2025 January 15
کیا امام حسین علیہ السلام کو شیعوں نے شہید کیا؟!!
مندرجات: ٢٤١١ تاریخ اشاعت: ٠٩ January ٢٠٢٥ - ١٤:٠٣ مشاہدات: 109
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
کیا امام حسین علیہ السلام کو شیعوں نے شہید کیا؟!!

کیا امام حسین علیہ السلام کو شیعوں نے شہید کیا؟!!

 

سوال کی وضاحت:

 

تاریخی متون میں موجود واضح اور روشن شواہد کے باوجود، جن میں صریحاً بیان کیا گیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے قاتل کون تھے، پھر بھی بعض لوگ اپنی کتابوں اور ویب سائٹس میں عوام کو گمراہ کرنے اور زہر پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "الارشاد" میں امام حسین علیہ السلام کے ایک جملے کو ان کے شیعوں کے خلاف قرار دے کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امام کے اصل قاتل وہی شیعہ ہیں۔

یہ دعویٰ سراسر غلط اور حقیقت کے خلاف ہے۔ اس سوال کا جواب واضح ہے، لیکن چونکہ بنی امیہ اور وہابی فکر کے حامی حالیہ دنوں میں اس پروپیگنڈے کو بڑھاوا دے رہے ہیں، اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اس پر تفصیلی بحث کی جاتی ہے۔

بنی امیہ کے حامیوں نے، چاہے امام حسین علیہ السلام کے وقت میں ہوں یا بعد میں، ہمیشہ یہ کوشش کی کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کو ایک بغاوت، فتنہ، امت میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش اور خلافت کے خلاف خروج قرار دیا جائے۔ انہوں نے یزید کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ اس نے خلافت کے مرکزی نظام کے خلاف بغاوت کرنے والے کو قتل کیا۔

یہاں تک کہ وہ بعض روایات کا سہارا لیتے ہیں، جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے شخص کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو امت کی یکجہتی کو نقصان پہنچائے۔ ان کا کہنا ہے کہ: "یزید نے حسین کو ان کے جد کے حکم کی تلوار سے قتل کیا"۔

مزید برآں، وہ شیعہ علماء کی کتابوں سے کچھ جملے لے کر غلط اور نامکمل تشریحات کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوفہ کے لوگ، جو امام علی اور امام حسین علیہما السلام کے شیعہ تھے، اصل میں ان کے قاتل ہیں۔

مثال کے طور پر، ان شبہات پھیلانے کی چند صورتوں پر غور کریں:

امام حسین علیہ السلام کی لعنت کن لوگوں پر تھی؟

بعض افراد، جیسے احمد الکاتب، دعویٰ کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے شیعوں پر لعنت کرتے ہوئے کہا:

اللهم إن مَتَّعْتَهم إلي حين فَفَرِّقْهم فِرَقاً، واجعلهم طرائق قِدَداً، ولا تُرْضِ الوُلاةَ عنهم أبداً، فإنهم دَعَوْنا لِينصرونا، ثم عَدَوا علينا فقتلونا.

پروردگارا! اگر ان لوگوں کو کچھ عرصہ دنیا میں مہلت دی ہے تو ان کو مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر دے۔ انہیں ہمیشہ پریشانی میں رکھ اور ان کے حکمرانوں کو ان سے راضی نہ ہونے دے۔ کیونکہ انہوں نے ہمیں بلایا تاکہ ہماری مدد کریں، لیکن ہمارے خلاف ہو کر ہمیں قتل کر دیا۔

الارشاد، شیخ مفید، ج 2، ص 110

ایران سے عذر خواہی کا مطالبہ:

ایک اور الزام یہ ہے کہ بعض لوگ، جو خود کو اہل بیت کے نسب سے منسلک کہتے ہیں، ایران اور شیعوں سے امام حسین علیہ السلام کے قتل پر معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ شیعہ، جو ایران اور عراق میں موجود ہیں، انہی لوگوں کی نسل ہیں جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا۔

مثال کے طور پر، ذیل میں دی گئی رپورٹ پر توجہ فرمائیں:

"مصر کے کچھ افراد، جو اپنے آپ کو اہل بیت علیہم السلام کے نسب سے منسلک ہونے کی بنیاد پر 'اشراف ' کہتے ہیں، نے ایک مصری اخبار کو لکھے گئے خط میں شیعوں اور ایرانی حکومت سے امام حسین علیہ السلام کے قتل پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے!

'خیمہ ' کے مطابق، ان افراد نے یہ بھی درخواست کی ہے کہ انہیں 'خمس ' اور 'فیء ' کے اموال ادا کیے جائیں۔ یہ 'اشراف ' حضرات خود کو مقتول کے وارث قرار دیتے ہوئے اپنے خط میں یاد دہانی کراتے ہیں کہ بطور 'اشراف ' (جو سید کے مترادف ہے)، وہ امام حسین علیہ السلام کے قتل کی ذمہ داری شیعوں پر عائد کرتے ہیں۔

اس گروہ کے سربراہ نے اپنے خط میں لکھا ہے:

'قطعی شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ شیعوں کے آباء و اجداد، جو عراق اور ایران میں پھیلے ہوئے ہیں، وہی لوگ ہیں جنہوں نے جنگ میں امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا۔ شیعہ روایات بھی اس جرم کو شیعوں سے منسوب کرتی ہیں! '

اسی طرح، اس شخص نے شیعہ علماء کی روایات اور ائمہ علیہم السلام کے بیانات سے کوفیوں پر مذمت کا حوالہ دے کر اس مذمت کو شیعوں کے خلاف فرض کر لیا ہے۔

تاہم، اس مضمون کے مصنف نے جلد ہی اپنے خط میں اپنی شناخت اور مقصد ظاہر کر دیا اور امام حسین علیہ السلام کی تمام اولاد کو دعوت دی ہے کہ وہ اتحاد کے ساتھ 'یہودی شیعوں ' سے انتقام لیں۔

اگرچہ اہل سنت خمس کو صرف جنگی غنائم کے لیے واجب سمجھتے ہیں، لیکن ان افراد نے قم، نجف اور دیگر علاقوں کے شیعوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خمس اور دیگر اموال، جو شرعی طور پر ائمہ کے لیے مختص ہیں، انہیں واپس لوٹائیں۔

(فردا، 5 آبان 1387، 14:03)

ماخذ: خیمہ نیوز ویب سائٹ"

امام حسین علیہ السلام کی شہادت تلوار کے ذریعے...

ابن العربی کا دعویٰ:

قاضی ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربی المالکی (متوفی 543 ہجری قمری) جو بنی امیہ کی حمایت اور اہل بیت علیہم السلام سے دشمنی کے لیے مشہور تھے، نے یزید کو امام حسین علیہ السلام کے خون سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش میں کہا:

"إن یزید قتل الحسین بسیف جدہ"

یزید نے امام حسین علیہ السلام کو ان کے جد کی تلوار سے قتل کیا۔

المناوی، محمد بن عبداللہ، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، ج 1، ص 265، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ، بیروت۔

خلاصة عبقات الأنوار، میر سید حامد حسین النقوی، تلخیص میلانی، ج 4، ص 237-238، مؤسسہ البعثہ، قم 1406ھ۔

پس جیسا کہ میں نے کہا: بعض دیگر علماء اور مصنفین جیسے ابن حجر ہیثمی، محمد کرد علی، تقی الدین ابن الصلاح، غزالی، ابن تیمیہ، اور ابن العربی نے مختلف عبارات کے ذریعے امام حسین علیہ السلام کے قیام کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ 

رجوع کریں:

الفتاوی الحدیثیہ، ص 193۔

رسالہ ابن تیمیہ (سوال در رابطه با یزید بن معاویہ)، ص 14، 15، 17۔

کتاب العواصم من القواصم از ابن العربی، ص 232-233۔

احیاء علوم الدین از غزالی، ج 3، ص 125۔

الاتحاف بحب الأشراف، ص 67-68۔

الصواعق المحرقة از ابن حجر، ص 221۔

خطط الشام، ج 1، ص 145۔

قید الشرید، ص 57، 59۔

یزید کی حمایت میں بیانات:

محمد الخضری لکھتے ہیں:

"الحسین أخطأ خطأ عظیماً في خروجه هذا الذي جر علی الأمة وبال الفرقة، وزعزع ألفتها إلی یومنا هذا..."

امام حسین علیہ السلام نے حکومت کے خلاف خروج کر کے بڑی غلطی کی، جس نے امت کو تفرقہ کا شکار کیا اور آج تک ان کی یکجہتی کو متاثر کیا۔

محاضرات في تاریخ الأمم الإسلامیة، ج 2، ص 129۔

محمد ابو اليسر عابدین (مفتی شام):

"بیعت یزید شرعیة، ومن خرج علیه کان باغیاً"

یزید کی بیعت شرعی تھی، اور جو اس کے خلاف نکلا، وہ باغی تھا۔

اغالیط المؤرخین، ص 120۔

عبدالعزیز آل الشیخ (مفتی اعظم سعودی عرب):

"خلافة یزید شرعیة و خروج الحسین باطل"

یزید کی خلافت شرعی تھی، اور اس کے خلاف قیام باطل تھا۔

سرور پر موجود ویڈیو کا لنک:

ویڈیو دیکھنے کے لیے فلیش پلیئر انسٹال کریں۔

ڈاؤنلوڈ لنک

ویڈیو کا لنک یوٹیوب پر:

http://www.youtube.com/watch?v=AhWUEHMrGdk&feature=related

یزید: مجتہد اور امام؟!!!

ابوالخیر شافعی قزوینی یزید کی خلافت کے بارے میں لکھتے ہیں:

"إماماً مجتهداً"

یزید امام اور مجتہد تھا۔

تراجم رجال القرنین السادس والسابع، ص 6۔

بلکہ بعض لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یزید صحابہ، خلفائے راشدین مہدیین، یا انبیاء میں سے تھا۔

منہاج السنة، ابن تیمیہ، ج 4، ص 549 اور آگے۔

ان افراد کے دعوے کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے:

الف: یزید کی خلافت کی عدم مشروعیت صحابہ کی گواہی سے ثابت ہے

جب امام حسین علیہ السلام، جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابہ میں سے تھے، اور دیگر صحابہ کرام جو یزید کے عہد میں موجود تھے، اس کی امارت کو متفقہ طور پر رد کر چکے تھے اور یزید کو فاسق، فاجر اور شراب نوش قرار دیا تھا (جیسا کہ اس تحقیق کے آغاز میں تاریخی حوالہ جات دیے گئے ہیں)، تو یزید کی خلافت کو کسی بھی طرح جائز قرار دینا ناممکن ہے۔

لہٰذا، امام حسین علیہ السلام کو یزید کے خلاف بغاوت کرنے والا قرار دینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اس وضاحت کے بعد یزید کی خلافت کی مشروعیت ہی ختم ہو جاتی ہے، اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کو خروج کہنا باطل ثابت ہوتا ہے۔

ب: امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم یزید نے جاری کیا تھا

یزید کو امام حسین علیہ السلام کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ خود قاتل ہو۔ جب یزید کے ماتحت تمام حکمران اور کمانڈر اس کے احکامات کے تحت کام کرتے تھے اور ان کی کامیابی یا ناکامی یزید سے منسوب ہوتی تھی، تو یزید کو اس عمل میں بری الذمہ قرار دینے کی کوئی گنجائش نہیں۔

دوسرے الفاظ میں: یزید ابن معاویہ امام حسین علیہ السلام کے قتل کا ذمہ دار ہے، لیکن ابن زیاد، شمر اور عمر بن سعد کے ذریعے۔

تاریخی حوالہ جات:

1. ذہبی لکھتے ہیں:

خرج الحسين إلي الكوفة، فكتب يزيد إلي واليه بالعراق عبيد الله بن زياد: إن حسينا صائر إلي الكوفة، وقد ابتلي به زمانك من بين الأزمان، وبلدك من بين البلدان، وأنت من بين العمال، وعندها تعتق أو تعود عبدا. فقتله ابن زياد وبعث برأسه إليه.

حسین کوفہ کی طرف روانہ ہوئے، اس پر یزید نے عراق کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کو خط لکھا: "حسین کوفہ کی طرف آ رہے ہیں، اور یہ معاملہ تیرے دور حکومت میں ہوا ہے، اور تمہارے ذریعے اس کا فیصلہ ہونا ہے۔ اگر تم نے اسے قابو نہ کیا تو غلام بن جاؤ گے۔" پھر ابن زیاد نے حسین کو قتل کیا اور ان کا سر یزید کے پاس بھیج دیا۔

سیوطی بھی لکھتے ہیں:

فكتب يزيد إلي واليه بالعراق، عبيد الله بن زياد بقتاله.

یزید نے اپنے گورنر عبیداللہ بن زیاد کو حکم دیا کہ حسین کے خلاف جنگ کرے۔

ذہبی، تاریخ الخلفاء، ص 193، دارالفکر، بیروت، 1394ھ۔

ابن زیاد نے مسافر بن شریح یشکری سے کہا:

"جہاں تک حسین کو قتل کرنے کا معاملہ ہے، یزید نے مجھے یہ حکم دیا تھا کہ یا تو حسین کو قتل کروں یا خود قتل ہو جاؤں، اور میں نے ان دونوں میں سے حسین کو قتل کرنے کا انتخاب کیا۔"

الکامل فی التاریخ، جلد 3، صفحہ 324۔

ابن زیاد نے امام حسین علیہ السلام کو ایک خط میں لکھا:

قد بلغني نزولك كربلاء، وقد كتب إلي أمير المؤمنين يزيد: أن لا أتوسد الوثير، ولا أشبع من الخمير، أو ألحقك باللطيف الخبير، أو تنزل علي حكمي، وحكم يزيد، والسلام.

"مجھے اطلاع ملی ہے کہ آپ کربلا میں قیام فرما ہیں، اور امیرالمومنین یزید نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ یا تو میں نرم بستر پر آرام کرنا اور عمدہ کھانے کھانا چھوڑ دوں، یا آپ کو اللہ کے سپرد کر دوں، یا پھر آپ میرے اور یزید کے حکم کے سامنے سر تسلیم کریں۔ والسلام۔"

مجھے خبر ملی ہے کہ تم سرزمین کربلا میں ٹھہرے ہو، اور یزید نے مجھے لکھا ہے کہ میں نرم بستر پر آرام نہ کروں اور شکم سیر نہ کھاؤں یہاں تک کہ یا تو تمہیں اللہ کے سپرد کر دوں، جو لطیف و خبیر ہے، یا تمہیں اپنے اور یزید کی حکومت کے تحت لے آؤں۔

والسلام۔

بحار الأنوار، علامہ مجلسی، جلد 44، صفحہ 383 ،مقتل العوالم، صفحہ 243،  الفتوح، ابن اعثم، جلد 3 اور جلد 5، صفحہ 85

یعقوبی لکھتے ہیں: یزید نے ابن زیاد کو ایک خط لکھا جس میں کہا:

قد بلغني: أن أهل الكوفة قد كتبوا إلي الحسين في القدوم عليهم، وأنه قد خرج من مكة متوجهاً نحوهم، وقد بلي به بلدك من بين البلدان، وأيامك من بين الأيام، فإن قتلته، وإلا رجعت إلي نسبك وأبيك عبيد، فاحذر أن يفوت.

"مجھے اطلاع ملی ہے کہ اہل کوفہ نے حسینؑ کو خط لکھا ہے کہ وہ ان کے پاس آئیں، اور وہ مکہ سے ان کی جانب روانہ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے تمام شہروں میں سے تمہارے شہر کو منتخب کیا ہے، اور یہ واقعہ تمہاری حکومت کے دور میں پیش آ رہا ہے۔ اگر تم نے حسینؑ کو قتل کر دیا تو ٹھیک ہے، ورنہ تمہیں اپنے نسب اور اپنے باپ (جو غلام تھے) کی طرف لوٹنا ہوگا۔ خبردار رہو کہ یہ موقع ہاتھ سے نہ نکلے۔"

(تاریخ یعقوبی، جلد 2، صفحہ 242، چاپ صادر، کتاب الفتوح)

ایک اور روایت میں یہ بیان کیا گیا:

إن يزيد قد أنفذ عمرو بن سعيد بن العاص في عسكر علي الحاج، وولاه أمر الموسم، وأوصاه بالفتك بالإمام الحسين عليه السلام، أينما وجد.

"یزید نے عمرو بن سعید بن عاص کو حاجیوں کے لشکر پر مقرر کیا تاکہ وہ مناسک حج کی نگرانی کرے اور اسے ہدایت کی کہ جہاں کہیں امام حسینؑ کو پائے، ان پر حملہ کرے۔"

(المنتخب، طریحی، جلد 3، صفحہ 304، اللیلة العاشرة)

دیگر تواریخ میں ذکر ملتا ہے کہ: یزید نے ولید بن عتبہ کو لکھا:

خذ الحسين وعبد الله بن عمر، وعبد الرحمان بن أبي بكر، وعبد الله بن الزبير بالبيعة أخذاً شديداً، ومن أبي فاضرب عنقه، وابعث إلي برأسه.

"حسینؑ، عبداللہ بن عمر، عبدالرحمن بن ابوبکر اور عبداللہ بن زبیر سے سختی کے ساتھ بیعت لو، اور اگر کوئی انکار کرے تو اس کی گردن مار دو اور اس کا سر میرے پاس بھیج دو۔"

(مقتل الحسین خوارزمی، جلد 1، صفحہ 178 و 180؛ مناقب آل ابی طالب، جلد 4، صفحہ 88، چاپ مکتبہ مصطفوی، قم، ایران؛ الفتوح، ابن اعثم، جلد 5، صفحہ 10)

یعقوبی کی گزارش کے مطابق:

إذا أتاك كتابي، فاحضر الحسين بن علي، وعبد الله بن الزبير، فخذهما بالبيعة، فإن امتنعا فاضرب أعناقهما، وابعث إليّ برأسيهما، وخذ الناس بالبيعة، فمن امتنع فانفذ فيه الحكم وفي الحسين بن علي وعبد الله بن الزبير والسلام.

جیسے ہی میرا خط تمہارے پاس پہنچے، حسین بن علی اور عبد اللہ بن زبیر کو حاضر کرو اور ان سے بیعت لو۔ اگر وہ بیعت سے انکار کریں، تو ان کی گردن مار دو اور ان کے سر میرے پاس بھیج دو۔ تمام لوگوں سے بیعت لو، اور اگر کوئی انکار کرے، تو اس پر بھی وہی حکم نافذ کرو جو حسین بن علی اور عبد اللہ بن زبیر پر نافذ ہوگا۔ والسلام۔

(تاریخ یعقوبی، جلد 2، صفحہ 241)

یزید کا مدینہ کے حاکم کو لکھا گیا خط:

وعجل علي بجوابه، وبين لي في كتابك كل من في طاعتي، أو خرج عنها، وليكن مع الجواب رأس الحسين بنعلي.

"میرے خط کے جواب میں جلدی کرو اور یہ وضاحت کرو کہ کون میرے حکم کے تابع ہے اور کون اس سے باہر ہے۔ جواب کے ساتھ حسین بن علی کا سر بھی میرے پاس بھیجو۔"

(الامالی، شیخ صدوق، صفحہ 134-135؛ بحار الانوار، جلد 44، صفحہ 312)

ایک اور عبارت میں ذکر کیا گیا ہے کہ ولید بن عتبہ نے یزید کو اطلاع دی کہ اس کے اور امام حسین علیہ السلام اور ابن زبیر کے درمیان کیا گزری۔ اس پر یزید غضبناک ہوا اور اس نے ولید کو لکھا:

إذا ورد عليك كتابي هذا، فخذ بالبيعة ثانياً علي أهل المدينة بتوكيد منك عليهم، وذر عبد الله بن الزبير، فإنه لن يفوتنا، ولن ينجو منا أبداً ما دام حياً، وليكن مع جوابك إلي، رأس الحسين بن علي، فإن فعلت ذلك فقد جعلت لك أعنة الخيل، ولك عندي الجائزة والحظ الأوفر الخ.

"جب میرا یہ خط تمہیں ملے، تو مدینہ کے لوگوں سے دوبارہ بیعت لو اور اسے پہلی بیعت پر تاکید کے طور پر انجام دو۔ عبد اللہ بن زبیر کو چھوڑ دو کیونکہ وہ ہماری گرفت سے کبھی نہیں بچ سکتے۔ لیکن حسین بن علی کا سر میرے پاس ضرور بھیجو۔ اگر تم نے یہ حکم انجام دیا تو تمہیں سپاہ کی قیادت دی جائے گی اور تمہارے لیے ایک قیمتی انعام ہوگا۔"

(الفتوح، ابن اعثم، جلد 3، حصہ 5، صفحہ 18)

ابن عساکر کہتے ہیں:

بلغ يزيد خروجه، فكتب إلي عبيد الله بن زياد، وهو عامله علي العراق، يأمره بمحاربته، وحمله إليه إن ظفر به.

یزید کو اطلاع ملی کہ [امام] حسین [علیہ السلام] مدینہ سے نکلے ہیں، چنانچہ اس نے عبید اللہ بن زیاد کو، جو عراق میں اس کا گورنر تھا، خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ حسین سے جنگ کرے، اور اگر ان پر غالب آجائے تو انہیں گرفتار کرکے اس کے پاس بھیج دے۔

تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.

اور درجنوں اور سیکڑوں دیگر متون اور دستاویزات موجود ہیں، جن میں سے کچھ اس حصے میں اور تحقیق کے آغاز میں ذکر کی گئی ہیں۔ ہر ایک اپنی جگہ یزید کے قاتل ہونے کے ثبوت اور گواہی کے لیے بہترین دلیل بن سکتی ہے۔

اب ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام سے جنگ کرنے، قتل کرنے اور ان کا سر تن سے جدا کرنے کا حکم کیا کسی اور نے دیا تھا، یا یہ حکم یزید کے علاوہ کسی اور کی طرف سے صادر ہوا تھا؟!

اور دوسری طرف، اگر بالفرض یہ دعویٰ کہ یزید نے امام حسین علیہ السلام کے قتل کا حکم نہیں دیا، درست ہوتا، تو ضروری تھا کہ تاریخی متون میں قتل کا حکم نہ دینے کا ذکر بھی کیا جاتا۔ یا کم از کم اس واقعے کے بعد یزید ان عوامل اور کارگزاروں جیسے عبید اللہ بن زیاد، عمر بن سعد، شمر بن ذی الجوشن وغیرہ (لعنت اللہ علیہم) کو، جنہوں نے اس جرم میں حصہ لیا، ملامت، سزا یا تنبیہ کا حکم جاری کرتا۔

اور اگر یزید قاتل نہیں تھا یا اس عمل سے راضی نہیں تھا، تو کم از کم اسے دمشق کے سفاّیوں کے عمل کو روکتے ہوئے، جو کربلا کے قافلے کے قیدیوں کا دف، ساز، طنبور، خوشی اور پاؤں تالی کے ساتھ استقبال کر رہے تھے، انہیں اس عمل سے منع کرنا چاہیے تھا!

امام حسین علیہ السلام کی  نفرین یالعنت کا جواب۔

چونکہ کچھ افراد حالیہ دنوں میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے کربلا کے واقعے میں شیعوں کو قاتل قرار دیا، ہم اس دعوے کا تفصیل سے جواب دینے کی کوشش کریں گے۔ یہ دعویٰ شیعوں کے خلاف ایک الزام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جس کے جواب میں ہمیں امام حسین علیہ السلام کے اقوال اور ان کے موقف کو بہتر طور پر سمجھنا ضروری ہے۔

14

شیعہ کون ہے؟

یہ دعویٰ کرنا کہ شیعوں نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا، ایک واضح تضاد اور غلطی ہے۔ کیونکہ "شیعہ" کا مطلب کسی کے مددگار، حامی اور پیروکار کے طور پر لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ وہ افراد جو امام حسین علیہ السلام کے خلاف صف آراء تھے اور ان کے قتل میں شریک ہوئے، وہ بھی "شیعہ" تھے، یہ ایک کھلی ہوئی جھوٹ بات ہے۔

اس بیان کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محبت، مدد اور پیروی کو دشمنی اور جنگ کے ساتھ کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟! اگر یہ مان لیا جائے کہ عمر سعد اور عبیداللہ بن زیاد کے لشکر میں شامل افراد کو "شیعہ" کہا جا سکتا ہے، تو پھر ان لوگوں کو کیا کہیں گے جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کا آخر دم تک ساتھ دیا، ان کے لیے اپنی جان قربان کی، اور اس راہ میں شہید ہو گئے؟!

اور اگر بالفرض یہ دعویٰ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ امام حسین علیہ السلام کے قاتل شیعہ تھے، تو یہ کہنا لازم ہوگا کہ وہ ایسے شیعہ تھے جو اپنے شیعہ ہونے سے پلٹ گئے تھے اور امام کے دشمنوں کے ساتھ جا ملے تھے۔ ایسی حالت میں ان لوگوں کو "شیعہ" نہیں کہا جا سکتا بلکہ ان کے لیے "دشمن" کا لفظ زیادہ مناسب ہوگا۔

اس سلسلے میں سید محسن امین کی کتاب "اعیان الشیعہ" میں ایک دلچسپ اور وضاحت آمیز بیان ملتا ہے:

حاش لله أن يكون الذين قتلوه هم شيعته، بل الذين قتلوه بعضهم أهل طمع لا يرجع إلي دين، وبعضهم أجلاف أشرار، وبعضهم اتبعوا روءساءهم الذين قادهم حب الدنيا إلي قتاله، ولم يكن فيهم من شيعته ومحبيه أحد، أما شيعته المخلصون فكانوا له أنصاراً، وما برحوا حتي قتلوا دونه، ونصروه بكل ما في جهدهم، إلي آخر ساعة من حياتهم، وكثير منهم لم يتمكن من نصرته، أو لم يكن عالماً بأن الأمر سينتهي إلي ما انتهي إليه، وبعضهم خاطر بنفسه، وخرق الحصار الذي ضربه ابن زياد علي الكوفة، وجاء لنصرته حتي قتل معه، أما ان أحداً من شيعته ومحبيه قاتله فذلك لم يكن، وهل يعتقد أحد إن شيعته الخلص كانت لهم كثرة مفرطة؟ كلا، فما زال أتباع الحق في كل زمان أقل قليل، ويعلم ذلك بالعيان، وبقوله تعالي: «وقليل من عبادي الشكور.

خداوند اس بات سے پاک اور منزہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے قاتل شیعوں میں سے ہوں؛ بلکہ جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا، وہ طمع کے مارے ہوئے لوگ تھے جو دین سے بے بہرہ تھے، کچھ ناہنجار اور بدکار افراد تھے، اور بعض اپنے دنیا پرست سرداروں کے پیچھے چل پڑے تھے۔ وہ سردار جو دنیا کی محبت میں گرفتار ہو کر حسین بن علی علیہما السلام کے خلاف جنگ پر آمادہ ہو گئے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی امام حسین علیہ السلام کے شیعہ یا ان کے حقیقی دوستوں میں سے نہ تھا۔ بلکہ حضرت کے تمام شیعہ اور مخلص افراد ان کے یار و مددگار بنے اور انہوں نے امام کی مدد اور راہ خدا میں شہید ہونے میں کوئی تردد نہیں کیا۔ ان افراد نے اپنی آخری سانس تک امام حسین علیہ السلام کی حمایت کی۔ بہت سے شیعہ ایسے بھی تھے جو امام کی مدد کے لیے کربلا پہنچنے سے قاصر رہے، یا انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ حالات اس حد تک خراب ہو جائیں گے۔ کچھ ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ابن زیاد کے کوفے پر لگائے ہوئے پہرے کو توڑا اور امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لیے کربلا پہنچے، جہاں وہ شہید ہو گئے۔ لیکن یہ دعویٰ کہ امام حسین علیہ السلام کے خلاف جنگ میں کوئی شیعہ شریک تھا، بالکل بے بنیاد ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے کسی شیعہ یا حقیقی دوست نے، جس کے دل میں امام کے لیے محبت ہو، ان کے خلاف جنگ کی ہو؟ ہرگز نہیں! یہ ہمیشہ سے دیکھا گیا ہے کہ حق کے طرفدار ہر زمانے میں قلیل تعداد میں رہے ہیں، اور یہ اللہ کے کلام کے عین مطابق ہے: "اور میرے بندوں میں سے بہت کم لوگ شکر گزار ہوتے ہیں۔"

(اعیان الشیعہ، جلد 1، صفحہ 585)

امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں کوفہ کے باشندوں کی حالت:

یہ درست ہے کہ امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کے لیے کربلا آنے والے لوگ کوفہ کے رہنے والے تھے، لیکن اس وقت کوفہ میں کوئی ایسا شیعہ موجود نہیں تھا جو اپنے تشیع کی وجہ سے پہچانا جاتا ہو۔ کیونکہ جب معاویہ نے حکومت سنبھالی، تو اس نے زیاد بن ابیہ کو کوفہ کا حاکم بنایا۔ زیاد نے ہر اس شخص کو جو شیعہ کے طور پر معروف تھا، چن چن کر قتل کیا، ان کے گھروں کو لوٹ لیا، انہیں قید کیا یا جلاوطن کر دیا۔ اس کے نتیجے میں کوفہ میں کوئی ایسا شخص باقی نہ رہا جو شیعہ کے طور پر پہچانا جا سکے۔

تاریخی حوالوں کے مطابق، اس وقت کوفہ کی 15,000 کی آبادی میں شیعہ بہت قلیل تعداد میں تھے۔ ان میں سے اکثر کو معاویہ کے دور میں یا تو شہید کر دیا گیا، قید کر دیا گیا، یا جلاوطن کر دیا گیا۔ بہت سے شیعہ شدید مشکلات کی وجہ سے موصل، خراسان، اور قم جیسے شہروں میں ہجرت کر گئے۔ کچھ شیعہ، جیسے بنی غاضره، امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لیے نکلے، لیکن عبیداللہ بن زیاد کے سپاہیوں نے انہیں راستے میں روک دیا۔

ابن ابی الحدید معتزلی لکھتے ہیں:

كتب معاوية نسخة واحدة إلي عُمَّاله بعد عام المجُاعة: (أن برئت الذمّة ممن روي شيئاً من فضل أبي تراب وأهل بيته). فقامت الخطباء في كل كُورة وعلي كل منبر يلعنون عليًّا ويبرأون منه، ويقعون فيه وفي أهل بيته، وكانأشد الناس بلاءاً حينئذ أهل الكوفة لكثرة ما بها من شيعة علي عليه السلام، فاستعمل عليهم زياد بن سُميّة، وضم إليه البصرة، فكان يتتبّع الشيعة وهو بهم عارف، لأنه كان منهم أيام علي عليه السلام، فقتلهم تحت كل حَجَر ومَدَر وأخافهم، وقطع الأيدي والأرجل، وسَمَل العيون وصلبهم علي جذوع النخل، وطردهم وشرّدهم عن العراق، فلم يبق بها معروف منهم.

معاویہ نے قحط کے سال کے بعد اپنے عمال کو یہ حکم دیا کہ جو کوئی ابو تراب (امیر المومنین علی علیہ السلام) اور ان کے اہل بیت کی فضیلت بیان کرے، اس کے خلاف کسی بھی کارروائی کے لیے تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے خطیبوں نے ہر علاقے اور ہر منبر سے علی علیہ السلام پر لعنت بھیجی، ان سے برأت کا اظہار کیا، اور ان کے اہل بیت کو گالیاں دیں۔ اس وقت سب سے زیادہ مشکلات کوفہ کے لوگوں کو اٹھانی پڑیں، کیونکہ وہاں شیعان علی علیہ السلام کی بڑی تعداد تھی۔ معاویہ نے زیاد بن سمیہ کو کوفہ اور بصرہ دونوں کا حاکم بنایا۔ زیاد شیعوں کو پہچانتا تھا، کیونکہ وہ علی علیہ السلام کے زمانے میں ان کے حامیوں میں شامل تھا۔ زیاد نے شیعوں کو ہر جگہ تلاش کیا، یہاں تک کہ انہیں پتھروں اور اینٹوں کے نیچے چھپے ہوئے  کوبھی ڈھونڈ نکالا اور قتل کیا۔ اس نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے، ان کی آنکھیں نکال دیں، اور انہیں کھجور کے درختوں پر پھانسی دی۔ زیاد نے شیعوں کو عراق سے جلاوطن کر دیا، یہاں تک کہ عراق میں کوئی معروف شیعہ باقی نہ رہا۔

(حوالہ: شرح نہج البلاغہ، جلد 11، صفحہ 44؛ النصائح الكافية، محمد بن عقیل، صفحہ 72)

طبرانی نے المعجم الکبیر میں اپنی سند سے یونس بن عبید کے واسطے حسن بصری سے نقل کیا ہے:

كان زياد يتتبع شيعة علي رضي الله عنه فيقتلهم، فبلغ ذلك الحسن بن علي رضي الله عنه فقال: اللهم تفرَّد بموته، فإن القتل كفارة.

"زیاد، حضرت علی کے شیعوں کا تعاقب کرتا تھا اور انہیں قتل کر دیتا تھا۔ جب یہ خبر امام حسن بن علی کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: اے اللہ! اسے منفرد موت دے، کیونکہ قتل (خود ایک طرح کی) کفارہ ہے۔"

المعجم الکبیر، طبرانی، جلد 3، صفحہ 68؛ مجمع الزوائد، ہیثمی، جلد 6، صفحہ 266۔

ہیثمی نے اس روایت کو نقل کرنے کے  بعد کہا:

رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح.

"اسے طبرانی نے نقل کیا ہے اور اس کے رجال صحیح ہیں۔"

اسی طرح ذہبی نے سیر أعلام النبلاء میں ذکر کیا:

قال أبو الشعثاء: كان زياد أفتك من الحجاج لمن يخالف هواه.

"ابو الشعثاء نے کہا کہ زیاد ان لوگوں کے لیے، جو اس کی خواہشات کے خلاف جاتے تھے، حجاج بن یوسف سے بھی زیادہ خونریز تھا۔"

حسن بصری نے فرمایا:

بلغ الحسن بن علي أن زياداً يتتبَّع شيعة علي بالبصرة فيقتلهم، فدعا عليه. وقيل: إنه جمع أهل الكوفة ليعرضهم علي البراءة من أبي الحسن، فأصابه حينئذ طاعون في سنة ثلاث وخمسين.

"حضرت حسن بن علی کو یہ اطلاع دی گئی کہ زیاد، بصرہ میں حضرت علی کے شیعوں کا تعاقب کر رہا ہے اور انہیں قتل کر رہا ہے۔ تو آپ نے اس پر لعنت بھیجی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے اہل کوفہ کو جمع کیا تاکہ ان سے حضرت علی سے براءت کا اعلان کروائے، اور اسی وقت (53 ہجری) اسے طاعون کی بیماری لاحق ہوئی۔"

سیر أعلام النبلاء، جلد 3، صفحہ 496۔

ابن اثیر نے الکامل فی التاریخ میں کہا:

وكان زياد أول من شدد أمر السلطان، وأكّد الملك لمعاوية، وجرَّد سيفه، وأخذ بالظنة، وعاقب علي الشبهة، وخافه الناس خوفاً شديداً حتي أمن بعضهم بعضاً.

"زیاد وہ پہلا شخص تھا جس نے حکومت میں سختی کی بنیاد ڈالی، معاویہ کی بادشاہت کو مضبوط کیا، اور اپنی تلوار بے نیام کر دی۔ وہ محض شک کی بنیاد پر لوگوں کو گرفتار کرتا، اور انہیں سزا دیتا۔ لوگ اس سے شدید خوفزدہ تھے، یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔"

الکامل فی التاریخ، ابن اثیر، جلد 3، صفحہ 450۔

ابن حجر نے لسان المیزان میں لکھا ہے:

وكان زياد قوي المعرفة، جيد السياسة، وافر العقل، وكان من شيعة علي، وولاَّه إمرة القدس، فلما استلحقه معاوية صار أشد الناس علي آل علي وشيعته، وهو الذي سعي في قتل حجر بن عدي ومن معه.

"زیاد ایک باخبر شخص تھا، سیاست کو خوب سمجھتا تھا اور  عاقل تھا۔ وہ حضرت علی کے شیعوں میں سے تھا اور انہوں نے اسے قدس کی امارت پر مقرر کیا تھا۔ لیکن جب معاویہ کے ساتھ مل گیا تو حضرت علی کے خاندان اور ان کے شیعوں کے خلاف سب سے زیادہ سخت گیر اور دشمن ہو گیا۔ وہی تھا جس نے حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں کے قتل میں اہم کردار ادا کیا۔"

لسان المیزان، ابن حجر، جلد 2، صفحہ 495

مذکورہ بحثوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ واقعہ کربلا کے زمانے میں کوفہ میں کوئی ایسا پہچانا جانے والا شیعہ باقی نہیں رہا تھا جو امام حسینؑ کے خلاف جنگ میں شریک ہوا ہو۔ لہٰذا یہ دعویٰ کہ امام حسین کو کوفہ کے شیعوں نے قتل کیا، درست نہیں ہو سکتا۔

کوئی منصف مبصر یہ نہیں کہہ سکتا کہ امام حسین کو شیعوں نے خطوط لکھ کر دعوت دی تھی۔ کیونکہ ان خطوط کے مشہور لکھنے والے، جیسے شَبَث بن رِبعی، حجار بن اَبجر، عمرو بن حجاج اور دیگر کے بارے میں کبھی نہیں کہا گیا کہ وہ شیعہ تھے۔

کوفیوں کی بدلتی ہوئی شناخت اور خلفائے ثلاثہ کا اثر:

تاریخی روایات اور بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ کوفی ابتدائی طور پر خلفائے ثلاثہ کے حمایتی تھے۔ اس کا ایک ثبوت درج ذیل واقعہ ہے جو بہت سے تاریخی مؤرخین نے بیان کیا ہے:

جب امیرالمومنین حضرت علیؑ نے کوفہ میں خلافت سنبھالی اور چاہا کہ عمر بن خطاب کی ایک بدعت (نماز تراویح) کو ختم کریں، تو آپؑ نے امام حسنؑ کو حکم دیا کہ مسجد جا کر لوگوں کو اس عمل سے روکیں۔ لیکن جب امام حسنؑ نے مخالفت کی تو لوگوں نے بلند آواز سے احتجاج کیا اور پکارا: "وا عمراہ! وا عمراہ!"

اس پر حضرت علیؑ نے فرمایا: "انہیں کہو جیسے چاہتے ہیں ویسے نماز پڑھیں۔"

وقد روي : أن عمر خرج في شهر رمضان ليلا فرأي المصابيح في المسجد ، فقال : ما هذا ؟ فقيل له: إن الناس قد اجتمعوا لصلاة التطوع ، فقال : بدعة فنعمت البدعة ! فاعترف كما تري بأنها بدعة، وقد شهد الرسول صلي الله عليه وآله أن كل بدعة ضلالة . وقد روي أن أمير المؤمنين عليه السلام لما اجتمعوا إليه بالكوفة فسألوه أن ينصب لهم إماما يصلي بهم نافلة شهر رمضان ، زجرهم وعرفهم أن ذلك خلاف السنة فتركوه واجتمعوا لأنفسهم وقدموا بعضهم فبعث إليهم ابنه الحسن عليه السلام فدخل عليهم المسجد ومعه الدرة فلما رأوه تبادروا الأبواب وصاحوا وا عمراه !

روایت کیا گیا ہے کہ عمر نے رمضان کے مہینے میں رات کے وقت مسجد میں چراغ جلتے ہوئے دیکھے۔ انہوں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہیں بتایا گیا: لوگ نفل نماز (تراویح) کے لیے جمع ہو رہے ہیں تاکہ اسے جماعت کے ساتھ پڑھیں۔ عمر نے کہا: "یہ کام بدعت ہے، لیکن ایک اچھی بدعت ہے۔" چنانچہ یہ واضح ہے کہ انہوں نے خود اعتراف کیا کہ یہ کام بدعت ہے، حالانکہ رسول خداﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب لوگ کوفہ میں ان کے گرد جمع ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ ان کے لیے ایک امام مقرر کریں تاکہ وہ رمضان کی نفل نماز جماعت کے ساتھ پڑھ سکیں، تو آپؑ نے انہیں اس کام سے منع فرمایا اور بتایا کہ یہ عمل سنت رسول خداﷺ کے خلاف ہے۔ لیکن لوگوں نے امیرالمومنینؑ کو چھوڑ دیا اور خود جمع ہو کر ایک شخص کو آگے بڑھا کر امام جماعت بنا لیا۔ پھر حضرت علیؑ نے امام حسن مجتبیٰؑ کو ان کے پاس بھیجا۔ امام حسنؑ مسجد میں تشریف لائے، ان کے ہاتھ میں ایک کوڑا تھا۔ جب لوگوں نے انہیں دیکھا تو بھاگنے لگے اور چیخ رہے تھے: "افسوس! عمر کی سنت ختم ہو گئی!"

شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید (علمائے اہل سنت)، جلد 12، صفحہ 283 ، وسائل الشیعہ (الاسلامیہ)، شیخ حر عاملی (علمائے شیعہ)، جلد 5، صفحہ 192، حدیث 2

یہ واقعہ اس قدر عام ہو چکا تھا کہ حضرت علیؑ نے ایک طویل خطبے میں فرمایا: "مجھے عوامی شورش اور کوفہ میں اسلامی حکومت کی بنیادوں کے بگڑنے کا خوف تھا!"  یہ خود اس بات کو واضح کرتا ہے کہ کوفہ کے زیادہ تر لوگ خلیفہ دوم (عمر) کے حمایتی تھے، اور یہ تصور کہ کوفہ کے لوگ کربلا کے واقعے سے کئی سال پہلے شیعہ تھے، اس کے خلاف ہے۔

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسي، عن إبراهيم بن عثمان، عن سليم بن قيس الهلالي قال: خطب أمير المؤمنين عليه السلام فحمد الله وأثني عليه ثم صلي علي النبي صلي الله عليه وآله، ثم قال... قد عملت الولاة قبلي أعمالا خالفوا فيها رسول الله صلي الله عليه وآله متعمدين لخلافه، ناقضين لعهده مغيرين لسنته ولو حملت الناس علي تركها وحولتها إلي مواضعها وإلي ما كانت في عهد رسول الله صلي الله عليه وآله لتفرق عني جندي حتي أبقي وحدي أو قليل من شيعتي الذين عرفوا فضلي وفرض إمامتي من كتاب الله عز وجل وسنة رسول الله صلي الله عليه وآله ... والله لقد أمرت الناس أن لا يجتمعوا في شهر رمضان إلا في فريضة وأعلمتهم أن اجتماعهم في النوافل بدعة فتنادي بعض أهل عسكري ممن يقاتل معي: يا أهل الاسلام غيرت سنة عمر ينهانا عن الصلاة في شهر رمضان تطوعا ولقد خفت أن يثوروا في ناحية جانب عسكري ما لقيت من هذه الأمة من الفرقة وطاعة أئمة الضلالة والدعاة إلي النار.

امیرالمومنین علیہ السلام نے ایک خطبہ دیا، جس میں پہلے اللہ کی حمد و ثنا کی اور پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا، اس کے بعد فرمایا:

"خلفا مجھ سے پہلے ایسے اعمال کرتے رہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت پر مبنی تھے اور انہوں نے جان بوجھ کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کی۔ انہوں نے ان کے عہد کو توڑ دیا اور ان کی سنت کو بدل دیا۔ اگر میں لوگوں کو ان بدعتوں کو چھوڑنے پر مجبور کروں اور انہیں اصل دین کی طرف واپس لے جاؤں، یعنی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی حالت پر لے آؤں، تو میرا لشکر میرے گرد سے منتشر ہو جائے گا اور میں تنہا رہ جاؤں گا یا میرے ساتھ صرف چند شیعہ باقی رہیں گے، جو میری فضیلت اور میری امامت کی وجوبیت کو کتابِ خدا اور سنتِ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہچانتے ہیں۔ قسم بخدا، میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ رمضان کے مہینے میں واجب نماز کے علاوہ کوئی نماز جماعت کے ساتھ نہ پڑھیں، اور انہیں آگاہ کیا کہ نفل نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنا بدعت ہے۔ لیکن میرے لشکر کے کچھ افراد، جنہوں نے میرے ساتھ جنگیں لڑی تھیں، نے بلند آواز سے پکارا: 'اے اہلِ اسلام! عمر کی سنت کو بدل دیا گیا ہے! ہمیں رمضان کے مہینے میں نفل نماز پڑھنے سے روکا جا رہا ہے! ' مجھے خوف ہوا کہ میرا اپنا لشکر میرے خلاف بغاوت کر دے گا، جیسا کہ میں نے اس امت میں دیکھا کہ وہ تفرقے میں پڑ گئے اور گمراہ اماموں اور آگ کی طرف بلانے والوں کی اطاعت کرنے لگے۔"

الکافی، شیخ کلینی، جلد 8، صفحہ 58، حدیث 21

جیسا کہ اس روایت صحیح میں آیا ہے، حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے زمانے میں کوفہ کے شیعیان کو اقلیت شمار کیا۔

کوفہ شیعیان سے خالی:

ان مشہور افراد کے نام جو امام حسین علیہ السلام کے قاتلین کی فہرست میں شامل ہیں، درج ذیل ہیں: عمر بن سعد بن ابی وقاص، شمر بن ذی الجوشن، شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، حرملہ بن کاهل، سنان وغیرہ۔

ان میں سے کسی کو بھی اہل بیت علیہم السلام کے شیعہ کے طور پر معروف نہیں پایا گیا۔ مذکورہ افراد نہ شیعہ تھے اور نہ ہی امیرالمومنین علی علیہ السلام کی محبت و ولایت کے لیے مشہور تھے۔

کوفہ: حنفیوں کا مرکز:

اسلامی اور فقہی کتابوں میں جب یہ عبارت "یہ کوفیوں کی رائے ہے" (هذا رأي كوفي) استعمال ہوتی ہے تو اس سے مراد ابو حنیفہ کے پیروکاروں کی رائے ہوتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے کچھ سال بعد کوفہ احناف (حنفی مسلک) کا مرکز بن گیا، جو ماضی میں اس شہر کے زیادہ تر لوگوں کے شیعہ ہونے کے دعوے کے خلاف ہے۔

قاتلین: آل ابی سفیان کے شیعہ!

کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے خطبات، قومِ قاتل پر احتجاجات، اور ان کی جانب سے کیے گئے فرمودات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد کہیں بھی یہ نہیں ملا کہ امام حسین علیہ السلام نے انہیں اپنے یا اپنے والد بزرگوار امیرالمومنین علی علیہ السلام کے شیعہ یا محب قرار دیا ہو۔

اگر وہ شیعہ ہوتے، تو امام حسین علیہ السلام انہیں اس انداز میں خطاب کرتے کہ: "تم جو میرے اور میرے والد کے شیعہ و محب ہو، کیوں میرے خلاف جنگ کر رہے ہو؟" لیکن ایسا کوئی بیان نہ امام حسین علیہ السلام کی طرف سے آیا، نہ کسی اور معتبر ذریعہ میں یہ تعبیر ان کے لیے استعمال ہوئی۔ یہ خود ایک واضح دلیل ہے کہ وہ قوم اہل بیت علیہم السلام کی شیعہ نہیں تھی۔

بلکہ اس کے برعکس، اس تعبیر میں جو امام حسین علیہ السلام نے اپنے آخری لمحات میں اس ظالم اور جرائم پیشہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے استعمال کی، ایک اور حقیقت کو ثابت کرتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے روزِ عاشورہ اس قوم کو شیعہ آل ابی سفیان کے طور پر مخاطب کیا۔

ويحكم يا شيعة آل أبي سفيان! إن لم يكن لكم دين، وكنتم لا تخافون المعاد، فكونوا أحراراً في دنياكم هذه، وارجعوا إلي أحسابكم إن كنتم عُرُباً كما تزعمون.

افسوس ہے تم پر، اے ابو سفیان کے پیروکارو! اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اور تم قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے، تو کم از کم دنیا میں آزاد مرد بنو اور اپنی عربی حسب و نسب کی طرف لوٹ آؤ، جیسا کہ تم دعویٰ کرتے ہو۔

(مقتل الحسین، خوارزمی، ج 2، ص 38؛ بحار الأنوار، ج 45، ص 51؛ اللہوف فی قتل الطفوف، ص 45)

قاتلوں کے استعمال کردہ الفاظ:

عاشورہ کے دن امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کے بیانات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ گروہ کس قبیلے اور کس کردار کے لوگ تھے۔ کیا یہ امام حسین علیہ السلام کے شیعہ تھے یا ان کے بدترین دشمن؟

قاتلوں نے اس دن امام حسین علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہا:

یہ ہماری جنگ اور قتال تمہارے ساتھ تمہارے والد علی بن ابی طالب سے دشمنی اور عداوت کی وجہ سے ہے۔

"إنما نقاتلك بغضاً لأبيك"  یعنی: ہم تم سے جنگ اور قتال صرف اس بغض اور کینے کی بنا پر کر رہے ہیں جو ہمیں تمہارے والد علی بن ابی طالب سے ہے۔

(ینابیع المودة، قندوزی حنفی، ص 346)

اب، ان الفاظ کے پیش نظر، کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ عاشورہ کے دن امام حسین علیہ السلام کے قاتل امیرالمومنین علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے شیعہ تھے؟

اسی طرح بعض دیگر افراد نے امام حسین علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا:

يا حسين، يا كذّاب ابن الكذّاب . اے حسین! اے جھوٹے کے بیٹے جھوٹے!

(الکامل، ابن اثیر، ج 4، ص 67)

اور ایک اور موقع پر ان لوگوں نے کہا:

يا حسين أبشر بالنار. اے حسین! تمہیں جہنم کی آگ کی بشارت ہو!

(الکامل، ابن اثیر، ج 4، ص 66؛ البدایہ والنہایہ، ج 8، ص 183)

ایک اور شخص نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب سے مخاطب ہو کر کہا:

"إنها لا تُقْبَل منكم" یہ نماز جو تم لوگ پڑھ رہے ہو، اللہ کے نزدیک قبول نہیں ہوگی۔

(البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، ج 8، ص 185)

اور اس جیسے کئی جملے اور عبارات واضح طور پر امیرالمومنین علی علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے خلاف ان کے بغض، کینے اور دشمنی کو ظاہر کرتے ہیں۔

اعمال اور جرائم قاتلوں کی شناخت ظاہر کرتا ہے:

یہ لوگ نہ صرف امام حسین علیہ السلام کے شیعہ اور موالی نہیں تھے بلکہ ان کے بدترین دشمن تھے۔ کیونکہ انہوں نے امام حسین علیہ السلام، ان کے اہل بیت اور حتیٰ کہ ان کے شیرخوار بچے کو پانی کے ایک قطرے سے بھی محروم رکھا۔ انہیں اسی حالت میں شہید کیا۔ شہداء کے پاکیزہ جسموں کو گھوڑوں کے سموں تلے روند دیا۔ ان کے سروں کو تن سے جدا کیا۔ ان کے خواتین اور بچوں کو قید کر لیا۔ ان کے اموال کو لوٹ لیا۔ اور ایسے کئی گھناؤنے جرائم کیے جن کی توقع بدترین دشمنوں سے بھی نہیں کی جا سکتی، چہ جائیکہ یہ اعمال کسی شیعہ سے سرزد ہوں۔

ابن اثیر اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:

ثم نادي عمر بن سعد في أصحابه مَن ينتدب إلي الحسين فيُوطئه فرسه، فانتدب عشرة، منهم إسحاق بن حيوة الحضرمي، وهو الذي سلب قميص الحسين، فبرص بعدُ، فأتوا فداسوا الحسين بخيولهم حتي رضّوا ظهره وصدره.

عمر بن سعد نے اپنی فوج سے بلند آواز میں کہا:

کون تیار ہے کہ اپنے گھوڑے سے حسین کے جسم کو روند ڈالے؟یہاں دس افراد اس کی فوج میں سے آگے بڑھے، جن میں اسحاق بن حیوة حضرمی بھی شامل تھا۔ وہی شخص جس نے امام حسین علیہ السلام کا لباس اور قمیص لوٹ لی تھی، اور بعد میں برص (سفید داغ) کی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ ان دس افراد نے اپنے گھوڑوں کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے جسم کو اس قدر روند ڈالا کہ آپ کا سینہ اور پشت ایک ہو گئے۔

(الکامل، ابن اثیر، ج 4، ص 80)

ابن اثیر ایک اور جگہ کہتے ہیں:

وسُلِب الحسين ما كان عليه، فأخذ سراويله بحر بن كعب، وأخذ قيس بن الأشعث قطيفته، وهي من خز، فكان يُسمَّي بعدُ (قيس قطيفة)، وأخذ نعليه الأسود الأودي، وأخذ سيفه رجل من دارم، ومال الناس علي الورس والحلل فانتهبوها، ونهبوا ثقله وما علي النساء، حتي إن كانت المرأة لتنزع الثوب من ظهرها فيؤخذ منها.

تمام اموال جو امام حسین علیہ السلام سے متعلق تھیں، لوٹ لی گئیں۔ ان کی شلوار بحر بن کعب نے لوٹی، ان کا ریشمی جبہ قیس بن أشعث نے چھینا، جس کی وجہ سے وہ بعد میں "قیس قطیفہ" کے نام سے مشہور ہوا، اور ان کے نعلین (جوتے) اسود اودی نے چرا لیے۔ ان کی تلوار ایک شخص نے جو قبیلہ دارم سے تھا، لے لی۔ دیگر افراد نے آپ کا سرخ لباس اور کچھ قیمتی اشیاء لوٹ لیں۔ یہاں تک کہ خواتین کے جو کپڑے تھے، وہ بھی چھین لیے گئے۔ اگر کوئی خاتون کوئی لباس پہننے کی کوشش کرتی تو وہ بھی اس کے جسم سے اتار لیا جاتا۔

(الکامل، ابن اثیر، ج 4، ص 79)

ابن کثیر، ابو مخنف سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے:

وأخذ سنان وغيره سلبه، وتقاسم الناس ما كان من أمواله وحواصله، وما في خبائه حتي ما علي النساء من الثياب الطاهرة.

سنان اور دیگر افراد نے امام حسین علیہ السلام کے خیموں میں موجود کھجور کے پتوں تک کو لوٹ لیا، اور تمام اموال، ذخائر اور جو کچھ بھی خیموں میں تھا، سب آپس میں تقسیم کر لیا۔ یہاں تک کہ خواتین کے لباس تک چھین لیے گئے۔

وجاء عمر بن سعد فقال: ألا لا يدخلن علي هذه النسوة أحد، ولا يقتل هذا الغلام أحد، ومن أخذ من متاعهم شيئاً فليردّه عليهم. قال: فوالله ما ردَّ أحد شيئاً.

سب کو معلوم ہونا چاہیے! کوئی بھی ان عورتوں کو نقصان نہیں پہنچائے گا اور نہ ہی اس بچے کو قتل کرے گا۔ اور جو بھی ان سے کوئی چیز لوٹ کر لے گیا ہے، وہ واپس کر دے۔ راوی کہتا ہے: خدا کی قسم! کسی نے بھی کوئی چیز واپس نہیں کی۔

(البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، ج 8، ص 190)

کیا ایسے اعمال انجام دینے والے امام حسین علیہ السلام کے شیعہ ہو سکتے ہیں؟ ایسے اعمال اور رویے جو صرف ایک کینہ پرور، بدترین دشمن یا شقی انسان سے صادر ہو سکتے ہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ انہیں امام حسین علیہ السلام کے شیعہ کہا جائے؟

قاتلوں کی شناخت ان کے ناموں سے واضح ہے:

اگر کوئی شخص یہ دلائل قبول نہ کرے کہ کربلا کے حاضرین شیعہ نہیں تھے اور ان کے شیعہ ہونے پر اصرار کرے، تو وہ ان حکم دینے والوں اور سربراہوں کے بارے میں کیا کہے گا جنہوں نے اس واقعے کی بنیاد رکھی؟ کیا یہ افراد بھی شیعہ اور امیرالمومنین علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے محب تھے؟ ان افراد کے نام درج ذیل ہیں: يزيد بن معاوية ـ عبيد الله بن زياد ـ عمر بن سعد ـ شمر بن ذي الجوشن ـ قيس بن أشعث بن قيس ـ عمرو بن حجاج زبيدي ـ عبد الله بن زهير أزدي ـ عروة بن قيس أحمسي ـ شبث بن ربعي يربوعي ـ عبد الرحمن بن أبي سبرة جعفي ـ حصين بن نمير ـ حجار بن أبجر.

دیگر قاتل جو کربلا کے واقعے میں براہ راست شریک تھے: سنان بن أنس نخعي ـ حرمله كاهلي ـ منقذ بن مره عبدي ـ أبو الحتوف جعفي ـ مالك بن نسر كندي ـ عبد الرحمن جعفي ـ قشعم بن نذير جعفي ـ بحر بن كعب بن تيم الله ـ زرعة بن شريك تميمي ـ صالح بن وهب مري ـ خولي بن يزيد أصبحي ـ حصين بن تميم و غيره...

یہ تمام افراد اس سانحہ میں براہ راست شریک تھے اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شہادت کے ذمہ دار تھے۔

 کربلا کے واقعات کا مطالعہ کرنے سے یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے۔

یزید کا بیان قاتلوں کی شناخت کے بارے میں:

یزید بن معاویہ، جو اس جرم کا اصل ذمہ دار تھا اور الزام کی تیز دھار اپنی طرف مڑتی دیکھ رہا تھا، کبھی یہ نہیں کہتا کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے شیعہ تھے جنہوں نے انہیں قتل کیا۔ حالانکہ اگر اس وقت یہ جھوٹ کسی بھی طرح قابل قبول ہوتا تو یزید اس بیان کو دینے میں ذرا بھی تاخیر نہ کرتا۔ بلکہ اس نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی ذمہ داری عبیداللہ بن زیاد، کوفہ کے گورنر پر ڈال دی تاکہ کسی طرح اپنے گناہ اور رسوائی کا بوجھ کم کر سکے۔

ابن کثیر، ذہبی اور دوسرے مورخین نے لکھا ہے:

لما قتل عبيدُ الله الحسينَ وأهله بعث برؤوسهم إلي يزيد، فسُرَّ بقتلهم أولاً، ثم لم يلبث حتي ندم علي قتلهم، فكان يقول: وما عليَّ لو احتملتُ الأذي، وأنزلتُ الحسين معي، وحكَّمته فيما يريد، وإن كان عليَّ في ذلك وهن، حفظاً لرسول الله صلي الله عليه وسلم ورعاية لحقه، لعن الله ابن مرجانة يعني عبيد الله فإنه أحرجه واضطره، وقد كان سأل أن يخلي سبيله أن يرجع من حيث أقبل، أو يأتيني فيضع يده في يدي، أو يلحق بثغر من الثغور، فأبي ذلك عليه وقتله، فأبغضني بقتله المسلمون، وزرع لي في قلوبهم العداوة.

جب عبید اللہ بن زیاد نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کو شہید کر کے ان کے سر یزید کے پاس بھیجا، تو یزید ابتدا میں ان کے قتل پر خوش ہوا، لیکن زیادہ دیر نہ گزری کہ وہ ان کے قتل پر پچھتا گیا، اور وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا: "اگر میں ان سے اذیت برداشت کرتا، تو انہیں ساتھ لے آتا، ان کے حقوق کا خیال رکھتا اور انہیں ان کی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے دیتا، اور اگر اس سے مجھے ذلت آتی تو بھی میں یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حرمت کے لیے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے کرتا، لعنت ہو ابن مرجانہ یعنی عبید اللہ بن زیاد پر جس نے امام حسین کو مجبور اور تنگ کیا، حالانکہ حسین نے یہ درخواست کی تھی کہ یا تو وہ واپس لوٹ جائیں یا میرے پاس آ کر بیعت کریں یا سرحدوں میں سے کسی ایک  طرف کو جائیں، لیکن حسین نے ان سب باتوں کو رد کر دیا اور اسی وجہ سے ابن زیاد نے انہیں قتل کر دیا۔ اس کے بعد مسلمان مجھ سے نفرت کرنے لگے اور میرے خلاف دلوں میں دشمنی کا بیج بو دیا۔"

سیر أعلام النبلاء، ج 3، ص 317 ـ البداية والنهاية، ج 8، ص 35 ـ الكامل في التاريخ، ج 4، ص 87

اگرچہ اس قول پر ابتدائی تحقیق میں اعتراض کیا گیا تھا، لیکن یہاں ہم صرف اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ یزید نے یہ نہیں کہا کہ "شیعیان نے حسین کو قتل کیا" بلکہ وہ ابن زیاد کو اس قتل میں شریک سمجھتا ہے۔

کربلا میں صف بندی قاتلوں کی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے

اس وقت کی صف بندیوں میں یہ تصور تھا کہ جو شخص امام حسین کے لشکر میں شامل ہوتا، اسے ان کا شیعہ سمجھا جاتا تھا، اور جو شخص مخالف صف میں ہوتا، اسے کبھی ایسا نہیں کہا جاتا تھا۔ مثلاً زہیر بن قین جو پہلے عثمانی مسلک پر تھا اور امام حسین سے دور تھا، لیکن جب وہ امام حسین کے لشکر میں شامل ہو گیا، تو اسے ان کا شیعہ قرار دیا گیا۔

تاریخ طبری میں زہیر کے بارے میں لکھا ہے:

فقال له زهير يا عزرة إن الله قد زكاها وهداها فاتق الله يا عزرة فإني لك من الناصحين أنشدك الله يا عزرة أن تكون ممن يعين الضلال علي قتل النفوس الزكية قال يا زهير ما كنت عندنا من شيعة أهل هذا البيت إنما كنت عثمانيا.

زہیر نے عززہ سے کہا: "اے عززہ! اللہ تعالیٰ نے اسے پاک کیا اور ہدایت دی۔ پس اللہ سے ڈرو، کیونکہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم کبھی ان لوگوں میں شامل نہ ہونا جو نیک نفسوں کے قتل میں گمراہوں کی مدد کرتے ہیں!" عززہ نے جواب دیا: "اے زہیر! ہم تمہیں اس خاندان کے شیعوں میں شمار نہیں کرتے تھے (لیکن آج تمہیں ہم ان کے شیعوں کی صف میں دیکھتے ہیں) حالانکہ تم عثمانی مسلک کے پیروکار تھے!!!"

تاریخ طبری، ج 4، ص 316

یہ عبارت بخوبی ظاہر کرتی ہے کہ صرف ایک طرف میں شامل ہونے سے ہی شخص کو شیعہ یا دشمن امام حسین علیہ السلام قرار دیا جاتا تھا۔

کوفہ کے چند شیعوں کی امام حسین علیہ السلام کی مدد کی کوشش

یہ تمام شواہد اور دستاویزات معاویہ کی جانب سے شیعیان امیرالمؤمنین اور امام حسن علیہما السلام کے ساتھ کیے گئے قتل و خونریزی سے الگ ہیں، جس میں اس نے کئی شیعوں کو شہید کیا اور کئی کو جلاوطن یا قید کیا۔ اس کے باوجود تاریخی شواہد کے مطابق وہ چند شیعہ جو کوفہ میں باقی رہے، امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لیے پہنچنا چاہتے تھے، مگر ابن زیاد کی فوج کے ساتھ مقابلے کے دوران گرفتار ہو گئے۔ اور صرف چند ایک جیسے زہیر اور حبیب بن مظاہر ہی اس محاصرے سے بچ کر امام حسین علیہ السلام کے پاس پہنچ سکے۔ ان میں سے کچھ لوگ حضرت کی شہادت کے بعد کربلا پہنچے۔

اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ کوفہ میں مزید کوئی شیعہ باقی نہیں بچا تھا جو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے آتا۔

بیعت اور امام حسین علیہ السلام کی دعوت، شیعہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں: چونکہ اہل کوفہ نے امام حسین علیہ السلام سے بیعت کی تھی اور انہیں کوفہ آنے کی دعوت دی تھی، اس لیے وہ امام حسین علیہ السلام کے شیعہ تھے۔ حالانکہ یہ کہنا درست نہیں کیونکہ بیعت کبھی بھی شیعہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی، کیونکہ اس بات کا مطلب یہ ہوگا کہ "تمام صحابہ اور تابعین جو امیر المؤمنین علیہ السلام سے بیعت کر کے ان کے ساتھ تھے، وہ بھی ان کے شیعہ تھے!!" حالانکہ اب تک کسی نے ایسا نہیں کہا۔ دراصل بہت سے بیعت کرنے والے لوگ امام حسین علیہ السلام کے دشمنوں کی صف میں جنگوں میں شریک تھے۔

لہٰذا جب بعض تاریخ  کی کتابوں میں یہ ذکر آتا ہے کہ اہل کوفہ نے امام حسین علیہ السلام کو خطوط لکھ کر انہیں کوفہ آنے کی دعوت دی، تو یہ بیعت کے طور پر شمار کی گئی اور انہیں شیعوں میں شامل سمجھا گیا، اور اس بنیاد پر نتیجہ نکالا گیا کہ "امام حسین علیہ السلام کے قاتل ان کے شیعہ تھے۔"

پہلے بیان کردہ جواب میں اس بات کا بطلان واضح ہو چکا ہے، اس کے علاوہ یہ عمل اس لیے کیا گیا تھا کیونکہ اہل کوفہ امام حسین علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے بہترین صحابی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کے طور پر دیکھتے تھے؛ دوسری جانب انہوں نے یزید کی بے ضابطگیوں اور اس کے بارے میں جو کچھ بھی اوصاف ذکر کیے تھے، وہ ان سے باخبر تھے یا سنے تھے۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ اس عمل کے ذریعے اسلامی حکمرانی کی پالیسی میں تبدیلی لائیں۔ اور یہ دعوت اور بیعت اس معنی میں نہیں تھی کہ وہ امام حسین علیہ السلام کو تیسرے امام اور معصوم مانتے تھے یا ان کے لیے خلافت میں کسی کو زیادہ لائق سمجھتے تھے۔

اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ کوفہ کے لوگ حضرت علی اور امام حسین علیہ السلام کے دور میں دو گروہوں میں تقسیم تھے:

1- شیعہ بمعنی خاص: یعنی اہل بیت سے محبت رکھتے تھے اور ان کے دشمنوں سے عداوت رکھتے تھے۔

اس قسم کے شیعہ کبھی بھی عمر بن سعد کی فوج میں نہیں تھے جو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کر رہے تھے۔ کیونکہ ایسے شیعہ یا تو حضرت کے ساتھ تھے اور ان کے لشکر میں شامل ہو کر جنگ کرتے ہوئے شہید ہو گئے، یا عبید اللہ، یزید اور دیگر حکومتوں کی جیلوں میں تھے، یا امام حسین علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے محاصرے اور پابندیوں میں تھے، یا حضرت کی شہادت کے بعد کربلا پہنچے، یا کربلا کے واقعہ سے بے خبر تھے اور بعد میں اس کی اطلاع ملی۔

2- شیعہ بمعنی عام: یعنی اہل بیت سے محبت رکھتے تھے لیکن ان کے دشمنوں سے عداوت نہیں رکھتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اہل بیت کی الہی امامت اور شیعت کے دوسرے اصولوں کو نہیں مانتے تھے، اور ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ عمر بن سعد اور یزید کی فوج میں شامل تھے۔

لعن الله امة اسست اساس الظلم و الجور عليكم اهل البيت و لعن الله امة دفعتكم عن مقامكم و ازالتكم عن مراتبكم التي رتبكم الله فيها و لعن الله امة قتلتكم و لعن الله الممهدين لهم بالتمكين من قتالكم. برئتُ الي الله واليكم منهم و من اشياعهم و اتباعهم و اوليائهم...و اكرمني بك ان يرزقني طلب ثارك مع امام منصور من اهل بيت محمد صلي الله عليه و آله

 

موفق رہیں۔

شبہات  کےجواب دینے والے گروہ

حضرت ولیّ عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ)تحقیقاتی  مراکز

مقالہ کی فارسی لینک  https://www.valiasr-aj.com/persian/shownews.php?idnews=5015

 

 





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی