اس بات کو تاریخی سند کے طور پر پیش کرنا منطقی اور علمی طریقہ نہیں ہے ۔بلکہ یہ وہی“ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ”والی بات ہے۔ جیش یمن کے بارے میں آیت الله دکتر حسینی قزوینی نے عربی میں ایک کتاب لکھی ہے اس کتاب کا مطالعہ کرنے یہاں کلیک کریں دانلود کتاب "حدیث غدیر و شبهة شکوی جیش الیمن"
(عجل الله تعالی فرجه الشریف) |