کتاب کا نام : مُحاضِراتٌ عقائِدِيَّة { اعتقادی مسائل پر علمی گفتگو }
لکھنے والے کا نام : الدِمِرْدَاشْ بنِ زَکِیَ الْعَقَالِیْ
کتاب کا مختصر تعارف :
« الدِمِرْدَاشْ بنِ زَکِیَ الْعَقَالِیْ» مصر کے اَسْیُوْطْ نامی شہر کے اَلْعَقال نامی دہات میں پیدا ہوئے آپ کاشمار مصر کےحافظین قرآن اور قاضی القضات میں ہوتا ہے۔
آپ مذهب اهل بیت علیهم السلام کی طرف ہدایت پاجانے کے ماجرا کو یوں بیان کرتے ہیں :
تین سال تک منصب قضاوت پرفائز رہنے کے بعد میں نے عائلی زندگی کے طلاق جیسے مسائل میں قضاوت کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ۔ اسی دوران ایک مسیحی میاں ،بیوی بھی طلاق لینے کے لئے میرے پاس حاضر ہوئے ۔ مسیحی شوہر کی طرف سے بیوی کو طلاق دینے کی دلیل اس کی بیوی کی طرف سے خلاف عفت فحاشی کا ارتکاب کرنا تھا چنانچہ مسیحی فرقہ «اُرْتُدُكْسْ» کے ہاں بیوی کو طلاق دینے کی واحد دلیل یہی مسئلہ ہے. مصر میں حالات کے تناسب سے قانون یہ ہے کہ اس قسم کے مسائل میں ان کا کوئی پادری بھی ساتھ آنا لازمی ہے ۔
جس وقت مسیحی شوہر اپنی بیوی کی اس خلاف عفت حرکت کے بارے میں بتانے لگا تو مسیحی پادری کو بہت ہی تکلیف ہوئی ۔میں نے یہ حالت دیکھ کر اس پادری سے گفتگو کی تاکہ انہیں کچھ آرام آئے ۔
میں نے پادری سے کہا : کیا آپ کے دین میں کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں کہ جس سے طلاق دینے کے لئے فحشاء کی تہمت لگانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے ؟
پادری نے جواب میں کہا : کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہمارے ہاں بھی طلاق ایک معمولی دلیل اور ایک معمولی جملے سے انجام پائے ؟
یہ جواب سن کر مجھے بہت تکلیف ہوئی، اتفاق سے ایک دن ایک مسلمان شوہر اور بیوی گھریلو مسائل حل کرنے میرے پاس آئے ۔ بیوی کا یہ کہنا تھا کہ اس کا شوہر اس کا خرچہ اور نَفَقِه نہیں دیتا ۔ لیکن جب شوہر کے جواب دینے کی باری آئی تو اس نے یہ کہا : ایک سال پہلے میں نے اس کو طلاق دے دی ہے ۔
بیوی نے شوہر کا یہ جواب سن کر اونچی آواز میں بولی: یہ جھوٹ بول رہا ہے ابھی کچھ دن پہلے مجھ سے ہمبستری کی ہے ۔
یہ واقعہ دیکھ کر مجھے مسیحی پادری کی بات یاد آگئی ، "آپ کے ہاں طلاق دینے کا کوئی خاص قانون نہیں" ، کیونکہ حنیفی مسلک میں طلاق گواہ کے بغیر غائبانہ بھی ہوسکتی ہے واضح الفاظ میں یا اشارہ و کنایہ کے ذریعہ بھی طلاق محقق ہوسکتی ہے، یہاں تک کہ مشروط اور مُعَلَّق طور پر بھی طلاق واقع ہوسکتی ہے ۔
میں نے اس بارے میں تحقیق شروع کی اور اس مسئلے اپنے سے زیادہ معلومات رکھنے والوں کی طرف رجوع کرنے کی غرض سے شیخ ابو زُهْرِه کے پاس گیا جو اس وقت حقوق کے شعبے سے تعلق رکھنے والی یونیورسٹی کے استاد تھے۔ ان کے پاس جا کر میں نے حنفی مذہب میں طلاق کے اس مسئلے کے بارے میں شکایت کی اور ان سے اس بارے میں مزیدگفتگو کی ۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ اگر یہ چیزیں میرے اختیار میں ہوتیِں تو میں امام صادق علیه السلام کے مذہب کے مطابق فتوا دیتا اور قضاوت کرتا ۔{ کیونکہ شیعہ مذہب میں طلاق کے لئے دو عادل گواہ کی ضرورت ہے دو عادل گواہ کے بغیر طلاق صحیح نہیں ہے }
ان سے ملاقات کے بعد میں نے قرآن کی طرف رجوع کیا تو میرے لئے یہ بات واضح ہوگئ حکم الہی کے مطابق طلاق حیض سے پاک ہونے کے بعد ،ہمبستری کے بغیر دو عادل گواہ اور واضح الفاظ کے ساتھ ہی ہوسکتی ہے میں نے یہ دیکھ کر اپنے آپ سے کہا : سبحان الله! یہ آیات کیسے ان فقہاء سے مخفی رہیِں اور انہوں نے ان آیات کے خلاف اپنے فتوے دے گئے ؟
یہاں سے میری تحقیق نیا رخ کرگئِ اور سنجیدگی سے شروع ہوئی ۔میں نے اپنے آپ سے یہ عہد کیا کہ میں ہر صورت میں حق کی تلاش کروں گا اور حق کی ہی پیروی کروں گا اسی دوران شیعہ عالم علامہ حلی کی کتاب« المُخْتَصَرُ النَّافِع» میرے ہاتھ آگئی اس کا مطالعہ کیا اور میں فقه اهل بیت علیهم السلام سے آشنا ہوا اسی دوران اتفاق سے اَلْاَزْهَرْ یونیورسٹی کے چانسلر شيخْ محمودْ شَلْتُوتْ ، نے بھی شیعہ اثناعشری کے فقہ پر عمل کرنے کو شرعی طور پر جائز ہونے کا فتوا دیا. اسی دوران میں بھی تحقیق کے نتیجے میں مذهب اهل بيت عليهم السلام کے پیروکار ہوگیا اور میں نے اعتقادی مسائل میں شیعہ عقائد کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنا شروع کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے یہ جان لیا کہ جو مذہب قرآن کے مطابق ہے وہ یہی اہل بیت علیہم السلام کا مذہب ہے اور قرآن کے حقیقی مفسر بھی ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہی ہیں .