مورخه ١٨ ذی الحجہ ١٤٤٢ مطابق ٢٩ جولائی ٢٠٢١ کو نور انٹرنیشنل قرآنک ریسرچ اکیڈمی (ا ق ر ا) سے وابستہ قائم ہونے والے مرکز" قرآن سینٹر کشمیر" کے اہتمام سے عید غدیر کی مناسبت سے سماج میں موجود صالح مشترکات کو یکجہتی کے ساتھ انجام دینے کی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے کے لئے کشمیر کے چند نامور ہم فکر مبلغین نے عالمی شہرت یافتہ سیاحتی مقام ٹنگمرگ میں ملاقات کی جس میں عیدغدیر کی تقریب منانے کا اہتمام کرنے کے ساتھ منحوس وبا کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے صحت عامہ سے متعلق ضوابط کو مکمل طور رعایت کرنے کے ساتھ ساتھ سیروتفریح اور مذہبی سماجی تقریب کو انجام دینے کا عملی مظاہرہ کیا۔
تقریب کا آغاز کلام اللہ مجید قرآن کے پہلے جزء کے پہلے حزب کے پہلے رکوع سے کی گئی جس کی تلاوت کا شرف سنی عالم مولوی منظور صاحب نے اور جس کا اپناکشمیری ترجمہ شیعہ عالم آغا سید عبدالحسین بڈگامی (آغا سعحب) بیان کیا جس کے بعد آغا سعحب نے حدیث غدیر کا اپنا اردو ترجمہ پڑھ کر سنایا اور پھر گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔
واقعہ غدیر خم کے سلسلے میں علماء کا کہنا تھا کہ غدیر خم کا واقعہ ایسا تاریخی واقعہ ہے کہ جس کے بارے میں عالم اسلام کے تمام محققوں ، راویوں ، محدثوں ، مفسروں ، متکلموں ، خطیبوں ، شاعروں ، مورخوں ،اور سیرت نگاروں نے خاصی اہمیت کے ساتھ بیان کیاہے اور غدیر خم کے حدیث کے جاودانی ہونے کی ایک علت یہ ہے کہ اس واقعہ سے متعلق دو آیتیں(سورہ مائدہ کی تیسری اور ٦٧ویں آیت) قرآن کریم میں موجود ہیں، اور جب تک قرآن ہے تب تک حدیث غدیر بھی ہے ۔
علماء نے مزید بتایا کہ؛ تاریخ کے مطالعہ سے ایک بڑی دلچسپ بات سامنےآتی ہے اور وہ یہ کہ اٹھارویں ذی الحجۃ الحرام کو مسلمان بالعموم عید کے طور پر مناتے تھے۔ ابن خلقان اور ابوریحان بیرونی سے لیکر عالم اسلام کے معروف عالم ثعلبی نے بھی غدیر کو امت مسلمہ کے درمیاں مشہور شبوں میں شمار کیا ہے ۔ اس اسلامی عید کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہی پڑگئی تھی کیونکہ آپ نے اس دن تمام مہاجر ، انصار اور اپنی ازواج کو حکم دیا کہ علی علیہ السلام کے پاس جاؤ اور امامت و ولایت کے سلسلہ میں ان کو مبارکباد دو۔
غدیرخم میں حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے حوالے سے کہا گیا کہ: زید بن ارقم کہتے ہیں کہ : حضرت ابوبکر، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، طلحہ اور زبیر مہاجرین میں سے وہ افراد تھے جنہوں نے سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور مبارکباد پیش کی ۔ بیعت اور مبارکبادی کا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا ہے ۔
حدیث غدیر کو پڑھ کر سنایا گیا کہ جس کو ایک سو دس ١١٠ اصحاب رسول نے نقل کیا ہے اور دوسری صدی میں جس کو تابعین کا دور کہا گیا ہے ان میں سے اناسی ٨٩ افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔ اور بعد کی صدیوں میں بھی اہل سنت کے تین سو ساٹھ ٣٦٠ علماءنے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں بیان کیاہے اور علماءکی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کی سند کوصحیح تسلیم کیا ہے ۔ اس گروہ نے نہ صرف یہ کہ اس حدیث کو بیاں کیا بلکہ اس حدیث کی سند اور افادیت کے بارے میں مستقل طور کتابیں بھی لکھی ہیں۔ اور عالم اسلام کے سب سے بڑے مورخ طبری نے » الولایت فی طرق حدیث» نامی کتاب لکھی اور اس حدیث کو پچتھر ٧٥ طریقوں سے پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیاہے ۔اور ابن عقدہ کوفی نے اپنے رسالہ ولایت میں اس حدیث کو ایک سو پانچ ١٥٠ افراد سے نقل کیا ہے ۔اور ابوبکر محمد بن عمر بغدادی جوکہ جمعانی کے نام سے مشہور ہے انہوں نے اس حدیث کو پچیس ٢٥ طریقوں سے بیان کیا ہے۔حضرات احمد بن حنبل شیبانی، ابن حجر عسقلانی ، جزری شافعی ، ابوسعید سجستانی ، امیر محمد یمنی ، نسائی ابوالاعلاءہمدانی اور ابوالعرفان حبان نے اس حدیث کو بہت سی سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے ۔
تقریب میں حضرات مولوی سید فاروق بخاری، مولوی سلیم جاوید، راجہ معراج الدین، مولوی محمد یاسین بٹ،مولوی منظور، مولوی محمد لطیف، مولوی غلام قادر، مولوی محمد عرفان، مولوی سید جاوید، مولوی محمد اشرف لون، مولوی محمد عمر، مولوی قیصر اور آغا سعحب کے برادر اصغر حجت الاسلام و المسلمین آغا سید احمد موسوی نے نماں طور شرکت کی اور صالح مشترکات کو یکجہتی کے ساتھ انجام دینے کی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے کے لئے اس کوشش کو جاری رکھنے کی تاکید کی۔
آخر میں آغا سید عبدالحسین بڈگامی (آغا سعحب) نے اعلان کیا کہ ان شاءالله یکجہتی تہذیبی ثقافت کو ایک تحریک بنانے کے سلسلے میں ٢٤ ذی الحجہ عید مباہلہ مطابق ٤ اگست ٢٠٢١ کے دن دۄدھ پتھری بڈگام کے سیاحتی مقام پر ایک اور نشست کا اہتمام کیا جائے گا جہاں پر "نور یکجہتی تحریک"(نیت) نامی تحریک کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔