2025 January 15
طبری کی روایت اور عمر کی فاطمہ کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی کا جائزہ
مندرجات: ٢٣٧٣ تاریخ اشاعت: ٢٦ December ٢٠٢٤ - ١٢:٠٤ مشاہدات: 106
مضامین و مقالات » پبلک
جدید
طبری کی روایت اور عمر کی فاطمہ کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی کا جائزہ

حضرت زہرا کے گھر کو نذرآتش کرنے اور بیعت پر مجبور کرنے کی دھمکی کے سلسلے میں سنداور رجال روایت کا جائزہ

اشکال:

عصر حاضر کے وہابی مصنف عبدالرحمٰن دمشقی نے اپنے مضمون بعنوان " قصة حرق عمر رضي الله عنه لبيت فاطمة رضي الله عنها" میں لکھا ہے جو "فیصل نور" ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے، وہ محمد بن جریر طبری کی روایت اور عمر کی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کو آگ لگانے کی دھمکی کے بارے میں لکھتے ہیں:

2 - «حدثنا ابن حميد قال حدثنا جرير عن مغيرة عن زياد بن كليب قال أتي عمر منزل علي وفيه طلحة والزبير ورجال من المهاجرين فقال والله لأحرقن عليكم أو لتخرجن إلي البيعة فخرج عليه الزبير مصلتا بالسيف فعثر فسقط السيف من يده فوثبوا عليه فأخذوه» (تاريخ الطبري2/233).

في الرواية آفات وعلل منها:

جرير بن حازم وهو صدوق يهم وقد اختلط كما صرح به أبو داود والبخاري في التاريخ الكبير (2/2234).

المغيرة وهو ابن المقسم. ثقة إلا أنه كان يرسل في أحاديثه لا سيما عن إبراهيم. ذكره الحافظ ابن حجر في المرتبة الثالثة من المدلسين وهي المرتبة التي لا يقبل فيها حديث الراوي إلا إذا صرح بالسماع.

عمر ، علی کے گھر کی طرف آیا جہاں طلحہ، زبیر اور مہاجرین کا ایک گروہ موجود تھا، اور کہا: خدا کی قسم! ابوبکر کے پاس بیعت کرنے آؤ ورنہ گھر میں آگ لگا دوں گا۔ زبیر ہاتھ میں تلوار لیے باہر نکلا؛ لیکن اچانک وہ زمین پر گرا اور اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی، عمر نے اس پر حملہ کر کے اسے گرفتار کر لیا۔

اس روایت میں مشکلات پائی جاتی ہے جن میں سے ایک جریر بن حازم کا وجود ہے۔ اگرچہ وہ  سچ بولتا ہے؛ لیکن بعض اوقات وہ غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور صحیح اور غلط کو ملا دیتا ہے جیسا کہ ابو داؤد نے کہا ہے۔

دوسری مشکل مغیرہ بن مقسم ہے جو کہ ثقه ہے؛ لیکن اس کی احادیث مرسل ہے۔ ابن حجر نے انہیں ان راویوں میں تیسرے نمبر پر رکھا ہے جن کی روایتیں قابل قبول نہیں ہیں؛ مگر یہ کہ وہ اس روایت کو کس سے سننا ہے اس کو   بیان کیا ہو۔

دیگر مسائل بھی اٹھائے گئے ہیں؛دوسری باتوں کے علاوہ انہوں نے کہا ہے: طبری کی روایت کی سند کی ابتدا اور آخر میں دو اشكال ہیں؛ کیونکہ اس کے پہلے راوی یعنی ابن حمید پر جھوٹ بولنے کا الزام ہے اور آخری راوی خود اس واقعہ کا گواہ نہیں تھا اور ایک ثالث کے ذریعے روایت کرتا ہے؛ اس لیےروايت فرضی بھی ہے اور منقطع بھی۔

تنقید اورجائزہ:

اصل روايت:

حدثنا ابن حُمَيْدٍ قال حدثنا جرير عن مغيرة عن زِيَادِ بن كُلَيْبٍ قال أتي عمر بن الخطاب منزل علي وفيه طلحة والزبير ورجال من المهاجرين فقال والله لأحرقن عليكم أو لتخرجن إلي البيعة فخرج عليه الزبير مصلتا بالسيف فعثر فسقط السيف من يده فوثبوا عليه فأخذوه.

عمر بن خطاب علی علیہ السلام کے گھر آیا جبکہ مہاجرین کا ایک گروہ وہاں موجود تھا۔ اُس نے اُن سے کہا: خدا کی قسم میں گھر کو آگ لگا دوں گا؛جب تک کہ تم بیعت کے لیے باہر نہ آؤ۔ زبیر تلوار کھینچے گھر سے باہر نکلا، اچانک اس کا پاؤں پھسل گیا اور تلوار ہاتھ سے گر گئی، اس وقت دوسرے لوگ دوڑ پڑے اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھین لی۔

الطبري، أبي جعفر محمد بن جرير (متوفاي310هـ)، تاريخ الطبري، ج 2، ص 233، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

روايت کے سند کی جانچ:

محمد بن حميد:

محمد بن حميد. ابن حيان العلامة الحافظ الكبير أبو عبد الله الرازي مولده في حدود الستين ومئة

 

قال أبو زرعة من فاته محمد بن حميد يحتاج ان ينزل في عشرة آلاف حديث.

 

وقال عبد الله بن أحمد سمعت أبي يقول لا يزال بالري علم ما دام محمد بن حميد حيا.

 

وقال أبو قريش الحافظ قلت لمحمد بن يحيي ما تقول في محمد بن حميد فقال ألا تراني أحدث عنه.

 

وقال أبو قريش وكنت في مجلس محمد بن إسحاق الصاغاني فقال حدثنا ابن حميد فقلت تحدث عنه فقال ومالي لا احدث عنه وقد حدث عنه أحمد ويحيي بن معين.

علاّمه اور عظیم حافظ محمد بن حميد، جو تقریباً 160 ہجری میں پیدا ہوئے،ابو زرعہ نے ان کے بارے میں کہا: جس نے محمد بن حمید کو  درك نہیں کیا اس نے دس ہزار حدیثیں ضائع کیں۔

عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں: میں نے اپنے والد کو کہتے سنا: جب تک محمد بن حمید رے شہر میں زندہ تھے، علم مستحکم تھا۔

ابو قریش محمد بن جمعہ بن خلف کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن یحییٰ سے کہا: تم محمد بن حمید کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا: کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں اس سے روایت کر رہا ہوں؟ پھر فرمایا: میں محمد بن اسحاق کی مجلس میں تھا، میں نے انہیں محمد بن حمید سے روایت کرتے دیکھا۔ میں نے کہا: کیا تم محمد بن حمید سے روایت کرتے ہو؟اس نے کہا: میں ان سے حدیث کیوں نہ بیان کروں، جب کہ احمد حنبل اور یحییٰ بن معین نے ان سے حدیث روایت کی ہے۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 11، ص 503، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

مزي تہذیب الکمال کے اپنے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

وَقَال أبو بكر بن أَبي خيثمة: سئل يحيي بن مَعِين عن محمد بن حميد الرازي فقال: ثقة. ليس به بأس، رازي كيس.

 

وَقَال علي بن الحسين بن الجنيد الرازي: سمعت يحيي ابن مَعِين يقول: ابن حميد ثقة، وهذه الاحاديث التي يحدث بها ليس هو من قبله، إنما هو من قبل الشيوخ الذين يحدث عنهم.

 

وَقَال أبو العباس بن سَعِيد: سمعت جعفر بن أَبي عثمان الطيالسي يقول: ابن حميد ثقة، كتب عنه يحيي وروي عنه من يقول فيه هو أكبر منهم.

۔۔۔یحییٰ بن معین سے ان کے بارے میں پوچھا گیا؛ اس کے جواب میں فرمایا: وہ امانت دار ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، وہ ایک ذہین اور باهوش شخص ہے۔ علی بن الحسین رازی کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن معین سے سنا، انہوں نے کہا: ابن حمید ثقہ ہے۔

اور علی بن حسين بن جنید رازی کہتے ہیں: ابن حمید نے جو احادیث روایت کی ہیں وہ ان سے نہیں ہیں؛ بلکہ استادوں سے نقل کیا ہے۔

ابو العباس بن سعید کہتے ہیں: میں نے جعفر بن عثمان طیالسی سے سنا انہوں نے کہا: ابن حمید معتبر ہے؛ ان سے یحییٰ نے روایت کی ہے اور کسی نے ان سے روایت کی ہے کہ وہ  معروف  اور ان سب (راویوں) سے بزرگ ہیں (احمد بن حنبل)۔

المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 25، ص 100، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

البانی نے محمد بن حمید کی روایت کی تصحیح کی ہے:

معاصر وہابی مصنف محمد ناصر البانی نے اپنی صحیح وضعيف کتاب "سنن الترمذی اور سلسله احاديث الصحيحه احاديثي" کی تصحیح کی ہے جس کی سند میں محمد بن حمید بھی شامل ہیں۔ ہم چند مورد کا ذکر کرتے ہیں:

«رضيت لأمتي ما رضي لها ابنُ أمِّ عبدٍ »...

و قد روي الحديث بزيادة فيه بلفظ: " و كرهت لأمتي ما كره لها ابن أم عبد ". قال في " المجمع " ( 9 / 290): " رواه البزار و الطبراني في " الأوسط " باختصار الكراهة، و رواه في " الكبير " منقطع الإسناد، و في إسناد البزار محمد بن حميد الرازي و هو ثقة و فيه خلاف و بقية رجاله وثقوا ".

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، سلسلة احاديث الصحيحة، ج3، ص225، ح 1225، ناشر: مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، طبعة جديدة منقحة ومزيدة، 1415 هـ _ 1995 م.

) سنن الترمذي (

606 حدثنا محمد بن حميد الرازي حدثنا الحكم بن بشير بن سلمان حدثنا خلاد الصفار عن الحكم بن عبد الله النصري عن أبي إسحق عن أبي جحيفة عن علي ابن أبي طالب رضي الله عنه أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال ستر ما بين أعين الجن وعورات بني آدم إذا دخل أحدهم الخلاء أن يقول بسم الله قال أبو عيسي هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه وإسناده ليس بذاك القوي وقد روي عن أنس عن النبي صلي الله عليه وسلم أشياء في هذا.

 

تحقيق الألباني:

 

صحيح، ابن ماجة ( 297 )

 

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، صحيح وضعيف سنن الترمذي، ج2، ص106، طبق برنامه المكتبة الشاملة، اصدار الثاني.

) سنن الترمذي (

1762 حدثنا محمد بن حميد الرازي حدثنا أبو تميلة والفضل بن موسي وزيد بن حباب عن عبد المؤمن بن خالد عن عبد الله بن بريدة عن أم سلمة قالت كان أحب الثياب إلي النبي صلي الله عليه وسلم القميص قال أبو عيسي هذا حديث حسن غريب إنما نعرفه من حديث عبد المؤمن بن خالد تفرد به وهو مروزي وروي بعضهم هذا الحديث عن أبي تميلة عن عبد المؤمن بن خالد عن عبد الله بن بريدة عن أمه عن أم سلمة.

تحقيق الألباني:

 

صحيح، ابن ماجة ( 3575 )

 

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، صحيح و ضعيف سنن الترمذي، ج2، ص262.

) سنن الترمذي (

 

2478 حدثنا محمد بن حميد الرازي حدثنا عبد العزيز بن عبد الله القرشي حدثنا يحيي البكاء عن ابن عمر قال تجشأ رجل عند النبي صلي الله عليه وسلم فقال كف عنا جشاءك فإن أكثرهم شبعا في الدنيا أطولهم جوعا يوم القيامة قال أبو عيسي هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه وفي الباب عن أبي جحيفة.

 

تحقيق الألباني:

 

حسن، ابن ماجة ( 3350 - 3351 ).

 

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، صحيح وضعيف سنن الترمذي، ج5، ص478.

 

) سنن الترمذي (

 

2936 حدثنا محمد بن حميد الرازي حدثنا نعيم بن ميسرة النحوي عن فضيل بن مرزوق عن عطية العوفي عن ابن عمر أنه قرأ علي النبي صلي الله عليه وسلم ( خلقكم من ضعف ) فقال ( من ضعف ) حدثنا عبد بن حميد حدثنا يزيد بن هارون عن فضيل بن مرزوق عن عطية عن ابن عمر عن النبي صلي الله عليه وسلم نحوه قال أبو عيسي هذا حديث حسن غريب لا نعرفه إلا من حديث فضيل بن مرزوق.

 

تحقيق الألباني:

 

حسن، الروض النضير ( 530 ).

 

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، صحيح وضعيف سنن الترمذي، ج6، ص406.

 

) سنن الترمذي (

3533 حدثنا محمد بن حميد الرازي حدثنا الفضل بن موسي عن الأعمش عن أنس أن رسول الله صلي الله عليه وسلم مر بشجرة يابسة الورق فضربها بعصاه فتناثر الورق فقال إن الحمد لله وسبحان الله ولا إله إلا الله والله أكبر لتساقط من ذنوب العبد كما تساقط ورق هذه الشجرة قال أبو عيسي هذا حديث غريب ولا نعرف للأعمش سماعا من أنس إلا أنه قد رآه ونظر إليه.

 

تحقيق الألباني:

 

حسن، التعليق الرغيب ( 2 / 249 )

 

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، صحيح وضعيف سنن الترمذي، ج8، ص33.

وہابی علماء میں البانی کے مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد بن حميد کی معتبر  ہونے کو ثابت کرنے کے لیے ان کی تصدیق اور تصحیح ہی کافی ہے۔

نسائي اور جوزجاني کاضعیف ہونا ناقابل اعتبار   :

جرح و تعديل کے بعض علماء؛ نسائی اور جوزجانی کی طرح انہوں نے محمد بن حميد کوضعيف قرار دیا ہے۔

وقال النسائي: ليس بثقة. وقال إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني: ردئ المذهب غير ثقة.

نسائی نے کہا ہے کہ محمد بن حميد ثقہ نہیں ہے اور ابراہیم بن یعقوب جوزجانی نے ان کا تعارف غیر معتبر اور پست مذہب کے طور پر کیا ہے۔

المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 25، ص 105، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

نسائی نے ابو حنیفہ کو بھی ضعیف قرار دیا ہے۔

کیا ان دو لوگوں کو ضعيف قرار دینے میں کوئی ارزش ہے؟

نسائي و جوزجاني کا ضعيف ہونا معتبر نہیں اور ناقابل قبول ہے؛ کیونکہ  نسائي توثيق کرنے میں سختگير ہے؛ اس حد تک کہ اس نے احناف یعنی ابو حنیفہ  کو ضعيف قرار دیا ہے؛ لكنوي الرافع اور التكميل میں لکھتے ہیں:

ولم يقبل جرح النسائي في أبي حنيفة وهو ممن له تعنت وتشدد في جرح الرجال المذكور في ميزان الاعتدال ضعفه النسائي من قبل حفظه.

نسائی نے ابو حنیفہ پر الزام لگانے کے بارے میں جو کہا ہے وہ قابل قبول نہیں ہے؛ کیونکہ "ميزان الإعتدال" میں اس نے لوگوں پر الزام تراشی میں سختی سے کام لیا ہے۔

اللكنوي الهندي، أبو الحسنات محمد عبد الحي (متوفاي1304هـ)، الرفع والتكميل في الجرح والتعديل، ج 1، ص 121، تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة: الثالثة، 1407هـ

لہذا نسائي کوضعيف قرار دینااس کے سختگيري کے معیار کے مطابق توثيق میں اس بات کو  مسترد کر دیا جائے گا۔

جہاں تک جوزجانی کا تعلق ہے تو وہ وہ ہے جو امیر المومنین علی علیہ السلام سے دشمنی کے لیے مشہور و معروف ہے۔

ذہبی اور ابن حجر اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

وكان من الحفاظ المصنفين والمخرجين الثقات، لكن فيه انحراف عن علي.

وہ حافظیں اور مصنفین میں سے ہیں اور اس کے علاوہ اس نے معتبر راویوں کو بھی مقرر کیا ہے؛ لیکن اس نے امیر المومنین (علیہ السلام) سے انحراف کیا (وہ ان کے دشمنوں میں شمار ہوتا تھا)۔

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، ج 7، ص 272، تحقيق: الشيخ علي محمد معوض والشيخ عادل أحمد عبدالموجود، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت، الطبعة: الأولي، 1995م

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) لسان الميزان، ج 6، ص 301، تحقيق: دائرة المعرف النظامية - الهند، ناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت، الطبعة: الثالثة، 1406هـ - 1986م.

اگر ہم فرض کر لیں کہ  نسائي اور جوزجانی کا ضعيف ہونا قابل قدر ہیں تو بھی یہ محمد بن حميد کی روایت کو ترک کرنے کا سبب نہیں بنے گی؛کیونکہ سب سے پہلے: یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل اور طیالسی جیسے لوگوں نے اسے ثقہ قرار دیا ہے جو جرح و تعديل کے اماموں میں شمار ہوتے ہیں، اور نسائي کا ضعيف  ہونا جو سختگير مانے جاتے ہیں یا جوزجانی جو امیر المومنین علیہ السلام کے دشمنوں میں سے ایک تھا، یحییٰ بن معین کی توثیق کا مقابلہ نہیں کر سکتا؛

دوم: ان تمام صورتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور بعض نے اس کی توثيق کی ہے، پھر بھی اس کی روایت قابل قبول ہے؛ کیونکہ اہلسنت حضرات کے رجال کے مطابق ایسے شخص کی روایت کو "حسن" کے درجے میں رکھا جاتا ہے اور روایت "حسن"  علماء اہلسنت کے نزدیک حجت ہے۔اس سلسلے میں ہم کچھ مثالوں کا حوالہ دے سکتے ہیں۔

ابن حجر عسقلانی قزعة  بن سوید کے بارے میں لکھتے ہیں:

جہاں تک قزعة  بن سوید کا تعلق ہے۔۔۔ واختلف فيه كلام يحيي بن معين فقال عباس الدوري عنه ضعيف وقال عثمان الدارمي عنه ثقة وقال أبو حاتم محله الصدق وليس بالمتين يكتب حديثه ولا يحتج به وقال ابن عدي له أحاديث مستقيمة وأرجو أنه لا بأس به وقال البزار لم يكن بالقوي وقد حدث عنه أهل العلم وقال العجلي لا بأس به وفيه ضعيف.

فالحاصل من كلام هؤلاء الأئمة فيه أن حديثه في مرتبة الحسن والله أعلم.

اس کے بارے میں علماء کی مختلف آراء ہیں، بعض نے اس کو ضعيف  قرار دیا ہے اور بعض نے اسے سچا یا ثقہ قرار دیا ہے لیکن انہوں نے کہا ہے کہ اس کی حدیث لکھی جائے گی؛لیکن اس پر احتجاج یا استدلال نہیں کیا جا سکتا، بعض لوگوں نے اس کی حدیث کو قبول کیا ہے، حالانکہ وہ مضبوط نہیں ہے۔

لیکن ابن حجر خود آخر میں اس نتیجے پر پہنچے:

رجالی  پیشواؤں کے الفاظ اور احادیث سے یہ نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ قزعة بن سوید کی روایتیں اور احادیث حسن کے درجے میں ہیں۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ)، القول المسدد في الذب عن المسند للإمام أحمد، ج 1، ص 30، تحقيق: مكتبة ابن تيمية، ناشر: مكتبة ابن تيمية - القاهرة، الطبعة: الأولي، 1401هـ.

اور تہذیب التہذیب میں عبداللہ بن صالح کے ترجمہ میں لکھتےہیں:

وقال ابن القطان هو صدوق ولم يثبت عليه ما يسقط له حديثه إلا أنه مختلف فيه فحديثه حسن.

ابن قطان عبداللہ بن صالح کو سچا مانتے ہیں اور کہتے ہیں: کوئی ایسی چیز جس کی وجہ سے ان کی حدیث رد ہو جائے ثابت نہیں ہے اور ان کے بارے میں اختلاف ہے؛ لیکن اس کی حدیث حسن ہے۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تهذيب التهذيب، ج 5، ص 228، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولي، 1404هـ - 1984م

زرکشی "اللآلئ المنثوره" میں لکھتے ہیں:

وقد أخرجه ابن ماجة في سننه عن كثير بن شنظير عن محمد سيرين... وكثير بن شنظير مختلف فيه فالحديث حسن.

ابن ماجہ نے اپنی سنن میں عبداللہ بن صالح کی حدیث کثیر بن شنطیر کے ذریعے محمد بن سیرین سے نقل کی ہے؛ اگرچہ کثیر بن شنطیر کے بارے میں اختلاف ہے۔ لیکن ساتھ ہی ان کی حدیثیں صحیح ہے۔

الزركشي، بدر الدين (متوفاي794 هـ) اللآلئ المنثورة في الأحاديث المشهورة المعروف بـ ( التذكرة في الأحاديث المشتهرة )، ج 1، ص 42، تحقيق: مصطفي عبد القادر عطا، ناشر: دار الكتب العلمية ـ بيروت، الطبعة: الأولي، 1406 هـ، 1986م

حافظ ہیتمی مجمع الزوائد میں لکھتے ہیں:

رواه أحمد وفيه عبدالله بن محمد بن عقيل وهو سيء الحفظ قال الترمذي صدوق وقد تكلم فيه بعض أهل العلم من قبل حفظه وسمعت محمد بن إسماعيل يعني البخاري يقول كان أحمد بن حنبل وإسحق بن إبراهيم والحميدي يحتجون بحديث ابن عقيل قلت فالحديث حسن والله أعلم.

عبداللہ بن محمد بن عقیل کا حافظہ اچھا نہیں تھا، ترمذی نے انہیں سچا سمجھا اور بعض علماء نے ان کے حافظے کی طاقت کے بارے میں کہا ہے، بخاری نے کہا: احمد حنبل، اسحاق بن ابراہیم اور حمیدی نے اس کی حدیث پر استدلال کیا، پھر اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ابن عقیل کی حدیث حسن ہے۔

الهيثمي، علي بن أبي بكر (متوفاي807 هـ)، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج 1، ص 260، ناشر: دار الريان للتراث / دار الكتاب العربي - القاهرة، بيروت - 1407هـ.

حافظ ابن قطان نے اپنے 'الوهم والإيهام ' کے بارے میں اس قاعدہ کو متعدد صورتوں میں ذکر کیا ہے جن میں سے ہم دو صورتوں کا ذکر کرتے ہیں:

وهو إنما يرويه ابن وهب، عن أسامة بن زيد الليثي، عن نافع عنه. وأسامة مختلف فيه، فالحديث حسن. وقد تقدم ذكر أسامة في هذا الباب.

اسامہ بن زید کی روایت میں اختلاف ہے؛ لیکن اس کی حدیث حسن ہے اور اس نے اسامہ بن زید لیثی کے بارے میں بھی اسی طرح بات کی اور آخر میں اس کی حدیث کو حسن قرار دیا۔

ابن القطان الفاسي، أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الملك (متوفاي628هـ)، بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام، ج 4، ص 420، تحقيق: د. الحسين آيت سعيد، ناشر: دار طيبة ـ الرياض، الطبعة: الأولي، 1418هـ،1997م.

وهو حديث يرويه سلام أبو المنذر، عن ثابت، عن أنس. وهو سلام بن سليمان القارئ، صاحب عاصم، وهو مختلف فيه، فالحديث حسن.

سلام بن سلمان قاری کے بارے میں اختلاف ہے۔ لیکن اس کی حدیث "حسن" ہے۔

ابن القطان الفاسي، أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الملك (متوفاي628هـ)، بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام، ج 4، ص 462 ـ 463، تحقيق: د. الحسين آيت سعيد، ناشر: دار طيبة ـ الرياض، الطبعة: الأولي، 1418هـ،1997م.

اور ملا علی قاری ایک حدیث کو نقل کرنے کے بعد جو ابو المنیب کی سند میں ہے لکھتے ہیں:

ورواه الحاكم وصححه وقال أبو المنيب ثقة ووثقه ابن معين أيضاً وقال ابن أبي حاتم سمعت أبي يقول صالح الحديث وأنكر علي البخاري ادخاله في الضعفاء وتكلم فيه النسائي وابن حبان وقال ابن عدي لا بأس به فالحديث حسن.

حاکم نے اس روایت کو بیان کیا اور اس کی تصحیح کی اور فرمایا: ابو المنیب ثقہ ہیں، اور ابن معین نے بھی اس کی  توثيق کی ہے، اور ابن ابی حاتم کہتے ہیں: میں نے اپنے والد سے سنا کہ انہوں نے کہا: ابو المنیب کی حدیث صحیح ہے اور انہوں نے بخاری پر اعتراض کیا جس نے ان کا نام ضعیف لوگوں کی فہرست میں ذکر کیا، نسائی نے اس پر شک کیا اور ابن حبان اور ابن عدی نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لہزا حدیث حسن ہے۔

القاري، علي بن سلطان محمد (متوفاي1014هـ)، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج 3، ص 305، تحقيق: جمال عيتاني، ناشر: دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولي، 1422هـ - 2001م.

اور مناوی فيض القدير میں لکھتے ہیں:

طب عن عبد الله بن زيد الأنصاري الأوسي ثم الخطمي كوفي شهد الحديبية قال الهيثمي: وفيه أحمد بن بديل وثقه النسائي وضعفه أبو حاتم أي فالحديث حسن

احمد بن بدیل کو نسائی توثيق اور ابو حاتم نے ضعيف قرار دیاہے لیکن ان کی حدیث حسن کے درجے میں ہے۔

المناوي، عبد الرؤوف (متوفاي1031 هـ)، فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج 1، ص 369، ناشر: المكتبة التجارية الكبري - مصر، الطبعة: الأولي، 1356هـ.

اور ایک روايت  بیان کرنے کے بعد محی الدین نوی، شوکانی اور مبارکفوری لکھتے ہیں:

وفي إسْنَادِهِ عبد الرحمن بن حَبِيبِ بن أزدك (أردك) وهو مُخْتَلَفٌ فيه قال النَّسَائِيّ مُنْكَرُ الحديث وَوَثَّقَهُ غَيْرُهُ قال الْحَافِظُ فَهُوَ علي هذا حَسَنٌ

اس کی سند میں عبدالرحمٰن بن حبیب بن ازدک ہے، جن کی حیثیت میں اختلاف ہے؛ لیکن بہرحال ان کی حدیث حسن ہے۔

النووي، أبي زكريا محيي الدين (متوفاي676 هـ) المجموع، ج 17، ص 68، ناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، التكملة الثانية.

الشوكاني، محمد بن علي بن محمد (متوفاي 1255هـ)، نيل الأوطار من أحاديث سيد الأخيار شرح منتقي الأخبار، ج 7، ص 20، ناشر: دار الجيل، بيروت - 1973.

المباركفوري، محمد عبد الرحمن بن عبد الرحيم أبو العلا (متوفاي1353هـ)، تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي، ج 4، ص 304، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.

اور زیلعی نے  نصب الراية  میں ایک حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

حديث آخر أخرجه الترمذي... وقال غريب ورواه أحمد في مسنده قال بن القطان في كتابه وأبو معشر هذا مختلف فيه فمنهم من يضعفه ومنهم من يوثقه فالحديث من أجله حسن انتهي.

اس حدیث کے سلسلہ میں ابو معشري ہے، بعض نے اسے ضعیف اور بعض نے اسے صحیح قرار دیا ہے؛ لہٰذا اس کی سند  میں موجود ہونے کی وجہ سے حدیث کا درجہ حسن ہے۔

الزيلعي الحنفي، عبدالله بن يوسف أبو محمد الحنفي (متوفاي762هـ)، نصب الراية لأحاديث الهداية، ج 4، ص 121، تحقيق: محمد يوسف البنوري، ناشر: دار الحديث - مصر - 1357هـ.

اب جو کچھ کہا گیا ہے اس پر غور کیا جائے تو راوی کی سند اور ضعیف ہونے میں علماء کا اختلاف حدیث کو درجه اعتبار سے اسقاط کا سبب نہیں بنتا بلکہ روایت کو "حسن" کے درجہ میں رکھا جاتا ہےاور روایت حسن  صحیح روایت کی طرح حجت  سے ملتی جلتی ہے اور اہل سنت نے اسے قبول کیا ہے۔

اس اصول پر عمل کرنا قدیم دانشمندوں کے لیے مخصوص نہیں ہے؛بلکہ عصر حاضر کے سنی علماء بھی اس کے جواز کو تسلیم کرتے ہیں اور اس پر کاربند ہیں۔

وہابیوں میں ایک خاص مقام رکھنے والے محمد ناصر البانی نے "سلسلة احاديث الصحيحة" کتاب میں اس قاعدہ کو استعمال کرتے ہوئے پچاس سے زیادہ روایات کی تصحیح کی ہے اور ہم ان کی مختلف کتابوں میں سے 15 کا حوالہ دیتے ہیں۔

1. قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال البخاري غير ابن ثوبان واسمه عبد الرحمن بن ثابت وهومختلف فيه.

اس حدیث کا سند حسن ہے؛ کیونکہ اس حدیث کے  رجال اور بخاری کے  رجال سب کے سب ثقہ ہیں،سوائے ابن ثوبان کے جن کے بارے میں اختلاف ہے۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، سلسلة احاديث الصحيحة، ح115، طبق برنامه مكتبة الشاملة.

2. وصالح بن رستم وهو أبو عامر الخزاز البصري لم يخرج له البخاري في صحيحه إلا تعليقا، وأخرج له في الأدب المفرد أيضا ثم هو مختلف فيه، فقال الذهبي نفسه في الضعفاء: وثقه أبو داود، وقال ابن معين: ضعيف الحديث. وقال أحمد: صالح الحديث.

وهذا هو الذي اعتمده في الميزان فقال: وأبو عامر الخزاز حديثه لعله يبلغ خمسين حديثا، وهو كما قال أحمد: صالح الحديث .

قلت: فهو حسن الحديث إن شاء الله تعالي، فقد قال ابن عدي: وهو عندي لا بأس به، ولم أر له حديثا منكرا جدا. وأما الحافظ فقال في التقريب: صدوق، كثير الخطأ . وهذا ميل منه إلي تضعيفه. والله أعلم.

ابو عامر خزّار بصری بخاری نے ان سے کوئی حدیث روایت نہیں کی؛ سوائے تعليق کی صورت میں، اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ ذہبی نے ضعیف راویوں کے فہرست میں لکھا ہے: ابوداؤد نے خزّارالبصری کو توثيق کیا ہے، اور ابن معین نے کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے، اور احمد بن حنبل نے اسے صالح الحدیث کہا ہے، اوركتاب الميزان میں یہی قول پر اعتماد کیا گیا ہے ۔

البانی پھر کہتے ہیں:

ابو عامر کی حدیث حسن کے رتبہ میں ہے؛ کیونکہ ابن عدی نے کہا: میرے خیال میں ابو عامر کو کوئی مشکل نہیں ہے اور ان سے کوئی منفی حدیث روایت نہیں کی گئی ہے۔ ابن حجر نے کتاب  التقريب میں کہا: ابو عامر سچا ہے؛ لیکن بہت سی غلطیاں ہیں جن سے لگتا ہے کہ وہ اسے ضعيف کرنا چاہتا تھا۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ص216.

3. قلت: وهذا إسناد حسن رجاله ثقات معرفون غير سليمان بن عتبة وهو الدمشقي الداراني مختلف فيه،فقال أحمد: لا أعرفه وقال ابن معين: لا شيء، وقال دحيم: ثقة، ووثقه أيضا أبو مسهر والهيثم ابن خارجة وهشام بن عمار وابن حبان ومع أن الموثقين أكثر، فإنهم دمشقيون مثل المترجم فهم أعرف به من غيرهم من الغرباء، والله أعلم.

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح514.

حدیث کا سند "حسن" ہے؛ کیونکہ  وہ رجالی اعتبار سے معروف اور قابل بھروسہ ہیں؛ سلیمان بن عتبہ دمشقی داراني کے علاوہ ان کے بارے میں اختلاف ہے۔ احمد نے کہا: میں اسے نہیں جانتا۔ ابن معین کہتے ہیں: اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ دحیم نے اسے مورد اعتماد سمجھا اور ابومسهر، ہیثم بن خارجه، ہشام بن عمار اور ابن حبان نے بھی اسے مورد اعتماد قرار دیا ہے؛ لہٰذا ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنا ہوگا کہ وہ گمنام راویوں کے بارے میں دوسروں سے زیادہ باخبر ہیں۔

4. وإسناد أحمد حسن رجاله ثقات رجال مسلم غير محمد بن عبد الله بن عمرو وهو سبط الحسن الملقب بـ ( الديباج ) وهو مختلف فيه.

احمد کا سلسلہ سند  "حسن" ہے؛ کیونکہ وہ رجالی اعتبار سے ثقه ہیں اور صحیح مسلم کے رجال میں سے ہیں؛ سوائے محمد بن عبداللہ بن عمر کے جن کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح546.

5. قلت: وإسناده خير من إسناد حديث عياض رجاله ثقات رجال الشيخين غير سنان بن سعد وقيل: سعد بن سنان وهو مختلف فيه، فمنهم من وثقه ومنهم من ضعفه. قلت: فهو حسن الحديث.

ان کے رجال حدیث کا سلسلہ سند معتبر ہے اور وہ بخاری و مسلم کے رجالی میں سے ہے؛سوائے سنان بن سعد کے، جنہوں نے کہا کہ ان کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض نے اس کی تصدیق کی ہے اور بعض نے اسے ضعیف قرار دیا ہے؛ لیکن اس کی حدیث "حسن" ہے۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح570.

6. وروي منه ابن ماجه ( 3376 ) القضية الوسطي منه من طريق أخري عن سليمان بن عتبة به. قال البوصيري في الزوائد: إسناده حسن، وسليمان بن عتبة مختلف فيه وباقي رجال الإسناد ثقات .

قلت: وهو كما قال.

اس حدیث کی رجال سند کے متعلق علماء کا اعتماد ہیں؛ سوائے سلیمان بن عتبہ کے۔ بوبصیری نے الزوائد میں کہا ہے: اس حدیث کی سند "حسن" ہے اور سلیمان بن عتبہ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، باقی راوی مورد اعتماد  ہیں۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح 675.

7. وإبراهيم بن المهاجر وهو البجلي مختلف فيه، فقال أحمد: لا بأس به وقال يحيي القطان: لم يكن بقوي، وفي التقريب: صدوق لين الحفظ.

قلت: فهو حسن الحديث أن شاء الله تعالي.

ابراہیم بن مہاجر بجلی کے بارے میں اختلاف ہے۔ احمد کہتے ہیں: اس میں کوئی مشکل نہیں ہے اور یحییٰ بن قطان نے کہا: وہ قوی نہیں ہے،کتاب تقريب میں کہا گیا ہے: وہ سچا ہے؛ لیکن اس کی یادداشت بہت کم تھی؛ بہرحال ان کی حدیث ’’حسن‘‘ ہے۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح697.

8. قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الصحيح غير الأجلح وهو ابن عبد الله الكندي وهو صدوق كما قال الذهبي والعسقلاني. والحديث قال في الزوائد (131 / 2 ): هذا إسناد فيه الأجلح بن عبد الله مختلف فيه، ضعفه أحمد وأبو حاتم والنسائي وأبو داود وابن سعد، ووثقه ابن معين والعجلي ويعقوب بن سفيان وباقي رجال الإسناد ثقات.

رجال سندکے اعتبار سے تمام حضرات مورد اعتماد ہیں اور یہ تمام حضرات صحيح بخاری کے رجالیون میں سے ہیں۔ سوائے اجلج بن عبداللہ کندی کے جو سچا ہے؛ جیسا کہ ذہبی اور ابن حجر نے بھی یہی کہا ہے۔مجمع الزوائد میں کہا گیا ہے: اس حدیث کی سند میں اجلج ابن عبداللہ، جنہیں احمد، ابو حاتم اور ابن سعد نے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن ابن معین، عجلی اور یعقوب ابن سفیان نے اس کی تصدیق کی ہے؛ لیکن باقی رجالیون حدیث ثقه  ہیں۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، سلسلة احاديث الصحيحة، ح1093.

9. أخرجه ابن ماجه ( 2 / 407 ) من طريق سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف عن معبد الجهني عن معاوية مرفوعا. وفي الزوائد: إسناده حسن لأن معبد الجهني مختلف فيه وباقي رجال الإسناد ثقات.

قلت: وهو كما قال.

مجمع الزوائد میں ہے: سند حدیث کے سلسلہ میں معبد جهني کا ذکر  ہے جس  کے بارے میں  اختلاف پایا جاتا ہے؛ لیکن باقی رجالیون کا سند   ثقہ  ہیں۔

میں کہتا ہوں: اس کی باتیں سچ ہیں۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح1284.

10. قلت: ورجاله ثقات رجال مسلم غير الباهلي هذا، وهو مختلف فيه، وقال الحافظ في التقريب: صدوق له أوهام . قلت: فهو حسن الحديث إن شاء الله تعالي.

رجال سند حدیث وہی حضرات ہیں جو صحیح مسلم کے بھی  ہیں اور یہ تمام رجالیون ثقہ ہیں؛ سوائے باہلی کے، جنہیں حافظ کتاب تقريب میں ایک سچ بولنے والے کے طور پر متعارف کرائے ہیں؛ لیکن اس کی حدیث "حسن" ہے۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح2841.

11. قلت: وهذا إسناد حسن علي الخلاف المعروف في الاحتجاج برواية عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده، و الذي استقر عليه عمل الحفاظ المتقدمين و المتأخرين الاحتجاج بها، و حسب القاريء أن يعلم قول الحافظ الذهبي فيه في كتابه المغني : مختلف فيه، و حديثه حسن، و فوق الحسن.

سندحدیث "حسن" ہے؛ کیونکہ عمرو بن شعیب کی روایت میں ان کے جد امجد اور دادا سے اختلاف ہے؛ لیکن متأخر ین اور متقدمین مورخین نے اس کی روایت کو نقل کیا ہے اور استدلال کیا ہے۔ اس مسئلہ کے بارے میں ذہبی کے لیے یہی کافی ہے جو کہتے ہیں: عمرو بن شعیب کے بارے میں اختلاف پایا جاتاہے۔ لیکن اس کی حدیث "حسن" ہے بلكه اس سے بھی بالاتر ہے۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ) سلسلة احاديث الصحيحة، ح2980.

12. إسناده حسن رجاله كلهم ثقات غير عمر بن يزيد النصري وهو مختلف فيه كما تقدم آنفا وقد خرجت الحديث في الصحيحة.

اس حدیث کے سلسلہ میں جتنے بھی رجالیون کا ذکر ہوا ہے وہ سب کے سب مورد اعتماد ہیں؛ سوائے عمر بن یزید نصری کے، جن کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ قبل اس کے کہ کہا جا‏ئے میں نے ان کی حدیث کو  كتاب الصحيحہ میں شامل کیا ہے۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، ضلال الجنة، ج1، ص131، ح 323، طبق برنامه المكتبة الشاملة.

13. حديث صحيح إسناده حسن ورجاله ثقات غير سكين بن عبد العزيز وهو مختلف فيه والراجح عندي أنهحسن الحديث.

حدیث "صحیح" ہے اور اس کا سند "حسن" ہے، اس کے تمام رجال سب کے  سبمورد اعتماد ہیں؛سوائے سکین بن عبدالعزیز کے جن کے بارے میں اختلاف ہے؛ لیکن میرے خیال میں راجح کا بیان یہ ہے کہ اس کی روایت "حسن" ہے۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، ضلال الجنة، ج2، ص294، 1125.

14. قلت: وهذا سند حسن بما قبله فإن داود هذا مختلف فيه وجزم الذهبي في الميزان بأنه ضعيف. ووثقه ابن حبان ( 1 / 41 ) وقال أبو حاتم: تغير حين كبر وهو ثقة صدوق وقال النسائي: ليس بالقوي ).

حدیث کا سند "حسن" ہے؛ کیونکہ اس حدیث میں صرف داؤد کے بارے میں اختلاف ہے۔ المیزان میں ذہبی کو اس کے ضعیف ہونے کا یقین ہے؛ لیکن راجح کا قول ہے کہ اس کی حدیث "حسن" ہے۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، ارواء الغليل في تخريج احاديث منار السبيل، ج3، ص402، كتاب الزكاة، تحقيق: إشراف: زهير الشاويش، ناشر: المكتب الإسلامي - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية، 1405 - 1985 م.

15. قلت: وهذا إسناده حسن رجاله ثقات رجال الشيخين غير عبد الله بن دكين وهو أبو عمر الكوفي البغداديمختلف فيه قال الذهبي في المغني : معاصر لشعبة وثقه جماعة وضعفه أبو زرعة وقال الحافظ في التقريب : صدوق يخطئ.

اس حدیث کے  سند میں جن رجالیون کا ذکر ہے وہ سب کے سب مورد اعتماد ہیں؛ کیونکہ وہ لوگ صحیح بخاری اور مسلم کے رجالیون میں سے ہیں؛سوائے عبداللہ بن دکین کوفی کے، جو ذہبی کتاب المغنی میں کہتے ہیں: وہ  شبعه کے ہم عصر تھے، اور ایک گروہ نے ان کی توثیق کی ہے؛ لیکن ابو زرح نے اسے ضعيف قراردیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے بھی اپنی کتاب التقريب میں ان کا تعارف ایک سچے گمراہ شخص کے طور پر کرایا ہے۔

الباني، محمد ناصر (متوفاي 1420هـ)، تحريم آلات الطرب، ج1، ص148، طبق برنامه المكتبة الشاملة.

گذشتہ باتوں سے یہ نکتہ واضح طور پر ثابت ہے کہ جرح و تعديل کے علماء اس روایت کو  جس کے کسی ایک راوی کے بارے میں مختلف نظریہ   پایا جاتا ہے حیسے  بعض نے اس کی تأييد کی ہے اور بعض نے اس کی تصدیق کی ہے تو ایسے روایت کو " حسن"کہتے ہیں۔

نتیجتاً اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ محمد بن حمید کے بارے میں جرح نسائي اور جوزجانی اور بعض دیگر اہل سنت علما کو مان لیا جائے تب بھی اس سے روایت کی معتبریت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا؛کیونکہ محمد بن حمید اکثرا  "مختلف فيه" ہو گا اور  مختلف فیہ راویوں کی روایت مندرجہ بالا قاعدہ کے مطابق "حسن" کہلاتی ہے اور  روایت حسن بھی صحیح روایت کی طرح اہل سنت کے نزدیک معتبر اور قابل قبول ہے۔

جرير بن عبد الحميد بن قُرْط الضَبِّي:

وہ بخاری و مسلم کے مستند راویوں میں سے ہیں اور مزی اپنے تہذیب الکمال کے ترجمے میں لکھتے ہیں:

قال محمد بن سعد: كان ثقة كثير العلم، يرحل إليه. و قال محمد بن عبد الله بن عمار الموصلي: حجة كانت كتبه صحاحا.

محمد بن سعد کہتے ہیں: جریر مورد اطمينان اور بزرگ عالم تھے، لوگ علم حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس جاتے تھے۔ محمد بن عبداللہ موصلی کہتے ہیں: وہ حجت تھے اور ان کی تمام کتابیں صحیح ہیں۔

المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 4، ص 544، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، سير أعلام النبلاء، ج 9، ص 11، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تهذيب التهذيب، ج 2، ص 65، ناشر: دار الفكر - بيروت، الطبعة: الأولي، 1404هـ - 1984م.

چنانچہ عبد الرحمن دمشقيہ کااشکال جس میں انہوں نے فرمایا:

جرير بن حازم وهو صدوق يهم وقد اختلط كما صرح به أبو داود والبخاري في التاريخ الكبير (2/2234).

22

یہ بے بنیاد ہے اور اس میں دو اہم خامیاں ہیں:

اول: محمد بن حمید رازی نے جریر بن عبدالحمید سے روایت کی ہے نہ کہ جریر بن حازم سے، اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روایت کے سند میں دمشقی نے دقت سے کام نہیں لیاہے۔

دوم: اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ یہ جریر بن حازم ہی ہے تو اس کی صداقت میں کوئی شک نہیں ہے؛ کیونکہ وہ بخاری، مسلم اور دیگر صحاح سته راویوں میں سے ہیں؛ لہذا دمشقي کااشكال بالکل بے بنیاد ہیں۔

مغيرة بن مِقْسَم ضَبِّي:

وہ بخاری، مسلم و دیگرصحاح ستہ راویوں میں سے بھی ہیں۔

مزی نے تہذیب الکمال میں ان کے بارے میں لکھا ہے:

عن أبي بكر بن عياش: ما رأيت أحدا أفقه من مغيرة، فلزمته.

وقال أحمد بن سعد بن أبي مريم، عن يحيي بن معين: ثقة، مأمون.

قال عبد الرحمن بن أبي حاتم: سألت أبي، فقلت: مغيرة عن الشعبي أحب إليك أم ابن شبرمة عن الشعبي؟ فقال: جميعا ثقتان.

وقال النسائي: مغيرة ثقة.

ابوبکر عیاش کہتے ہیں: میں نے مغیرہ سے زیادہ داناکوئی نہیں دیکھا کہ میں اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں: وہ مورد اطمينان اور امين ہے۔ابن ابی حاتم کہتے ہیں: میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا مغیرہ کا روايت آپ کوشعبی سے  زیادہ پسند ہے یا شبرمہ کا ؟ فرمایا: دونوں معتبر  اور اطمينان بخش ہیں۔ نسائی کہتے ہیں: مغيره مورد اطمينان ہے۔

المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج 28، ص 399، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

لہذا، دمشقی کی اشكال جو کہتی ہیں:

المغيرة وهو ابن المقسم. ثقة إلا أنه كان يرسل في أحاديثه لا سيما عن إبراهيم. ذكره الحافظ ابن حجر في المرتبة الثالثة من المدلسين وهي المرتبة التي لا يقبل فيها حديث الراوي إلا إذا صرح بالسماع.

مغیرہ بن مقسم ثقہ ہے؛ بات صرف یہ ہے کہ اس نے اپنی احادیث کو مرسل کی طور پر بیان کیا مسند نہیں؛ خاص طور پر ابراہیم سے۔ ابن حجر نے اس کا تذکرہ ان مدلسین میں تیسرے نمبر پر کیا ہے جن کی روایتیں قابل قبول نہیں ہیں؛ جب تک وہ سننے پر راضی نہ ہو۔

اس کی کوئی علمي ارزش  نہیں ہے۔ اگر وہ مدلس تھا تو بخاری، مسلم وغیرہ نے اس سے روایت کیوں کی؟

زياد بن كُلَيب:

وہ صحیح مسلم، ترمذی وغیرہ کے راویوں میں سے بھی ہیں۔

مزی تہدیب الکمال کے  ترجمہ میں کہتے ہیں:

قال أحمد بن عبد الله العجلي: كان ثقة في الحديث، قديم الموت.

وقال النسائي: ثقة.

وقال ابن حبان: كان من الحفاظ المتقنين، مات سنة تسع عشرة و مئة.

عجلی نے کہا: وہ روایت میں مورد اطمينان تھا۔  نسايي نے کہا: وہ قابل اطمينان ہے۔ابن حبان کہتے ہیں: وہ ثابت قدم اور محكم حافظوں میں سے تھے اور ان کی وفات 119 میں ہوئی۔

المزي، يوسف بن الزكي عبدالرحمن أبو الحجاج (متوفاي742هـ)، تهذيب الكمال، ج9، ص505، تحقيق د. بشار عواد معروف، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: الأولي، 1400هـ - 1980م.

سند منقطع ہونےکا شک:

پہلا: جیسا کہ بلاذری کی روایت میں مذکور ہے، پہلی صدی ہجری میں اہل سنت کے ایک بزرگ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے، یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہے؛ یہاں تک کہ اگر اس نے خود اس واقعہ کا مشاہدہ نہ کیا ہو؛

دوم: زیاد بن كليب نے جتنی روایتیں نقل کی ہیں وہ ان افرادو میں سے ہیں جو اہل سنت کے نزدیک ثقہ ہیں۔ اس کے استاد حسب ذیل ہیں:

1. ابراہیم نخعی: وہ ایک فقیہ، عالم تھے، ان کا تقویٰ لوگوں کے لیے حیران کن تھا، وہ شہرت سے پرہیز کرتے تھے اور علم دانش میں مشہور تھے۔

ابراهيم النخعي: الفقيه كان عجبا في الورع و الخير، متوقيا للشهرة، رأسا في العلم.

الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي748هـ)، الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، ج 1 ص 227، تحقيق محمد عوامة، ناشر: دار القبلة للثقافة الإسلامية، مؤسسة علو - جدة، الطبعة: الأولي، 1413هـ - 1992م.

2. سعید بن جبیر: وہ روایت نقل کرنے میں مورد اعتماد اور دین و احکام میں  فقیہ اور دانشمند تھے۔

سعيد بن جبير: ثقة ثبت فقيه.

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) تقريب التهذيب، ج 1 ص 234، رقم: 2278، تحقيق: محمد عوامة، ناشر: دار الرشيد - سوريا، الطبعة: الأولي، 1406هـ ـ 1986م.

3. عامر شعبی: وہ مورد اعتماد ، مشہور اور عالم دین اور ممتاز تھے۔

عامر الشعبي: ثقة مشهور فقيه فاضل.

تقريب التهذيب، ج 1 ص 287، رقم: 3092.

4. فضیل بن عمرو فقیمی: مورد اعتماد ہے۔

فضيل بن عمرو الفقيمي: ثقة.

تقريب التهذيب، ج 1، ص448، رقم: 5430.

نتيجہ:

روایت کا سند بالکل صحیح ہے اور عبدالرحمٰن دمشقی کے تمام مسائل بے بنیاد ہیں اور ان کی عدم توجہ اور قطعیت کو ظاہر کرتا ہے، سند کا منقطع ہونا اس کی حجيت کو  نقصان نہیں پہنچاتی ۔





Share
* نام:
* ایمیل:
* رائے کا متن :
* سیکورٹی کوڈ:
  

آخری مندرجات
زیادہ زیر بحث والی
زیادہ مشاہدات والی