2025 February 8
حدیث منزلت کی دلالت پر مخالفین اہل بیت علیہم السلام کی دشمنیوں کے تناظر میں ایک نیا جائزہ
مندرجات: ٢٤١٩ تاریخ اشاعت: ١٣ January ٢٠٢٥ - ١٣:٣٢ مشاہدات: 99
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
حدیث منزلت کی دلالت پر مخالفین اہل بیت علیہم السلام کی دشمنیوں کے تناظر میں ایک نیا جائزہ

بسم الله الرحمن الرحیم

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی خلافت کو ثابت کرنے کے لیے سب سے اہم شیعہ دلیل حدیث متواتر اور قطعی الصدور "منزلت" ہے۔قرآن مجید کے واضح  بیان کے مطابق حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان نسبت کے بارے میں  رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

«3706 - حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى»

بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، ج 9، ص: 250، المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دارالسلام -الرياض، چاپ اول، 1419

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تمہاری حیثیت میرے نزدیک وہی ہے جو موسیٰ کی نسبت ہاورن کی ہے؟

سورہ طٰہٰ کی آیات 29 سے 32 اور سورہ اعراف کی آیت نمبر 124 پر مبنی قرآنی  بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نسبت درج ذیل مقام و مرتبہ حاصل تھے۔

مقام وزارت: و اجْعَلْ لِي وَزِيراً مِنْ أَهْلِي»

مقام اخوت: «هارُونَ أَخِي»

مقام نصرت: «اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي»

مقام شراکت: توحید اور مذہبی حقایق کی دعوت میں « أشْرِكْهُ فِي أَمْرِي »

مقام خلافت و مصلح امت:  وَ قالَ مُوسى لِأَخيهِ هارُونَ اخْلُفْني في قَوْمي وَ أَصْلِح...»

ان مقدموں سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ، بھائی ، ناصر ، شریک، اور رسول خدا کے وزیر ہیں۔

یہ واضح ہے کہ مندرجہ بالا مقام حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی زندگی سے مشروط نہیں ہیں۔ کیونکہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا شرعی اور باوقار مقام ختم نہیں ہوتا۔

امیر المومنین علی علیہ السلام کی مقام خلافت اور سیاسی حقانیت کو ثابت کرنے میں حدیث منزلت کی فوق العاده وضاحت اور مہارت کی وجہ سے اس حدیث نے بہت سے مسلمانوں کو مذہب اہل بیت کی طرف راغب کیاہے اور اس عنصر نے صحابہ اور سقیفہ کے بہت سے علماء کو اس حد تک خوف میں مبتلا کر دیا ہے کہ وہ اس حدیث مبارکہ کو اپنے باطل عقائد کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور اس لیے انہوں نے اس حدیث کو ترویج کرنے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں۔

اس مضمون میں ہم ان میں سے کچھ ردعمل کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ محترم قارئین، ان عداوتوں پر غور کرنے سے معلوم ہو جائے گا کہ خلافت و امامت اور اہل بیت علیہم السلام کی صداقت کے بارے میں حدیث غدیر کا مفہوم تمام مسلمانوں کی نظر میں قطعی اور واضح تھا۔

پہلی صورت: ابوبکر اور عمر کے حق میں ایک جعلی حدیث

سب سے اہم رد عمل ابوبکر و عمر کے حق میں حدیث مزلت  کا جعل ہونا ہے۔ ذہبی نے بعض احادیث کے راویوں کی سوانح میں کچھ جعلسازی اور تحریفات کا ذکر کیا ہے:

  پہلی صورت:

«عَلي بن الحسن  5522- عَلي بن الحسن بن عَلي الشاعر. عن محمد بن جرير الطبري بخبر كذب، هو المتهم به. متنه «أَبو بكر مني بمنزلة هارون من موسى».

"علی بن حسن بن علی بن شاعر نے محمد بن جریر طبری سے ایک جھوٹی روایت نقل کی ہے جس میں ان پر الزام لگایا گیا ہے، اور روایت کا متن کچھ یوں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر میرے لیے ویسےہی ہیں جیسے ہارون موسیٰ علیہ السلام کے لیےتھے"۔

ذهبی، محمد بن احمد، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج3، ص: 133، المحقق: محمد رضوان عرقسوسي، ومحمد بركات، وعمار ريحاوي، وغياث الحاج أحمد، وفادي المغربي، الناشر: مؤسسة الرسالة العالمية – دمشق، الطبعة: الأولى، 1430 هـ - 2009 م، عدد الأجزاء: 5

  دوسری صورت:

«عمار بن هارون عن ابن عباس، حديث: ما ينفعني مال، ما ينفعني مال أبي بكر. وزاد فيه وأبو بكر وعمر منى بمنزلة هارون من موسى.»

عمار بن عارون نے عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے کہ: مجھے ابوبکر کےمال کی طرح کسی مال نے فائدہ نہیں پہنچایا!اور اس روایت میں انہوں نے مزید کہا ہے کہ ابوبکر و عمر میرے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو موسیٰ کے لیے ہارون کی تھی۔

ذهبی، محمد بن احمد، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج3، ص: 181، المحقق: محمد رضوان عرقسوسي، ومحمد بركات، وعمار ريحاوي، وغياث الحاج أحمد، وفادي المغربي، الناشر: مؤسسة الرسالة العالمية – دمشق، الطبعة: الأولى، 1430 هـ - 2009 م، عدد الأجزاء: 5

  تیسری صورت:

قزعة بن سويد «... وله حديث منكر عن ابن أبي مليكة، عن ابن عباس، مرفوعًا: لو كنت متخذا خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا، ولكن الله اتخذ صاحبكم خليلا، أَبو بكر وعمر مني بمنزلة هارون من موسى.»

قزعہ بن سوید: انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے عبداللہ بن عباس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سند کے ساتھ منکر اور ناقابل قبول روایت نقل کی ہے:اگر میں خلیل کو منتخب کرتا تو ابوبکر کو ضرور منتخب کرتا، لیکن خدا نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل منتخب کیا! میرے لیے ابوبکر و عمر موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ذهبی، محمد بن احمد، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج3، ص: 387، المحقق: محمد رضوان عرقسوسي، ومحمد بركات، وعمار ريحاوي، وغياث الحاج أحمد، وفادي المغربي، الناشر: مؤسسة الرسالة العالمية – دمشق، الطبعة: الأولى، 1430 هـ - 2009 م، عدد الأجزاء: 5

نتیجہ: یہ بالکل واضح ہے کہ حدیث منزلت  کو ابوبکر و عمر کے حق میں غلط قرار دینا ان کی سیاسی خلافت کی طرف اشارہ کرتا ہے، چونکہ ان خلفاء کی سیاسی حکومت کے حامیوں کو ہمیشہ امیر المومنین علیہ السلام کے حق میں واضح اور قطعی دلائل کی موجودگی کا سامنا کرنا پڑا، اس لیے انہوں نے فضائل و ادلہ حقانیت امیر المومنین علیہ السلام کو ضبط کرکے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی۔

دوسری صورت: حدیث منزلت کو  سن کرنفرت کا اظہار کرنا اور منہ کھینچنااور مخالفین  پر خوف اور لرزه  پیدا ہونا

دوسرا ردعمل حدیث منزلت سن کر نفرت کا اظہار ہے۔

«602 - أخبرني محمد بن علي بن محمود الوراق، قال: حدثني أبو يعقوب إسحاق بن إبراهيم البغوي يعني لؤلؤ ابن عم أحمد بن منيع قال: قلت لأحمد: يا أبا عبد الله، من قال: أبو بكر وعمر وعثمان وعلي، أليس هو عندك صاحب سنة؟ قال: «بلى، لقد روي في علي رحمه الله ما تقشعر، أظنه الجلود» ، قال صلى الله عليه وسلم: أنت مني بمنزلة هارون من موسى، إلا أنه لا نبي بعدي»

احمد بن منیع  کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل سے کہا کہ اے ابا عبداللہ اگر کوئی ابوبکر، عمر، عثمان اور حضرت علی کو مانتا ہے تو کیا وہ آپ کے نزدیک صاحب سنت واقعی ہے؟ (اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل سنت حقیقی ہیں؟) اس نے کہا: ہاں! علی کے بارے میں کچھ ایسا بیان کیا گیا ہے کہ اسے سن کر انسان کی جلد (راوی کہتا ہے میرا خیال ہے) نفرت اور غصے کی شدت سے جمع ہو جاتی ہے !(یعنی  ناراحت وتکلیف کی شدت اور حدیث سننے کے بعد تحمل نہ کر پانا) احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین حدیث ہے جو آپ نے فرمایا: اے علی! درحقیقت تمہارا مقام و منزلت میرے لیے وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھی۔ جب کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

خلال، ابوبکر احمد بن محمد، السنة، ج2، ص: 407، المحقق: د. عطية الزهراني، الناشر: دار الراية – الرياض، الطبعة: الأولى، 1410هـ - 1989م

خلاصہ:حدیث منزلت کو سننے کے بعد نفرت کا یہ اظہار اور چہروں کا مرجھانا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حدیث کا مضمون ان لوگوں کے ذہنوں میں قائم عقائد سے بالکل متصادم ہے جو ابوبکر و عمر کی سیاسی خلافت کو مانتاہے اور  یہ بذات خود امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت سیاسی کی حقانیت کے بارے میں حدیث منزلت واضح نشانی ہے۔

تیسری صورت: حدیث منزلت کے معنی میں غور و فکر کرنے کی ممانعت

اگلا ردعمل حدیث کے معنی اور صحیح مفہوم میں غور و فکر  کی ممانعت ہے۔ احمد بن حنبل ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے غور و فکر کرنے اور حدیث منزلت  کے مفہوم کو سمجھنے سے سختی سے خبردار کیا:

«460 - أخبرنا أبو بكر المروذي، قال: سألت أبا عبد الله عن قول النبي صلى الله عليه وسلم لعلي: «أنت مني بمنزلة هارون من موسى» ، أيش تفسيره؟ قال: «اسكت عن هذا، لا تسأل عن ذا الخبر، كما جاء»

ابوبکر مروذی کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بارے میں پوچھاکہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: تم میرے لیے ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰ علیہ السلام کے لیے!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی کیا تعبیر ہے؟ احمد بن حنبل نے کہا: اس حدیث کے معنی و مراد کے بارے میں خاموش رہو اور اس کے بارے میں سوال نہ کرو اور جیسا موصول ہوا ہے ویسے ہی  بیان کرو۔

خلال، ابوبکر احمد بن محمد، السنة، ج2، ص: 347، المحقق: د. عطية الزهراني، الناشر: دار الراية – الرياض، الطبعة: الأولى، 1410هـ - 1989م

خلاصہ:حدیث کے مفہوم میں غور و فکر کا خوف اور اس کی طرف توجہ کرنے کی ممانعت، یہ دینی انحراف کےفتنہ میں پڑنے کے خوف کی وجہ سے   - یقیناً مخالفین کی غلط رائے کے مطابق - تھااور حدیث منزلت امیر المومنین علیہ السلام کی بلافصل خلافت سیاسی  کی واضح علامت ہے کیونکہ دوسری صورت میں حدیث کے مفہوم میں غور و فکر و کنار کشی اورخوف کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔

چوتھی صورت: احادیث نقل کرنے کی ممانعت اس لیے کہ لوگ اس سے ولایت سیاسی کا تصور کرتے ہیں۔

سفیان ثوری جیسے سنی عمائدین کا ایک اور ردعمل، حدیثِ منزلت کو نقل کرنے کی ممانعت لوگوں میں رہی ہے کہ وہ مکمل ولایت سیاسی چھین لینے کے خوف سے -جنگ تبوک کے صرف ایک واقعے کے لیے مقیدنہیں-حدیثِ منزلت کی اشاعت سے خوفزدہ تھے :

«... أخبرنا أبو البركات الأنماطي، وأبو عبد الله البلخي، قالا: أنا أبو الحسين بن الطيوري، وثابت بن بندار، قالا: أنا الحسين بن جعفر ـ زاد ابن الطيوري: وأبو نصر محمد بن الحسن، قالا: ـ أنا أبو العباس (10) الوليد بن بكر، أنا علي بن أحمد بن زكريا، أنا صالح بن أحمد، حدثني أبي، عن أبيه قال: ويروى عن موسى الجهني قال: جاءني عمرو بن قيس الملائي وسفيان الثوري فقالا لي: لا تحدث هذا الحديث في الكوفة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لعلي: «أنت مني بمنزلة هارون من موسى»، وإنما كرها روايته بالكوفة لئلا يحمل على غير جهته المعروفة ويظن أنه نصر على علي بالخلافة، وإنما أراد به توليته المدينة واستخلافه»

موسیٰ جهنی  بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن قیس اور سفیان ثوری ایک دن میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا: اس حدیث کو بیان نہ کریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی علیه السلام سے فرمایا: تم میرے لیے ایسے ہو جیسے ہارون کوفہ میں موسیٰ کے لیے تھے!ان دونوں کو اہل کوفہ کے درمیان اس روایت کے  بیان کرنے سے نفرت تھی تاکہ دوسرے لوگ اس روایت کی حقانیب جو کہ مشہور ہے اس کے برعکس نتیحہ اخذ کرےاور ان دونوں کا خیال تھا کہ یہ روایت خلافت کے معاملے میں حضرت علی علیہ السلام کے فائدے کے لیے ہے، جبکہ حدیث کا واحد مفہوم اور اس کا مراد شہر مدینہ میں آن حضرت کی ولایت اور خلافت ہے!

ابن عساکر، علی بن الحسن، تاريخ دمشق، ج 42، ص: 185، المحقق: عمرو بن غرامة العمروي، الناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، عام النشر: 1415 هـ - 1995 م، 80 جلدی

خلاصہ: شرعی احکامات اور مکتوبات کو سمجھنے میں  ملاک و میزان عرف عام ہے۔ جب تمام لوگ - فرقہ وارانہ اور مذہبی پس منظر اور خصوصی تعصبات سے قطع نظر - ایک مذہبی فقرے اور متن کو مطلق  ولایت سیاسی  کے طور پر سمجھتے ہیں، تو اس کے برعکس کوئی دلیل قطعی فراہم کیے بغیر اس معنی سے عدول نہیں کیا جا سکتا۔ حدیث منزلت کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کے لیے یہ بہت اہم عنصر ہے۔

پانچویں صورت: اموی جماعت اور اس کے علماء کی طرف سے لفظ "ہارون" کو "قارون" سے تحریف کرنا

نواصب خاص طور پر بنی امیہ کی تحریک کا سب سےاہم ترین رد عمل یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے ولایت سیاسی کے حقانیت کی دلیل میں تحریف کی گئی ہے۔اهل سنت  منابع میں دستیاب دستاویزات کے مطابق ایک انتہائی خراب تحریف حدیث منزلت سے متعلق ہے۔ خطیب بغدادی روایت کرتے ہیں:

«أنبأنا أبو بكر عبد الله بن علي بن حمويه بن أبرك الهمذاني- بها- أنبأنا أحمد ابن عبد الرحمن الشيرازي حدثنا أبو حفص عمر بن أحمد بن مؤنس بن نعيم البغدادي- بها- حدثني أبو علي الحسين بن أحمد بن عبد الله المالكي حدثنا عبد الوهاب بن الضحاك حدثنا إسماعيل بن عياش قال سمعت حريز بن عثمان. قال: هذا الذي يرويه الناس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لعلي: «أنت مني بمنزلة هارون من موسى» حق ولكن أخطأ السامع، قلت: فما هو؟ قال: إنما هو أنت منى مكان قارون من موسى. قلت: عمن ترويه؟ قال سمعت الوليد بن عبد الملك يقوله وهو على المنبر.»

اسماعیل بن عیاش کہتے ہیں کہ میں نے حریز بن عثمان کو کہتے سنا: یہ وہ روایت ہے جسے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی علیه السلام سے فرمایا: تم میرے لیے ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لیے تھے۔ یہ  حدیث صحیح ہے لیکن سننے والا اسے صحیح طور پر نہیں سمجھا ہے! میں نے حریز سے کہا کہ اصل حدیث کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی علیه السلام سے فرمایا کہ تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسیٰ کے لیے قارون تھے۔ میں نے کہا: یہ کس نے روایت کیاہے؟ انہوں نے کہا: میں نے ولید بن عبدالملک کو منبر پر فرماتے سناہے!

خطیب بغدادی، ابوبکر احمد بن علی، تاریخ بغداد، ج 8، ص 262، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، دراسة وتحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، الطبعة: الأولى، 1417 هـ، 24 جلدی

خلاصہ: حدیث منزلت کے الفاظ کو تحریف کرنے کی ناصبی اور اموی تحریک کی کوششوں کے باوجود اس حدیث کےخاص امتیاز سے امیر المومنین علیہ السلام کے  فضیلت معلوم ہوتی ہے اس طرح سے کہ یہ تحریک اموی کے سیاسی مفادات کے بالکل خلاف تھی اور وہ کھلم کھلا اس روایت کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ ردعمل اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی معاملات میں یہ حدیث  امیر المومنین علیہ السلام کے حق کو ثابت کرتا ہے۔

چھٹی صورت: خلفائے راشدین کے متعلق اہل سنت کے اقوال کے فاسد ہونے کی وجہ سے  نقل حدیث سے ممانعت

سنی عمائدین کا ایک اور ردعمل یہ تھا کہ لوگوں کے عقاید  خراب ہونے کے خوف سے حدیث منزلت  کو  بیان کرنے پر پابندی لگا دی۔گویا وہ لوگ اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلیٰ اور عقلمند سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ ابوبکر و عمر  کے مرتبے کو مجروح کرنے والی کسی بھی روایت کو بیان کرنے سے منع کریں گے اور راوی کے خلاف معاملہ کریں گے :

« 3728 - حدثنا أحمد بن محمد بن سعيد، حدثنا حسين بن الحكم، حدثنا عبد الحميد بن عبد الرحمن الكسائي، قال: سمعت جعفرا الأحمر يقول: ذهب سفيان الثوري، وعمرو بن قيس الملائي، إلى موسى الجهني فقالا: إن الناس قد فسدوا، فاكتم هذا الحديث؛ حديث فاطمة بنت علي، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لعلي: أنت مني بمنزلة هارون من موسى، فقال: لا أكتمه ولا يسألني أحد عنه إلا حدثته به، فقال جعفر الأحمر: سبحان الله، كانا أخوف على أمة محمد صلى الله عليه وسلم من محمد عليه السلام، خطوهما (1) في خطئهما.»

جعفر احمر کہتے ہیں کہ سفیان ثوری اور عمرو بن قیس موسیٰ جہنی کے پاس گئے اور کہا: بے شک جب لوگ اس حدیث کو سنیں گے تو ان کا عقیدہ بگڑ جائے گا اس لئے اس حدیث کو چھپائیں اور لوگوں سے بیان نہ کریں۔فاطمہ بنت علی علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھے۔ اس نے کہا: میں اس روایت کو  نہیں چھپاؤں گی! اگر کوئی مجھ سے اس کے بارے میں پوچھے تو میں بلا شبہ بیان کروں گی!جعفر احمر کہتے ہیں: خدا کی قسم! (تعجب) یہ دونوں لوگ امت محمد (ص) کے لیے خود ان سے زیادہ خوفزدہ ہیں!

ابن عدی جرجانی، عبدالله، الكامل في ضعفاء الرجال، ج3، ص: 89، المحقق: مازن محمد السرساوي، ناشر: مكتبة الرشد – الرياض، الطبعة: الأولى، 1434 هـ - 2013 هـ، 11 جلدی

خلاصہ:سنّیوں کے عقائد  بگڑنے کے خوف سے حدیث منزلت نقل کرنے کی ممانعت کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مکمل طور پر امیر المومنین علیہ السلام کی سیاسی حکومت  سے مرتبط ہے ۔

ساتویں صورت: بعض راویوں نے حدیث منزلت سن کر بہت حیران ہوئے۔

اہل بیت علیہم السلام کے مخالفین کا ایک اور رد عمل یہ ہے کہ حدیث  منزلت کے سلسلے میں بعض اهل سنت بزرگوں کا تعجب کرنا ہے۔حالانکہ سعید بن مسیب نے یہ روایت سعد بن ابی وقاص کے بیٹے سے سنی ہے لیکن وہ انہیں براہ راست سعد سے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور سعد سے ایک بار سننے کے بعد وہ اس وقت تک یقین نہیں کرتا جب تک کہ وہ اس حدیث کو متعدد بار نہ دہرائیں۔ ابو یعلی موصلی اس بارے میں بیان کرتے ہیں:

«739 - حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُطَرِّفٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعَلِيٍّ: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ مَعِي نَبِيٌّ»، قَالَ سَعِيدٌ: فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُشَافِهَ بِذَلِكَ سَعْدًا، فَلَقِيتُهُ فَذَكَرْتُ لَهُ مَا ذَكَرَ لِي عَامِرٌ، فَقُلْتُ لَهُ، فَقَالَ: نَعَمْ سَمِعْتُهُ، فَقُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ؟ فَأَدْخَلَ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ فَقَالَ: «نَعَمْ، وَإِلَّا فَاسْتَكَّتَا»

سعد بن ابی وقاص  بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علی علیه السلام سے فرماتے سنا کہ آپ کا وہی درجہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون کا ہے، سوائے اس کے کہ میرے بعداور کوئی نبی نہیں ہوگا۔ سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ میں مستقیم  یہ روایت خود سعد بن وقاص سے سننا چاہتا ہوں، میں نے انہیں دیکھا اور یاد دلایا کہ آپ کا بیٹا عامر یہ کہتا ہے انہوں نے کہا ہاں میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے!میں نے پھر کہا: کیا تم نے واقعی یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ سعد وقاص نے کانوں میں انگلیاں ڈال کر کہا: ہاں، اگر میں نے نہ سنا ہوتا تو خاموش رہتا!

موصلی، ابویعلی، احمد بن علی، مسند أبي يعلى، ج2، ص: 86، المحقق: حسين سليم أسد، الناشر: دار المأمون للتراث – دمشق، الطبعة: الأولى، 1404 – 1984، 13 جلد

خلاصہ:سعید بن مسیب جیسے راویوں کے لیے اس حدیث کی حیرت اور عدم اعتماد کا اظہار اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ان کےقبول کئے ہوئے اصولوں کے خلاف ہے۔ اگر حدیث کا دلالت صرف امیر المومنین علیہ السلام کے لیے ایک خاص فضیلت ہوتی اور سعید بن مسیب کے لیے کوئی ذہنی یا نظریاتی چیلنج پیدا نہ کرتی تو حدیث کی تصدیق کے لیے ان کا بار بار اصرار کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

آٹھویں صورت: لوگوں کے درمیان حدیث منزلت کی اشاعت پر بعض صحابہ کا ناراضگی کا اظہار

حدیث منزلت سے متعلق ایک اور رد عمل اس حدیث کو لوگوں میں اشاعت پر بعض صحابہ کا غصہ اور ناراضگی ہے۔اجری نے ایک روایت  بیان کیا ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سعد بن ابی وقاص حدیث کی اشاعت اور اپنے زبان سے حدیث کی منتقلی سے ناراض ہوئے:

«1505 - وحدثني عمر بن أيوب السقطي قال: حدثنا محفوظ بن أبي توبة قال: حدثنا عبد الرزاق قال: حدثنا معمر , عن قتادة , وعلي بن زيد بن جدعان قالا: حدثنا سعيد بن المسيب قال: حدثنا ابن لسعد بن أبي وقاص , عن أبيه قال: فدخلت على أبيه فقلت: حديث حدثته عنك حدثنيه [ص:2038] حين استخلف النبي صلى الله عليه وسلم عليا على المدينة قال: فغضب سعد وقال: من حدثك به؟ فكرهت أن أخبره أن ابنه حدثنيه فيغضب عليه , ثم قال لي: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرج في غزوة تبوك استخلف عليا رضي الله عنه على المدينة , فقال علي: يا رسول الله , ما كنت أحب أن تخرج وجها إلا وأنا معك , فقال: «أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى غير أنه لا نبي بعدي»

سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص کے بیٹے نے اپنے والد سے ایک روایت  بیان کیا، میں ان کے والد کے پاس آیا اور میں نے کہا: آپ کے بیٹے نے مجھ سے ایک حدیث  بیان کی ہے کہ اس نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ علی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنی جگہ خلیفہ مقرر کیا۔ راوی کہتا ہے کہ سعد غصے میں آگئے اور کہنے لگے یہ روایت تجھے کس نے سنایا؟ میرے لئے صحیح نہیں تھا کہ میں آپ کے بچے کے  بارے میں آپ سے کہوں تاکہ آپ اس پر ناراض ہو ں! پھر سعد بن ابی وقاص نے کہا: بے شک جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے لیے مدینہ سے نکلنا چاہا تو آپ نے حضرت علی علیه السلام   کو مدینہ میں ان کی جگہ پر مقرر کیا۔ علی علیه السلام  نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نہیں چاہتاکہ آپ کہیں جائیں اور میں آپ کے ساتھ نہ جاوں!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: کیا تم اس بات سے مطمئن نہیں ہو کہ موسیٰ علیہ السلام کے نسبت  آپ کا وہی مقام ہے جو ہارون کا ہےمگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے؟

آجری بغدادی، ابوبکر، الشريعة، ج4، ص: 2037، المحقق: الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي، الناشر: دار الوطن - الرياض / السعودية،الطبعة: الثانية، 1420 هـ - 1999 م، 5 جلدی

نسائی بھی روایت کرتے ہیں:

«8380 - أخبرني صفوان بن عمرو قال: حدثنا أحمد بن خالد قال: حدثنا عبد العزيز بن أبي سلمة الماجشون، عن محمد بن المنكدر قال سعيد بن المسيب: أخبرني إبراهيم بن سعد، أنه سمع أباه سعدا وهو يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي: «أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبوة» قال سعيد: فلم أرض حتى أتيت سعدا فقلت: «شيئا حدثني به ابنك عنك» قال: وما هو؟ وانتهرني، فقلت: أما على هذا فلا، فقال: ما هو يا ابن أخي؟ فقلت: «هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم» يقول لعلي كذا وكذا؟ قال: «نعم، وأشار إلى أذنيه، وإلا فاسكتا، لقد سمعته يقول ذلك».

سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھے ابراہیم بن سعد نے خبر دی کہ انہوں نے اپنے والد سعد سے سنا ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی  علیه السلام سے فرمایا: کیا تم اس بات سے مطمئن نہیں ہو کہ تمہارا مقام و مرتبہ وہی ہے جو حضرت ہارون کا موسیٰ علیہ السلام سے ہے، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ہوگا؟ سعید بن مسیب کہتے ہیں: میں یہ حدیث سن کر مطمئن نہیں ہوا، لیکن میں خود سعد کے پاس گیا اور کہا: یہ روایت ہے جو آپ کے بیٹے نے آپ سے نقل کی ہے اس نے کہا کیسی روایت ہے جو مجھے غصے اور تشدد سے دور دھکیل دیا!میں نے کہا اگر ایساہے تو چھوڑ دیں! انہوں نے کہا کہ میرے بھائی کے بیٹے کے بارے میں کیا حدیث ہے؟ میں نے کہا: کیا تم نے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام  سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے؟ سعد نے کہا ہاں! اس نے اپنے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ میں خاموش ہو جاتا مگر میں نے اسے یہ حدیث کہتے سنا!

نسائی، احمد بن شعیب، السنن الكبرى، ج 7 ، ص 426،، حققه وخرج أحاديثه: حسن عبد المنعم شلبي، أشرف عليه: شعيب الأرناؤوط، قدم له: عبد الله بن عبد المحسن التركي، الناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت، الطبعة: الأولى، 1421 هـ - 2001 م، عدد الأجزاء: (10 و 2 فهارس)

خلاصہ: سعد بن ابی وقاص جیسے لوگوں کا غصہ، جو اپنے آپ کو خلافت اور پورے اسلامی معاشرے کے سربراہ ہونے کا اہل سمجھتے تھے، ان کی طرف سے اس حدیث کو لوگوں کے درمیان  بیان کرنے کی صورت میں   تعارض منافع کی نشاندہی ہوتی ہے۔کیونکہ  امیر المومنین علیہ السلام کےحقانیت سیاسی کے وجود کے بنیاد پرسعد کے لیے کوئی خاص سیاسی پوزیشن باقی نہیں رہتی!

نویں صورت:اہل بیت علیہم السلام کا احتجاج حدیث منزلت کے ذریعے ان لوگوں کے خلاف جو لوگ ابوبکر و عمر کو امیر المومنین علیہ السلام پرفضلیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔

حدیث منزلت کے حوالے سے ایک اور نقطہ نظر جو سنی روایات کی کتابوں میں مذکور ہے، امام سجاد علیہ السلام کا احتجاج اہل بیت علیہم السلام کے مخالفین کے خلاف حدیث منزلت کے ذریعے جن لوگوں نے علی علیه السلام  پر ابوبکر و عمر کی افضلیت  کا دعویٰ کیا تھا۔ان لوگوں نے امیر المومنین علیہ السلام کی ایک جعلی روایت کا حوالہ دے کر ابوبکر و عمر کی افضلیت  کا دعویٰ کیا۔ ابن عربی  بیان کرتے ہیں:

487 - نا محمد بن عثمان بن أبي شيبة، نا علي بن حكيم، نا عبد الله بن بكير، عن حكيم بن جبير، عن الشعبي، عن أبي جحيفة قال: كنا عند علي رضي الله عنه فذكروا أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فقلنا أيهم أفضل؟ قال: إن أفضل هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر، ثم عمر، وآخر لو شئت لسميته قال: فرأينا أنه يعني نفسه قال حكيم، فحدثت علي بن الحسين فضرب بيده على فخذي، وقال: هذا سعيد بن المسيب يروي عن سعد بن مالك أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لعلي: «أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي» فأي رجل كان بمنزلة هارون من موسى من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال حكيم: فأخصمني فما دريت ما أقول ...»

شعبی نے ابی جحیفہ سے روایت نقل کی ہے کہ ہم حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھے اور صحابۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی کہ ان میں سے کون افضل ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: بے شک اس امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں، پھر عمر۔ اگر چاہوں تو کسی اور کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔ راوی کہتا ہے کہ ہمیں گمان ہوا کہ تیسرے نمبر پر خود حضرت علی علیہ السلام کا ذکر ہو رہا ہے۔ حکیم بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے یہ روایت علی بن الحسین یعنی امام سجاد علیہ السلام کو بیان کی۔ اس پر امام سجاد نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اپنے زانو پر مارا اور فرمایا: یہ سعید بن مسیب ہیں جو سعد بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "اے علی! تمہاری میرے لیے وہی حیثیت ہے جو ہارون کی موسیٰ کے لیے تھی، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے!" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کس شخص کو یہ مقام حاصل ہو سکتا ہے جو ہارون کا موسیٰ کے ساتھ تھا؟ حکیم کہتے ہیں کہ امام سجاد نے میرے ساتھ نہایت حکیمانہ انداز میں بحث کی اور ایسے مضبوط جواب دیے کہ میں خاموش ہو گیا اور میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

ابن اعرابی، ابوسعید، معجم ابن الأعرابي، ج1، ص: 264، تحقيق وتخريج: عبد المحسن بن إبراهيم بن أحمد الحسيني،الناشر: دار ابن الجوزي، المملكة العربية السعودية، الطبعة: الأولى، 1418 هـ - 1997 م، عدد الأجزاء: 3

خلاصہ: اہل سنت کے نقطہ نظر کے مطابق خلفائے راشدین کی حقانیت ان کی افضلیت کے ترتیب کے ساتھ وابستہ ہے۔ جب امام سجاد علیہ السلام متواتر حدیثِ منزلت کا حوالہ دے کر اس دعویٰ شدہ افضلیت کو چیلنج کرتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں ابوبکر اور عمر کی سیاسی خلافت کی حقانیت بھی سوال کے گھیرے میں آ جاتی ہے۔ کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ افضل کے موجود ہوتے ہوئے کسی اور کا خلافت تک پہنچنا حکمت اور عقل کے اصولوں کے خلاف ہے، اور حکیم خالق اس پر راضی نہیں ہو سکتا۔

دسویں صورت: معاویہ کا سعد بن ابی وقاص کے خلاف اعتراف

اسلامی دنیا کے اہم ترین تنازعات میں سے ایک وہ جنگیں تھیں جن کی قیادت امیرالمومنین علیہ السلام نے قاسطین، مارقین، اور ناکثین کے خلاف کی۔ ان جنگوں میں صحابہ کا ردعمل اور یہ کہ وہ میدان جنگ میں کس جانب تھے، ہمیشہ شدید بحثوں کا موضوع رہا ہے۔

ایک ایسے ہی مباحثے میں، معاویہ قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دیتے ہوئے سعد بن ابی وقاص پر یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ وہ ان جنگوں سے کنارہ کش کیوں رہے۔ اس کے جواب میں سعد بن ابی وقاص حدیثِ منزلت کے ذریعے معاویہ کے خلاف استدلال کرتے ہیں۔ اس پر معاویہ ایک عجیب اعتراف کرتا ہے:

«11 - دخل سعد على معاوية فقال له مالك لم تقاتل معنا فقال أني مرت بي ريح مظلمة فقلت أخ أخ فأنخت راحلتي حتى انجلت عني ثم عرفت الطريق فسرت فقال معاوية ليس في كتاب الله أخ أخ ولكن قال الله تعالى {وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فأصلحوا بينهما فإن بغت إحداهما على الأخرى فقاتلوا التي تبغي حتى تفيء إلى أمر الله} فوا الله ما كنت مع الباغية على العادلة ولا مع العادلة على الباغية فقال سعد ما كنت لأقاتل رجلا قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم أنت مني بمنزلة هارون من موسى غير أنه لا نبي بعدي فقال معاوية من سمع هذا معك فقال فلان وفلان و أم سلمة فقال معاوية أما إني لو سمعت منه صلى الله عليه وسلم لما قاتلت عليا وفي رواية من وجه آخر أن هذا الكلام كان بينهما وهما بالمدينة في حجة حجها معاوية و أنهما قاما إلى أم سلمة فسألاها فحدثتهما بما حدث به سعد فقال معاوية لو سمعت هذا قبل هذا اليوم لكنت خادما لعلي حتى يموت أو أموت

ایک دن سعد بن ابی وقاص معاویہ کے پاس آئے۔ معاویہ نے ان سے کہا: "تم جنگوں میں ہمارے حق میں اور ہمارے ساتھ کیوں نہیں تھے؟"

سعد نے جواب دیا: "ایک تاریک ہوا میرے سامنے چلی اور میں نے کہا 'اخ اخ ' (رک جاؤ) اور اپنے گھوڑے کی لگام تھام لی، یہاں تک کہ وہ مشکل ختم ہو گئی، تاریکی میرے لیے دور ہو گئی، اور میں نے راستہ پا لیا۔" معاویہ نے سعد سے کہا: "قرآن میں ہمیں 'اخ اخ ' جیسی کوئی چیز نہیں ملی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: 'ا اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو تم ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر تعدی و زیادتی کرے تو تم سب ظلم وزیادتی کرنے والے سے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ حکمِ الٰہی کی طرف لوٹ آئے پس اگر وہ لوٹ آئے تو پھر تم ان دونوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو۔ بےشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ' (سورہ حجرات: 9)

اللہ کی قسم! تم نہ کبھی عادل گروہ کے ساتھ باغی گروہ کے خلاف لڑے اور نہ ہی باغی گروہ کے ساتھ عادل گروہ کے خلاف! (اور تم نے قرآن کی مخالفت کی!)" سعد بن وقاص نے جواب دیا: "اللہ کی قسم! میں کبھی اس شخص کے خلاف نہیں لڑ سکتا جس کے بارے میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ: 'اے علی! تمہارے لیے میری حیثیت وہی ہے جو ہارون کے لیے موسیٰ کی تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ '" معاویہ نے سعد سے پوچھا: "یہ حدیث تمہارے ساتھ کس نے سنی تھی؟"

سعد نے جواب دیا: "فلاں، فلاں، اور ام سلمہ نے!" معاویہ نے کہا: "اگر میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہوتی تو کبھی (خلافت کے لیے) علی سے جنگ نہ کرتا!" ایک اور روایت میں مختلف سند کے ساتھ آیا ہے کہ یہ گفتگو مدینہ میں آخری حج کے دوران ہوئی جب معاویہ اور سعد دونوں وہاں موجود تھے۔ دونوں ام سلمہ کے پاس گئے اور اس حدیث کی صحت کے بارے میں سوال کیا۔ ام سلمہ نے سعد کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان کی۔ یہ سن کر معاویہ نے کہا: "اگر میں نے یہ حدیث پہلے سن لی ہوتی تو اپنی زندگی کے اختتام تک (یا علی کی زندگی کے اختتام تک) ان کا خادم بن جاتا!"

عمیرة، صبحی محمود، المحيط في الاحاديث النبوية والسنن والاثار، به نقل مکتبة الشاملة؛ ج 67، ص: 79  

یہ بات بالکل واضح ہے کہ معاویہ کا یہ اعتراف کہ اگر وہ اس حدیث کو سن چکا ہوتا تو امیرالمومنین علیہ السلام کے خلاف خلافت اور اقتدار کے حصول کے لیے کوئی جنگ نہ چھیڑتا اور اپنی پوری زندگی ان کا خادم بن کر گزارتا، حدیثِ منزلت کی امیرالمومنین علیہ السلام کی مکمل سیاسی ولایت پر روشن دلیل ہے۔ یہاں تک کہ ایک بڑا دشمن اور چالاک شخص جیسے معاویہ بھی اس حدیث کے معنی اور مقصد کا انکار نہ کر سکا!

خلاصہ:

مخالفین کے حدیثِ منزلت کے ساتھ رویوں کا تجزیہ اور باریک بینی سے مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی سیاسی خلافت پر واضح دلالت کرتی ہے۔ البتہ، یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ تجزیہ خارجی شواہد اور حدیث کے ساتھ وابستہ رویوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ تاہم، جیسا کہ مقدمے میں بیان کیا گیا، خود حدیث کے الفاظ کی دلالت، داخلی شواہد کی روشنی میں، حضرت علی علیہ السلام کی خلافت، ولایت، اور اخوت پر واضح اور یقینی ہے۔

https://www.valiasr-aj.com/persian/search.phpفارسی لینک





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی