سوال:
کیا جنات امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لیے آئے تھے جن کا ذکر آج بعض تعزیوں اور شبیه خوانی میں ملتا ہے؟
جواب:
کربلا میں امام حسین کی مدد کے لیے اجنه کے آنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ لیکن بعض ذرائع میں اس دعوے کے ثبوت موجود ہیں:
وَ أَتَتْهُ أَفْوَاجُ مُسْلِمِي الْجِنِّ فَقَالُوا يَا سَيِّدَنَا نَحْنُ شِيعَتُكَ وَ أَنْصَارُكَ فَمُرْنَا بِأَمْرِكَ وَ مَا تَشَاءُ فَلَوْ أَمَرْتَنَا بِقَتْلِ كُلِّ عَدُوٍّ لَكَ وَ أَنْتَ بِمَكَانِكَ لَكَفَيْنَاكَ ذَلِكَ فَجَزَاهُمُالْحُسَيْنُ خَيْراً وَ قَالَ لَهُمْ أَ وَ مَا قَرَأْتُمْ كِتَابَ اللَّهِ الْمُنْزَلَ عَلَى جَدِّي رَسُولِ اللَّهِ أَيْنَما تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ وَ قَالَ سُبْحَانَهُ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلى مَضاجِعِهِمْوَ إِذَا أَقَمْتُ بِمَكَانِي فَبِمَا ذَا يُبْتَلَى هَذَا الْخَلْقُ الْمَتْعُوسُ وَ بِمَا ذَا يُخْتَبَرُونَ وَ مَنْ ذَا يَكُونُ سَاكِنَ حُفْرَتِي بِكَرْبَلَاءَ وَ قَدِ اخْتَارَهَا اللَّهُ يَوْمَ دَحَا الْأَرْضَ وَ جَعَلَهَا مَعْقِلًا لِشِيعَتِنَا وَ يَكُونُ لَهُمْ أَمَاناً فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ لَكِنْ تَحْضُرُونَ يَوْمَ السَّبْتِ وَ هُوَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ الَّذِي فِي آخِرِهِ أُقْتَلُ وَ لَا يَبْقَى بَعْدِي مَطْلُوبٌ مِنْ أَهْلِي وَ نَسَبِي وَ إِخْوَتِي وَ أَهْلِ بَيْتِي وَ يُسَارُ بِرَأْسِي إِلَى يَزِيدَ لَعَنَهُ اللَّهُ فَقَالَتِ الْجِنُّ نَحْنُ وَ اللَّهِ يَا حَبِيبَ اللَّهِ وَ ابْنَ حَبِيبِهِ لَوْ لَا أَنَّ أَمْرَكَ طَاعَةٌ وَ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ لَنَا مُخَالَفَتُكَ قَتَلْنَا جَمِيعَ أَعْدَائِكَ قَبْلَ أَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ فَقَالَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ لَهُمْ نَحْنُ وَ اللَّهِ أَقْدَرُ عَلَيْهِمْ مِنْكُمْ وَ لَكِنْ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَ يَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ انتهى ما نقلناه من كتاب محمد بن أبي طالب.
اللهوف في قتلى الطفوف - السيد ابن طاووس - ص 41 بحار الأنوار (ط - بيروت) ؛ ج44 ؛ ص330مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار (ط - بيروت)، 111جلد، دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق
پھر جنوں کے گروہ جو مسلمان تھے امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا: اے ہمارے آقا! ہم آپ کے شیعہ اور انصار ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے ان لوگوں کو جزاى خير دیا اور فرمایا: کیا تم نے وہ قرآن نہیں پڑہا جو خدا نے میرے دادا پر نازل کیا تھا، جس میں کہا گیا ہے: تم جہاں کہیں بھی ہو، موت تمہیں ڈونڈ لے گی، خواہ تم بلندی پر ہی کیوں نہ ہو اور وہ یہ بھی کہتا ہے: یقیناً وہ لوگ جن کے لیے قتل لکھ دیا گیا ہے وہ کہی بھی رہے اسے وہاں جانا پڑے گا اور موت وہاں آئے گی اور اگر میں یہی پر رہوں تو ان لوگوں کا امتحان کیسے ہوگا اور جو میری قبر کربلا میں ہے وہاں کون رہے گا؟ اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کی توسیع کے وقت اس قبر کو میرے لیے منتخب کیا اور اسے ہمارے شیعوں کے لیے پناہ گاہ بنا دیا اور یہ دنیا اور آخرت میں ان کے لیے امن و امان کی جگہ ہو گی، ہفتہ کے دن میرے پاس آؤ جو عاشورہ کا دن ہے اور میں اس دن کے آخر میں شہید ہو جاؤں گا۔ اس دن میرے خاندان اور بھائیوں میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔ اس دن میرا سر یزید کے پاس بھیج دیا جائے گا۔ اے خدا کے محبوب اور خدا کے پیارے فرزند اگر تیرے حکم کی تعمیل واجب نہ ہوتی اور تیرے حکم کی مخالفت کرنا ہمارے لئے جائز ہوتا تو خدا کی قسم ہم تیرے تمام دشمنوں کو تیرے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ہلاک کر دیتا، ان کے جواب میں امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم ان پر تم سے زیادہ غالب ہیں؛ لیکن جو بھی فنا اور کافر ہو وہ دليل اور بينه کے ساتھ فنا ہو جائے اور جو زندہ اور مومن بنے وہ دليل اور بينه کے ساتھ ہو۔
موفق رہیں
شک کا جواب دینے والا گروپ
حضرت ولی عصر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ