بحث کا خاکہ
شیعہ ثقافت میں، اربعین سيد الشهداء سلام الله عليه کی شہادت کا چالسواں دن ہے، یعنی ماہ صفر کی20 تاریخ ہے۔
اگر ہم روایتوں اور حدیثوں کے منابع کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سيد الشهداء سلام الله عليه کی زیارت پر اہل بیت علیہم السلام نے تاکید کی ہے اور اسے مومن کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے۔ مثلاً امام حسن عسکری علیہ السلام کی ایک روایت میں ہے کہ
ويستحب زيارته عليه السلام فيه وهي زيارة الأربعين، فرُوِيَ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْعَسْكَرِيِّ عليه السلام أَنَّهُ قَالَ عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَى وَالْخَمْسِينَ وَزِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَالتَّخَتُّمُ فِي الْيَمِينِ وَتَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَالْجَهْرُ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ.
الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاى460هـ)، مصباح المتهجد، ص788 ، ناشر : مؤسسة فقه الشيعة - بيروت – لبنان، چاپ : الأولى، سال چاپ : 1411 - 1991 م.
الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاى460هـ)، تهذيب الأحكام، ج6، ص52 ، تحقيق: السيد حسن الموسوي الخرسان، ناشر: دار الكتب الإسلامية ـ طهران، الطبعة الرابعة،1365 ش .
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري البغدادي (متوفاى413 هـ)، كتاب المزار مناسك المزار ، ص53 ، تحقيق آية الله السيد محمد باقر الأبطحي، ناشر : دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع ـ بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ ـ 1993م
المشهدي الحائري، الشيخ أبو عبد الله محمد بن جعفر بن علي (متوفاى610هـ)، المزار، ص353 ، تحقيق: جواد القيومي الأصفهاني، ناشر: مؤسسة النشر الاسلامي، الطبعة : الأولى ، رمضان المبارك 1419هـ .
اس دن (اہل بیت علیہم السلام کی کربلا میں واپسی کے دن) اس کی زیارت (امام حسين سيدالشهداء سلام الله عليه) یعنی اربعین کی زیارت کرنا مستحب ہے۔ ابو محمد حسن بن علی عسکری عليهماالسلام فرماتے ہیں: مومن کی نشانی پانچ چیزیں ہیں: اکیاون رکعات پڑھنا، اربعین کی زیارت کرنا، داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا،خاک شفا تر پیشانی رکھنا۔ زمین پر اور بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنا۔
اور امام صادق علیہ السلام نے ایک دوسری روایت میں بھی فرمایا:
عن مفضّل بن عمر : كان الإمام جعفر بن محمّد الصادق عليه السلام جالساً ... فقام إليه أبو نصير وصفوان الجمّال، فقالا : جعلنا الله فداك، دلّنا على شيعتكم . فقال عليه السلام : «يعرف شيعتنا بخصال شتّى» . فقلت : جعلت فداك، بماذا يُعرفون ؟ قال : «بالسخاء ... وزيارة الأربعين...».
قمي، محمد بن حسن، (متوفاي قرن 7 هـ)، العقد النضيد والدر الفريد في فضائل أمير المؤمنين وأهل بيت النبي ( عليهم السلام)، ص46، التحقيق : علي أوسط الناطقي، دار النشر: دار الحديث، قم ، 1422 ق، 1380 هـ.
مفضل بن عمر نے کہا: امام صادق علیہ السلام بیٹھے ہوئے تھے... ابو ناصر اور صفوان جمال ان کے پاس آئے اور پیشکش کی: ہم آپ پر قربان جائیں، ہمیں اپنے شیعوں کی رہنمائی فرمائیں۔ آن حضرت نے جواب دیا: ہمارے شیعوں کی مختلف نشانیاں ہیں۔ اس نےامام سے کہا: ہم آپ پر قربان جائیں، وہ کس علامت سے پہچانے جاتے ہیں؟ (امام نے کئی نشانیاں گنتے ہوئے) فرمایا: سخاوت... اور اربعین کی زیارت کرنا۔
امام کی زیارت کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کے لیے معصومین علیہم السلام کی طرف سے خصوصی زيارت نامه بھی درج کیا گیا ہے۔ صفوان بن مہران حضرت صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:
عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ: قَالَ لِي مَوْلَايَ الصَّادِقُ سلام الله عليه فِي زِيَارَةِ الْأَرْبَعِينَ تَزُورُ عِنْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ وَتَقُولُ: السَّلَامُ عَلَى وَلِيِّ اللَّهِ وَحَبِيبِهِ السَّلَامُ عَلَى خَلِيلِ اللَّهِ وَنَجِيبِهِ. السَّلَامُ عَلَى صَفِيِّ اللَّهِ وَابْنِ صَفِيِّه... .
الطوسي، الشيخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسن (متوفاى460هـ)، مصباح المتهجد، ص788 ، ناشر : مؤسسة فقه الشيعة - بيروت – لبنان، چاپ : الأولى، سال چاپ : 1411 - 1991 م.
میرے مولا امام صادق علیہ السلام نے زیارت اربعین کے بارے میں فرمایا: جب دن کا نصف ہو تو کہو: سلام ہو خدا کے حبيب اور ولی پر، سلام ہو خدا کے دوست اور برگزیدہ پر، سلام ہوخدا کا منتخب خدا اور فرزند منتخب پر۔
سید ابن طاؤس (رضوان الله تعالي عليه) کی روایت میں ہے ، جن کی وفات 664 ہجری میں ہوئی، وہ پہلے اربعین میں اہل بیت علیہم السلام کی آمد کا ذکر کرتے ہوئے قضيہ کی تفصیلات درج ذیل صورت میں بیان فرماتے ہیں:
فَوَصَلُوا إِلَى مَوْضِعِ الْمَصْرَعِ فَوَجَدُوا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ رَحِمَهُ اللَّهُ وَجَمَاعَةً مِنْ بَنِي هَاشِمٍ وَرِجَالًا مِنْ آلِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه و آله قَدْ وَرَدُوا لِزِيَارَةِ قَبْرِ الْحُسَيْنِ عليه السلام فَوَافَوْا فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ وَتَلَاقَوْا بِالْبُكَاءِ وَالْحُزْنِ وَاللَّطْمِ وَأَقَامُوا الْمَآتِمَ الْمُقْرِحَةَ لِلْأَكْبَادِ.
الحسيني، علي بن موسى بن جعفر بن محمد بن طاووس، (متوفاي: 664 ه)، مقتل الحسين عليه السلام المسمى باللهوف في قتلى الطفوف، ص114 ، دار النشر: أنوار الهدى - قم – ايران، الطبعة: الأولى، 1417هـ.
جب اہل بیت علیہم السلام قتل گاه پر پہنچے تو انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری اور بنی ہاشم کی ایک جماعت اور ان کے کچھ آدمیوں کو پایا جو حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیے آئے ہوئے تھے، اسی وقت سب نے نوحہ و گریہ و زاری اور ماتم کیا اور اس علاقے کی خواتین نے بھی آپ کے ساتھ ماتم کیا اور کچھ دن کربلا میں قیام کیا۔
ابو ریحان بیرونی، جن کا (متوفاى440هـ)، بھی اہل بیت عليهم السلام کی شام سے واپسی کو یوں بیان کرتا ہے:
وفي العشرين ردّ رأس الحسين عليه السلام إلى جثته حتّى دفن مع جثّته، وفيه زيارة الأربعين وهم حرمه، بعد انصرافهم من الشام.
ابوريحان بيروني، محمدبن احمد، (متوفاي: 440 هـ)، الاثار الباقيه عن القرون الخاليه، ص 422 ، التحقيق والتعليق: پرويز اذكائي، دار النشر: مركز نشر ميراث مكتوب – تهران، ۱۳۸۰ ش.
ماہ صفر کی 20 تاریخ کو امام حسین علیہ السلام کا سرمبارک ان کے جسم میں لوٹا دیا گیا تاکہ ان کے سر کو ان کے جسم کے ساتھ دفن کیا جائےاور اسی دن زیارت اربعین ہے، جب کہ ان کے اہل خانہ شام سے واپسی کے بعد امام کی زیارت کے لیے آئے تھے۔
شیخ بہائی (متوفاي1031ه )، بیسویں ماہ صفر اور جابر اور اہل بیت علیہم السلام کی سرزمین کربلا میں آمد کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
وفى هذا اليوم وهو يوم الأربعين من شهادته عليه السلام كان قدوم جابر بن عبد الله الأنصاري رضي الله عنه لزيارته عليه السلام واتفق في ذلك اليوم ورود حرمه عليه السلام من الشام إلى كربلاء قاصدين المدينة على ساكنها السلام والتحية.
الشيخ البهائي العاملي، (متوفاي: 1031 هـ)، توضيح المقاصد، ص7 ، دار النشر: مكتب آية الله العظمى المرعشي النجفي – قم، 1406 هـ..
اور اس دن يعني امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے چالیس دن بعد جابر بن عبداللہ انصاری آپ کی زيارت کے لیے تشریف لائے۔اور اتفاقا اسی دن امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم (یعنی اہل بیت علیہم السلام) جو شام سے کربلا آئے تھے جبکہ وہ مدینہ کی طرف جارہے تھےامام حسین علیہ السلام کی زيارت کے لیے تشریف لائے تھے۔
مرحوم علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نے عطیہ عوفی کے الفاظ سے امام حسین علیہ السلام کی مقدس قبر کی زیارت کے واقعہ کے بارے میں درج ذیل صورتوں لکھا ہے:
عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ زَائِرَيْنِ قَبْرَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِب ٍعليهم السلام فَلَمَّا وَرَدْنَا كَرْبَلَاءَ دَنَا جَابِرٌ مِنْ شَاطِئِ الْفُرَاتِ فَاغْتَسَلَ ... .
المجلسي، محمد باقر (متوفاى1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج65، ص130 ، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.
ہم جابر بن عبداللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے اور جب ہم کربلا میں داخل ہوئے تو جابر دریائے فرات کے کنارے پہنچے اور غسل کیا۔
دوسری جانب اہل بیت علیہم السلام کے بعض مخالفین اس عظیم اجتماع کے اثرات سے خوفزدہ ہیں جو دنیا کا طویل ترین اجتماعی مارچ اور دنیا کا سب سے بڑا سالانہ اجتماع سمجھا جاتا ہے،وہ اس نقطہ نظر پر زور دے کر اس اجتماع میں لوگوں کی موجودگی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس مضمون میں مختصراً اور اختصار کے ساتھ، مستند شیعہ اور سنی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے، اس طرح کے سفر کا امکان ثابت ہو چکا ہے۔
کربلا سے کربلا تک کے سفر کی تفصیل
مخالفین کی سب سے اہم دليل کوفہ اور شام اور شام سے کربلا کا فاصلہ ہے؛ لیکن اس سفر کی صحیح تفصیل اور کوفہ اور شام میں قیام کے ایام کی تعیین سے اس کا امکان اور یقینی ہونابھی ثابت ہو جائے گا ۔
عمر بن سعد نے سید الشہداء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقدس سر کو عصرعاشورہ میں بذریعہ خولی کوفہ بھیجا، رات کو کوفہ پہنچا؛ لیکن اس نے محل کا دروازہ بند پایا اور اسے رات اپنے گھر میں رہنا پڑا اور کل مقدس سر کو ابن زیاد کے پاس لے گیا۔
وبعث عمر برأس الحسين من يومه مع خولي بن يزيد الأصبحي من حمير، وحميد بن مسلم الأزدي إلى ابن زياد فأقبلا به ليلاً فوجدا باب القصر مغلقاً، فأتى خولي به منزله.
البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاى279هـ)، أنساب الأشراف، ج1، ص424 ، طبق برنامه الجامع الكبير.
عاشورہ کے دن عمر بن سعد نے سر حسین علیہ السلام کو ابن زیاد کے ساتھ حمیر قبیلہ کے خولی بن یزید اصبہی اور حمید بن مسلم ازدی کے ساتھ بھیجا ۔ رات کو کوفہ پہنچے اور دیکھا کہ خولی امام کے سر کو اپنے گھر لے آیا۔
اور شیخ مفید کے بیان کے مطابق اگلے دن (13 تاریخ کو) اسیروں کا قافلہ کوفہ پہنچا:
وأقام بقية يومه واليوم الثاني إلى زوال الشمس، ثم نادى في الناس بالرحيل وتوجه إلى الكوفة ... ولما وصل رأس الحسين عليه السلام ووصل ابن سعد - لعنه الله - من غد يوم وصوله.
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري البغدادي (متوفاى413 هـ)، الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج2، ص114 ، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993 م.
عمر سعد عاشورہ کی شام اور گیارہویں دن دوپہر تک کربلا میں تھا، پھر اس نے اپنے ساتھیوں کو کوفہ کی طرف بڑھنے کی تیاری کرنے کا حکم دیا اور جب امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک کوفہ پہنچا، اور دوسرے دن ابن سعد ان کے پیچھے پیچھے امام حسین علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ پہنچا۔
کوفہ میں دو دن قیام کے بعد (پندرہویں ) ابن زیاد کے حکم سے اسیروں کو شام بھیج دیا گیا۔ جیسا کہ سبط ابن جوزی لکھتے ہیں:
ثم إن إبن زياد حط الرؤس في يوم الثاني وجهزها والسبايا الى الشام الى يزيد بن معاوية.
سبط بن الجوزي الحنفي، شمس الدين أبوالمظفر يوسف بن فرغلي بن عبد الله البغدادي (متوفاى654هـ)، تذكرة الخواص، ص260 ، ناشر: مؤسسة أهل البيت ـ بيروت، 1401هـ ـ 1981م.
ابن زیاد کی تحقیقات کے مطابق اس نے دوسرے دن سروں کو نیچے لایا اور مسلح قیدیوں کے ساتھ یزید بن معاویہ کے پاس شام کی طرف روانہ کیا۔
اس خطرے کے پیش نظر جس سے قافلہ کو خطرہ تھا اور اس امکان کے پیش نظر کہ کوئی شخص کسی بھی وقت ال رسول کو بچانے کے لیے قافلے پر حملہ کر سکتا ہے، یقیناً اس نے قیدیوں کو انتہائی تیز رفتار مرکبکے ذریعے سے منتقل کیا۔ یہ قافلہ صفر کی پہلی تاریخ کو شام پہنچا:
وفى أوله ادخل رأس الحسين سلام الله عليه دمشق وهو عيد عند بنى أمية.
العاملي الكفعمي، الشيخ تقى الدين إبراهيم بن علي الحسن بن محمد بن صالح، جنة الأمان الواقية وجنة الايمان الباقية المشتهر بالمصباح، ص 510 ، دار النشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات – بيروت، الطبعة الثالثة 1403 ه - 1983 م.
ماہ صفر کی پہلی تاریخ کو امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک شام میں لایا گیا اور اس دن بنو امیہ کی عید تھی۔
قافلہ شام میں داخل ہونے کے بعد اہل شام نے جشن منایا۔ لیکن یہ خوشی امام سجاد علیہ السلام کی حیرت انگیز تقریر سے یزید کے خلاف ڈراؤنے خواب میں بدل گئی۔
نیز، ایک سنی عالم ذہبی کہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا سر تین دن تک شام میں لٹکا ہوا تھا:
أنه رأى رأس الحسين مصلوباً بدمشق ثلاثة أيام.
الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى748 هـ)، تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج5، ص107 ، تحقيق: د. عمر عبد السلام تدمرى، ناشر: دار الكتاب العربي - لبنان/ بيروت، الطبعة: الأولى، 1407هـ - 1987م.
یہ دیکھا گیا کہ [امام] حسین علیہ السلام کا سر تین دن تک دمشق میں لٹکا رہا۔
یزید ابن معاویہ نے اپنے گناہ کو کم کرنے اور ابن زیاد کو مجرم ظاہر کرنے کے لیے بظاہر افسوس کا اظہار کیا اور قافلے کو تین دن کے سوگ کے بعد واپسی کا حکم دیاجیسا کہ ذہبی لکھتے ہیں:
فأقمن المأتم على الحسين ثلاثة أيام.
الذهبي الشافعي، شمس الدين ابوعبد الله محمد بن أحمد بن عثمان (متوفاى748 هـ)، سير أعلام النبلاء، ج3، ص304 ، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة - بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.
خواتین نے تین دن تک سوگ منایا۔
آخر کار آٹھویں صفر کو یہ قافلہ شام سے روانہ ہوا جیسا کہ مرحوم علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
فلما كان اليوم الثامن دعاهن يزيد، وأعرض عليهن المقام فأبين وأرادوا الرجوع إلى المدينة.
المجلسي، محمد باقر (متوفاى1111هـ)، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج45، ص197 ، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء - بيروت - لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403هـ - 1983م.
جب آٹھواں دن آیا تو یزید نے انہیں بلایا اور وہیں رہنے کو کہا لیکن اہل بیت علیہم السلام نے قبول نہیں کیا اور مدینہ واپس جانے کو کہا۔
8 صفر سے 20 صفر تک ان کے قافلوں کو کربلا پہنچنے میں تیرہ دن لگےتھے۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس راستے میں 15 دن لگے اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ کربلا شام سے زیادہ قریب راستہ ہے۔یہ یقین کرنا آسان ہے کہ قافلہ 20 صفر کو کربلا پہنچاہے۔ زیارت اربعین کی اہمیت کے پیش نظر یہ فطری امر ہے کہ قافلے اس عظیم فيض تک پہنچنے کے لیے زیادہ جوش اور عجلت کے ساتھ کربلا پہنچے۔
شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب امالی میں لکھتے ہیں کہ جب تک عورتیں واپس نہ آئیں اور جسم مقدس سے سر نہ جڑے، جو بھی پتھر ہٹا دیا گیا اور اس کے نیچے سے تازہ خون بہنے لگا:
4- حَدَّثَنِي بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ مَاجِيلَوَيْهِ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْكُوفِيِّ عَنْ نَصْرِ بْنِ مُزَاحِمٍ عَنْ لُوطِ بْنِ يَحْيَى عَنِ الْحَارِثِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ عَلِيٍّ ص ثُمَّ إِنَّ يَزِيدَ لَعَنَهُ اللَّهُ أَمَرَ بِنِسَاءِ الْحُسَيْنِ ع فَحُبِسْنَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع فِي مَحْبِسٍ لَا يُكِنُّهُمْ مِنْ حَرٍّ وَ لَا قَرٍّ حَتَّى تَقَشَّرَتْ وُجُوهُهُمْ وَ لَمْ يُرْفَعْ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ حَجَرٌ عَنْ وَجْهِ الْأَرْضِ إِلَّا وُجِدَ تَحْتَهُ دَمٌ عَبِيطٌ وَ أَبْصَرَ النَّاسُ الشَّمْسَ عَلَى الْحِيطَانِ حَمْرَاءَ كَأَنَّهُ الْمَلَاحِفُ الْمُعَصْفَرَةُ إِلَى أَنْ خَرَجَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ع بِالنِّسْوَةِ وَ رَدَّ رَأْسَ الْحُسَيْنِ إِلَى كَرْبَلَاءَ.
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علي بن الحسين (متوفاى381هـ)، الأمالي، ص 168 ، تحقيق و نشر: قسم الدراسات الاسلامية - مؤسسة البعثة - قم، الطبعة: الأولى، 1417هـ..
امام حسین علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ فرماتی ہیں: پھر یزید نے حکم دیا کہ حسین علیہ السلام کی عورتوں کو بیمار امام کے ساتھ ایک قید خانے میں رکھا جائے جہاں سردی اور گرمی کو روکنے کیلئے کوئی انتظام نہیں تھا یہاں تک کہ ان کے چہرے پیلے پڑ گئےاور انہوں نے بيت المقدس میں کوئی پتھر نہیں اٹھایا مگر یہ کہ اس پتھر کےنیچے تازہ خون تھا اور لوگوں نے سورج کو دیواروں پر رنگین کمبلوں کی طرح سرخ دیکھا یہاں تک کہ علی ابن الحسین علیہ السلام عورتوں کے ساتھ تشریف لے گئے اورحسین علیہ السلام کا سر کربلا واپس کر دیا۔
دوسری طرف شیعہ اور سنی منابع میں بہت سی روایتیں ہیں کہ یہ واقعات چالیس دن تک جاری رہے جیسا کہ ابن قولویہ قومی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَمَّادٍ الْبَصْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَصَمِّ عَنْ أَبِي يَعْقُوبَ عَنْ أَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع يَا زُرَارَةُ إِنَّ السَّمَاءَ بَكَتْ عَلَى الْحُسَيْنِ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً بِالدَّمِ وَ إِنَّ الْأَرْضَ بَكَتْ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً بِالسَّوَادِ وَ إِنَّ الشَّمْسَ بَكَتْ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً بِالْكُسُوفِ وَ الْحُمْرَةِ وَ إِنَّ الْجِبَالَ تَقَطَّعَتْ وَ انْتَثَرَتْ وَ إِنَّ الْبِحَارَ تَفَجَّرَتْ وَ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ بَكَتْ أَرْبَعِينَ صَبَاحاً عَلَى الْحُسَيْنِ ع.
القمي، أبي القاسم جعفر بن محمد بن قولويه (متوفاى367هـ)، كامل الزيارات، ص 81 ، تحقيق: الشيخ جواد القيومي، لجنة التحقيق، ناشر: مؤسسة نشر الفقاهة، الطبعة: الأولى1417هـ
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: حسین بن علی علیہ السلام پر چالیس دن تک خون کی بارش ہوئی اور زمین چالیس دن تک تاریک رہی اور سورج کو چالیس دن تک گرہن لگا اور اس کی روشنی سرخ ہو گئی اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئے، اور سمندر بہہ گئے، اور فرشتے چالیس دن تک روتے رہے۔
روایتوں کے ان دونوں گروہوں کو ملانے سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ چهلم یوم شہادت یعنی ٹھیک 20 صفر کے دن قافلہ کربلا پہنچا اور سر مبارک سید الشہداء کے جسم سے ملحق کیا گیا۔
کم وقت کے ساتھ ملتے جلتے سفر
تاریخی منابع میں سند موجود ہیں کہ اسی دور میں لوگ کوفہ سے شام یا اس کے برعکس بہت کم وقت میں سفر کرتے تھے۔ ہم مختصراً چند باتوں کا ذکر کرتے ہیں:
1۔ طبری کی روایت کے مطابق مالک اشتر اہل کوفہ کے سعید بن العاص کی طرف روانگی کی صورت میں شام کے شہروں حمص سے سات دن میں اور باقی لوگ دس دن میں کوفہ پہنچے تھے۔
طبری اس بارے میں لکھتے ہیں:
فسار الأشتر سبعا والقوم عشرا.
الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب (متوفاى310)، تاريخ الطبري، ج2، ص642 ، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.
مالک اشتر نے سات دن میں سفر کیا اور لوگوں نے دس دن میں سفر کیا۔
2. یعقوبی لکھتے ہیں کہ خالد بن ولید اور اس کی فوج نے آٹھ دن میں عراق سے روم کا سفر کیاتھا:
إن خالدا سار في البرية والمفازة ثمانية أيام.
اليعقوبي، أحمد بن أبي يعقوب بن جعفر بن وهب بن واضح (متوفاى292هـ)، تاريخ اليعقوبي، ج2، ص134 ، ناشر: دار صادر – بيروت.
خالد نے صحراکا سفرآٹھ دن میں طے کیا۔
3. طبری کے مطابق، ابراہیم بن احمد ماذرائي کے بغداد سے دمشق تک کے سفر میں سات دن لگےتھے۔
إن إبراهبم وافى بغداد من دمشق في سبعة أيام.
الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب (متوفاى310)، تاريخ الطبري، ج5، ص612 ، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت.
ابراہیم نے آٹھ دن میں بغداد سے دمشق کا سفرطے کیاتھا۔
4. یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ حماد الرویہ نامی شخص بارہ دن کوفہ سے دمشق تک ہشام بن عبد الملک کے محل کے دروازے تک اونٹ پر سوار رہا۔
وسرت اثنتي عشرة ليلة حتى وافيت باب هشام.
الرومي الحموي، أبو عبد الله ياقوت بن عبد الله، معجم الأدباء أو إرشاد الأريب إلى معرفة الأديب، ج3، ص247 ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة : الأولى 1411 هـ - 1991م
میں بارہ راتیں چلتا رہا یہاں تک کہ ہشام کے محل کے دروازے تک پہنچا۔
5.رجال کشي میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ معاویہ کی موت کی خبر پہنچانے والا قاصد شام سے ایک ہفتہ کے بعد کوفہ پہنچاتھا:
أَخْبَرَنِي أَبُو خَالِدٍ التَّمَّارُ، قَالَ كُنْتُ مَعَ مِيثَمٍ التَّمَّارِ بِالْفُرَاتِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ... قَالَ: ... مَاتَ مُعَاوِيَةُ السَّاعَةَ، قَالَ فَلَمَّا كَانَتِ الْجُمُعَةُ الْمُقْبِلَةُ قَدِمَ بُرَيْدٌ مِنَ الشَّامِ ... قَالَ:... تُوُفِّيَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَبَايَعَ النَّاسُ يَزِيدَ، قَالَ: قُلْتُ: أَيُّ يَوْمٍ تُوُفِّيَ قَالَ: يَوْمَ الْجُمُعَةِ.
الطوسي، الشيخ الطائفة أبى جعفر، محمد بن الحسن بن علي بن الحسين (متوفاي 460هـ)، اختيار معرفة الرجال المعروف برجال الكشي، ص80 ، تصحيح وتعليق: المعلم الثالث ميرداماد الاستربادي، تحقيق: السيد مهدي الرجائي، ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام ، قم، تاريخ الطبع: 1404 هـ.
ابو خالد تمار کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن ہم فرات پر میثم تمار کے ساتھ تھے... انہوں نے کہا: ... ابھی معاویہ کا انتقال ہوا ہے... اس نے کہا: جاؤ گزشتہ جمعہ شام سے آئے اور کہا: امیر المومنین منین (یعنی معاویہ) کا انتقال ہوگیا اور لوگوں نے یزید کی بیعت کی۔ فرمایا: کس دن فوت ہوئے؟ انہوں نےکہا جمعہ کو۔
6. کافی سے روایت ہے کہ خیران اسباطی سامرہ سے مدینہ تک دس دن کا سفر کرکے امام ہادی علیہ السلام کے پاس پہنچے:
عَنْ خَيْرَانَ الأَسْبَاطِيِّ قَالَ قَدِمْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ عليه السلام الْمَدِينَةَ فَقَالَ لِي: مَا خَبَرُ الْوَاثِقِ عِنْدَكَ؟ قُلْتُ: جُعِلْتُ فِدَاكَ خَلَّفْتُه فِي عَافِيَةٍ أَنَا مِنْ أَقْرَبِ النَّاسِ عَهْداً بِه عَهْدِي بِه مُنْذُ عَشَرَةِ أَيَّامٍ ... يَا خَيْرَانُ مَاتَ الْوَاثِقُ ... فَقُلْتُك مَتَى جُعِلْتُ فِدَاكَ؟ قَالَك بَعْدَ خُرُوجِكَ بِسِتَّةِ أَيَّامٍ.
الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن إسحاق (متوفاى328 هـ)، الأصول من الكافي، ، ج1، ص498 ، ناشر: اسلاميه، تهران، الطبعة الثانية،1362 هـ.ش.
خیران اسباطی کہتے ہیں: میں مدینہ منورہ میں حضرت ابو الحسن علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا، آپ نے مجھ سے فرمایا: تم واثق کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ میں نے کہا: جب میں اس سے جدا ہوا تو وہ میرے تمام لوگوں سے زیادہ قریب تھا، کیونکہ میں نے اسے دس دن پہلے دیکھا تھا... پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا: اے خیران! مجھے یقین تھا کہ ان کا انتقال ہو گیا... میں نے کہا: میں آپ پر قربان جاوں کس وقت؟ آپ نے فرمایا: تمہارے سامرہ سے نکلنے کے چھ دن بعد۔
اگرچہ سامراء اور مدینہ کے درمیان فاصلہ یقینی طور پر کوفہ اور شام کے فاصلے سے زیادہ ہے۔
نتيجہ
اسيروں اور قیدیوں کے قافلے کے سفر کی صحیح تفصیل کے ساتھ ساتھ مختصر مدت کے ساتھ اسی طرح کے سفر کے ثبوت سے یہ یقین کرنا آسان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان اربعین 61 ہجری کے دن کربلا آیا اور سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی سعادت حاصل کیا۔
بلاشبہ اس سفر کے وقوع پذیر ہونے کے ثبوت کے لیے مزید تحقیق اور ایک علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے، جس کے لیے دلچسپی رکھنے والے اس اہم کتاب "تحقیق اول اربعین حضرت سید الشہداء علیہ السلام" کی طرف رجوع کر سکتے ہیں، علامہ محقق سید محمد علی قاضی طباطبائی (جو آٹھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے) کی تحریر کردہ ہے۔
والسلام عليکم ورحمة الله
کامیاب و سربلند رہیں