موبائل کا نسخہ
www.valiasr-aj .com
امام حسن مجتبي (عليه السلام) کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات.
مندرجات: 1843 تاریخ اشاعت: 26 آذر 2023 - 02:20 مشاہدات: 3382
پروگرام » پبلک
امام حسن مجتبي (عليه السلام) کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات.

29-11-2006

 

بسم الله الرحمن الرحيم

 

موضوع: امام حسن مجتبي (عليه السلام) کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات.

سوال :

امام حسن (عليه السلام) کی ولادت کے دن کے بارے میں اختلاف ہے، لہذا اس سلسلے میں وضاحت فرمائیں ۔

استاد حسيني قزويني

أهل سنت کے بزرگ علماء کہتے ہیں:

آپ ۳  ہجری، ماہ مبارک  رمضان کی ۱۵تاریخ  کو دنیا میں تشریف لائیں.

سير أعلام النبلاء للذهبي، ج3، ص246 ـ أسد الغابة لإبن الأثير، ج2، ص10 ـ تهذيب الكمال للمزي، ج6، ص220 ـ الإصابة لإبن حجر، ج2، ص60 ـ تهذيب التهذيب لإبن حجر العسقلاني ،ج2، ص257 ـ تاريخ الطبري، ج2، ص213 ـ الكامل في التاريخ لإبن الأثير، ج2، ص166

شیعہ علماء میں سے شيخ مفيد (ره) ، إبن شهر آشوب (ره) نے بھی یہی نظریہ ہے.

الإرشاد للشيخ المفيد، ج2، ص5 ـ المناقب لإبن شهر آشوب، ج3، ص191

قرائن اور شواهد کی روشنی میں یہ کہنا صحیح ہے کہ امام حسن (عليه السلام) تیسری ہجری  کو دنیا میں تشریف لائے اور رسول اكرم (صلي الله عليه و آله) کی رحلت کے وقت امام حسن (عليه السلام) کی عمر ۷ سال تھی۔

* * * * * * *

سوال :

أهل سنت کے  منابع میں موجود امام حسن (عليه السلام) کے فضائل اور مناقب کے بارے میں بھی کچھ اشارہ فرمائیں ؛

استاد حسيني قزويني

مرحوم فيروز آبادي اپنی کتاب " فضائل الخمسة في صحاح الستة" میں رقمطراز ہیں:

اہل بیت علیہم السلام کے فضائل بیان کرنے والے کے لئے وحی کے سرچشمے سے متصل ہونا ضروری ہے ۔کیونکہ اگر ہم جیسے لوگ ان کے فضائل بیان کرنے کی کوشش کریں گے تو ممکن ہے فضائل کے نام پر ان کی شان میں جسارت کر بیٹھیں ،کیونکہ ہم اپنی سوچ اور سمجھ کے مطابق فضائل بیان کرتے ہیں  اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب کسی کے فضائل بیان کرتے ہیں تو ہماری ذہنی سطح اور فہم کے مطابق ہی بیان کرتے ہیں۔{

إنا معاشر الأنبياء أمرنا أن نكلم الناس علي قدر عقولهم.

ہم لوگوں کی عقلی سطح (فہم و ادراک )کے مطابق ان سے بات کرتے ہیں ۔

الكافي للكليني، ج1، ص23 ـ الأمالي للشيخ الصدوق، ص504

صحاح سته میں امام حسن (عليه السلام) و امام حسين (عليه السلام) کی فضیلت کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں :

پہلی روايت:

احمد بن حنبل نے ابوهريره سے نقل کیا ہے :

سمعت رسول الله صلي الله عليه و سلم يقول: من أحبهما فقد أحبني و من أبغضهما فقد أبغضني.

میں نے رسول الله (صلي الله عليه و سلم) کو فرماتے سنا ہے : جو بھی حسن اور حسین علیہما السلام سے محبت کرے  گا اس نے مجھ سے مبحت کی ہے  اور جس نے ان دونوں کو ناراض کیاگویا اس نے مجھے ناراض کیا ہے.

مسند احمد، ج2، ص531 ـ فضائل الصحابة للنسائي، ص20 ـ المستدرك علي الصحيحين الحاكم النيشابوري، ج3، ص166 ـ السنن الكبري للبيهقي، ج4، ص29 ـ المصنف لعبد الرزاق الصنعاني، ج3، ص472 ـ السنن الكبري للنسائي، ج5، ص49 ـ المعجم الكبير للطبراني، ج3، ص48 ـ سير أعلام النبلاء للذهبي، ج3، ص277 ـ الكامل لعبد الله بن عدي، ج3، ص83 ـ تاريخ مدينة دمشق لإبن عساكر، ج13، ص198 ـ تهذيب الكمال للمزي، ج6، ص254 ـ الإصابة لإبن حجر، ج2، ص63 ـ البداية و النهاية لإبن كثير، ج8، ص39 ـ تهذيب التهذيب لإبن حجر العسقلاني، ج2، ص260

دوسری روايت:

رسول اكرم (صلي الله عليه و آله) نے ارشاد فرمایا :

من أحبني فليحبه، فليبلغ الشاهد الغائب.

جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس کو چاہئیے ان سے بھی محبت کرے اور حاضرین کو چاہئے  کہ وہ اس بات کوغائبین تک پہنچائیں ۔

مسند احمد، ج5، ص366 ـ المستدرك علي الصحيحين الحاكم النيشابوري، ج3، ص173 ـ سير أعلام النبلاء للذهبي، ج3، ص254 ـ مجمع الزوائد للهيثمي، ج9، ص176 ـ المصنف لإبن أبي شيبة الكوفي، ج7، ص513 ـ تاريخ مدينة دمشق لإبن عساكر، ج13، ص197 ـ تهذيب الكمال للمزي، ج6، ص228 ـ الإصابة لإبن حجر، ج2، ص62 ـ تهذيب التهذيب لإبن حجر العسقلاني، ج2، ص258

یہ روایات آيه مودّت کے مضمون اور مفہوم کو بیان کرتی ہیں کہ جس میں آل محمد ص کی محبت کو رسالت کا اجر قرادیا گیا ہے۔

قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي وَ مَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ [سوره شوري/آيه23}

آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو اور جو شخص بھی کوئی نیکی حاصل کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کردیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدرداں ہے۔

ان روایات کی رو سے یہ بات واضح ہوجاتی  ہے کہ جو بھی اہل بیت علیہم السلام سے وابستہ ہوگا وہ اللہ کے راستے سے وابستہ ہوگا اور جو بھی ان سے جدا ہوگا یا اہل بیت علیہم السلام کے راستے کے برخلاف چلے گا یہ لوگ یقینی طور پر اہل بیت علیہم السلام کےمحبوب نہیں ہوں گے ۔

 

تیسری روايت:

خليفه اول ایک روایت کو نقل کرتے ہیں :

نظر النبي صلي الله عليه و سلم إلي علي و الحسن و الحسين و فاطمة فقال: أنا حرب لمن حاربكم و سلم لمن سالمكم.

ایک دن  رسول الله (صلي الله عليه و سلم) نے حضرت علي ، امام حسن ، حسين اور جناب فاطمہ علیہم السلام کی طرف نگاہ کی اور فرمایا :

میری ان لوگوں سے جنگ ہے جو آپ لوگوں سے جنگ کرتے ہیں اور جو لوگ آپ لوگوں کے ساتھ صلح و اچھائی کے ساتھ پیش آئیں گے میں بھی ان کے ساتھ صلح و اچھائی سے پیش آوں گا ۔۔

مسند احمد، ج2، ص442 ـ المستدرك علي الصحيحين الحاكم النيشابوري، ج3، ص149 ـ مجمع الزوائد للهيثمي، ج9، ص169 ـ تاريخ مدينة دمشق لإبن عساكر، ج14، ص157 ـ المصنف لإبن أبي شيبة الكوفي، ج7، ص512 ـ صحيح ابن حبان، ج15، ص434 ـ المعجم الكبير للطبراني، ج3، ص40 ـ تاريخ الإسلام للذهبي، ج3، ص45 ـ سير أعلام النبلاء للذهبي، ج2، ص122

ذہبی نے ان روایات کو ذکر کیا ہے ،حالانکہ ذہبی اس قسم کی روایات کے ساتھ منفی رویہ رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے ان روایات پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا ہے

 اس طرح کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان روایات کو اسلامی معاشرے کو ایک خاص مقصد کی طرف راہنمائی  کرنے کے لئے بیان فرمایا ہے وہ  مقصد یہ تھا ؛ آپ کو معلوم تھا کہ امت اسلامی بعد میں اختلاف کا شکار ہوگی ۔ لہذا آپ نے اس قسم کے اختلافات کے شکار ہونے کی صورت میں نجات کی راہ دکھائی۔ جیساکہ حدیث میں ہے

إن ستفترق أمتي علي ثلاث و سبعين فرقة، كلها في النار إلا فرقة واحدة.

میرے بعد میری امت عنقریب  73 فرقوں میں بٹ جائے گی ،ان میں سے ایک کے علاوہ باقی سب جہنمی ہوں گے .

المستدرك الصحيحين للحاكم النيشابوري، ج1، ص129 ـ مجمع الزوائد للهيثمي، ج6، ص226 ـ تفسير رازي، ج1، ص4 ـ تفسير إبن كثير، ج2، ص482 ـ تاريخ مدينة دمشق لإبن عساكر، ج24، ص53 ـ ميزان الإعتدال الذهبي، ج2، ص430 ـ لسان الميزان لإبن حجر، ج3، ص291 ـ المعجم الكبير للطبراني، ج17، ص13 ـ مسند أبي يعلي، ج7، ص156

اس قسم  کی روایات سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اكرم (صلي الله عليه و آله) اس فرقہ ناجیہ کو مشخص کرنا چاہتے تھے.

واضح ہے کہ فرقہ ناجیہ وہی ہوگا جو توحید اوررسالت سے مکمل وابستہ ہو اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی شاگردوں اور ان کے علوم کے وارثوں اور محافظوں سے وابستہ اور متمسک رہے ۔

بہت واضح سی بات ہے ؛ فرقہ ناجیہ وہی ہوگا جو توحید اور رسالت سے مکمل وابستہ  ہو ۔ توحید  اور  رسالت سے وابستگی کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے علوم کے وارثوں  سے وابستہ رہناضروری ہے ۔ لہذا آل رسول  سے محبت حقیقت میں دین کے حقیقی پیشواوں سے متمسک رہنے کی ایک الہی تدبیر کا نام ہے ۔

چوتھی روايت:

امام حسن (عليه السلام) ،كريم ال بيت (عليهم السلام) کےنام سے مشہور ہیں. ذهبي امام حسن (عليه السلام) کی سخاوت کے بارے لکھتے ہیں :

سمع الحسن بن علي رجلا إلي جنبه يسأل الله أن يرزقه عشرة آلاف درهم، فانصرف، فبعث بها إليه.

ایک دن حسن بن علي علیہما السلام ایک شخص کے نذدیک تشریف فرما تھے اور  وہ اللہ سے 10 هزار درهم کے لئے دعا کر رہا تھا . حسن بن علي علیہما السلام گھر آئے اور  اتنا ہی  درہم اس کو دیا اور اس کو بے نیاز کردیا ۔

سير أعلام النبلاء للذهبي، ج3، ص260

پانچویں روايت :

منقول ہے کہ امام حسن (عليه السلام) نے دو مرتبه  اپنی ساری دولت اللہ کی راہ میں خرچ کیا ۔بہت ہی تعجب کی بات ہے! کہنا تو آسان ہے لیکن اس کا تصور کرنا سخت ہے ، امام حسن (عليه السلام) نے  3 مرتبه تمام اموال کے دوحصے کیے اور ایک حصہ فقراء کو بخش دیا اور دوسرا حصہ اپنے لئے رکھ دیا ۔

خرج الحسن بن علي عليهما السلام من ماله مرتين و قاسم اللّه تعالي ماله ثلاث مرات، حتي أن كان ليعطي نعلا و يمسك نعلا و يعطي خفا و يمسك خفا.

حلية الأولياء لأبو نعيم، ج2، ص37 ـ تهذيب الكمال للمزي، ج6، ص233 ـ تاريخ اليعقوبي، ج2، ص226 ـ تاريخ مدينة دمشق لإبن عساكر، ج13، ص243 ـ شرح نهج البلاغه لإبن أبي الحديد، ج16، ص10 ـ إمتاع الأسماع للمقريزي، ج5، ص361 ـ ينابيع المودة لذوي القربي للقندوزي، ج2، ص211 ـ أحكام القرآن للجصاص، ج3، ص303 ـ سير أعلام النبلاء للذهبي، ج3، ص260 ـ الوافي بالوفيات للصفدي، ج12، ص68

* * * * * * *

سوال :

 امام حسن (عليه السلام) کا  رویہ خلفاء کے ساتھ  کیسا تھا ؟

استاد حسيني قزويني

پيامبر اكرم (صلي الله عليه و آله) کی  رحلت،  سقیفہ کے واقعے اور  امير المومنين (عليه السلام)کے خانه نشيني کے آغاز کے وقت امام حسن (عليه السلام) اور امام حسين (عليه السلام) اگرچہ ابھی چھوٹے تھے لیکن عجیب بات ہے کہ اہل سنت کے اکثر تاریخ نگاروں نے بھی ایک واقعہ کو  نقل کیا ہے اور بعض نے بچہ گانہ اور بیوقفانہ توجیہات بھی کی ہے وہ واقعہ ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی ایام میں پیش آیا :

قعد أبو بكر علي منبر رسول الله صلي الله عليه وسلم، فجاءه الحسن بن علي فصعد المنبر و قال أنزل عن منبر أبي، فقال له أبو بكر: منبر أبيك، لا منبر أبي. فقال علي رضي الله عنه و هو في ناحية القوم: إن كانت لعن غير أمري.

ایک دن  ابوبكر  رسول الله (صلي الله عليه و سلم) کے منبر  پر بیٹھا ہوا تھا ، اس دوران امام حسن تشریف لائے اور منبر پر گئے اور فرمایا : میرے بابا کے منبر سے نیچے اتریں ۔ابوبکر نے کہا : جی یہ آپ کے والد کا منبر ہے میرے باپ کا منبر نہیں ہے ۔امام علی علیہ السلام اس وقت مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے ، فرمایا : یہ کام میرے حکم سے نہیں کیا ہے ۔

المنتظم في تاريخ الملوك و الأمم لإبن الجوزي الحنبلي، ج4، ص70، ناشر: دار صادر بيروت، الطبعة الأولي، 1358 ـ نثر الدر في المحاضرات للآبي، ج1، ص227، تحقيق خالد عبد الغني محفوط، ناشر: دار الكتب العلمية بيروت، الطبعة الأولي، 1424هـ 2004م ـ الرياض النضرة في مناقب العشرة للطبري، ج2، ص148، تحقيق عيسي عبد الله محمد مانع الحميري، ناشر: دار الغرب الإسلامي بيروت، الطبعة الأولي، 1996م ـ جامع الأحاديث للسيوطي، ج13، ص93 ـ أنساب الأشراف للبلاذري، ج1، ص383 ـ الصواعق المحرقة لإبن حجر الهيثمي، ج2، ص515، چاپ محمدية، الإتحاف لحب الأشراف للشبراوي، ص7 ـ تاريخ الخلفاء للسيوطي، ص80 و 143 (طبق برنامه الجامع الكبير)

كنز العمال للمتقي الهندي، ج5، ص616 ـ تاريخ مدينة دمشق لإبن عساكر، ج30، ص307 ـ شرح نهج البلاغه لإبن أبي الحديد، ج6، ص42

اسی قسم کا واقعہ امام امام حسين (عليه السلام)  اور  عمر بن خطاب کے بارے میں بھی نقل ہوا ہے :

عن حسين بن علي قال: صعدت إلي عمر رضي الله عنه و هو علي المنبر فقلت: أنزل عن منبر أبي و اذهب إلي منبر أبيك، قال: من علمك هذا؟ قلت: ما علمني أحد، قال: منبر أبيك والله! منبر أبيك والله! منبر أبيك والله! و هل أنبت الشعر علي رؤوسنا إلا أنتم؟

حسين بن علي علیہما السلام سے نقل ہوا ہے : عمر منبر پر تھا میں منبرپر گیا اور ان سے کہا : میرے بابا کے منبر سے نیچے اتر جائیں اور اپنے بابا کے منبر پر جاکے بیٹھ جائیں۔

عمر نے کہا : کس نے یہ بات آپ کو سکھائی ہے اور کس کے کہنے پر آپن نے یہ ایسا کیا ہے ؟ میں نے کہا : کسی نے نہیں ۔عمر نے تین مرتبہ کہا : اللہ کی قسم یہ آپ کے والد کا منبر ہے۔

کیا آپ لوگوں کے علاوہ کسی اور نے ہمارے سر پر بال اگائے ہیں ؟

تاريخ بغداد للخطيب البغدادي، ج1، ص152 ـ تاريخ مدينة دمشق لإبن عساكر، ج14، ص175 ـ تهذيب الكمال للمزي، ج6، ص404 ـ سير أعلام النبلاء للذهبي، ج3، ص285 ـ الإصابة لإبن حجر العسقلاني، ج2، ص69 ـ تاريخ الإسلام للذهبي، ج5، ص100 ـ تهذيب التهذيب لإبن حجر العسقلاني، ج2، ص300 ـ تاريخ المدينة لإبن شبّة النميري، ج3، ص799 ـ ينابيع المودة لذوي القربي للقندوزي، ج2، ص43 ـ معرفة الثقات للعجلي، ج1، ص302 ـ علل الدارقطني، ج2، ص126

 

امام حسن (عليه السلام) امير المومنين (عليه السلام) کی خانه نشيني کے دوران قدم قدم اپنے والد کے ساتھ تھے اور ان  کے غم میں شریک رہتے تھے اور امير المومنين (عليه السلام) کی خلافت کے دوران بھی ان کے ساتھ مکمل ہماہمنگ تھے ۔ امیر المومنين (عليه السلام) کی شہادت کے بعد بھی ممبر پر  آپ کا پہلا جملہ یہ تھا :

کل ایک ایسی شخصیت دنیا سے چلی گئی جو پيغمبر اكرم (صلي الله عليه و آله)  کے وصی اور اوصیاء میں سے تھی .

آپ نے اس گفتار کے ذریعے خلفاء کی خلافت پر خط بطلان کھینچا اور  امير المومنين (عليه السلام) کی خلافت کو ثابت کیا .

* * * * * * *

سوال :

امام حسن (عليه السلام) کا معاويه کے ساتھ صلح کی علت اور حکمت کے بارے میں بھی کچھ وضاحت فرمائیں :

استاد حسيني قزويني

وہابیوں کا تشیع کے خلاف بنیادی شبہات اور اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ

اگر حقیقت مِیں خلافت منصوص من اللہ ہو اور امام حسن علیہ السلام ، اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معین کردہ خلیفہ تھے تو امام علی نے اپنے بعد اس خلافت  کو معاویہ کے حوالے  کیوں کیا ؟ کیا نعوذ باللہ امام حسن علیہ السلام کی عصمت میں کوئی نقص تھا ؟اس سے یہ معلوم ہوتا کہ کہ امامت اور خلافت کے بارے میں شیعوں کے نظریے پر کوئی دلیل و سند موجود نہیں ہے۔

جواب : 

صحیح سند روایات کے مطابق  ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے جو کام بھی انجام دیا وہ اللہ کے حکم سے ہی انجام دیاہے۔ کسی بزرگ  شخصیت کےبقول :

 ہمیں ائمہ علیہم السلام کو ایک ۲۵۰ سالہ انسان کی طرح نگاہ کرنی چاہئے مثلا ایک ایسے انسان کو تصور کرے کہ جو ۲۵ سال اسلام کی بعض مصلحتوں کی خاطر خاموشی اختیار کرنے  اور صرف ۵ سال کے لئے زمام حکومت سنبھالنے میں مصلحت دیکھتا ہے، پھر دس سال خاموش رہنے میں اسلام کی مصلحت دیکھتا ہے ،پھر ظالم حکومت کے خلاف قیام میں مصلحت دیکھتا ہے ،پھر ثقافتی انقلاب لانے میں مصلحت دیکھتا ہے اور اس کے لئے ایک عظیم درسگاہ کی بنیاد رکھتا ہے۔  

یعنی ہمیں ائمہ علیہم السلام کو ایک ۲۵۰ سالہ انسان کی طرح نظر میں رکھنا چاہئے کہ جو زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ ہرعصر میں  اسلام  اور اسلامی معاشرےکی مصلحت کے مطابق کردار ادا کرتے ہیں۔

لہذا امام حسن علیہ السلام کا معاویہ کے ساتھ صلح کے سلسلے میں جو چیز واضح ہے وہ یہ ہے کہ امام نے(حالات کی نزاکت کے پیش نظر) معاویہ کے ساتھ صلح پر رضایت دی اور جنگ بندی کردی۔

اگر اہل سنت کی کتابوں کی طرف نگاہ کی جائے تو یہ بات واضح واضح ہوجاتی ہے کہ صلح کی پیشکش معاویہ کی طرف سے تھا نہ امام کی طرف سے۔  گرچہ ابن خلدون جیسے تاریخ نگاروں نے جو اہل بیت  علیہم السلام کے ساتھ اچھا رویہ نہیں رکھتے اور کبھی ان کی شان میں جسارت بھی کرتے ہیں یہ انہوں نے یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ صلح کی پیشکش امام حسن علیہ السلام کی طرف سے تھا لیکن اس کے باوجود بعض نقلوں کے مطابق معاویہ نے ایک سفید کاغذ امام کے پاس بھیجا اور یہ کہا کہ جو لکھنا چاہتے ہیں لکھ دیں ۔کیونکہ معاویہ کو عراقیوں کے قیام کا خوف تھا اور چاہتا تھا کسی طرح سے بھی جنگ بندی ہو ۔

ایک سوال:

کیوں  امام حسن (عليه السلام) نے جنگ بندی کو تسلیم کیا ؟ کیا  امير المومنين (عليه السلام)، کی شہادت کے بعد خلافت کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے ؟ کیا آپ نے جنگ کے لئے تیاری نہیں کی تھی اور معاویہ کے مقابلے میں صف آراء نہیں ہوئے تھے ؟آخرکیا ہوا کہ کچھ مہینوں کے بعد اچانک ارادہ بدلا اور جنگ بندی اور صلح کرنے پر آمادہ ہوگئے؟

جواب:

نہایت اختصار کے ساتھ  ہمیں یہاں درج ذیل نکات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے :

پہلا نكته: اس وقت اسلامی حکومت کی بیرونی صورتحال پر توجہ :

سب کو معلوم ہے اس وقت روم کی حکومت آئے دن اسلام پر کاری ضرب لگانے کے لئے موقع کی تلاش میں تھی تاکہ اسلام کو تاریخ کے صفحات سے ہی محو کردیاجائے ۔جب انہیں معلوم ہوا کہ امام حسن (عليه السلام) اور معاويه نے ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرائی کی ہے اور ایک دوسرے پر حملہ شروع کیا ہے تو روم کی حکومت نے موقع مناسب دیکھ کر اسلامی سرزمین پر حملہ کرنے کا حکم دیا ۔جیساکہ  تاريخ يعقوبي میں نقل ہوا ہے کہ امام حسن (عليه السلام) سے صلح  کے بعد :

بلغه أن طاغية الروم قد زحف في جموع كثيرة و خلق عظيم، فخاف أن يشغله عما يحتاج إلي تدبيره و إحكامه، فوجه إليه، فصالحه علي مائة ألف دينار و كان معاوية أول من صالح الروم.

جب معاويه کو یہ خبر ملی کہ روم کی حکومت اسلامی سرزمینوں پر حملہ کرنا چاہتی ہے اس وقت معاویہ نے دیکھا کہ اس میں مقابلے کی طاقت نہیں ہے اسی لئے ایک لاکھ دينار روم کی حکومت کو رشوت کے طور پر دیا تاکہ وہ اسلامی سرزمینوں پر حملے سے باز رہے ۔

تاريخ اليعقوبي، ج2، ص217

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے لشکر کے مابین  جنگ جاری رہتی تو روم کی حکومت یقینی طور پر حملہ شروع کرتی اور یہ اسلامی حکومت کے لئے بہت بڑا خطرہ تھا۔

اس حوالے سے امام باقر (عليه السلام) فرماتے ہیں :

اگر ہمارے جد بزرگوار امام حسن (عليه السلام) صلح نہ کرتے تو  اسلام اور مسلمانوں کے لئے بہت بڑے خطرے کا موجب بن سکتا تھا۔.

بحار الأنوار للعلامة المجلسي، ج44، ص1

دوسرا نكته: اندرونی سیاست کی صورتحال :

امير المومنين (عليه السلام) کی خلافت کے بعد مسلط کردہ جنگوں جیسے جنگ جمل ، صفّين اور  نهروان کہ وجہ سے لوگ تھک چکے تھے۔ جنگ جمل میں طرفین سے 30 هزار کے قریب اور  جنگ صفّين میں 110 هزار کے قریب اور  جنگ نهروان، میں  4 هزار کے قریب لوگ مارے گئے .

تاريخ اليعقوبي، ج2، ص182 ـ مروج الذهب للمسعودي، ج1، ص313 (طبق برنامه الجامع الكبير)

دونوں طرف سے اس حد تک لوگوں کا مارا جانا اس جنگ سے متاثر لوگوں کے لئے تو ایک روحی اور نفسیاتی ضربہ تھا. یہاں تک کہ خود امام حسن (عليه السلام) ایک خطبے کے درمیان ارشاد فرماتے ہیں:

اگر عزت اور شرافت سے دفاع کرنا چاہتے ہیں تو معاویہ کے مقابلے میں ڈٹ کر مقابلہ کرو میں آگے آگے رہوں گا اور اگر تم لوگ اس کام کے لئے تیار نہیں ہیں تو معاویہ نے صلح کی پیشکش کی ہے میں صلح کو تسلیم کروں گا ۔

لوگوں مطالبہ:

تاریخ نگاروں نے لکھا ہے کہ لوگوں نے کہا :ہم تھک چکے ہیں ، ہم ان جنگوں سے تنگ آچکے ہیں اب ہم مزید جنگ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ہم جنگوں سے آزاد ہوکر زندگی کرناچاہتے ہیں)

 

تیسرا نكته: امام حسن (عليه السلام) کے لشکر میں بے ضابطگی اورہماہنگی کا فقدان

امام حسن (عليه السلام) نے جنگ جاری رکھنے کو برخلاف مصلحت سمجھا اور صلح  پر راضی ہوگئے اس کی ایک وجہ آپ کے لشکر کی اندرونی مشکلات تھی جیساکہ مورخین نے لکھا ہے کہ امام کے لشکر میں خوارج بھی تھے ، بعض دنیا پرست لوگ بھی تھے جو صرف مال اور جنگی غنائم کی خاطر آئے تھے ، بعض ایسے لوگ بھی تھے کہ جو صرف اپنے قبیلہ کے سردار کی حیثیت سے جنگ میں شریک تھے اور بعض اپنے شہرت اور دوسرے افراد کی سرزنش سے بچنے کے لئے آئے تھے، کسی مذہبی جذبے کی وجہ سے نہیں آئے تھے۔

أسد الغابة لإبن الأثير، ج2، ص13 ـ الكامل في التاريخ، ج3، ص403 ـ الإرشاد للشيخ المفيد، ج2، ص13 ـ كشف الغمة للإربلي، ج2، ص163

کم تعداد میں ایسے مخلص اور مومن  لوگ بھی تھے کہ جو امام سے دفاع اور امام کی پیروی میں آخری خون کے قطرے تک لڑنے کے لئے تیار تھے۔

چوتھا نكته: امام کے لشکر کے بعض کمانڈروں کی خيانت۔

شايد صلح امام حسن (عليه السلام) کے اہم ترین اسباب  میں سے ایک یہی مسئلہ ہو ، پيامبر اكرم (صلي الله عليه و آله) کے چچا کا بیٹا ،عبيد الله بن عباس  12 هزار کا لشکر لے کر محاذ جنگ پر گیا اور معاویہ نے ۱۰ لاکھ درھم رشوت دینے کا وعدہ دیا کہ جس میں سے ۵ لاکھ نقد اور باقی بعد میں عبید اللہ اور اس کے لشکر کا معاویہ کے ساتھ ملحق ہونے کی صورت میں ادا کرنا طے ہوگیا ۔یہی عبید اللہ کہ جو بنی ہاشم اور  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان سے تھا اور امیر المومنین علیہ السلام کے دور میں بڑی خدمات انجام دی تھیں یہ آدمی رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور جنگ سے ہاتھ  دسبردار ہوجاتا ہے نیز  اس کے لشکر سے بھی بعض لوگ معاویہ کے ساتھ مل جاتے ہیں ۔

تاريخ اليعقوبي، ج2، ص214 ـ الإرشاد للشيخ المفيد، ج2، ص13 ـ كشف الغمة للإربلي، ج2، ص163

 

ہم اس  عبيد الله بن عباس سے یہ شگوہ کرتے ہیں کہ اگر ذرہ بر ابر دینی ، مذہبی اور خاندانی غیرت نہ بھی ہو تو  کم از کم معاویہ کے اس وسوسے کا شکار نہ ہوحاتا اور اس کا کہنا نہ مانتا کیونکہ اسی معاویہ نے بُسر بن أرطاة،کے ذریعے اسی کے دو بچوں کو انتہائی بے دردی سے ان کی ماں کے سامنے قتل  کیا اور  ماں اس کے بعد پاگل ہوگئ اور صحرا میں آوارہ پھیرنے لگی. جو ظلم  بسر نے عبيد الله بن عباس کے ساتھ کیا وہ کسی اور کے ساتھ نہیں کیا۔یہی ایک مورد کافی تھا کہ عبید اللہ بن عباس معاویہ کے ساتھ نہ جاتا۔ کیونکہ یہ واقعہ امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کے دور میں پیش آیا ۔

الإستيعاب لإبن عبد البر، ج1، ص158 ـ الثقات لإبن حبان ، ج2، ص300 ـ تاريخ مدينة دمشق لإبن عساكر، ج10، ص151 ـ تهذيب الكمال للمزي، ج4، ص64 ـ سير أعلام النبلاء للذهبي، ج3، ص137 ـ تهذيب التهذيب لإبن حجر العسقلاني، ج1، ص381 ـ تاريخ الإسلام للذهبي، ج3، ص607

 

امام حسن (عليه السلام) کے لشکر میں بعض ایسے لوگ بھی تھے کہ جو امام حسن علیہ السلام کو معاویہ کے حوالے کرنا چاہتے تھے . مرحوم طبرسي (ره) نے کتاب " الإحتجاج" میں امام حسن (عليه السلام) سے نقل کیا ہے :

والله! لو قاتلت معاوية، لأخذوا بعنقي، حتي يدفعوني إليه سلما والله! لئن أسالمه و أنا عزيز خير من أن يقتلني و أنا أسير أو يمنّ علي فيكون سنة علي بني هاشم آخر الدهر و لمعاوية لا يزال يمن بها و عقبه علي الحي منا و الميت.

اللہ کی قسم ! اگر معاویہ سے جنگ کروں تو یہی لوگ میرے ہاتھ باندھ کر مجھے معاویہ کے حوالے کردیں گے ۔اللہ کی قسم ! اگر ابھی عزت سے اس کے ساتھ صلح و صفائی کرلوں تو یہ اس چیز سے بہتر ہے کہ مجھے اسیر بنائے اور پھر مجھے قتل کر دئے یا مجھ پر منت کر کے مجھے اسیر کرنے کے بعد آزاد کرئے اور بنی ہاشم کے لئے ہمیشہ ذلت و خواری کا باعث اور معاویہ اور اس کی نسل ہمیشہ اس منت کی وجہ سے ہمارے زندوں اور مردوں پر فخر کرئے

 الإحتجاج للشيخ الطبرسي، ج2، ص10

یہ بہت ہی المناک بات ہے  جو آئندہ صفحات میں ذکرہواہے ۔

والله! ما سلمت الأمر إليه إلا أني لم أجد أنصارا و لو وجدت أنصارا لقاتلته ليلي و نهاري.

اللہ کی قسم! میں نے صلح کیا کیونکہ میرے پاس طاقت کی کمی تھی اوریار ومددگار بھی نہ تھے ، اگر میرے پاس یار ومددگار ہوتے اور میرے پاس  طاقت ہوتی تو میں دن رات معاویہ سے جنگ کرتا ۔

الإحتجاج للشيخ الطبرسي، ج2، ص12 ـ الكامل في التاريخ لإبن الأثير، ج3، ص407

جس وقت امام حسن (عليه السلام) نے صلح کرنا چاہا ، اسی وقت آپ (عليه السلام) کے خیمے پر حملہ ہوا اور آپ کے اموال کو غارت کیا یہاں تک کہ امام کے لشکر میں موجود خوارج میں سے ایک نے تلوار سے امام پر وار کیا اور امام کے پیر زخمی کردیا۔ امام  اپنے زخم کے علاج کے لئے مختار کے چچا کے گھر جاتے ہیں اور وہاں قیام پذیر ہوتے ہیں۔

بعض مورخین نے لکھا ہے:

مختار بھی اپنے چچا کے پاس جاتا ہے  اور کہتا ہے : ہمارے پاس ایک خزانہ ہے ہم اس کو آپس میں تقسیم کرسکتے ہیں ،اس کا چچا کہتا ہے : وہ کیا ہے ؟ مختار کہتا ہے : اگر اس میں خوبی دیکھتے ہیں تو حسن بن علی کو معاویہ کے حوالے کر دیں گے اور اس سے انعام لے کر آپس میں تقسیم کر دیں۔  ۔

مختار معاویہ کے خلاف سر سخت رویہ رکھتے تھےلیکن اس  کے باوجود اس طرح قسم کی پیشکش کرتا ہے البتہ مختار کے بعض طرفدارکہتے ہیں کہ مختار نے یہ اس لئے کہا کہ وہ اپنے چچا کو آزمانا چاہتے تھے ۔

ہم مختار کی نسبت سے زیادہ اچھا گمان نہیں رکھتے اس نے جو کام امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کے ساتھ کیا اور اہل بیت علیہم السلام کوخوش کیا یہ ایک اچھا کام تھا ،لیکن یہ معلوم نہیں اس کا اس کام کے انجام دینے کا اصل مقصد کیا تھا ؟ یہ ایک بڑا سوال ہے کہ اس نے یہ کام کسی معصوم امام کی اجازت سے انجام دیا یا نہیں ؟ شیعوں سے جدا ہونے والا پہلا  فاسد اور گمراہ فرقہ، فرقہ کیسانیہ تھا کہ مختار کے قیام  اور قتل کے بعد وجود میں آیا ۔

امام حسن علیہ السلام کے سامنے  مندرجہ بالابیرونی اور امت کی اندورنی صورتحال اور اپنے لشکر کے اندرونی مشکلات اور لوگوں کی خستہ حالی اور لشکر کے بعض اہم کمانڈروں کی خیانت اور غداری کی وجہ سے صلح کے علاوہ کوئی راہ باقی نہیں تھی۔ 

 البتہ امام کا یہ طرز عمل جنگ سے دستبرداری نہیں تھی بلکہ ایک حکمت عملی کی تبدیلی تھی امام نے اس کام کے ذریعے معاویہ اور اس کے یار و انصار کے چہرے سے نقاب اٹھانا تھا کیونکہ یہ لوگ اسلام کی بات کرتے اور اپنے ذاتی امور کو دینی رنگ دیتے تھے امام چاہتے تھے ان افراد کی حقیقت لوگوں پرعیاں ہوجائے ،جیساکہ یہی کام آپ کے والد گرامی نے جنگ صفین میں انجام دیا امیر المومنین علیہ السلام نے جنگ کے دوران فرمایا  :

معاویہ کے لشکر میں موجود افراد وہی ہیں کہ ہم  نے جنگ بدر ، جنگ احد اور دوسری جنگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رکاب میں ان کے ساتھ لڑچکے ہیں  آج یہ لوگ چہرہ بدل کر آئے ہیں لیکن درحقیقت وہی کفار قریش کے چہرے ہیں :

تاريخی اعتبار سے یہ ثابت ہوئی ہے کہ امام حسن (عليه السلام) کی معاويه سے صلح نہ ہوتی تو امام حسين (عليه السلام) کے قیام کے لئے زمینہ فراہم نہ ہوتا اور نسل بنی امیہ کے حقیقی چہرے لوگوں کے لئے آشکار نہ ہوتے۔

یہ صلح امام حسن علیہ السلام کافلسفہ اور حکمت کا ایک خلاصہ ہے۔

 

إبن أبي شيبه کہ جو  بخاري کے استاد ہے ، لکھتے ہیں :

معاويه نے صلح نامه پر دسخط کرنے کے بعد مسجد کوفہ پہچنا اور منبر پر جاکر کہا :

ما قاتلتكم لتصلوا و لا لتصوموا و لا لتحجوا و لا لتزكوا و قد أعرف أنكم تفعلون ذلك و لكن إنما قاتلتكم لا تأمر عليكم و قد أعطاني الله ذلك و أنتم له كارهون.

اللہ کی قسم! میں نے تم لوگوں سے اس لئے جنگ نہیں کی ہے کہ تم لوگ روزہ رکھیں اور نماز پڑھیں اور زکات ادا کریں، مجھے معلوم ہے کہ تم  لوگ اس کام کو انجام دیتے  ہیں۔ میں نے تم لوگوں سے جنگ کی ہے تاکہ تم لوگوں پر حکومت کروں اللہ نے مجھے یہ عطا کیا جبکہ تم لوگ ایسا نہیں چاہتے تھے ۔

المصنف لإبن أبي شيبة الكوفي، ج7، ص251 ـ شرح نهج البلاغة لإبن أبي الحديد المعتزلي، ج16، ص46 ـ مقاتل الطالبيين لأبو الفرج الأصفهاني، ص45 ـ الإرشاد للشيخ المفيد، ج2، ص14

معاويه نے ابتدائی  مرحلے میں ہی اپنے حقیقی چہرے کو لوگوں پردآشکارکیا پھر امیر المومنین اور امام حسن علیہماالسلام کی شان میں گستاخی کرنا شروع کیا اور علی الاعلان کہا : 

و جميعها تحت قدمي و لا أفي بشئ منها.

صلح نامے کی ساری شرائط میرے قدموں کے نیچے ہیں میں کسی پر بھی عمل نہیں کروں گا .

امام حسن (عليه السلام) نے بھی اسی وقت اپنا دفاع کیا اور فرمایا:

أيها الذاكر عليا! أنا الحسن و أبي علي و أنت معاوية و أبوك صخر و أمي فاطمة و أمك هند و جدي رسول الله و جدك حرب و جدتي خديجة و جدتك قتيلة، فلعن الله أخملنا ذكرا و ألأمنا حسبا و شرنا قدما و أقدمنا كفرا و نفاقا. فقال طوائف من أهل المسجد: آمين آمين.

اے! علی کی برائی بیان کرنے والا !میں حسن ہوں اور  علي میرا والد ہیں ۔تم معاویہ ہو اور تیرا باپ صخر،میری ماں فاطمہ سلام اللہ علیہا ہے اور تیری ماں ھند ، میرے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور تیرا نانا حرب ، میری نانی خدیجہ اور تیری نانی فتیلہ ہے ۔پس ہم میں سے جس کا نام پلید ہو اور جس کے حسب و نسب پست اور گھٹیا ہو اور جس کا کردار خراب ہو  اور جس کا کفر اور نفاق زیادہ ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

یہ سن کر مسجد میں بیٹھے مختلف لوگوں نے کہا : آمین آمین ۔

مقاتل الطالبيين لأبو الفرج الأصفهاني، ص46 ـ شرح نهج البلاغة لإبن أبي الحديد المعتزلي، ج16، ص47 ـ الإرشاد للشيخ المفيد، ج2، ص15

انتہائی دلچسپ بات یہ ہے اس روایت کو جس راوی نے نقل کیا ہے وہ بھی آمین کہتا ہے اور ابولفرج اصفہانی بھی آمین کہتا ہے ۔

قال فضل: فقال يحيي بن معين: و نحن نقول آمين. قال أبو عبيد: و نحن أيضا نقول آمين. قال أبو الفرج: و أنا أقول آمين.

ہم یہاں اس روایت کو نقل کر رہے ہیں ہم بھی اپنی طرف سے اور اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کی طرف سے کہتے ہیں آمین۔

معاویہ کا اس طرح کہنا بتاتا ہے کہ معاویہ معاہدے کے پابند نہیں تھا ابھی عہد نامہ کے قلم کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی معاویہ نے تمام وعدوں کی خلاف ورزی کردی۔

* * * * * * *

سؤال:

برای مہربانی مندرجہ ذیل مسائل کی بھی وضاحت فرمائیں:

الف :  معاویہ کی طرف سے صلح نامے کی شرائط کی پابندی نہ کرنا۔

 ب :  امام حسن علیہ السلام کی شہادت میں معاویہ کا ہاتھ ہونا۔

ج :  خلیفہ سوم جناب عثمان کے قتل کی علت اور جناب عايشه کی طرف سے أمير المؤمنين (عليه السلام) کی مخالفت اور امام کے خلاف قیام ۔

جواب:

الف :   شیعہ اور اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام حسن علیہ السلام زہر کے اثر سے شہید ہوئے۔

 اور اس پر بھی اتفاق نظر ہے کہ یہ زہر امام علیہ السلام کی زوجہ ، محمد بن اشعث کی بیٹی جُعده نے دیا تھا ۔لیکن اس میں اختلاف ہے کہ اس کو اکسانے والا معاویہ تھا یا یزید تھا یا اس وقت کے مدینہ کا گورنر سعید بن عاص تھا ۔

ہم اس سلسلے میں مصادر و مآخذ اول کےکچھ  نمونے ذکر کرتے ہیں ۔

صلح نامہ کی شرائط میں سے ایک یہ تھا کہ معاویہ کو امام حسن علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام ، ان کے شیعوں ،کوفہ اور بصرہ اور شیعہ نشین علاقوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا حق نہیں ہے ،لیکن اس کے باوجود ،خود معاویہ نے جُعده کو اکسایا اور بعض کے کہنے کے مطابق ایک لاکھ درھم اس کے لئے بھیجا اور یہ وعدہ دیا کہ اگر امام حسن علیہ السلام کو شہید کر دے تو اسے یزید کی زوجیت میں لے آئے گا ۔

أرسل معاوية إلي إبنة الأشعث: إني مزوجك بيزيد إبني علي أن تسمّي الحسن بن علي و بعث إليها بمائة ألف درهم، فقبلت و سمّت الحسن، فسوغها المال و لم يزوجها منه.

معاويه نے  أشعث کی بیٹی جُعده کو یہ پیغام دیا : اگر وہ امام حسن بن علي علیہما السلام کو زہر دے تو میں تجھے یزید کی زوجیت میں لاوں گا اور اس کے ساتھ معاویہ نے ایک لاکھ درھم اس کے لئے بھیجا ،اس نے بھی قبول کیا اور امام کو زہر دیا ،معاویہ نے درھم تو دے دیا لیکن یزید کے ساتھ اس کی شادی نہیں کی۔

مقاتل الطالبيين لأبو الفرج الأصفهاني، ص48

مِزّي ، ذهبي اور  إبن عساكر کہ جو أهل سنت کے علماء بزرگ ہیں ، نقل کرتے ہیں:

كان معاوية قد تلطف لبعض خدمه أن يسقيه سمّا.

معاویہ نے بعض لوگوں کو اکسایا اور تاکہ حسن بن علی الیہما السلام کو زہر دے ۔ 

سير أعلام النبلاء للذهبي، ج3، ص274 ـ تهذيب الكمال للمزي، ج6، ص252 ـ تاريخ مدينة دمشق لإبن عساكر، ج13، ص284 ـ البداية و النهاية لإبن كثير، ج8، ص47

زمخشري  کہ جو اہل سنت کے اہم علماء میں سے ہے ،اس سلسلے میں لکھتے ہیں: 

جعل معاوية لجعدة بنت الأشعث إمرأة الحسن مائة ألف درهم حتي سمّته.

معاويه نے ایک لاکھ درھم امام کی زوجہ جُعده  تک پہنچایا تاکہ وہ  امام کو زہر دے۔

ربيع الأبرار للزمخشري، ج4، ص208، الباب الحادي والثمانين

أبو الحسن مدائني واضح طور پر کہتا ہے:

دسّ إليه معاوية سمّا علي يد جعدة بنت الأشعث إبن قيس زوجة الحسن و قال لها: إن قتلتيه بالسمّ فلك مائة ألف و أزوجك يزيد إبني. فلمّا مات وفي لها بالمال و لم يزوجها من يزيد. قال: أخشي أن تصنع بإبني كما صنعت بإبن رسول الله صلي الله عليه و سلم.

معاويه نے جعده تک زہرا پہنچایا اوراسے ییغام دیا کہ اگر یہ وہ اس کام کو انجام دے گی  تو ایک لاکھ درھم اسے دے گا اور یزید کی زوجیت میں لائے گا ،جس وقت جُعده  نے یہ کام انجام دیا تو ایک لاکھ درھم تو دے دیا لیکن یزید سے اس کی شادی نہیں کرائی اور یہ کہا : مجھے اس چیز کا خوف ہے کہ جو کام اس نے فرزند رسول کے ساتھ انجام دیا ہے وہ یہی کام میرے بیٹے کے ساتھ بھی شاید کرئے ۔

شرح نهج البلاغة لإبن أبي الحديد المعتزلي، ج16، ص11

یہ واقعہ مندجہ ذیل کتابوں میں بھی ذکر ہے :

تذكرة الخواص لإبن الجوزي، ص192 ـ الإستيعاب لإبن عبد البر، ج1، ص389 ـ فتوح البلدان لإبن أعثم الكوفي، ج4، ص318

إبن تيميه نے منهاج السنة لإبن تيمية ـ در چاپ جديد 9 جلدي ـ ، جلد2، ص225 میں لکھا ہے :

إن بني أمية ليسوا بأعظم جرما من بني إسرائيل، فمعاوية حين أمر بسمّ الحسن فهو من باب قتال بعضهم بعضاً.

بنی امیہ کا جرم  بني إسرائيل سے زیادہ تو نہیں. معاويه نے حسن بن علی کو زہر دینے کا کہا تو یہ تو بعض کا بعض کو قتل کرنے کے باب سے ہے۔{جیسے سیاسی لیڈر اور رقیب ایک دوسرے کو قتل کرنے اور راستے سے ہٹانے کی چکر میں رہتے ہیں }

 

ب : جہاں تک عائشہ کا امیر المومنین علیہ السلام کی مخالفت کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں علامہ عسکری نے اپنی کتاب " ام المومنین عائشہ " کے مقدمے میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے :

عائشہ کا امیر المومنین علیہ السلام اور جناب فاطمہ صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی مخالفت  ابن ابی الحدید معتزلی کے استاد کے بقول خود عائشہ کی شادی کے شروع سے تھی ،کینوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب خدیجہ ،جناب فاطمہ زہرا اور امیر المومنین علیہم السلام کو زیادہ اچھائی کے ساتھ یاد کرتے تھے اور یہ چیز جناب عائشہ کو گراں گذرتی اور اس پر منفی رد عمل دکھاتی تھی ۔

یہاں تک کہ إبن أبي الحديد نقل کرتا ہے :

حضرت عائشہ وہ واحد فرد تھی کہ جس نے حضرت فاطمه زهراء (سلام الله عليها) کی شہادت کے رسوم میں شرکت نہیں کی اور خوشی کا اظہارکیا.

ثم ماتت فاطمة فجاء نساء رسول الله ص کلهن إلى بنی هاشم فی العزاء إلا عائشة فإنها لم تأت وأظهرت مرضا ونقل إلى علی عنها کلام یدل على السرور

شرح نهج البلاغة.ج9 ص132.ط دارالکتاب العربی

لہذا یہ مخالفت شروع سے ہی تھی باوجود اس کے عائشہ عثمان کی نسبت واضح طور پر یہ کہتی تھی:

أقتلوا نعثلا، فقد كفر.

اس نعثل کو قتل کرو یہ کافر ہوا ہے۔

شرح نهج البلاغة لإبن أبي الحديد المعتزلي، ج6، ص215 ـ تفسير الآلوسي، ج22، ص11 ـ المحصول للرازي، ج4، ص343 ـ تاريخ الطبري، ج3، ص477 ـ الكامل في التاريخ لإبن الأثير، ج3، ص206 ـ الامامة و السياسة لإبن قتيبة الدينوري، تحقيق الزيني، ج1، ص51 ـ كتاب الفتوح لأحمد بن أعثم الكوفي، ج2، ص421 ـ السيرة الحلبية، ج3، ص357 ـ تقريب المعارف لأبو الصلاح الحلبي ، ص286 ـ النهاية في غريب الحديث لإبن الأثير، ج5، ص80 ـ لسان العرب لإبن منظور، ج11، ص670 ـ تاج العروس للزبيدي، ج15، ص745

یہ کہہ کر مدینہ سے خارج ہوئی اور جب عثمان قتل کی خبر سے باخبر ہوئی تو سوال کیا : کون خلیفہ بنا ؟ کہا : حضرت علی علیہ السلام ۔ عائشہ یہ سوچھ رہی تھی کہ طلحہ یا زبیر میں سے ایک خلیفہ بنے گا ۔ لیکن جب یہ نے یہ سنا کہ امیر المومنین علیہ السلام خلیفہ بنا ہے تو سخت الفاظ آپ کے بارے میں استعمال کیا اور کہا : مسجد گئی اور طلحہ ،زبیر اور عبد اللہ بن زبیر بھی آملے اور عثمان کے خون کا انتقام لینے جنگ جمل کا نقشہ بنایا۔  

* * * * * * *

سؤال:

 سنا ہے کہ کسی نے امام حسن (عليه السلام) کو اس طرح سلام کیا  :

السلام عليك يا مذلّ المؤمنين.

لہذا اس سلسلے میں وضاحت فرمائیں ۔

جواب:

امام حسن (عليه السلام) اور معاویہ کے درمیان صلح کے بعد یہ الفاظ امام کے بارے میں استعمال کیا اور آپ کی شان میں گستاخی کی تحف العقول، صفحه 308 میں ایک مرسل روایت ہے اس کی سند نہیں ہے . جو أبو الفرج اصفهاني نے مقاتل الطالبيين، صفحه 44 پر نقل کیا ہے  اس کے بھی اکثر  راوی خود اہل سنت کے ہی  ہیں ، مثلا  فضل بن حسن مصري ، سفيان أبي ليلي  اور  شعبي .

تحف العقول لإبن شعبة الحراني، ص308 ـ مناقب الإمام أمير المؤمنين لمحمد بن سليمان الكوفي، ج2، ص128 ـ مقاتل الطالبيين لأبو الفرج الأصفهاني، ص44 ـ مناقب آل أبي طالب لإبن شهر آشوب، ج3، ص197

صلح امام حسن (عليه السلام)، کے بعد بعض نے یہ الفاظ امام حسن (عليه السلام) کے لئے استعمال کیے :

السلام عليك يا مذل المؤمنين.

  امام حسن (عليه السلام) نے بھی جواب میں فرمایا:

ما أنا بمذل المؤمنين و لكني معز المؤمنين. إني لما رأيتكم ليس بكم عليهم قوة، سلمت الأمر لأبقي أنا و أنتم بين أظهرهم.

میں مومن کو ذلیل کرنے والا نہیں ہوں، بلكه مؤمنين کو عزت دینے والا ہوں،جب یہ دیکھا کہ تم میں جنگ کرنے کی طاقت نہیں تو صلح کیا تاکہ ہم اور تم لوگ زندہ رہے۔

اس روایت کی سند نہیں ہے کسی زیارت نامہ میں ایسا جملہ نہیں دیکھا ہے ۔ ہاں  شيخ مفيد (ره) کی كتاب الإختصاص  صفحه 82 پر نقل ہوا ہے کہ امام کے مخالفوں میں سے سفيان بن ليلي نام کے ایک آدمی نے یہ الفاظ استعمال کیا ۔

گرچہ صلح کے بعد امام حسن علیہ السلام کے بعض اصحاب کا رویہ آپ کے ساتھ اچھا نہیں تھا اور اس طرح سلام کرنے سے بھی زیادہ برے انداز سے پیش آئے۔

  بہر حال ان روایات کی سند اگر صحیح ہو تو ہم اس کو قبول کرتے ہیں لیکن ضعیف سند روایت ہو تو ہم قبول نہیں کرتے۔

* * * * * * *

سؤال:

برای مہربان اس روایت کی سند کے بارے میں کچھ وضاحت فرمائیں :

ولاية علي بن أبي طالب حصني، فمن دخل حصني أمن من عذابي.

 جواب:

یہ روایت مندرجہ ذیل کتابوں میں نقل ہوئی ہے ؛

الأمالي للشيخ الصدوق، ص306 ـ عيون أخبار الرضا (ع) للشيخ الصدوق، ج1، ص146 ـ معاني الأخبار للشيخ الصدوق، ص371 ـ الجواهر السنية للحر العاملي، ص225 ـ مسند الإمام الرضا (ع) للشيخ عزيز الله عطاردي، ج1، ص114 ـ شواهد التنزيل للحاكم الحسكاني، ج1، ص170 ـ مناقب علي بن أبي طالب لإبن مردويه الأصفهاني، ص72

یہ  روايت سند کے اعتبار سے ٹھیک ہے اور ہمارے  سارے  فقهاء  اور مراجع اس حدیث کو ایک امام سے یقینی طور پر نقل شدہ ایک حدیث کے طور پر دیکھتے ہیں ۔

* * * * * * *

سؤال:

 تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ عائشہ خچرپر سوار ہو کر آئی تھی،اس کی وضاحت درکار ہے ؟

جواب:

یہ واقعہ شیعہ کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا ہے ، باقر شريف قرشي کہ جو عراق کے بڑے علماء میں سے ہیں انہوں نے اپنی کتاب" حياة الإمام الحسن " کہ جو شاید اس سلسلے کی ایک تفصیلی کتابوں میں سے ایک ہو ، اس میں نقل کرتے ہیں :

شیعہ کے بزرگ علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ جب امام حسن علیہ السلام کے جنازہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے پاس لایا گیا ،یا دفن کرنے یا زیارت اور طواف کے لئے ،جیساکہ آج بھی یہ رسم ہے کہ جنازے کو مقدس مقامات کے طواف کے لئے لے جاتے ہیں، لیکن یہ حالت جب بنی مروان نے دیکھا تو ان پر یہ ناگوار گزری اور یہ لوگ آگے آئے اور اس کام میں رکاوٹ بنے ایک تلواریں لیے ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور جھگڑا بھی ہوا ۔

تاريخ يعقوبي، جلد 2، صفحه 225 میں ہے :

إن عائشة ركبت بغلة شهباء و قالت: بيتي لا آذن فيه لأحد. فأتاها القاسم بن محمد بن أبي بكر، فقال لها: يا عمة! ما غسلنا رؤوسنا من يوم الجمل الأحمر، أتريدين أن يقال يوم البغلة الشهباء؟ فرجعت.

عايشه ایک سیاہ و سفید خچر پر سوار ہوکر آئی اور کہنے لگی : یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے نزدیک میرا گھر ہے میں کسی کو یہاں دفن کرنے کی اجازت نہیں دوں گی۔  قاسم بن محمد بن أبي بكر نے عائشہ سے کہا: پھوپھی ! ہم نے اپنا سر ابھی جمل کے  ننگ و عار کے گرد وغبار سے پاک نہیں کیا ہے ،کیا دوسری جنگ کرنا چاہتی ہے اور پھر لوگ یہ کہے : کالا اور سفید خچر کی جنگ؟ عائشہ واپس پلٹی ۔

اسی طرح نقل ہوا ہے کہ عائشہ خچر پر سوار ہو کر آئی تو  إبن أبي عتيق نے ان سے کہا :

ما إنقضي عنا يوم الجمل. حتي تريدي أن تأتينا بيوم البغلة؟

ابھی جمل کے کا واقعہ ختم نہیں ہوا . کیا خچر کا دن منانا چاہتی ہو ؟

تهذيب الكمال للمزي، جلد 16، ص67 ـ تاريخ مدينة دمشق لإبن عساكر، ج32، ص240 ـ تهذيب التهذيب لإبن حجر العسقلاني، ج6، ص11

اسی طرح  إبن عباس نے عايشه پر اعتراض کیا :

فقال لها إبن عباس: كأنك أردت أن يقال: يوم البغلة كما قيل يوم الجمل!؟ قالت: رحمك الله ذاك يوم نسي! قال: لا، يوم أذكر منه علي الدهر.

  جس طرح سے  ایک دن جمل {اونٹ} کے نام سے موسوم ہوچکا ہے، کیا اب ایک اوردن خچر کے نام سےمنظرعام پہ لاناچاہتی ہو ؟

بهجة المجالس لإبن عبد البر، ص34

ایک اور نقل کے مطابق  إبن عباس نے  عايشه سے کہا :

يوما تجملت و يوما تبغلت و إن عشت تفيلت.

ایک دن جنگ جمل کرتی ہو اور ایک دن جنگ خچر اور اگر زندہ رہی تو ہاتھی کی جنگ بھی کرے گی ۔  

ہاتھی کی جنگ ، ابرهه کی طرف سے ہاتھی سوار لشکر کے ساتھ اللہ کے گھر پر حملہ کرنے کی طرف اشارہ ہے.

بغداد کے شاعر إبن حجاج کہتا ہے :

أيا بنت أبي بكر فلا كان و لا كنت

تجملت تبغلت و إن عشت تفيلت

لك التسع من الثمن و بالكل تملكت

اے ابوبكر کی بیٹی ! جنگ جمل اور جنگ خچر تو آپ نے کرہی دی ،اگر زندہ رہی تو جنگ ہاتھی بھی کر دے گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج جو آٹھ  حصوں میں سے ایک حصے کی مالک ہے اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ۹ بیویوں میں سے ایک ہو اور ارث میں سے تیرا حق   ، يك نهم از يك هشتم است، آيا مي خواهي تمام إرث را بگيري؟

اس قسم کے واقعات اہل سنت کی کتابوں میں بھی ہیں اور شیعوں کی کتابوں میں بھی لیکن اہل سنت اشارہ کنایہ کر کے نکل گئے ہیں اور اصل واقعے کا ذکر نہیں کیا ہے۔

* * * * * * *

سؤال:

 

کیا اہل سنت کی کتابوں میں یہ بات نقل ہوئی ہے کہ عائشہ نے رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم سے ارث لیا ہو اور پھر امام حسن علیہ السلام کو اپنے نانا کی قبر کے پاس دفن سے منع کیا ہو ؟ 

جواب:

ان کے پاس ایک ضعیف دلیل بھی موجود نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ گھر عائشہ کا تھا ایسے قرائن اور شواہد موجود ہیں کہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دفن ہے  یہ عائشہ کا گھر {حجرہ} ہی نہیں تھا ۔ جبکہ عائشہ کا گھر مسجد کے جنوب کی طرف تھا بہت سی روایات بتاتی ہیں کہ عائشہ کے گھر کا دروازہ شمال کی طرف کھلتا تھا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حجرے کا دروازہ مغرب کی طرف کھلتا تھا۔لہذا یہ باتیں اہل سنت کے ہاں عائشہ کے حجرے کا دروازہ شمال کی طرف کھلنے کے واقعے کے خلاف ہے ۔

 جیساکہ جب ابوبکر نے فدک جناب زہرا سلام اللہ علیہا سے چھینا چاہا تو پیغمبر سے منسوب  قول : لا نورث، ما تركناه صدقة کا سہارا لیا

ہم ارث چھوڑ کر نہیں جاتے جو چیز ہم چھوڑے جاتے ہیں وہ صدقہ ہے ۔

صحيح البخاري، ج4، ص42 ـ صحيح مسلم، ج5، ص152۔

اگر بات یہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اپنی بیٹی کے لئے ارث چھوڑ کر نہیں جاتے ہیں تو بیویوں کے لئے بھی ارث نہیں ہوگا۔اگر یہ کہتے ہیں کہ پہلے عائشہ کو بخش دیا تھا، تو اس مدعا کی کیا دلیل ہے ؟ جبکہ ہم فدک کے بارے میں محکم اور محکمہ پسند دلیل رکھتے ہیں کہ خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک جناب زہرا سلام اللہ علیہا کو بخش دیا تھا۔

عائشہ نے جنگ جمل کے بعد اپنی عزت کھودی ،یہاں تک کہ اہل سنت کے صحاح ستہ میں یہ بات آئی ہے کہ وہ ہمیشہ روتی رہتی تھی اور افسوس کرتی رہتی تھی اور تکلیف کی حالت میں رہتی تھی ،جس وقت دنیا سے جانے لگی تو اس وقت جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نذدیک دفن کریں ؟ تو جواب میں کہا :

إني أحدثت بعد رسول الله صلي الله عليه و سلم حدثا، أدفنوني مع أزواجه. فدفنت بالبقيع.

میں نے  رسول الله (صلي الله عليه و سلم) کے بعد صحیح کام انجام نہیں دیا ہے لہذا مجھے  رسول الله (صلي الله عليه و سلم) کی ازواج کے نذدیک دفن کریں. لہذا انہیں بقیع میں دفن کیا گیا ۔

المستدرك علي الصحيحين الحاكم النيشابوري، ج4، ص6 ـ سير أعلام النبلاء للذهبي، ج2، ص193 ـ المعارف لإبن قتيبة، ص134 ـ مسند إبن راهويه، ج2، ص43 ـ الطبقات الكبري لمحمد بن سعد، ج8، ص74

اگر حقیقت میں یہ گھر عائشہ کا ہی گھر تھا تو سب سے زیادہ پيامبر اكرم (صلي الله عليه و آله) کے نذدیک دفن ہونے کا مستحق بھی عائشہ ہی تھی ، لیکن بقیع میں دفن کرنے کی وصیت کی ۔

نقل ہوا ہے کہ عائشہ کو  امام حسن علیہ السلام کے جنازے کے سامنے جنگ کرنے کے لئے ورغلانے والا مروان تھا، اگرچہ اس وقت اس کا کوئی خاص سیاسی مقام ومنصب  نہیں تھا لیکن وہ خود خچر سے نیچے اترا اور پھر عائشہ سے سوار ہونے کے لئے کہا۔عائشہ بھی سوار ہوگی اور یہ واقعہ پیش آیا اور  باقی بنی مروان والوں کو بھی اکسایا۔

   حقيقت میں یہ بنی ہاشم اور بنی مروان کے درمیان ایک جگھڑا تھا نہ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان۔لہذا ابن ابی عتیق نے کہا  : بنی ہاشم اور ہمارے دوستوں کے درمیان ایک برا واقعہ پیش آیا ہے میں جاہتا ہوں وہاں جاکر اس واقعے کی اصلاح کروں اور خون ریزی سے پہلے اس جھگڑے کو ختم کروں 

* * * * * * *

سؤال:

یہ کہا جاتا ہے کہ امام حسن (عليه السلام) کے جنازے پر تیروں کی بارش ہوئی ہے، لہذا اس سلسلے میں کچھ وضاحت فرمائیں۔

جواب:

تاریخ میں یہ تعبیر آئی ہے :

إن عايشه أمرت بني أميه برمي جنازة الحسن، فرموها، حتي إستلّ منها سبعون سهما.

جناب آقاي باقر شريف قرشي نے اپنی  كتاب حياة الإمام الحسن، جلد 2، صفحه 499 میں شیعہ کتابوں سے نقل کیا ہے ۔

لیکن کیونکہ بني أميه کے دور میں ، اصحاب اور عائشہ اور حفصہ کی توہین کے خلاف موجود معمولی باتوں کو بھی مٹائی دی جاتی تھی ،یہاں تک کہ ذهبي کہتا ہے کہ جو روایت بھی اصحاب کے خلاف ہو تو اس کو مٹادینا چاہئے لیکن اس کے باوجود وہ لوگ اصل واقعے کو تو مٹا نہیں سکے صرف تفصیلات کو مٹا سکے ،لہذا اصحاب کے چہرے کو خراب کرنے والی احادیث کو مٹانے کی کوشش کی وجہ سے امام حسن علیہ السلام کے جنازے پر ہونے والے واقعے کے بارے میں کلی طور پر نقل شدہ مطالب میں سے ایک  إبن عساكر کی کتاب" تاريخ مدينة دمشق، جلد 13، صفحه 292، بنی امیہ اور بنی ہاشم کے درمیان ہونے والے اس جگھڑے کا ذکر ہوا ہے :

حتي كانت بينهم المراماة.

ان دونوں گروہوں نے ایک دوسرے پر تیر چلائے .

ذهبي نے بھی در "سير أعلام النبلاء، جلد 3، صفحه 275 میں اس واقعے کو ذکر کیا ہے :

جب حسن بن علي علیہما السلام دنیا سے چلے گئے، تو مدینہ میں ایسا لرزہ طاری ہوا کہ کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کے آنکھوں سے آنسو جاری نہ ہوا ہو، مروان نے  نے بنی امیہ اور بنی مروان کو ورغلایا اور یہ لوگ  قبر رسول (صلي الله عليه و سلم) کے پاس آئے اوروہاں مورچہ زن ہوئے .

و صاح مروان في بني أمية و لبسوا السلاح، فقال له حسين: يا إبن الزرقاء! مالك و لهذا؟! أوال أنت؟ فقال: لا تخلص إلي هذا و أنا حي.

فصاح حسين بحلف الفضول، فاجتمعت هاشم و تيم و زهرة و أسد في السلاح و عقد مروان لواء و كانت بينهم مراماة.

مروان بنی امیہ کے پاس چلا گیا اور ان کو جنگی لباس پہنایا ۔ حسین نے اس سے کہا : اے نیلی آنکھوں والی عورت کا بیٹا ! تمہیں کیا ہوا ہے تم لوگوں کو ہمارے خلاف ورغلا رہے ہو ؟کیا مدینہ کا گورنر تم ہو ؟  امام حسین علیہ السلام نے بھی لوگوں کو مدد کرنے کے لئے کہا اور مختلف قبائل کے لوگ مسلح ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے پاس آئے مروان نے بھی جنگ کا پرچم ہاتھ میں لیا اور ایک دوسرے پر تیر چلائے۔

لہذا تیر تو چلائے گئے لیکن کیا یہ تیر امام حسن (عليه السلام) کے جنازے پر بھی آلگے یا نہیں ؟ ذهبي  اور  إبن عساكر نےاس کا ذکر نہیں کیا ہے .۔یہ لوگ تفصیل کے بغیر اصل واقعے کی طرف اشارہ کر کے نکل گئے ہیں ۔لیکن شیعہ کتابوں میں تفصیلی طور پر آیا ہے کہ جب جنازے کو بقیع لایا گیا تو یہ تیر اس حد تک پیوست ہوئے تھے اور تابوت کی لکڑی سے گزر کر امام کی لاسش تک تیرا پہنچا تھا ۔لہذا یہ دن اہل بیت علیہم السلام کے لئے ایک سخت مصیبت والا دن تھا ۔ یہاں تک کہ بعض نے حضرت عباس ابن علی (عليهما السلام) کی زندگی نامے میں لکھا ہے کہ یہ سب سے زیادہ ان کی تکلیف کا باعث بنا.

بعض کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ حضرت عباس (عليه السلام)نے جب امام حسن (عليه السلام) کو مسموم پایا اور امام حسن علیہ السلام سے اصرارکے ساتھ کہنے لگے : آپ کو کس نے زہر دیا ہے اور آپ کی یہ حالت بنائی ہے آپ مجھے بتادیں تاکہ تلوار سے اس کا کام تمام کردوں؟


««« و السلام عليكم و رحمة الله و بركاته »»»

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ: