موضوع: حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا قول و فعل میں ولایت کے مکمل نمونہ عمل ہیں۔
ام ابیہا کے سلسلے میں خصوصی پروگرام
اس پروگرام کے مشمولات:
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا قناعت اور سادہ زندگی کا نمونہ ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا قول و فعل میں ولایت کے مکمل نمونہ ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر کڑی تنقید قریش و صحابہ کی طرف سے!
ناظم:
بسم الله الرحمن الرحیم اللهم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجهم
محترم ناظرین، "أم أبیها" پروگرام کے خصوصی ناظرین کے خدمت میں سلام پیش کرتے ہیں۔ حضرت ولی عصر گلوبل نیٹ ورک سے یہ پروگرام دیکھنے کا بہت بہت شکریہ۔
ہم حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا کا یوم ولادت مبارک منا رہے ہیں۔ ایک بار پھر میں اپنے ناظرین کو اس عظیم عید پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ہم اس پروگرام کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ انشاءاللہ اس پروگرام کو دیکھیں اور اس پروگرام سے بھرپور استفادہ حاصل کریں۔
آپ کی خدمت میں اور حضرت آیت اللہ حسینی قزوینی کی خدمت میں جو اس پروگرام کے معزز مہمان ہیں جنہوں نے ہماری دعوت کو قبول کیا۔
آئیے استاد محترم کے ساتھ سلام اور مبارکباد پیش کرتے ہیں، آئیے اس معزز مہمان کو اس پیاری عید کی مبارکباد دیتے ہیں، اور ان موضوعات پر بات کرتے ہیں جن پر ہم نے آج رات غور کیا تھا۔ سلام عرض کرتا ہوں استاد محترم کی خدمت میں، اور اپ کا شکرگذار ہوں کہ اپ تشریف لائیں۔
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
السلام علیک یا بقیة الله فی أرضه السلام علیک یا میثاق الله الذی أخذه و وکده السلام علیک یا صاحب المرئی و المسمع فما کان لنا شیء الا و انتم له السبب و الیه السبیل
سلام علیکم و رحمة الله و برکاته؛ پیارے ناظرین جو اس پروگرام کو دیکھ رہے ہیں یا اس وسیع دنیا میں کہیں بھی پروگرام کو دہراتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، میں اپنے تہہ دل سے سلام پیش کرتا ہوں۔
میں حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت پر آقا حضرت بقیة الله الأعظم (ارواحنا لتراب مقدمه الفداء) کی بارگاہ میں اور آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ہم عموماً اپنی جلسوں کا آغاز حضرت صدیقہ طاہرہ کی یاد سے کرتے ہیں۔ یہ ان کی ولادت کے ایام ہیں، اس لیے ان کےمصیبت کے بارے میں بات نہیں کروں گا، اور ہم حضرت صدیقہ طاہرہ سے کچھ راز و نیاز مرید و مراد و محب و محاب کرتے ہیں۔
ما زنده به لطف رحمت زهراییم
مأمور برای خدمت زهراییم
روزی که تمام خلق حیران هستند
ما منتظر شفاعت زهراییم
سرفصل کتاب آفرینش زهراست
روح ادب و کمال بینش زهراست
روزی که گشایند در باغ بهشت
مسئول گزینش و پذیرش زهراست
در رتبه ز انبیاء مقدم زهراست
همتای علی مرد دو عالم زهراست
برگوی به آنکه اسم اعظم جوید
شاید که تمام اسم اعظم زهراست
صلی الله علیک یا مولاتی یا فاطمة الزهراء
ناظم:
استاد آپ کا بہت بہت شکریہ آپ کو اس متبرک ایام کی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ محترم ناظرین میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم نے کچھ سوالات تیار کیے ہیں تاکہ استادکے خدمت میں پیش کریں اور سوالات کے سلسلےکو آگے لے جا سکیں۔
استاد! پہلے سوال کے طور پر فرمائیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خوبصورت زندگی عصر حاضر کی خواتین کی سادہ زندگی کے لیے کیا پیغام ہے؟
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا قناعت اور سادہ زندگی کا نمونہ ہیں۔
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم و به نستعین و هو خیر ناصر و معین الحمدلله و الصلاة علی رسول الله و علی آله آل الله لاسیما علی مولانا بقیة الله و اللعن الدائم علی اعدائهم اعداء الله إلی یوم لقاء الله أفوض أمری إلی الله إن الله بصیر بالعباد حسبنا الله و نعم الوکیل نعم المولی و نعم النصیر یا أبا صالح المهدی ادرکنی
ایک عورت عورت کیلۓ ایسی مثال ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ زندگی کے مسائل کا مقابلہ کرتی ہے اور اپنے شوہر کو قرضوں کے بوجھ تلے دبنے پر مجبور نہیں کرتی اور بہت سے مسائل کے ساتھ زندگی گزارنے کا ذریعہ فراہم کرتی ہے ۔ حضرت صدیقہ طاہرہ اس میدان میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہو سکتی ہیں۔
مستند سنی کتب میں، جیسا کہ ابن اثیر کی کتاب "الکامل" میں، جس کی وفات 630 ہجری میں ہوئی، ابو رافع سے نقل ہوا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا۔ :
«لقد تزوجت بفاطمة ومالی فراش إلا جلد کبش ننام علیه باللیل ونعلف علیه ناضحنا بالنهار»
جس دن میری شادی فاطمہ سے ہوئی میرے پاس رہنے کی کوئی چیز نہیں تھی، یہاں تک کہ گھر میں بچھانے اور رہنے کے لیے فرش تک نہیں تھا۔
یہ آج کی خواتین اور لڑکیوں کے لیے بہت واضح پیغام ہے جو اپنے والدین پر اچھا جہیز حاصل کرنے کے لیے مسائل مسلط کرتی ہیں۔
آج کی لڑکیاں اپنے والدین سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ انہیں بہترین قالین، بہترین فریج، یا بہترین صوفہ فراہم کریں، اب انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ باپ کے پاس ہے یا نہیں ہے یا وہ ادھار لے رہے ہیں۔
لڑکیاں اور خواتین آج اپنے نعرے میں کہتے ہیں کہ ہم حضرت فاطمہ زہرا سے محبت کرتے ہیں اور حضرت فاطمہ زہرا کے تابع ہیں۔ یہ ہے فاطمہ زہرا کی زندگی!
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس گھر میں بچھانے کے لیے فرش نہیں تھا، بلکہ ہمارے پاس بھیڑ کی کھال تھی جس پر ہم رات کو سوتے تھے اور دن میں اس پر گھاس ڈالتے تھے تاکہ جس اونٹ سے ہم پانی بھرتے تھے وہ کھا سکے۔
«ومالی خادم غیرها»
اور ہمارے پاس کوئی نوکر نہیں تھا۔
الکامل فی التاریخ، اسم المؤلف: أبو الحسن علی بن أبی الکرم محمد بن محمد بن عبد الکریم الشیبانی، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - 1415 هـ، الطبعة: ط 2، تحقیق: عبد الله القاضی، ج 3، ص 263، باب ذکر بعض سیرته
امیر المومنین کے تعبیر کے مطابق گھر کے باہر کا کام میرے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کا کام حضرت زہرا مرضیہ کی ذمہ داری تھی۔
البتہ اس روایت کو "علامہ مجلسی" نے کتاب "بحار الانوار" جلد 76 صفحہ 322 میں نقل کیا ہے۔ "علامہ مجلسی" نے کتاب "بحار الانوار" جلد 41 میں ایک اور روایت نقل کی ہے، جسے اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے۔ "ابو سعید خدری" اور "ابوہریرہ" نقل کرتے ہیں:
«أَنَّ عَلِیاً أَصْبَحَ سَاغِباً فَسَأَلَ فَاطِمَةَ طَعَاماً »
یہ حضرت صدیقہ طاہرہ سلام الله علیها کی زندگی کی مثال ہے جو ہمارے لیے ایک خواب ہے۔ آج کی خواتین کے لیے شاید اس کا تصور بھی ممکن نہ ہو، لیکن یہ فاطمہ کی زندگی ہے۔ اس روایت میں ذکر ہوا ہے:
«أَنَّ عَلِیاً أَصْبَحَ سَاغِباً فَسَأَلَ فَاطِمَةَ طَعَاماً »
ایک دن امیر المومنین بہت بھوکے تھے اور انہوں نے حضرت زہرا سے کہا کہ کھانا لے آؤ۔
«فَقَالَتْ مَا کانَتْ إِلَّا مَا أَطْعَمْتُک مُنْذُ یوْمَینِ آثَرْتُ بِهِ عَلَی نَفْسِی وَ عَلَی الْحَسَنِ وَ الْحُسَینِ»
حضرت زہرا نے فرماتیں ہیں: گھر میں کھانا نہیں ہے اور کل جو کھانا تم نے کھایا وہ تمہارا، میرا، حسن اور حسین کا کھانا تھا۔
حضرت فاطمہ زہرا نے صاف کہہ دیا کہ کل ہم نے کھانا نہیں کھایا اور جو کچھ تھاآپ کے سامنے پیش کیا۔
عزیزو تھوڑی دیر اس جملے پر غور کریں۔ یہ کیسی ہستی ہیں!حضرت کے گھر میں جو کھاناہے وہ چار لوگوں کے لیے کافی نہیں ہے صرف ایک شخص یہ کھانا کھا کر سیر ہو سکتا ہے!!
حضرت صدیقہ طاہرہ خود کھانا نہیں کھاتیں، امام حسن اور امام حسینؑ جن کی پرورش حضرت فاطمہ زہراؑ نے کی ہے، وہ بھی نہیں کھاتے اور یہ کھانا امیر المومنینؑ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے ۔
«فَقَالَ أَ لَا أَعْلَمْتَنِی فَأَتَیتُکمْ بِشَیءٍ»
امیر المومنین نے فرمایا: تم نے مجھے کیوں نہیں کہاکہ گھر میں کھانا نہیں ہےتاکہ تم لوگوں کیلۓ کھانے کا انتظام کروں؟
ملاحظہ کریں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا تعبیر کیا ہے!!
«فَقَالَتْ یا أَبَا الْحَسَنِ إِنِّی لَأَسْتَحْیی مِنْ إِلَهِی أَنْ أُکلِّفُک مَا لَا تَقْدِرُ عَلَیه»
حضرت زہرا نے کہا: میں اپنے خدا سے شرمندہ ہوں کہ آپ کو ایسا کام کرنے پر مجبور کروں جو آپ کی طاقت سے باہر ہے۔
مناقب آل ابی طالب علیہ السلام، مصنف: ابن شہر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، جلد 2، ص 77، فصل فی المسابقة بالسخاء و النفقة فی سبیل الله۔
حضرت صدیقہ طاہرہ کے اس قول کا مفہوم یہ تھا کہ میں جانتی ہوں کہ زندگی کیسی ہے اور میں جانتی ہوں کہ اگر میں آپ سے کھانا مانگوں تو آپ ادھار لے کر فراہم کریں گے لیکن مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ آپ سے وہ چیز مانگوں جو آپ کے پاس نہیں ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا جانتی تھیں کہ امیر المومنین کے ہاتھ اس وقت خالی ہیں اور ان کے پاس کھانا خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ایسی صورت میں حضرت کو سخت محنت کرنی پڑے گی تاکہ وہ پیسہ کمائیں اور گھروالوں کیلۓ کھانا فراہم کریں۔
یہ روایت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے شوہر داری کے حوالے سے ہمارے لیے ایک خوبصورت نمونہ پیش کرتی ہے اور ایک عورت کی اپنے شوہر کے لیے قربانی اور اس کے بچوں کی پرورش کا بھی اظہار کرتی ہے۔
ہو سکتا ہے آپ کے گھر میں کھانا ہو اور آپ اپنے بچے سے کہیں کہ وہ اسے نہ کھائے تاکہ آپ کے والد یہ کھانا کھاسکے، ایسی صورت میں یہ بچہ زمین واسمان ایک کردیگا اور اعتراض کرےگا کہ میں یہ کھانا کیوں نہ کھاؤں!!
دوستو، پیاری بہنو، میری بیٹیو! یہ حضرت صدیقہ طاہرہ کی تربیت و تعلیم کا طریقہ ہے۔ اگر حضرت امام حسن اور امام حسین سے کہیں کہ کھانا مت کھاؤ اور اپنے والد کو کھانے دو تو وہ ماں کی بات پر کچھ نہیں کہیں گے۔
بچے جانتے ہیں کہ والد گھر میں اپنی بیوی بچوں پر ترجیح رکھتا ہے۔ قرآن پاک اس حوالے سے فرماتا ہے:
(الرِّجالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّساء)
مرد عورتوں کے محافظ و منتظم (حاکم) ہیں۔
سوره نساء (4): آیه 34
اس کے علاوہ مرد گھر کے بڑے ہوتے ہیں اور بڑے کے لیے چھوٹوں کا احترام کرنا لازمی اور ضروری ہے۔ "مرحوم مجلسی" نقل کرتے ہے کہ امیر المومنین باہر تشریف لے گئے، کھانا تهیه کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دینار ادھار لیا، اس وقت ان کا سامنا "مقداد" سے ہوا۔
"مقداد" نےامیر المومنین سے فرمایا: میرے گھر والے بھوکے ہیں اور میرے پاس کچھ نہیں ہے۔
حضرت باہر اۓ اور سمجھ میں نہیں ارہا تھا کہ کیا کرے۔ انہوں نے وہی ایک دینار "مقداد" کو دیا تاکہ وہ کھاناتهیه کر سکے اور کہا کہ خدا بڑا کریم ہے۔
یہ وہ تمام نمونے ہیں جو امیر المومنین حضرت صدیقہ طاہرہ، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام نے ہمارے معاشرے کے لیے قائم کیے ہیں۔
اگر ہم صحت منداور هوای نفس سے دور روحانی و ملکوتی زندگی گزارنا چاہتے ہیں ، تویہ ہستیاں ہمارے لۓ نمونہ عمل ہیں۔
یہ ہستیاں ہمارے لیے نمونہ ہیں اور ہمارے لیے مثال بن سکتے ہیں اور ہم اس نمونہ کے تحت اپنی زندگی کی دن رات کو بہترین طریقے سے سجا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ کتاب "بحار الانوار" میں ایک اور روایت میں حضرت فاطمہ زہرا کےهمسرداری کے طریقے اور گھریلو ماحول میں همسر کے حقوق کا احترام کرنے کا قصہ بیان ہوا ہے۔ یہ روایت تمام مردوں اور تمام عورتوں کے لیے پیغاہم ہے! امیر المومنین فرماتے ہیں:
«فَوَ اللَّهِ مَا أَغْضَبْتُهَا وَ لَا أَکرَهْتُهَا عَلَی أَمْرٍ حَتَّی قَبَضَهَا اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَا أَغْضَبَتْنِی»
خدا کی قسم ان نو سالوں میں میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے زہرا ناراض ہو اور نہ ہی ان کو کسی کام پر مجبور کیا۔
کیا ہم بھی ایسے ہی ہیں؟! اگر ایک دن ہم آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ گھر میں کھانا تیار نہیں ہے اور ہم تھکے ہوئے ہیں تو کیا ہمارے پاس اتنا صبر ہے کہ ہم ایک کونے میں بیٹھ جائیں تاکہ ہماری بیوی کھانا تیار کر سکے؟!
اگر ایک دن ہم گھر آ کر دیکھتے ہیں کہ صاف نہیں ہے تو ہم میں اتنا صبر اور برداشت ہے کہ ہم اعتراض نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ گھر صاف کیوں نہیں ہے؟!اور بھی درجنوں مسائل ہیں جو ہم اپنے شریک حیات کے ساتھ توازن برقرار رکھ سکتے ہیں تاکہ ہم اسے اپنے سے نفرت نہ کریں اور اسے کچھ کرنے پر مجبور نہ کریں۔
«وَ لَا عَصَتْ لِی أَمْرا»
اس عرصے میں حضرت صدیقہ طاہرہ نے ایک بار بھی میری خلاف ورزی نہیں کی۔
حضرت صراحتا فرماتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا کہ میں نے حضرت فاطمہ زہرا سے کوئی چیز مانگی اور انہوں نے نہیں کہاہو۔
«وَ لَقَدْ کنْتُ أَنْظُرُ إِلَیهَا فَتَنْکشِفُ عَنِّی الْهُمُومُ وَ الْأَحْزَان»
میں جب بھی فاطمہ کے چہرے کی طرف دیکھتاہوں تو دنیا کے سارے غم میرے دل سے نکل جاتے اور میرے غم ختم ہو جاتے۔
بحار الأنوار، مصنف: مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، محقق / مصحح: جمعی از محققان، ج 43، ص 134، ح 32
یہی پاکیزگی اور خلوص زندگی کو ایک نورانی جنت میں بدل سکتا ہے۔ دوسری طرف اگر مرد شکایت کرے اور عورت بھی شکایت کرے، مرد عتراض کرے اور عورت بھی عتراض کرے تو زندگی جلتی ہوئی جہنم بن جاۓ گی اور پھر پاکیزگی و خلوص زندگی میں نہیں رہے گی۔
ایسے گھر میں اگربچے تربیت ہوں،تو اس بچے کے اوپراپنے والدین کے تمام رفتار و گفتار أثر پذیر ہوگا۔
جب یہ بچے بڑے ہونگے معاشرے میں اسکول، ہائی اسکول اور یونیورسٹی کے ماحول میں وہ اپنے والدین کے تمام سلوک جو کچھ ان کے دلوں کے صفحات پر نقش ہوا اس سے وہ جو کچھ سیکھا تھا اسے منتقل کریگا۔
غلط اخلاق کے حامل یہ میاں بیوی نہ صرف ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کرتے ہیں بلکہ بچے کے عظیم حق کو بھی پامال کرتے ہیں۔اس صورت میں نہ صرف بچے کا حق پامال ہوتا ہے بلکہ معاشرے کا حق بھی پامال ہوتا ہے۔
ایسا بچہ معاشرے میں انتشار پیدا کریگا اور معاشرے کے لیے پریشانی پیدا کریگا۔ وہ معاشرہ جس میں بچے ایسے ہوں وہ مثالی معاشرہ اور علوی اور فاطمی معاشرہ نہیں ہو سکتا۔
اس بارے میں بہت سے مواد موجود ہے لیکن میں اپنے آپ کو حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا سے آج کی خواتین کے رول ماڈل کے بارے میں ایک یا دو روایتوں تک محدود رکھوں گا۔ اگر کوئی اور سوال ہے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔
ناظم:
براہ مہربانی۔ پیارے ناظرین! حضرت استاد نے واقعی اس بات کا اظہار کیا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی تمام انسانوں کی زندگی کے لیے کارساز ہے، اگر آپ آرام وہ سکون کی تلاش میں ہیں۔
یہ مطالب ہمارے لیے بہت دلچسپ تھا اور ہم استاد کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ پیارے ناظرین ہم ایک مختصر وقفہ کے بعد آپ کی خدمت میں دوبارہ پروگرام جاری رکھیں گے۔
محترم ناظرین ہم آپ کے خدمت میں حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت اور آیت اللہ حسینی قزوینی کی موجودگی میں خصوصی پروگرام "أم أبیها" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔
میں نے جو سوال استاد سے پوچھنے کے لیے تیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کی ایک اہم خصوصیت ان کا اپنے محترم شوہر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا زبردست دفاع ہے۔
ہم حضرت استاد سے عرض کرتے ہیں کہ اس معاملے کے بارے میں ہمیں بتائیں کہ امیر المومنین کے دفاع کے سلسلے میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کی سب سے اہم خصوصیت کیا تھی؟!
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا قول و فعل میں مکمل ولایتمداری کا نمونہ عمل ہیں۔
حضرت آیت اللہ حسینی قزوینی:
جیسا کہ آپ نے ذکر کیا کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی سے جو بہترین سبق ہم سیکھ سکتے ہیں وہ ہے حضرت صدیقہ طاہرہ کی مرکزی ولایت اور امامت و ولایت کے تقدس کا پرجوش اور غیر محفوظ دفاع۔
"مرحوم حائری مازندرانی" کی کتاب "الکوکب الدری" کے صفحہ 196 پر جو جملہ آیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا:
«روحی لروحک الفداء»
مری جان آپ پر قربان ہوں۔
«و نفسی لنفسک الوقاء»
«یا ابا الحسن ان کنت فی خیر کنت معک»
میں ہر خوشی میں تمہارے ساتھ ہوں۔
«و ان کنت فی شر کنت معک»
میں تمہاری ہر مصیبت میں تمہارے ساتھ ہوں۔
الکوکب الدری فی احوال النبی و البتول و الوصی، حائری مازندرانی، مهدی؛ الناشر: انتشارات الشریف الرضی؛ ص 200
حضرت فاطمہ زہرا اپنے جسم کے آخری سانس تک امیرالمومنین کے دفاع سے باز نہیں آئیں گی۔
واضح رہے کہ سنی اور شیعہ دونوں ذرائع میں حضرت صدیقہ طاہرہ کے بارے میں بہت خوبصورت الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
میں امام ابو موسیٰ محمد بن عمر اصفہانی(جو 581ھ میں فوت ہوئے) کی کتاب "نزهة الحفاظ" سے ایک جملہ نقل کر رہا ہوں۔
وہ حضرت صدیقہ طاہرہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مہاجرین اور انصار سے خطاب کیا:
«أَنَسِیتُمْ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ یوْمَ غَدِیرِ خَمٍّ مَنْ کنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِی مَوْلاهُ»
کیا آپ غدیر خم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول بھول گئے جب آپ نے فرمایا: میں جس کا مولا ہوں، علی اس کے مولا ہیں؟!
یہ وہ وقت تھا جب غدیر خیم کے واقعے کو 70 دن سے زیادہ نہیں گزرے تھے۔انہوں نے صاف صاف فرمایا کہ تم غدیر خم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو کتنی جلدی بھول گئے ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپنی صحبت میں اپ سے یہ نہیں فرمایا:
«وَقَوْلُهُ عَلَیهِ السَّلَام لعَلی أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَی عَلَیهِمَا السَّلَام»
نزهة الحفاظ، المؤلف: محمد بن عمر بن أحمد بن عمر بن محمد الأصبهانی المدینی، أبو موسی (المتوفی: 581 هـ(، المحقق: عبد الرضی محمد عبد المحسن، الناشر: مؤسسة الکتب الثقافیة – بیروت، الطبعة: الأولی، 1406، ص 102، باب کتاب النساء
البتہ یہ حقیقت ہے کہ حضرت صدیقہ طاہرہ حدیث غدیر اور حدیث منزلت کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو بہت سے راز کے حامل ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ غدیر خم پیغمبر اسلام کی وفات سے بہت زیادہ فاصلہ نہیں تھا کہ جس کی وجہ سے معاشرہ اختلاف اور انحراف کا شکار ہوا۔
غدیر خم کا واقعہ 18 ذی الحجہ کو پیش آیا اور اس کے دو ماہ بعد 28 صفر کو پیغمبر اسلام کی وفات ہوئی۔
حضور کی آواز آج بھی لوگوں کے کانوں میں گونجتی ہے۔ اور آج بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو مہاجرین و انصار کی مجلس میں نقل کرتی ہے۔
ابن جوزی کے مطابق غدیر خم میں ایک لاکھ 20 ہزار لوگوں نےرسول اسلام کی تقریر سنی۔ پیغمبر اسلام نے غدیر خم میں تین دن اور رات تک لوگوں سے بیعت لی۔
تمام لوگوں نے امیر المومنین سے بیعت کی اور مبارکباد دی۔ مبارکباد دینے والوں میں سر فہرست خلیفہ دوم تھا جس نے امیر المومنین سے کہا:
«بخ بخ لک یا بن أبی طالب أصبحت مولای ومولی کل مسلم»
تاریخ بغداد، اسم المؤلف: أحمد بن علی أبو بکر الخطیب البغدادی، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت -، ج 8، ص 289، ح 4392
جناب "ابن کثیر دمشقی سلفی" جو کہ 774 ہجری میں فوت ہوئے، کتاب "البدایہ و النہایہ" جلد 7 صفحہ 350 میں اس روایت کو ایک مستند سند کے ساتھ نقل کیا ہیں۔ "ابن اثیر جزری" نے اس روایت کو کتاب "اسد الغابہ" میں نقل کیا ہے۔ غدیر خم سے زیادہ فاصلہ نہیں گزرا تھا اور غدیر کی آواز ابھی تک خلا میں گونج رہی ہے۔ حضرت صدیقہ طاہرہ فرماتی ہیں کہ آپ نے غدیر خم میں حضور کا ارشاد کیوں بھلا دیا؟
نیز تبوک کے معاملے میں جو کہ 10 ہجری کا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال پہلے کا ہے، بعض منافقین نے کہا کہ علی بن ابی طالب مدینہ میں کیوں رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے ساتھ کیوں نہیں لے گئے۔ !؟
امیر المومنین علیہ السلام نے منافقین کے الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے اور فرمایا:
«أما ترضی أن تکون منی بمنزلة هارون من موسی غیر أنه لا نبی بعدی»
میرے لیے تم موسیٰ کے لیے ہارون کی طرح ہے، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
المصنف، اسم المؤلف: أبو بکر عبد الرزاق بن همام الصنعانی، دار النشر: المکتب الإسلامی - بیروت - 1403، الطبعة: الثانیة، تحقیق: حبیب الرحمن الأعظمی، ج 5، ص 406، ح 9745
یا:
«وأنت خلیفتی فی کل مؤمن من بعدی»
السنة، اسم المؤلف: عمرو بن أبی عاصم الضحاک الشیبانی، دار النشر: المکتب الإسلامی - بیروت - 1400، الطبعة: الأولی، تحقیق: محمد ناصر الدین الألبانی، ج 2، ص 565، ح 1188
"حکیم نیشابوری" نے اس روایت کو صحیح سند کے ساتھ کتاب "مستدرک علی الصحیحین" جلد 3 صفحہ 133 میں نقل کیا ہے۔ جناب "البانی" نے اس روایت کو کتاب "سلسلة الأحادیث الصحیحة" جلد 5، صفحہ 222 میں نقل کیا ہے۔
اس دوران کتنا عرصہ گزر گیا؟! یہ وقت امیر المومنین کی خلافت کے اعلان کا قریب ترین وقت تھا۔ لہٰذا حضرت صدیقہ طاہرہ دو بنیادی اور اہم مسائل کے متعلق فرمارہی ہیں۔
یہ روایت شیعہ منابع میں بھی مذکور ہے۔ "مرحوم شیخ صدوق" جو 381ھ میں فوت ہوئے، کتاب "خصال" جلد 1 کے صفحہ 173 پر لکھتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا انصار کو مخاطب کرکے فرماتی ہیں کہ تم نے میرے حق کا دفاع کیوں نہیں کیا!
انہوں نے صاف صاف فرمایا کہ کیا تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کا دفاع کریں گے جیسا کہ آپ اپنے اہل بیت کا دفاع کرتے ہیں؟!!
کیا تم نے ان گیارہ سالوں میں اپنی جان اور قربانی نہیں دی؟ اب کیا ہوا کہ تم نے میرا حق نظر انداز کر دیا!! لوگوں نے کہا:
«یا بِنْتَ مُحَمَّدٍ لَوْ سَمِعْنَا هَذَا الْکلَامَ مِنْک قَبْلَ بَیعَتِنَا لِأَبِی بَکرٍ مَا عَدَلْنَا بِعَلِی أَحَداً»
اے محمد کی بیٹی! اگر ہم نے ابوبکر کی بیعت کرنے سے پہلے آپ سے یہ الفاظ سن لیے ہوتے تو هرگزعلی کے علاوہ کسی کے بیعت نہ کرتے۔
حضرت فاطمہ زہرا نے یہاں ایک دلچسپ جملہ فرمایا۔ تقدس مآب نے صاف صاف فرمایا کہ حضور نے یہ کلمات غدیر خم کے واقعہ میں مجھ سے بہتر کہے تھے۔
«فَقَالَتْ وَ هَلْ تَرَک أَبِی یوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ لِأَحَدٍ عُذْراً»
الخصال، نویسنده: ابن بابویه، محمد بن علی، محقق / مصحح: غفاری، علی اکبر، ج 1، ص 173، ح 228
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کے بارے میں قرآن پاک فرماتا ہے:
(وَ ما ینْطِقُ عَنِ الْهَوی إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْی یوحی)
اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔ (3) وہ تو بس وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔
سوره نجم (53): آیات 3 و 4
انہوں نے تئیس سال تک لوگوں کے لیے محنت کی اور لوگوں کو بت پرستی، بربریت، قتل و غارت اور ایک سو بیس سال کی جنگوں سے نجات دلائی اور لوگوں میں امن اور قربت پیدا کر کی اور غدیر خم میں سب کچھ کہا۔
حضرت فاطمہ زہرا نے صاف صاف کہہ دیا کہ آپ حضورؐ کی باتوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔اب اگر میں آکر تمہیں بتاؤں تو تم میری بات پر عمل نہیں کرو گے۔
یہ روایت دراصل ایک طنز و مزاح ہے جو حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا نے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے کہی ہیں کہ تم کیا کہہ رہے ہو!!
لوگوں نے دعویٰ کیا کہ اگر آپ یہ بات پہلے کہہ دیتے تو ہم آپ کی بات کو مان لیتے۔ حضرت فاطمہ زہرا نے صاف کہہ دیا کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ وہ مجھ سے برتر اور اعلیٰ ہے اور وحی سے متصل ہے اور اللہ سے متصل ہے اور قرآن پاک کہتا ہے:
(وَ ما ینْطِقُ عَنِ الْهَوی إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْی یوحی)
و:
(إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ ما یوحی إِلَی)
میں صرف اس چیز کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے۔
سوره انعام (6): آیه 50
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا: تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو قبول نہیں کیا، اب مجھ سے ان کو قبول کرتے ہو؟
نیز مرحوم طبری کی کتاب "دلائل الإمامه" میں جو کہ پانچویں صدی ہجری کے بزرگوں میں سے ہیں اور شیخ طوسی، نجاشی، سید مرتضیٰ اور شیخ مفید کے ہم عصر ہیں۔ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت صدیقہ طاہرہ مسجد میں آئیں تو انہوں نے تقریر کی۔
اس تقریر میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو حضرت فاطمہ زہرا نے نہ کہی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی رہنمائی کے لیے جو کوششیں کیں، ان میں سے انھوں نے خلافت کے لیے امیر المومنین کا انتخاب کیا، وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہیں، اور فدک کو غصب کرنا قرآن کے خلاف ہے۔
جب حضرت فاطمہ زہرا کا خطاب ختم ہوا تو ایک صحابی جس کا نام رافع بن رافعہ تھا وہ حضرت کے نزدیک آیا اور عرض کیا:
«یا سَیدَةَ النِّسَاءِ، لَوْ کانَ أَبُو الْحَسَنِ تَکلَّمَ فِی هَذَا الْأَمْرِ وَ ذَکرَ لِلنَّاسِ قَبْلَ أَنْ یجْرِی هَذَا الْعَقْدُ، مَا عَدَلْنَا بِهِ أَحَداً»
اے عورتوں کے سردار! اگر ابو الحسن یہ باتیں آپ سے پہلے کہہ دیتے تو ہم ان کے علاوہ کسی اور کی بیعت نہ کرتے۔
یہ بہت ہی افسوسناک اور حیران کن مرحلہ ہے۔
«فَقَالَتْ لَهُ یرُدَّنَّهَا: «إِلَیک عَنِّی، فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لِأَحَدٍ بَعْدَ غَدِیرِ خُمٍّ مِنْ حُجَّةٍ وَ لَا عُذْرٍ»»
حضرت نے غصے سے اسے روکا اور فرمایا: مجھ سے دور ہو جاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم میں کسی کے لیے کوئی عذر نہیں چھوڑا اورحجت کو تمام کیا۔
دلائل الإمامة، نویسنده: طبری آملی صغیر، محمد بن جریر بن رستم، محقق / مصحح: قسم الدراسات الإسلامیة مؤسسة البعثة، ص 122، ح 36
تم لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو نظر انداز کیا اور دعویٰ کرتے ہو کہ اگر علی بن ابی طالب یہ الفاظ کہتے تو ہم ان کے سوا کسی کے بیعت نہ کرتے۔ علی بن ابی طالب کے پاس جو کچھ ہے وہ پیغمبر اسلام سے ہے اور فرماتے ہیں:
«أَنَا عَبْدٌ مِنْ عَبِیدِ مُحَمَّدٍ ص»
میں نبی کریم کا خادمہ ہوں۔
الکافی، نویسنده: کلینی، محمد بن یعقوب، محقق / مصحح: غفاری علی اکبر و آخوندی، محمد، ج 1، ص 90، ح 5
ہمارے پاس اس بارے میں کہنے کو بہت کچھ ہے۔ علی بن محمد قمی رازی کی کتاب "کفایة الأثر" میں جو "خزاز" کے نام سے مشہور ہے، صفحہ 198 میں "محمود بن لبید" کے الفاظ سے ایک مفصل واقعہ نقل کیا گیا ہے۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ میں احد قبرستان گیا جہاں حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا بھی موجود تھیں۔ میں نے آگے بڑھ کر کہا:
«یا سَیدَتِی إِنِّی سَائِلُک عَنْ مَسْأَلَةٍ تَلَجْلَجُ فِی صَدْرِی»
میرے دل میں ایک مسئلہ ہے جو مجھے پریشان کر رہا ہے اور میں آپ سے اس کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں۔
«قَالَتْ سَلْ»
انہوں نے فرمایا: پوچھو۔
«قُلْتُ هَلْ نَصَّ رَسُولُ اللَّهِ ص قَبْلَ وَفَاتِهِ عَلَی عَلِی بِالْإِمَامَةِ»
میں نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وفات سے پہلے علی ابن ابی طالب کی امامت کو واضح طور پر بیان فرمایا تھا؟!
علی بن ابی طالب کی خلافت کا آغاز نبوت کے پہلے دن سے ہواتھا۔ کتاب "تاریخ طبری" جلد 1 صفحہ 542 اور کتاب "الکامل لابن اثیر" جلد 1 صفحہ 585 میں اس دن کا تذکرہ کیا ہے جب آیت شریفہ:
(وَ أَنْذِرْ عَشِیرَتَک الْأَقْرَبِین)
اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کریں۔
سوره شعراء (26): آیه 214
نازل ہوئی، رسول اللہ ﷺ نے اعلانِ رسالت کے پہلے دن تین باتیں فرمائیں۔ پہلی بات یہ تھی کہ بت پرستی کو روکا جائے اور خدا پرست بن جائے۔ دوسرا مضمون یہ تھا کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ تیسری بات یہ تھی کہ انہوں نے علی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا:
«إن هذا أخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعو له وأطیعوا»
بے شک وہ تمہارے درمیان میرا بھائی، ولی اور جانشین ہے۔ اس کی بات سنو اور اس کی مدد کرو۔
تاریخ الطبری، اسم المؤلف: لأبی جعفر محمد بن جریر الطبری، دار النشر: دار الکتب العلمیة – بیروت، ج 1، ص 542 - 543، باب ذکر الخبر عما کان من أمر نبی الله عند ابتداء الله تعالی ذکره إیاه بإکرامه بإرسال جبریل علیه السلام إلیه بوحیه
رسالت کے اعلان کے پہلے دن ہی ولایت کے اعلان ہوا ہے۔ یہ مسئلہ ، مکہ کا مسئلہ ہے اور اس جلسہ میں قریش کے سردار بھی موجود تھے اور گواہ بھی تھے۔جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«وأنت خلیفتی فی کل مؤمن من بعدی»
سب وہاں موجود تھے اور تمام مسلمانوں نے سوائے منافقین کے سب نے اس مسئلہ کو دیکھا۔ اس جلسہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«وأنت خلیفتی فی کل مؤمن من بعدی»
و:
«أنت ولی کل مؤمن بعدی ومؤمنة»
المستدرک علی الصحیحین، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاکم النیسابوری، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - 1411 هـ - 1990 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، ج 3، ص 143، ح 4652
حکیم نیشابوری اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس روایت میں صحیح مسلم کی شرط ہے۔ "البانی" نے اس روایت کو کتاب "سلسلة الأحادیث الصحیحة"، جلد 5، صفحہ 222 میں نقل کیا ہے۔ حکیم نیشابوری دوسری روایت میں بیان کرتے ہیں:
«أوحی إلی فی علی ثلاث أنه سید المسلمین وإمام المتقین وقائد الغر المحجلین»
اے لوگو! آگاہ رہو کہ علی کے بارے میں خدا کی طرف سے مجھ پر تین امور نازل ہوئے۔ وہ مسلمانوں کا آقا اور رؤفاء کے علمبردار اور قیامت تک کے زندہ رہنے والا اور متقین کا امام ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
«هذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاه»
المستدرک علی الصحیحین، اسم المؤلف: محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاکم النیسابوری، دار النشر: دار الکتب العلمیة - بیروت - 1411 هـ - 1990 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا، ج 3، ص 148، ح 4668
میں نے دیکھا کہ ایک وہابی نے اس روایت پر اعتراض کیا اور دعویٰ کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی بن ابی طالب ایک متقین کا امام ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ علی بن ابی طالب سب کے امام نہیں ہیں کیوں کہ تمام مسلمان متقی نہیں ہیں۔
ہمیں واقعاً کہنا چاہیے: "الحمدللہ الذی جل افدنا من الحمقا"۔ بے شک، ہم یہ بات بے وقوفوں سے معذرت کے ساتھ کہتے ہیں تاکہ بیوقوفوں کی دل آزاری نہ ہو۔ قرآن پاک واضح طور پر کہتا ہے:
(الم ذلِک الْکتابُ لا رَیبَ فِیهِ هُدی لِلْمُتَّقِین)
الم۔ یہ (قرآن) وہ کتاب ہے جس (کے کلام اللہ ہونے) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ (یہ) ہدایت ہے ان پرہیزگاروں کے لیے۔
سوره بقره (2): آیات 1 و 2
لہٰذا قرآن کریم غیر متقیوں ، کافروں اور فاسقوں اور غیر متقیوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ نہیں ہے!! یہ آیت قرآن کریم کے شروع میں ہے اور قرآن کے درمیان میں نہیں ہے کہ وہ کہہ سکیں کہ ہم نے اسے نہیں پڑھا۔جس نے قرآن پاک پڑھا ہے وہ سورہ بقرہ کی ابتدا کو جانتا ہے۔
(الم ذلِک الْکتابُ لا رَیبَ فِیهِ هُدی لِلْمُتَّقِین)
اس سے زیادہ واضح اور و روشن؟! اس آیت مبارکہ میں قرآن پاک متقیوں کے لیے ہدایت ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن پاک صرف متقیوں کی رہنمائی کرتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے تاکہ ہر شخص متقی ہو۔ بالکل واضح اور و روشن!
قرآن پاک متقیوں کی بنیاد ہے۔ علی بن ابی طالب متقین کے بانی ہیں۔ بہت سی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«یا علی، أنت تبین لأمّتی ما اختلفوا فیه من بعدی»
اے علی! آپ ان کو بتائیں گے کہ میرے بعد میری امت کس چیز میں اختلاف کرتی ہے۔
غرر الأخبار، نویسنده: دیلمی، حسن بن محمد، محقق / مصحح: ضیغم، اسماعیل، ص 225، الفصل التاسع عشر یتضمّن مولد سیدنا رسول اللّه صلّی اللّه علیه و آله و وفاته
و:
«إِنْ وَلَّیتُمُوهَا عَلِیاً فَهَادٍ مُهْتَدٍ یقِیمُکمْ عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیم»
اگر تم لوگ علی کو اپنا خلیفہ اور ولی بناتے ہو، حالانکہ میں جانتا ہوں کہ تم لوگ ایسا نہیں کرو گے، علی ہدایت یافتہ ہیں اور تم سب کو راہ راست کی طرف ھدایت کریں گے۔
شواهد التنزیل لقواعد التفضیل، نویسنده: حسکانی، عبید الله بن عبد الله، محقق / مصحح: محمودی، محمدباقر، ج 1، ص 85، ح 104
یہاں یہ ذکر کیا جا رہا ہے کہ علی ابن ابی طالب "وإمام المتقین" ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر متقیوں کاامام نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عام لوگوں کا امام ہے اور سب کی رہنمائی کرتا ہے اور انہیں تقویٰ کی راہ پر لا تا ہے۔
امام کا کام لوگوں کو مخلص اور متقی بنانا ہے۔ امام کے فرائض میں سے ایک فریضہ اور امام کے کاموں میں سے ایک کام لوگوں کو متقی بنانا ہے۔
معاشرے میں ائمہ کو چاہیے کہ معاشرے کو تقویٰ کی طرف رہنمائی کریں اور معاشرے کے لوگوں کو تقویٰ کی طرف اور لوگوں کو تقویٰ کا لباس پہنائیں۔
’’محمود بن لبید‘‘ کی روایت میں ہے کہ:
«قُلْتُ هَلْ نَصَّ رَسُولُ اللَّهِ ص قَبْلَ وَفَاتِهِ عَلَی عَلِی بِالْإِمَامَةِ»
میں نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وفات سے پہلے علی ابن ابی طالب کی امامت کو واضح طور پر بیان کیا تھا؟!
میرا شک یہ ہے کہ شاید "محمود بن لبید" نے "مَنْ کنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِی مَوْلَاهُ" کی روایت سنی ہو اور خیال کیا ہو کہ شاید "مَوْلَاهُ" کا کوئی اور معنی ہے، لیکن وہ کہتا ہے کہ میں نے امامت کا لفظ نہیں سنا۔
«قَالَتْ وَا عَجَبَاهْ أَ نَسِیتُمْ یوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ»
حضرت صدیقہ طاہرہ نے فرمایا: کیا تم غدیر خم کا دن بھول گئے ہو؟!
یعنی وہی "مَنْ کنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِی مَوْلَاهُ" امیر المومنین کی خلافت پر دلیل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔
«من کنت ولیه فعلی ولیه»
میں جس کاولی امر ہوں، علی اس کے ولی امر ہے۔
السنة، اسم المؤلف: عمرو بن أبی عاصم الضحاک الشیبانی، دار النشر: المکتب الإسلامی - بیروت - 1400، الطبعة: الأولی، تحقیق: محمد ناصر الدین الألبانی، ج 2، ص 644، ح 1555
خطبہ سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«الست اولی بکم من انفسکم»
البدایة والنهایة، اسم المؤلف: إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی أبو الفداء، دار النشر: مکتبة المعارف – بیروت، ج 7، ص 350، باب حدیث غدیر خم
یہ جملہ کیا بتاتا ہے؟! "مولی" اور "ولی" کے الفاظ مذکور ہیں یا دوسری جگہوں پر "امام" کا لفظ آیا ہے۔ راوی کہتا ہے:
«قُلْتُ قَدْ کانَ ذَلِک وَ لَکنْ أَخْبِرِینِی بِمَا أَسَرَّ إِلَیک»
میں نے کہا: ہم نے یہ باتیں سنی ہیں، لیکن میں وہ باتیں سننا چاہتا ہوں جو علی بن ابی طالب کی امامت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو رازداری میں فرمایا تھا۔
«قَالَتْ أُشْهِدُ اللَّهَ تَعَالَی لَقَدْ سَمِعْتُهُ یقُولُ عَلِی خَیرُ مَنْ أُخَلِّفُهُ فِیکمْ وَ هُوَ الْإِمَامُ وَ الْخَلِیفَةُ بَعْدِی»
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا: میں خدا کو گواہ بناتی ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ علی بن ابی طالب بہترین انسان ہیں جنہیں میں تمہارے درمیان خلیفہ بناؤں گا اور وہ میرے بعد امام اور خلیفہ ہیں۔
«وَ سِبْطَای وَ تِسْعَةٌ مِنْ صُلْبِ الْحُسَینِ أَئِمَّةٌ أَبْرَارٌ»
ان کے بعد میں نے دو نور حسن اور حسین کو دیکھا ہے جو امامت پر پہنچتے ہیں اور حسین کے نو فرزند امامت پر پہنچتے ہیں جو ابرار کے امام ہیں۔
«لَئِنِ اتَّبَعْتُمُوهُمْ وَجَدْتُمُوهُمْ هَادِینَ مَهْدِیینَ»
اگر تم علی اور اولاد علی کی پیروی کرو گے تو ان دونوں کو ہدایت یافتہ اور ہدایت کرنے والے پاؤ گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ معززین هدایت یافته ہیں اور هدایت کر رہے ہیں۔
«وَ لَئِنْ خَالَفْتُمُوهُمْ لَیکونُ الِاخْتِلَافُ فِیکمْ إِلَی یوْمِ الْقِیامَة»
اگر تم لوگ ان سے اختلاف کرتے ہو تو اس اختلاف کی ابتدا تم سے ہے اور اس کا انجام قیامت تک رہے گا۔
اس روایت میں ایک اور پیغام بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر تم لوگ امیر المومنین اور اہل بیت رسول اللہ اور ائمہ ابرار سے اختلاف کیا اور معاشرہ انتشار اور کشمکش میں پڑ گیا فتنہ پیدا ہوا اور قتل و غارت شروع ہو گئی تو تم لوگ جو جھگڑے کا آغاز کرنے والے ہو، لوگوں کے تمام اعمال قیامت تک تم لوگوں کے ساتھ رہے گا۔
یہ ایک لطیف نکتہ ہے۔ ہمیں روایت کے گہرایی تک جاکر اس کا تجزیہ کرنا ہوگا اورروایت کے گہرایی سے معصوم کا پیغام نکالنا ہوگا۔
«وَ لَئِنْ خَالَفْتُمُوهُمْ لَیکونُ الِاخْتِلَافُ فِیکمْ إِلَی یوْمِ الْقِیامَة»
اسی طرح روایت کوجاری رکھتے ہوۓ یہ بھی کہا گیا ہے:
«أَمَا وَ اللَّهِ لَوْ تَرَکوا الْحَقَّ عَلَی أَهْلِهِ وَ اتَّبَعُوا عِتْرَةَ نَبِیهِ لَمَا اخْتَلَفَ فِی اللَّهِ تَعَالَی اثْنَانِ»
خدا کی قسم اگر تم حق کو حق دار کے اختیار میں چھوڑ دو اور حضور کے فرمان پر عمل کرو گے تو خدا کے معاملے میں دو لوگ ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کریں گے۔
یہاں "خدا کے بارے میں" ذکر نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو افراد شریعت و مذہب اور دینی و دنیاوی مسائل میں اختلاف نہیں کریں گے۔
«وَ لَوَرِثَهَا سَلَفٌ عَنْ سَلَفٍ وَ خَلَفٌ بَعْدَ خَلَفٍ حَتَّی یقُومَ قَائِمُنَا التَّاسِعُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَینِ»
حضرت مزید فرماتے ہیں:
«وَ لَکنْ قَدَّمُوا مَنْ أَخَّرَهُ وَ أَخَّرُوا مَنْ قَدَّمَهُ اللَّهُ»
لیکن بدقسمتی سے تم نے ان لوگوں کو آگے بڑھایا جنہیں خدا نےمؤخر کیا تھا اور جنہیں خدا نےمقدم کیا تھا انہیں مؤخر کیا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے بیان کا مفہوم یہ ہے کہ تم لوگوں نے صالحین کو چھوڑ کر غیر صالحین کو صالحین کی جگہ پر رکھ دیا۔
«وَ عَمِلُوا بِآرَائِهِمْ تَبّاً لَهُمْ أَ وَ لَمْ یسْمَعُوا اللَّهَ یقُولُ وَ رَبُّک یخْلُقُ ما یشاءُ وَ یخْتارُ ما کانَ لَهُمُ الْخِیرَة»
اور تم لوگوں نے اپنے ووٹوں کے ذریعے ایک انتخاب کیا، گویا تم لوگوں نے خدا کے کلام کو نہیں سنا، جس نے کہا: خدا کائنات کا خالق ہے، اور خدا ہی پیغمبر، امام اور ہدایت کا انتخاب کرنے والا ہے۔
وہ انسانوں کا خالق ہے جو اچھے اور برے اور برے اور اچھے میں تمیز کر سکتا ہے۔ کوئی ایسا شخص جس کا تعلق وحی اور انسان کے خالق سے ہو، وہ تمیز کر سکتا ہے کہ اس معاشرے کے لیے کون سی ہدایت اچھی ہے اور کون سی انحراف بری ہے۔ تم لوگوں نے یہ اللہ کے حکم کے خلاف کام کیا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے مزید فرمایا:
«فَتَعْساً لَهُمْ وَ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ أَعُوذُ بِک یا رَبِّ مِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ الْکوْر»
تم لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اتنے نعرے لگائے اور اتحاد و اتفاق اور اطاعت کی اور شہید ہو ئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تم لوگوں نے ان تمام عزت و افتخارات کو مٹا دیا اور برباد کر دیا۔
کفایة الأثر فی النصّ علی الأئمة الإثنی عشر، نویسنده: خزاز رازی، علی بن محمد، محقق / مصحح: حسینی کوهکمری، عبد اللطیف، ص 198، باب ما جاء عن فاطمة ص عن النبی ص فی النصوص علی الأئمة الاثنی عشر ع
میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔
ناظم:
استاد اپ کا بہت بہت شکریہ۔ایک مختصر وقفے کے لۓ اپ سے اجازت چاہتےہیں، ہم واپس آ کر آپ کی خدمت میں دوبارہ گفتگو شروع کریں گے۔
استاد نے حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پرجوش دفاع کیا اور بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے۔
اگر ہمارا مقصد خود خدا ہو اور ہم اپنی آنکھیں کھولیں تو ہم حقائق کا ادراک کر سکتے ہیں۔
معزز ناظرین، ہم حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یومِ ولادت کے موقع پر "أم أبیها" پروگرام میں آپ کے مہمان ہیں اور "حضرت ولی عصر گلوبل نیٹ ورک" سے یہ پروگرام دیکھنے کا بہت بہت شکریہ۔
ہم آیت اللہ حسینی قزوینی کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ہم نے سوالات کیے اور استاد محترم نے بہت ہی اچھےانداز میں جواب دیے اور ہم فیض حاصل کۓ۔
مجھے اس خطبے کے بارے میں بتائیے جو حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا نے بیان فرمایااور وہ قریش اور خلفاء پر سخت تنقید تھا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور قریش اور اصحاب پر کڑی تنقید!
حضرت آیت اللہ حسینی قزوینی:
یہ ایک لطیف نکتہ ہے۔ حضرت صدیقہ طاہرہسلام الله علیها کا ایک قول جو انہوں نے مسجد میں ارشاد فرمایا اس سلسلے میں ہے۔
"ابن ابی طیفور" یا "ابن ابی طاہر" جو اہل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں اور 280 ہجری میں فوت ہوئے، نے اس سلسلے میں ایک روایت بیان کیا ہے۔
درحقیقت وہ امام ہادی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام دونوں کو درک کیا ہے اور ہمارے علماء میں سے وہ "کلینی" کے زمانے اور "شیخ صدوق" کے والد کو درک کیا ہے ۔
یہ تمام معاملات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسے ماحول میں پلا بڑھا ہے جہاں یہ بحثیں سینه با سینه ان لوگوں کے تک پہنچا ہے۔
"امام ابوالفضل احمد بن ابی طاہر" 204ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے۔وہ اسی سال پیدا ہوئے جس سال "امام شافعی" کا انتقال ہوا۔ سنہ 204 ہجری آٹھویں امام کی شہادت کے دو سال بعد اور امام جواد کی امامت کا دوسرا سال تھا۔
ہم یہ باتیں اس لیے کہہ رہے ہیں تاکہ ہمارے دوست اس ماحول کو جان سکیں جس میں وہ رہتا تھا۔ انہوں نے بچپن میں امام جواد کو درک کیاہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب امام جواد کا انتقال ہوا تو ان کی عمر سولہ سال تھی۔
سترہ سال کی عمر سے لے کر تقریباً پینتالیس سال تک اس نے امام ہادی اور امام حسن عسکری کے دور کو پوری طرح سے درک کیا ہے۔
کتاب "بلاغات النساء" میں انہوں نے مسجد میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کلام اور خطبات کا اظہار کیا ہے۔ اس خطبہ میں حضرت صدیقہ طاہرہ کا ایک قول یہ ہے کہ وہ فرماتی ہیں:
«و ما الذی نقموا من أبی الحسن»
تم نے ابوالحسن سے کیسا بدلہ لیا؟!
ان کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ تم لوگوں نے علی بن ابی طالب کو چھوڑ کر اس کی جگہ کسی اور کو کیوں انتخاب کیا!
«نقموا و الله منه نکیر سیفه و شدة وطأته و نکال وقعته و تنمره فی ذات الله»
انہیں علی کی تلوار چلانا اور انہیں سخت لات مارنا، ان کے اعمال کی سخت سزا اور خدا کی راہ میں سختی پسند نہیں تھی۔
بلاغات النساء، اسم المؤلف: أبو الفضل أحمد بن أبی طاهر ابن طیفور (المتوفى: 280هـ)، ج1، ص 9، باب کلام فاطمة بنت رسول الله ص
حضرت فاطمہ زہرا نے واضح طور پر فرمایا کہ علی بن ابی طالب نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا اور کسی کا حق تلف نہیں کیا، سوائے اس کے کہ ان کی تلوار کی ضرب ان مشرکوں اور کافروں پر پڑی جو تم لوگوں کے رشتہ داروں میں سے تھے۔
تم لوگ ان مشرکوں کے قتل کا بدلہ لے رہے ہو جو تمہارے رشتہ داروں میں سے تھے اور بدر، احد اور دیگر جنگوں میں زمین بوس ہوئے تھے۔ورنہ امیر المومنین کا کوئی اور جرم نہیں ہے۔
اس سلسلے میں اہل سنت کی کتب میں سے حسکانی کی کتاب "التنزیل کے شواہد" میں جو اہل سنت کے بڑے علماء میں سے ہیں اور 5ویں صدی ہجری میں کچھ روایت نقل کی ہے۔
وہ "شیخ طوسی" اور "شیخ نجاشی" کے ہم عصر تھے اور شاید "سید مرتضیٰ" کی عمر کا ایک حصہ درک کیا ہے۔
"حسکانی" کتاب "شواهد التنزیل" کے صفحہ 253 پر ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سورہ مبارکہ مائدہ کی آیت نمبر 67 لیکر نازل ہوۓ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(یا أَیهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَیک مِنْ رَبِّک وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ یعْصِمُک مِنَ النَّاس)
اے رسول! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے۔ اسے (لوگوں تک) پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو (پھر یہ سمجھا جائے گا کہ) آپ نے اس کا کوئی پیغام پہنچایا ہی نہیں۔ اور اللہ آپ کی لوگوں (کے شر) سے حفاظت کرے گا بے شک خدا کافروں کو ہدایت نہیں کرتا۔
سوره مائده (5): آیه 67
وہ مزید لکھتے ہیں:
«إِنَّ اللَّهَ یأْمُرُک أَنْ تَدُلَّ أُمَّتَک عَلَی صَلَاتِهِمْ. فَدُلَّهُمْ عَلَیهَا، ثُمَّ هَبَطَ- فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ یأْمُرُک أَنْ تَدُلَّ أُمَّتَک عَلَی زَکاتِهِمْ. فَدُلَّهُمْ عَلَیهَا، ثُمَّ هَبَطَ- فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ یأْمُرُک أَنْ تَدُلَّ أُمَّتَک عَلَی صِیامِهِمْ. فَدُلَّهُمْ، ثُمَّ هَبَطَ- فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ یأْمُرُک أَنْ تَدُلَّ أُمَّتَک عَلَی حَجِّهِمْ- فَفَعَلَ، ثُمَّ هَبَطَ»
پھر لکھتے ہیں:
«إِنَّ اللَّهَ یأْمُرُک أَنْ تَدُلَّ أُمَّتَک عَلَی وَلِیهِمْ- عَلَی مِثْلِ مَا دَلَلْتَهُمْ عَلَیهِ مِنْ صَلَاتِهِمْ وَ زَکاتِهِمْ وَ صِیامِهِمْ وَ حَجِّهِمْ- لِیلْزَمَهُمُ الْحُجَّةُ فِی جَمِیعِ ذَلِک»
جس طرح آپ نے لوگوں کو نماز، زکوٰۃ، حج اور روزے کے بارے میں بتایا، اسی طرح لوگوں کو ان کے ولی اور اپنے بعد خلیفہ اور امام کی طرف رہنمائی فرما، تاکہ ان کے لیے حجت مکمل ہو۔
«فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: یا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی قَرِیبُو عَهْدٍ بِالْجَاهِلِیةِ»
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے میرے خدا، میری قوم ابھی جہالت سے نکلی ہے اور جہالت کے اثرات ان کی روح پر ظاہر ہیں۔
البتہ کتاب "صحیح بخاری" اور "صحیح مسلم" میں حجر اسمٰعیل کے مسئلہ کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ کے ارشاد سے واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ مکہ میں داخل کیوں نہیں ہوتا:
«أَنَّ قَوْمَک حَدِیثٌ عهد بِالْجَاهِلِیةِ»
الجامع الصحیح المختصر، اسم المؤلف: محمد بن إسماعیل أبو عبدالله البخاری الجعفی، دار النشر: دار ابن کثیر, الیمامة - بیروت - 1407 - 1987، الطبعة: الثالثة، تحقیق: د. مصطفی دیب البغا، ج 6، ص 2646، ح 6816
پیغمبر اسلام نے واضح طور پر فرمایا: اے عائشہ! آپ کی قوم ابھی جہالت سے نکلی ہے اور ان کی روح سے جہالت کے اثرات دور نہیں ہوئے ہیں۔اگر میں حجر اسماعیل کو خدا کے گھر میں لے آؤں تو فتنہ پیدا ہو جائے گا۔
یہ تعبیر زیادہ بعید نہیں ہے۔ بعض سنی ناظرین سوچ سکتے ہیں کہ یہاں "أَنَّ قَوْمَک حَدِیثٌ عهد بِالْجَاهِلِیةِ" کا ذکر کیوں کیا گیا ہے۔ یہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی منطق ہے۔ رسول اسلام اس سلسلہ کو جاری رکھتے ہوۓ فرمایاہے:
«وَ فِیهِمْ تَنَافُسٌ وَ فَخْرٌ»
میری قوم میں اب بھی فخر و عظمت اور برتری کا جذبہ موجود ہے۔
«وَ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَ قَدْ وَتَرَهُ وَلِیهُمْ»
میری امت میں سے ہر ایک نے اپنے ایک رشتہ دار کو علی بن ابی طالب کے توسط سے کھو دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا کہ ہر ایک قبائلی سردار جو میرے ارد گرد ہیں، علی بن ابی طالب نے ان کے ایک رشتہ دار کو جنگوں میں واصل جہنم کیا ہے اور اسی وجہ سےان لوگوں کو علی سے بغض ہے۔
اگر میں نے علی بن ابی طالب کا تعارف کرایا تو مجھے ڈر ہے کہ وہ میری بات نہ مانیں گے اور فتنہ پیدا ہو جائے گا۔
«وَ إِنِّی أَخَافُ»
اور مجھے ڈر لگتا ہے۔
یہ تعبیربڑی عجیب و غریب تعبیر ہے۔ پھر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:
«فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی: یا أَیهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَیک مِنْ رَبِّک- وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَه»
شواهد التنزیل لقواعد التفضیل، نویسنده: حسکانی، عبید الله بن عبد الله، محقق / مصحح: محمودی، محمدباقر، ج 1، ص 254، ح 248
اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر اسلام نے دیکھا کہ کچھ بھی ہو جائے، لوگوں کے لیے حجت تمام ہونی چاہیے، خواہ وہ مانیں یا نہ مانیں۔
ابن ابی الحدید معتزلی کی کتاب "شرح نهج البلاغه" جلد 20 میں اس موضوع پر ایک مضمون موجود ہے۔ بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ "ابن ابی الحدید" شیعہ ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ معتزلی ہونے کا شیعہ ہونے سے کیا تعلق ہے!!
یہ دعویٰ ایسا ہی ہے جیسے کہے کہ فلاں عیسائی مسلمان ہے۔ بہرحال معتزلہ شیعہ کے خلاف ایک فرقہ ہے اور وہ ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔
"ابن ابی الحدید" نے پوری اس کتاب میں ابوبکر اور عمر بن خطاب کی خلافت کا بھرپور طریقے سے دفاع کیا ہے۔ہم نہیں جانتے کہ کسی شیعہ نے اس طرح خلفا کی خلافت کا دفاع کیا ہو۔
دوسری طرف شیعہ کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی نے اسلام اور رسول اللہ کی اتنی خدمت نہیں کی جتنی ابو طالب نے کی، لیکن "ابن ابی الحدید" حضرت ابو طالب کی کفر کے معتقد ہے!!
دوسری طرف شیعہ نہ صرف حضرت ابو طالب کے عقیدے پر یقین رکھتے ہیں بلکہ بہت سے صحابہ پر حضرت ابو طالب کی برتری وفضیلت کو بھی مانتے ہیں۔
ہم اس شخص کو شیعہ نہیں کہہ سکتے، لیکن چونکہ انہوں نے بعض معاملات میں اچھی چیزیں بیان فرمایی ہیں جو لوگوں کے ذوق کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے وہ اسے شیعہ قرار دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر "نسائی" کتاب "سنن نسائی" کے مصنف اور صحاح ستہ میں سے ہیں۔ جب وہ شام آئے اور علی ابن ابی طالب کے فضائل منبر پر پیش کیے تو انہوں نے ان سے کہا کہ معاویہ کے فضائل بیان کرو۔
"نسائی" نے جواب دیا: "کیا معاویہ کی کوئی خوبی تھی جس کا میں ذکر کروں۔ لوگ اس کی طرف بڑھے، اسے مارا پیٹا اور مسجد سے باہر نکال دیا۔ اس نے اردگرد کے لوگوں سے کہا کہ مجھے مکہ لے جائیں لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ دیا۔
بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ نسائی شیعہ تھا!!اب اگر وہ شیعہ تھا تو اس کی کتاب کو صحاح سته کیوں سمجھا جاتا ہے؟! اس حساب سے آپ کے صحاح ستہ کو شیعوں نے لکھا تھاتو پھر کہنا چاہیۓ: "انا اللہ و انا الیہ راجعون"!
بہرحال، "ابن ابی الحدید" کتاب "شرح نهج البلاغه" جلد 20 میں امیر المومنین علیہ السلام کے ارشادات کے بارے میں لکھتے ہیں:
«کل حقد حقدته قریش علی رسول الله ص أظهرته فی»
قریش نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو رنجشیں ظاہر کیں وہ سب مجھ پر بھی ہیں۔
«و ستظهره فی ولدی من بعدی»
اور میرے بعد وہ میرے بچوں کے خلاف یہ رنجشیں ظاہر کریں گے۔
امام حسن مجتبی اور امام حسین اور دیگر فرزندانِ حضرت کا معاملہ اسی رنجش کا نتیجہ ہے۔ حضرت مزید فرماتے ہیں:
«ما لی و لقریش إنما وترتهم بأمر الله و أمر رسوله»
اگر میں نے جنگوں میں ان کے لیڈروں کا سر قلم کیا اور قتل کیا تو یہ خدا اور اس کے رسول کے حکم سے تھا۔
«أ فهذا جزاء من أطاع الله و رسوله إن کانوا مسلمین»
کیا خدا اور رسول کی اطاعت کرنے والوں کا یہی صلہ ہے؟!
شرح نهج البلاغة لابن أبی الحدید، نویسنده: ابن أبی الحدید، عبد الحمید بن هبة الله، محقق / مصحح: ابراهیم، محمد ابوالفضل، ج 20، ص 328، ح 764
کیا یہ شخص اس قابل ہے کہ اس کا گھر جلایاجائے، بیوی کو اس کی آنکھوں کے سامنے ماراجائے اور اسے گھر میں رہنے کیلۓ مجبور کیا جاۓ ؟! کیا خدا اور رسول کی اطاعت کرنے والے کی یہی جزا ہے؟! اس کتاب میں مزید ذکر ہے کہ حضرت فرماتے ہیں:
«اللهم إنی أستعدیک علی قریش»
خدارا قریش کے مقابلے میں میری مدد فرما۔
«فإنهم أضمروا لرسولک ص ضروبا من الشر و الغدر»
کیونکہ قریش آپ کے نبی کو قتل اورنابود کرنا چاہتےتھے۔
امیر المومنین کے بقول قریش نے پیغمبر اسلام کو قتل کرنے اور ان کو ختم کرنے کے لیے ہر طرح کی برائیاں، خیانتیں اور حربے استعمال کیے تھے۔ واقعہ لیلۃ المبیت، غزوہ تبوک، جنگ بدر، جنگ احد، جنگ احزاب اور دیگر جنگیں اس حقیقت کی دلیل ہیں۔
«فعجزوا عنها»
لیکن وہ اس سے قاصر تھے۔
«و حلت بینهم و بینها»
اےخدا تونے اپنے نبی کو قریش کے شر سے محفوظ رکھا۔
«فکانت الوجبة بی و الدائرة علی»
پھر ان لوگوں نے مجھ سے تیرے نبی کا بدلہ لیا اور میرے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔
«اللهم احفظ حسنا و حسینا»
اےخدا حسن و حسین کو قریش کے شر سے بچا۔
شرح نهج البلاغة لابن أبی الحدید، نویسنده: ابن أبی الحدید، عبد الحمید بن هبة الله، محقق / مصحح: ابراهیم، محمد ابوالفضل، ج 20، ص 298، ح 413
ہمارے پاس اس بارے میں کہنے کو بہت کچھ ہے۔ "ابو نعیم اصفہانی" جو 420 ہجری میں فوت ہوئے، نے کتاب "معرفة الصحابة" کی پہلی جلد میں ایک عجیب و غریب تشریح کی ہے جو اہل سنت کی معتبر ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔
اس کتاب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ لوگوں نے علی بن ابی طالب کے قول پر عمل نہیں کیا اورحضرت کے بجائے کسی اور کو انتخاب لیا۔
«قال عثمان لعلی رضی الله عنهما: ما ذنبی إن لم تحبک قریش»
عثمان نے امیر المومنین سے کہا: میرا کیا گناہ ہے کہ قریش تم سے محبت نہیں کرتے!؟
«وقد قتلت منهم سبعین رجلا کأن وجوههم سیوف الذهب؟»
ایک دن میں تم نے ان میں سے سترلوگوں کو قتل کر دیا جن کے چہرے سونے کی طرح چمکے تھے۔
معرفة الصحابة، اسم المؤلف: لأبی نعیم الأصبهانی، ج 1، ص 86، ح 338
اس تقریر سے مراد جنگ بدر ہے۔ جب حضرت صدیقہ طاہرہ سلام الله علیها فرماتی ہیں:
«نقموا و الله منه نکیر سیفه و شدة وطأته و نکال وقعته و تنمره فی ذات الله»
یعنی اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاملہ ایک گہرا معاملہ ہے جس میں حضرت صدیقہ طاہرہ نے قریش کے ان کاموں کے سلسلہ میں جو انہوں نے امیر المومنین کے ساتھ کیا تھا، مہاجرین اور انصار سے خطاب کیا تھا۔علی بن ابی طالب کوئی جرم نہیں کیا، سوائے اس کے کہ علی نے اپنی تیز تلوار سے جنگوں میں تمہارے دوستوں، رشتہ داروں اور قرابتداروں کا سر قلم کیا اور قتل کیا۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عثمان بھی کہتا ہیں: میرا کیا گناہ ہے کہ قریش تم سے محبت نہیں کرتے۔ تم نے جنگ بدر میں ان کے ستر لوگوں کو قتل کیا!!
جنگ احد میں قریش میں سے اگر کوئی مارا گیا تو امیر المومنین کی تلوار سے مارا گیا۔ باقی سب پہاڑی بکریوں کی طرح بھاگے اور احد پہاڑ کی چوٹی پر چلے گئے!!
نیز جنگ حنین میں علی بن ابی طالب نے تھوڑے سے لوگوں کے ساتھ تتلی کی طرح حضور کے ارد گرد چکر لگاتے رہے اور بارہ ہزار لوگ بھاگ کر چلے گئے۔ یہ تعدادکوئی مذاق نہیں ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ احد کی جنگ میں سات سو کے قریب لوگ تھے اس سے زیادہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہزار آدمی جا رہے تھے لیکن درمیان میں منافقین کے سردار عبداللہ ابی نے 300 لوگوں کو پیچھے کر دیا اور وہ تقریباً 700 لوگوں کو چھوڑ گیا۔
ناظم:
استاد جب وہ لوگ بھاگ رہے تھے کیا ان کا کوئی لیڈر بھی تھا؟!
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
ہاں عبداللہ ابی منافقین کا سردار تھا۔ اس موضوع کے سلسلے میں قصہ طولانی ہے۔ غزوہ احد کا واقعہ بتاتا ہے کہ صحابہ کرام سب ایک جیسے نہیں تھے۔
صحابہ کی ایک جماعت تھی جو حضور کے ساتھ لڑتے ہوۓ شہید ہوئے۔ ان پر درود و سلام ہو۔ ہم قیامت کے دن ان سے شفاعت کی امید رکھتے ہیں اور ہم ان پر درود و سلام بھیجتے ہیں۔
نیز ہم ان اصحاب کو بھی سلام پیش کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امیر المومنین کے ساتھ تھے اور ہم ان سے شفاعت کی امید رکھتے ہیں۔
دوسری طرف صحابہ کا ایک اور گروہ تھا جو جنگ احد میں "عبداللہ ابی" کے اکسانے پر واپس آیا تھا جو کفر کے خلاف اسلام کی مکمل جنگ تھی اور اسی جنگ احد میں صحابہ کرام کی نافرمانی کے نتیجے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے 72 صحابہ شہید ہو گئے تھے۔
اس جنگ میں قصور وار کون تھے؟! کیا یہود و نصاریٰ قصور وار تھے یا وہ صحابہ تھے؟! ہمیں ان مسائل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں تاریخی حقائق لوگوں کو بتانا چاہیے۔
میں نے کئی بار کہا ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت آیت اللہ جوادی آملی کے خدمت میں تھا۔انہوں نے مجھ سے فرمایا: اگر تم نے یہ حقائق نہیں بتائے تو سنی نوجوان تمہیں پل صراط پر روکیں گے اور احتجاج کریں گے کہ تم نے یہ مسائل کیوں نہیں بتائے۔
ہمارے بزرگ ہمیں یہ مسائل نہیں بتاتے، لیکن آپ نے ہمیں یہ مسائل کیوں نہیں بتائے؟! اگر آپ ہمیں یہ مسائل بتاتے تو ہم اج ہم راہ راست پر ہوتے۔
ہمیں واقعی ڈر ہے کہ سنی نوجوان ہمارے بارے میں شکایت کریں گے اور ہم ان کا جواب نہیں دے پائیں گے۔ لہٰذا، ہم ان مطالب کو کہنے پر مجبور ہیں، لیکن کتاب "انسان دویست و پنجاه ساله" میں سپریم لیڈر کی تشریح کے مطابق ان کے ساتھ توہین اور فحاشی نہیں ہونی چاہیے۔
صفحہ 450سے 470 تک وہ امیر المومنین کے مقدمات پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ہم علی بن ابی طالب کی تاریخ کا تذکرہ نہیں کر سکتے، لیکن جنگ جمل کا بھی ذکر نہیں کر سکتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی اور دو صحابہ نے تشکیل دی تھی۔
اس جنگ میں تقریباً بیس ہزار لوگ مارے گئے۔ ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم جنگ صفین کا ذکر نہ کر یں۔ ہمیں تاریخی حقائق ضرور بتانا چاہیے لیکن اس شرط پر کہ اس کے ساتھ طعن و تشنیع، بدتمیزی، لعن طعن، گالی گلوچ نہ ہو۔
تاریخی حقائق کو دو طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم لعنت کے ساتھ صحابہ کا نام لیں جو کہ منطقی طور پر بالکل درست نہیں۔
اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی قرآنی آیت نہیں ہے، ہمارے پاس روایات نہیں ہیں، ہمارا فتویٰ لعنت کے بارے میں نہیں ہے، اور یہ صرف ہماری عقل کہتی ہے کہ ہم لعنت نہ کریں۔
ہم نے کئی بار کہا ہے کہ اگر ہم عقل سے کام لیں اور ہم چاہتے ہیں کہ شیعہ اور سنی دونوں ہماری بات سنیں تو ہماری زبان طعن و تشنیع سے پاک ہونی چاہیے۔
"اللہ یاری" جو امریکہ میں بیٹھا ہے، ایک دن عائشہ، ابوبکر اور عمر سے لڑتا ہے اور ایک دن امام خمینی سے لڑتا ہے۔ ایک دن وہ سپریم لیڈر سے لڑتا ہے اور ایک دن مراجع عظام تقلید سے لڑتا ہے۔
حال ہی میں اس نے روحانی لباس چھوڑ کر کوٹ ٹائی پہنا شروع کردیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کب تک عیسائیت ، یہودیت یا اسرائیل کا دفاع کرنا چاہتا ہے۔ بعید نہیں ہے ایک دن وہ اپنے آپ کو صیہونیت کے محافظ کے طور پر متعارف کرائے گا۔
شیعہ حضرات اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہے۔ اگر ہم دوسرے فریق سے نازیبا الفاظ میں باتیں کرنے لگیں اور سنیوں کے مقدسات کی توہین کرنے لگیں تو نہ صرف سنی بلکہ نوجوان شیعہ بھی ہماری ان باتوں کو قبول نہیں کریں گے۔
نوجوان شیعہ کا کہنا ہے کہ اگر اس شخص کے پاس کوئی دلیل ہے تو وہ لعنت اور توہین کیوں کر رہا ہے۔ اہانت اور توہین کرنا اس کا کام ہے جس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو، اور دلیل کا نہ ہونا یہی وجہ ہے کہ وہ لعنت بھیجتا ہے۔
دو رات پہلے میری برجند شہرمیں جہاں بڑی تعداد میں معزز سنی علماء تشریف فرما تھے ملاقات ہوئی۔ میں نے اس ملاقات میں کہا کہ ہم نے کئی بار کہا ہے کہ اہل سنت کے مقدسات کی توہین ناقابل معافی گناہ ہے، کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے:
(وَ الْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْل)
اور فتنہ پروری قتل سے بھی بڑھ کر (بُری) ہے۔
سوره بقره (2): آیه 191
توہین سے فتنہ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان میں سے چند علماء نے کہا: کیا آپ شوشل نیٹ ورک پر اس معاملے کا اظہار کرنے کے لیے تیار ہیں؟!
میں نے کہا: میں یہ بات شوشل نیٹ پر ہزاروں بار کہہ چکا ہوں۔ میں اس بار بھی کہوں گا، میں اس کا کلپ بنا کر آپ کو بھیجوں گا تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ ہم نے کہا یا نہیں!
پوری دنیا گواہ رہے کہ دوسرے فریق کے تقدس کی توہین کرنا چاہے وہ سنی ہو، عیسائی ہو یا یہودی خلاف عقل ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ دوسرا فریق ہماری بات سنے، ہماری باتوں سے متاثر ہو،خواب غفلت سے بیدار ہو اور رہنمائی حاصل کرے۔رہنمائی کرنا لعنت اور توہین کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا اور یہ بالکل بھی عقلی نہیں ہے۔
ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔لیکن ناظرین سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔
ناظم:
استاد اپ کا بہت بہت شکریہ، ہم نے آپ کے کلام سے استفادہ کیا۔ اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم آپ کی خدمت سے فارغ ہو جائیں۔
حضرت آیت الله حسینی قزوینی:
اپ کاشکریہ،ہمیشہ کامیاب اور سربلند رہیں۔ہم آپ کے بہترین کارکردگی کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔
ناظم:
اپ کا شکریہ، ایک بار پھر میں آپ کو ان ایام کی مبارکباد دپیش کرتا ہوں۔
محترم ناظرین، آج رات ہم استاد محترم کی خدمت میں حاضر تھے اور ہم نے استاد بزرگوار کا نہایت پیارا اور دلکش بیان سنا۔
آج کی شب حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کا یوم ولادت ہے۔ ہم نے آپ سے بارہا کہا ہے کہ تعصب کو ایک طرف رکھیں۔
استاد نے کتنی خوبصورتی سے بیان کیا کہ خدا نہ کرے قیامت کے دن ہم سنی نوجوانوں کیلۓ جواب گو رہیں کہ آپ نے ان باتوں کا اظہار کیوں نہیں کیا۔ شاید وہ اعتراض کریں گے کہ آپ نے ہماری رہنمائی کیوں نہیں کیا۔
یہ کتناہی خوبصورت ہے کہ ہم اپنے تعصبات کو ایک طرف رکھ کربرنامه کو دیکھیں اور اس پر عمل کریں۔
ہم محمد و آل محمد کے حق کی قسم کھاتے ہیں کہ وہ ہمیں راہ حق پر چلائے۔ اور انشاء اللہ ہم خدا بزرگ و برتر تک پہنچ جائیں گے۔
پروگرام کے آخری لمحات اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکی شام ولادت ہے۔ خدایا ہم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قسم دیتے ہیں: "اللهم عجل لولیک الفرج"! پیارے ناظرین ہم آپ کو اگلی ملاقات تک کیلۓ خداۓ مہربان پر چھوڑتے ہیں۔
یا علی مدد
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاتہ