موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
مِنْ حَقّي اَنْ اَكونَ شِيْعِيَّة {شیعہ ہونا میرا حق ہے }
مندرجات: 1893 تاریخ اشاعت: 09 خرداد 2021 - 13:41 مشاہدات: 3519
کتب خانہ » پبلک
مِنْ حَقّي اَنْ اَكونَ شِيْعِيَّة {شیعہ ہونا میرا حق ہے }

 

کتاب کا نام : مِنْ حَقّي اَنْ اَكونَ شِيْعِيَّة  {شیعہ ہونا میرا حق ہے }

مولفہ کانام : اُمِ محمدعَلِیَ المُعْتَصِمْ

مختصر تعارف:

كتاب «مِنْ حَقّي اَنْ اَكونَ شِيْعِيَّة»  «اُمِ محمدعَلِیَ المُعْتَصِمْ» نامی خاتون کی تحریر کردہ کتاب ہے ۔ام محمد علی اپنا تعارف یوں کرتی ہیں ۔

میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے اور میں سوڈان کے شمالی علاقہ « الرِّباطاب »  نامی دہات میں پیدا ہوئی ،میرا حسب و نسب «عباس بن عبدالمطلب» تک جا پہچتا ہے اسی لئے ہمارا خاندان ہاشمی خاندان ہے ۔ میرے دادا کی  قبر «نادی» نامی جگہ پر واقع ہے جو ایک زیارت گاہ ہے کیونکہ اس علاقے میں سب سے پہلے تعلیم قرآن کی بنیاد رکھنے والوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا ۔ لہذا خاندانی طرز زندگی کے اعتبار سے ایک مکمل مذہبی خاتون کے طور پر میری پروان چڑھی اور اسی وجہ سے اسلامی تعلیمات اور خاص کر حجاب کی پابند رہی ہوں ۔

میں نےاپنی بچپن ایک « شَنْدِیْ » نامی شہر میں گزاری، کچھ مدت بعد والد کی مصروفیات کی وجہ سے ان کے ساتھ « عُمّان » چلی گئی اور وہاں چار سال گزارے ۔ اس دوران مختلف قبائل اور اقوام کے آداب ورسوم اور ثقافت سے آشنا ہوئی اور انہیں میں سے ایک اِباضِیِهْ فرقے کے ماننے والوں سے میری آشنائی ہوئی. {اباضیۃ فرقہ وہی خوارج کے پیروکاروں کا فرقہ ہے ۔ لیکن یہ لوگ شروع کے خوارج کی طرح دوسروں کو اب کافر نہیں کہتے اور خاص کر مولا علی علیہ السلام کے بارے میں منفی نظریہ نہیں رکھتے}

چار سال کے بعد دوبارہ سوڈان واپس آئی لیکن اس دفعہ سوڈان کی صورت حال کچھ مختلف تھی کیونکہ  وہاں "اسلامی تحریک" سے موسوم ایک پارِٹی حکومت کررہی تھی اور اس وقت سوڈان اسلامی نعروں کی آوازوں سے گھونج رہا تھا۔کالج ، یونیورسٹی ، سکول اور مدارس پر انہیں کی کڑی نظر تھی۔   

سوڈان واپس آنے کے بعد حالات کی سازگاری کی وجہ سے میں نے دوبارہ اپنی تعلیمی سرگرمیاں شروع کیں ۔ بعض بچے سکول میں فارغ وقت میں لیکچر دیتے تھے جس  میں زیادہ تر دنیوی اور مادی امور کو اہمیت دیتے اور آخرت سے غلفت برتنے جیسے موضوعات سے بحث ہوتی تھی ۔ بعض دوستوں کے اصرار کی وجہ سے میں نے بھی بعض لیکچر سننا شروع کیا ۔ جب غور سے ان لیکچرز کو سنتی تھی تو میرے ذہن میں کچھ سولات ابھرتے لگتے تھے مثلا میں سوچتی تھی کہ اگر میں مرجاوں تو اللہ کے سامنے کس حالت میں پیش ہوں گی: کیا میرے سارے اعمال اور اعتقادات صحیح ہیں ؟

جب بھی ان لیکچرز کو سن کر باہر آتی تو نئے سوالات میرے ذہن میں اٹھتے اور میں یہ محسوس کرتی تھی کہ میرے اندر کچھ  عیب اور نقص موجود ہے ۔

اپنے سوالات کے جواب کی تلاش اور اس قسم کی ذہنی الجھنوں کو دور کرنے کے لئے "اسلامی تحریک" کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کی کوشش کی ، لیکن پھر ایسا محسوس ہوا کہ میرایہ انتخاب صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ ایک تو ذہنی طور پر میں اس پارٹی کو قبول ہی نہیں کرتی تھی  اور جب ان سے کچھ قریب ہوئی تو دیکھا کہ اس پارٹی میں بھی بہت سے عیب اور نقص موجود ہیں ۔اسی سرگرادنی کےعالم میں تکفیری وہابی فرقے سے میری آشنائی ہوئی کہ جو اس وقت سوڈان میں زیادہ مشہور نہیں تھا ۔ اس فرقے کے افکار میرے خاندان کے افکار کے بلکل خلاف تھے ۔اس فرقے کے پیروکار کم تعداد میں ہونے کے باوجود ان کی مالی حالت اچھی تھی ۔ اسی لئے اس فرقے کے لوگ خوبصورت مساجد اور ہسپتالیں وغیرہ کی تعمیر کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔نیز یہ لوگ ہمیشہ توحید کے نعرے لگاتے اور اپنی عورتوں کو حتی ہاتھوں اور پیروں انگلیوں تک چھپانے کا حکم دیتے اور ان کی اسی رفتار نے مذہبی ذہنیت رکھنےوالوں کی توجہ اس فرقے کی طرف مبذول کرائی ، ان کے اسی رفتار کو دیکھ کر میں بھی اس فرقے کی طرف راغب ہوئی کیونکہ یہ لوگ پردے کے بہت ہی پابند تھے ۔ کچھ عرصے بعد میں نے اس فرقے کے بارے میں مطالعہ کرنا شروع کیا اور میں اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ یہ فرقہ اپنے علاوہ دیگرتمام اسلامی فرقوں کو کافر سمجھتے ہیں، یہ صرف اپنے آپ کو یکتا پرست اور خدا پرست سمجھتے ہیں ۔اسی لئے میری سرگردانی میں مزید اضافہ ہوا ۔ اس فرقے کے افکار دیکھ کر میں اپنے آپ سے یہ پوچھنے لگی کہ ہمارے خاندان والے اور میرے آباء و اجداد جو زیارت اور توسل کے قائل تھے ،کیا یہ سب حقیقت میں مشرک ہیں ؟

میں اپنے آپ سے یہ کہتی تھی : اللہ نے مجھے کیوں رسول اللہ صلی الله علیه وآله کے دور میں خلق نہیں کیا تاکہ میں اس قسم کے ذہنی دباو اور الجھن کا شکار نہ ہوتی؟

کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعد ایسے شخص کو تعین نہیں فرمایا  جس کی وجہ سے امت اس طرح کے اختلافات اور نزاع کا شکار نہ  ہوتی؟

یہ ایسے سوالات تھے جن کی وجہ سے میں ذہنی دباو کا شکار تھی اور میں مسلسل راہ حل کی تلاش میں رہتی تھی۔ اسی دوران مجھے یہ خبر ملی کہ میرا مامو جو ہمارے پرانے دہات میں رہتے تھے وہ شیعہ ہوگئے ہیں ۔میں ان کے پاس چلی گئ تاکہ ان سے اپنے ذہن میں موجود سوالات کے جواب پوچھ سکوں۔ ان کے ساتھ ملاقات کے دوران میں  نے اپنے ذہن میں موجود کچھ سوالات ان سے پوچھا  اور میں ان کی طرف سے کسی قسم کی تکفیر اور توہین کے بجائے ان کے منطقی استدلال سنا کرتی تھی۔ کچھ مدت بعد اللہ کے فضل وکرم سے میری سابقہ ذہنی الجھنیں ختم ہوگئیں اور میں نے اپنے سوالات کے جواب اہل بیت کے نورانی مکتب سے حاصل کیا ۔  میں سمجھ گئ تھی کہ بشریت کو گمراہی سے نجات دینے والی کشتی صرف اہل بیت علیہم السلام کا مذہب ہے اور یہی مذہب انسان کی روح اور ذہن کو  سیراب کرسکتا ہے اور بشریت کے لئے تسلی بخش جواب اپنے پاس سے دےسکتا ہے۔

کتاب کی  PDF  حاصل کرنے کی لینگ۔

  

 
 
 
 




Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: