24 ذی الحجہ، روز مباہلہ، عظمت اہل بیت (ع) کی ایک زندہ و جاوید سند
مباہلہ:
ایک قرآنی اصطلاح، دو لوگوں یا گروہوں کی خود کو حق پر ثابت کرنے کے لیے خداوند سے ایک دوسرے کے خلاف بد دعا کرنا۔
لفظ مباہلہ کے معنی:
لغوی معنی:
مباہلہ: کے لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔
الجوہری، اسمعیل بن حماد، الصحاح، 1407۔ ذیل مادہ بھل ،
بھلہ اللہ ، یعنی اس پر لعنت کرے اور اپنی رحمت سے دور کرے۔
الزمخشری، محمود، 1415 ق، ج1، ص: 368
لفظ مباہلہ: مفہوم کے حوالے سے آیت مباہلہ سے ماخوذ ہے۔
شیرازی، مکارم، تفسیر نمونه، ج2، ص580
اصل مباہلہ کا لفظ اھل کے وزن پر مادہ "بھل" سے آزاد کرنے اور کسی چیز سے قید و بند اٹھانے کے معنی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے جب کسی حیوان کو آزاد چھوڑتے ہیں تا کہ اس کا نوزاد بچہ آزادی کے ساتھ اس کا دودھ پی سکے ، اسے "باھل" کہتے ہیں ، اور دعا میں " ابتھال " تضرع اور خداوند پر کام چھوڑنے کو کہتے ہیں۔
اصطلاحی معنی:
ابتھال کے معنی میں دو اقوال ہیں:
1۔ ایک دوسرے پر لعن کرنا، اگر دو افراد کے درمیان ہو،
2۔ کسی کی ہلاکت کی نیت سے بددعا کرنا۔
مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں کہ اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔
ایک دوسرے پر نفرین کرنا تا کہ جو باطل پر ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہو اور جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے، اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جائے۔ مباہلے کا عمومی مفہوم یہ بیان کیا جاتا ہے۔
دو مد مقابل افراد آپس میں یوں دعا کریں کہ اگر تم حق پر اور میں باطل ہوں تو اللہ مجھے ہلاک کرے اور اگر میں حق پر اور تم باطل پو ہو تو اللہ تعالی تجھے ہلاک کرے۔ پھر یہی بات دوسرا فریق بھی کہے۔
طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج2، ص 762 تا 761
آیت مباہلہ:
سورۃ آل عمران کی آیت 61 کو مفسرین آیت مباہلہ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں مباہلہ کا ذکر آیا ہے۔
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
ترجمہ: چنانچہ اب آپ کو علم ( اور وحی ) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس ( حضرت عیسی ) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو، بلا لیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔
سورہ آل عمران آیت 61
ترجمہ کنز العرفان، مفتی محمد قاسم
واقعہ مباہلہ:
مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے جسے سیرت ابن اسحاق اور اور تفسیر ابن کثیر میں تفصیل سے لکھا گیا ہے. نبی (ص) نے نجران کے عیسائیوں کی جانب ایک فرمان بھیجا، جس میں یہ تین چیزیں تھیں اسلام قبول کرو، یا جزیہ ادا کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ عیسائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے شرجیل، جبار بن فیضی وغیرہ کو حضور ص کی خدمت میں بھیجا۔ ان لوگوں نے آ کر مذہبی امور پر بات چیت شروع کر دی، یہاں تک کہ حضرت عیسی کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا۔ اسی دوران وحی نازل ہوئی جس میں مباہلہ کا ذکر ہے۔
اس آیت کے نزول کے بعد نبی ص اپنے نواسوں حسن اور حسین اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ اور داماد حضرت علی کو لے کر گھر سے نکلے، دوسری طرف عیسائیوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ہیں تو ہم ہلاک ہو جاہیں گے اور ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا۔ اسی واقعہ کی نسبت سے شعیہ اور اکثر سنی بھی پنجتن پاک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جس سے سلفی حضرات اختلاف کرتے ہیں۔
دعوت مباہلہ:
مندرجہ بالا آیت میں خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچوں ، عورتوں اور نفسوں کو لے آئیں اور تم بھی اپنے بچوں اور عورتوں اور نفسوں کو بلاوٴ پھر دعا کرو تا کہ خدا جھوٹوں کو رسوا کر دے ۔
مباہلہ کی یہ صورت شاید قبل از این عرب میں مروج نہ تھی اور ایک ایسا راستہ ہے جو سو فی صد پیغمبر اکرم کے ایمان اور دعوت کی صداقت کا پتا دیتا ہے ۔
کیسے ممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دے کہ آوٴ ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں ، اس سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کر دے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے ۔
یہ مسلّم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطر ناک معاملہ ہے، کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہوا تو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہو گا ۔
کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اور سمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمینان کیے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی طرف سے دعوت مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر ، آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان قاطع کی دلیل بھی ہے ۔
اسلامی روایات میں ہے کہ: مباہلہ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تا کہ اس بارے میں سوچ بچار کر لیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کر لیں ۔ مشورے کی یہ بات ان کی نفساتی حالت کی بارے میں بتاتی ہے ۔ بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد شور و غل ، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ مباہلہ کے لیے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کر لیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں جبھی شور و غل کا سہارا لیا جائے، اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جان لینا چاہیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صورت میں ان سے مباہلہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطر ناک ہے۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین (ع) کو گود میں لیے حسن (ع) کا ہاتھ پکڑے اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کو ہمراہ لیے آ پہنچے ہیں اور انہیں فرما رہے ہیں کہ جب میں دعا کروں تو، تم آمین کہنا ۔
عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لیے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے ۔
فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ آیات میں حضرت عیسیٰ کی الوہیت کی نفی پر استدلال تھا ۔ اب اس آیت میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر اس علم و دانش کے بعد بھی جو تمہارے پاس پہنچا ہے، کچھ لوگ تم سے لڑیں جھگڑیں تو انہیں مباہلہ کی دعوت دو اور اس سے کہو کہ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم بھی اپنے بیٹوں کو بلاوٴ ، ہم اپنی عورتوں کو دعوت دیتے یں تم بھی اپنی عورتوں کو بلاوٴ اور ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں تم بھی اپنے نفسوں کو دعوت دو پھر ہم مباہلہ کریں گے اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں گے۔
بغیر کہے یہ بات واضح ہے کہ مباہلہ سے مراد یہ نہیں کہ طرفین جمع ہوں ، ایک دوسرے پر لعنت و نفرین کریں اور پھر منتشر ہو جائیں کیونکہ یہ عمل تو نتیجہ خیز نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ دعا اور نفرین عملی طور پر اپنا اثر ظاہر کرے اور جو جھوٹا ہو فوراً عذا ب میں مبتلا ہو جائے ۔
اس آیت میں مباہلہ کا نتیجہ تو بیان نہیں کیا گیا لیکن چونکہ یہ طریقہ کار منطق و استدلال کے غیر موثر ہونے پر اختیار کیا گیا تھا، اس لیے یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ مقصود صرف دعا نہ تھی بلکہ اس کا خارجی اثر پیش نظر تھا ۔
مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تا کہ سب کے سامنے واضح ہو جائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔ چنانچہ پیغمبر اسلام (ص) نے نجران کے نصارٰی کو مباہلہ کی تجویز دی اور انھوں نے یہ تجویز قبول کر لی، لیکن مقررہ وقت پر انھوں نے مباہلہ کرنے سے اجتناب کیا، کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ پیغمبر (ص) اپنے قریب ترین افراد یعنی اپنی بیٹی : فاطمہ زہراء (س)، اپنے داماد امام علی (ع)، اپنے نواسوں حسن (ع) اور حسین (ع)، کو ساتھ لے کر آئے ہیں چنانچہ انہیں آپ (ص) کی صداقت کا یقین ہوا، اور یوں رسول اللہ (ص) اس مباہلے میں کامیاب ہوئے۔
نجران کے نصارٰی اور رسول خدا (ص) کے درمیان پیش آنے والا واقعہ مباہلہ نہ صرف نبی اکرم (ص) کے اصل دعوے [ یعنی دعوت اسلام ] کی حقانیت کا ثبوت ہے بلکہ آپ (ص) کے ساتھ آنے والے افراد کی فضیلت خاصہ پر بھی دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ آپ (ص) نے تمام اصحاب اور اعزاء و اقارب کے درمیان اپنے قریب ترین افراد کو مباہلے کے لیے منتخب کر کے دنیا والوں کو ان کا اس انداز سے تعارف کرایا ہے۔ یہ واقعہ 24 ذی الحجہ سن 9 ہجری کو رونما ہوا، اور قرآن کریم کی سورہ آل عمران آیت نمبر 61 میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
آیت مباہلہ:
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
ترجمہ: چنانچہ اب آپ کو علم ( اور وحی ) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس ( حضرت عیسی ) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو، بلا لیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔
سورہ آل عمران آیت 61
شیعہ اور سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اکرم (ص) کے ساتھ نجران کے نصاری کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے، کیونکہ نصاری (عیسائیوں) کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسی (ع) تین اقانیم میں سے ایک اقنوم ہے، وہ عیسی (ع) کے بارے میں قرآن کریم کی وحیانی توصیف سے متفق نہیں تھے، جو انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی سمجھتا ہے، حتی کہ آپ (ص) نے انہیں للکارتے ہوئے مباہلے کی دعوت دی۔
قرآن کریم، توضیحات و واژه نامه از بهاءالدین خرمشاهی، 1376.ذیل آیه مباهله، ص 57
اہل سنت کے مفسرین جیسے: زمخشری، نے اپنی تفسیر
الزمخشری، تفسیر الکشاف، ذیل آیه 61 آل عمران
میں اور
فخر رازی نے اپنی تفسیر ، التفسیر الکبیر، ذیل آیه 61 آل عمران
میں اور بیضاوی نے اپنی تفسیر
البیضاوی، تفسیر انوار التنزیل واسرار التأویل، ذیل آیه 61 آل عمران۔
میں اور دیگر مفسیرین نے کہا ہے کہ:
ابناءنا (ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن (ع) اور حسین (ع) ہیں اور " نساءنا " سے مراد فاطمہ زہراء علیہا السلام اور " انفسنا " ہمارے نفس اور ہماری جانوں ] سے مراد حضرت علی (ع) ہیں۔ یعنی وہ چار افراد جو آنحضرت (ص) کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا اصحاب کساء کو تشکیل دیتے ہیں۔ اور اس آیت کے علاوہ بھی زمخشری اور فخر رازی، کے مطابق آیت تطہیر اس آیت کے بعد ان کی تعظیم اور ان کی طہارت پر تصریح و تاکید کے لیے نازل ہوئی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
آیت تطہیر:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً۔
ترجمہ: اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر پلیدی اور گناہ کو دور رکھے اور تم کو پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔
سورہ احزاب آیت 33
نصارائے نجران نے رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے ساتھ آنے والے افراد کے دلیرانہ صدق و اخلاص کا مشاہدہ کیا تو خائف و ہراساں اور اللہ کی عقوبت و عذاب سے فکرمند ہو کر مباہلہ کرنے کے لیے تیار نہيں ہوئے اور آپ (ص) کے ساتھ صلح کر لی اور درخواست کی کہ انہیں اپنے دین پر رہنے دیا جائے اور ان سے جزیہ وصول کیا جائے اور آنحضرت (ص) نے ان کی یہ درخواست منظور کر لی۔
بالفاظ دیگر عیسائی جان گئے کہ اگر رسول خدا (ص) مطمئن نہ ہوتے تو اپنے قریب ترین افراد کو میدان مباہلہ میں نہ لاتے چنانچہ وہ خوفزدہ ہو کر مباہلے سے پسپا اور جزیہ دینے پر راضی ہو گئے۔
روز مباہلہ:
شیخ مفید نے اس واقعے کو فتح مکہ کے بعد اور حجہ الوداع سے پہلے یعنی سن 9 ہجری قمری قرار دیا ہے۔
المفید، الارشاد، ج1، صص166-171
نصاری کے ساتھ رسول خدا (ص) اور عیسائیوں کے درمیان واقعہ مباہلہ 24 ذو الحجہ کو رونما ہوا۔
ابن شهر آشوب، 1376ق، ج 3، ص: 144
صاحب کشف الاسرار کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 21 ذو الحجہ کو واقع ہوا ہے۔
میبدی، کشف الاسرار وعدة الابرار، ج2، ص147۔
شیخ انصاری کا کہنا ہے کہ مشہور یہی ہے کہ واقعہ مباہلہ 24 ذو الحجہ کو رونما ہوا ہے اور اس روز غسل کرنا مستحب ہے۔
انصاری، شیخ اعظم مرتضی، کتاب الطهارة، ج3، صص48-49۔
شیخ عباس قمی نے اپنی مشہور اور شریف کتاب مفاتیح الجنان میں 24 ذو الحجہ کے لیے بعض اعمال ذکر کیے ہیں، جن میں غسل اور روزہ شامل ہیں۔
رجوع کریں: ذو الحجہ کے واقعات و اعمال
قمی، شیخ عباس، 1374، ج1، صص: 182-184۔
جو کچھ شیعہ اور سنی مؤرخین و محدثین کے ہاں مسلّم ہے یہ ہے کہ یہ واقعہ رسول اکرم(ص) اور نجران کے عیسائیوں کے درمیان رونما ہوا ہے۔
مباہلے میں شامل افراد:
یہ بھی تفاسیر اور تواریخ و حدیث کے علماء کے ہاں امر مسلّم ہے کہ رسول اللہ (ص) جن لوگوں کو مباہلہ کے لیے ساتھ لائے تھے وہ امیر المؤمنین (ع)، حضرت فاطمہ (س)، امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) تھے، تاہم یہ کہ اس واقعے کی تفصیلات کیا تھیں، عیسائیوں میں سے کون لوگ رسول اللہ (ص) کے حضور آئے تھے اور عیسائیوں اور رسول اللہ (ص) کے درمیان کن کن باتوں کا تبادلہ ہوا تھا ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات مختلف روایات اور کتب میں اختلاف کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔
واقعۂ مباہلہ:
روز مباہلہ کی صبح کو حضرت رسول اکرم (ص) امیر المؤمنین علی (ع) کے گھر تشریف فرما ہوئے، امام حسن (ع) کا ہاتھ پکڑ لیا اور امام حسین (ع) کو گود میں اٹھایا اور حضرت امیر (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کے ہمراہ مباہلے کی غرض سے مدینہ سے باہر نکلے۔
جب نصارا نے ان بزرگواروں کو دیکھا تو ان کے سربراہ ابو حارثہ نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں جو محمد (ص) کے ساتھ آئے ہیں ؟ جواب ملا کہ: وہ جو ان کے آگے آگے آ رہے ہیں، ان کے چچا زاد بھائی، ان کی بیٹی کے شریک حیات اور مخلوقات میں ان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں، وہ دو دو بچے ان کے فرزند ہیں، ان کی بیٹی سے اور وہ خاتون ان کی بیٹی فاطمہ ہیں، جو خلق خدا میں ان کے لیے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔
آنحضرت (ص) مباہلے کے لیے دو زانو بیٹھ گئے۔ پس سید اور عاقب ( جو وفد کے اراکین اور عیسائیوں کے راہنما تھے ) اپنے بیٹوں کو لے کر مباہلے کے لیے روانہ ہوئے۔
ابو حارثہ نے کہا: خدا کی قسم ! محمد (ص) کچھ اس انداز میں زمین پر بیٹھے ہیں جس طرح کہ انبیاء (ع) مباہلے کے لیے بیٹھا کرتے تھے، اور پھر پلٹ گیا۔
سید نے کہا: کہاں جا رہے ہو ؟
ابو حارثہ نے کہا: اگر محمد (ص) بر حق نہ ہوتے تو اس طرح مباہلے کی جرات نہ کرتے اور اگر وہ ہمارے ساتھ مباہلہ کریں تو ہم پر ایک سال گزرنے سے پہلے پہلے ایک نصرانی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔
ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ: ابو حارثہ نے کہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے التجا کریں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو بےشک وہ اکھاڑ دیا جائے گا۔ پس مباہلہ مت کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور حتی ایک عیسائی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔
اس کے بعد ابو حارثہ آنحضرت (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:
اے ابا القاسم ! ہمارے ساتھ مباہلے سے چشم پوشی کریں اور ہمارے ساتھ مصالحت کریں، ہم ہر وہ چیز ادا کرنے کے لیے تیار ہیں جو ہم ادا کر سکیں۔ چنانچہ آنحضرت (ص) نے ان کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ہر سال دو ہزار حلے (یا لباس) دینے پڑیں گے اور ہر حلے کی قیمت 40 درہم ہونی چاہیے، نیز اگر یمن کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو انہیں 30 زرہیں، 30 نیزے، 30 گھوڑے مسلمانوں کو عاریتا دینا پڑیں گے اور آپ (ص) خود اس ساز و سامان کی واپسی کے ضامن ہونگے۔ اس طرح آنحضرت (ص) نے صلحنامہ لکھوایا اور عیسائی نجران پلٹ کر چلے گئے۔
رسول اللہ (ص) نے بعد ازاں فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کہ ہلاکت اور تباہی نجران والوں کے قریب پہنچ چکی تھی۔ اگر وہ میرے ساتھ مباہلہ کرتے تو بے شک سب بندروں اور خنزیروں میں بدل کر مسخ ہو جاتے اور بے شک یہ پوری وادی ان کے لیے آگ کے شعلوں میں بدل جاتی اور حتی کہ ان کے درختوں کے اوپر کوئی پرندہ باقی نہ رہتا اور تمام عیسائی ایک سال کے عرصے میں ہلاک ہو جاتے۔
الطبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1415، ج 2، ص 310
نصرانیوں کی نجران واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی سید اور عاقب کچھ ہدایا اور عطیات لے کر رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوئے۔
الطباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل آیه 61 آل عمران؛ المیزان کے مؤلف کے مطابق یہ روایت صحیح مسلم، سنن ترمذی، أبو المؤید الموفق بن أحمد کی "فضائل علی"، ابو نعیم اصفہانی کی "حلیۃ الاولیاء" میں اور حموینی کی "فرائد السمطین" میں بھی نقل ہوئی ہے۔
واقعہ مباہلہ سے تاریخی استدلالات:
تاریخ میں متعدد بار اہل بیت (ع) کی حقانیت کے اثبات کے لیے واقعہ مباہلہ سے استناد و استدلال کیا گیا ہے اور اس واقعے سے استدلال امیر المؤمنین (ع)، امام حسن (ع)، امام حسین (ع) اور باقی آئمہ طاہرین (ع) و دیگر کے کلام میں ملتے ہیں، جیسے:
امام موسی کاظم (ع) کا استدلال:
ہارون عباسی نے امام کاظم (ع) سے کہا: آپ یہ کیونکر کہتے ہیں کہ ہم نبی (ص) کی نسل سے ہیں حالانکہ نبی (ص) کی کوئی نسل نہیں ہے، کیونکہ نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے، اور آپ رسول خدا (ص) کی بیٹی کی اولاد ہیں ؟
امام کاظم (ع) نے فرمایا: مجھے اس سوال کے جواب سے معذور رکھو۔ ہارون نے کہا: اے فرزند علی (ع)، آپ کو اس بارے میں اپنی دلیل بیان کرنا ہی پڑے گی، اور آپ اے موسی (ع) ! ان کے سربراہ اور ان کے زمانے کے امام ہیں ـ مجھے یہی بتایا گیا ہے اور میں جو کچھ بھی پوچھتا ہوں آپ کو اس کے جواب سے معذور نہيں رکھوں گا حتی کہ ان سوالات کی دلیل قرآن سے پیش کریں اور آپ فرزندان علی (ع) دعوی کرتے ہیں کہ قرآن میں کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے جس کی تاویل آپ کے پاس نہ ہو، اور اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ ( ترجمہ: ہم نے اس کتاب میں کوئی چیز لکھے بغیر نہیں چھوڑی) اور یوں اپنے آپ کو رأی اور قیاس کے حاجتمند نہیں سمجھتے ہیں۔
امام کاظم (ع) نے فرمایا: مجھے جواب کی اجازت ہے ؟
ہارون نے کہا: ہاں بولیں،
امام (ع) نے فرمایا:
أَعُوذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ٭ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمـَنِ الرَّحِيمِ
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلاًّ هَدَيْنَا وَنُوحاً هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ٭ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ"۔
ترجمہ: اور ہم نے عطا کیے انہیں اسحٰق اور یعقوب، ہر ایک کو ہم نے راستہ دکھایا اور نوح کو اس کے پہلے ہم نے راستہ دکھایا اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسٰی اور ہارون کو اور اسی طرح ہم صلہ دیتے ہیں نیک اعمال رکھنے والوں کو ٭ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسٰی اور الیاس کو، سب صالحین اور نیکو کاروں میں سے تھے۔
سورہ انعام
عیسی (ع) کا باپ کون ہیں ؟
ہارون نے کہا: ان کا کوئی بات نہیں ؟
امام (ع) نے فرمایا:
پس خداوند نے مریم (س) کے ذریعے انہیں انبیاء کی نسل سے ملحق فرمایا ہے اور ہمیں بھی ہماری والدہ فاطمہ (س) کے ذریعے رسول اللہ (ص) کی نسل سے ملحق فرمایا ہے، کیا پھر بھی بتاؤں ؟
ہارون نے کہا: ہاں بولیں،
چنانچہ امام (ع) نے آیت مباہلہ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:
کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ (ص) نجران کے نصارا کے ساتھ مباہلے کے لیے علی بن ابی طالب، فاطمہ اور حسن و حسین، کے سوا کسی اور کو کساء کے نیچے جگہ دی ہے ! پس آیت میں ہمارے بیٹوں " ابنائنا " سے مراد حسن و حسین، ہماری خواتین " نسائنا " سے مراد فاطمہ اور ہماری جانوں " انفسنا " سے مراد علی بن ابی طالب ہیں۔
پس خداوند نے آیت مباہلہ میں امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کو رسول اللہ (ص) کے بیٹے قرار دیا ہے اور یہ صریح ترین ثبوت ہے اس بات کہ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) اہل بیت (ع) رسول اللہ (ص) کی نسل اور ذریت ہیں۔
امام رضا (ع) کا استدلال:
مامون عباسی نے امام رضا (ع) سے کہا: امیر المؤمنین (ع) کی عظیم ترین فضیلت جس کی دلیل قرآن میں موجود ہے، کیا ہے ؟
امام رضا (ع) نے کہا: امیر المؤمنین (ع) کی فضیلت مباہلہ میں اور پھر آیت مباہلہ کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا:
رسول خدا (ص)، نے امام حسن (ع) اور امام حسین (ع)، جو آپ (ص) کے بیٹے ہیں، کو بلوایا اور حضرت فاطمہ (س) کو بلوایا جو آیت میں " نسائنا " کا مصداق ہیں اور امیر المؤمنین (ع) کو بلوایا جو اللہ کے حکم کے مطابق " انفسنا " کا مصداق اور رسول خدا (ص) کا نفس اور آپ (ص) کی جان ہیں اور ثابت ہوا ہے کہ کوئی بھی مخلوق رسول اللہ (ص) کی ذات با برکت سے زیادہ جلیل القدر اور افضل نہیں ہے، پس کسی کو بھی رسول خدا (ص) کے نفس و جان سے بہتر نہیں ہونا چاہیے۔
بات یہاں تک پہنچی تو مامون نے کہا: خداوند نے " ابناء " کو صیغہ جمع کے ساتھ بیان کیا ہے، جبکہ رسول خدا (ص) صرف اپنے دو بیٹوں کو ساتھ لائے ہیں، " نساء " بھی جمع ہے، جبکہ آنحضرت (ص) صرف اپنی ایک بیٹی کو لائے ہیں، پس یہ کیوں نہ کہیں کہ " انفس " کو بلوانے سے مراد رسول خدا (ص) کی اپنی ذات ہے، اور اس صورت میں جو فضیلت آپ (ص) نے امیر المؤمنین (ع) کے لیے بیان کی ہے، وہ خود بخود ختم ہو جاتی ہے !
امام رضا (ع) نے جواب دیا:
نہیں، یہ درست نہیں ہے کیونکہ دعوت دینے والا اور بلوانے والا اپنی ذات کو نہیں، بلکہ دوسروں کو بلواتا ہے، آمر ( اور حکم دینے والے ) کی طرح جو اپنے آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو امر کرتا اور حکم دیتا ہے، اور چونکہ رسول خدا (ص) نے مباہلہ کے وقت علی بن ابیطالب (ع) کے سوا کسی اور مرد کو نہیں بلوایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علی (ع) وہی نفس ہیں جو کتاب اللہ میں اللہ کا مقصود و مطلوب ہے اور اس کے حکم کو خدا نے قرآن میں قرار دیا ہے۔
پس مامون نے کہا: جواب آنے پر سوال کی جڑ اکھڑ جاتی ہے۔
المفید، الفصول المختاره، التحقیق: السید میرعلی شریفی، بیروت: دار المفید، الطعبة الثانیة، 1414، ص 38۔۔
سعد ابن ابی وقاص کا استدلال:
عامر ابن سعد ابن ابی وقاص سعد ابن ابی وقاص سے نقل کرتا ہے کہ: معاویہ نے سعد سے کہا: تم علی پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ہو ؟
سعد نے کہا:
جب تک مجھے تین چیزیں یاد ہونگی کبھی بھی ان پر سبّ و شتم نہیں کروں گا اور اگر ان تین باتوں میں سے ایک کا تعلق مجھ سے ہوتا تو میں اس کو سرخ بالوں والے اونٹوں سے زیادہ دوست رکھتا، بعد ازاں سعد ان تین باتوں کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ: اور تیسری بات یہ تھی کہ جب آیت:
فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ...
نازل ہوئی، تو رسول خدا (ص) نے علی، فاطمہ اور حسن و حسین (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا:
اللهم هؤلاء اهل بيتي، یعنی خداوندا ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔
الطباطبائي، سید محمد حسین، وہی ماخذ، صص: 230-229
تفسیر:
اگرچہ مباہلہ پہلے مرحلے میں رسول خدا (ص) اور عیسائی افراد کے درمیان تھا لیکن فرزندوں اور خواتین کو بھی بیچ میں لایا گیا تا کہ معلوم ہو جائے کہ مباہلہ کی دعوت دینے والا اپنی دعوت کی سچائی سے مطمئن اور برحق ہے، اس حد تک کہ آپ (ص) اپنے عزیز ترین اور قریب ترین افراد کو میدان مباہلہ میں لائے، ایسے افراد کو جن سے انسان محبت کرتا ہے اور ان کی مدد و حمایت کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالتا ہے۔
علاوہ ازیں علامہ طباطبائی نے اپنے خاندان کو میدان مباہلہ میں لانے کے مسئلے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: گویا اس عمل کے ذریعے کہا جا رہا ہے کہ ایک جماعت دوسری جماعت کو بد دعا دے اور دونوں جماعتیں خدا کی لعنت کو جھوٹوں پر قرار دیں تا کہ لعن و عذاب لعن و عذاب اور خواتین اور جانوں کا احاطہ بھی کر لے اور دشمنوں کی جڑیں روئے زمین سے اکھڑ جائیں۔
اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ ابناء، نساء اور انفس دو سے زیادہ ہوں تا کہ کہا جائے کہ ان پر صیغہ جمع کا اطلاق صحیح ہے، کیونکہ مذکورہ بالا بیان کے مطابق، صیغہ جمع سے مقصود یہ ہے کہ نزاع کے فریقین میں سے ایک اپنے تمام اعزاء و اقارب، چھوٹے بڑوں اور مردوں اور عورتوں کے ہمراہ، سب نیست و نابود ہو جائیں اور تمام مفسرین اور مؤرخین کا اتفاق ہے اور تاریخی حوالے بھی اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کے سوا کسی کو بھی اپنے ساتھ نہیں لائے تھے، چنانچہ انفس یا جانیں دو ( رسول خدا (ص) اور علی(ع))، فرزند دو (حسن اور حسین علیہما السلام) اور خواتین صرف ایک (حضرت زہراء(س)) تھیں اور اس ان افراد کی شرکت سے اللہ کے فرمان کی مکمل تعمیل ہوئی ہے۔
قرآن میں دیگر مقامات پر بھی آیت اپنی شان نزول کے حوالے سے ایک فرد کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صیغہ جمع کا استعمال کیا گیا ہے۔ جس کی مثال سورہ مجادلہ میں آیات ظہار میں دیکھی جا سکتی ہے۔
زمخشری اپنی تفسیر الکشاف میں عائشہ سے نقل کرتا ہے کہ:
رسول اللہ (ص) روز مباہلہ باہر آئے جبکہ سیاہ اون کی عبا کاندھوں پر ڈالے ہوئے تھے اور جب امام حسن آئے تو آپ (ص) نے انہیں اپنی عبا میں جگہ دی، اس کے بعد امام حسین (ع) آئے جنہیں آپ (ص) نے اپنی عبا میں جگہ دی اور اس کے بعد حضرت فاطمہ (س) آئیں اور بعد میں علی (ع) آئے اور پھر آپ (ص) نے فرمایا:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً ،
ترجمہ: اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر پلیدی اور گناہ کو دور رکھے اور تم کو پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔
اور اس کے بعد زمخشری کہتے ہیں:
"یہ دلیل ہے اصحاب کساء کی فضیلت کی جس سے بالاتر کوئی دلیل نہیں ہے"
سوال:
کیا مباہلہ کے لیے کسی شرط کا ہونا ضروری ہے تا کہ کسی کے ساتھ مباہلہ انجام پائے ، یا ہر کوئی اپنے ایمان کو ثابت کرنے کے لیے مباہلہ کر سکتا ہے ؟ مباہلہ کس سلسلہ میں کیا جا سکتا ہے ؟ کیا تاریخ اسلام میں یقینا مباہلہ واقع ہوا ہے ؟ قرآن مجید کی آیات کے مطابق مباہلہ انجام پانے کے لیے جو کچھ رسول خدا (ص) کی طرف سے تجویز پیش کی گئی تھی، مد مقابل فریق نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا، کیا یہ حقیقت ہے ؟
مباہلہ ، یعنی ایک دوسرے پر نفرین کرنا، تا کہ جو باطل پر ہے، وہ غضب الہی سے دوچار ہو جائے اور جو حق پر ہے اس کی پہچان ہو جا ئے اور اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جاتی ہے۔
مباہلہ ، ایک قسم کی دعا ہے اور اس کے خاص خصوصیات اور شرائط ہوتے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
یہ کہ مباہلہ کرنے والا اپنے آپ کی تین دن تک اخلاقی اصلاح کرے، روزہ رکھے اور غسل کرے اور جس کے ساتھ مباہلہ انجام دینا چاہتا ہے وہ صحرا میں جائے اور پو پھٹنے سے سورج چڑھنے تک مباہلہ انجام پائے۔
مباہلہ ، صرف پیغمبر اسلام کے زمانہ سے ہی مخصوص نہیں ہے، بلکہ دوسرے مؤمنین بھی مباہلہ انجام دے سکتے ہیں، اس لحاظ سے اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور ہر شخص اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے دین کے دشمنوں کے ساتھ مباہلہ انجام دے سکتا ہے، البتہ جاننا چاہیے کہ مباہلہ کے شرائط ، اخلاص اور خود اعتمادی جو مباہلہ کے لیے ضروری ہیں ہر شخص کے لیے آسانی کے ساتھ حاصل نہیں ہوتے ہیں اور اس سلسلہ میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے ممکن ہے اس صورت میں بر عکس نتیجہ نکلے ۔
ضمنا جاننا چاہیے کہ مباہلہ ان دینی اختلافات اور تنازعوں سے مخصوص ہے کہ مد مقابل فریق منطقی اور علمی مباحث اور حق و حقیقت کو قبول نہ کرے اور اپنے باطل عقیدہ پر ھٹ دہرمی کا مظاہرہ کرے۔
آیہ مباہلہ کی تفسیر کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ سر انجام پیغمبر اسلام کا مباہلہ پر امن صلح پر ختم ہوا ہے۔
تفصیلی جوابات:
چونکہ یہ سوال کئی حصوں پر مشتمل ہے، اس لیے ہم بھی ایک مختصر مقدمہ یبان کرنے کے بعد اسی ترتیب سے اس کا جواب دیں گے۔
اصطلاح میں مباہلہ:
آیہ مباہلہ سے معلوم ہونے والا مباہلہ کا رسمی مفہوم دو افراد کے ایک دوسرے پر نفرین کرنے کے معنی میں ہے، اس طرح کہ جو افراد کسی مذہبی مسئلہ پر آپس میں اختلاف رکھتے ہیں ، ایک جگہ پر اکٹھا ہوتے ہیں اور بارگاہ الہی میں تضرع کی حالت میں درخواست کرتے ہیں کہ جھوٹے کو رسوا کر کے اس کو سزا دے ۔
مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج 2، ص 578، دار الكتب الإسلامية، تهران،
مباہلہ ، یعنی ایک دوسرے پر نفرین کرنا تا کہ جو باطل پر ہے اس پر خداوند کا غضب ، نازل ہو جائے اور جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے اور اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جائے۔
دوانى، على، مهدى موعود-ترجمه جلد سيزدهم بحار، ص 636، ناشر: دار الكتب الاسلاميه، تهران،
قدرتی بات ہے کہ مباہلہ کے طرفین ، خدا کا اعتقاد رکھنے والے ہونے چاہیں تا کہ ایسے کام کا اقدام کر سکیں ، کیوںکہ جو شخص خدا پرست نہ ہو ، وہ خداوند سے کوئی درخواست نہیں کر سکتا ہے۔
لیکن اس سوال میں بیان کئے گئے مطالب کی ترتیب سے جواب حسب ذیل ہے:
1- کیا مباہلہ کے لیے کوئی شرط ہے تا کہ کسی سے مباہلہ کیا جائے ؟
جیسا کہ ہم نے مباہلہ کی تعریف میں کہا، مباہلہ ایک قسم کی دعا ہے ، اس لحاظ سے جو شرائط دعا کے لیے ذکر کی گئی ہیں ، مباہلہ کے لیے بھی ضروری ہیں۔
لیکن چونکہ مباہلہ ایک خاص دعا ہے ، قدرتی طور پر اس کی خاص خصوصیات اور شرائط ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
الف: جو شخص مباہلہ انجام دینا چاہتا ہے وہ تین دن تک اپنے آپ کی اصلاح کرے۔
ب: روزہ رکھے
ج: غسل کرے،
د: جس کے ساتھ مباہلہ کرنا چاہتا ہے اس کے ہمراہ صحرا میں جائے۔
ھ: مباہلہ انجام پانے کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے۔
و: اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو مد مقابل کے دائیں ہاتھ کی انگیوں میں ڈال دے۔
ز: اپنے سے شروع کرتے ہوئے کہے: خداوندا ! تو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا پروردگار ہے اور پوشیدہ اسرار سے واقف ہے اور رحمان و رحیم ہے اگر میرے مد مقابل نے کسی حق سے انکار کیا ہو اور باطل دعویٰ کر رہا ہو تو آسمان سے اس پر ایک بلا نازل کرنا اور اسے درد ناک عذاب سے دوچار کرنا !
اس کے بعد دوبارہ اسی دعا کو دہرائے اور کہے: اگر وہ شخص حق سے انکار کر کے باطل کا دعویٰ کر رہا ہے تو اس پر آسمان سے ایک بلا نازل کر کے اسے عذاب سے دوچار کرنا ،
كمرهاى، محمد باقر ، اصول كافى-ترجمه كمرهاى، ج 2، ص 513 و 514، ج 6، ص 145،
2- لیکن دوسرا سوال یہ ہے کہ ، کیا ہر کوئی اپنے ایمان کو ثابت کرنے کے لیے مباہلہ کر سکتا ہے؟ بہ الفاط دیگر ، کیا مباہلہ ایک عمومی حکم ہے یا پیغمبر اکرم کے خاص زمانہ سے مخصوص ہے ؟
آیہ مباہلہ کی شان نزول کے پیش نظر ، مباہلہ کے مخاطب صرف پیغمبر اکرم ہیں، شاید یہ کہا جائے کہ مباہلہ صرف پیغمبر اسلام کے زمانہ سے مخصوص ہے ، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے اور مباہلہ کو صرف پیغمبر کے زمانہ سے مخصوص نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ دوسرے مؤمنین بھی مباہلہ کر سکتے ہیں کیونکہ :
اولا: آیہ شریفہ کی شان نزول کی بناء پر آیت مخصوص نہیں ہو سکتی ہے،
المورد لا یخصص الوارد، حکیم، سید محسن، حقائقالأصول، ج 2، ص 412، ناشر بصیرتی، 1408 هـ
ثانیا: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آیہ شریفہ مباہلہ تمام مسلمانوں کو مباہلہ کی دعوت کا حکم نہیں دیتی ہے، بلکہ اس کے مخاطب صرف پیغمبر اسلام ہیں، لیکن یہ موضوع اس امر میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے کہ مباہلہ مخالفوں کے مقابلے میں ایک عمومی حکم ہو اور با ایمان افراد جن میں تقوی ، اور مکمل خدا پرستی ہو اگر ان کے استدلال کو مد مقابل ہٹ دہرمی سے جواب دے تو وہ مباہلہ کی دعوت دے سکتے ہیں۔
مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج 2، ص 589.
ثالثاْ: اسلامی کتابوں میں نقل کی گئی ایک روایت کے مطابق بھی اس حکم کی عمومیت معلوم ہوتی ہے، مرحوم کلینی نے اپنی کتاب کافی میں حضرت امام صادق (ع) سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ اپ نے اپنے ایک صحابی سے مخاطب ہو کر فرمایا :
اگر مخالفوں نے آپ کی حق بات کو قبول نہ کیا تو انہیں مباہلہ کے لیے دعوت دینا۔
کلینی، الكافي، ج 2، ص 513
اس لحاظ سے اس کے قائل ہو سکتے ہیں کہ کوئی بھی شخص مذکورہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے اپنے ایمان کے دشمنوں سے مباہلہ کر سکتا ہے۔
3- لیکن سوال یہ ہے کہ مباہلہ کس سلسلہ میں کیا جا سکتا ہے ؟ جیسا کہ مذکورہ مباہلہ سے متعلق آیہ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مباہلہ دینی اور مذہبی اختلافات کو حل کرنے سے متعلق ہے کہ اگر یہ اختلافات گفتگو اور بحث و مباحثہ سے حل نہ ہوں اور مسئلہ انکار تک پہنچ جائے تو مباہلہ سے کام لیا جاتا ہے۔
اصول كافى-ترجمه كمرهاى، ج 6، ص 629.
4- لیکن آخری سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات کے مطابق رسول خدا کی طرف سے حقیقت میں مباہلہ انجام نہیں پایا ہے کیونکہ مد مقابل نے مباہلہ کی تجویز کو قبول نہیں کیا ، کیا یہ حقیقت ہے ؟
اس سوال کے جواب کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اصل مباہلہ کو بیان کریں:
آیہ شریفہ کی شان نزول کے سلسلے میں نقل کیا گیا ہے کہ یہ آیت اور اس سے پہلی والی آیات نجران کے گروہ کے بارے میں نازل ہوِئی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور جب پیغمبر اسلام نے انھیں مباہلہ کے لیے دعوت دی تو نجران کے عیسائیوں نے دوسرے دن کی صبح تک آنحضرت (ص) سے مہلت مانگی اور نجران کی شخصیتوں کی طرف رجوع کرنے کے بعد، بڑے پادری ان کے بڑے عالم نے کہا:
کل محمد کو دیکھنا ، اگر وہ اپنی اولاد اور خاندان کے ساتھ مباہلہ کے لیے آ گئے تو ان سے مباہلہ کرنے سے ڈرنا اور اگر اصحاب کے ساتھ آ گئے تو مباہلہ کرنا ، کیونکہ اس صورت میں ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، دوسرے دن جب صبح ہوئی پیغمبر تشریف لائے تو وہ حضرت علی بن ابیطالب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور حسن و حسین ان کے آگے آگے چل رہے تھے اور حضرت زہراء ان کے پیچھے پیچھے تھیں، عیسائی بھی باہر آ گئے اس وقت ان کے آگے ان کا پادری تھا، جب اس نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم ان چند افراد کے ہمراہ آ رہے ہیں ، اس نے ان کے بارے میں پوچھا اور اسے جواب دیا گیا: کہ یہ ان کے چچا زاد بھائی اور داماد ہیں، جو آپ کے نزدیک محبوب ترین بندہ خدا ہیں اور یہ دو لڑکے آپ کی بیٹی اور علی کے بیٹے ہیں اور وہ جو ان خاتون آپ کی بیٹی فاطمہ ہیں، جو آپ کے نزدیک عزیز ترین فرد ہیں۔ پادری سے کہا گیا کہ مباہلہ کے لیے آگے بڑھیں اس نے جواب میں کہا کہ : نہیں ، میں ایک ایسے شخص کو دیکھ رہا ہوں جو مباہلہ کے لیے سنجیدگی کے ساتھ قدم بڑھا رہا ہے اور میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں وہ راستگو نہ ہو اور اگر راست گو اور سچا ہو تو خدا کی قسم ایک سال کے اندر دنیا کے تمام عیسائیوں کی نسل ختم ہو جا ئے گی۔
پادری نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں عرض کی: اے ابو القاسم ، ہم اپ کے ساتھ مباہلہ نہیں کریں گے بلکہ صلح کریں گے ، اس لیے آپ ہمارے ساتھ صلح کریں۔ اس کے بعد آنحضرت نے ان کے ساتھ دو ہزار حلہ اچھے کپڑے کا ایک حصہ کہ ہر حلہ کی قیمت کم از کم چالیس درھم تھی ، اور تیس عدد زرہیں اور تیس نیزے ، اور تیس گھوڑے قرض کے طور پر حاصل کر کے صلح کی اور یہ شرط رکھی کہ سرزمین یمن میں مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش نہ کی جائے تو آنحضرت اس قرض کے ضامن ہوں گے تا کہ اسے واپس کریں اور اس سلسلہ میں ایک عھد نامہ تحریر کیا گیا۔
رازی، ابو عبد الله فخرالدین محمد بن عمر، مفاتيح الغيب، ج 8، ص 248 یہ شان نزول کچھ فرق کے ساتھ احادیث اور تفسير کی کتابوں میں آئی ہے جیسے :
صحیح مسلم، جزء 12، ص 129، ش 4420
سنن ترمذی، جزء 10، ص 260، ش 2925
جزء الورد 12، ص 187، ش 3658
مسند احمد، جزء 4، ص 32، ش 1422
حاکم، المستدرک علی الصحیحین، جزء 11، ص 26، ش 4702، وہ کہتے ہیں کہ شیخین کی شرط کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے۔
اور انوار التنزيل و أسرار التأويل، ج2، ص: 20
نیز معجم کبیر طبرانی
صحیح ابن حبان،
مشکل الآثار طحاوی،
ابو الفتوح رازى،
و تفسير كبير میں ائی ہے ،
فخر رازی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں امام حسن و فاطمہ و علی کے بارے میں آیہ تطہیرکی شان نزول کے بعد کہتے ہیں : علمائے تفسیر کے درمیان یہ روایت متفقہ ہے۔
اس بناء پر نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مباہلہ کے تمام مقدمات انجام پائے تھے لیکن مد مقابل افراد پیغمبر کی خود اعتمادی سے ڈر گئے تھے اور حقیقت میں مباہلہ کے بغیر ہتھیار ڈال چکے تھے اس لیے مباہلہ کی ضرورت ہی نہیں تھی اور ہمیں اسلام میں مباہلہ واقع ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
دلیل حقانیت:
سوال :
مباہلہ کس طرح پیغمبر(ص) کی حقانیت کی دلیل ہے ؟
جواب :
خداوند سوره «آل عمران» کی آیت نمبر 61 میں اپنے پیغمبر (ص) کو حکم دیتا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچوں ، عورتوں او ر نفسوں کو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوں اور عورتوں اور نفسوں کو بلاوٴ پھر دعا کرو تا کہ خدا جھوٹوں کو رسوا کر دے۔
کیسے ممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دے کہ آوٴ ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں ، اس سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کردے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے ۔
یہ مسلم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطر ناک معاملہ ہے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہو اتو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا ۔
کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اور سمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمنان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی طرف سے دعوتِ مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر ، آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان قاطع کی دلیل بھی ہے ۔
سوال :
کیا مباہلہ ایک عام حکم ہے ؟
جواب :
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مباہلہ کی آیت تمام مسلمانوں کو مباہلہ کی دعوت دینے کے لیے ایک عام حکم نہیں ہے، بلکہ اس آیت میں مخاطب صرف اور صرف پیغمبر اکرم (ص) ہیں ، لیکن یہ موضوع اس بات سے منع نہیں کرتا کہ مخالفین کے سامنے مباہلہ ایک عام حکم ہو جائے اور ایماندار لوگ جو کہ کامل طور پر تقوی اور خدا کی عبادت کرتے ہیں، وہ اپنے استدلال پیش کرتے وقت دشمن کی لجاجت کی وجہ سے ان کو مباہلہ کی دعوت دے سکتے ہیں۔
اسلامی کتب میں جو روایات نقل ہوئی ہیں ان سے بھی اس حکم کا عام ہونا سمجھا جاتا ہے : تفسیر نور الثقلین کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر 351 پر امام صادق (ع) سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے :
اگر مخالفین تمہاری حق بات کو قبول نہ کریں تو تم ان کو مباہلہ کی دعوت دو !
راوی کہتا ہے : میں نے سوال کیا کہ ان سے کس طرح مباہلہ کریں ؟
فرمایا : تین دن تک اپنی اخلاقی اصلاح کرو !
مباہلہ کی آیت میں صیغہ جمع کا مفرد پر اطلاق:
سوال :
اگر پیغمبر اکرم (ص) مباہلہ کے واقعہ میں فقط حضرت فاطمہ زہرا (س)، حسنین (ع) اور امام علی (ع) کو اپنے ساتھ لے کر گئے تو پھر آیت میں عورتوں، بچوں اور نفسوں کے لیے جمع کا لفظ کیوں استعمال ہوا ہے ؟
جواب :
علمائے اسلام کا اجماع، اور وہ بہت سی حدیثیں جو شیعہ اور اہل سنت کی معتبر اور اسلامی کتابوں میں اس حدیث کے شان نزول کو اہل بیت (ع) کی شان میں نازل ہونے کو بیان کرتی ہیں ،ان میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنے ساتھ علی (ع)، فاطمہ زہرا (ع) اور حسنین (ع) کے علاوہ کسی اور کو نہیں لے گئے اور یہ خود آیت کی تفسیر کے لیے بہترین قرینہ ہے ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات کی تفسیر کے لیے جو قرائن استعمال ہوتے ہیں ان میں سے ایک سنت اور شان نزول ہے۔
اس بناء پر مذکورہ اعتراض صرف شیعوں پر نہیں ہے، بلکہ تمام اسلامی علماء کو اس کا جواب دینا چاہیے ۔
ثانیا : صیغہ جمع کا مفرد یا تثنیہ پر اطلاق ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے اور قرآن و غیر قرآن اور ادبیات عربی بلکہ غیر عرب میں بھی اس پر بہت سی دلیلیں ہیں ۔
تفصیل کے ساتھ وضاحت :
بہت زیادہ ایسا ہوتا ہے کہ کس قانون کو بیان ، یا کسی عہد نامہ کو تنظیم کرتے وقت حکم عمومی طور پر یا جمع کے صیغہ میں بیان کیا جاتا ہے ،مثلا عہد نامہ میں اس طرح لکھتے ہیں : اس کو جاری کرنے والے ذمہ دار ، دستخط کرنے والے اور ان کے بچے ہیں جبکہ ممکن ہے کہ دونوں طرف سے ان کے صرف ایک یا دو بچے ہوں ، یہ موضوع کبھی بھی جمع کے صیغہ کے ساتھ قانون اور عہد نامہ لکھتے وقت غلط نہیں ہوتا ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس کے دو مرحلے ہیں : قرار داد کا مرحلہ اور اس کو جاری کرنے کا مرحلہ ۔ قرار داد کے مرحلہ میں کبھی الفاظ جمع کی صورت میں ذکر ہوتے ہیں تا کہ تمام مصادیق پر تطبیق کریں ، لیکن جاری کرنے کے مرحلہ میں ممکن ہے کہ مصداق صرف ایک آدمی میں منحصر ہو اور مصداق میں یہ انحصار ، مسئلہ کے عمومی ہونے سے کوئی منافات نہیں رکھتا ۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے نجران کے نصارا کے ساتھ جو قرار داد کی تھی اس کے مطابق آپ کی ذمہ داری تھی کہ اپنے خاندان کے خاص بچوں ، عورتوں اور تمام ان لوگوں کو جو آپ کی جان کی طرح تھے ، مباہلہ میں لے جاتے ،لیکن دو بچوں ، ایک مرد اور ایک عورت کے علاوہ کوئی دوسرا مصداق نہیں تھا (غور کریں) ۔
اس کے علاوہ قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر لفظ جمع استعمال ہوا ہے لیکن اس کا مصداق صرف ایک فرد میں منحصر ہے : مثلا اسی سورہ آل عمران کی 173 ویں آیت میں بیان ہوا ہے :
الَّذینَ قالَ لَھمُ النَّاسُ انَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَکُمْ فَاخْشَوْھمْ۔
یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لیے عظیم لشکر جمع کر لیا ہے، لہذا ان سے ڈرو۔
اکثر مفسرین کی رائے کے مطابق یہاں پر : الناس (لوگوں) سے مراد نعیم بن مسعود ہے، جس نے مسلمانوں کو مشرکین کی طاقت سے ڈرانے کے لیے ابو سفیان سے کچھ مال لیا تھا ۔
تفسیر «قرطبى»، ذیل آیه 173 سوره «آل عمران»
تفسیر «فخر رازى»، ذیل آیه 173 سوره «آل عمران»
تفسیر «آلوسى»، ذیل آیه 173 سوره «آل عمران»
اسی طرح سورہ آل عمران 181 ویں آیت میں ملتا ہے :
لَقَدْ سَمِعَ اللَّہُ قَوْلَ الَّذینَ قالُوا اِنَّ اللَّہَ فَقیر وَ نَحْنُ أَغْنِیاء۔
اللہ نے ان کی بات کو بھی سن لیا ہے جن کا کہنا ہے کہ خدا فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں۔ لہذا اس نے ہم سے زکات دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔
جب کہ آیت میں الذین سے مراد حُیی بن ا خطب یا فنحاص ہے۔
تفسیر «طبرى»، جلد 4، صفحه 129، ذیل آیه 181 سوره «آل عمران»؛
تفسیر «قرطبى»، ذیل آیه 181 سوره «آل عمران»؛
تفسیر «ابن کثیر»، جلد 2، صفحه 155، ذیل آیه 188 سوره «آل عمران».
کبھی کبھی مفرد کے لیے لفظ جمع کا استعمال احترام کے لیے بھی ہوتا ہے جس طرح سے ابراہیم (ع) کے لیے ملتا ہے:
اِنَّ ِبْراہیمَ کانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّہِ حَنیفاً وَ لَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکینَ۔
بیشک ابراہیم ایک مستقل امّت اور اللہ کے اطاعت گزار اور باطل سے کترا کر چلنے والے تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے۔
سوره نحل، آیه 120.
یہاں پر لفظ امت جو کہ اسم جمع ہے ایک شخص کے اوپر اطلاق ہوا ہے۔
اقتباس از کتاب: تفسیر نمونه، آيت الله العظمي مکارم شيرازي، دار الکتب الإسلامیه، چاپ چهل و هفتم، ج 2، ص 680.
آیت مباہلہ اور آیت تطہیر کی روشنی میں فضائل پنجتن آل عبا:
پنجتن آل عباء اور اصحاب کساء کے فضائل مختلف مقامات پر منظر عام پر آتے رہے اور دنیا والوں کے لیے ان کی عظمت پر ثبوت پیش ہوتے رہے۔ فضائل اہل بیت (ع) کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں سے کچھ فضائل آیت مباہلہ اور آیت تطہیر میں رونما ہوئے۔ بعض نقل کے مطابق یہ دونوں آیات مباہلہ کے دن میں ہی نازل ہوئی ہیں۔
مباہلہ اور آیت تطہیر عائشہ کی زبانی:
عالم اہلسنت زمخشری نے تفسیر کشاف میں آیت مباہلہ کے ذیل میں عائشہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) مباہلہ کے دن باہر تشریف لائے اور آپ نے سیاہ بالوں والی عبا زیب تن کی ہوئی تھی، جب امام حسن پہنچے تو آپ نے ان کو اپنی عبا میں داخل کیا، پھر امام حسین پہنچے، آپ نے ان کو بھی اپنی عبا کے نیچے داخل کیا، اور اس کے بعد فاطمہ اور پھر علی، پھر فرمایا:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً ،
بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔
سورہ احزاب، آیت 33
علامہ زمخشری کا کہنا ہے کہ: یہ بات، اصحاب کساء کی فضیلت پر دلیل ہے کہ اس سے زیادہ طاقتور دلیل نہیں پائی جاتی۔
علامہ حلی آیت تطہیر کے نزول کے بارے میں فرماتے ہیں:
آیت تطہیر کا پنجتن اصحاب کساء کے بارے میں نازل ہونا متواترات میں سے ہے اور اس بارے میں کوئی شک نہیں کرتا مگر یہ کہ دشمن اور مطلب پرست شخص ہو۔
نہج الحق و کشف الصدق، ص230۔
آیت تطہیر کے مصادیق شیعہ اور اہلسنت کی نظر میں:
آیت تطہیر کے مصادیق کے بارے میں شیعہ اور اہلسنت کے درمیان اختلاف ہے، شیعہ نے صرف پنجتن آل عبا کو اہل بیت کا مصداق سمجھا ہے اور بعض اہلسنت نے ان کے علاوہ رسول اللہ (ص) کی ازواج کو سمجھا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اہل بیت سے مراد صرف پنجتن آل عبا ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر ازواج مراد ہوتیں تو " عَنکُم "، کی جگہ پر "عَنکُنَّ" اور " یطَهِّرَکُم " کی جگہ پر " یطَهِّرَکُنَّ " آنا چاہیے تھا، مگر مذکر کی ضمیروں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس سے مراد ازواج نہیں ہیں، بلکہ آل عبا مراد ہیں۔ یہ دلیل تو قرآن کی آیت کے واضح الفاظ سے پیش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اہلسنت کے امام احمد ابن حنبل نے کئی بار روایت نقل کی ہے کہ:
ان سب روایتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ پیغمبر (ص) نے آیت تطہیر کا مصداق بیان کیا ہے: فاطمہ، ان کے شوہر اور ان کے دو بیٹے۔
مسند احمد، ج 1، ص331؛ مسند احمد، ج 4، ص107؛ مسند احمد، ج 6، ص292۔
امام احمد ابن حنبل نے ہی کتاب فضائل الصحابہ میں نقل کیا ہے کہ:
پیغمبر (ص) چھ مہینوں تک نماز فجر کے لیے جاتے ہوئے، جب فاطمہ کے گھر کے دروازے پر پہنچتے تو آواز دیتے: اے اہل بیت ! نماز ! نماز ! اے اہل بیت ! اللہ چاہتا ہے کہ ہر برائی کو تم (پیغمبر) کے گھرانہ سے دور کرے اور تمہیں پاک و پاکیزہ کر دے۔
فضائل الصحابة، احمد ابن حنبل، ج 2، تحقیق: وصی الله بن محمدعباس، مکة: جامعة ام القری، ص761۔
نتیجہ: آیت مباہلہ اور آیت تطہیر دونوں آیتوں کے مصداق پنجتن آل عبا ہیں، جو پنجتن آیت تطہیر کے مخاطب ہیں انہیں کو اللہ کے حکم سے رسول اللہ (ص) نصرانیوں سے مباہلہ کے لیے اپنے ساتھ لے گئے، جس سے اہل بیت (ع) کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ جو آیت تطہیر کے مخاطب ہیں انہیں کی بددعا دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں مستجاب ہونا تھی۔
امیرالمومنین (ع) نفس رسول (ص):
نفس رسول (ص) قرآن کی روشنی میں:
واقعہ مباہلہ میں قرآن کریم اور اہل بیت (ع) اور رسول اللہ (ص) کی روایات میں حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ع) کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں جن میں سے آنحضرت کی ایک فضیلت یہ ہے کہ آپ، نفس رسول (ص) ہیں۔ آیت مباہلہ میں نجران کے نصرانیوں سے مباہلہ کرنے کے لیے اللہ تعالی نے نبی اکرم (ص) کو حکم دیا:
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ،
پیغمبر علم کے آ جانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔
سورۂ آل عمران آیت 61
اس آیت کریمہ میں أَنفُسَنَا (ہماری جانوں) سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب (ع) ہیں۔ شیعہ اور اکثر اہلسنت مفسرین نے اس بات کا اقرار کیا ہے اور اہلسنت کے تاریخ نویس اور محقق علماء نے اپنی کتابوں میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ حضرت علی (ع) نفس پیغمبر ہیں۔
كامل ابن اثير ج 2 ص 293،
صحيح مسلم ج 7 ص 120،
تفسير طبرى ج 3 ص 192،
مسند احمد بن حنبل ج 1 ص 185،
سنن ترمذى فى فضائل على،
تاريخ الخلفاء سيوطى ص 65،
احقاق الحق ج 3 ص 46
تفسير فخر رازى ج 8 ص 85،
جامع الاصول ج 9 ص 470۔
اہلسنت کے مفسرین جیسے زمخشری نے اپنی تفسیر
تفسیر الکشاف، سورہ آل عمران، آیت 61 کے ذیل میں۔
فخر رازی نے بھی
التفسیر الکبیر، سورہ آل عمران، آیت 61 کے ذیل میں۔
بیضاوی نے بھی
تفسیر انوار التنزیل و اسرار التأویل، سورہ آل عمران، آیت 61 کے ذیل میں۔
وغیرہ نے کہا ہے کہ آیت میں ابناءنا (ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن و حسین (ع)، اور نساءنا (ہماری عورتوں) سے مراد فاطمه زہرا (س) اور انفسنا (ہماری جانوں) سے مراد حضرت علی (ع) ہیں۔
آیت اللہ جوادی آملی تحریر فرماتے ہیں کہ اس بات کی سند کہ امیر المؤمنین (ع) جان پیغمبر (ص) کے مقام پر ہیں، صرف آیت مباہلہ سے مختص نہیں، بلکہ اسے دیگر نقل سے، بلکہ اسے خطبہ قاصعہ سے مدد لیتے ہوئے، بعض آیات کے تفسیری تجزیہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔
سیره پیامبر اکرم صلی الله علیه و آله در قرآن، ج2، 184۔
آیات برائت کا ابلاغ:
آیت برائت کا واقعہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ابو بکر کو سورہ برائت کی آیات کے ابلاغ کے لیے مشرکین مکہ کی طرف بھیجا، لیکن جناب جبرئیل، اللہ تعالی کی طرف سے پیغام لے کر آئے کہ:
لا یُؤَدّی عَنْکَ اِلّا اَنْتَ اَوْ رَجُلٌ مِنْکَ،
یہ آیات یا خود پیغمبر (ص) یا اس شخص کے ذریعے جو آنحضرت سے ہے، ابلاغ ہونی چاہئیں۔
مسند احمد ابن حنبل ج2 ص427۔
تو رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) کو جو آیت مباہلہ کی بنیاد پر نفس اور جان پیغمبر (ص) کے طور پر متعارف ہوئے تھے، ان آیات کے ابلاغ کے لیے بھیجا۔
مغازی واقدی ج3 ص1077۔ ارشاد مفید ص33۔
نفس رسول (ص) کے معنی اور مصداق:
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امیر المؤمنین (ع) کا پیغمبر اکرم (ص) سے فضائل و کمالات میں فرق نہیں ہے، جو فضیلت رسول خدا (ص) کی ہے، امیر المؤمنین (ع) بھی اس کے حامل ہیں، یعنی اگر رسول اللہ (ص) معصوم ہیں تو نفس رسول (ص) بھی معصوم ہیں، اگر آنحضرت علم غیب کے حامل ہیں، تو نفس رسول (ص) بھی علم غیب کے حامل ہیں اور اسی طرح دیگر صفات۔ البتہ آنحضرت کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہے۔
اہلسنت کے علامہ قاضی ایجی نے تحریر کیا ہے کہ:
انفسنا سے مراد خود پیغمبر (ص) نہیں ہیں، کیونکہ انسان اپنے آپ کو دعوت نہیں کرتا، بلکہ اس سے مراد امام علی (ع) ہیں اور صحیح روایات اور اہل نقل کے ہاں ثابت شدہ روایات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ پیغمبر (ص) نے امام علی (ع) کو اس مقام کے لیے دعوت دی اور یقیناً علی (ع) کا نفس وہی محمد (ص) کا نفس حقیقتاً نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد، ان دو کا فضل و کمال میں برابر ہونا ہے اور صرف نبوت مستثنی ہوتی ہے اور لفظ انفسنا دیگر کمالات میں حجت ہے، لہذا امام علی (ع) پیغمبر (ص) کے ساتھ سوائے نبوت کے، فضیلت میں برابر ہیں، بنا بر این امام علی (ع) امت کے سب سے زیادہ افضل شخص ہیں۔
شرح مواقف عضدالدین الایجی ج3 ص 624۔
امیرالمومنین (ع) کا نفس رسول (ص) ہونا اہلسنت کی روایات میں:
پہلی روایت:
زید ابن یثیع نے ابوذر سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
لَيَنْتَهِيَنَّ بَنُو وَلِيعَةَ، أَوْ لأَبْعَثَنَّ إِلَيْهِمْ رَجُلا كَنَفْسِي، يُنْفِذُ فِيهِمْ أَمْرِي، فَيَقْتُلَ الْمُقَاتِلَةُ، وَيَسْبِيَ الذُّرِّيَّةَ. فَمَا رَاعَنِي إِلا وَكَفُّ عُمَرَ فِي حُجْزَتِي مِنْ خَلْفِي: مَنْ يَعْنِي ؟ فَقُلْتُ: مَا إِيَّاكَ يَعْنِي، وَلا صَاحِبَكَ، قَالَ: فَمَنْ يَعْنِي ؟ قَالَ: خَاصِفُ النَّعْلِ، قَالَ: وَعَلِيٌّ يَخْصِفُ نَعْلاً،
بنو ولیعۃ (حضرموت کی سرزمین کے حکمرانوں) کو چاہیے کہ اس طریقہ کار سے دستبردار ہو جائیں، یا میں ایسے مرد کو ان کی طرف بھیجوں گا جو میرے جیسا ہے۔ وہ میرے امر کو ان میں جاری کرے گا، ان کے جنگجووں کو قتل کر دے گا اور ان کی اولاد کو قیدی کر لے گا، ابوذر کہتے ہیں: میں آنحضرت کی بات سے تعجب کر رہا تھا کہ عمر نے پیچھے سے میرے پہلو کو پکڑا اور کہا: پیغمبر کا مقصود کون ہے ؟ میں نے کہا: آنحضرت کا مقصود تم اور تمہارے دوست (ابو بکر) نہیں ہو۔ اس نے کہا: پھر کون مقصود ہے ؟ میں نے کہا: جو شخص جوتے کو مرمت کر رہا ہے اور علی (ع) جوتے کو مرمت کر رہے تھے۔
السنن الكبرى نسائي ج 5 ص 127۔
خصائص اميرمؤمنان علي بن أبي طالب، ج 1 ص 89، ح72۔
دوسری روایت:
علامہ اہلسنت ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن شداد سے نقل کیا ہے کہ آل سَرح کا ایک گروہ رسول اللہ (ص) کے پاس آیا تو ان سے رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
لَتُقِيمُنَّ الصَّلَاةَ وَلَتُؤْتُنَّ الزَّكَاةَ وَلَتَسْمَعُنَّ وَلَتُطِيعُنَّ أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إلَيْكُمْ رَجُلًا كَنَفْسِي، يُقَاتِلُ مُقَاتِلَتَكُمْ وَيَسْبِي ذَرَارِيَّكُمْ، اللَّهُمَّ أَنَا أَوْ كَنَفْسِي، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ،
نماز قائم کرتے ہو اور زکات دیتے ہو اور (احکام کو) سنتے ہو اور اطاعت کرتے ہو، یا کسی مرد کو تمہاری طرف بھیجتا ہوں جو میرے جیسا ہے، تمہارے جنگجووں سے جنگ کرے گا اور تمہارے گھرانوں کو قیدی کر لے گا، یا میں خود جاؤں گا یا جو شخص میرے جیسا ہے، پھر آنحضرت نے علی کے ہاتھ کو بلند کیا۔
المصنف في الأحاديث والآثار، ج 6 ص 369، رقم: 32093
تیسری روایت:
حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب المستدرک میں عبد الرحمن بن عوف سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ (ص) نے مکہ فتح کرلیا تو پھر طائف تشریف لے گئے اور آٹھ یا نو دن وہاں پر قبضہ کیا، قبضہ کے ختم ہونے اور طائف کو فتح کرنے کے بعد فرمایا:
أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي لَكُمْ فَرَطٌ، وَإِنِّي أُوصِيكُمْ بِعِتْرَتِي خَيْرًا مَوْعِدُكُمُ الْحَوْضُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتُقِيمُنَّ الصَّلاةَ، وَلَتُؤْتُونَ الزَّكَاةَ، أَوْ لأَبْعَثَنَّ عَلَيْكُمْ رَجُلا مِنِّي، أَوْ كَنَفْسِي فَلَيَضْرِبُنَّ أَعْنَاقَ مُقَاتِلِيهِمْ، وَلَيَسْبِيُنُّ ذَرَارِيَّهُمْ، قَالَ: فَرَأَى النَّاسُ أَنَّهُ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ أَوْ عُمَرَ، فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ: هَذَا،
اے لوگو ! میں تم سے محبت کرتا ہوں اور میں تمہیں اپنے اہل بیت سے نیکی کرنے کی وصیت کرتا ہوں، تمہاری وعدہ گاہ حوض (کوثر) ہے، مجھے قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، نماز قائم کرتے ہو اور زکات ادا کرتے ہو یا میں ایک مرد تمہاری طرف بھیجوں گا جو مجھ سے ہے یا مجھ جیسا ہے تا کہ وہ تمہارے جنگجووں کی گردنیں اڑا دے اور تمہارے گھرانوں کو قیدی کر لے۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ وہ مرد ابو بکر یا عمر ہو گا، لیکن رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا: یہ ہے وہ مرد۔
المستدرك علي الصحيحين، ج 2 ص 131، ح2559۔
چوتھی روایت:
علامہ اہلسنت طبرانی نے جابر بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے ولید بن عقبہ کو بنی ولیعۃ کی طرف بھیجا، ولید اور ان کے درمیان جاہلیت کے دور میں خون بہایا گیا تھا، جب انہوں نے ولید کے آنے کی خبر سنی تو اس کے استقبال کے لیے باہر نکلے، ولید نے سمجھا کہ وہ اسے قتل کرنا چاہتے ہیں، اسی لیے رسول اللہ (ص) کے پاس آیا اور کہا: بنی ولیعۃ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے زکات ادا نہیں کی۔ جب یہ خبر بنی ولیعۃ تک پہنچی تو وہ آنحضرت کے پاس آئے اور کہا: ولید جھوٹ بولتا ہے، ہاں ہمارے درمیان خون بہایا گیا تھا، ہمیں خوف تھا کہ وہ کہیں اس وجہ سے ہمیں سزا نہ دے (لیکن ہم اسے قتل نہیں کرنا چاہتے تھے)۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:
لَيَنْتَهِيَنَّ بَنُو وَلِيعَةَ أَوْ لأَبْعَثَنَّ إِلَيْهِمْ رَجُلا عِنْدِي كَنَفْسِي، يَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهُمْ، وَيَسْبِي ذَرَارِيَّهُمْ، وَهُوَ هَذَا ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى كَتِفِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: وَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي الْوَلِيدِ: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ ،
بنو ولیعۃ اپنے کاموں سے دستبردار ہو جاتے ہیں یا میں ایک ایسے مرد کو ان کی طرف بھیجتا ہوں جو میرے نزدیک مجھ جیسا ہے، تمہارے جنگجووں کو قتل کر دے گا اور تمہارے گھرانے کو قیدی کر لے گا اور وہ یہ مرد ہے، پھر اپنا ہاتھ علی ابن ابی طالب کے شانے پر رکھا، جابر کہتے ہیں کہ اللہ نے ولید کے بارے میں یہ آیت نازل کی:
ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو…۔
المعجم الأوسط، ج 4 ص 133، ح3797۔
پانچویں روایت:
احمد ابن حنبل نے مطَّلب بن عبد الله سے نقل کیا ہے کہ جب قوم ثقیف کا ایک وفد رسول اللہ (ص) کے پاس آیا تو آنحضرت نے ان سے فرمایا:
لَتُسْلِمُنَّ أَوْ لَنَبْعَثَنَّ رَجُلا مِنِّي، أَوْ قَالَ: مِثْلَ نَفْسِي، فَلَيَضْرِبَنَّ أَعْنَاقَكُمْ، وَلَيَسْبِيَنَّ ذَرَارِيَّكُمْ، وَلَيَأْخُذَنَّ أَمْوَالَكُمْ»، فَقَالَ عُمَرُ: فَوَ اللَّهِ مَا تَمَنَّيْتُ الإِمَارَةَ إِلا يَوْمَئِذٍ، جَعَلْتُ أَنْصِبُ صَدْرِي رَجَاءَ أَنْ يَقُولَ هُوَ هَذَا، قَالَ: فَالْتَفَتَ إِلَى عَلِيٍّ فَأَخَذَ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: هُوَ هَذَا هُوَ هَذَا،
اسلام کو قبول کر لو گے یا ہم ایسے ایک مرد کو بھیجیں گے جو مجھ سے ہے ، یا آپ نے فرمایا: مجھ جیسا ہے، تو وہ تمہاری گردنیں اڑا دے گا اور تمہارے گھرانوں کو قیدی کر لے گا اور تمہارا مال لے لے گا، تو عمر کا کہنا ہے کہ اللہ کی قسم ! میں نے ہرگز حکومت کی آرزو نہیں کی، مگر اس دن۔ میں نے اپنا سینہ تان لیا اس امید سے کہ پیغمبر کہیں کہ وہ مرد یہ ہے، راوی کہتا ہے: پھر آنحضرت علی (ع) کی طرف متوجہ ہوئے تو آنحضرت نے علی (ع) کا ہاتھ پکڑا، اس کے بعد فرمایا: وہ مرد یہ ہے، وہ مرد یہ ہے۔
فضائل الصحابة، أحمد بن حنبل، ج 2 ص 593۔
اہل بیت (علیہم السلام) کی زبانی واقعہ مباہلہ کی یاد دہانی:
اہل بیت (ع) نے مختلف مقامات پر واقعہ مباہلہ پر استناد کی ہے، جیسے حضرت امیر المؤمنین (ع)، امام حسن (ع)، امام حسین (ع)، امام جعفر صادق (ع)، امام موسی کاظم (ع)، امام علی ابن موسی الرضا (ع)۔ اختصار کے پیش نظر ہر امام کے واقعہ کو بیان نہیں کیا، صرف حضرت امام رضا (ع) کے واقعہ کو بیان کرتے ہیں کہ:
مامون نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کے جد (علی ابن ابی طالب) کی خلافت پر کیا دلیل ہے ؟ حضرت امام علی رضا (ع) نے فرمایا: انفسنا،
موسوعة الامام على بن ابى طالب، محمدی رى شهرى ج 8 ص 10 بنقل از طرائف المقال۔
پس قرآنی نقطہ نگاہ سے مباہلہ اور آیات برائت کا مشرکین کو ابلاغ کرنے کے واقعات میں اور اہل بیت (ع) کے بیانات اور اہلسنت علماء نے جو رسول اللہ (ص) سے روایات نقل کی ہیں اور نیز خود بھی اقرار کیا ہے، اس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ع) نفس رسول ہیں یعنی امام المتقین مقام، فضائل اور کمالات کے لحاظ سے سوائے مقام نبوت کے سید المرسلین کے برابر ہیں، تو جب امیر المؤمنین (ع) کے علاوہ کوئی نبی اکرم (ص) کے برابر نہیں ہے، تو بلا فصل آپ کے بعد آنحضرت کے علاوہ کوئی مسند خلافت پر بیٹھنے کا حقدار نہیں ہے۔
عید مباہلہ:
فتح مکہ کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے نجران کے نصارا کی طرف خط لکھا جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ نصارا نجران نے اس مسئلہ پر کافی غور و فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے لیے مدینہ روانہ ہو۔
نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے۔ میر کارواں پیغمبر اسلام (ص) کے گھر کا پتہ پوچھتا ہے، معلوم ہوتا کہ پیغمبر اپنی مسجد میں تشریف فرما ہیں۔
کارواں مسجد میں داخل ہوتا ہے ۔ پیغمبر نے نجران سے آئے افراد کی نسبت بے رخی ظاہر کی ، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوئی ۔ ظاہر سی بات ہے کارواں کے لیے بھی ناگوار گزرا کہ پہلے دعوت دی اب بے رخی دکھا رہیں ہیں ! آخر کیوں ؟
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی (ع) نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیوں سے کہا کہ آپ تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عام لباس میں آنحضرت (ص) کی خدمت میں حاضر ہو جائیں ، آپکا استقبال ہو گا۔
اب کارواں عادی لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھایا ۔ میر کارواں ابو حارثہ نے گفتگو شروع کی : آنحضرت کا خط موصول ہوا ، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپ سے گفتگو کریں۔
جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کر چکا ہوں اور سب سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدائے واحد کے فرمان کو قبول کر کے محبت اور توحید کے دین اسلام کو قبول کریں ۔
اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔
اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہو تو عیسی کو کیوں خدا مانتے ہو اور خنزیر کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے۔
اس بارے میں ہمارے پاس بہت سے دلائل ہیں، عیسی مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، پیسی و جذام سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے۔
إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ
سورہ آل عمران آیت 59
آپ نے عیسی علیہ السلام کے جن معجرات کو شمار کیا، وہ صحیح ہیں لیکن یہ سب خدائے واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا، اس لیے عیسی کی عبادت کرنے کی بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہیے۔
پادری یہ جواب سن کے خاموش ہوا اور اس دوراں کارواں میں شریک کسی اور نے ظاہرا شرحبیل نے اس خاموشی کو توڑا اور کہا:
عیسی، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کیے بغیر انہیں جنم دیا ہے۔
اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اسکا جواب وحی فرمایا: عیسی کی مثال آدم کے مانند ہے، کہ اسے (ماں ، باپ کے بغیر) خاک سے پیدا کیا گیا۔
تاریخ اسلام گروہ گروہ مصنفین ج 2 ص 67
اس پر اچانک خاموشی چھا گئی اور سبھی بڑے پادری کی طرف دیکھ رہے تھے اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود شرحبیل خاموش سر جھکائے بیٹھا ہے۔
آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لیے مباہلہ کیا جائے۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کے جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔
ان کا خیال تھا کہ ان باتوں سے پیغمبر اسلام (ص) اتفاق نہیں کریں گے ، لیکن ان کے ہوش آڑ گئے جب انہوں نے سنا:
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ،
اے عیسائیو ! اپنے بیٹوں ، خواتین اور اپنے نفوس کو لے کر آئیں، اسکے بعد مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹے پر الہی لعنت طلب کریں گے۔
سورہ آل عمران آیت 61
اس پر طے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع) صحرا میں ملتے ہیں۔ یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ لوگ مباہلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے کہ :
اگر آج محمد (ص) اپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں ، تو معلوم ہو گا کہ وہ حق پر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتا ہے تو وہ اپنے دعوے کا سچا ہے۔
سب کی نظریں شہر کے دروازے پر لگی ہوئی تھیں، دور سے مبہم سایہ نظر آنے لگا جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا ، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ پیغمبر خدا (ص) ایک ہاتھ سے حسین علیہ السلام کو آغوش میں لیے ہوئے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے حسن علیہ السلام کو پکڑ کر بڑھ رہے ہیں۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے آنحضرت کا چچا زاد بھائی ، حسنین کا بابا اور فاطمہ کا شوہر علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔
صحرا میں عجیب عجیب صدائیں بلند ہونے لگیں ۔ کوئی کہہ رہا ہے دیکھو ، پیغمبر اپنے سب سے عزیزوں کو لے آیا ہے۔ دوسرا کہہ رہا ہے اپنے دعوے پر اسے اتنا یقین ہے کہ ان کو ساتھ لایا ہے۔ اس وقت بڑے پادری نے کہا :
میں تو ان چہروں کو دیکھ رہا ہوں جو اگر پہاڑ کی طرف اشارہ کریں وہ بھی اپنی جگہ سے کھستا ہوا نظر آئے گا۔ اگر انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ہم اسی صحرا میں قہر الہی میں گرفتار ہو جائیں گے اور ہمارا نام صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا ۔ دوسرے نے کہا تو پھر اس کا سد باب کیا ہے ؟
جواب ملا اس کے ساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تا کہ آپ ہم سے راضی رہیں اور ایسا ہی کیا گیا۔
سیرہ پیشوایان ، مھدی پیشوائی ص 166
اس طرح حق کی باطل پر فتح ہوئی۔ مباہلہ پیغمبر (ص) کی حقانیت اور امامت کی تصدیق کا نام ہے۔ مباہلہ پیغمبر کے اہل بیت کا اسلام پر آنے والی ہر آنچ پر قربان ہونے کیلئے الہی منشور کا نام ہے۔ تاریخ میں ہم اس مباہلے کی تفسیر کبھی امام علی کی شہادت ، کبھی امام حسن علی شہادت، کبھی امام حسین کی شہادت، کبھی امام علی زین العابدین کی شہادت ، کبھی امام محمد باقر کی شہادت ، کبھی امام جعفر صادق کی شہادت ، کبھی امام موسی کاظم کی شہادت ، کبھی امام علی رضا کی شہادت ، کبھی امام محمد تقی کی شہادت ، کبھی امام علی النقی کی شہادت ، کبھی امام حسن عسکری کی شہادت اور کبھی امام مہدی (علیہم السلام) کی غیبت سے ملاحظہ کرتے ہیں کہ اس دن سے لے کر اسلام کی بقاء کیلئے یہی مباہلہ کے لوگ ، اسلام کی بقاء کیلئے قربان ہونے کیلئے سامنے آتے نظر آتے رہے ہیں اور اسلام دشمن قوتوں کی ہر سازش کو ناکام بنا دیتے ہیں۔
اللہ کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ ہمیں مباہلہ میں فتح پانے والے اسلام پر عمل کرنے اور پیغمبر کی تعلیمات کو عام کرنے والے آئمہ معصومین علیہم السلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
التماس دعا۔۔۔۔۔