2025 January 15
امام حسن مجتبی علیہ السلام کے اجتماعی اخلاق پر ایک نظر
مندرجات: ٢٣٨٥ تاریخ اشاعت: ٣٠ December ٢٠٢٤ - ١٤:٢٣ مشاہدات: 58
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
امام حسن مجتبی علیہ السلام کے اجتماعی اخلاق پر ایک نظر

فقرا و غربا کے ساتھ ہمدردی، بچوں سے تواضع، غلاموں کی آزادی، اور شامی شخص کی توہین کا جواب


 

فقرا  و غربا کے ساتھ ہمدردی، بچوں سے تواضع، غلاموں کی آزادی، اور شامی شخص کی توہین کا جواب

                                                    

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی علمی و عملی سیرت کا مطالعہ، اہل بیت علیہم السلام کے ایک رہنما کی حیثیت سے، بے پناہ اہمیت کا حامل ہے۔ دوسری حجتِ خدا، جو 40 ہجری میں اپنے والدِ گرامی کی وفات کے بعد امامت کے منصب پر فائز ہوئے، ایک دشمن جیسے معاویہ کے ساتھ ہم عصر تھے۔ معاویہ کی سازشوں اور امام پر صلح مسلط کرنے کا واقعہ، امام حسن علیہ السلام کی امامت کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔

امام حسن علیہ السلام کی سماجی موجودگی اور برتاؤ، چاہے وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے دورِ حیات میں ہو جب وہ ایک بچے تھے، یا بعد کے ادوار میں، ہمیشہ مختلف افراد اور گروہوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا تواضع اور حلم، ان کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ہیں، جن کا تذکرہ تاریخ کے اوراق میں دوست و دشمن دونوں نے کیا ہے۔

اس تحریر میں ہم مختصراً امام حسن علیہ السلام کی عملی اور سماجی سیرت کے کچھ پہلوؤں کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ امام اور امامت کے مقام کی دینی معرفت میں اضافہ ہو۔ اس کے ذریعے ہم امام حسن علیہ السلام کے اجتماعی اخلاق سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اخلاقی بلندیوں کی طرف گامزن ہوں اور دنیا کی بے اخلاقی سے بچ سکیں۔

فقرا  و غربا کے ساتھ نشست و برخاست

اہل بیت علیہم السلام کی سیرت میں فقرا  و غربا اور معاشرے کے کمزور طبقات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ یہ عظیم ہستیاں ہمیشہ سماج کے نچلے طبقے کے افراد کے ساتھ بہترین تعلقات قائم رکھتی تھیں۔

ایک روایت کے مطابق، امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ایک دن فقرا  و غربا کے قریب سے گزر رہے تھے، جنہوں نے امام کو اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ امام نے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کا آغاز کیا۔ مختلف منابع اس واقعے کی تفصیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

أَنَّهُ مَرَّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عليهما السلام عَلَى فُقَرَاءَ وَ قَدْ وَضَعُوا كُسَيْرَاتٍ عَلَى الْأَرْضِ وَ هُمْ قُعُودٌ يَلْتَقِطُونَهَا وَ يَأْكُلُونَهَا فَقَالُوا لَهُ هَلُمَّ يَا ابْنَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى الْغَدَاءِ قَالَ فَنَزَلَ وَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ وَ جَعَلَ يَأْكُلُ مَعَهُمْ حَتَّى اكْتَفَوْا وَ الزَّادُ عَلَى حَالِهِ بِبَرَكَتِهِ ثُمَّ دَعَاهُمْ إِلَى ضِيَافَتِهِ وَ أَطْعَمَهُمْ وَ كَسَاهُمْ.

ابن شهرآشوب، محمد بن علي السروي المازندراني (المتوفى588هـ)، مناقب آل أبي طالب، ج4، ص23، تحقيق: لجنة من أساتذة النجف الأشرف، ناشر: المكتبة والمطبعة الحيدرية، 1376هـ ـ 1956م.

راوی بیان کرتا ہے: حسن بن علی علیہما السلام ایک روز غربا کے قریب سے گزرے جو زمین پر روٹی کے ٹکڑے رکھ کر کھا رہے تھے۔ انہوں نے امام سے کہا: "اے دختر رسول خدا کے فرزند، آئیے اور ہمارے ساتھ دوپہر کا کھانا تناول فرمائیں۔"

راوی کہتا ہے: امام حسن علیہ السلام ان کے پاس گئے، بیٹھے، اور فرمایا: "اللہ تعالیٰ متکبر اور مغرور لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔" اس کے بعد امام نے ان کے ساتھ کھانا کھانا شروع کیا اور ان کے ساتھ شریک رہے یہاں تک کہ وہ کھانے سے فارغ ہوگئے۔ امام کی برکت سے کھانے کی مقدار میں کمی واقع نہ ہوئی اور وہ اپنی حالت پر باقی رہا۔ بعد ازاں، امام حسن علیہ السلام نے ان غربا کو اپنے گھر دعوت دی، ان کے لیے کھانے اور لباس کا انتظام کیا اور ان کی مہمان نوازی کی۔

اس رپورٹ میں ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے اپنی حیثیت کو نظرانداز کرتے ہوئے اور یہ ظاہر کیے بغیر کہ وہ کون ہیں، مکمل تواضع کے ساتھ فقراکے پاس بیٹھے اور ان کے کھانے سے تناول فرمایا۔

بچوں کے ساتھ تواضع

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی سماجی اور اخلاقی خصوصیات میں سے ایک ان کی بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور خوش اخلاقی تھی۔

اہل سنت کے ایک عالم، یافعی، اپنے اساتذہ اور بزرگوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:

ومن جوده أيضاً وشدة تواضعه: ما ذكره جماعة من العلماء في تصانيفهم أنه مر بصبيان معهم كسر خبز فاستضافوه ، فنزل من فرسه فأكل معهم ، ثم حملهم إلى منزله وأطعمهم وكساهم ، وقال اليد لهم لأنهم لم يجدوا غير ما أطعموني وأنا نجد أكثر منه.

اليافعي، عبد الله بن أسعد بن علي بن سليمان (متوفاى768هـ)، مرآة الجنان وعبرة اليقظان، ج1، ص123، ناشر: دار الكتاب الإسلامي - القاهرة - 1413هـ - 1993م.

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی سخاوت اور تواضع کے متعلق جو جماعتِ علماء نے اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک دن وہ بچوں کے قریب سے گزرے جن کے پاس روٹی کے چند ٹکڑے تھے۔ ان بچوں نے امام کو  دعوت دی۔ امام اپنے گھوڑے سے اترے، ان کے ساتھ بیٹھے اور ان کے ساتھ ان ٹکڑوں کو تناول فرمایا۔ بعد ازاں، امام نے ان بچوں کو اپنے گھر بلایا، انہیں لباس اور کھانے سے نوازا اور فرمایا: "انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق جو کچھ تھا، دیا، اور ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق انہیں زیادہ دیا۔"

اس واقعے میں امام حسن علیہ السلام، اپنی عظیم شخصیت اور بلند مقام کے باوجود، بچوں کے ساتھ ہم سفرہ ہوئے اور ان کے ساتھ نرمی اور شفقت کا برتاؤ فرمایا۔

غلام کو آزاد کرنا

امام حسن علیہ السلام، جو اسلامی معاشرے میں بہترین نمونہ تھے، ان کا طرزِ عمل منفرد اور مثالی تھا۔ ایک دن امام کے غلام نے جان بوجھ کر ان کے بکری کے پاؤں توڑ دیے تاکہ انہیں غصہ دلائے۔ لیکن امام نے اس کے برعکس، غصے کا اظہار کرنے کے بجائے اسے آزاد کر دیا۔ جیسا کہ خوارزمی، جو اہل سنت کے علماء میں سے ہیں، نقل کرتے ہیں:

کان للحسن بن علي علهيما السلام شاة تعجبه، فوجدها يوما مکسورة الرجل، فقال للغلام: من کسر رجلها؟ قال انا. قال: لم؟ قال: لاغمنک قال الحسن: لافرحنک، انت حر لوجه الله تبارک وتعالي.

الخوارزمي، ابي المؤيد الموفق بن احمد المکي، مقتل الحسين عليه السلام، ج1، ص185. المحقق: محمد السماوي، تصحيح: دار انوار الهدي، دار النشر: منشورات دار الهدي، الطبعة الاولي، قم - ايران، 1418ق.

امام حسن علیہ السلام کا غلام کے ساتھ رویہ

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے پاس ایک بکری تھی جس سے انہیں خوشی حاصل ہوتی تھی۔ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ اس بکری کا پاؤں ٹوٹا ہوا ہے۔ امام نے اپنے غلام سے پوچھا: "یہ کس نے کیا؟" غلام نے جواب دیا: "میں نے۔" امام نے سوال کیا: "کیوں؟" غلام نے کہا: "میں چاہتا تھا کہ آپ غمگین ہو جائیں۔" امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: "لیکن میں تمہیں خوش کرتا ہوں۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے آزاد کرتا ہوں۔"

یہ کریمانہ رویہ، جو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اس شخص کے ساتھ اختیار کیا جس نے انہیں غصہ دلانے کی کوشش کی تھی، اپنی نوعیت میں بے مثال اور بے حد اہمیت کا حامل ہے۔

اجازت لے کر اٹھنا

مسلمانوں کے معاشرتی آداب میں ایک دوسرے کی حرمت کا لحاظ رکھنا اہم ہے۔ نشست و برخاست اور ہم کلامی کے مخصوص آداب ہیں جن کی پاسداری ضروری ہے۔ ایک دن امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کسی مقام پر بیٹھے ہوئے تھے اور وہاں سے اٹھنے کا ارادہ رکھتے تھے کہ ایک شخص آیا۔ امام نے اس شخص کی حرمت کا خیال رکھتے ہوئے اجازت لے کر وہاں سے اٹھنے کی اجازت طلب کی۔ جیسا کہ ابو ابی شیبہ نے اس بارے میں نقل کیا ہے۔

أن رجلا جلس إلى الحسن فقال له جلست إلينا على حين قيام منا افتأذن.

إبن أبي شيبة الكوفي، ابوبكر عبد الله بن محمد (متوفاى235 هـ)، الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار، ج5، ص241، تحقيق: كمال يوسف الحوت، ناشر: مكتبة الرشد - الرياض، الطبعة: الأولى، 1409هـ .

ایک شخص امام حسن علیہ السلام کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ امام نے اس سے فرمایا: "آپ اس وقت بیٹھے جب ہم اٹھنے کا ارادہ کر رہے تھے، کیا آپ اجازت دیتے ہیں؟"

امام حسن علیہ السلام کا یہ طرزِ عمل زندگی کا ایک درس ہے۔ یہاں تک کہ نشست و برخاست کے دوران بھی انہوں نے اس شخص کی عزت اور حرمت کا پورا خیال رکھا۔

شامی شخص کے ساتھ برتاؤ

شامی شخص کے ساتھ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا رویہ ان کی مشہور خصوصیات میں شامل ہے، جیسا کہ مختلف تاریخی اور حدیثی کتب میں ذکر ہوا ہے:

أَنَّ شَامِيّاً رَآهُ رَاكِباً فَجَعَلَ يَلْعَنُهُ وَ الْحَسَنُ لَا يُرَدُّ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ الْحَسَنُ عَلَيْهِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَ ضَحِكَ وَ قَالَ أَيُّهَا الشَّيْخُ أَظُنُّكَ غَرِيباً وَ لَعَلَّكَ شُبِّهْتَ فَلَوِ اسْتَعْتَبْتَنَا أَعْتَبْنَاكَ وَ لَوْ سَأَلْتَنَا أَعْطَيْنَاكَ وَ لَوْ اسْتَرْشَدْتَنَا أَرْشَدْنَاكَ وَ لَوْ اسْتَحْمَلْتَنَا حَمَّلْنَاكَ وَ إِنْ كُنْتَ جَائِعاً أَشْبَعْنَاكَ وَ إِنْ كُنْتَ عُرْيَاناً كَسَوْنَاكَ وَ إِنْ كُنْتَ مُحْتَاجاً أَغْنَيْنَاكَ وَ إِنْ كُنْتَ طَرِيداً آوَيْنَاكَ وَ إِنْ كَانَ لَكَ حَاجَةٌ قَضَيْنَاهَا لَكَ فَلَوْ حَرَّكْتَ رَحْلَكَ إِلَيْنَا وَ كُنْتَ ضَيْفَنَا إِلَى وَقْتِ ارْتِحَالِكَ كَانَ أَعْوَدَ عَلَيْكَ لِأَنَّ لَنَا مَوْضِعاً رَحْباً وَ جَاهاً عَرِيضاً وَ مَالًا كَبِيراً فَلَمَّا سَمِعَ الرَّجُلُ كَلَامَهُ بَكَى ثُمَّ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ خَلِيفَةُ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالاتِهِ 6: 124 وَ كُنْتَ أَنْتَ وَ أَبُوكَ أَبْغَضَ خَلْقِ اللَّهِ إِلَيَّ وَ الْآنَ أَنْتَ أَحَبُّ خَلْقِ اللَّهِ إِلَيَّ وَ حَوَّلَ رَحْلَهُ إِلَيْهِ وَ كَانَ ضَيْفَهُ إِلَى أَنِ ارْتَحَلَ وَ صَارَ مُعْتَقِداً لِمَحَبَّتِهِمْ.

ابن شهر آشوب، رشيد الدين أبي عبد الله محمد بن علي السروي المازندراني (متوفاى588هـ)، مناقب آل أبي طالب، ج3، ص184، تحقيق: لجنة من أساتذة النجف الأشرف، ناشر: المكتبة والمطبعة الحيدرية، 1376هـ ـ 1956م.

ایک شامی شخص نے دیکھا کہ امام حسن علیہ السلام سواری پر ہیں، تو اس نے انہیں برا بھلا کہنا اور لعنت بھیجنا شروع کر دیا۔ امام حسن علیہ السلام نے اس کے کسی بات کا جواب نہ دیا۔ جب وہ اپنی بات مکمل کر چکا تو امام حسن علیہ السلام اس کے قریب آئے، اسے سلام کیا، مسکرائے اور فرمایا:

"اے بزرگ، میرا خیال ہے کہ تم پردیسی ہو اور شاید تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر تم ہماری رضا چاہتے ہو، ہم تم سے راضی ہیں۔ اگر کچھ مانگنا چاہتے ہو، ہم تمہیں عطا کریں گے۔ اگر رہنمائی چاہتے ہو، ہم تمہاری رہنمائی کریں گے۔ اگر کوئی حاجت ہو، ہم پوری کریں گے۔ اگر بھوکے ہو، ہم تمہیں کھانا دیں گے۔ اگر بے لباس ہو، ہم تمہیں لباس دیں گے۔ اگر ضرورت مند ہو، ہم تمہیں بے نیاز کریں گے۔ اگر بے سہارا ہو، ہم تمہیں پناہ دیں گے۔ اگر کوئی ضرورت ہو، ہم اسے پورا کریں گے۔ اور اگر اپنا سامان لے کر آؤ اور ہمارے مہمان بنو، جب تک تم چاہو، ہمارے ہاں رہ سکتے ہو۔ کیونکہ ہمارے پاس مہمانوں کے لیے جگہ بھی ہے، وسائل بھی ہیں اور مال و دولت بھی۔"

جب اس شامی شخص نے امام حسن علیہ السلام کے یہ کلمات سنے، تو وہ رونے لگا اور کہنے لگا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ تم زمین پر اللہ کے خلیفہ ہو۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ رسالت کے مقام کو کہاں رکھنا ہے۔ تم اور تمہارے والد میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھے، لیکن اب تم میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہو۔"

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی انسانی عظمت اس شامی شخص کے ساتھ برتاؤ میں بخوبی نمایاں ہوتی ہے۔ یہ عمل قرآن کریم کی اس آیت کی بہترین مثال ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ.

سوره فصلت، آيه34.

اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہیں آپ(ص) (بدی کا) احسن طریقہ سے دفعیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ میں اور جس میں دشمنی تھی وہ گویا آپ کا جگری دوست بن گیا۔

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی سیرت، طرزِ عمل، اور سماجی رویہ تمام آزاد انسانوں کے لیے ایک رہنما ہے، چاہے ان کا کوئی بھی عقیدہ یا نظریہ ہو۔ اس مظلوم امام کی پیروی آج کے انسانوں کے بہت سے مسائل کا حل پیش کر سکتی ہے۔

 

موفق رہیں،

حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) تحقیقاتی ادارہ





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی