آیت اللہ حسینی قزوینی سے سوال اور جواب :
سوال : « فدک کے غصب » کا موضوع ہمارے لئے بہت روشن اور واضح موضوع ہے اور یہ شیعہ کتابوں میں واضح اور قطعی طور پر نقل ہوا ہے ۔لیکن ہم اس موضوع کو اہل سنت کی کتابوں میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا غصب فدک والا موضوع اہل سنت کی کتابوں میں بھی نقل ہوا ہے یا نہی ؟
آیةالله حسینی قزوینی:
اس سلسلے کے مطالب کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت صدیقه طاهره سلام اللہ علیہا جب فدک کا مطالبہ کرتی ہیں اور یہ کہتی ہیں کہ فدک کو میرے والد نے مجھے بخش دیا ہے تو اس وقت ابوبکر گواہ اور دلیل مانگتا ہے. خود یہی اس بات کی دلیل ہے کہ فدک غصب ہوگیا تھا اور اس کو جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا سے چھین لیا تھا اور یہ یقینی اور قطعی بات ہے۔
جیساکہ یہی بات اہل سنت کے بعض کتابوں میں بھی ذکر ہے مثلا «ابن شبة النمیری» متوفی 262 هجری کہ جو «مسلم» سے ایک سال بعد دنیا سے گیا ، وہ اپنی مشہور کتاب «تاریخ مدینه منوره» میں نقل کرتا ہے ۔
«ان ابابکر رضی الله عنه انتزع من فاطمة رضی الله عنها فدک»
ابوبکر نے فدک جناب زہرا سے چھین لیا ۔
تاریخ المدینة المنورة با تحقیق فهیم محمد شلتوت، ج1، ص 199
لہذا یہ بہت ہی روشن اور واضح ہے جیساکہ «ابن حجر هیثمی» نے اسی عبارت کو «الصواعق المحرقه» میں نقل کیا ہے :
«قيل له إن أبا بكر انتزع من فاطمة فدك»
ابوبکر نے فدک کو جناب زہرا سے چھین لیا ۔
الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، اسم المؤلف: أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر الهيثمي، دار النشر: مؤسسة الرسالة - لبنان - 1417هـ - 1997م، الطبعة: الأولى، تحقيق: عبد الرحمن بن عبد الله التركي - كامل محمد الخراط؛ ج1، ص 157
«أبي بكر أحمد بن عبدالعزيز الجوهري البصري البغدادي» نے بھی کتاب «السقیفه و فدک» میں نقل کیا ہے «انتزع ابوبکر فدک من فاطمة» انہوں نے اس کو مکمل طور پر نقل کیا ہے .
قابل توجہ نکتہ :
سوال : حضرت زهرا (سلام الله علیها) فدک کو شخصی ملکیت کے طور پر خلیفه اول سے مطالبہ کرتی ہیں لیکن خلیفه اول حضرت زهرا (سلام الله علیها) سے دلیل اور گواہ کا مطالبہ کرتا ہے ۔ اس سلسلے میں مزید کتابوں کے حوالے اور سند پیش کریں ۔
آیةالله حسینی قزوینی:
جی یہی گواہ اور دلیل طلب کرنے والی روایت بھی «فدک» کے غصب ہونے پر دلیل ہے۔ دیکھیں «بلاذری» متوفی 279 هجری کہ جو جس سال «ترمذی» دنیا سے گئے یہ بھی دنیا سے گئے} یہ اپنے کتاب میں نقل کرتے ہیں :
«أن فاطمة رضي الله عنها قالت لأبي بكر الصديق رضي الله عنه اعطني فدك فقد جعلها رسول الله لي فسألها البينة»
فاطمه نے ابوبکر سے کہا : فدک مجھے واپس کردو ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو میری ملکیت قرار دی ہے ۔ابوبکر نے ان سے گواہ اور دلیل طلب کیا.
فتوح البلدان، اسم المؤلف: أحمد بن يحيى بن جابر البلاذري، دار النشر : دار الكتب العلمية - بيروت - 1403، تحقيق: رضوان محمد رضوان؛ ج1، ص 44
یہاں کچھ نکات قابل توجہ ہے ۱فدک کا مطالبہ کرنا ۔۔ ۲: فدک پیغمبر (ص) کی ملکیت تھی اور اس کو حضرت فاطمہ(س) کی ملکیت قرار دیا تھا ۔۔۔۳ : حضرت زہرا (س ) کا سوال یہ تھا کہ تم نے فدک مجھ سے کیوں چھین لیا ؟
کہتے ہیں: «فسألها البینه»!! ان سے گواہ اور دلیل کا مطالبہ کیا ۔ یہ بہت ہی عجیب بات ہے کہ خلیفہ اول یہ کہے :کہ اگر اس کو رسول اللہ (ص) نے تمہیں بخش دیا ہے تو جائے دلیل اور گواہ لے کر آئے۔ دیکھتے ہیں آپ کے گوہ کون ہے ؟کون آپ کے حق میں یہ گواہی دیتا ہے کہ پیغمبر (ص) نے یہ فدک آپ کے حوالے کیا ہو ؟
دیکھیں «فتوح البلدان» «بلاذری» کی کتاب ہے، اس میں تفصیل سے یہ باتیں آئی ہیں کہ علی بن ابی طالب(ع ) نے گواہی دی . کہا : ایک اور گواہ لے آو۔ «ام ایمن» نے گواہی دی ،کہا گواہ میں یا دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں۔
«یاقوت حمویی متوفی ۶۲۶» نے بھی «معجم البلدان» میں اس واقعے کو نقل کیا ہے ۔وہ فدک کے بارے میں لکھتا ہے :
«و هی التی قالت فاطمة سلام الله علیها نحلنیها ان رسول الله
فدک وہی ہے جس کے بارے میں حضرت فاطمہ (سلام الله علیها) نے ابوبکر سے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے بخش دیا ہے ۔
فقال ابوبکر رضی الله عنه ارید لذلک شهودا
ابوبکر نے کہا : اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے دلیل اور گواہ پیش کرو۔
بعد میں کہتا ہے :و لها قصة۔ ایک خود ہی ایک داستان ہے ۔
معجم البلدان، اسم المؤلف: ياقوت بن عبد الله الحموي أبو عبد الله، دار النشر: دار الفكر – بيروت؛ ج4، ص 238
بلاذری اس کے بعد کہتا ہے : ابوبکر نے فدک نہیں دیا . لیکن بعد میں خلیفہ دوم نے اجتھاد کر کے فدک حضرت زہرا (ع) کے فرزندوں کو واپس کردیا۔
«شمس الدین سرخسی» متوفی 483 کہ جو بڑا حنفی عالم ہیں وہ بھی لکھتے ہیں :
«انها یعنی فاطمة سلام الله علیها ادعت ان رسول الله وهب فدک لها»
فاطمہ نے یہ دعوا کیا: فدک رسول اللہ (ص) نے مجھے ھبہ کیا ہے اور یہ میری ملکیت ہے۔
سرخی نے اس کو اپنی کتاب " مبسوط " میں نقل کیا ہے اور یہ کتاب حنفی مکتب کی سب سے تفصیلی اور فقہی کتاب ہے ۔۔۔
ان رسول الله وهب فدک لها و اقامت رجلا و امراة
فاطمہ(س) نے فدک کے بارے میں یہ ادعا کیا کہ اس کو رسول اللہ (ص) نے ھبہ کیا ہے اور اس کے لئے ایک مرد اور ایک عورت کو گواہ کے طور پر پیش کیا ۔
ضمی الی الرجل رجلا او الی المراة امراة
ابوبکر نے فاطمه زهرا (س) سے کہا : علی نے گواہی دی ہے اب ایک اور مرد یا ام ایمن کے ساتھ ایک اور عورت لے آو .
فلما لم تجد ذلک
فاطمه زهرا کو کوئی اور گواہی دینے کے لئے نہیں ملی .
اب حضرت فاطمہ کی مظلومیت دیکھیں ،کوئی گواہی دینے والا نہیں ملا ۔
جعلت تقول من یرثک
فاطمه زهرا نے ابوبکر سے کہا : اگر تم مرے تو تیرا وارث کون ہوگا ؟
فقال ابوبکر رضی الله عنه اولادی
ابوبکر نے کہا : میری اولاد میرے وارث ہوں گے .
فاطمه نے فرمایا :
ان یرثک اولادک و لا ارث انا من رسول الله؟
عجیب بات ہے کہ تماری اولاد تم سے ارث لے لیکن میں اپنے والد رسول اللہ (ص) سے ارث نہ لوں ؟
ابوبکر نے کہا :ہاں ،میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے :
انا معشر الانبیاء لا نورث
ہم پیغمبر حضرات ارث چھوڑ کر نہیں جاتے ۔
ما ترکناه صدقة
جو چھوڑے جاتے وہ صدقہ ہے ۔
المبسوط، اسم المؤلف: شمس الدين السرخسي، دار النشر: دار المعرفة - بيروت ج12، ص 29
لیکن سرخی نے اس کو نقل نہیں کیا ہے کہ جناب فاطمہ زہراء (سلام الله علیها) نے پلٹ کر جواب دیا کہ یہ حدیث جو تم نقل کر رہے ہو«انا معشر الانبیاء لا نورث»؛ یہ قرآن کے خلاف ہے۔
قرآن نے حضرت سلیمان کے بارے میں کہا ہے۔ «وَ وَرِثَ سُلَيْمانُ داوُد»
سلیمان نے داود سے ارث لیا ۔ سوره نمل(27): آیه 16
حضرت یحیی اور زکریا کے بارے میں قرآن میں اللہ نے فرمایا :«يَرِثُني وَ يَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوب»
مجھے ایسا وارث دے جو مجھ سے اور آل یعقوب سے ارث لے ۔ سوره مریم (19): آیه 6
«ابوجعفر طحاوی» کہ جو اہل سنت کے اہم علماء میں سے ہیں، ان کی کتابیں اہل سنت کے دینی مدارس کے کورس میں شامل ہے وہ «شرح معانی الاثار» میں اسی مسئلے میں «ام هانی» سے ایک روایت نقل کرتا ہے :
«فَاطِمَةَ رضي الله عنها قالت لِأَبِي بَكْرٍ من يَرِثُك إذَا مِتَّ
فاطمہ نے ابوبکر سے کہا : تم اگر مرجائے تو کون تجھ سے ارث لے گا ؟
ابوبکر نے جواب میں کہا : میرے گھر والے ۔
فمالك تَرِثُ رَسُولَ اللَّهِ دُونَنَا
اب یہ کیسے ہوا کہ تو رسول اللہ ص سے ارث لے لیکن ہم ان سے ارث نہ لیں ۔
قال يا ابْنَةَ رسول اللَّهِ ما وَرَّثَ أَبُوك دَارًا وَلاَ مَالًا وَلاَ غُلاَمًا وَلاَ ذَهَبًا وَلاَ فِضَّةً
ابوبکر نے کہا : اے رسول اللہ (ص) کی بیٹی ! آپ کے والد نے نہ گھر ارث میں چھوڑا ہے، نہ کوئی مال ، نہ کوئی غلام ،نہ سونا اور نہ چاندی ، کوئی چیز ارث چھوڑ کر نہیں گیے ہیں۔
شرح معاني الآثار، اسم المؤلف: أحمد بن محمد بن سلامة بن عبدالملك بن سلمة أبو جعفر الطحاوي، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1399، الطبعة: الأولى، تحقيق: محمد زهري النجار؛ ج3، ص 308
عجیب بات ہے کہتا ہے : نہ کوئی گھر، نہ کوئی مال کچھ بھی ارث میں چھوڑ کر نہیں گیا ہے۔ اب کیا رسول اللہ )ص( کے پاس کوئی مال نہیں تھا! رسول اللہ )ص( کے ۸ یا ۹ ازواج کے حجرے ان کی اپنی ملکیت تھی یا رسول اللہ )ص( کی ؟ اللہ کی قسم معلوم نہیں اصل داستان کیا ؟
قرآن تو کہتا ہے : (يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِي) اے ایمان والوا نبی کے گھر میں داخل نہ ہوجائے۔ سوره احزاب (33): آیه 53
اب یہ تو قرآن کہہ رہا ہے ،آپ کیا کہیں گے ؟یہاں تو قرآن ہے ،واضح طور پر جمع کا صیغہ لاکر کہہ رہا ہے ، رسول کے گھریں یا حجرے ۔ اب ابوبکر کہتا ہے ؟ رسول اللہ (ص) نے نہ کوئی گھر وراثت میں چھوڑا ہے نہ کوئی مال ،نہ غلام ،نہ سونا اور نہ کوئی چاندی۔ جبکہ حضرت زهرا (س) فرماتی ہیں:
«فَدَكُ التي جَعَلَهَا اللَّهُ لنا وَصَافِيَتَنَا التي بِيَدِك لنا»
فدک کو اللہ نے ہمارے لئے قرار دیا ہے اب جو تیرے قبضے میں ہے وہ ہماری ملکیت ہے ۔
یہ جو فرمایا : فدک اللہ نے ہمارے لئے قرار دیا ہے یہ اس آیه «و آت ذا القربی حقه» کی طرف اشارہ ہے ۔۔
ابوبکر نے پلٹ کر کہا : إنَّمَا طُعْمَةٌ أَطْعَمَنِيهَا اللَّهُ عز وجل
یہ حقیقت میں خرچہ پانی تھا کہ جو اللہ نے آپ لوگوں کے اختیار میں دیا تھا ۔
فإذا مِتَّ فَهِيَ بين الْمُسْلِمِينَ۔
جب رسول اللہ ص دنیا سے چلے جائے تو یہ سب مسلمانوں میں تقسیم ہونا چاہئے۔
شرح معاني الآثار، اسم المؤلف: أحمد بن محمد بن سلامة بن عبدالملك بن سلمة أبو جعفر الطحاوي، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1399، الطبعة: الأولى، تحقيق: محمد زهري النجار؛ ج3، ص 308
اب لگتا ایسا ہے کہ حضرت زهرا)س( اور حضرت علی)ع( ، مسلمانوں میں سے نہیں تھے !!! کیونکہ اگر تقسیم ہی ہونا ہے تو ان کا حصہ انہیں ملنا چاہئے تھا بقول «ابن تیمیه» ابوبکر اسی لئے حضرت زہرا کے گھر آیا تھا تاکہ یہ دیکھ لے کہ ان کے گھر میں بیت المال کا کوئی مال چھپایا ہوا ہے یا نہیں؟ :
وغاية ما يقال إنه كبس البيت لينظر هل فيه شيء من مال الله الذي يقسمه وأن يعطيه لمستحقه ثم رأى أنه لو تركه لهم لجاز فإنه يجوز أن يعطيهم من مال الفيء
منهاج السنة النبوية، اسم المؤلف: أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس، دار النشر: مؤسسة قرطبة - 1406، الطبعة: الأولى، تحقيق: د. محمد رشاد سالم؛ ج8، ص 291
یہ لوگ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ حضرت علی اور حضرت زهرا کے گھر میں بیت المال کی کوئی چیز تو نہیں {مثلا انہوں نے کوئی چیز چھپا رکھی ہو تو اسے باہر نکال کر مسلمانون میں تقسیم کیا جائے} ۔
«ابن شبة النمیری» نے یہی بحث «اخبار مدینه منوره» میں تفصیل سے نقل کیا ہے؛ وہ لکھتا ہے : حضرت فاطمہ نے ابوبکر سے کہا :«من یرثک اذا مت»
جب دنیا سے چلا جائے تو کون تیرا وارث ہوگا ؟
ابوبکر نے کہا : ما ورث اباک دارا و لا مالا و لا ذهبا و لا فضة۔ ۔۔۔۔۔۔۔
اے رسول اللہ (ص) کی بیٹی ! آپ کے والد نہ گھر ارث میں چھوڑ کر گیا ہے نہ کوئی مال ، نہ کوئی غلام ،نہ سونا اور نہ چاندی، کوئی چیز ارث چھوڑ کر نہیں گیے ہیں۔
حضرت زہراء نے جواب دیا : فدک کو اللہ نے ہمارے لئے قرار دیا ہے اب جو تیرے قبضے میں ہے وہ ہماری ملکیت ہے ۔ابوبکر کہتا ہے : یہ خرچہ پانی تھا ، اللہ نے آپ لوگوں کے اختیار میں دیا تھا ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا سے چلے گئے تو یہ سب مسلمانوں کا ہے ۔۔۔
تاريخ المدينة المنورة، اسم المؤلف: أبو زيد عمر بن شبة النميري البصري، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1417هـ-1996م، تحقيق: علي محمد دندل وياسين سعد الدين بيان؛ ج1، ص123
اھل سنت کے ہاں رائج ایک قانون اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی طرف سے ادعا:
یہ گفتگو متعدد کتابوں میں مختلف طرق سے نقل ہوئی ہے ۔اب یہ دیکھنا ہے کہ اس کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں ۔
اہل سنت کے ہاں رائج ایک قانون ۔کسی روایت کی سند ضعیف بھی ہو لیکن اس کے طرق متعدد ہو تو یہ پھر ضعیف نہیں رہے گئ۔ جیساکہ ابن تیمیہ کہتا ہے :
«فَإِنَّ تَعَدُّدَ الطُّرُقِ وَ كَثْرَتَهَا يُقَوِّي بَعْضَهَا بَعْضًا حَتَّى قَدْ يَحْصُلُ الْعِلْمُ بِهَا وَ لَوْ كَانَ النَّاقِلُونَ فُجَّارًا فُسَّاقًا»
طرق متعدد اور زیادہ ہو تو اس صورت میں بعض طرق بعض کو قوی بناتا ہے ، ایک دوسرے کی تقویت کرتا ہے ۔ کثرت طرق سے ہمیں ان کے مضمون کی صحت پر علم حاصل ہوسکتا ہے۔ یہاں تک کہ نقل کرنے والے فاجر اور فاسق ہی کیوں نہ ہو ۔
كتب ورسائل وفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية، اسم المؤلف: أحمد عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس، دار النشر: مكتبة ابن تيمية، الطبعة: الثانية، تحقيق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي؛ ج18، ص 26۔
لہذا اہل سنت کے ہاں رائج اس قانون کی وجہ سے جو روایتیں ہم نے نقل کی ہے ان میں سے ہر ایک کی سند ضعیف بھی ہوں پھر بھی کیونکہ طرق متعدد ہیں لہذا یہ اب ضعیف نہیں ۔
کیا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے دلیل اور گواہ کا مطالبہ کرنا قرآن اور سنت کے خلاف عمل نہیں ہے !؟
سوال : یقینا آج کے مسلمانوں کے لئے اس چیز کا تصور انتہائی سخت ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سے گواہ طلب کیا ہو ۔ اب یہاں کس شخصیت سے گواہ کا مطالبہ ہورہاہے ؟ فاطمہ زہرا جیسی شخصیت سے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یاد گار ، آپ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب ، تمام عورتوں کی سردار ، صداقت اور سچائی کے پیکر ہیں ۔
کیا اس طرح حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے گواہ اور دلیل کا مطالبہ کرنا قرآن اور سنت کے مطابق کوئی مناسب کام تھا ؟
آیةالله حسینی قزوینی:
جی ہمارا درد بھی یہی ہے کہ رسول اللہ )ص( کی وہ بیٹی جن کی فضیلت کے بیان میں اتنی ساری آیات اور روایات ہیں ۔کیا ان سب فضائل کے باوجود ان کے ادعا کو قبول نہ کیا جائے ؟
حضرت زہرا)س( کی مظلومیت کی نشانیوں میں سے ایک یہی ہے ، بہت سی روایات کہتی ہیں کہ حضرت زہرا )س( نے یہ دعوا کیا کہ فدک میری ملکیت ہےلیکن آگے سے جواب ملتا ہے ؛ گواہ لے آو۔
اب دیکھیں کہ اللہ کی قسم آیت تطہیر میں ازواج شامل ہوں یا نہ ہوں دونوں صورتوں میں حضرت زہرا )س( اس میں ضرور شامل ہیں ،حضرت علی )ع( بھی آیت تطہیر میں شامل ہو یا نہ ہو لیکن حضرت زہرا)س( تو ضرور اس میں شامل ہیں ۔اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ۔
«صحیح مسلم» دارالطیبة ریاض اور حدیث نمبر 2424 میں دقت کریں
«قالت عَائِشَةُ خَرَجَ النبي غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ من شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بن عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جاء الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ معه ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جاء عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قال (إنما يُرِيدُ الله لِيُذْهِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا)»
جناب عائشہ نقل کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر سے اس حالت میں نکلے کہ آپ ایک سیاہ چادر اوڑھے ہوئے تھے ۔ اتنے میں امام حسن آئے اور چادر کے نیچے انہیں بٹھا دیا اور پھر امام حسین آئیں ان کو بھی چادر کے نیچے بھٹادیا ،پھر جناب فاطمہ آئیں انہیں بھی چادر کے نیچے بھٹا دیا پھر حضرت علی آئیں ،انہیں بھی چادر کے اندر داخل کردیا پھر آپ نے فرمایا : بے شک اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ آپ اہل بیت کو ہر قسم کی ناپاکی سے پاکیزہ رکھا جائے ۔«إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا»
صحيح مسلم، اسم المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري، دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي؛ ج4، ص1883، ح2424
کیا حضرت زہرا آیت تطہیر شامل ہے یا نہیں ؟ اللہ کی پناہ ؛ اگر حضرت زہرا اپنے ادعا میں نعوذ باللہ جھوٹی ہو تو پھر یہ آیت «لیذهب عنکم الرجس اهل البیت» باطل نہیں ہوگی؟ کیا آیت کے باطل ہونے سے رسول اللہ )ص( کا ادعا باطل نہیں ہوگا ؟
« محمد ناصرالدین البانی » اپنی تالیف «صحیح سنن ترمذی» میں کہتا ہے «إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ...» یہ آیت پیغمبر پر نازل ہوئی ؛ آپ جناب ام سلمہ کے گھر پر تھے ایک یمانی چادر اوڑھی اور جناب فاطمہ امام علی اور امام حسن و امام حسین علیہم السلام کو بلایا اور چادر ان پر اوڑھ کر یہ دعا کی :
«اللهم هؤلاءُ اهل بیتی فاذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهیراً»
اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ہر قسم کی رجس اور ناپاکی کو اس طرح دور فرما جس طرح دور کرنے کا حق ہے
اب یہ تو رسول اللہ )ص( ہیں اور آپ ہر قسم کی ناپاکی دور کرنے کی دعا فرمارہے ہیں ۔ام سلمہ کہتی ہے :
یا رسول الله انا معهم؟
اے رسول اللہ ص کیا میں بھی ان میں شامل ہوں ؟
فرمایا: انت علی مکانک و انت علی خیر
آپ اپنی جگہ بیٹھی رہے آپ نیک اور ایک اچھی عورت ہے ۔
ترمذی بھی لکھتا ہے :
«هذا حدیث حسن صحیح و هو احسن شیء روی فی هذا الباب»
یہ روایت ایک اعتبار سے حسن اور ایک اعتبار سے صحیح ہے اور یہ اس سلسلے کی بہترین روایت ہے ۔۔۔صحيح وضعيف سنن الترمذي؛ المؤلف: محمد ناصر الدين الألباني (المتوفى: 1420هـ)، مصدرالكتاب: برنامج منظومة التحقيقات الحديثية - المجاني - من إنتاج مركز نور الإسلام لأبحاث القرآن والسنة بالإسكندرية؛ ج8، ص 371
کیا اس سے واضح تر جناب زہرا کی صداقت پر کوئی دلیل ہوسکتی ہے ؟ اب جو یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی ہے تو کیا ان سے گواہ طلب کرنا اس آیت کے خلاف کام نہیں ہے ؟
بہت ہی تعجب کی بات ہے کہ حضرت علی بن ابیطالب)ع( نے بھی گواہی دی آپ بھی اس آیت کے مصداق ہیں لیکن گواہی قبول نہیں ہوئی ۔ اب جو کچھ شیعہ کہتے ہیں وہ سب جھوٹ ہی صحیح ۔۔، کیا یہ خود حضرت امیر المومنین اور جناب صدیقه طاهره علیہما کی مظلومیت کی دلیل نہیں ؟ ۔
اسی طرح «مباهله» کے واقعے میں بھی دیکھیں رسول اللہ )ص( کن لوگوں کو ساتھ لے کر گئے؟ شیعہ اور اہل سنت کے برادران ذرا غور تو کریں مباہلہ میں رسول اللہ )ص( کیا ثابت کرنا چاہتے تھے ؟
مباھلہ یہ دیکھنے کے لئے تو تھا کہ حضرت محمد )ص( پیغمبر ہے یا نہیں ہے ؟ ادعای رسالت اور نبوت میں آپ سچے ہیں یا نہیں ،یہی تو ثابت کرنا تھا ؟ اب دیکھیں نبوت اور رسالت کی صداقت کے گواہ کے طور پر کن لوگوں کو ساتھ لے کر گئے؟ آپ نے حضرت علی ،حضرت فاطمہ ،حضرت امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کو ساتھ لیا ۔
اب عجیب بات یہ ہے کہ حضرت علی ، حضرت زہرا اور امام حسن و امام حسین علیہم السلام نبوت کو ثابت کرنے اور اللہ کے نص کے مطابق پیغمبر )ص( کی صداقت کے اثبات کی قابلیت تو رکھتے تھے۔ لیکن فدک کے معاملے میں آپ لوگوں میں یہ شائستگی نہیں تھی ؟
کیا یہ ان کی مظلومیت کی دلیل نہیں ؟
«صحیح مسلم» دارالطیبة ریاض کی چھاپ کے مطابق حدیث نمبر 2404 ملاحظہ کریں :
«و لما نزلت هذه الآیة (آیه 61 سوره آل عمران)جب یہ آیت نازل ہوئی ۔
فقل تعالوا ندعوا ابناءنا و ابناءکم
رسول اللہ )ص( کو حکم ہوا کہ ان سے کہہ دینا : ہم اپنے بچوں کو لے کر آتے ہیں تم لوگ بھی اینے بچوں کو لے کرآو۔ ہم اپنی جانوں اور نفسوں کو لے کر آتے ہیں تم لوگ بھی اپنے بچوں کو لے کر آو ۔۔
دعا رسول الله علیا و فاطمة و حسنا و حسینا
پیغبمر )ص( نے امام علی ،جناب فاطمہ اور امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کو بلا کر فرمایا:
اللهم هؤلاء اهلی۔۔ اے اللہ! یہی میرے گھرانے کے افراد ہیں۔
صحيح مسلم، اسم المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري، دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي؛ ج4، ص 1871، ح2404
یہاں یہ بھی قابل توجہ ہے کہ «ابن کثیر دمشقی» نے اپنی تفسیر «تفسیر قرآن العظیم» میں اسی مباہلہ کے واقعے کو بیان کیا ہے اور جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نجران کے مسیحیوں سے بحث کی اور جب وہ لوگ تسلیم نہیں ہوئے تو مباہلہ کا فیصلہ کیا اور مقرر وقت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی ، فاطمه ، حسن اور حسین علیہم السلام کو ساتھ لیا اور آگے بڑے : یہاں تک لکھا ہے:
«نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَكُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَكُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَكُم قال جابر و انفسنا و انفسکم رسول الله و علی بن ابی طالب»
جابر کہتے ہیں : اس میں انفسنا سے مراد رسول اللہ )ص( اور حضرت علی بن ابی طالب )ع( ہیں
تفسيرالقرآن العظيم،: إسماعيل بن عمر بن كثير الدمشقي أبو الفداء، دار النشر: دار الفكر - بيروت – 1401؛ ج1، ص372
ابناءنا سے مراد امام حسن و حسین ، نساءنا سے حضرت فاطمه زهرا ہیں. پھر ابن کثیر آگے لکھتا ہے کہ اس کو حاکم نیشاپوری نے مستدرک میں نقل کیا ہے اور کہا ہے : یہ روایت صحیح ہے اور شیخیص کی شرط کے مطابق یہ روایت صحیح ہے ۔ پھر شعبی و غیره سے نقل کرتا ہے اور کہتا ہے : یہ صحیح ترین روایات میں سے ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان ہستیوں سے اس معاملے میں دلیل اور گواہ کا مطالبہ کرنا ان روایات اور آیات سے نہیں ٹکراتا؟
اب یہ ہستیاں جو رسول اللہ )ص( کی رسالت اور نبوت کے گواہ کے طور پر جاسکتے ہیں تو کیا فدک کے مسئلے میں ان کی گواہی اور ادعا کو قبول نہیں کرنا چاہئے ؟
فدک کی ان ہستیوں کے مقابلے میں کیا حیثیت تھی ؟
اگر مان لیا جائے کہ فدک سارے مسلمانوں کی ملکیت تھی اب جب جناب فاطمہ)س( مطالبہ کر رہی تھیں تو کیا ان کے مطالبے کی اتنی قیمت نہیں تھی کہ وہ ممبر پر جاکر مسلمانوں سے کہہ دیتے : جناب فاطمہ)س( نے فدک کا مجھ سے مطالبہ کیا ہے ۔اب کیا آپ لوگ اس بات پر راضی ہے کہ میں اسے جناب فاطمہ)س( کو دے دوں ؟ یہاں کوئی ایک بندہ بھی اعتراض کرتا تو دیکھتے۔
یہ بھی چھوڑے جناب فاطمہ)س( نے ایسے ہی دینے کا مطالبہ کیا ہو تو کیا فدک انہیں دے دینے میں کیا مشکل تھی،جبکہ اسی فدک کو بعد کے دور میں دوسروں کے قبضے میں دیا گیا ؟
یا جس طرح جابر بن عبد اللہ نے آکر خلیفہ کے سامنے یہ ادعا کیا کہ رسول اللہ )ص( نے مجھے بحرین سے آئے مال سے کچھ دینے کا وعدہ دیا ۔ ابوبکر نے اس کے دوبرابر انہیں دے دیا ان سے گواہی کا کوئی کا مطالبہ ہی نہیں کیا ۔اسی طرح «ابولؤلؤ» کی بیٹی کا قاتل عبد الرحمن بن عمر جب انہیں ناحق مار دیتا ہے اور اگر مان لے «ابولؤلؤ» ہی عمر کا قاتل تھا تو اس کی بیٹی کا کیا قصور تھا؟ اب یہاں سارے مسلمان کہتے ہیں : اس پر حد جاری کیا جائے اور اس کو قتل کے بدلے قتل کیا جائے ،حضرت علی ع کہتے ہیں اس پر حد جاری کرو اور آپ یہ کہتے تھے اگر طاقت اور قدرت میرے ہاتھ آئے تو میں اس پر حد جاری کروں گا اسی لئے امیر المومنین نے جنگ جمل میں اس کو قتل کر دیا ۔
لیکن خلیفہ سوم ممبر پر جاکر کہتا ہے : لوگو !میں نے اس مقتول اور اس کے بھائی کی نسبت سے اپنے حق سے درگز کیا ہے آپ لوگ بھی اس سے درگزر کریں ، سب نے کہا : ہم نے بخش دیا ۔ اب کیا یہی کام خلیفہ فدک کے مسئلے میں نہیں کرسکتا تھا ؟۔
حضرت زهرا (سلام الله علیها) کا لقب «اصدق الناس»
ایک اور سوال :
اہل سنت کی کتابوں میں یہ چیز موجود ہے کہ جناب عائشہ کہتی ہے کہ حضرت فاطمہ ، رسول اللہ )ص( کے بعد سب سے زیادہ سچا انسان ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جو ہستی «اصدق الناس» ہو ،رسول اللہ )ص( کے بعد سب سے صادق اور سچی ذات ہو تو کیا ایسی ہستی سے دلیل اور گواہ مانگنا صحیح عمل ہے ؟
آیةالله حسینی قزوینی:
اب یہاں تو دلی صدمہ اور زیادہ بڑھ جاتا ہے ،اہل سنت کے برادران بھی غور کریں ،ہم اہل سنت کے مقدسات کی توہین کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں !
لیکن علمی بحث کرنا توہین کے زمرے میں نہیں آتا ، علمی بحث کرنے کو توہین کرنا نہیں کہا جاتا ۔علمی بحث کا تعلق عقل و منطق سے ہے جبکہ برا بلا کہنے کا تعلق احساسات اور جذبات سے ہے .
اب ہم مذکورہ لقب کو «مسند ابویعلی الموصلی» سے نقل کرتے ہیں ۔
«قالت عایشه ما رایت احدا قط اصدق من فاطمة کان بینهما شیء فقالت یا رسول الله سلها فانها لا تکذب »
جناب عائشہ کہتی ہے : میں نے حضرت زهرا )ع( سے زیادہ سچی نہیں دیکھی ، جناب عایشه اور ان کے درمیان کچھ اختلاف تھا ۔ تو اس وقت جناب عائشہ رسول اللہ )ص( سے کہتی ہے : یا رسول اللہ )ص( آپ فاطمہ سے پوچھیں کیونکہ فاطمہ جھوٹ نہیں بھولتیں ۔
مسند أبي يعلى، المؤلف: أبو يعلى أحمد بن علي بن المثُنى بن يحيى بن عيسى بن هلال التميمي، الموصلي (المتوفى: 307هـ)، المحقق: حسين سليم أسد، الناشر: دار المأمون للتراث – دمشق، الطبعة: الأولى، 1404 – 1984؛ ج8، ص 153، ح4700
«قط» یعنی هرگز ۔
اب یہاں " کان بینهما شیء " سے مرد شاید جناب عایشه اور حضرت پیغمبر )ص( کے درمیان کوئی اختلاف تھا ، عایشه کہتی : حضرت زهرا)س( سے پوچھیں . اب یہاں پر قاضی حضرت زهرا ہیں کہ جو ہر گز جھوٹ نہیں بھولتیں۔
اس کی سند میں یہ کہتے ہیں : اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ عمر بن دینار نے جناب عائشہ سے یہ خبر نہیں سنی ہے ،جبکہ اہل سنت والے تابعی کے مرسل روایت کو حجت سمجھتے ہیں ۔
محقق کہتا ہے : «هیثمی» نے کہا ہے اس روایت کے راوی صحیحین کے راوی ہیں . «ابن حجر» نے «المطالب العالیة» اور حاکم نیشابوری نے مستدرک میں اس سند کو صحیح کہا ہے . اور ایک جگہ پر حاکم نیشاپوری نے کہا ہے یہ صحیح مسلم کے شرائط کے مطابق صحیح ہے ، ذهبی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے ۔
اب «مستدرک حاکم» میں موجود سند کے بارے میں دقت کریں ؛
«ان عائشة رضي الله عنها أنها كانت إذا ذكرت فاطمة بنت النبي قالت ما رأيت أحدا كان أصدق لهجة منها إلا أن يكون الذي ولدها»
«هذا حدیث صحیح علی شرط مسلم»
یحی بن عباد اپنے والد {عباد } سے نقل کرتا ہے۔جس وقت جناب عائشہ کے سامنے جناب زہراء سلام اللہ علیہا کا تذکرہ ہوتا تو وہ کہتی تھی کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ سچ بولنے والی میں نے نہیں دیکھی مگر وہ کہ جس سے آپ کی پیدائیش ہوئی۔{یعنی آپ کے والد گرامی}
حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں کہ یہ روایت صحیح مسلم کی شرط کے مطابق صحیح سند ہے لیکن اس نے اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے۔
المستدرك على الصحيحين، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم النيسابوري، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1411هـ - 1990م، الطبعة : الأولى، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا؛ ج3، ص175، ح4756
«حلیه الاولیاء» میں «ابو نعیم اصفهانی» نے بھی اسی روایت کو نقل کیا ہے
«ما رایت احدا قط اصدق من فاطمه غیر ابیها»
میں نے فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ سچ بولنے والی نہیں دیکھی سوای ان کے والد کے۔
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، اسم المؤلف: أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني، دار النشر: دار الكتاب العربي - بيروت - 1405، الطبعة: الرابعة؛ ج2، ص42
انہوں نے مسند ابویعلی کی روایت کو نقل کیا ہے ، «ابن عبدالبر» نے بھی «الاستیعاب» میں اس سلسلے کی کئ روایات نقل کی ہیں ۔ وہ یہ بھی نقل کیا ہے کہ جب بھی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا آپ کے پاس آتیں تو آپ ان کے استقبال کے لئے گھڑے ہوجاتے ،ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے ۔ جناب عائشہ کہتی ہے :«ما رایت احدا اصدق لهجة من فاطمه»
میں نے فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ سچ بھولنے والی نہیں دیکھی۔
الاستيعاب في معرفة الأصحاب، اسم المؤلف: يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر، دار النشر: دار الجيل - بيروت - 1412، الطبعة: الأولى، تحقيق: علي محمد البجاوي؛ ج4، ص 1896
«مجمع الزوائد» میں «هیثمی» متوفی 807هجری، نے بھی نقل کیا ہے :
«عن عایشه قالت ما رایت افضل من فاطمه غیر ابیها»
میں نے فضیلت میں فاطمہ جسی کسی کو نہیں، دیکھی سوای ان کے والد کے ۔
اگرچہ انہوں نے اصدق کے جگہ پر افضل کا لفظ لایا ہے ،اب اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ہمیں معلوم نہیں لیکن پھر بھی شاعر کے بقول : المعنی فی بطن الشاعر ۔شعر کا معنی شاعر کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے ۔
فکان بینها شیء فقالت یا رسول الله سلها فانها لا تکذب
ان دونوں کے درمیان کوئی مسئلہ تھا ،جناب عائشہ کہنے لگی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ؛ آپ فاطمہ سے پوچھیں ۔ کیونکہ فاطمہ جھوٹ نہیں بولتیں۔
ہیثمی آگے کہتا ہے : طبرانی نے اوسط میں نقل کیا ہے ؛
ما رایت احدا قط اصدق من فاطمه»
میں نے فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ سچ بولنے والی نہیں دیکھیں ۔
«و رجالهما رجال الصحیح»
طبرانی اور ابو یعلی کی سند کے راوی صحیح کے راوی ہیں ۔
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، اسم المؤلف: علي بن أبي بكر الهيثمي، دار النشر: دار الريان للتراث/دار الكتاب العربي - القاهرة , بيروت – 1407؛ ج9، ص 201
«ابن حجر عسقلانی» نے «المطالب العالیة» میں نقل کیا ہے ،حدیث نمبر 3957 میں دقت کریں:
«ما رایت احدا قط اصدق من فاطمه غیر ابیها»
فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ سچ بولنے والی میں نے نہیں دیکھی سوای ان کے والد کے ۔
المطالب العالیۃ کا محقحق لکھتا ہے :«صحیح بهذا الاسناد»
اس روایت کی سند صحیح ہے ۔
المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية، اسم المؤلف: أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، دار النشر: دار العاصمة/ دار الغيث - السعودية - 1419هـ ، الطبعة: الأولى، تحقيق: د. سعد بن ناصر بن عبد العزيز الشتري؛ ج16، ص177
«هیثمی» ، «طبرانی» اور «ابویعلی» نے نقل کیا ہے اور سند بھی صحیح ہے . «حاکم نیشابوری» نے بھی کہا ہے : «صحیح علی شرط شیخین»؛ صحیح بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق یہ صحیح ہے ،ذھبی نے بھی کہا ہے :
کذا قال بل صحیح
بلکہ یہ روایت صحیح ہے ۔
«ابن حجر عسقلانی» نے «الاصابه» میں بھی یہی نقل کیا ہے
«ما رایت قط احدا افضل من فاطمه غیر ابیها»
الإصابة في تمييز الصحابة، اسم المؤلف: أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي، دار النشر: دار الجيل - بيروت - 1412 - 1992، الطبعة: الأولى، تحقيق: علي محمد البجاوي؛ ج8، ص55
ابن حجر اس کو نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے : اخرجه الطبرانی «و سنده صحیح علی شرط شیخین» اس کو طبرانی نے نقل کیا ہے اور اس کی سند شیخین کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔
«ذهبی» نے بھی «سیرالاعلام النبلاء» میں نقل کیا ہے اس کی تحقیق بھی مشہور وہابی محقق «شعیب الارنؤوط» نے کی ہے ۔اس میں بھی نقل ہوا ہے :
«ما رایت احدا کان اصدق لهجة من فاطمة»
سير أعلام النبلاء، اسم المؤلف: محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي أبو عبد الله، دار النشر: مؤسسة الرسالة - بيروت - 1413، الطبعة: التاسعة، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي؛ ج2 ص131
محقق کتاب کے حاشیے میں لکھتا ہے ، اس روایت کو حاکم نیپشاپوری اور ذہبی نے صحیح کہا ہے .
«محمد بن یوسف صالح شامی» نے بھی «سبل الهدی و الرشاد» میں اس کو نقل کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے
«وروى أبو يعلى برجال الصحيح عن عائشة...»
سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، اسم المؤلف: محمد بن يوسف الصالحي الشامي، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1414هـ، الطبعة: الأولى، تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود وعلي محمد معوض؛ ج11، ص 47
اب دیکھیں کتنے علماء نےاس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔
اب ہم یہ سب ذکر کرنے کے بعد "مستدرک حاکم نیشابوری " کی طرف پلٹ کر آتے ہیں ، دقت کریں وہ لکھتا ہے «هذا حدیث صحیح علی شرط مسلم» ذہبی نے بھی کہا ہے :علی شرط مسلم۔
لہذا مذکورہ روایت کے مطابق یہ ثابت ہوا کہ حضرت زهرا، سب سے زیادہ سچی ذات ہے ،صرف سچی نہیں بلکہ سب سے زیادہ سچی۔" اصدق الناس، یہاں صرف ان کے والد گرامی کو مستثنی کیا ہے ۔ ممکن ہے کہ کہا جائے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ سب سے سچی ہیں ، ممکن ہے یہ بھی کہے کہ علاوہ میں حضرت آدم سے لے کر خاتم تک سب شامل ہو ، لیکن کم از کم اتنا ضرور ہے کہ یہاں تمام اصحاب اور تمام خلفاء سے زیادہ صادق ہونا تو مراد ہے ۔
اب دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد جو سب سے سچی ذات ہیں وہ آتی ہیں اور کہتی ہیں : میرے والد نے «فدک» مجھے دیا ہے ۔ اب کیا ان سے دلیل اور گواہی کا مطالبہ کرنا چاہئے ؟
گواہ اور دلیل قضاوت کے لئے ہے : مثلا میں کہوں یہ کوٹ جو احمد کے بدن پر ہے وہ میرا ہے ،اب یہاں قاضی مجھ سے گواہ اور دلیل کا مطالبہ کرئے گا ۔ لیکن جب میں کہوں یہ لباس جو میرے جسم پر ہے وہ میرا ہے ،اب یہاں مجھ سے گواہ اور دلیل کا مطالبہ تو نہیں ہوگا ،کیونکہ یہاں قاعده «ید» جاری ہوتا ہے یعنی جس کے ہاتھ میں مال ہو اس سے دلیل اور گواہ کا مطالبہ نہیں ہوتا ہے .
یا مثلا کوئی میرے گھر میں آکر کہے جناب کہاں سے معلوم یہ آپ کا ہی گھر ہے ؟ لہذا گواہ اور دلیل پیش کرو ۔اب یہ تو غلط ہے کیونکہ مال جس کے ہاتھ میں ہو اس سے دلیل کا مطالبہ تو نہیں کیا جاتا ۔ فدک کے مسئلے میں جناب فاطمہ زہرا اور حضرت علی کہتے ہیں : یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بخشا ہے اور اس میں حضرت زہرا کے ہی مزدور کام کرتے تھے ، اب ان کو باہر نکال دیا جاتا ہے اور اس پر قبضہ کیا جاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ گواہ پیش کرو.
یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے اسی لئے حضرت صدیقه طاهره بھی میدان میں آتی ہیں اور ایسا خطبہ دیتی ہیں کہ جس میں آپ نے کوئی بھی عذر اور بات باقی نہیں چھوڑی، سب کچھ آپ نے خطبے میں بیان فرمایا ۔ یہ خطبہ آپ نے دیا تاکہ لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کیا جائے اور تاریخ کے صفحات پر یہ باقی رہے۔
حضرت زہرا مہاجرین اور انصار کے اجتماع میں آجاتی ہیں اور فریاد بلند کرتی ہیں، تاکہ تاریخ کے صفحات سے یہ حقیقت مٹ نہ جائے اور آئندہ آنے والے ان حقیقتوں کے مطابق خود ہی فیصلہ کریں ۔خود ہی دیکھیں کہ کیا ہوا تھا اور حقیقت کیا تھی ۔
سوچنے کی باتیں :
کم از تھوڑا سے فکر کریں کہ جو سب سے زیادہ سچی ذات ہو اور ان کی اتنی ساری فضیلتیں ہوں ۔ ان سب کے باوجود ان کی بات کو ٹھکرا کر یہ کہا جائے کہ اپنےمدعا کی حقانیت پر گواہ پیش کرو۔
سب سے بافضیلت خاتون کے بارے میں یہ تصور دیا جائے کہ آپ ایسی چیز کا مطالبہ کر رہی تھیں جو آپ کا حق نہیں تھا اور یہاں تک کہا جائے کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان اور فیصلے کو سننے اور حق واضح ہونے کے باوجود ناراض ہوگئیں ،رنجیدہ حالت میں رہیں ۔
کیا یہ باتیں اسلام کی خاتون اول اور سب سے بافضیلت خاتون کی شان میں توھین اور گستاخی نہیں ہے؟
اصحاب میں سے بعض کے کردار پر تنقید پر یہ سوال تو اٹھاتے ہیں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربیت میں آپ لوگوں کو شک ہے ؟
لیکن کیا خود ان لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سب سے ممتاز شاگرد کی تربیت میں شک ہے ؟